The Pakistan that I knew no longer exists; جس پاکستان کو میں جانتا تھا، اب وجود نہیں رکھتا

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 8 ก.ย. 2024
  • اس ویڈیو کی اردو سب ٹائیٹل بھی ھے، اور ذیل میں اسکے ترجمہ بھی دیا گیا ھے:
    جنوری 1972 میں اگر کوئی پاکستانی، پاکستان کے بارے میں اپنے رائے کا اظہار کرتے، تو وہ بولتے کہ، جس پاکستان کو میں جانتا تھا، اب وجود نہیں رکھتا۔ بہت بھاری دل کے ساتھ میں یہ کہنا چاہتا ہوں، کہ جس پاکستان کو میں جانتا تھا وہ اب موجود نہیں ہے۔ آپ کی دو کھڑکیاں شاید مستقل طور پر بند ہو گئی ہیں۔ ایک اکانومی ونڈو (اقتصادی کھڑکی) اور دوسری سیکیورٹی ونڈو (ملکی سلامتی کی کھڑکی)۔ معیشت کو اب ایک بہت ہی آسان کام تک محدود کر دیا گیا ہے۔ میرے خیال میں شبر نے حوالہ دیا ہے کہ ہم پر کتنا قرض ہے، جسے ہم کبھی واپس نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے کسی بھی وزیر خزانہ یا پاکستان کی کسی بھی حکومت کے پاس صرف ایک بہت آسان کام رہ گیا ھے، کہ ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے کیسے حاصل کیے جائیں۔ معیشت کا صرف یہی کام رہ گیا ہے۔ یقیناً ریونیو جنریشن اور ڈویلپمنٹ اور انڈسٹریلائزیشن اور تعلیم اور صحت اور وغیرہ وغیرہ کے بارے میں بہت سارے بیانات ہوں گے۔ کسی چیز کے لیے پیسے نہیں ہیں اور کچھ نہیں ہوگا۔ یہ سب پریوں کی کہانیاں ہیں۔ ہم نے ابھی بجٹ دیکھا ہے۔ یہ صرف نمبروں کا ایک مجموعہ ہیں۔ یہ جو محصول جمع کرنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ کبھی جمع نہیں ہو گا۔ اور جن چیزوں پر خرچ ھونا ھے، وہ کبھی خرچ نہیں ہو گا، کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہمیں صرف ایک ہی چیز کی ضرورت نہیں ہے کہ ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے کیسے حاصل کیے جائیں۔ اور نتیجہ کے طور پر، چونکہ ہمیں تمام قرضے نہیں ملیں گے، اس لیے اپنے تمام ماضی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں اپنے اثاثے بیچنے پڑیں گے۔ سب کچھ فروخت پر ہے۔ سب کچھ ہمارے پاس پہلے سے ہی ایک بینکنگ سیکٹر ہے جو 80% غیر ملکی ملکیت میں ہے۔ ہمارے پاس ٹیلی کام سیکٹر ہے جو 100% غیر ملکی ملکیت میں ہے۔ لیکن مزید آنا باقی ہے۔ ہم نے ابھی کراچی میں ایک پورٹ ٹرمینل کی نجکاری کی ہے یا اس کی نجکاری کا اعلان کیا ہے۔ سعودی ٹیم نے ہمارے تمام ایئرپورٹس کا دورہ کیا ہے اور تین بڑے ایئرپورٹ غیر ملکی مفادات کے حوالے کیے جانے والے ہیں۔ ہر قسم کی اصطلاحات استعمال کی جا رہی ہیں کہ ہم انہیں فروخت نہیں کر رہے ہیں۔ ہم صرف ان کو آؤٹ سورس کر رہے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر، یہ ان اثاثوں کا کنٹرول حوالے کر رہے ہیں۔ اسی طرح مزید اور زیادہ اثاثے فروخت ھونے والے ھیں۔ جلد ہی ہم چینی، سعودی، اماراتی، اور دیگر آجروں کے ملازم ہوں گے۔ پاکستان ان کی ملکیت ہو گا۔ بہت پہلے ہم اپنی معاشی خودمختاری کھو چکے ہیں۔ آج سے، یہ ایسا نہیں ہوا۔ 1993 سے لے کر، 16 سال تک، تین اسٹیٹ بینک کے گورنر پاکستان سے باہر آئے۔ وہ بین الاقوامی اداروں کے ملازم تھے۔ انہوں نے دس سال سے زیادہ پاکستان میں خدمات انجام نہیں دی تھیں۔ لیکن اب جب کہ ہم اپنی معاشی خودمختاری کو زیادہ رسمی انداز میں دفن کر رہے ہیں اس لیے معیشت کی کھڑکی بند ہو گئی ہے، معیشت کا ایک ذیلی شعبہ ہو گا جو غیر ملکی مفادات سے ہم آہنگ ہو جائے گا جو اچھا کام کرے گا۔ ان کے ملازمین کی تنخواہیں زیادہ ہوں گی۔ ہم نے پہلے ہی پاکستان کو ان علاقوں میں تقسیم کر دیا ہے جہاں امیر رہتے ہیں اور غریب رہتے ہیں۔ اس تقسیم کو تقویت ملے گی۔ تو یہ اکانومی ونڈو ہے جو بند ہو گئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ مستقل طور پر بند ہو گئی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہم کم از کم اگلے 30 سالوں تک اپنی معاشی خودمختاری دوبارہ حاصل کر پائیں گے۔ اگلے 30 سال کے بعد کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔ سیکورٹی ونڈو بھی بند کر دی گئی ہے۔ بین الاقوامی جیو اسٹریٹجک نقشہ بدل چکا ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ راؤلپنڈی کو اس کا احساس ہوا ہے یا نہیں، لیکن وہ بدل گیا ہے۔ پاکستان کے وجود کے آخری 75 سالوں میں سے کم از کم 60 سال، ہم نے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کو کیش کیا۔ پاکستان کی ضرورت تھی۔ پاکستان نے اپنی خدمات فراہم کیں۔ پاکستان نے امریکیوں کے لیے تمام گھناؤنے کام کیے، اور یقیناً ہمیں اس کا معاوضہ دیا گیا۔ ہم کسی بھی گندے کام کے خلاف نہیں تھے، جب تک کہ ہمیں اس کی قیمت ملتے رھیں۔ جب ہمیں معلوم ہوا کہ ڈالر سبز لفافے میں آ رہے ہیں، تو ہم اسلام پسند ہو گئے۔ اور جب ہمیں معلوم ہوا کہ ڈالر اب نیلے لفافوں میں آئیں گے، تو ہم لبرل ہو گئے۔ اس لیے جب تک ڈالر آتے رہے، ہم اپنی خدمات فروخت کرنے کے لیے تیار تھے۔ امریکہ کو اب ہماری خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔ تصادم سوویت یونین یا روس سے نہیں ہے۔ یوکرین میں جنگ کے باوجود بھی، اصل محاذ آرائی چین کے ساتھ ہے۔ یہ جغرافیائی نقشے کی تبدیلی ہے جو واقع ہوئی ہے۔ اور اگر محاذ آرائی چین کے ساتھ ہے، تو امریکیوں کو پاکستان کی نہیں، بلکے بھارت کی ضرورت ہے۔ درحقیقت پاکستان اس عمل میں کباب میں ھڈی کی طرح ہے۔ اس ھڈی کو قابو میں لانا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے کاٹنے والے ڈھنگ نکالے جائینگے۔ اور اگر ہم کمزور ہیں، تو یقیناً کوئی حفاظتی کردار ادا کرنے کےقابل نہیں ھونگے۔ لڑنے کے لیے کوئی جنگیں نہیں ھونگے، کیونکہ ہمیں کوئی جنگ لڑنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر نہیں، تو کیا ہوگا؟ فوج کا معاشی اثر بڑھے گا، کیونکہ اگر وہ لڑ نہیں رہے ہیں تو وہ کیا کریں گے؟ وہ پہلے ہی خدمات اور صنعت میں ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ وہ زراعت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وہ پنجاب میں ایک لاکھ ایکڑ زمین چاہتے تھے۔ یہاں پہلے سے ہی لانڈری اور گوشت کی دکانیں ہیں، اور کیا نہیں۔ اس میں اضافہ ہوگا۔ چنانچہ ہم نے برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کی اور اب ہم کنٹونمنٹ کے استعماری مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ وہی پاکستان نہیں ہے، جسے میں پانچ سال پہلے یا تین سال پہلے جانتا تھا۔ ڈاکٹر معصومہ نے اس حقیقت کو سراہا کہ مسقبل میں کیا ھونے والا ھے؟ مجھے نہیں لگتا، کہ ھمارے کوئی مستقبل بھی ہے۔ شکریہ
    original video: • The State of Pakistan’...

ความคิดเห็น • 6

  • @asadaziz6429
    @asadaziz6429 5 หลายเดือนก่อน

    Realistic analysis of Pakistan economy with historical back ground. The Pakistan is exists a artificial economy which based on borrowed loans only. Appriciate the intellectual honesty of Dr. Qaiser Bangali and his courage to present the picture of Pakistan economy. Thanks.

  • @vipingarg3865
    @vipingarg3865 11 หลายเดือนก่อน

    Who is this gentleman

    • @tahafarooq1212
      @tahafarooq1212 8 หลายเดือนก่อน

      Economist qaiser bengali

  • @danialkhan6020
    @danialkhan6020 ปีที่แล้ว

    Tax tou koi pay nahi karta ,mulk kaise chalega.bheek par jo aaj tak chalta aa raha hai.lekin kisi pakistani ko dekho,bat karo.uska dimagh aasman par hoga.woh kahega ham america,europe aur china ka muqabla karte hain.

  • @munimaziz4683
    @munimaziz4683 26 วันที่ผ่านมา

    Serious conversation me memes dal kr pagal lagte ho funny content tak memes to thek hain