MaulanaTaseerHussainZaidiPhandervi EP.62

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 15 ธ.ค. 2023
  • مولانا سدiتاثیر حسین زیدی پھندیڑوی سن 1291 ہجری میں سر زمین پھندیڑی سادات ضلع مرادآباد صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد "سید اشرف علی" نہایت شریف النفس اور علم دوست انسان تھے۔
    آپ بچپن ہی سے نہایت ذہین اور زحمت کش شخصیت کے مالک تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی ۔عصری تعلیم کے لئےامروہہ کا رخ کیا اور حصول تعلیم میں مصروف ہوگئے۔ آپ بہت لگن اور غور وفکر کے ساتھ کتابوں کو پڑھتے تھے ۔ اسکول میں سب بچوں سے ممتاز تھے اسی کےپیش نظر وزارت تعلیم سے آپ کو اسکالرشپ ملتی تھی۔ سن 1891 عیسوی میں مڈل کی سند حاصل کی اور اسی سال مدرسہ منصبیہ میرٹھ کی جانب عازم سفر ہوئے ۔
    وہاں رہ کر جید اساتذہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کیےعلم نحو ، صرف، منطق، فلسفہ، کلام و تفسیر وغیرہ میں مہارت حاصل کرلی تھی ۔ 18/ اکتوبر 1899 عیسوی میں لکھنؤ کا رخ کیا اور مدرسہ ناظمیہ میں نجم الملت آیت اللہ نجم الحسن کی سرپرستی میں معروف علمائے کرام سے ادبیات، فقہ اور اصول کی تعلیم مکمل کرکےممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعدمولانا تاثیر حسین نے تدریسی سلسلہ قائم کیا مدرسہ عالیہ رامپور اور مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں رہکرسینکڑوں شاگردوں کی تربیت کی جن میں سےمولانا انصار حسین پھندیڑوی فاضل مشرقیات اور صدرالملت مولانا سیدمحمد مجتبیٰ نوگانوی کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔
    بہت زیادہ مصروفیات کے با وجود تصنیف و تالیف سے وابستہ رہے، موصوف کے مضامین مجلات میں نشر ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے اپنے وطن میںایک کتاب خانہبھی بنایا تھا جس میںقلمی کتابوں کے علاوہ مطبوعہ کتابوں کا بھی بہت بڑا ذخیرہ تھا اس میں آپ کے قلمی آثار موجود تھے۔ موصوف کی رحلت کے بعد کتابوں کی حفاظف نہ ہوسکی تمام کتابیں دیمک کی نذر ہوگئیں اسی لئے آپ کے پوتے نےکتابیں کنویں کے سپرد کردیں۔آپ نے اپنے وطن کے شجرہ کا احیاء کیا جس کو ان کے بیٹے سید مظہر حسین نے محفوظ رکھا اور اسی نسخہ سے ان کے بھائی مولانا ڈاکٹر ظفر عباس نے سلسلہ نسب کو آگے بڑھایا۔ اب اس کی کاپی بہت سے لوگوں کے پاس موجود ہے۔
    اللہ نے آپ کودو بیٹیاں اور پانچ بیٹے عطا کیے جن میں سید مظہر حسین، سید قائم رضا، احسن رضا، ہاشم رضا اور ڈاکٹر مولانا ظفر عباس کے نام سر فہرست ہیں۔آپ کے پوتوں نےکراچی اور سانگلی مہاراشٹرا میں سکونت اختیار کرلی ہے۔
    آخر کار یہ علم و عمل کا درخشاں آفتاب سن 1351 ہجری بمطابق1932 عیسوی میں غروب ہوگیا ، علماء، طلاب، دانشوران اور مؤمنین کی کثیر تعداد نے تشیع جنازہ میں شرکت کی اور پھندیڑی میں موجود آپ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
    ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالف : مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص171 ، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورما ئکروفلم سینٹر دہلی،2020ء
    ShiaOlama #Biography #Documentary #Islam #noormicrofilm #ShiaHistory #IslamicVideo

ความคิดเห็น •