Khtaeebe Akbar Moulana Mirza Athar Hindustani Olama e Kiram ka Taarruf Ep 57

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 10 พ.ย. 2023
  • خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہرصاحب قبلہ ،ہندوستان کے شہرۂآفاق دانشور اور خطیب اکبر تھے ،آیئے خطیب اکبر کی کہانی خود انہی کی زبانی ملاحظہ کرتے ہیں۔
    میں لکھنؤ کے مشہور و معروف خاندان میں جولائی 1936 ء میں پیدا ہوا میرےوالد اپنے زمانے کےبڑے مشہور خطیب تھے۔ جنہوں نےمدرسۃالواعظین کے ابتدائی بیجوں میں دینی تعلیم حاصل کی اور اسکے بعد خطابت شروع کی اور تمام ہندوستان میں انکی خطابت مشہور ہوئی۔
    خاندان و تعلیم: چونکہ میرے والد مولانا بھی تھے لہذا گھریلو دینی تعلیم کے بعد میرا داخلہ لکھنؤ کے مشہور مدرسہ مدرسہ ناظمیہ میں کرا دیا گیا جو میرے گھر سے قریب تھا کچھ دنوں وہاں تعلیم حاصل کرکے دوسرے مدرسہ مدرسہ سلطانیہ میں منتقل ہو گیا اور وہاں سے دینی تعلیم مکمل ہونے کے بعد صدر الافاضل کی سند حاصل کی ۔اس درمیان میں نے مدرسہ بورڈ کے امتحانات دئے جن میں میں نے درجہ اول سے کامیابی حاصل کی۔
    خطابت: کیونکہ میرے گھر میں ذاکری اور خطابت کا ماحول تھا لہٰذا مجھے بچپن سے ہی ذاکری اور خطابت کا شوق تھا ۔میں اپنے والد کے ساتھ بہت کم عمر سے ہی مجلس میں شرکت کرتا تھا اسکے نتیجے میں نے خود بھی مجلسیں پڑھنا شروع کر دیں ،میں لکھنؤ میں مجلسیں پڑھتا تھا پہلی مرتبہ لکھنؤ سے باہر کراچی مجلسیں پڑھنے نکلا 1958 ءمیں میں نے وہاں پر رضویہ کالج میں عشرہ پڑھا اسکے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں عشرے خطاب کئے 1959 میں وہاں مارشل لاء لگ گیاتھا لہذا باہر کے لوگوں کیلئے ویزےپر پابندی لگ گئی اسلئے مجھے اس سال وہاں کا ویزا نہں ملا وہ سال لکھنؤ میں گزارا اور 1960ءسے میں ممبئی آنے لگا۔ممبئی مغل مسجد میں 1960ء بمطابق 1380ھ میں پہلاعشرہ خطاب کیا اور آخری عمر تک وہیں پر ہی عشرہ خطاب کرتا رہا۔
    جب میں نے 1962ء میں ایم اےکیا تو میں شیعہ ڈگری کالج شعبہ اردو ،وفارسی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہو گیا تین سال کے بعد وہاں کا ہیڈ ہو گیا اور دس برس کے بعد وہاں کا انچارج پرنسپل ہو گیا اسطرح میں نےاپنی پوری زندگی میں ایک ہی جگہ یعنی شیعہ ڈگری کالج میں ہی ملازمت کی۔
    آخر کار یہ بلبل ہزار داستان کچھ عرصے مرض الموت میں مبتلا رہنے کے بعد سن 1437ھ میں گردے فیل ہونے کےسبب دہلی کےمیکس ہاسپٹل میں خاموش ہوگیا ،جنازے کو شاہ گنج لکھنؤ لایا گیا اورغسل کے بعد امیرالعلماء مولانا حمید الحسن کی قیادت میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور لکھنؤ کی امداد حسین نامی کربلا میں سپرد لحد کر دیا گیا۔
    ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص207، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء
    #ShiaUlma #Biography #Documentary #Islam #noormicrofilm #ShiaHistory #IslamicVideo
    

ความคิดเห็น •