Maulana Athar Abbas kalkattavi Ep.74مولانا اطہر عباس کلکتوی

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 5 ต.ค. 2024
  • مولانا سیداطہر عباس رضوی بتاریخ 16/ شوال 1382ہجری میں سرزمین لشکری پور ضلع چھپرہ صوبہ بہار پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید انور عباس رضوی کا شمار اپنے وقت کے متدین افراد میں ہوتا تھا۔
    مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن لشکری پور میں مھربان اساتذہ سےحاصل کی اس کے بعد بھارت کی ریاست اُتر پردیش میں دریائے گنگا کے کنارے پر آباد دنیاکے مشہور و معروف قدیمی شہر "بنارس" کا رخ کیا اور وہاں جامع العلوم جوادیہ عربی کالج میں داخل ہو کر شمیم الملت کی سرپرستی میں جید اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا۔
    بنارس میں چند سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد عازم لکھنؤ ہوئے اور ناظمیہ میں امیرالعلماء کی زیر نگرانی بزرگ اساتذہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کیے۔ سن 1982 عیسوی میں لکھنؤ کو ترک کرکے قم المقدسہ ایران کا رخ کیا ، وہاں جید اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا اور سن 1993 عیسوی میں اپنے وطن واپس آئے۔
    آپ کے اساتذہ میں: آیت اللہ حرم پناہی، ظفرالملت، امیرالعلماء، شمیم الملت، آیت اللہ وجدانی فر، مولانا سید احمد حسن بنارسی، مولانا رسول احمد رضوی، مولانا سید مرتضیٰ نقوی، مولانا سید شاکر حسین امروہوی، مولانا شہنشاہ حسین، مولانا ممتاز علیاور مولانا ابن حیدر وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
    علمائے ایران و عراق نے آپ کو امورحسبیہ اورنقل روایت کے اجازات سے نوازا جن میں سے: آیت اللہ محمد علی عراقی، آیت اللہ محمد فاضل، آیت اللہ ناصرمکارم شیرازی، آیت اللہ محمد فاضل،آیت اللہ شیخ بشیر حسین نجفی، آیت اللہ محمد علی شیرازی، آیت اللہ شیخ محسن حرم پناہی ، آیت اللہ محمد رضا موسوی اور آیت اللہ محمد تقی کے نام سر فہرست ہیں۔
    سن 1993 عیسوی میںایران سے واپسی کے بعد مغربی بنگال کے شہر" کلکتہ" میں تیلیغ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوگئے ۔ موصوف کلکتہ کی"بصراوی مسجد" میں کئی برس تک امام جمعہ و جماعت کے عہدے پر فائز رہے، آپ نے محراب عبادت کے ساتھ ساتھ منبر خطابت کو بھی تبلیغ کا ذریعہ قرار دیا اور مختصر عرصہ میں وہ شہرت حاصل کی جو ہندوستان کی تاریخ خطابت میں کم نظیر ہے۔ آپ نے ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں اپنی خطابت کےجوہر دکھائے۔
    شہر کلکتہ کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سن 1993 عیسوی میں آپ نے لڑکیوں کے لئے" الزہرا ایجوکیشنل سینٹر" کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی اس درسگاہ کی پرنسپلی کی ذمہ داری آپ کی اہلیہ نے سنبھالی جس کو آج تک بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔ مولانا اطہر عباس جب تک باحیات رہے اس درسگاہ کی سربراہی کرتے رہے اور آپ کیرحلت کے بعد درسگاہ کیسربراہی آپ کے فرزند مولانا مہر عباس رضوی نے اپنے ذمہ لے لی اور اس ذمہ داری کو اچھی طرح نبھارہے ہیں۔
    مولانا اطہر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اور برجستہ شاعر بھی تھے ، اطہر تخلص فرماتے تھے بطور نمونہ:
    غیروں کا کیا گلہ کروں اپنوں سے جوملا نوک زباں کا زخم کلیجے کے پار ہے
    امام وقت کی مدح میں کہے ہوئے کلام کا ایک شعر یوں ہے:
    کون کہتا ہے کہ وہ روح رواں پردہ میں ہے آنکھ پر پردے پڑے ہیں وہ کہاں پردہ میں ہے
    اللہ نے آپ کو دو بیٹیاں اور دو بیٹوں سے نوازا جومولانا سیدمہر عباس عرف جواد اور رضا عباس کے نام سے معروف ہیں۔موصوف نے اپنے سارے بچوں کو زیورعلم سے آراستہ کیا۔
    افسوس یہ برجستہ خطیب اور بیباک عالم دین بتاریخ 18/ ذی الحجہ سن 1438ہجری بروز اتوار حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں خاموشی کی نذر ہوگیا چاہنے والوں کا مجمع شریعت کدہ پر امنڈپڑا 20/ ذی الحجہکوغسل و کفن کے بعد پہلی نماز جنازہ شمیم الملت اور دوسری نمازجنازہ آفتاب شریعت مولانا کلب جواد کی اقتدا میں ادا ہوئا2ور مٹیابرج کلکتہ کے قبرستان محمدی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ کی مجلس چہلم مولانا عقیل الغروی اور مولانا ڈاکٹر کلب صادق نے خطاب فرمائی۔
    ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند - سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص399، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔
    #ShiaUlma #Biography #Documentary #Islam #noormicrofilm #ShiaHistory #IslamicVideo

ความคิดเห็น • 1

  • @mohaddisa6896
    @mohaddisa6896 5 หลายเดือนก่อน

    Khuda Rahmat kre Darjat bulnd Farmay Bahut Achhe the Marhum