معزز صاحبان، عالم وہ ہیے جو ایمان لائے صرف اس پر جو نازل کیا گیا ہئے، "والراسخون فی العلم ولمومنون یومنون بما انزل الیک" دوسری جگ فرمایا، "فان آمنو بمثل ما امنتم بہ فقدھتدو" (اےرسول اور مومنو، انکو بتا دو کہ) اگر تو یہ تمہاری طرح اس پرایمان لائیں، جس پر تم ایمان لائے ہو تو پھر یہ ہدائت یافتہ ہیں آور رسول اور صحابہ کس پر ایمان لاتے تھے؟ جو نازل کیا گیا ہئے" امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ ولمومنون"اب چونکہ تم لوگ ایمان لاتے ہو اس پر جو نازل ہی نہیں کیا گیا، فلہازا نہ تم مومن ہو آور نہ ہی عالم، بلکہ مشرک ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہئے، کہ جو شخص ایمان لائے گا اس پر جو نازل نہئں کیا گیا ،یعنی "افتری" کرے گا، تو وہ(من اظلم ممن افتری علی اللہ اکزب) ظلم عظیم کا مرتکب ہو گا، جو کہ شرک ہے، جیسا کہ آںحضرت صلعم نے خود سورۃ لقمان کی آیت "ان ا لشرک لظلم عظیم" کے حوالے سے یہ تفسیر فرمائ ہئے. اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلی بات ہی یہ فرمائ ہئے "یومنون بما انزل الیک (البقرہ :5) کہ قرآن سے ہدائت صرف "متقین"کو ملے گی، کون متقین؟ جو ایمان لائیں گے اس پر جو نازل کیا گیا ہئے. اور قرآن کریم میں دو صد سے بھی زیادہ مرتبہ یہ بات دہرائی گئی ہئے، لیکن چونکہ تمہاری اللہ سے ضد ہئے کہ ہم ایمان لائیں گے اس پر جو نازل نہیں کیا گیا، فلہازا "باطل" ہی تمہارا دین ایمان بن چکا ہئے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہی نہیں کہ عیسی بن مریم، جو صرف بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، اب مسلمانوں کی طرف بلکہ تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجے جائیں گے اور دو بارہ آ کر اعلان فرمائیں گے "آنی رسول اللہ الیکم جمیعا"! استغفراللہ من ھزاخرافات. تمام دنیا کا صرف ایک رسول، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،اللھم صل علی محمد وال محمد وبارک وسلم. تو بہ کرو اس کفریہ عقید ے سے کیوں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ آںحضرت صلعم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میری امت میں (وہ) عیسٰی بن مریم (the عیسٰی بن مریم ،رسولا الی بنی اسرائیل) آئے گا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ "میری امت. میں بھی "ایک"(An) عیسٰی بن مریم آئے گا اور اشارہ تھا اس" امتی نبی اللہ"کی طرف جو آپ صلعم کے بعد چودھویں صدی میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیض کی برکت سے کمالات نبوت پاکر، تجدید دین کے لئےآنے والا تھا، جس طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آنے تھے، گویا آںحضرت صلعم نے، آنے والے امتی نبی کو "عیسٰی بن مریم" کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے یہ " خطاب" عطا فرمایا تھا، اور" مہدی"کا خطاب بھی اور "امام" بھی کہا، کہ آنے والا "عیسٰی بن مریم بھی نبی ہی ہو گا، کیونکہ امام وہی ہوتا ہے جو نبی ہو اور مہدی ہو، دیکھو، "جعلنطم ائمہ یہدون بامرنا" (الانبیاء : 73) یعنی آںحضرت صلعم نے یہ نہیں فرمایا کہ" عیسٰی بن مریم آئے گا بلکہ فرمایا کہ میری امت میں آنے والا امتی نبی، میری امت کا عیسٰی بن مریم ہو گا. اب تمہارے نصیب میں، اس حقیقت پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہی نہیں کہ عیسی بن مریم آئیں گے، اس لئیے مشکل ہو رہا کہ تم اس" باطل" پر ایمان لا چکے ہو کہ آئندہ کوئی نبی نہیں آ سکتا جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہی نہیں کہ اب محمد رسول اللہ صلعم کے بعد آئںدہ کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں کیا جائےگا اور اس کا ثبوت کہ اللہُ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہرگز یہ نہیں فرمایا یہ ہے کہ آئندہ انبیا نہ بھیجنے کی کوئی حکمت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان نہیں فرمائی اور اس کا سبب یہ نہیں ہئے کہ اللہ تعالیٰ آیندہ انبیاء نہ بھیجنے کی حکمت سے نعوذبااللہ لا علم ہئے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ آئندہ انبیاء نہ بھیجنے میں کوئی حکمت ہی نہیں، اور کوئی بے حکمت قول یا فعل اللہ تعالیٰ جیسی حکیم ہستی کی طرف منسوب. ہیں کیا جا سکتا. سوال یہ ہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے، آئندہ انبیاء نہ بھیجنے کا نعوذبااللہ یہ بے حکمت فیصلہ فرما ہی لیا تھا تو پھر اس فیصلے کا صاف صاف طور پر اور واضح اندا میں اعلان فرمانا اللہ تعالیٰ جیسی مقتدر ہستی کے لئے ناممکن کیسے ہو گیا؟!!! کیا یہ امر قرآنی فصاحت و بلاغت کے صریحاً خلاف نہیں ہے کہ دین کا اہم ترین مسئلہ، جو قیاس اور قرینے سے بھی ذہن میں نہ آسکتا ہو اللہ تعالیٰ اسے صاف صاف طور پر اور واضح انداز میں بیان ہی نہ فرمائے اور پھر اچانک "خاتم النبیین" کہ کر اس کی طرف محض اشارہ کر د ےم
معزز صاحبان، امت مسلمہ کا سب سے پہلا اجماع وفات مسیح پر ہوا تھا، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےتلوار نکال تھی کہ آںحضرت صلعم کو وفات یافتہ کہنے والے کی گردن اڑا دی جائے گی، اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک عجیب بات کہی"من کان منکم یعبدو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،فقد مات محمد" حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تو کوئی عبادت نہیں کرتا تھا! در حقیقت یہ وہی، دلیل تھی جو آںحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ،نجران سے آمدہ علماء کے سامنے، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کے لیے پیش کی تھی،الوہیت مسیح کے رد میں. آںحضرت صلعم نے فرمایا ،"الستم تعلمون آنہ لایکون ولد الا ویشبہ اباہ" کیا تم نہیں جانتے کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہئے؟ انہوں نے عرض کیا، ہاں، آںحضرت صلعم نے فرمایا ،"الستم تعلمون ان ربنا اللہ حی ولا یموت و ان عیسٰی، آتی علیہ الفنا" کہ ہمارا رب تو زندہ اور وہ نہیں مرتا اور جہاں تک عیسٰی کا تعلق ہے تو وہ تو مر مٹ چکے، اگر خدا ہوتے تو کبھی نہ مرتے، کیونکہ جو رب ہو وہ مر نہیں سکتا. آپ صلعم کے تتبع میں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم میں سے کوئی بھی محمد رسول اللہ صلعم کی عبادت نہیں کرتا تھا، کیوں آپ صلعم نعوذبااللہ خدا نہیں تھے اور چونکہ خدا نہیں تھے اس لئے مرگئے، اگر خدا ہوتے تو نہ مرتے، جس طرح عیسٰی علیہ السلام، جن کی نصاریٰ عبادت کرتے تھے اگر خدا ہوتے تو نہ مرتے، اور چونکہ خدا نہیں تھے اس لئےمر گئے. اورسورہ العمران، آیت 145 کی تلاوت فرمائی، "ما محمد الرسول، قد خلت من قبلہ الرسل - - - الخ، (کہ چوںکہ) محمد ایک رسول تھے(اس لئے مر گئے اگر خدا ہوتے تو نہ مرتے) اور آپ صلعم سے پہلے والے رسول بھی مر گئے (کیونکہ وہ خدا نہ تھے) پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان،قد خلت من قبلہ الرسل، کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے والے رسول وفات پا چکے ہئں اور آںحضرت صلعم کی اس تفسیر، "ان عیسٰی آتی علیہ الفنا" کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تسلی اور تشفی فرمائ کہ رسول بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہئے، اور ہر انسان کی طرح جیسے تمام رسول فوت ہو گئے، اسی طرح محمد رسول اللہ صلعم بھی فوت ہو گئے، پس اگر تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فوت ہو چکے ہیں تو یقیناً حضرت عیسی علیہ السلام بھی فوت ہو چکے ہیں، اور اگر عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی یقیناً زندہ ہیں. اور آںحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں، "فاقول کما قال عیسٰی ابن مریم (بخاری) کنت علیھم شہید ما دمت فیھم، فلما توفیتنی کنت انت رقیب علیھم(المائدہ :118)کہ میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں زندہ رہا، جب تو نے مجھے پورا پورا لے لیا تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا. یعنی اللہ تعالیٰ صرف ایک نبی، حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ہی نہیں، محمد رسول اللہ صلعم کو بھی پورا پورا لے چکا ہئےاور آںحضرت صلعم بھی، عیسٰی علیہ السلام کی طرح آسمان پر زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تو خواہش تھی کہ حضرت ادریس علیہ السلام کوبھی آسمان پر زندہ اٹھا کر اپنے ساتھ زندہ رکھے (لو شءنالرفعناہ بہا---الاعراف :177)لیکن اللہ تعالیٰ اپنی یہ خواہش پوری کرنے سے عاجز رہا!!! (نعوذبااللہ) اور اللہ تعالیٰ جو جو یہ دعویٰ فرماتا رہا، یہ اعلان فرماتا رہا، کتب اللہ انا و رسلی، انالننصر رسلنا ولزین معہ، واللہ غالب علی امرہ، فعال لما یرید، کہ اللہ تعالیٰ غالب ہئے، جو چاہتا ہئےکر گزرتا ہئے، ماانتم بمعجزین فی الارض(العنکبوت:٢٣،یونس:54،ھود:34،الشوریٰ :32) کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، پس جس شخص کا ان آیات کریمہ پرکامل ایمان ہئے اور وہ بد بخت مرتابین میں سے نہیں ہے، وہ ایک لمحے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی بد گمانی نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث تو کردیا لیکن بنی اسرائیل تک (جو فلسطین سے جبری ہجرت کی وجہ سے مشرق کی طرف ایران، افغانستان اور سر زمین میں آباد ہو چکے تھے)لے جانے سے عاجز رہا !!! فلسطین سے آسمان دور ہئے یا بنی اسرائیل کا مسکن "کشمیر"؟ آسمان پر جانا آسان تھا یاکشمیر؟ کس حکمت کے تحت اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو کشمیر کی بجائے آسمان پر لےگیا؟!!! یاد رکھو، اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بے حکمت قول یا فعل منسوب کرناحماقت گمراہی، طاغوتیت، گستاخی اور سر کشی ہئے! حضرت عیسٰی علیہ السلام کا کشمیر تک آنا تقدیر الاہی تھی جس نے پورا ہونا تھا اور ہوئ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اوینا ھما الی ربوۃذات قرار ومعین" کہ ہم نے عیسٰی آور ان کی والدہ کو بڑی پر سکون، رواں چشموں والی اونچی جگہ پر پناہ دیی اور اس وادی کو، سطح مرتفع تبت کو "دنیا کی چھت" کہا جاتا ہئے یعنی دنیا کی سب سے اونچی جگہ. بہر حال یہ ایک بہت وسیع بحث ہئے، اگر جہالت سے نکلنا چاہتے ہو اور واقعی عالم کہلانے کا شوق ہے تو، ویل کم، واٹس ایپ نمبر،. 03482829992
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۶﴾ Translation: When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ. [3:56] Proof: The word mutawaffeeka means “I will cause you to die”. Whenever God is the fa’il (subject) and man is the maf’ul (object), it always refers to death. It means that God takes the soul of the man. In this case, it applies to Jesus(as) which in turn means that he has passed away. Here are two examples of the usage of the word tawaffaa, meaning death: وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۷﴾ Translation: And if We show thee in thy lifetime the fulfilment of some of the things with which We have threatened them, thou wilt know it; or if We cause thee to die before that, then to Us is their return, and thou wilt see the fulfilment in the next world; and Allah is Witness to all that they do. [10:47]
حضرت میرزا صاحب کا کلام ُُ ُ آزماش کے لیے آیا نہ کوئ ہر چند ہر مڅالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے۔ ُ مصطفی پر ہر دم ہو درود اور رحمت تجھ سے یہ نور لیا بار څدایا ہم نے۔ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد کھوموں کعبہ میرا یہی ہے
جب مسلمان مرزا قادیانی کو جھوٹا کہتے ہیں تو آپ لوگوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن جب آپ کے اپنے قادیانی احمدی لوگ اور خلیفے مرزا قادیانی کو کم عقل جاہل اور کاذب کہتے ہیں تو خاموش کیوں رہتے ہو اپنا ردعمل کیوں نہیں دیتے، ڈرتے ہو کیا؟؟؟
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہی سوائے رسول کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب رسول وفات پا چکے ہیں۔
Subhan Allah Ma Sha Allah u Lahowla Wala Quwwata Illa BILLA. Behtareen dalail se aur Quran se sabit kardiya ke Hazrat Isa Aalaihis Salam Zinda asmano per uthaey gaey. Allah sab ko hidayet Aata farmaey Aameen.
حضرت عیسہُ انسان تھے تو اُن کو سانس لینے کےُلئیے آکسیجن کی ضرورت تو ہو گی، تو وہُ کون سا ریسپیریٹر ساتھ لے کے گئے ہیں، کُچھ عقل کا استعمال بھی کر لینا چاہئیے!
@@zaheerbajwa5839 حضرت موسیٰ علیہ السّلام جو آکسیجن استعمال کرتے ہیں وہی حضرت عیسٰی علیہ السلام استعمال کرتے ہیں 😝 کیونکہ بقول مرزا۔۔۔۔حضرت موسیٰ علیہ السّلام بھی آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے ہیں 😄
@@zarrarmusab7715 یہئی تو آپ کے غور کرنے کی بات ھے، جب تمام انبئیآ جن کا آپ نے زکر کیا ھے انسان تھے تو انسان کو سانس لینے کے لئیے آکسیجن چاہئیے، تو نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ وہ سب کُچھ روحانی اور کشفی سفر تھے نہ کہ جسمانی، اللہ ہم سب کو عقلٗ استعمال کرنے کی توفیق دے!
(Divide % Rule) ke tahet qadyani firqa tayyar karna pada, hukmarano ki majboori ko samajhye.... Back-ground-reality samajh gaye to BAHES ki zaroorat hi na padegi....
یہ جماعت ، صحابہؓ رسولؑ ﷺ کے حُکم پر ، امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ قائم کی گئی ھے …! اور اس وقت جماعت کو اللّٰہ ربّ العزت کی مکمّل تائید و نصرت حاصل ھے ، خدا کا اپنے فریستادہ سے یہ وعدہ ھے کہ ، وہ قیامت تک امام مہدی کی جماعت کو غالب رکھے گا اور ، دنیا کی بڑی سے بڑی سلطنت یا طاقت ، اس جماعت کا کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکی اور نہ اس کی ترقّی کی راہ میں کوئی روک ڈالنے کی ناپاک جسارت کر سکا ، الحمدللہ …! =========== یہ ٹکے ٹکے کے بدکار اور سڑک چھاپ مولوی جتنا چاہیں زور لگا لیں ، کوئی فائدہ نہیں ھو گا ، اور یہ گندی نالی میں رینگنے والے غلیظ کیڑے مکوڑے ، اس خدائی جماعت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، کیونکہ اس ناپاک مخلوق کو ۔ ۔ ۔ ربّ ذوالجلال نے اپنے در سے دھتکار دیا ھے ۔ ۔ ۔ ۔
دین تو بعد میں آتا ھے …! یہ لوگ تو انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل ان لوگوں کا خمیر ، ابوجہل اور فرعون کی نسل سے گُندھا ھوا ھے اور آج ان جیسے بیشمار کیڑے مکوڑے معاشرہ میں ، فحاشی اور گھر گھر میں بدکاریاں اور بدفعلیاں پھیلانے میں ، پوری ایمانداری سے مصروفِ عمل رہتے ہیں اور ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان ان کے اِس شیطانی عقائد سے بہت خوش ھے اور اِن کے بدکار معاشرہ کی بھرپور سپورٹ کرتا ھے ۔ ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ(آل عمران: ۵۶) اس کا ترجمہ ہے کہ جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ یقینا مَیں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیر ارفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالادست کرنے والا ہوں۔ فوقیت دینے والا ہوں۔ پھر میری طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے۔ اس کے بعد مَیں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ یہ آل عمران کی آیت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:'اس آیت میں خداتعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہرا کر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں‘‘۔ (یعنی خداتعالیٰ نے یہ کام کرنے والا ٹھہرایا ہے اور وہ کام کیا کئے ہیں۔ وہ کون سے فعل تھے؟) فرماتا ہے''اے عیسیٰ ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں (پہلی بات یہ کہ مَیں وفات دینے والا ہوں، دوسری بات) اپنی طرف اٹھانے والا ہوں، (تیسرے) اور کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور (چوتھی بات) تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دینے والا ہوں‘‘۔ (یہ بھی بعدمیں کسی وقت وضاحت کروں گا۔ بعضوں کے ذہنوں میں اس کا بھی سوال اٹھتا ہے اور ظاہر ہے)۔ فرماتے ہیں کہ: ''اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں‘‘۔ (جو ایک ترتیب ان کی ہونی چاہئے تھی اسی طرح بیان ہوئے ہیں) ۔ ''کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف بلایا جاوے اور اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ کی خبر اس کو پہنچ جائے پہلے اس کا وفات پا یا جانا ضروری ہے پھر بموجب آیت کریمہ اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ اور حدیث صحیح کہ اس کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور وفات کے بعد مومن کی روح کا خداتعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں‘‘۔ (ان کی تصدیق کرتی ہیں بہت ساری)۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۰۶) [ یہ جو حضرت مسیح موعودؑ نے مثال بیان فرمائی قرآن کریم کی ایک اور آیت اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ کی یہ پوری آیت اس طرح سے ہے کہ اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (الفجر: ۲۹) اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس سے راضی رہتے ہوئے اپنے ربّ کی طرف لوٹ آ۔ اس سے راضی رہتے ہوئے اور اس کی رضا پاتے ہوئے]۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دوسری جگہ اس کا مطلب بیان فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مسیح کو موت دے کر پھر اپنی طرف اٹھا لیا۔ جیسا کہ عام محاورہ ہے کہ نیک بندوں کی نسبت جب وہ مر جاتے ہیں یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ جیسا کہ آیت اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ اسی کی طرف اشارہ کڑہی ہے۔ خداتعالیٰ تو ہر جگہ موجود اور حاضر ناظر ہے اور جسم اور جسمانی نہیں اور کوئی جہت نہیں رکھتا پھر کیونکر کہا جائے کہ جوشخص خداتعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا ضرور اس کا جسم آسمان میں پہنچ گیا ہو گا۔ یہ بات کس قدر صداقت سے بعید ہے؟ راست باز لوگ روح اور روحانیت کی رو سے خداتعالیٰ کی طرف اٹھائے جا سکتے ہیں نہ یہ کہ ان کا گوشت اور پوست اور ان کی ہڈیاں خداتعالیٰ تک پہنچ جاتی ہیں‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۴۶ء۲۴۷) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’عرش الٰہی ایک وراء الورٰی مخلوق ہے۔ عرش مقام تنزیہیہ ہے۔ (یعنی ہر ایک سے پاک چیز ہے) اور اسی لئے خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ (الحدید: 5) (کہ تم جہاں بھی جاؤ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے) اور (پھر فرماتا ہے) مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَلٰـثَۃٍ اِلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ (المجادلہ: 8) (کوئی تین آدمی علیحدہ مشورہ کرنے والے نہیں ہوتے جبکہ ان میں وہ چوتھا ہوتا ہے۔ )اور (پھر) فرماتا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق: 17) (اور ہم اس سے یعنی انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ ) (ملفوظات جلد پنجم صفحہ491 ) پس یہ ہے ہمارا خدا جو رفیع الدرجات ہے۔ عرش کا مالک ہے وہ فرماتا ہے لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُوَھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارُ(انعام: 104) یعنی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں اور وہ انسان کی نظر تک پہنچتا ہے۔ انسان نہ ہی اپنے علم کے زور سے اور نہ ہی اپنے رتبے اور مقام کی وجہ سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ خود اپنا اظہار فرماتا ہے۔ پس خدا وہ ہے جو پردہ غیب میں ہے اور کبھی بھی کسی رنگ میں بھی اس کے مادی وجود کا تصور قائم نہیں ہو سکتا۔ جبکہ عیسائیوں نے اپنے غلط عقیدے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو خداتعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے خدائی کا مقام دے دیا۔ خداتعالیٰ کا مقام تو بہت بلند اور ہر عیب سے پاک ہے۔ اس کو کسی کی حاجت نہیں جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ اور ان کی والدہ کھاناکھایا کرتے تھے۔ جہاں اس بات سے ان دونوں کے فوت ہونے کا پتہ چلتا ہے، وفات کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس کو کھانے کی حاجت ہو، اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے وہ خدا کس طرح ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی حاجات کس طرح پوری کر سکتا ہے اور اس طرح بے شمار باتیں ہیں اور دلیلیں ہیں جو ان کو ایک انسان ثابت کرتی ہیں۔
مرزا قادیانی ابو الکذبین کے بقول۔ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں آئیگا اور مجدد ہوگا سو یہ نشان بھی اب پورا ہوگیا۔ مربی صاحب صرف ایک حدیث بتا دیں جس میں یہ بات درج ہو کہ مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا اور مجدد بھی ہوگا؟ ؟؟ باقی سب احادیث بتانے کی ضرورت نہیں ہے صرف ایک ہی بتا دیں۔
@@MI-pm8ej قرآن کریم‘ احادیث نبویہ اور بزرگان امت کے رؤیا و کشوف و بیانات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمتِ محمدیہ میں جس مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی تھی اسے تیرھویں صدی ہجری کے آخر پر چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہونا تھا۔ یہ وقت ۱۸۵۰ء کے زمانے سے شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق جو اس نے گذشتہ انبیاء سے انکی امتوں کی اس زمانہ میں اصلاح کے لیے ایک مصلح کے معبوث فرمانے کے لیے کیا تھا وہ اپنے فضل اور رحم سے پورا فرمایا اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود ومہدی معہود بنا کر معبوث فرمایا الحمدللہ- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ زمانہ مہدی و مسیح کے بارہ میں فرماتا ہے یُدَ بِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ (السجدہ: ۶) یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین کی طرف اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا پھر وہ اس کی طرف ایسے وقت میں جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو چڑھنا شروع کرے گا'' ۔ آنحضرت ﷺ نے اسلام کی پہلی تین صدیوں کو خیرالقرون (یعنی بہترین صدیاں) قرار دیا ہے اور وہ ہزار سال جس میں دین کا آسمان کی طرف چڑھنا مقدر تھا وہ یقیناًان تین صدیوں کے بعد شروع ہونا تھا۔ ان تین صدیوں اور ہزار سال کے بعد از سرِ نو دین کا قیام مقدر تھا قرآن شریف میں سورہ نور کی آیت استخلاف نمبر۵۶ میں اُمتِ محمدیہ سے وعدہ کیا گیا کہ ان میں اللہ تعالیٰ اسی طرح خلیفے بنائے گا جس طرح اس سے پہلے خلیفے بنائے جو دین کی مضبوطی کا باعث ہونگے۔ اس وعدہ کے مطابق لازم تھاکہ جس طرح موسوی سلسلہ میں تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح آیا تھا۔ اسی طرح محمدی سلسلہ میں بھی تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح اور مہدی ظاہر ہو۔ احادیث نبویؐ میں زمانہ مسیح و مہدی کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا اَلْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِاَئتَیْن (ابن ماجہ کتاب الفتن باب الایات) نشانات دو سوسال بعد رونما ہونگے۔اس حدیث کی تشریح میں برصغیر کے نامور محدث حضرت مُلاَّ امام علی القاری لکھتے ہیں۔''وَیَحْتَمِلُ اَنْ یّکُوْنَ اللَّامُ فِی الْمِائَتَیْنِ لِلْعَھْدِاَیْ بَعْدَ الِمائَتَیْنِ بَعْدَ الأَلْفِ وَھُوَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْمَھْدِی‘‘۔ (مرقاۃ المصابیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد۱۰ صفحہ۸۲ ا ۱ز علی بن سلطان القاری مکتبہ امدادیہ ملتان) یعنی یہ ممکن ہے کہ الْمِائَتَیْنِ میں لام عہد کا ہو اور مراد یہ ہے کہ ہزار سال بعد دو سو سال یعنی ۱۲۰۰ سال بعد یہ نشانات ظاہر ہونگے اور وہی (یعنی تیرھویں صدی) زمانہ امام مہدی کے ظہور کا ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےاس بارہ میں فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الُامَّةِ عَلَی رَاسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھا دِیْنَھَا (ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذکر فی قرن المائۃ) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ اس اُمت کیلئے ہر صدی کے سر پر مجد د مبعوث کرتا رہے گا۔ اس حدیث کی رو سے علماء اُمت یہ یقین رکھتے تھے کہ چودھویں صدی کے مجد د مہدی ہونگے۔ چنانچہ اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب تیرہ صدیوں کے مجد د دین کی فہرست دینے کے بعد لکھتے ہیں۔ ''چودھویں صدی شروع ہونے میں دس سال باقی ہیں اگر اس صدی میں مہدی اور عیسیٰ کا ظہور ہو جائے تو وہی چودھویں صدی کے مجد دو مجتہد ہونگے‘‘۔ (ترجمہ از فارسی حجج الکرامہ صفحہ ۳۹ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہ جہانی بھوپال مطبوعہ ۱۲۹۱ھ) حضرت حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس اموہہ نے ۱۳۰۶ھ میں لکھا:۔''پس ان (امام مہدی) کی تشریف آوری اکیس سال بعد اس ۱۳۰۶ھ سے ہونے والی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘(کواکب درّیہ از حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس امروہہ صفحہ ۱۵۵ مطبع سید المطابع امروہہ) مولانا عبدالغفور مصنف ''النجم الثاقب‘‘ نے۱۳۱۰ھ میں لکھا:۔''البتہ زمانہ بعشت مہدی کا یہی ہے‘‘ (النجم الثاقب حصہ دوم صفحہ ۲۳۳ ابوالحسنات محمد عبدالغفور مطبوعہ پٹنہ) خواجہ حسن نظامی (۱۲۹۶ھ تا ۱۳۷۴ ھ )نے لکھا ''اس میں کوئی شک نہیں کہ جو آثار اور نشانات مقدس کتابوں میں مہدی آخر الزمان کیلئے بیان کئے گئے ہیں وہ آج کل ہم کو روز روشن کی طرح صاف نظر آ رہے ہیں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زمانہ ظہور خیر البشر بعد از رسول حضرت محمد بن عبداللہ مہدی آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام قریب آ گیا۔‘‘ (کتاب الامر۔ امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض صفحہ ۳ از خواجہ حسن نظامی ۱۹۱۲ء) صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳) انتظار کی ان گھڑیوں میں جب کہ امام مہدی کے ظہور کی تمام نشانیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ (۱۸۳۵ء تا ۱۹۰۸ء) نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح و مہدی ہوں جس کے ظہور کی پیشگوئیاں قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں موجودہیں اور بزرگان امت جس کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی سچائی کیلئے وہ عظیم الشان آسمانی نشان چاند سورج گرہن بھی ظاہر فرما دیا جسے آنحضرتﷺ نے سچے مہدی کی نشانی قرار دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا:۔ ''ہمارے مہدی کی سچائی کے دو نشان ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے وہ کسی کی سچائی کیلئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان کے مہینے میں چاند کو (اس کی مقر رہ تاریخوں میں سے) پہلی رات اور سورج کو (اس کی مقر رہ تاریخوں میں سے) درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا اور جب سے اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا یہ دو نشان ظاہر نہیں ہوئے۔‘‘ (دارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف والکسوف) چنانچہ عین چودھویں صدی کے سر پر چاند گرہن کیلئے مقر رہ تاریخوں (۱۳‘۱۴‘۱۵) میں سے پہلی رات یعنی تیرہ رمضان ۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۳ مارچ ۱۸۹۴ء کو اور سورج گرہن کیلئے مقر ر تاریخوں (۲۷‘۲۸‘۲۹) میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ رمضان بمطابق ۶۔اپریل ۱۸۹۴ء کو گرہن لگا۔ اور حضرت مرزا صاحب نے بڑی شان اور تحدی کے ساتھ اپنی سچائی میں اس نشان کو پیش کرتے ہوئے لکھا۔ ''ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کیلئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کیلئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا۔۔۔میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جب کہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک شخص کی تصدیق کیلئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کے ظہور کیلئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی‘‘(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳
@@sparklingmoon-1709 مربی صاحب مرزا قادیانی نے کہا تھا کہ کہ احادیث صحیحہ میں آیا اور یہ کہ مجدد بھی ہوگا۔ گولیاں مت دیں برائے مہربانی صرف ایک حدیث بتا دیں جس میں یہ بات درج ہو کہ مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا اور مجدد بھی ہوگا؟
سلام میں ایک غیر احمدی مسلمان ہوں مگر سورة آلعمران آیت 144 جو غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوٸ اور پھر وفات رسول پہ ایک طرح سےاس آیت سے صحابہ اکرام اور اہل بیت کا اجماع ہو گیا کہ آپ محمد صلى الله عليه واله وسلم اور تمام سابق انبیا علیہم السلام دو طرح سے اس دنیا سے گزرے ہیں یعنی طبعی موت یا شہادت کی موت۔ اس پہ آپکیا تبصرہ فرماٸیں گے
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۶﴾ Translation: When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ. [3:56] Proof: The word mutawaffeeka means “I will cause you to die”. Whenever God is the fa’il (subject) and man is the maf’ul (object), it always refers to death. It means that God takes the soul of the man. In this case, it applies to Jesus(as) which in turn means that he has passed away. Here are two examples of the usage of the word tawaffaa, meaning death: وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۷﴾ Translation: And if We show thee in thy lifetime the fulfilment of some of the things with which We have threatened them, thou wilt know it; or if We cause thee to die before that, then to Us is their return, and thou wilt see the fulfilment in the next world; and Allah is Witness to all that they do. [10:47]
@@dakhan71 وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ {55}إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ {56} And they planned, and Allah also planned; and Allah is the Best of planners. When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ.(Chapter 3 verses 55-56) Allah in these ayahs has made four promises to Isaas. First Promise: إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ When Allah said O Jesus I Will Cause thee to die a natural death The Jews wanted to kill Isaas and tried to even crucify him and take his life away because Deuteronomy 21:22-23 and many other verses of the Bible state that one who dies on the cross is an accursed. Allah replies to the plan of the Jews by saying they will not be able to kill Isaas, Allah will cause him to die(meaning a natural death) not an accursed death on the cross by the hands of anyone. This was the first promise of Allah to Isaas in reply to the plan of the Jews. Second Promise: وَرَافِعُكَ إِلَيَّ And will exalt thee to myself Meaning Isaas will be exalted in the Presence of Allah and will be raised spiritually and given nearness to Allah (same type of Raf’a Allah rewards the believers with) Third Promise: وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا And will clear thee from the charges of those who disbelieve. This means that Allah will clear him of the charges which are the false charges from the enemies (I.e, legitimacy of birth, accursed death) and would show to the people that he was indeed a true Prophet of Allah Fourth Promise: جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ And will place those who follow thee above those who disbelieve until the day of resurrection This basically means that precedence would be given to the followers of Isaas over the disbelievers till the Day of Judgment. (Muslims are of course included in the believers, as we are true followers of Isaas) The last three promises have already been fulfilled according to the Non Ahmadis but why do they ignore the first Promise which came first in the plan of Allah? Can they really accuse Allah of a failed plan God Forbid? It is sad to say that the first has been forgotten by Allah and he only completed the latter three promises. First comes his natural death and then come the rest of the promises. Some non Ahmadis have tried to claim tawaffa does not mean death but this is totally unacceptable according to the Qur’an and Ahadith of the Prophet Muhammadsaw. Hadhrat Ibn Abbasra who was one of the greatest companions, has narrated: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ “ اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ Narrated Ibn Abbasra: The Prophet (ﷺ) embraced me and said, “O Allah! Teach him (the knowledge of) the Book (Qur’an).”(Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Hadith #375) This amazing companion, whom the Prophetsaw prayed for, stated:
@@dakhan71 عن ابن عباس قوله : ” إني متوفيك ” يقول : إني مميتك Hazrat Ibn Abbasra stated that Mutawaffika, means death. The view of Hadhrat Ibn Abbasra was that Hadhrat Isaas has already died and will not return physically. Since the non Ahmadi Muslims cannot respond to this verse and the above narration, they quote a narration of ad-Durr-ul-Mansur which is falsely attributed to Ibn Abbas. Firstly, they condemn a solid and correct reference supported by the Qur’an which is mentioned in Sahih al Bukhari, the most authentic book after the Qur’an. They want us to accept a weak and unauthentic reference which contradicts the Qur’an, and makes no sense. The reference which they quote is: وَأخرج اسحق بن بشر وَابْن عَسَاكِر من طَرِيق جَوْهَر عَن الضَّحَّاك عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله {إِنِّي متوفيك ورافعك} يَعْنِي رافعك ثمَّ متوفيك فِي آخر الزَّمَان Meaning, Hadhrat Ibn Abbasra “I will cause you to die in the latter days” Firstly, this reference is without any merit because it is not found in any authentic book. Nor do we find it in Tafseer ibn Jarir at-Tabari which quotes many narrations trying to justify the life of Isaas, nor is it present in Tafsir ibn Kathir. How can this narration be accepted? Why would a Muslim reject the authentic reference of Sahih Bukhari for a fabrication? Furthermore, the belief which is portrayed in this reference makes it seem as if it is the view of the narrator rather than the view of Hadhrat Ibn Abbasra. There are countless of references which are attributed to Ibn Abbas, which have no value at all. If the word متوفيك means death in the latter days, then it becomes essential that the spiritual rafa has not yet happened because متوفيك comes after رافعك. However, this would be against the Holy Qur’an as it states that the Jews wanted to prove Hadhrat Isaas to be an accursed one, according to the Torah, and did not succeed in killing him on the cross. Rather Allah gave Isaas a spiritual ascension as Allah States in Surah al-Nisa. In the opinion of the non Ahmadis, death before raise as presented in the Qur’an is incorrect and it should be raise before death instead. This thought is completely foolish. The main reason why this narration must be rejected, even before looking at the authenticity, is because it clearly contradicts the Holy Qur’an and the narrations of more authentic ahadith. Furthermore, the statement of Durr al-Manthur is munqati, meaning unconnected. Ad Dahak had never met Hadhrat Ibn Abbasra according to many scholars. Below is a reference from Mizan al-Itidal by Imam Al-Dhahabi where Yahya Ibn Sa’id Al Qattan said: “Shu’bah denied at all that al-Dhahak ever met Ibn Abbasra” Shu’bah asked Mushash: Did al-Dhahak listen to Ibn Abbasra and he replied he never saw him at all Yahya Ibn Sa’id stated that according to us Ad Dhahak is weak
bn Hajr also said in Tariqb al Tahdheeb that he was saduq but had a lot of irsals, meaning the absence of the link between the successor and the Prophet. It is written: الضحاك بن مزاحم الهلالي أبو القاسم أو أبو محمد الخراساني صدوق كثير الإرسال من الخامسة مات بعد المائة 4 Some non Ahmadis also accidentally quote Imam Al Razi’s statement. He has said: والمعنى : أني رافعك إليّ ومطهرك من الذين كفروا ومتوفيك بعد إنزالي إياك في الدنيا ، ومثله من التقديم والتأخير كثير في القرآن “The meaning is; I will raise you unto me and will purify you from infidels and will cause you to die after I descend you in the world. And examples of advancing and retreating (taqdim and takhir) are numerous in the Qur’an.”(Tafsir Al-Kabir 4/227 under Qur’an 3:55) The non Ahmadis try to state that according to Imam al-Razi, the rafa was to happen after the tawaffa. This statement in reality, supports the Ahmadi Muslims. Imam Razi has made it clear that mutawaffika means death. Furthermore, Imam Razi in regards to the tafseer of rafa of this ayah, has stated that this is rafa of rank, rather than physically being raised to the heavens. The conclusion of taqdir and takhir of Imam Razi is against his own criteria of this rule. He has stated that this can only apply if another verse of the Qur’an clearly supports the switching of the order. It is just a misunderstanding of the scholar as he knew tawaffa meant death but was unaware of the true meaning of the verse. Furthermore, Allah could have easily mentioned that I will raise you to the heavens and then send you back in this ayah, but nothing of this sort is found anywhere in the Qur’an or authentic ahadith,. Now the order given by the Qur’an is that death would occur first and after this the raf’a would occur. After this would be the clearing of the charges against him, and lastly the dominance of the followers of Isaas over his opponents. If one was to change the order, where would mutawaffika be put? Would it be put between the exaltation and the clearing of the charges? This is totally baseless as it would mean that unless Isaas dies, the charges against him would not have taken place. If mutawaffika is placed between the clearing of the charges and the natural death of Isaas, it would mean that unless Isaas dies his followers will never become dominant which is also wrong. If we put mutawaffika at the end, the ayah would state that Jesusas would die after the day of resurrection. The truth is clear that mutawaffika was indeed that first promise and it was fulfilled by our Creator. Hazrat Mirza Ghulam Ahmadas states: “In this verse, ‘I shall cause thee to die’ precedes ‘I shall exalt thee’, which shows that death occurred before exaltation. A further proof is that Allah the Glorious, has said: After thy death I shall place those who follow thee above those who disbelieve (i.e., the Jews), until the Day of Judgment. All Christians and Muslims agree that this prophecy had been fulfilled before the advent of Islam, inasmuch as God Almighty had subordinated the Jews to Christians and Muslims, and they have continued in that condition of subordination for centuries. The verse cannot be construed to mean that such subordination will take place after Jesus returns from heaven.” (Izala-e-Auham, Ruhani Khazain, Volume 3, Page 330, 332)
Quran ke aik ayat hai kay huzrut Issah say pehlay sub nubi wfat pa chukay hain aour Muhammad (pbuh)say pehlay sub nabi wafat pa chukay hain to issah pehlay tha ya bad main iss iyat ko kahan lay ker jaoo gay bolo kay naoz billah Quran main galut likha hai
1- وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا (سورہ البقرہ آیت 2:234) اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔ 2- وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا (سورہ البقرہ 2:240) اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں 3- رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ( سورہ ال عمران 3:193) اے ہمارے ربّ! پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کردے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے۔ 4 -حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ( سورہ النساء 4:15) یہاں تک کہ ان کو موت آجائے یا ان کے لئے اللہ کوئی (اور) رستہ نکال دے 5- اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ( سورہ ال عمران 4:97) یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں 6- حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا وَ ہُمۡ لَا یُفَرِّطُوۡنَ( سورہ الانعام 6:61) یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آجائے تو اُسے ہمارے رسول (فرشتے) وفات دے دیتے ہیں اور وہ کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے۔ 7- حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوۡنَہُمۡ(سورہ الأعراف 7:37) یہاں تک کہ جب ہمارے ایلچی اُن کے پاس پہنچیں گے انہیں وفات دیتے ہوئے 8- رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ ( سورہ الأعراف 7:126) اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔ 9- وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ( سورہ الانفال 8:50) اور اگر تو دیکھ سکے (تو یہ دیکھے گا) کہ جب فرشتے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا وفات دیتے ہیں 10- وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ( سورہ یونس 10:46) اور اگر ہم تجھے اس (اِنذار) میں سے کچھ دکھا دیں جس سے ہم انہیں ڈرایا کرتے تھے یا تجھے وفات دے دیں 11- وَ لٰکِنۡ اَعۡبُدُ اللّٰہَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰٮکُمۡ ( سورہ یونس 10:104) لیکن میں اُسی اللہ کی عبادت کروں گا جو تمہیں وفات دیتا ہے 12- تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ (سورہ یوسف 12:101) مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زُمرہ میں شامل کر۔ اس کے علاوہ سورہ الرعد 13:40 ،سورہ النحل 16:28، سورہ النحل 16:32، سورہ النمل 16:70، سورہ الحج 22:5، سورہ السجدہ 32:11، سورہ الزمر 39:42، سورہ المومن 40:67، سورہ المومن 40:77، سورہ محمد 47:27، سورہ ال عمران 3:55، سورہ المائدۃ 5:117، ان آیا ت میں لفظ "توفی" کا مطلب "وفات یا موت" کے لیے استعمال کیا گیا ہے - قرآن کی اتنی آیات کے بعد بات سمجھ آ جانی چاہیے لیکن پھر بھی کچھ عربی ڈکشنری سے حوالے دیے جا رہے ہیں مشہور عربی ڈکشنری "القاموس" میں لکھا ہے الوفاۃالموت و توفاہ اللہ قبض روحہ - "الوفاۃ " کا مطلب ہے موت اور "توفاہ اللہ" کا مطلب ہے اس کو اللہ نے توفی کیا یعنی اس کی روح قبض کر لی- ایک اور ڈکشنری "تاج العروس "میں لکھا ہے توفاہ اللہ عزوجل: اذا قبض نفسہ - "توفاہ اللہ ازوجل" کا مطلب ہے اس کو اللہ نے توفی کر لیا اس وقت کہتے ہیں جب وہ اس کی جان کو قبض کر لے- ایک اور ڈکشنری "صراح" میں لکھا ہے توفاہ اللہ ای قبض روحہ- اللہ نے اس کو توفی کیا یعنی اس کی روح قبض کر لی- عربی لغت کی کتابوں کے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ توفی کے فعل کا فاعل جب خدا ہو اور فعل انسان پر وارد ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا نے اس کی جان قبض کر لی یا اس کی روح قبض کر لی- اب ہم اس آیت کی بات کرتے ہیں جو آپ نے "توفی" کے معنی کے ہم پلہ پیش کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دونوں جگہ اس لفظ "توفی" کے ایک ہی معنی ہیں، وہ آیت ہے- وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی(سورہ النجم 53:37) اور ابراہیم جس نے عہد کو پورا کیا۔ یہاں یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ نہ تو فاعل یہاں پر اللہ تعالیٰ ہے اور نہ ہی مفعول یہاں پر انسان ہے، بلکہ فاعل انسان ہے یعنی "ابراہیم علیہ السلام" اور مفعول "عہد" ہے تو اس صورت میں "توفی" کے معنی پوراپورا وصول کرنے یا پورا کرنے کے ہیں- (نتیجہ): جب فاعل اللہ تعالیٰ اور انسان کے مفعول بہ ہونے کی صورت میں لفظ "توفی" کا مطلب ہمیشہ قبض روح یا موت دینا ہے-
ما كان مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا} [الأحزاب:40] ، نہی ہیں محمد بن عبد اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم والد ابو آپ میں کسی رجل بالغ مرد کے مگر ہیں خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور اللہ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے[الأحزاب:40]، خَاتَمَ النَّبِيِّينَ نبیوں میں آخری جیسے کے خط کے آخیر میں مہر لگائ جاتی ہے عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن مثلي ومثل الأنبياء قبلي كمثل رجل بنى بيتا فأحسنه وأجمله إلا موضع لبنة من زاوية فجعل الناس يطوفون به ويتعجبون ويقولون: هلا وضعت اللبنة، قال: فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين» (رواه البخاري ومسلم). حضرت ابوھریرہ ؓ سے روایت ہے کے محمد بن عبد الله آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا بےشک میری مثال اور مجھ سے پہلے والے انبیاء کی ایک ایسے شخص کی طرح جس نے ایک گھر بنایا سو احسن اچھے طرقے سے اسکو بنایا اور اسکو خوبصورت بنایا مگر اس نے چھوڑ دیا ایک اینٹ کی جگہ کسی طرف سے تو لوگ اس گھر کے اردگرد پھرنے لگے اور اسکی تعریفیں کئے آرہے تھے مگر وہ کہتے کیوں وہ آخری اینٹ نہی رکھی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ آخری اینٹ میں ہوں اسی طرح میں خاتم النبیین ہوں (روایت کی گئی ہے صحيح البخاري اور صحيح المسلم کی کتابوں میں). وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون قريبا من ثلاثين كلهم يزعم أنه رسول الله» (رواه البخاري ومسلم). وفي زيادة صحيحة: «وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي» (سنن الترمذي). حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کے محمد بن عبدالله آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہی آئیگی اس وقت تک کئی دجال اور کذاب نہ آجائیں جن کی تعداد نمبر تیس٣٠ کے قریب ہے ان میں ہر ایک اپنے کو رسول اللہ سمجھے گا (روایت کی گئی ہے صحيح البخاري اور صحيح المسلم کی کتابوں میں). محمد بن عبدالله آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہی آئیگی اس وقت تک کئی دجال اور کذاب نہ آجائیں جن کی تعداد نمبر تیس٣٠ کے قریب ان میں ہر ایک اپنے کو رسول اللہ سمجھے گا میں خاتم النبيين ہوں کوئ بھی نبی میرے بعد نہی ہے (یہ حدیث سنن الترمذي کی کتاب میں ہے).
Saying of Mirza Ghulam Ahmed Qadyani .میں جناب خاتم الانبیاء ﷺ کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو دین اور دائر اسلام سے خارج سمجھتاہوں (تبلیغ رسالت، ج۔۲، ص۔۴۴) .مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ، سو اس تہمت پر کیا کہوں بجز اس کے کہ لعنت اللہ علی الکاذبین، .جب مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائیگا (براہین احمدیہ، ص ۔۴۹۹) قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آناجائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہے یا پرانا، کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل بہ پیراوی رسالت مسدود ہے ( روحانی خزائن ، جلد ۳) .میں نے نہ نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ اپنے آپ کو نبی کہا ، یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجاؤں اور کافر بن جاؤں (روحانی خزائن جلد 9 ) ."اے لوگو مسلمانوں کی ذریت کہلانے والودشمن قرآن نہ بنواور خاتم البنیین کے بعد وحی کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو اور اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کئے جاؤگے" (روحانی خزائن، آسمانی فیصلہ) ." ہم بھی مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں، کیا ایسا بدبخت مفتری مسلمان ہوسکتا ہے جو محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے (روحانی خزائین، ایک غلطی کا ازالہ ص۔۳) .جب مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائیگا (براہین احمدیہ، ص ۔۴۹۹) مرزا غلام احمد کی گستاخیوں کے چند جھلکیاں؛ ۱۔ خدا سوتا بھی ہے ، کھاتا بھی ہے ، اور پیتا بھی ہے (البشرا، جأ۲، ص۔97) 2 ۔ خدا عرش پر مرزا کی حمد کرتا ہے (کتاب انجام آتھم، ص۔ (55 3 ۔ خدا نے مجھے کہا کہ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ ( کتاب رو حانی خزائین چشمہ معرفت) 4. مرزا تیرا نام کامل ہوگا، میر ا نام ناتمام رہہگا، 5. ۔ تیرا نام میرا اسم اعظم ہے۔ (کتاب ، حقیقت الوحی اور مجوعہ الہامات و مکاشفات) 6. ۔ تو میں بمنزلہ فرزند ہے۔ 7۔ میرا لوٹا ہوا مال تجھے ملیگا۔ 8 ۔ قضا و قدر کے فیصلے میں نے لکھے، خدا نے دستخط کئے۔ (نعوذ بااللہ) ( بحوالہ کتب روحانی خزائن ، اربعین، حقیقت الوحی، انجام آتھم، البشرا، البریہ اور تریاق القلوب)
مرزا قادیانی نے تحریر کیا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا اور مجدد ہوگا۔ برائے مہربانی وہ احادیث کہاں ہیں رہنمائی فرمادیں کیونکہ ہم تو ڈھونڈ ڈھونڈ تک گئے لیکن ایک بھی نہیں ملی۔
@@sksarwaruddin9084 brother don’t waist you time nobody has answer of your question. When they can’t answer question they become personal just as qufaar did to all messengers
@@umarfraz4547 just read miraza 's book jis me us ne khud ko khuda, khuda ka beta, nabi s.a.w kaha ha(naauzubillah) Wo apni kitabon se jhoota sabit hota ha. Jab tak ap khud nhi prhe ge or hidayat nhi chahe ge tab tak ye hi hota rhe ga. shukrya
ختم نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم زندہ باد ❤❤❤ ختم نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم زندہ باد ❤❤❤ ختم نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم زندہ باد ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
ہے کوئی حلالی مرزائی جس کی ماں نے اس کو حلال حمل سے جنم دیا ہو جو میرے سوالوں کا جواب دے ورنہ مرزے قادیاں والے کی قبر اور مرزے مسرور کے منہ پر ٹٹی مل کر مسلمان ہو جائے. 1 جماعت مرزائیہ یورپ میں عیسائیوں کو یہ کیوں نہیں بتاتی کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وہ انتظار کر رہے ہیں مرزے قادیانی کذاب نے اس کو نہ صرف مار دیا ہے بلکہ خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور ٹٹی میں مر بھی گیا ہے؟ 2 اگر مرزا قادیانی کذاب اللہ کا برگزیدہ اور فرستادہ بندہ تھا تو ٹٹی میں کیوں مرا ؟ 3 کیا اللہ کے برگزیدہ بندے مرزے قادیانی کذاب کی طرح ٹٹیوں میں مرتے ہیں اور کیا ان کے جنازے پر مرزے قادیانی کذاب کے جنازے کی طرح ٹٹیاں پھینکی جاتی ہیں؟مرتے وقت مرزے قادیانی کذاب کے پچھواڑے اور منہ سے ٹٹی نکل رہی تھی. 4 اگر مرزا قادیانی کذاب کے بقول حکومت برطانیہ اور عیسائی ہی دجال تھے تو مرزے کذاب نے ان کا خاتمہ کیوں نہ کیا اور مرزا مسرور کذاب اس دجال کی گود میں کیوں بیٹھا ہے؟ 5 اگر دجال اسی طرح دنیا میں موجود ہے تو مرزا قادیاں والا کذاب نے اپنی زندگی میں کیا پہاڑ توڑا؟ 6 مرزا قادیاں والا کذاب کو ہونے والا یہ الہام کہ سارا ہندوستان عنقریب مرزائی ہو جائے گا.120 سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں پورا نہیں ہوا؟کیا اس سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟ 7 مرزا کذاب کو اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے یہ الہام کیا کہ قادیان بہت بڑا شہر بن جائے گا اور اس کو وہ عروج حاصل ہو گا جو آج تک کسی بھی شہر کو حاصل نہیں ہوا اور اس کی حدود لاہور تک پھیل جائیں گی. آج قادیان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں مرزائی کذاب اقلیت میں ہیں سارا ہندوستان مرزائی کرنا تو دور کی بات قادیان جو مرزائیوں کا روحانی مرکز ہے اس کی ساری آبادی ابتک مرزائی نہیں ہے کیوں؟ کیا اس بات سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟ 8 مرزا قادیاں والا کذاب کے بقول اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے اس پر وحی نازل کی کہ میں تیرا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دوں گا لیکن مرزائیوں کے مرکز قادیان اور ربوہ جن ملکوں میں ہیں وہاں اور خصوصاً پاکستان میں ان کو جوتیاں کیوں پڑ رہی ہیں؟ 9 جماعت مرزائیہ اگر واقعی خدائی جماعت ہے تو خدا نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہیں کی جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا رہا تھا.؟ 10 اگر جماعت مرزائیہ کذاب ہی مسلمانوں کا تہترواں فرقہ ہیں تو جماعت مرزائیہ کے فرقے محمودی، لاہوری، جنبہ ،ناصر سلطانی ،زاہد خان کا فرقہ یہ سب اپنے آپ کو اصل اور باحق اور دوسروں کو جہنمی، خنزیر اور جھوٹی جماعت کہتے ہیں. یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ جماعت مرزائیہ کذاب کا کون سا فرقہ اصل میں تہترواں ہے؟ 11 مرزائی کذاب انہی عیسائی اور یہودی حکومتوں کے پاس مدد کے لیے کیوں بھاگتے ہیں جن کو مرزا قادیاں والا خود دجال قرار دے چکا ہے؟ 12 مرزا قادیاں والا کذاب کی اولاد دین کی ترویج وترقی کے نام پر لیے گئے چندے کو اپنی ذات اور عیاشیوں پر کیوں صرف کرتی ہے؟ 13 اگر مرزائیت خدا کی اتنی ہی سچی جماعت ہے تو اب تک سارا یورپ اور ہندوستان جہاں ان کو تبلیغ کی ہر قسم کی آزادی ہے کیوں مرزائی نہیں ہوا؟ 14 مرزا قادیاں والا کذاب اور مرزا بشیر الدین محمود کذاب کے بقول نبوت کا سلسلہ جاری ہے تو پھر دوسرے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، عبدالغفار جنبے اور طاہر نسیم،ناصر سلطانی ،زاہد خان وغیرہ کو امت مرزائیہ نبی کیوں نہیں مانتی؟ 15 بقول امت مرزائیہ 1974 میں مسلمانوں کے 72 فرقوں نے ان کو علیحدہ کر دیا اور امت مرزائیہ کے خلاف فیصلہ ہو گیا. مرزائی مسلمانوں کے ان 72 فرقوں کے نام بتا دیں. 16.اگر مرزا قادیاں والا کذاب اپنے دعویٰ جات میں اتنا ہی سچا تھا تو جماعت مرزائیہ لوگوں کو تبلیغ کے وقت اس کے نبوت کے دعوے کو کیوں چھپاتی ہے؟ 17. حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں یا نہیں وہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے یا نہیں یہ اللہ اور اس کے سچے اور آخری نبی کا معاملہ ہے اس سارے معاملے سے مرزا قادیانی کذاب ابن چراغ بی بی ولد غلام مرتضیٰ کا کیا تعلق ہے؟ 18. محمدی بیگم کی بیش گوئی کے جھوٹے ہونے کے بعد مرزا قادیانی کذاب کے سچا ہونے کا کیا جواز ہے؟ 19. کیا مرزائی مرزے قادیانی کذاب کے مرد سے عورت اور پھر یلاش سے رجولیت کروا کر گابھن ہونے اور خود سے خود کو پیدا کرنے کے دعویٰ کے کو سچ مانتے ہیں؟ 20.. مرزائی نیک اعمال کی بجائے چندے کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں؟
Can you please share the reference from Quran which verse is saying Hazrat Issa is alive. Being murdered or being hanging, are these the only ways to die. How can you say that rafaa means lifting but lifting him alive?
👍🏻حیات عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی دلیل✍️ ❤️’’قَالَ اللّٰہُ عَزِّوَجَلّ فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِج وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُط مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (نساء:۱۵۵تا۱۵۸)‘‘ ’’ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اﷲ کی آیتوں سے، اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق، اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے سو یہ نہیں بلکہ اﷲ نے مہر کر دی ان کے دل پر کفر کے سبب، سو ایمان نہیں لاتے مگر کم، اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند) ◾:اﷲتعالیٰ ان کے قول کی تکذیب فرماتا ہے کہ یہودیوں نے نہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا یہود جو مختلف باتیں اس بارہ میں کہتے ہیں اپنی اپنی اٹکل سے کہتے ہیں۔ اﷲ نے ان کو شبہ میں ڈال دیا۔ خبر کسی کو بھی نہیں۔ واقعی بات یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اﷲتعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا۔ حق تعالیٰ نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کر دی جب باقی لوگ گھر میں گھسے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کر دیا۔ پھر خیال آیا تو کہنے لگے کہ اس کا چہرہ تو مسیح کے چہرہ کے مشابہ ہے اور باقی بدن ہمارے ساتھی کا معلوم ہوتاہے۔ کسی نے کہا کہ یہ مقتول مسیح ہے تو وہ آدمی کہاں گیا اور ہمارا آدمی ہے تو مسیح کہاں ہے۔ اب صرف اٹکل سے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ علم کسی کو بھی نہیں حق یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مقتول نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر اﷲ نے اٹھالیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا۔ (تفسیر عثمانی) (ربط) حق جل شانہ نے ان آیات شریفہ میں یہود بے بہبود کے ملعون اور مغضوب اور مطرود ومردود ہونے کے کچھ وجوہ واسباب ذکر کئے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ پس ہم نے یہود کو متعدد وجوہ کی بناء پر مورد لعنت وغضب بنایا۔ (۱)نقض عہد کی وجہ سے۔ (۲)اور آیات الٰہی کی تکذیب اور انکار کی وجہ سے۔ (۳)اور خدا کے پیغمبروں کو بے وجہ محض عناد اور دشمنی کی بناء پر قتل کرنے کی وجہ سے۔ (۴)اور اس قسم کے متکبرانہ کلمات کی وجہ سے کہ مثلاً ہمارے قلوب علم اور حکمت کے ظرف ہیں۔ ہمیں تمہاری ہدایت اور ارشاد کی ضرورت نہیں۔ ان کے قلوب علم اور حکمت اور رشد وہدایت سے اس لئے بالکل خالی ہیں کہ اﷲ نے ان کے عناد اور تکبر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ جس کی وجہ سے قلوب میں جہالت اور ضلالت بند ہے۔ اوپر سے مہر لگی ہوئی ہے۔ اندر کا کفر باہر نہیں آسکتا اور باہر سے کوئی رشد اور ہدایت کا اثر اندر نہیں داخل ہوسکتا۔ (پس اس گروہ میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں مگر کوئی شاذ ونادر جیسے عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن سلام اور ان کے رفقاء) (۵)اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر وعداوت کی وجہ سے۔ (۶)اور حضرت مریم علیہ السلام پر عظیم بہتان لگانے کی وجہ سے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اہانت اور تکذیب کو بھی مستلزم ہے۔ اہانت تو اس لئے کہ کسی کی والدہ کو زانیہ اور بدکار کہنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص ولد الزنا ہے اور العیاذ باﷲ نبی کے حق میں ایسا تصور بھی بدترین کفر ہے اور تکذیب اس طرح لازم آتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے حضرت مریم علیہا السلام کی برأت اور نزاہت ثابت ہوچکی ہے اور تہمت لگانا برأت اور نزاہت کا صاف انکار کرنا ہے۔ (۷)اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ جو بطور تفاخر کہتے تھے کہ ہم نے مسیح بن مریم جو رسول اﷲ ہونے کے مدعی تھے ان کو قتل کر ڈالا۔ نبی کا قتل کرنا بھی کفر ہے بلکہ ارادۂ قتل بھی کفر ہے اور پھر اس قتل پر فخر کرنا یہ اس سے بڑھ کر کفر ہے اور حالانکہ ان کا یہ قول کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کر ڈالا۔ بالکل غلط ہے ان لوگوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا۔ لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ حضرت مسیح کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ سب شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کا کوئی صحیح علم اور صحیح معرفت نہیں۔ سوائے گمان کی پیروی کے کچھ بھی نہیں۔ خوب سمجھ لیں کہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شبیہ اور ہم شکل بنا دیا اور حضرت عیسیٰ سمجھ کر اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا اور اسی وجہ سے یہود کو اشتباہ ہوا اور پھر اس اشتباہ کی وجہ سے اختلاف ہوا اور یہ سب اﷲ کی قدرت اور حکمت سے کوئی بعید نہیں۔ بے شک اﷲتعالیٰ بڑے غالب اور حکمت والے ہیں کہ اپنی قدرت اور حکمت سے نبی کو دشمنوں سے بچا لیا اور زندہ آسمان پر اٹھایا اور ان کی جگہ ایک شخص کو ان کے ہم شکل بناکر قتل کرایا اور تمام قاتلین کو قیامت تک اشتباہ اور اختلاف میں ڈال دیا۔
......✍️ یہ آیات شریفہ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمی میں نص صریح ہیں۔✌🏻✌🏻 ☝️…ان آیات میں یہود بے بہبود پر لعنت کے اسباب کو ذکر فرمایا ہے۔ ان میں ایک سبب یہ ہے: ’’وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا‘‘ یعنی حضرت مریم علیہا السلام پر طوفان اور بہتان لگانا۔ اس طوفان اور بہتان عظیم میں مرزاقادیانی کا قدم یہود سے کہیں آگے ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں حضرت مریم علیہا السلام پر جو بہتان کا طوفان برپا کیا ہے یہود کی کتابوں میں اس کا چالیسواں حصہ بھی نہ ملے گا۔ ✌️…آیات کا سیاق وسباق بلکہ سارا قرآن روز روشن کی طرح اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ یہود بے بہبود کی ملعونیت اور مغضوبیت کا اصل سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عداوت اور دشمنی ہے۔ مرزاقادیانی اور مرزائی جماعت کی زبان اور قلم سے حضرت مسیح علیہ السلام کے بغض اور عداوت کا جو منظر دنیا نے دیکھا ہے وہ یہود کے وہم وگمان سے بالا اور برتر ہے۔ مرزاقادیانی کے لفظ لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دشمنی ٹپکتی ہے۔ ’’قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ (اٰل عمران:۱۱۸)‘‘ انتہائی بغض اور عداوت خود بخود ان کے منہ سے ظاہر ہورہی ہے اور جو عداوت ان کے سینوں میں مخفی اور پوشیدہ ہے وہ تمہارے خواب وخیال سے بھی کہیں زیادہ ہے۔😑 مرزاقادیانی نے نصاریٰ کے الزام کے بہانہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں اپنے دل کی عداوت دل کھول کر نکالی جس کے تصور سے بھی کلیجہ شق ہوتا ہے۔ 👍…پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ‘‘ فرمایا۔ یعنی انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے ملعون اور مغضوب ہوئے اور اس آیت میں: ’’وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ‘‘ فرمایا۔ یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی طرح حضرت مسیح واقع میں مقتول ہوئے تھے تو جس طرح پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں: ’’وقتلہم وصلبہم المسیح عیسٰی ابن مریم رسول اللّٰہ‘‘ فرماتے۔ پہلی آیت میں لعنت کا سبب قتل انبیاء ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں لعنت کا یہ سبب ان کا ایک قول بتلایا۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص یہ کہے کہ مسیح ابن مریم مقتول اور مصلوب ہوئے وہ شخص بلاشبہ ملعون اور مغضوب ہے۔ نیز اس آیت میں حضرت مسیح کے دعویٰ قتل کو بیان کر کے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا اور انبیاء سابقین کے قتل کو بیان کر کے ’’بل رفعہم اللّٰہ‘‘ نہیں فرمایا۔ حالانکہ قتل کے بعد ان کی ارواح طیبہ آسمان پر اٹھائی گئیں۔ ثابت ہوا کہ مسیح کے رفع جسمانی کا بیان ہے نہ کہ رفع روح کا۔ ⭐…اس مقام پر حق جل شانہ نے دو لفظ استعمال فرمائے۔ ایک ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ جس میں قتل کی نفی فرمائی۔ دوسرا ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی فرمائی۔ اس لئے کہ اگر فقط ’’وَمَا قَتَلُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں۔ لیکن صلیب پر چڑھائے گئے ہوں اور علیٰ ہذا اگر فقط ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے صلیب تو نہ دئیے گئے ہوں۔ لیکن قتل کر دئیے گئے ہوں۔ علاوہ ازیں بعض مرتبہ یہود ایسا بھی کرتے تھے کہ اوّل قتل کرتے اور پھر صلیب پر چڑھاتے۔ اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ایک حرف نفی پر اکتفاء نہ فرمایا۔ یعنی ’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ‘‘ نہیں فرمایا ہے بلکہ حرف نفی یعنی کلمہ ’’ما‘‘ کو ’’قتلوا ‘‘اور ’’صلبوا‘‘ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ’’ما قتلوہ‘‘ اور پھر ’’ما صلبوہ‘‘ فرمایا تاکہ ہر ایک کی نفی اور ہر ایک کا جداگانہ مستقلاً رد ہو جائے اور خوب واضح ہو جائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے اور نہ قتل کر کے صلیب پر لٹکائے گئے۔ دشمنوں نے ایڑی چوٹی کا سارا زور ختم کر دیا، مگر سب بے کار گیا۔ قادر وتوانا جس کو بچانا چاہے اسے کون ہلاک کر سکتا ہے؟
✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️۔۔ 👍🏻👍🏻بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کی تفسیر جیسا کہ شب معراج میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۴۷۱، باب ذکر ادریس علیہ السلام) میں ہے ’’ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء‘‘ یہ آیت رفع جسمی کے بارے میں نص صریح ہے کہ حق جل شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ اور صحیح اور سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ اب ہم اس کے دلائل اور براہین ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیں۔👍👍👍 😶😶😶…یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ: ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ’’مَاقَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔ ۔ 😶😶😶😶…دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں اس کی تردید کی گئی لہٰذا ’’بل رفعہ‘‘ سے جسم ہی مراد ہوگا۔
👍👍👍👍بل کی بحث اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ’’ماقبل‘‘ اور ’’مابعد‘‘ میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ ’’وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء:۲۶)‘‘ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (مؤمنون:۷۰)‘‘ {یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات۔} مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی منجانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہے وہ مرفوعیت الی اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہرہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہو جاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اور درجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’کما قال تعالٰی وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح:۴)‘‘ {اور بلند کیا ہم نے ذکر تیرا۔} اور ’’یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ:۱۱)‘‘ {اﷲ بلند کرے تگا ان کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم ان کے درجے۔} یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لیا۔ 🌹قتل سے قبل رفع جسمانی 🌹اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ’’رفع الی السماء‘‘ باعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ ’’بل جآء ہم بالحق‘‘ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔ ۳…جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہو گی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندیٔ رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’کما قال تعالیٰ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ (البقرہ:۶۳)‘‘ {اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو۔} ’’اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا (الرعد:۲)‘‘ {اﷲ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو۔} ’’وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ (البقرہ:۱۲۷)‘‘ {اور یاد کر جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل۔} ’’وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ (یوسف:۱۰۰)‘‘ {اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔} ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام میں مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ ہم نے آپ علیہ السلام کا ذکر بلند کیا اور ’’وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (الزخرف:۳۲)‘‘ {اور بلند کر دئیے درجے بعض کے بعض پر۔} اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید مذکور ہے....
✍️✍️✍️خلاصۂ کلام یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔ ۴…اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا کہ اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہ‘‘ میں ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے حاصل نہ تھا بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور ’’وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالاْٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۵)‘‘ {مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اﷲ کے مقربوں میں۔} کے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا یعنی رفع جسمی اور رفع عزت ومنزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔ ۵…یہ کہ رفع کا لفظ قرآن کریم میں صرف دو پیغمبروں کے لئے آیا ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے ادریس علیہ السلام کے لئے۔ ’’کما قال تعالٰی وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم:۵۶،۵۷)‘‘ {اور مذکور تذکرہ کتاب میں ادریس کا وہ تھا سچا نبی اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر۔} ادریس علیہ السلام کا رفع جسمانی کا مفصل تذکرہ تفاسیر میں مذکور ہے۔ (روح المعانی ج۵ ص۱۸۷، خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۶۷،۱۶۸، ج۱ ص۱۷۴، تفسیر کبیر ج۵ ص۵۴۵، ارشاد الساری ج۵ ص۳۷۰، فتح الباری ج۱۳ ص۲۲۵، مرقات ج۵ ص۲۲۴، معالم التنزیل ج۳ ص۷، فی عمدۃ القاری ج۷ ص۳۲۷، القول الصحیح بانہ رفع وہوحی ودرمنثور ج۴ ص۲۴۶، وفی التفسیر ابن جریر ج۱۶ ص۶۳) ان اللّٰہ رفعہ وہو حی الٰی السماء۔ الرابعۃ وفی الفتوحات المکیۃ (ج۳ ص۳۴۱) والیواقیت الجواہر (ج۲ ص۲۴) فاذا انا بادریس بجسمہ فانہ مامات الٰی الآن بل رفعہ اللّٰہ مکانا علیا وفی الفتوحات (ج۲ ص۵) ادریس علیہ السلام بقی حیا بجسدہٖ واسکنہ اللّٰہ الٰی السماء الرابعۃ) لہٰذا تمام انبیاء کرام میں انہیں دو پیغمبروں کو رفع کے ساتھ کیوں خاص کیاگیا؟ رفع درجات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔ ۶…’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ اور ’’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا‘‘ اور ’’بَلْ رَّفَعَہُ‘‘ میں تمام ضمائر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں جن کو مسیح اور ابن مریم اور رسول اﷲ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ اور مسیح اور ابن مریم اور رسول یہ جسم معین اور جسد خاص کے نام اور لقب ہیں۔ روح کے اسماء اور القاب نہیں۔ اس لئے کہ جب تک روح کا تعلق کسی بدن اور جسم کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک وہ روح کسی اسم کے ساتھ موسوم اور کسی لقب کے ساتھ ملقب نہیں ہوتی۔ ’’وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَتَہُمْ (الاعراف:۱۷۲)‘‘ {اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو۔} ’’وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم الارواح جنود مجندۃ الحدیث‘‘ (بخاری ج۱ ص۴۶۹، باب الارواح جنود مجندۃ کنزالعمال ج۹ ص۲۳، حدیث:۲۴۷۴۱) ۷…یہ کہ یہود کی ذلت ورسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت ورفعت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
Meray bahi har admi faut hunay k baad Asmaan par hi jata hai ....jub Allah ne kisi ku apnai pass uthayee janai ku khas Quraan mai kaha nah wu katal huai na saleeb pai charhai gaye that means in quraan Allah pak is baat pai zur daal rahay hain k Hazrat eesa ku apnai pass uthana aam insaanon ki rohoon ku uthanai jeisa nahi bulkay khas tha.......aur wu khas yehi tha k Hazrat Eesa ku bama roh o jism apnai pass utha liya.....werna kya zarurat thi k Hazrat eesa k wakai ku quraan main peesh karna 124000 paighambar ai aur gayee kisi k barai main aisa nahi farmaya Allah ne ....tu Hazrat eesa hi ka kyun khas biyaan hua
Allah sab ko hidayat de. Ap mirza qadiani ki kitabein parhen jis me us ne khud ko khuda, khuda ka beta or nabi s.a.w kaha ha. Wo apni kitabo se jhota sabit jota ha. Barae meharbani us ki kitabon ko parhe aankhe band kr k yaqeen na kre. Shukrya.
👍🏻حیات عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی دلیل✍️ ❤️’’قَالَ اللّٰہُ عَزِّوَجَلّ فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِج وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُط مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (نساء:۱۵۵تا۱۵۸)‘‘ ’’ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اﷲ کی آیتوں سے، اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق، اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے سو یہ نہیں بلکہ اﷲ نے مہر کر دی ان کے دل پر کفر کے سبب، سو ایمان نہیں لاتے مگر کم، اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند) ◾:اﷲتعالیٰ ان کے قول کی تکذیب فرماتا ہے کہ یہودیوں نے نہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا یہود جو مختلف باتیں اس بارہ میں کہتے ہیں اپنی اپنی اٹکل سے کہتے ہیں۔ اﷲ نے ان کو شبہ میں ڈال دیا۔ خبر کسی کو بھی نہیں۔ واقعی بات یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اﷲتعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا۔ حق تعالیٰ نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کر دی جب باقی لوگ گھر میں گھسے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کر دیا۔ پھر خیال آیا تو کہنے لگے کہ اس کا چہرہ تو مسیح کے چہرہ کے مشابہ ہے اور باقی بدن ہمارے ساتھی کا معلوم ہوتاہے۔ کسی نے کہا کہ یہ مقتول مسیح ہے تو وہ آدمی کہاں گیا اور ہمارا آدمی ہے تو مسیح کہاں ہے۔ اب صرف اٹکل سے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ علم کسی کو بھی نہیں حق یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مقتول نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر اﷲ نے اٹھالیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا۔ (تفسیر عثمانی) (ربط) حق جل شانہ نے ان آیات شریفہ میں یہود بے بہبود کے ملعون اور مغضوب اور مطرود ومردود ہونے کے کچھ وجوہ واسباب ذکر کئے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ پس ہم نے یہود کو متعدد وجوہ کی بناء پر مورد لعنت وغضب بنایا۔ (۱)نقض عہد کی وجہ سے۔ (۲)اور آیات الٰہی کی تکذیب اور انکار کی وجہ سے۔ (۳)اور خدا کے پیغمبروں کو بے وجہ محض عناد اور دشمنی کی بناء پر قتل کرنے کی وجہ سے۔ (۴)اور اس قسم کے متکبرانہ کلمات کی وجہ سے کہ مثلاً ہمارے قلوب علم اور حکمت کے ظرف ہیں۔ ہمیں تمہاری ہدایت اور ارشاد کی ضرورت نہیں۔ ان کے قلوب علم اور حکمت اور رشد وہدایت سے اس لئے بالکل خالی ہیں کہ اﷲ نے ان کے عناد اور تکبر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ جس کی وجہ سے قلوب میں جہالت اور ضلالت بند ہے۔ اوپر سے مہر لگی ہوئی ہے۔ اندر کا کفر باہر نہیں آسکتا اور باہر سے کوئی رشد اور ہدایت کا اثر اندر نہیں داخل ہوسکتا۔ (پس اس گروہ میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں مگر کوئی شاذ ونادر جیسے عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن سلام اور ان کے رفقاء) (۵)اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر وعداوت کی وجہ سے۔ (۶)اور حضرت مریم علیہ السلام پر عظیم بہتان لگانے کی وجہ سے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اہانت اور تکذیب کو بھی مستلزم ہے۔ اہانت تو اس لئے کہ کسی کی والدہ کو زانیہ اور بدکار کہنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص ولد الزنا ہے اور العیاذ باﷲ نبی کے حق میں ایسا تصور بھی بدترین کفر ہے اور تکذیب اس طرح لازم آتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے حضرت مریم علیہا السلام کی برأت اور نزاہت ثابت ہوچکی ہے اور تہمت لگانا برأت اور نزاہت کا صاف انکار کرنا ہے۔ (۷)اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ جو بطور تفاخر کہتے تھے کہ ہم نے مسیح بن مریم جو رسول اﷲ ہونے کے مدعی تھے ان کو قتل کر ڈالا۔ نبی کا قتل کرنا بھی کفر ہے بلکہ ارادۂ قتل بھی کفر ہے اور پھر اس قتل پر فخر کرنا یہ اس سے بڑھ کر کفر ہے اور حالانکہ ان کا یہ قول کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کر ڈالا۔ بالکل غلط ہے ان لوگوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا۔ لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ حضرت مسیح کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ سب شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کا کوئی صحیح علم اور صحیح معرفت نہیں۔ سوائے گمان کی پیروی کے کچھ بھی نہیں۔ خوب سمجھ لیں کہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شبیہ اور ہم شکل بنا دیا اور حضرت عیسیٰ سمجھ کر اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا اور اسی وجہ سے یہود کو اشتباہ ہوا اور پھر اس اشتباہ کی وجہ سے اختلاف ہوا اور یہ سب اﷲ کی قدرت اور حکمت سے کوئی بعید نہیں۔ بے شک اﷲتعالیٰ بڑے غالب اور حکمت والے ہیں کہ اپنی قدرت اور حکمت سے نبی کو دشمنوں سے بچا لیا اور زندہ آسمان پر اٹھایا اور ان کی جگہ ایک شخص کو ان کے ہم شکل بناکر قتل کرایا اور تمام قاتلین کو قیامت تک اشتباہ اور اختلاف میں ڈال دیا۔
......✍️ یہ آیات شریفہ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمی میں نص صریح ہیں۔✌🏻✌🏻 ☝️…ان آیات میں یہود بے بہبود پر لعنت کے اسباب کو ذکر فرمایا ہے۔ ان میں ایک سبب یہ ہے: ’’وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا‘‘ یعنی حضرت مریم علیہا السلام پر طوفان اور بہتان لگانا۔ اس طوفان اور بہتان عظیم میں مرزاقادیانی کا قدم یہود سے کہیں آگے ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں حضرت مریم علیہا السلام پر جو بہتان کا طوفان برپا کیا ہے یہود کی کتابوں میں اس کا چالیسواں حصہ بھی نہ ملے گا۔ ✌️…آیات کا سیاق وسباق بلکہ سارا قرآن روز روشن کی طرح اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ یہود بے بہبود کی ملعونیت اور مغضوبیت کا اصل سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عداوت اور دشمنی ہے۔ مرزاقادیانی اور مرزائی جماعت کی زبان اور قلم سے حضرت مسیح علیہ السلام کے بغض اور عداوت کا جو منظر دنیا نے دیکھا ہے وہ یہود کے وہم وگمان سے بالا اور برتر ہے۔ مرزاقادیانی کے لفظ لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دشمنی ٹپکتی ہے۔ ’’قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ (اٰل عمران:۱۱۸)‘‘ انتہائی بغض اور عداوت خود بخود ان کے منہ سے ظاہر ہورہی ہے اور جو عداوت ان کے سینوں میں مخفی اور پوشیدہ ہے وہ تمہارے خواب وخیال سے بھی کہیں زیادہ ہے۔😑 مرزاقادیانی نے نصاریٰ کے الزام کے بہانہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں اپنے دل کی عداوت دل کھول کر نکالی جس کے تصور سے بھی کلیجہ شق ہوتا ہے۔ 👍…پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ‘‘ فرمایا۔ یعنی انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے ملعون اور مغضوب ہوئے اور اس آیت میں: ’’وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ‘‘ فرمایا۔ یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی طرح حضرت مسیح واقع میں مقتول ہوئے تھے تو جس طرح پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں: ’’وقتلہم وصلبہم المسیح عیسٰی ابن مریم رسول اللّٰہ‘‘ فرماتے۔ پہلی آیت میں لعنت کا سبب قتل انبیاء ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں لعنت کا یہ سبب ان کا ایک قول بتلایا۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص یہ کہے کہ مسیح ابن مریم مقتول اور مصلوب ہوئے وہ شخص بلاشبہ ملعون اور مغضوب ہے۔ نیز اس آیت میں حضرت مسیح کے دعویٰ قتل کو بیان کر کے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا اور انبیاء سابقین کے قتل کو بیان کر کے ’’بل رفعہم اللّٰہ‘‘ نہیں فرمایا۔ حالانکہ قتل کے بعد ان کی ارواح طیبہ آسمان پر اٹھائی گئیں۔ ثابت ہوا کہ مسیح کے رفع جسمانی کا بیان ہے نہ کہ رفع روح کا۔ ⭐…اس مقام پر حق جل شانہ نے دو لفظ استعمال فرمائے۔ ایک ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ جس میں قتل کی نفی فرمائی۔ دوسرا ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی فرمائی۔ اس لئے کہ اگر فقط ’’وَمَا قَتَلُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں۔ لیکن صلیب پر چڑھائے گئے ہوں اور علیٰ ہذا اگر فقط ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے صلیب تو نہ دئیے گئے ہوں۔ لیکن قتل کر دئیے گئے ہوں۔ علاوہ ازیں بعض مرتبہ یہود ایسا بھی کرتے تھے کہ اوّل قتل کرتے اور پھر صلیب پر چڑھاتے۔ اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ایک حرف نفی پر اکتفاء نہ فرمایا۔ یعنی ’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ‘‘ نہیں فرمایا ہے بلکہ حرف نفی یعنی کلمہ ’’ما‘‘ کو ’’قتلوا ‘‘اور ’’صلبوا‘‘ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ’’ما قتلوہ‘‘ اور پھر ’’ما صلبوہ‘‘ فرمایا تاکہ ہر ایک کی نفی اور ہر ایک کا جداگانہ مستقلاً رد ہو جائے اور خوب واضح ہو جائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے اور نہ قتل کر کے صلیب پر لٹکائے گئے۔ دشمنوں نے ایڑی چوٹی کا سارا زور ختم کر دیا، مگر سب بے کار گیا۔ قادر وتوانا جس کو بچانا چاہے اسے کون ہلاک کر سکتا ہے؟
✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️۔۔ 👍🏻👍🏻بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کی تفسیر جیسا کہ شب معراج میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۴۷۱، باب ذکر ادریس علیہ السلام) میں ہے ’’ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء‘‘ یہ آیت رفع جسمی کے بارے میں نص صریح ہے کہ حق جل شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ اور صحیح اور سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ اب ہم اس کے دلائل اور براہین ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیں۔👍👍👍 😶😶😶…یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ: ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ’’مَاقَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔ ۔ 😶😶😶😶…دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں اس کی تردید کی گئی لہٰذا ’’بل رفعہ‘‘ سے جسم ہی مراد ہوگا۔
👍👍👍👍بل کی بحث اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ’’ماقبل‘‘ اور ’’مابعد‘‘ میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ ’’وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء:۲۶)‘‘ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (مؤمنون:۷۰)‘‘ {یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات۔} مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی منجانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہے وہ مرفوعیت الی اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہرہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہو جاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اور درجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’کما قال تعالٰی وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح:۴)‘‘ {اور بلند کیا ہم نے ذکر تیرا۔} اور ’’یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ:۱۱)‘‘ {اﷲ بلند کرے تگا ان کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم ان کے درجے۔} یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لیا۔ 🌹قتل سے قبل رفع جسمانی 🌹اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ’’رفع الی السماء‘‘ باعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ ’’بل جآء ہم بالحق‘‘ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔ ۳…جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہو گی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندیٔ رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’کما قال تعالیٰ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ (البقرہ:۶۳)‘‘ {اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو۔} ’’اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا (الرعد:۲)‘‘ {اﷲ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو۔} ’’وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ (البقرہ:۱۲۷)‘‘ {اور یاد کر جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل۔} ’’وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ (یوسف:۱۰۰)‘‘ {اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔} ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام میں مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ ہم نے آپ علیہ السلام کا ذکر بلند کیا اور ’’وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (الزخرف:۳۲)‘‘ {اور بلند کر دئیے درجے بعض کے بعض پر۔} اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید مذکور ہے....
✍️✍️✍️خلاصۂ کلام یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔ ۴…اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا کہ اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہ‘‘ میں ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے حاصل نہ تھا بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور ’’وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالاْٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۵)‘‘ {مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اﷲ کے مقربوں میں۔} کے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا یعنی رفع جسمی اور رفع عزت ومنزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔ ۵…یہ کہ رفع کا لفظ قرآن کریم میں صرف دو پیغمبروں کے لئے آیا ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے ادریس علیہ السلام کے لئے۔ ’’کما قال تعالٰی وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم:۵۶،۵۷)‘‘ {اور مذکور تذکرہ کتاب میں ادریس کا وہ تھا سچا نبی اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر۔} ادریس علیہ السلام کا رفع جسمانی کا مفصل تذکرہ تفاسیر میں مذکور ہے۔ (روح المعانی ج۵ ص۱۸۷، خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۶۷،۱۶۸، ج۱ ص۱۷۴، تفسیر کبیر ج۵ ص۵۴۵، ارشاد الساری ج۵ ص۳۷۰، فتح الباری ج۱۳ ص۲۲۵، مرقات ج۵ ص۲۲۴، معالم التنزیل ج۳ ص۷، فی عمدۃ القاری ج۷ ص۳۲۷، القول الصحیح بانہ رفع وہوحی ودرمنثور ج۴ ص۲۴۶، وفی التفسیر ابن جریر ج۱۶ ص۶۳) ان اللّٰہ رفعہ وہو حی الٰی السماء۔ الرابعۃ وفی الفتوحات المکیۃ (ج۳ ص۳۴۱) والیواقیت الجواہر (ج۲ ص۲۴) فاذا انا بادریس بجسمہ فانہ مامات الٰی الآن بل رفعہ اللّٰہ مکانا علیا وفی الفتوحات (ج۲ ص۵) ادریس علیہ السلام بقی حیا بجسدہٖ واسکنہ اللّٰہ الٰی السماء الرابعۃ) لہٰذا تمام انبیاء کرام میں انہیں دو پیغمبروں کو رفع کے ساتھ کیوں خاص کیاگیا؟ رفع درجات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔ ۶…’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ اور ’’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا‘‘ اور ’’بَلْ رَّفَعَہُ‘‘ میں تمام ضمائر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں جن کو مسیح اور ابن مریم اور رسول اﷲ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ اور مسیح اور ابن مریم اور رسول یہ جسم معین اور جسد خاص کے نام اور لقب ہیں۔ روح کے اسماء اور القاب نہیں۔ اس لئے کہ جب تک روح کا تعلق کسی بدن اور جسم کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک وہ روح کسی اسم کے ساتھ موسوم اور کسی لقب کے ساتھ ملقب نہیں ہوتی۔ ’’وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَتَہُمْ (الاعراف:۱۷۲)‘‘ {اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو۔} ’’وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم الارواح جنود مجندۃ الحدیث‘‘ (بخاری ج۱ ص۴۶۹، باب الارواح جنود مجندۃ کنزالعمال ج۹ ص۲۳، حدیث:۲۴۷۴۱) ۷…یہ کہ یہود کی ذلت ورسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت ورفعت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۶﴾ Translation: When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ. [3:56] Proof: The word mutawaffeeka means “I will cause you to die”. Whenever God is the fa’il (subject) and man is the maf’ul (object), it always refers to death. It means that God takes the soul of the man. In this case, it applies to Jesus(as) which in turn means that he has passed away. Here are two examples of the usage of the word tawaffaa, meaning death: وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۷﴾ Translation: And if We show thee in thy lifetime the fulfilment of some of the things with which We have threatened them, thou wilt know it; or if We cause thee to die before that, then to Us is their return, and thou wilt see the fulfilment in the next world; and Allah is Witness to all that they do. [10:47]
قرآن میں دیکھتے ہیں کہ اللہ نے کیا فرمایا ہے اس "رفع" کے لفظ کے ساتھ: اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ( سورہ فاطر 35:10) اُسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ( سورہ المجادلۃ 58:11) اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطا کیا گیا ہے وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ ( سورہ الأعراف 7:176) اور اگر ہم چاہتے تو اُن (آیات) کے ذریعہ ضرور اس کا رفع کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا( سورہ مریم 19:57) اور ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا تھا۔ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ( سورہ عبس 80:14) جو بلند و بالا کئے ہوئے، بہت پاک رکھے گئے ہیں۔ ان تمام آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ "رفع" جب اللہ کی طرف سے بولا جائے تو اس کے معنی مقام کا رفع ہے نہ کہ جسم سمیت اٹھانا۔ اور اگر ہم قرآن کی بات چھوڑ کر نعوذ باللہ آپ کی بات مان بھی لیں تو اللہ تو ہر جگہ ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانا کیوں ضروری تھا، یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ (نتیجہ): ان تمام آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ (اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ) تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو "وفات" دے گا اوراس کا "مقام بلند" کرے گا، کیونکہ ہر نبی اور نیک بندے کو اللہ وفات دے کر اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے - آخر میں یہ کہوں گا کہ اس آیت کو جب اس آیت سے ملا کر پڑھا جائے، جس میں عیسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا کہ نہ تو ان کو صلیب دیا گیا اور نہ ہی ان کو قتل کیا گیا، تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ اپنی طبعی عمر گزار ے اور ان کی روح قبض کر لی گئی، کیونکہ اگر ان کی روح قبض نہیں کی گئی تو اس کا مطلب ہے وہ زندہ ہیں لیکن ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰٮۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ(سورہ الصف 61:6) اور (یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! یقیناً میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں جو تورات میں سے میرے سامنے ہے اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ پس جب وہ کھلے نشانوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا یہ تو ایک کھلا کھلا جادو ہے۔ اس آیت میں مکمل طور پر واضح بات کی گئی ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کے بعد حضرت محمد ﷺ کے آنے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے ، اب اگر عیسیٰ علیہ السلام اگر زندہ ہیں تو نعوذ باللہ کتنی بڑی گستاخی ہو گی کہ عیسیٰ علیہ السلام جھوٹے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولا اور عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کے باوجود قرآن میں جھوٹی آیت ڈال کر حضرت محمد ﷺ کو اس دنیا میں بھیج دیا یا پھر یہ سچ ہے کی عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور اللہ تعالیٰ سچے اور قرآن سچا اور حضرت محمد ﷺ صحیح وقت پر عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آگئے ہیں- اب اس آیت اور دوسری تمام آیات کو ملا کر پڑھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ طبعی زندگی گزار کر فوت ہو گئے اور مرنے کے بعد ان کی روح کا رفع ہو گیا جیسے تمام انبیاء اور نیک لوگوں کے درجات بلند کرنے کے لیے ہوتا ہے اور اب جو آئے گا وہ ان پرانے عیسٰی علیہ السلام کی خصوصیات کے ساتھ نیا عیسیٰ ابن مریم اسی امت محمدیہ ﷺ میں پیدا ہو گا- اور وہ پیدا ہو گیا ہے اور اس کا نام ہے مرزا غلام احمدعلیہ الصلوۃٰ والسلام-
*سوشل میڈیا کے اس دور میں کتابوں کے زریعے بیوقوف بنانا آسان نہیں ھے ھر ھاتھ میں فون ھے جس میں ھر طرح کی معلومات ھیں اچھی بھی بری بھی اب ھم نے اپنے دل سے فتویٰ لیں*
مولوی صاحب کیا باقی انبیاء کی روحیں کہاں گئیں ہیں؟ مولوی صاحب جس حدیث کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ یہاں پیش بھی کر دیں مکمل حوالہ کے ساتھ! کبھی نہیں کریں گے کیونکہ کوئی مستند حدیث ہے ہی نہیں!
یقین جانیے عیسائیوں کا خدا مر چکا ھے اور ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں کیونکہ آپ کا دیں قیامت تک زندہ ھے۔ حضرت عیسٰی ع کو پیارے آقا نے تمام فوت شدہ انبیاء کے ساتھ معراج کی رات دیکھا۔ اب ظاہر ھے زندہ انسان فوت شدہ انبیاء میں کیا کر رھا تھا۔ پھر 2000 سال سے واپس بھی نہی آ رھا۔ کچھ عقل سے کام لیں۔ پیارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور عیسائیوں کا خدا فوت ھو چکے ہیں۔
بلکل غلط بات ھے بلکہ مرزاصاحب کہتے ہیں میں بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ سمجھتا تھا۔مگر جب اللہ تعالی نے مجھے سمجھایا تب مجھ پر یہ سارے راز کھلے اب اگر اللہ تعالی کسی کو کہتا ھے یہ مسئلہ یوں ھے تو پھر کوئی مولوی یہ کہتا پھرے کہ میں یہ سجھتا ھوں تو یہ اسکی بھول اور غلطی ھے۔اگر حدیث سے یہ ثابت ھے کہ عیسی علیہ السلام نازل ھونگے تو جاہلو اللہ تعالی تو سب انبیاء کے لئے نزول کا لفظ استعمال کرتا ھے۔اسکے علاوہ قرآن کریم میں ھے۔ھم نے لوھا نازل کیا۔چوپائے یعنی دودھ دینے والے جانور نازل کئے تو مجھے کوئی ایک گائے بھینس بکری یا لکھے کی راڈ آسمان سےاترتی دکھا دو۔کچھ خدا کا خوف کرو جب مرزاصاحب نے یہ کہہ دیا کہ مجھے یہ سب بعد میں اللہ تعالی نے سمجھایا تو کیا مولوی افضل ہیں یا اللہ تعالی خود۔قرآن کے متعلق بھی لفظ نازل استعمال حوا ھے۔یاد کرو جب نبی پاک کو کفار نے کہا تھا کہ ہمارے سامنے آسمان پر جاو اور کتاب لیکر آو ھم تب مانینگے۔تو نبیوں کے سردار۔ص۔ع۔و۔نے فرمایا تھا کہ میں تو ایک بشر رسول ھوں۔مولویو خدا سے ڈر و نہ لوگوں کو گمراہ کرو۔
Acha tow ALLAH paak joh fermaatay hain k na yahoodiyo nay HAZRAT EESA (A.S) KO QATAL KIYA NA NUKSAAN POHONCHAAYA awr tum kehtay ho k woh naazil nahee hongay tow HAZRAT EESA (A.S) gaaye kahaan phir ?
مولوی صاحب کیا باقی انبیاء کی روحیں کہاں گئیں ہیں؟ مولوی صاحب جس حدیث کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ یہاں پیش بھی کر دیں مکمل حوالہ کے ساتھ! کبھی نہیں کریں گے کیونکہ کوئی مستند حدیث ہے ہی نہیں! مولوی صاحب اگر ہمت ہے تو کسی قادیانی کو بھی آن لائن لے لیں تاکہ دودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی ہو جائے!
مولوی صاحب اللہ کی طرف بھی بتا دیں! اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں ہر طرف ہوں کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں اللہ موجُود نہیں! جہاں عیسی سلام تھے اللہ تو وہاں بھی موجُود تھا! قُرآن و حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ اللہ نے عیسی علیہ کو مادی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اُٹھا لیا! ہمت کریں وہ آیت اور حدیث یہاں لگا دیں!
Yes! Even you provide them with proof they will not understand. May all the qadianis able to read the mirza's books in which he claimed to be khuda, khuda ka beta. May Allah gives them hidayah. Ameen.
@@Vediohub. tumhary broon ki zubab bhi aiesy hy zuban nasl ka pta deti ha ok hadees sharif main tumhary mullann ko bnndr suvarr kaha ha tera drja kon sa ha
ہے کوئی حلالی مرزائی جس کی ماں نے اس کو حلال حمل سے جنم دیا ہو جو میرے سوالوں کا جواب دے ورنہ مرزے قادیاں والے کی قبر اور مرزے مسرور کے منہ پر ٹٹی مل کر مسلمان ہو جائے. 1 جماعت مرزائیہ یورپ میں عیسائیوں کو یہ کیوں نہیں بتاتی کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وہ انتظار کر رہے ہیں مرزے قادیانی کذاب نے اس کو نہ صرف مار دیا ہے بلکہ خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور ٹٹی میں مر بھی گیا ہے؟ 2 اگر مرزا قادیانی کذاب اللہ کا برگزیدہ اور فرستادہ بندہ تھا تو ٹٹی میں کیوں مرا ؟ 3 کیا اللہ کے برگزیدہ بندے مرزے قادیانی کذاب کی طرح ٹٹیوں میں مرتے ہیں اور کیا ان کے جنازے پر مرزے قادیانی کذاب کے جنازے کی طرح ٹٹیاں پھینکی جاتی ہیں؟مرتے وقت مرزے قادیانی کذاب کے پچھواڑے اور منہ سے ٹٹی نکل رہی تھی. 4 اگر مرزا قادیانی کذاب کے بقول حکومت برطانیہ اور عیسائی ہی دجال تھے تو مرزے کذاب نے ان کا خاتمہ کیوں نہ کیا اور مرزا مسرور کذاب اس دجال کی گود میں کیوں بیٹھا ہے؟ 5 اگر دجال اسی طرح دنیا میں موجود ہے تو مرزا قادیاں والا کذاب نے اپنی زندگی میں کیا پہاڑ توڑا؟ 6 مرزا قادیاں والا کذاب کو ہونے والا یہ الہام کہ سارا ہندوستان عنقریب مرزائی ہو جائے گا.120 سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں پورا نہیں ہوا؟کیا اس سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟ 7 مرزا کذاب کو اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے یہ الہام کیا کہ قادیان بہت بڑا شہر بن جائے گا اور اس کو وہ عروج حاصل ہو گا جو آج تک کسی بھی شہر کو حاصل نہیں ہوا اور اس کی حدود لاہور تک پھیل جائیں گی. آج قادیان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں مرزائی کذاب اقلیت میں ہیں سارا ہندوستان مرزائی کرنا تو دور کی بات قادیان جو مرزائیوں کا روحانی مرکز ہے اس کی ساری آبادی ابتک مرزائی نہیں ہے کیوں؟ کیا اس بات سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟ 8 مرزا قادیاں والا کذاب کے بقول اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے اس پر وحی نازل کی کہ میں تیرا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دوں گا لیکن مرزائیوں کے مرکز قادیان اور ربوہ جن ملکوں میں ہیں وہاں اور خصوصاً پاکستان میں ان کو جوتیاں کیوں پڑ رہی ہیں؟ 9 جماعت مرزائیہ اگر واقعی خدائی جماعت ہے تو خدا نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہیں کی جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا رہا تھا.؟ 10 اگر جماعت مرزائیہ کذاب ہی مسلمانوں کا تہترواں فرقہ ہیں تو جماعت مرزائیہ کے فرقے محمودی، لاہوری، جنبہ ،ناصر سلطانی ،زاہد خان کا فرقہ یہ سب اپنے آپ کو اصل اور باحق اور دوسروں کو جہنمی، خنزیر اور جھوٹی جماعت کہتے ہیں. یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ جماعت مرزائیہ کذاب کا کون سا فرقہ اصل میں تہترواں ہے؟ 11 مرزائی کذاب انہی عیسائی اور یہودی حکومتوں کے پاس مدد کے لیے کیوں بھاگتے ہیں جن کو مرزا قادیاں والا خود دجال قرار دے چکا ہے؟ 12 مرزا قادیاں والا کذاب کی اولاد دین کی ترویج وترقی کے نام پر لیے گئے چندے کو اپنی ذات اور عیاشیوں پر کیوں صرف کرتی ہے؟ 13 اگر مرزائیت خدا کی اتنی ہی سچی جماعت ہے تو اب تک سارا یورپ اور ہندوستان جہاں ان کو تبلیغ کی ہر قسم کی آزادی ہے کیوں مرزائی نہیں ہوا؟ 14 مرزا قادیاں والا کذاب اور مرزا بشیر الدین محمود کذاب کے بقول نبوت کا سلسلہ جاری ہے تو پھر دوسرے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، عبدالغفار جنبے اور طاہر نسیم،ناصر سلطانی ،زاہد خان وغیرہ کو امت مرزائیہ نبی کیوں نہیں مانتی؟ 15 بقول امت مرزائیہ 1974 میں مسلمانوں کے 72 فرقوں نے ان کو علیحدہ کر دیا اور امت مرزائیہ کے خلاف فیصلہ ہو گیا. مرزائی مسلمانوں کے ان 72 فرقوں کے نام بتا دیں. 16.اگر مرزا قادیاں والا کذاب اپنے دعویٰ جات میں اتنا ہی سچا تھا تو جماعت مرزائیہ لوگوں کو تبلیغ کے وقت اس کے نبوت کے دعوے کو کیوں چھپاتی ہے؟ 17. حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں یا نہیں وہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے یا نہیں یہ اللہ اور اس کے سچے اور آخری نبی کا معاملہ ہے اس سارے معاملے سے مرزا قادیانی کذاب ابن چراغ بی بی ولد غلام مرتضیٰ کا کیا تعلق ہے؟ 18. محمدی بیگم کی بیش گوئی کے جھوٹے ہونے کے بعد مرزا قادیانی کذاب کے سچا ہونے کا کیا جواز ہے؟ 19. کیا مرزائی مرزے قادیانی کذاب کے مرد سے عورت اور پھر یلاش سے رجولیت کروا کر گابھن ہونے اور خود سے خود کو پیدا کرنے کے دعویٰ کے کو سچ مانتے ہیں؟ 20.. مرزائی نیک اعمال کی بجائے چندے کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں؟
3000 eyers se zinda Asman per mujod. Foods insani zindagi ki zaroriyat ka bara bi clayer krna chaye Asman per zindagi kase hai . Ur kisi Star ma han ya janat ma ?
مرزا کے بقول حضرت موسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہے تو وہ وہاں کیا کھاتے ہیں 😂؟؟؟؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو کھاتے ہونگے وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھاتے ہونگے۔۔۔۔😎
اگر مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے تو کب؟اگر دو ہزار سال قبل تو ۱۸۸۴ء میں تو وہ زندہ تھے۔😂 حوالہ یہ ہے۔ مرزاقادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر لکھا ہے کہ: ’’جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ دونوں باتوں میں سے کون سی سچی اور کون سی جھوٹی ہے؟ مرزاقادیانی کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ قادیانیو! تم کہتے ہو فوت ہوگئے۔ بتاؤ! مرزاقادیانی کی بات سچی ہے یا تمہاری؟ اگر مرزاقادیانی کی بات سچی ہے تو تم جھوٹے؟ اگر تمہاری بات سچی ہے تو مرزاقادیانی جھوٹا؟ تصفیہ مطلوب ہے؟
@@husainabuubaidah522hadayet ki rahy ilam se hi Aya zahir hoti han . New ijadat per bi sosch ilam QarAmad Amal hi hota hai .Allah sab per raham kre Ammen
@@imokhan3181 AGR HAZRAT ISA AS KI HAYAT KA QAYIIL HONA SHIRK HAI۔۔۔۔۔ TO HAZRAT MUSA AS KO ASMAN PR ZINDA KA AQIDA KYUN SHIRK NAHI???😀 حضرت عیسیٰ کے حیات فی السما ء کے منکر ہیں اور ادھر مرزا صاحب ایک اور نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حیات فی السماء کے بھی قائل ہیں 😀 👈مرزا لکھتا ہے "بلکہ حیات کلیم اللہ نص قرآن کریم سے ثابت ہے کیا تو نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شک نہ کریں ان کی ملاقات سے یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ آیت صریح ہے موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر ۔ اس لیے کہ رسو ل اللہ کی موسیٰ علیہ السلام سے (معراج میں ) ملاقات ہوئی اور مردے زندوں سے نہیں ملا کرتے ۔ ایسی آیات تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ان کی وفات کا ذکر ہے۔(حمامۃ البشریٰ ص ۵۵، خزائن ص ۲۲۱ ، ۲۲۲،ج ۷) یعنی حضرت عیسیٰ کو تو تمام نصوص قرآن و حدیث کو ایک طرف رکھ کر زندہ نہیں مانا جارہا ، کیونکہ یہاں اپنا جو مطلب ہے😜 اور یہ ہوائے نفس ہےکہ خود دعوہ مسیحیت کرنا ہے😂 اور حضرت موسیٰ کی حیات فی السماء کے قائل ایک دم سے مرزا ہو گئے؟ چہ خوب۔ اور یہ جو مرزا نے لکھا ہے کہ زندہ مردوں سے ملاقات نہیں کیا کرتے تو جناب اگر ایک زندہ انسان کا وفات یافہ روحوں میں شامل ہونا ثبوت وفات ہے تو پھر مرزا صاحب اپنی زندگی میں ہی مر چکے تھے 😂جو کہتے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 👇👇👇👇👇👇 سوال: مسیح کو آپ نے کس طور پر دیکھا ہے آیا جسمانی رنگ میں دیکھا ہے جواب۔ فرمایا کہ ہاں جسمانی رنگ میں اور عین حالت بیداری میں دیکھا ہے سوال : ہم نے بھی مسیح کو دیکھا ہے اور دیکھتے ہیں مگر وہ روحانی رنگ میں ہے کیا آپ نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں ۔ جواب۔۔۔ نہیں ہم نے ان کو جسمانی رنگ میں دیکھا ہے اور بیداری میں دیکھا ہے۔( ملفوضات ج ۱۰ ص ۳۲۴) 👍نیز یہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔۔۔ "میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا۔(تذکرہ، طبع دوم ۴۴۱، طبع سوم ۴۲۷ ، طبع چہارم ص ۳۴۹)"😂😂😂😂😂😂😂😅😅😅🤣🤣🤣🤣
@@imokhan3181 …مرزامحمود قادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح موعود باوجود مسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے۔ حالانکہ آپ کو اﷲتعالیٰ مسیح بنا چکا تھا۔ جیسا کہ براہین احمدیہ کے الہامات سے ثابت ہے۔ لیکن آپ کے اس فعل کو مشرکانہ نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ یہ ایک نبیوں کی سی احتیاط ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۴۲) نوٹ! قرآن کریم میں ہے کہ: ’’لا ینال عہدے الظٰلمین (بقرہ:۱۲۴)‘‘ یعنی یہ نبوت کا عہد ظالموں کو حاصل نہ ہوگا اور شرک تو سب سے بڑا ظلم ہے۔ ’’ان الشرک لظلم عظیم (لقمان:۱۳)‘‘ جب مرزاقادیانی سن بلوغ سے ۱۸۹۱ء تک ظالم مشرک حیات مسیح کے معتقد تھے تو اﷲتعالیٰ ایسے ظالم مشرک کو عہدہ نبوت کے لئے ہر گز پسند نہیں فرماتا اور پھر ایسے غبی کہ ۱۰سال وحی الٰہی کو جو مسیح موعود بناتی تھی نہ سمجھ سکے۔ بلکہ وحی الٰہی کی مخالفت کرتے رہے اور شرک میں مبتلا رہے۔ کوئی ایسا نبی نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ جو مشرک رہا ہو اور نہ ایسا غبی اور نہ صریح وحی الٰہی کی مخالفت کرنے والا۔ صاحبزادے نے اپنے نبی کی کیا اچھی احتیاط ظاہر فرمائی ہے۔ معاذاﷲ! نبی عقیدہ شرک سے مبرا ہوتے ہیں۔
Qur'an k ayat se sabit q nhi krte.... Janab aplog sirf zabani bat krte ho ... Mirza sb to wafate Masih pr 30 ayat dete hai .. kamazkam un ayat se zinda sabit kren ... Ahmadiyo ko Qur'an se galat sabit kren or 1 crore rupiye le jayen...
abay chutiye aqal se pedal Mirza Ghulam Qadiyani khinzeer harami k haram ki pedawar ye banda tum jese ghatia or khabees logo ko Quran se hi sabit karaha hai or Hadees bhi paish karaha hai tum log kufar se nikalne ki to karo Mirza Ghulam Qadiyani khinzeer paleet ki difa se hat te hi nahi sabot k ambaar lagay hue tum yaqeen ki himmat to lao q apne apko nuqsaan mai dalte ho. Muhammad Arabi (S.A) k daman chor kat is khinzeer Mirza Ghulam Qadiyani ka daman pakre hue hai jo voh kafir maloon tha harami
Aqal say andhay qadiyani ghor say suno... tum log sirf apni andhi taweelat k peechy chalty ho... aur jahan tak Taweelat ki bat hy to wo koi b kuch b ker k kuch b samjh sakta hy...
فرمان المسیح(جو اوپر سے آتا ھے۔وہ سب سے اوپر ھے۔جو زمین سے ھے وہ زمین ھی سے ھے اور زمین ھی کی کہتا ھے۔جو آسمان سے آتا ھے ۔وہ سب سے اوپر ھے۔انجیل یوحنا 31:3 اور 23:8 اس نے ان سے کہا تم نیچے کے ھو ۔میں اوپر کا ھوں۔تم دنیا کے ھو۔ میں دنیا کا نہیں ھوں )
ہے کوئی حلالی مرزائی جس کی ماں نے اس کو حلال حمل سے جنم دیا ہو جو میرے سوالوں کا جواب دے ورنہ مرزے قادیاں والے کی قبر اور مرزے مسرور کے منہ پر ٹٹی مل کر مسلمان ہو جائے. 1 جماعت مرزائیہ یورپ میں عیسائیوں کو یہ کیوں نہیں بتاتی کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وہ انتظار کر رہے ہیں مرزے قادیانی کذاب نے اس کو نہ صرف مار دیا ہے بلکہ خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور ٹٹی میں مر بھی گیا ہے؟ 2 اگر مرزا قادیانی کذاب اللہ کا برگزیدہ اور فرستادہ بندہ تھا تو ٹٹی میں کیوں مرا ؟ 3 کیا اللہ کے برگزیدہ بندے مرزے قادیانی کذاب کی طرح ٹٹیوں میں مرتے ہیں اور کیا ان کے جنازے پر مرزے قادیانی کذاب کے جنازے کی طرح ٹٹیاں پھینکی جاتی ہیں؟مرتے وقت مرزے قادیانی کذاب کے پچھواڑے اور منہ سے ٹٹی نکل رہی تھی. 4 اگر مرزا قادیانی کذاب کے بقول حکومت برطانیہ اور عیسائی ہی دجال تھے تو مرزے کذاب نے ان کا خاتمہ کیوں نہ کیا اور مرزا مسرور کذاب اس دجال کی گود میں کیوں بیٹھا ہے؟ 5 اگر دجال اسی طرح دنیا میں موجود ہے تو مرزا قادیاں والا کذاب نے اپنی زندگی میں کیا پہاڑ توڑا؟ 6 مرزا قادیاں والا کذاب کو ہونے والا یہ الہام کہ سارا ہندوستان عنقریب مرزائی ہو جائے گا.120 سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں پورا نہیں ہوا؟کیا اس سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟ 7 مرزا کذاب کو اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے یہ الہام کیا کہ قادیان بہت بڑا شہر بن جائے گا اور اس کو وہ عروج حاصل ہو گا جو آج تک کسی بھی شہر کو حاصل نہیں ہوا اور اس کی حدود لاہور تک پھیل جائیں گی. آج قادیان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں مرزائی کذاب اقلیت میں ہیں سارا ہندوستان مرزائی کرنا تو دور کی بات قادیان جو مرزائیوں کا روحانی مرکز ہے اس کی ساری آبادی ابتک مرزائی نہیں ہے کیوں؟ کیا اس بات سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟ 8 مرزا قادیاں والا کذاب کے بقول اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے اس پر وحی نازل کی کہ میں تیرا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دوں گا لیکن مرزائیوں کے مرکز قادیان اور ربوہ جن ملکوں میں ہیں وہاں اور خصوصاً پاکستان میں ان کو جوتیاں کیوں پڑ رہی ہیں؟ 9 جماعت مرزائیہ اگر واقعی خدائی جماعت ہے تو خدا نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہیں کی جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا رہا تھا.؟ 10 اگر جماعت مرزائیہ کذاب ہی مسلمانوں کا تہترواں فرقہ ہیں تو جماعت مرزائیہ کے فرقے محمودی، لاہوری، جنبہ ،ناصر سلطانی ،زاہد خان کا فرقہ یہ سب اپنے آپ کو اصل اور باحق اور دوسروں کو جہنمی، خنزیر اور جھوٹی جماعت کہتے ہیں. یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ جماعت مرزائیہ کذاب کا کون سا فرقہ اصل میں تہترواں ہے؟ 11 مرزائی کذاب انہی عیسائی اور یہودی حکومتوں کے پاس مدد کے لیے کیوں بھاگتے ہیں جن کو مرزا قادیاں والا خود دجال قرار دے چکا ہے؟ 12 مرزا قادیاں والا کذاب کی اولاد دین کی ترویج وترقی کے نام پر لیے گئے چندے کو اپنی ذات اور عیاشیوں پر کیوں صرف کرتی ہے؟ 13 اگر مرزائیت خدا کی اتنی ہی سچی جماعت ہے تو اب تک سارا یورپ اور ہندوستان جہاں ان کو تبلیغ کی ہر قسم کی آزادی ہے کیوں مرزائی نہیں ہوا؟ 14 مرزا قادیاں والا کذاب اور مرزا بشیر الدین محمود کذاب کے بقول نبوت کا سلسلہ جاری ہے تو پھر دوسرے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، عبدالغفار جنبے اور طاہر نسیم،ناصر سلطانی ،زاہد خان وغیرہ کو امت مرزائیہ نبی کیوں نہیں مانتی؟ 15 بقول امت مرزائیہ 1974 میں مسلمانوں کے 72 فرقوں نے ان کو علیحدہ کر دیا اور امت مرزائیہ کے خلاف فیصلہ ہو گیا. مرزائی مسلمانوں کے ان 72 فرقوں کے نام بتا دیں. 16.اگر مرزا قادیاں والا کذاب اپنے دعویٰ جات میں اتنا ہی سچا تھا تو جماعت مرزائیہ لوگوں کو تبلیغ کے وقت اس کے نبوت کے دعوے کو کیوں چھپاتی ہے؟ 17. حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں یا نہیں وہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے یا نہیں یہ اللہ اور اس کے سچے اور آخری نبی کا معاملہ ہے اس سارے معاملے سے مرزا قادیانی کذاب ابن چراغ بی بی ولد غلام مرتضیٰ کا کیا تعلق ہے؟ 18. محمدی بیگم کی بیش گوئی کے جھوٹے ہونے کے بعد مرزا قادیانی کذاب کے سچا ہونے کا کیا جواز ہے؟ 19. کیا مرزائی مرزے قادیانی کذاب کے مرد سے عورت اور پھر یلاش سے رجولیت کروا کر گابھن ہونے اور خود سے خود کو پیدا کرنے کے دعویٰ کے کو سچ مانتے ہیں؟ 20.. مرزائی نیک اعمال کی بجائے چندے کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں؟
App jis haqeeqat main jaty ho wo Bughaz aur keena hota hai.. haqeeqat naheen hoti.. jo ayat ap ny paish ki iss se kaisey sabit hua keh Hz issa Zinada asman per chaley gaye?? hahahhaha.. Allh kia sirf ooper ki hi terf hai?? jo shah-Rag se nazdeek hai wo kaun hai???
1) suna kya fir tumne ? 2) allah har jaga maojod hai lekin koi marta hai to ham kahte hai o allah se mil gaya kya pahle allah shahrag se zyada nazdeek nhi tha??
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذندہ ماننے والے قرآن کریم کو سمجھے نہیں ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین رحمت اللعالمین ہونے کے باوجود قبر میں دفن ہیں یہ کیسے ذندہ آسمان میں چلے گئے۔ قرآن کریم اللہ کا کتاب ہے' ۔ ہدایت انہیں ملتے ہیں جو متقی ہیں ۔ جو متقی نہیں ہیں وہ خود گمراہ ہیں اور امت مسلمہ کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ اور امت مسلمہ کو کہتے ہیں اللہ کے رسول قیامت کے دن امت کو بخشایی گے ۔ یہ تو معلوم ہونا چاہئے امت مسلمہ کے جہنمیوں کو قیامت دن بخشش دلوایں گے ۔یانی قیامت ہونے تک جہنم کا مزہ چکھ تے رہو گے ۔ ایک جماعت جنت کے اور۔جماعت احمدیہ ذندہ باد ۔
👍👍👍حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین میں مدفون ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بلندی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین کا انتخاب کرنا پستی کی دلیل نہیں۔ غرض یہ کہ کسی کا اوپر ہونا یا کسی کا نیچے ہونا اس سے عظمت یا تنقیص لازم نہیں آتی۔ کوئی اوپر ہو یا نیچے جس کی جو شان ہے وہ برقرار رہے گی۔ آسمان والوں کی زیادہ شان ہو اور زمین والوں کی کم، مرزائیوں کی یہ بات عقلاً ونقلاً غلط ہے۔ ✍️✍️✍️…فرشتے آسمانوں میں رہتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام زمین میں مدفون ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ فرشتے انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں۔ فرشتے آسمانوں پر ہیں اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم روضہ طیبہ میں۔ حالانکہ جبرائیل امین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲتعالیٰ نے زمین پر آباد کر کے عالم ملکوت کے سردار جبرائیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بنادیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا کر پھر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں زمین پر بھیج دے تویہ سب اس کے اختیار میں ہے۔
✍️✍️✍️…ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر مدینہ طیبہ کے بازار میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ جس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے ارشاد فرمایا کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تمہیں سواری اچھی ملی ہے۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اگر سواری اچھی ہے تو سوار بھی اچھا ہے۔ تو کیا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہونا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ اس طرح فتح مکہ کے موقع پر کعبہ شریف سے بتوں کو ہٹانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار ہوئے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟
✍️✍️✍️…صحابہ کرامi نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روضہ طیبہ میں دفن کیا۔ اس وقت صحابہ زمین کے اوپر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ کیا اس سے صحابہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونا لازم آتا ہے؟
✍️✍️✍️✍️…امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر کھڑے ہوکر سلام عرض کرتے ہیں۔ اس وقت امتی زمین پر ہوتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔ غرض یہ کہ اﷲ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شان بخشی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حال میں برقرار رہے گی۔ چاہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر کوئی سوار ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے کندھے پر سوار ہوں۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی رات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے کندھوں پر بیٹھ کرسواری کی۔
👍👍👍👍(بلا تشبیہ) موتی دریا کی تہہ میں ہوتے ہیں اور گھاس پھوس تنکے اور جھاگ سمندر کی سطح پر ہوتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تنکے یا جھاگ موتیوں سے افضل ہوں یا جیسے مرغی زمین پر ہوتی ہے لیکن کوا اور گدھ فضا میں اڑتے ہیں۔ ان کے فضا میں اڑنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوّا اور گدھ مرغی سے افضل ہوں یا جیسے رات کو آدمی سوتا ہے تو رضائی اس کے اوپر ہوتی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رضائی انسان سے افضل ہو، بادام کا سخت چھلکا اوپر ہوتا ہے اور مغز اندر تو اس سے لازم نہیں آتا کہ مغز سے چھلکا افضل ہو۔
قادیانیوں کی کسی کتاب کا مستند حوالہ نہیں دیا ۔برہین احمدیہ کی تو شاید تین چار جلدیں ھیں۔جلد نمبر اور صفحہ نمبر بتائیں جس میں براہین احمدیہ میں مرزا صاب نے حیات عیسیٰ کی کوئی دلیل دی ھے۔ بڑی مہربانی ھو گی۔
🤐🤐🤐🤐مرزاقادیانی بارہ برس تک کفر میں کیوں؟ 🔥🔥🔥…مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے: ’’ان اﷲ لا یترکنی علیٰ خطاء طرفۃ عین ویعصمنی من کل حین ویحفظنی من سبل الشیطان‘‘ بے شک اﷲ مجھے غلطی پر لمحہ بھر بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور مجھے ہر غلط اور جھوٹ سے محفوظ فرمالیتا ہے۔ نیز شیطانی راستوں سے میری حفاظت فرماتا ہے۔‘‘ (نور الحق ص۸۶، خزائن ج۸ ص۲۷۲) اور پھر دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں: ’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانۂ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے اس رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گذر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی گئی۔ ورنہ میرے مخالف بتلا دیں کہ باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا۔ بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا اور کیوں براہین احمدیہ میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳،۱۱۴) اب بتاؤ کہ۔۔۔۔😎 👍…مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ کہ لمحہ بھر خداتعالیٰ مجھے غلطی پر قائم نہیں رکھتا۔ 👍…مرزاقادیانی کا یہ اعتراف کہ بارہ برس تک عرصہ دراز رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ 👍…براہین میں خدا کی وحی کے خلاف لکھ دیا۔ کیا قادیانیوں کے ہاں بارہ برس ایک لمحہ سے کم ہے؟ خدا کی وحی کے خلاف بارہ برس چلنے والا شخص اس قابل ہے کہ اسے مذہبی مقتداء مانا جائے اور پھر مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے کہ: ’’مجھے اپنی وحی پر مثل قرآن پختہ یقین ہے۔ اگر اس میں ایک دم (لمحہ) بھی شک کروں تو کافر ہو جاؤں۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲) تو کیا یہ بارہ سال تک کافر بنارہا؟ خدا لمحہ بھر غلطی پر نہیں رہنے دیتا تو پھر بارہ سال کفر کی دلدل میں مرزاقادیانی کیوں پھنسا رہا؟😂😂😂😂😂😂
🤔🤨🧐کیا مرزاقادیانی لعنتی اور بدذات تھا؟🤔🤔🤔🤔 🔥🔥🔥…مرزاقادیانی قسم اٹھا کر دھڑلے سے جھوٹ بولتا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ: ’’واﷲ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جعلت المسیح بن مریم وانی نازل فی منزلہ ولکنی اخفیت… وتوقفت فی الاظہار الیٰ عشر سنین‘‘ (دیکھئے اس کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱، خزائن ج۵ ص ۵۵۱) ملاحظہ فرمائیں کہ قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ خدا کی قسم میں جانتا تھا کہ مجھے مسیح ابن مریم بنادیا گیا ہے۔ مگر میں اسے چھپاتا رہا۔ جب اس کے برعکس (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳) میں لکھتا ہے: ’’مجھے بارہ سال تک کوئی پتہ نہ چلا کہ خدا کی وحی مجھے مسیح ابن مریم بنارہی ہے۔‘‘ بتلائیے! مرزاقادیانی کا یہ حلفیہ بیان درست ہے یا بلاحلف۔ ایک میں ہے کہ مجھے پتہ تھا۔ مگر میں نے ظاہر کرنے میں ۱۰سال تاخیر کر دی۔ دوسری جگہ ہے کہ مجھے پتہ ہی نہ تھا۔ اسی طرح بارہ سال گذر گئے۔ فرمائیے کون سی بات درست ہے؟ یہ تو ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی نے قسم اٹھا کر غلط بیانی کی ہے۔ اب خود مرزاقادیانی کے بقول ایسی بات کے متعلق نتیجہ بھی سماعت فرمائیے۔ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ۱…’’جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۲۳۷، خزائن ج۱۸ ص۶۱۵، نسیم دعوت ص۸۷، خزائن ج۱۹ ص۴۵۳) ۲…’’خدا کا نام لے کر جھوٹ بولنا سخت بدذاتی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۴۰، نزول مسیح ص۱۰،۱۱، خزائن ج۱۹ ص۳۸۸،۳۸۹) اب اس فتویٰ کی روشنی میں جناب قادیانی لعنتی اور بدذات ثابت ہوئے۔ فرمائیے بدذات اور لعنتی فرد کسی بھی اچھے منصب کا مستحق ہوسکتا ہے؟ کیا اسے مہدی یا مجدد، ملہم یا مسیح وغیرہ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
🔥🔥🔥🔥🔥مرزاقادیانی (اعجاز احمدی) میں لکھتا ہے: ’’خدا نے میری نظر کو پھیر دیا۔ میں براہین کی اس وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے۔ یہ میری سادگی تھی جو میری سچائی پر ایک عظیم الشان دلیل تھی۔ ورنہ میرے مخالف مجھے بتلادیں کہ میں نے باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا تھا۔ بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا؟ اور کیوں براہین میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا؟‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۴) اس عبارت میں مرزاقادیانی اقرار کرتا ہے کہ اس نے خدا کی وحی کو بارہ برس تک نہیں سمجھا اور خدا کی وحی کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا عقیدہ لکھ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو شخص بارہ برس تک وحی الٰہی کا مطلب نہ سمجھے اور وحی الٰہی کے خلاف بارہ برس تک جھوٹ بکتا رہے۔ کیا وہ مسیح موعود ہوسکتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی شخص کا وحی الٰہی کے خلاف جھوٹ بکنا اس کے جھوٹا ہونے کی عظیم الشان دلیل ہے، یا مرزاقادیانی کے بقول اس کی سچائی کی؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں دس برس لکھا۔ یہاں بارہ برس کا ذکر ہے تو دس اور بارہ میں سے کون سا عدد صحیح ہے؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ جو وحی الٰہی کو نہ سمجھ سکے وہ نبی یا مسیح موعود بننے کے لائق ہے؟ اگر نہیں تو پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی نبی نہیں۔ مسیح نہیں بلکہ جاہل مرکب تھا؟ اس معمہ کو حل کریں اور اجر عظیم پائیں۔
😐😐😐😐😐 مرزاقادیانی (اعجاز احمدی) میں لکھتا ہے: ’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانۂ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔ تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی (مرزاقادیانی) مسیح موعود ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳) اس کے برعکس (آئینہ کمالات اسلام) میں لکھتا ہے: ’’وواﷲ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جعلت المسیح ابن مریم۰ وانی نازل فی منزلہ ولکن اخفیتہ نظراً الی تاویلہ بل مابدلت عقیدتی وکنت علیہا من المستمسکین وتوقفت فی الاظہار عشرسنین‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱، خزائن ج۵ ص۵۵۱) ترجمہ: ’’اور اﷲ کی قسم! میں ایک مدت سے جانتا تھا کہ مجھے مسیح ابن مریم بنادیا گیا ہے، اور میں اس کی جگہ نازل ہوا ہوں۔ لیکن میں نے اس کو چھپائے رکھا۔ اس کی تاویل پر نظر کرتے ہوئے بلکہ میں نے اپنا عقیدہ بھی نہیں بدلا۔ بلکہ اسی پر قائم رہا اور میں نے دس برس اس کے اظہار میں توقف کیا۔‘‘ ان دونوں بیانوں میں تناقض ہے۔ ’’اعجاز احمدی‘‘ میں کہتا ہے کہ بارہ برس تک مجھے خبر نہیں تھی کہ خدا نے بڑی شدومد سے مجھے مسیح موعود قرار دیا ہے اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں کہتا ہے کہ اﷲکی قسم! میں جانتا تھا کہ مجھے مسیح موعود بنادیا گیا ہے۔ لیکن میں نے اس کو دس برس تک چھپائے رکھا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو ماں کی گود میں دودھ پینے کی حالت میں مخالفین کے سامنے اعلان فرمادیا تھا۔ ’’اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا (مریم:۳۰)‘‘ {کہ میں اﷲ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا۔} بتائیے! مرزاقادیانی کی ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط؟ کون سی سچی ہے اور کون سی جھوٹ؟
🧐🧐 ✍️مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ: ’’وفات مسیح کا بھید صرف مجھ پر کھولا گیا ہے۔‘‘ (اتمام الحجۃ ص۳،خزائن ج۸ص۲۷۵) مرزا قادیانی نے: 🔥۱…اپنی پہلی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ میں قرآن مجید سے استدلال کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے تشریف لائیں گے۔ 🔥۲…’’ازالہ اوہام‘‘ میں کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر قرآن کی تیس آیات دلیل ہیں۔ اور یہ کہ وفات مسیح پر اجماع صحابہ ہے۔ 🔥۳…اب اس کتاب ’’اتمام الحجتہ‘‘ میں کہا کہ وفات مسیح کا بھید صرف مجھ پر کھولا گیا۔ اس بات پر دو سوال وارد ہوتے ہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام قرآن مجید کی رو سے زندہ تھے تو پھر تیس آیات وفات مسیح پر دلیل کیسے؟ ان دو باتوں میں سے ایک صحیح ایک غلط؟ اگر وفات مسیح پر اجماع تھا تو پھر بھید کیا؟ دونوں باتوں میں سے ایک صحیح ایک غلط۔ اور اگر تینوں اقوال کو سامنے رکھا جائے تو اس کی تثلیث کو کون حل کرے؟
oye khoti diya buchiya Rafa ka mutlub zinda asman per uthana nahi sujday main kia duaa pertay hain subhan rubi allala wara fani kay mera rafa furma day iss ka mutlub hai kay meray durjat bulund ker day yai nahi kay mujay utha ker asman per lay jaa and if you study the astronomical physics there is no sky(asman) any where but the problem is you can not fix stupids kertay rahoo intaza hazaroon sal tuk tumara issah nahi anay wala asman say
1۔۔ اسے خالی الذہن ہوکر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھیں ، آخرت کوسامنے رکھیں ، قیامت کے دن کی رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے فکر مند ہوں اور اس درمندانہ درخواست کو ایک دوست کا تحفۂ محبت سمجھ کر قبول کریں ۔ کسی شخصیت کو پرکھنے کے لئے سب سے اہم چیز اس کی ذاتی زندگی ہوتی ہے ، محمد رسول اللہ اجب نبی بنائے گئے تو آپ نے اپنے آپ کو قوم پر پیش کیا کہ میں نے تمہارے درمیان بچپن اور جوانی گزاری ہے اور عمر کے چالیس سال بِتائے ہیں ، تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا ؟ اور امانت دار پایا، یا خیانت کرنے والا ؟ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ آپ سراپا صدق و امانت ہیں ،کوئی انگلی نہ تھی جو آپ کے کردار پر اُٹھ سکے اور کوئی زبان نہ تھی جو آپ کی بلند اخلاقی کے خلاف کھل سکے ، مرزا غلام احمدصاحب قادیانی کی دعوت کے سچ اور جھوٹ کو جاننے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ان کی زبان و بیان ، اخلاق و کردار ، لوگوں کے ساتھ سلوک و رویہ اور صدق و دیانت کا جائزہ لیاجائے ، کہ کیا ان کی زندگی انسانیت کے سب سے مقدس گروہ انبیاء کرام کی زندگی سے میل کھاتی ہے یا اس کے برعکس ہے ؟ ۱۔ نبوت کا مقصد اور انبیاء کی تمام کوششوں کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑا جائے ، بندوں کے دل میں اس کے رب کی عظمت و محبت پیدا کی جائے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کا طریقہ سکھایا جائے ؛ اس لئے ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نہیں نکل سکتی جو اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی وہ ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہ شفا عطا فرماتا ہے : ’’ إِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنَ‘‘ ( سورۃ الشعراء : ۸۰) غور کیجئے کہ اس فقرے میں کس قدر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا لحاظ ہے ، ہے تو بیماری اور شفا دونوںاللہ ہی کی طرف سے ؛ لیکن بیماری ایک ناپسندیدہ کیفیت ہے اور صحت و شفا ایک مرغوب اور پسندیدہ بات ہے ؛ اس لئے شفا کی نسبت تو صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہ اللہ ہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے ؛ لیکن بیمار کرنے کی نسبت صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں فرمائی اور یوں کہا کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اللہ مجھے شفا عطا فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ اکے سامنے ایک صاحب نے خطاب کرتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ ا کو شامل کرتے ہوئے کہا : ’’ من عصاھما‘‘ جو ان دونوں کی نافرمانی کرے ، تو حالاںکہ معنوی اعتبار سے یہ فقرہ درست تھا ؛ لیکن چوںکہ بظاہر اس میں اللہ اور رسول کے ایک درجے میں ہونے کا شائبہ پیدا ہوتا ہے ؛اس لئے آپ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کیسا بدترین خطیب ہے جس نے اللہ اور رسول کو برابر کردیا : ’’ بئس ھذا الخطیب ‘‘ ۔ ( مسلم ، عن عدی بن حاتم : ۸۷۰) رب کے معنی پروردگار کے بھی ہے ،اسی معنی میں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے مقابلہ میں ’’ عبد ‘‘ ہے ، جس کا معنی بندہ کے ہیں ؛ لیکن عربی زبان میں رب کے معنی مالک اور عبد کے معنی غلام کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے غلام اپنے آقا کو رب اور آقا اپنے غلام کو عبد کہا کرتے تھے ؛ لیکن چوںکہ اس میں خدائی اور بندگی کے معنی کی مشابہت تھی ؛اس لئے آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ غلام اپنے مالک کو رب اور مالک اپنے غلام کو عبد کہہ کر پکارے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہؓ : ۲۵۵۲) - یہ ایک مثال ہے کہ رسول اللہ ا کو اللہ تعالیٰ کی شان اور مقام کا کتنا زیادہ لحاظ تھا ؛اسی لئے قرآن مجید نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے جو اسماء حسنیٰ ہیں، ان ہی سے اللہ کو پکارو ، ( اعراف : ۱۸۰) اور اسماء حسنیٰ سے وہ ذاتی وصفاتی نام مراد ہیں جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں ، علماء نے لکھا ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور نام سے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے ؛ کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنی دانست میں اچھی صفت اور اچھے نام کا ذکر کرے ؛ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو اور وہ غیر ارادی طورپر اس کا مرتکب ہوجائے ۔ اب دیکھئے کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کی شان میں کیسی شوخیاں کرتے ہیں کہ زبان و قلم پر لانے سے بھی دل لرزتا ہے ؛ لیکن حقیقت حال سے واقفیت کے لئے نقل کیا جاتا ہے : اللہ کی سب سے بڑی شان یہ ہے کہ اللہ معبود اور انسانی کمزوریوں سے ماوراء ہے ، وہ عبادت کرتے نہیں ہیں ؛ بلکہ عبادت کئے جانے کے لائق ہیں ؛ لیکن مرزا صاحب کے عربی الہامات کا مجموعہ جس کو ان کے مرید منظور الٰہی قادیانی نے ’’ بشریٰ ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے ، اس میں وہ کہتے ہیں : قال لی اﷲ إنی أصلی وأصوم وأصحوا و أنام ۔( البشریٰ : ۱۲؍۹۷) مجھے اللہ نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں ، جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ غور کیجئے کہ اس میں ذات باری تعالیٰ کی کس درجے کی اہانت ہے کہ معبود کو عبد بنادیا گیا ،نیندایک انسانی کمزوری ہے،اللہ تعالیٰ کے لئے اس کوثابت کیاگیا، عربی الہامات کے اسی مجموعے میں مرزا صاحب کا ایک الہام اس طرح منقول ہے : قال اﷲ : إنی مع الرسول أجیب أخطیٔ وأصیب إنی مع الرسول محیط ۔( البشریٰ : ۲؍۷۹) خدا نے کہا کہ.... جاری ہے۔۔۔۔
2۔۔ میں رسول کی بات قبول کرتا ہوں ، غلط کرتا ہوں اور صواب کو پہنچتا ہوں ، میں رسول کا احاطہ کئے ہوئے ہوں ۔ گویااللہ تعالیٰ بھی- نعوذباللہ- غلطی کرتے ہیں،اس طرح کے اور بھی کئی نمونے مرزا صاحب کی عربی اُردو تحریروں میں موجود ہیں ، یہاں تک کہ ان کا بیان ہے کہ خدا نے ان سے کہا : أنت من ماء نا ،’’تو ہمارے پانی سے ہے ‘‘ ۔ ( انجام آتھم : ۵۵)یعنی مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ نعوذ باللہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں اور اس نازیبا دعوے کے لئے تعبیر بھی کتنی نازیبا استعمال کی ہے کہ گویا جیسے ایک انسان دوسرے انسان کے پانی سے پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح گویا ان کی پیدائش ( ہزار بار نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ سے ہوئی ہے ۔ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایسی شرمناک بات کہتے ہیں کہ اگر حق و باطل کو واضح کرنا مقصود نہ ہوتا تو کسی مسلمان کے لئے اس کو نقل کرنا سرپر پہاڑ اُٹھانے سے بھی زیادہ گراں خاطر ہے ، مرزا صاحب کے ایک معتقد قاضی یار محمد قادیانی لکھتے ہیں : حضرت مسیح موعود ( مرزاصاحب ) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ( اسلامی قربانی : ۳۴) یہ تو ان کے مرید کا بیان تھا ، خود مرزا صاحب کا بیان ہے : مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں ، بذریعۂ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنادیا گیا ، اس طورسے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ ( کشتی نوح : ۲۷) لیکن مرزا صاحب کو اس پر بھی تشفی نہیں ہوئی اور انھیں اس میں بھی کوئی باک نہیں ہوا کہ اپنے آپ کو خدا قرار دیں ؛ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ، میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی ہوں ۔ ( آئینہ کمالات اسلام : ۵۶۴) قادیانی حضرات ٹھنڈے دل سے سوچیں اور خالی الذہن ہوکر غور کریں کہ نبی تو کیا کوئی ادنیٰ گنہگار شرابی وکبابی مسلمان بھی بحالت حوش و حواس اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخیاںکرسکتا ہے ،اورجوایساکرے کیاوہ مسلمان بھی باقی رہے گا؟ ۲۔ اللہ کے تمام پیغمبر ہمیشہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں ، یہودی حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت یوسف علیہم السلام جیسے انبیاء پر بت پرستی وغیرہ کا الزام لگاتے تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب پر بھی حملہ کرتے تھے ، ان انبیاء کرام کی حیاتِ طیبہ پر جو غبار ڈال دیا گیا تھا،قرآن مجیداورپیغمبراسلامﷺنے اسے صاف کیا ؛اس لئے قرآن اور پیغمبر اسلامﷺ کی بار بار یہ صفت ذکر کی گئی کہ وہ پچھلے انبیاء اور گذشتہ کتابوں کی تصدیق کرتے تھے : ’’ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ ۔ مرزا صاحب کو سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایسی پرخاش ہے کہ ان کی شان میں نہایت ناشائستہ اور اہانت آمیز جملے لکھتے ہیں ، بہت سی تحریروں میں سے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے : آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے ، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ، مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی ، آپ کا کنجر یوں(فاحشہ عورتوں) سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہوکہ جدی مناسبت درمیان میں ہے ، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے اور زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے ، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے ؟ ( ضمیمہ انجام آتھم : ۷ ، روحانی خزائن : ۱۱؍۲۹۱ ، حاشیہ ) تمام مسلمانوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو کسی مرد نے چھوا تک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے باپ کے واسطہ کے بغیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ،جو ایک معجزہ ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کیسے اہانت آمیز انداز پر اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے : اور جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزارہا کیڑے مکوڑے خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس پیدائش سے کوئی بزرگی ان کی ثابت نہیں ہوتی ؛ بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قویٰ سے محروم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ ( چشمۂ مسیحی : ۱۸، روحانی خزائن : ۲۰؍۲۵۶) مرزا صاحب نے حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو افضل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آدم کو تو شیطان نے شکست دے دی (حاشیہ درحاشیہ مسرت خطبہ الہامیہ ملحقہ سیرت الابدال) اور حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ اللہ نے ان(مرزاصاحب) کے لئے اتنے معجزات ظاہر کئے کہ اگر نوح کے زمانے میں دکھائے گئے ہوتے تو ان کی قوم غرق نہ ہوتی ۔ ( تتمہ حقیقۃ الوحی : ۳۷)اسی طرح اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے ، ( براہین احمدیہ : ۵؍۷۶) یعنی حضرت یوسف علیہ السلام سے، مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کے زمانے میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ہوتے تو وہ بھی ان کی اتباع کرتے ۔ ( اخبار الفضل قادیانی : ۳؍۹۸ ، ۱۸ ؍ مارچ ۱۹۱۶ء ) قرآن مجید میں رسول اقدس اکی فضیلت پر جو آیتیں نازل ہوئی ہیں ، مرزا صاحب نے اُن سب کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے ، آخر مرزا صاحب کو اس پر بھی قناعت نہ ہوسکی اور انھوںنے حضور اپر بھی اپنی فضیلت کا دعویٰ کردیا ؛چنانچہ اپنے ایک عربی شعر میں کہتے ہیں کہ محمدﷺ کے لئے توایک گہن ہوا : اور میرے لئے سورج اور چاند دونوں گرہن ہوئے ، ? اعجاز احمدی : ۷۱) اسی لئے قادیانی شعراء اور مصنفین نے کھل کر کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب رسول اللہﷺ سے بھی افضل ہیں ؛ ( نعوذ بااللہ ) چنانچہ ایک قادیانی شاعر اکمل کہتا ہے : جاری ہے۔۔۔
3۔۔۔ محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل یہ اشعار نہ صرف شاعر نے کہے ہیں؛بلکہ بقول شاعر انھوںنے مرزا صاحب کے سامنے ان اشعار کو پڑھا بھی ہے، خود مرزا صاحب نے رسول اللہ اکے دور کے اسلام کو ہلال ( پہلی تاریخ کا چاند ) اور اپنی صدی کو بدر یعنی چودھویں کا چاند قرار دیا ہے ۔ ( خطبۂ الہامیہ : ۱۸۴) رسول اللہ اکے سامنے کسی نے آپ کو حضرت یونس علیہ السلام سے افضل قرار دیا تو آپ نے فرمایا : ایسا نہ کہو ، ( لاینبغی لعبدأن یقول اناخیرمن یونس بن متیٰ:بخاری،حدیث نمبر:۳۴۱۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آپﷺ کو افضل قرار دیا تو آپ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قیامت کے دن دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور لوگ زندہ ہوں گے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کے ستون کو تھامے ہوئے ہوں گے ، نہ معلوم وہ بے ہوش ہی نہیں ہوئے ہوں گے ، یا بے ہوش ہونے کے بعد سب سے پہلے ہوش میں آجائیں گے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہ : ۳۴۰۸) حالاںکہ رسول اللہ ا کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے ؛ لیکن آپ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں بعض دفعہ بے احترامی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ بے تکلف انبیاء کی توہین کرتے اور اپنے آپ کو تمام انبیاء سے افضل ٹھہراتے ہیں- سوچئے ! کیا یہ کسی پیغمبر کا اخلاق ہوسکتا ہے ؟ اور کیا انبیاء کی شان میں کوئی عام مسلمان بھی ایسی بات کہہ سکتا ہے ؟ (۳) انسان کے اخلاق کا سب سے بڑا مظہر اس کی زبان اور اس کے بول ہوتے ہیں ، رسول اللہ اکے بارے میں صحابہ کہتے ہیں : ماکان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاحشاً ولا متفحشا ولا صخابا فی الأسواق ۔ ( ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی خلق النبی ا: ۲۰۱۶) رسول اللہ ا عادتاً نہ سخت گو تھے ، نہ بہ تکلف سخت گو بنتے تھے ، نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے ۔ اور پیغمبر کی شان تو بہت بالا ہے ، کسی مؤمن کو بھی بدگو اور بد زبان نہیں ہونا چاہئے ؛ چنانچہ آپ انے ارشاد فرمایا : لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذی ۔ (ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی اللغۃ ، حدیث نمبر : ۱۹۷۷) مومن نہ طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت بھیجنے والا ، نہ سخت گو ، نہ فحش کلام ۔ خود مرزا صاحب کے قلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ نکلوادے : ’’ گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے ‘‘ ۔ (ست بچن : ۲۰) مرزا صاحب نے بد زبانی کی مذمت کرتے ہوئے اپنی کتاب (در ثمین اُردو : ۱۷) جو اشعار کہے ہیں ، وہ بھی قابل ملاحظہ ہیں : بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زبان ہے جس دل میں یہ نجاست ، بیت الخلاء یہی ہے گو ہیں بہت درندے انساں کی پوستین میں پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے ! غور کریں تو مرزا صاحب کے اشعار خود ان کی بد کلامی کی بہترین مثال ہیں اور اہل ذوق کو تو خود ان الفاظ سے بدبو کا احساس ہوتا ہے ، اب خود مرزا صاحب کی خوش کلامی کی چند مثالیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں : ٭ آریوں کا پرمشیر ( پرمیشور یعنی خالق ) ناف سے دس انگلی نیچے ہے ، سمجھنے والے سمجھ لیں ۔ ( چشمہ معرفت : ۱۱۶) ٭ جو شخص ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور وہ حلال زادہ بہنیں ، حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ وہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے ۔ ( انور السلام : ۳۰) ٭ ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے ، مگر زنا کار کنجریوں کی اولاد ۔ ( آئینہ کمالات : ۵۴۷) ٭ اے بدذات فرقۂ مولویان ! کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑوگے ۔ ( انجام آتھم حاشیہ : ۲۱) ٭ مولانا سعد اللہ لدھیانوی کا اشعار میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈھیر ساری گالیاں دی ہیں یہاں تک کہ ان کو ’’ نطفۃ السفہاء ‘‘ (احمقوں کا نطفہ) اور ’’ ابن بغا ‘‘ ( زانیہ کی اولاد ) تک کہا ہے ۔ ( انجام آتھم : ۲۸۱) ایک موقع پر اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں : ٭ دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہے ۔ ( نجم الہدیٰ : ۱۵) ایک جگہ مخالفین کے بارے میں کہتے ہیں : ٭ جہاں سے نکلے تھے ، وہیں داخل ہوجاتے ۔ ( حیات احمد :۱؍ ۳ ، ص : ۲۵) علماء و مشائخ کے بارے میں کہتے ہیں : ٭ سجادہ نشیں اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ یہ سب شیاطین الانس ہیں ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۴ تا ۲۳) ٭ ایک موقع پر علما سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں : اے مردار خور مولویو اور گندی روحو ! تم پر افسوس کہ تم نے میری عداوت کے لئے اسلام کی سچی گواہی کو چھپایا ، اے اندھیرے کے کیڑو ! تم سچائی کی تیز شعاعوں کو کیوںکر چھپا سکتے ہو ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۲۱ ) اپنے زمانے کے اکابر علماء مولانا شاہ نذیر حسین محدث دہلوی ، مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری وغیرہ کو بھیڑیا ، کتا ، ملعون ، شیطان ، اندھا شیطان ، شقی وغیرہ کے الفاظ کہے ہیں ، ( دیکھئے : انجام آتھم : ۲۵۱-۲۵۲) مشہور صاحب نسبت بزرگ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے ہجو میں ایک پوری نظم کہی ہے اور ان کو خبیث ، بچھو ، ملعون وغیرہ لکھا ہے ، ( اعجاز احمدی : ۷۵ ) مولانا ثناء اللہ امرتسری کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ’’ اے عورتوں کی عار ثناء اللہ ‘‘ ( اعجاز احمدی : ۹۲)عار سے مراد ہے قابل شرم جگہ۔ ٭ آریوں پر رد کرتے ہوئے ایک طویل نظم کہی ہے ، اس کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے : جاری ہے۔۔۔۔
4۔۔۔۔۔۔۔ دس سے کروا چکی زنا لیکن پاک دامن ابھی بیچاری ہے لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں ان کی لالی نے عقل ماری ہے ٭ مرزا صاحب کثرت سے اپنے مخالفین کو ’’ ذریۃ البغایا‘‘ یعنی ’ زانیہ کی اولاد ‘ سے خطاب کرتے ہیں اور ان کو لعنت کرنے کا بھی بڑا ذوق ہے ، مولانا ثناء اللہ صاحب پر لعنت کرتے ہوئے کہتے ہیں : مولوی صاحب پر لعنت لعنت دس بار لعنت ، ( اعجاز احمدی : ۴۵)اور اپنے رسالہ نور الحق میں صفحہ : ۱۱۸سے۱۲۲ تک عیسائیوں کے لئے مسلسل ایک ہزار بار لعنت لعنت لکھی ہے ۔ ( روحانی خزائن : ۸؍۱۵۸) قادیانی حضرات خود غور کریں کہ یہ زبان نبی تو کجا کسی مسلمان ؛ بلکہ کسی اچھے انسان کی بھی ہوسکتی ہے ، کیا اس کے بعد بھی مرزا صاحب کے دعویٔ نبوت کے جھوٹے ہونے پر کسی اور دلیل کی ضرورت ہے ؟ نبی کے لئے جو وصف سب سے زیادہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے ، وہ ہے اس کا سچا ہونا ؛ تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ واقعی اس پر اللہ کا کلام اُترتا ہے اور وہ اس کو بے کم و کاست اپنی اُمت تک پہنچا دیتا ہے ، عجیب بات ہے کہ مرزا صاحب کے کلام میں بہت سی ایسی خلاف واقعہ باتیں ملتی ہیں ، جن سے سچائی کو شرمسار ہونا پڑتا ہے ، مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے ، ( حقیقۃ الوحی : ۲۰۶) ایک اور موقع پر کہتے ہیں : جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔ ( چشمۂ معرفت : ۲۲۲) مرزا صاحب سے جو جھوٹی باتیں منقول ہیں ، ان میں بعض تو ان کے زمانے سے متعلق تھیں اور اس زمانے میں قادیانی حضرات اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے ؛ لیکن بعض غلط بیانیاں وہ ہیں ، جن کو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے ، اس کے چند نمونے درج کئے جاتے ہیں : ٭ مرزا صاحب کہتے ہیں : دیکھو ، خدا تعالیٰ قرآن مجید میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے ، اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا ۔ (روحانی خزائن : ۱۸؍۴۰۹) حالاںکہ قرآن مجید میں کہیں یہ بات نہیں آئی کہ میں مفتری کو جلد پکڑلیتا ہوں اور مہلت نہیں دیتا ہوں ؛ بلکہ خود قرآن مجید میں ہے کہ دنیا میں ان کو مہلت دی جاتی ہے : إن الذین یفترون علی اﷲ الکذب لا یفلحون متاع فی الدنیا ۔ ( سورۂ یونس :۶۸-۶۹) ٭ آنحضرت ا سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی ۔ ( روحانی خزائن : ۳؍۲۲۷) مرزا صاحب کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے ، حدیث میں کہیں ایسا کوئی مضمون نہیں آیا ہے ۔ ٭ بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس ( مسیح موعود خلیفہ ) کے لئے آواز آئے گی : ’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی‘‘ (روحانی خزائن : ۶؍۷۳۳) حالاںکہ بخاری شریف میں کہیں یہ روایت موجود نہیں ہے ۔ ٭ آنحضرت انے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہوتو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ، ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے ۔ ( اشتہار اخبار الحکم : ۲۴ ؍ اگست ۷ء) حالاںکہ کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ وباء پھوٹنے والے شہر کو نہ چھوڑنے والے اللہ سے لڑائی کرنے والے قرار پائیں گے : احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا امام ہوگا ۔ ( ضمیمہ نصرۃ الحق : ۱۸۸، طبع اول ) یہ بات بھی بالکل خلاف واقعہ ہے ، احادیث صحیحہ تو کیا کسی ضعیف روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں آیا ہے ۔ یہ تو چند مثالیں ہیں ، جن میں غلط بیانی کو آج بھی پرکھا جاسکتا ہے ، ورنہ مرزا صاحب کی دروغ گوئی کی ایک لمبی فہرست ہے اور لکھنے والوں نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ، اس سلسلہ میں مولانا نور محمد ٹانڈوی کی کتاب ’’ کذبات مرزا ‘‘ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ، کیا کسی نبی سے اس طرح جھوٹ بولنے کی اُمید کی جاسکتی ہے ، جو شخص اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بول سکتا ہے ، یقینا وہ جھوٹا دعویٰ بھی کرسکتا ہے ۔ (۴) فارسی زبان کا مشہور محاورہ ہے ’’ دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ یعنی جھوٹ بولنے والے کو اپنی بات یاد نہیں رہتی ؛ اسی لئے اس کی گفتگو میں تضاد ہوتا ہے ؛ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں تضاد اور ٹکراؤ ہو ، یہ تو ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی مصلحت کے لحاظ سے رفتہ رفتہ احکام دیئے جائیں ، جیسے قرآن مجید میں پہلے کہا گیا کہ شراب کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ کر ہے : ’’ إثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا‘‘ ( البقرۃ : ۲۱۹)پھر دوسرے مرحلے پر یہ بات کہی گئی کہ شراب پی کر نماز نہ پڑھی جائے : ’’ لَا تَقْرَبُوا الصَّلاَۃَ وَأنْتُمْ سُکَاریٰ‘‘ ( النساء : ۴۳)اور تیسرے مرحلے میں شراب مکمل طورپر حرام قرار دے دی گئی ، ( المائدۃ : ۹۰) لیکن اس کا تعلق عملی احکام سے ہے ، واقعات اور خبروں میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ پہلے ایک خبر دی جائے اور پھر اس سے متضاد خبر دی جائے ، اسی طرح عقائد و ایمانیات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ؛ کیوںکہ یہ باتیں بھی غیبی واقعات کی خبر ہی پر مبنی ہوتی ہیں ، اگر ایسی باتوں میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جائے تو یہ اس شخص کے جھوٹے ہونے کی علامت ہوتی ہے ، خود مرزا غلام احمد قادیانی صاحب سے بھی متعدد مواقع پر اس کی صراحت منقول ہے ، جیسے کہتے ہیں : ’’ اور جھوٹے کے کلام میں تناقص ضرور ہوتا ہے ‘‘ ۔ ( ضمیمہ براہین احمدیہ : ۱۱۱) ایک اور موقع پر کہتے ہیں : مگر صاف ظاہر ہے کہ سچے اور عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہر گز تناقض نہیں ہوتا ، ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طورپر ہاں میں ہاں ملادیتا ہو ، اس کا کلام متناقض ہوجاتا ہے ۔ ( ست بچن : ۳۰) اب اس معیار پر مرزا صاحب کے دعاوی کو پرکھنا چاہئے ۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔
عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری بحیثیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور خلیفہ کے ہوگی۔ یعنی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نبی بن کر تشریف نہ لائیں گے۔ کیونکہ وہ صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے جس پر قرآن شریف کی آیت: ’’رسولاً الٰی بنی اسرائیل (البقرہ:۴۹)‘‘ دلالت کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کافہ وعامہ کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کی یہ ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ اس لئے وہ صرف امتی اور خلیفہ ہوں گے۔ (بخاری شریف ج۱ ص۴۹۰، مسلم شریف ج۱ ص۸۸) پر ہے کہ: ’’ان ینزل فیکم عیسٰی ابن مریم حکمًا مقسطًا‘‘ اور ’’ابن عساکر‘‘ میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ’’الا انہ خلیفتی فی امتی من بعدی (ابن عساکر ج۲۰ ص۱۴۴)‘‘ کہ میری امت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔ تشریف آوری کے وقت وہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نبی اور رسول کی حیثیت سے تشریف نہ لائیں گے بلکہ خلیفہ وامام ہوں گے۔ اس لئے ان کی تشریف آوری سے ختم نبوت کی خلاف ورزی لازم نہ آئے گی۔ باقی رہا یہ کہ وہ کیا نبوت سے معزول ہوجائیں گے؟ یہ بھی غلط ہے وہ نبوت سے معزول نہ ہوں گے بلکہ دوبارہ تشریف آوری کے بعد نبی اﷲ ہونے کے باوجود ان کی ڈیوٹی بدل جائے گی۔ جیسے پاکستان کے صدر مملکت، پاکستان کے سربراہ ہیں۔ اگر وہ برطانیہ تشریف لے جائیں تو صدر مملکت پاکستان ہونے کے باوجود برطانیہ تشریف لے جانے پر ان کو برطانیہ کے قانون کی پابندی لازم ہے۔ حالانکہ وہ صدر مملکت ہیں مگر وہاں جاکر ان کی حیثیت صدر مملکت ہونے کے باوجود مہمان کی ہوگی۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ میں جو ان کی نبوت کا پیریڈ تھا اس میں وہ نبی تھے۔ کل جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں تشریف لائیں گے نبی ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ نبوت میں ان کی حیثیت امتی وخلیفہ کی ہوگی۔ اب وہ نہ نبوت سے معزول ہوئے نہ ان کے تشریف لانے سے ختم نبوت پر حرف آیا۔
Allah n apni trf uthaya .aasman ka zikr kahan p h. Kya allah sirf aasman p h. Tawafi ka lafaz huzoor saw k lye bhi aya h .kya huzoor bhi zinda aur aasman p h .nauzubillah
اللہ سورہ حشر میں فرماتے ھیں " و ما اتاکم الرسول فخذوہ۔وما نہاکم عنہ فانتہوا" رسول تمہیں جو کچھ بھی دیں اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جس سے منع کریں اس سے منع ھو جاو۔ لہذا رسول کا ھر قول اللہ کا قول اور ھر حکم اللہ کا حکم ھے۔ اللہ کے رسول نے قرآنی آیات کے جو مطالب بتا دئیے وہ فائنل ھیں ۔مگر مرزا کذاب ان کا انکاری ھے کیونکہ وہ اس کے ذاتی شیطانی مقصد کو پورا نہیں کرتے۔۔ھمارے نبی نے فرمادیا کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ نے جسم سمیت اسمان پر اٹھا لیا لہذا اس کے بعد مرزے کذاب مردود کا حدیث نبوی پر اپنی بات کو فوقیت دینا کفر ھے
Subscribe ktv official on youtube th-cam.com/users/khatmenubuwattv
بُرے نام دے پکارنے والو گالیاں دینے والو ایسے نہی چلے گا
Alhamdurallah
SubhanAllah
Mashallah
Good bhai g God bless you Bhai
ما شاء اللہ ۔ جزاء ک اللہ خیرا" ۔
MashaAllah JazakAllah
اپنی کتابوں کوجلا دیا یا یہ نیک کام بھی ھمیں ہی انجام دینا پڑے گا
😊
جناب آپ جو نیک کام آپ کرتے ہیں اُس کا اللہ تعالی جو اجر آپ کو دے رہا ہے اُس پر خوشی منائیں روتے کیوں ہیں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے!
Labiak ya rasool Allah
Even if Jesus PBUH passed away, how does that make mirza a prophet? And why did he die in his diarrhea if he was a prophet?
ماشاءالله
Interesting...
Qadiyaniyo say bada jahil koi or kafir nahi.
When Allah misguide nobody can guide them.
Perhaps we need patience to see their punishment.
In meantime we need to work extensively on our own Emaan.
@@tasneemfawzi Allah punish those whom doesn’t obey his prophets human punish those who does think think and keep thinking
@@umarfraz4547
May Almighty Allah swt give us all hidaya and protect us from the evil
Masha ALLAH
معزز صاحبان، عالم وہ ہیے جو ایمان لائے صرف اس پر جو نازل کیا گیا ہئے، "والراسخون فی العلم ولمومنون یومنون بما انزل الیک" دوسری جگ فرمایا، "فان آمنو بمثل ما امنتم بہ فقدھتدو" (اےرسول اور مومنو، انکو بتا دو کہ) اگر تو یہ تمہاری طرح اس پرایمان لائیں، جس پر تم ایمان لائے ہو تو پھر یہ ہدائت یافتہ ہیں آور رسول اور صحابہ کس پر ایمان لاتے تھے؟ جو نازل کیا گیا ہئے" امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ ولمومنون"اب چونکہ تم لوگ ایمان لاتے ہو اس پر جو نازل ہی نہیں کیا گیا، فلہازا نہ تم مومن ہو آور نہ ہی عالم، بلکہ مشرک ہو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہئے، کہ جو شخص ایمان لائے گا اس پر جو نازل نہئں کیا گیا ،یعنی "افتری" کرے گا، تو وہ(من اظلم ممن افتری علی اللہ اکزب) ظلم عظیم کا مرتکب ہو گا، جو کہ شرک ہے، جیسا کہ آںحضرت صلعم نے خود سورۃ لقمان کی آیت "ان ا لشرک لظلم عظیم" کے حوالے سے یہ تفسیر فرمائ ہئے. اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلی بات ہی یہ فرمائ ہئے "یومنون بما انزل الیک (البقرہ :5) کہ قرآن سے ہدائت صرف "متقین"کو ملے گی، کون متقین؟ جو ایمان لائیں گے اس پر جو نازل کیا گیا ہئے. اور قرآن کریم میں دو صد سے بھی زیادہ مرتبہ یہ بات دہرائی گئی ہئے، لیکن چونکہ تمہاری اللہ سے ضد ہئے کہ ہم ایمان لائیں گے اس پر جو نازل نہیں کیا گیا، فلہازا "باطل" ہی تمہارا دین ایمان بن چکا ہئے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہی نہیں کہ عیسی بن مریم، جو صرف بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، اب مسلمانوں کی طرف بلکہ تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجے جائیں گے اور دو بارہ آ کر اعلان فرمائیں گے "آنی رسول اللہ الیکم جمیعا"! استغفراللہ من ھزاخرافات. تمام دنیا کا صرف ایک رسول، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،اللھم صل علی محمد وال محمد وبارک وسلم. تو بہ کرو اس کفریہ عقید ے سے کیوں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ آںحضرت صلعم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ میری امت میں (وہ) عیسٰی بن مریم (the عیسٰی بن مریم ،رسولا الی بنی اسرائیل) آئے گا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ "میری امت. میں بھی "ایک"(An) عیسٰی بن مریم آئے گا اور اشارہ تھا اس" امتی نبی اللہ"کی طرف جو آپ صلعم کے بعد چودھویں صدی میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیض کی برکت سے کمالات نبوت پاکر، تجدید دین کے لئےآنے والا تھا، جس طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد چودھویں صدی میں آنے تھے، گویا آںحضرت صلعم نے، آنے والے امتی نبی کو "عیسٰی بن مریم" کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے یہ " خطاب" عطا فرمایا تھا، اور" مہدی"کا خطاب بھی اور "امام" بھی کہا، کہ آنے والا "عیسٰی بن مریم بھی نبی ہی ہو گا، کیونکہ امام وہی ہوتا ہے جو نبی ہو اور مہدی ہو، دیکھو، "جعلنطم ائمہ یہدون بامرنا" (الانبیاء : 73) یعنی آںحضرت صلعم نے یہ نہیں فرمایا کہ" عیسٰی بن مریم آئے گا بلکہ فرمایا کہ میری امت میں آنے والا امتی نبی، میری امت کا عیسٰی بن مریم ہو گا. اب تمہارے نصیب میں، اس حقیقت پر ایمان لانا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہی نہیں کہ عیسی بن مریم آئیں گے، اس لئیے مشکل ہو رہا کہ تم اس" باطل" پر ایمان لا چکے ہو کہ آئندہ کوئی نبی نہیں آ سکتا جب کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا ہی نہیں کہ اب محمد رسول اللہ صلعم کے بعد آئںدہ کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں کیا جائےگا اور اس کا ثبوت کہ اللہُ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہرگز یہ نہیں فرمایا یہ ہے کہ آئندہ انبیا نہ بھیجنے کی کوئی حکمت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان نہیں فرمائی اور اس کا سبب یہ نہیں ہئے کہ اللہ تعالیٰ آیندہ انبیاء نہ بھیجنے کی حکمت سے نعوذبااللہ لا علم ہئے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ آئندہ انبیاء نہ بھیجنے میں کوئی حکمت ہی نہیں، اور کوئی بے حکمت قول یا فعل اللہ تعالیٰ جیسی حکیم ہستی کی طرف منسوب. ہیں کیا جا سکتا. سوال یہ ہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے، آئندہ انبیاء نہ بھیجنے کا نعوذبااللہ یہ بے حکمت فیصلہ فرما ہی لیا تھا تو پھر اس فیصلے کا صاف صاف طور پر اور واضح اندا میں اعلان فرمانا اللہ تعالیٰ جیسی مقتدر ہستی کے لئے ناممکن کیسے ہو گیا؟!!! کیا یہ امر قرآنی فصاحت و بلاغت کے صریحاً خلاف نہیں ہے کہ دین کا اہم ترین مسئلہ، جو قیاس اور قرینے سے بھی ذہن میں نہ آسکتا ہو اللہ تعالیٰ اسے صاف صاف طور پر اور واضح انداز میں بیان ہی نہ فرمائے اور پھر اچانک "خاتم النبیین" کہ کر اس کی طرف محض اشارہ کر د ےم
معزز صاحبان، امت مسلمہ کا سب سے پہلا اجماع وفات مسیح پر ہوا تھا، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےتلوار نکال تھی کہ آںحضرت صلعم کو وفات یافتہ کہنے والے کی گردن اڑا دی جائے گی، اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک عجیب بات کہی"من کان منکم یعبدو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،فقد مات محمد" حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تو کوئی عبادت نہیں کرتا تھا! در حقیقت یہ وہی، دلیل تھی جو آںحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ،نجران سے آمدہ علماء کے سامنے، حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کے لیے پیش کی تھی،الوہیت مسیح کے رد میں. آںحضرت صلعم نے فرمایا ،"الستم تعلمون آنہ لایکون ولد الا ویشبہ اباہ" کیا تم نہیں جانتے کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہئے؟ انہوں نے عرض کیا، ہاں، آںحضرت صلعم نے فرمایا ،"الستم تعلمون ان ربنا اللہ حی ولا یموت و ان عیسٰی، آتی علیہ الفنا" کہ ہمارا رب تو زندہ اور وہ نہیں مرتا اور جہاں تک عیسٰی کا تعلق ہے تو وہ تو مر مٹ چکے، اگر خدا ہوتے تو کبھی نہ مرتے، کیونکہ جو رب ہو وہ مر نہیں سکتا. آپ صلعم کے تتبع میں، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم میں سے کوئی بھی محمد رسول اللہ صلعم کی عبادت نہیں کرتا تھا، کیوں آپ صلعم نعوذبااللہ خدا نہیں تھے اور چونکہ خدا نہیں تھے اس لئے مرگئے، اگر خدا ہوتے تو نہ مرتے، جس طرح عیسٰی علیہ السلام، جن کی نصاریٰ عبادت کرتے تھے اگر خدا ہوتے تو نہ مرتے، اور چونکہ خدا نہیں تھے اس لئےمر گئے. اورسورہ العمران، آیت 145 کی تلاوت فرمائی، "ما محمد الرسول، قد خلت من قبلہ الرسل - - - الخ، (کہ چوںکہ) محمد ایک رسول تھے(اس لئے مر گئے اگر خدا ہوتے تو نہ مرتے) اور آپ صلعم سے پہلے والے رسول بھی مر گئے (کیونکہ وہ خدا نہ تھے) پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان،قد خلت من قبلہ الرسل، کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پہلے والے رسول وفات پا چکے ہئں اور آںحضرت صلعم کی اس تفسیر، "ان عیسٰی آتی علیہ الفنا" کہ عیسی علیہ السلام وفات پا چکے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تسلی اور تشفی فرمائ کہ رسول بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہئے، اور ہر انسان کی طرح جیسے تمام رسول فوت ہو گئے، اسی طرح محمد رسول اللہ صلعم بھی فوت ہو گئے، پس اگر تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فوت ہو چکے ہیں تو یقیناً حضرت عیسی علیہ السلام بھی فوت ہو چکے ہیں، اور اگر عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی یقیناً زندہ ہیں. اور آںحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں، "فاقول کما قال عیسٰی ابن مریم (بخاری) کنت علیھم شہید ما دمت فیھم، فلما توفیتنی کنت انت رقیب علیھم(المائدہ :118)کہ میں ان پر نگران تھا جب تک میں ان میں زندہ رہا، جب تو نے مجھے پورا پورا لے لیا تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا. یعنی اللہ تعالیٰ صرف ایک نبی، حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ہی نہیں، محمد رسول اللہ صلعم کو بھی پورا پورا لے چکا ہئےاور آںحضرت صلعم بھی، عیسٰی علیہ السلام کی طرح آسمان پر زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تو خواہش تھی کہ حضرت ادریس علیہ السلام کوبھی آسمان پر زندہ اٹھا کر اپنے ساتھ زندہ رکھے (لو شءنالرفعناہ بہا---الاعراف :177)لیکن اللہ تعالیٰ اپنی یہ خواہش پوری کرنے سے عاجز رہا!!! (نعوذبااللہ) اور اللہ تعالیٰ جو جو یہ دعویٰ فرماتا رہا، یہ اعلان فرماتا رہا، کتب اللہ انا و رسلی، انالننصر رسلنا ولزین معہ، واللہ غالب علی امرہ، فعال لما یرید، کہ اللہ تعالیٰ غالب ہئے، جو چاہتا ہئےکر گزرتا ہئے، ماانتم بمعجزین فی الارض(العنکبوت:٢٣،یونس:54،ھود:34،الشوریٰ :32) کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، پس جس شخص کا ان آیات کریمہ پرکامل ایمان ہئے اور وہ بد بخت مرتابین میں سے نہیں ہے، وہ ایک لمحے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی بد گمانی نہیں کر سکتا، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث تو کردیا لیکن بنی اسرائیل تک (جو فلسطین سے جبری ہجرت کی وجہ سے مشرق کی طرف ایران، افغانستان اور سر زمین میں آباد ہو چکے تھے)لے جانے سے عاجز رہا !!! فلسطین سے آسمان دور ہئے یا بنی اسرائیل کا مسکن "کشمیر"؟ آسمان پر جانا آسان تھا یاکشمیر؟ کس حکمت کے تحت اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو کشمیر کی بجائے آسمان پر لےگیا؟!!! یاد رکھو، اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بے حکمت قول یا فعل منسوب کرناحماقت گمراہی، طاغوتیت، گستاخی اور سر کشی ہئے! حضرت عیسٰی علیہ السلام کا کشمیر تک آنا تقدیر الاہی تھی جس نے پورا ہونا تھا اور ہوئ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا "اوینا ھما الی ربوۃذات قرار ومعین" کہ ہم نے عیسٰی آور ان کی والدہ کو بڑی پر سکون، رواں چشموں والی اونچی جگہ پر پناہ دیی اور اس وادی کو، سطح مرتفع تبت کو "دنیا کی چھت" کہا جاتا ہئے یعنی دنیا کی سب سے اونچی جگہ. بہر حال یہ ایک بہت وسیع بحث ہئے، اگر جہالت سے نکلنا چاہتے ہو اور واقعی عالم کہلانے کا شوق ہے تو، ویل کم، واٹس ایپ نمبر،. 03482829992
@@ilmikitabiengineering2893 مرزاکانڑاتھااوراسکےماننےوالےسارےاندھےگدھےدلےاورحرام کی اولاد
الحمدللہ ہم کانڑے پرلعنت بھیجتے ہیں اسلئے ہمیں کچھ سنناہی نہیں کانڑےانگریزکےپٹھوکےبارےمیں۔۔۔۔
ماشاءللہ حضرت صاحب آپ نے بڑا وضاحتی بیان ہے۔
Masha Allah bhut shandar ilmi aur mudalil guftugu hy
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۶﴾
Translation: When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ. [3:56]
Proof: The word mutawaffeeka means “I will cause you to die”. Whenever God is the fa’il (subject) and man is the maf’ul (object), it always refers to death. It means that God takes the soul of the man. In this case, it applies to Jesus(as) which in turn means that he has passed away.
Here are two examples of the usage of the word tawaffaa, meaning death:
وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۷﴾
Translation: And if We show thee in thy lifetime the fulfilment of some of the things with which We have threatened them, thou wilt know it; or if We cause thee to die before that, then to Us is their return, and thou wilt see the fulfilment in the next world; and Allah is Witness to all that they do. [10:47]
the same verse Ahmadies present in their defence.
حضرت میرزا صاحب کا کلام ُُ ُ آزماش کے لیے آیا نہ کوئ ہر چند ہر مڅالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے۔ ُ مصطفی پر ہر دم ہو درود اور رحمت تجھ سے یہ نور لیا بار څدایا ہم نے۔ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد کھوموں کعبہ میرا یہی ہے
عجیب جاہل انسان دلیل سے بات کر رہے ہیں
اس کا مکمل جواب لو اپنے ابو سے
جب مسلمان مرزا قادیانی کو جھوٹا کہتے ہیں تو آپ لوگوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن
جب آپ کے اپنے قادیانی احمدی لوگ اور خلیفے مرزا قادیانی کو کم عقل جاہل اور کاذب کہتے ہیں تو خاموش کیوں رہتے ہو اپنا ردعمل کیوں نہیں دیتے، ڈرتے ہو کیا؟؟؟
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہی سوائے رسول کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب رسول وفات پا چکے ہیں۔
Hawer sab hasen sab MASHALLAH
Subhan Allah Ma Sha Allah u Lahowla Wala Quwwata Illa BILLA.
Behtareen dalail se aur Quran se sabit kardiya ke Hazrat Isa Aalaihis Salam Zinda asmano per uthaey gaey. Allah sab ko hidayet Aata farmaey Aameen.
حضرت عیسہُ انسان تھے تو اُن کو سانس لینے کےُلئیے آکسیجن کی ضرورت تو ہو گی، تو وہُ کون سا ریسپیریٹر ساتھ لے کے گئے ہیں، کُچھ عقل کا استعمال بھی کر لینا چاہئیے!
@@zaheerbajwa5839
حضرت موسیٰ علیہ السّلام جو آکسیجن استعمال کرتے ہیں وہی حضرت عیسٰی علیہ السلام استعمال کرتے ہیں 😝 کیونکہ بقول مرزا۔۔۔۔حضرت موسیٰ علیہ السّلام بھی آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے ہیں 😄
@@zaheerbajwa5839
حضرت آدم علیہ السّلام جب دُنیا میں نہیں تھے تو کونسا آکسیجن استعمال کرتے تھے؟؟؟؟؟؟؟؟😂
@@zaheerbajwa5839
معراج کے وقت نبی اکرم صلی االلہ علیہ و سلم کونسا اکسیجن لے رہے تھے آسمانوں پر؟؟؟؟؟
@@zarrarmusab7715 یہئی تو آپ کے غور کرنے کی بات ھے، جب تمام انبئیآ جن کا آپ نے زکر کیا ھے انسان تھے تو انسان کو سانس لینے کے لئیے آکسیجن چاہئیے، تو نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ وہ سب کُچھ روحانی اور کشفی سفر تھے نہ کہ جسمانی، اللہ ہم سب کو عقلٗ استعمال کرنے کی توفیق دے!
قادیانی کافر ہیں اس میں کوئی شک نہیں
Masallah
Sir in ko jamat e ahmadiya na kaha karain balkay qadiyani mazhab ya munkreen e khatm e nabowat kaha karain shukria
(Divide % Rule) ke tahet qadyani firqa tayyar karna pada, hukmarano ki majboori ko samajhye....
Back-ground-reality samajh gaye to BAHES ki zaroorat hi na padegi....
یہ جماعت ، صحابہؓ رسولؑ ﷺ کے حُکم پر ، امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ قائم کی گئی ھے …! اور اس وقت جماعت کو اللّٰہ ربّ العزت کی مکمّل تائید و نصرت حاصل ھے ، خدا کا اپنے فریستادہ سے یہ وعدہ ھے کہ ، وہ قیامت تک امام مہدی کی جماعت کو غالب رکھے گا اور ، دنیا کی بڑی سے بڑی سلطنت یا طاقت ، اس جماعت کا کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکی اور نہ اس کی ترقّی کی راہ میں کوئی روک ڈالنے کی ناپاک جسارت کر سکا ، الحمدللہ …! =========== یہ ٹکے ٹکے کے بدکار اور سڑک چھاپ مولوی جتنا چاہیں زور لگا لیں ، کوئی فائدہ نہیں ھو گا ، اور یہ گندی نالی میں رینگنے والے غلیظ کیڑے مکوڑے ، اس خدائی جماعت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، کیونکہ اس ناپاک مخلوق کو ۔ ۔ ۔ ربّ ذوالجلال نے اپنے در سے دھتکار دیا ھے ۔ ۔ ۔ ۔
دین تو بعد میں آتا ھے …! یہ لوگ تو انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل ان لوگوں کا خمیر ، ابوجہل اور فرعون کی نسل سے گُندھا ھوا ھے اور آج ان جیسے بیشمار کیڑے مکوڑے معاشرہ میں ، فحاشی اور گھر گھر میں بدکاریاں اور بدفعلیاں پھیلانے میں ، پوری ایمانداری سے مصروفِ عمل رہتے ہیں اور ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان ان کے اِس شیطانی عقائد سے بہت خوش ھے اور اِن کے بدکار معاشرہ کی بھرپور سپورٹ کرتا ھے ۔ ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَیْنَکُمْ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ(آل عمران: ۵۶) اس کا ترجمہ ہے کہ جب اللہ نے کہا اے عیسیٰ یقینا مَیں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیر ارفع کرنے والا ہوں اور تجھے ان لوگوں سے نتھار کر الگ کرنے والا ہوں جو کافر ہوئے اور ان لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالادست کرنے والا ہوں۔ فوقیت دینے والا ہوں۔ پھر میری طرف تمہارا لوٹ کر آنا ہے۔ اس کے بعد مَیں تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ یہ آل عمران کی آیت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:'اس آیت میں خداتعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہرا کر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں‘‘۔ (یعنی خداتعالیٰ نے یہ کام کرنے والا ٹھہرایا ہے اور وہ کام کیا کئے ہیں۔ وہ کون سے فعل تھے؟) فرماتا ہے''اے عیسیٰ ! میں تجھے وفات دینے والا ہوں (پہلی بات یہ کہ مَیں وفات دینے والا ہوں، دوسری بات) اپنی طرف اٹھانے والا ہوں، (تیسرے) اور کفار کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور (چوتھی بات) تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دینے والا ہوں‘‘۔ (یہ بھی بعدمیں کسی وقت وضاحت کروں گا۔ بعضوں کے ذہنوں میں اس کا بھی سوال اٹھتا ہے اور ظاہر ہے)۔ فرماتے ہیں کہ:
''اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں‘‘۔ (جو ایک ترتیب ان کی ہونی چاہئے تھی اسی طرح بیان ہوئے ہیں) ۔ ''کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف بلایا جاوے اور اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ کی خبر اس کو پہنچ جائے پہلے اس کا وفات پا یا جانا ضروری ہے پھر بموجب آیت کریمہ اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ اور حدیث صحیح کہ اس کا خدائے تعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور وفات کے بعد مومن کی روح کا خداتعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں‘‘۔ (ان کی تصدیق کرتی ہیں بہت ساری)۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۶۰۶) [ یہ جو حضرت مسیح موعودؑ نے مثال بیان فرمائی قرآن کریم کی ایک اور آیت اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ کی یہ پوری آیت اس طرح سے ہے کہ اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (الفجر: ۲۹) اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس سے راضی رہتے ہوئے اپنے ربّ کی طرف لوٹ آ۔ اس سے راضی رہتے ہوئے اور اس کی رضا پاتے ہوئے]۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک دوسری جگہ اس کا مطلب بیان فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مسیح کو موت دے کر پھر اپنی طرف اٹھا لیا۔ جیسا کہ عام محاورہ ہے کہ نیک بندوں کی نسبت جب وہ مر جاتے ہیں یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ جیسا کہ آیت اِرْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ اسی کی طرف اشارہ کڑہی ہے۔ خداتعالیٰ تو ہر جگہ موجود اور حاضر ناظر ہے اور جسم اور جسمانی نہیں اور کوئی جہت نہیں رکھتا پھر کیونکر کہا جائے کہ جوشخص خداتعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا ضرور اس کا جسم آسمان میں پہنچ گیا ہو گا۔ یہ بات کس قدر صداقت سے بعید ہے؟ راست باز لوگ روح اور روحانیت کی رو سے خداتعالیٰ کی طرف اٹھائے جا سکتے ہیں نہ یہ کہ ان کا گوشت اور پوست اور ان کی ہڈیاں خداتعالیٰ تک پہنچ جاتی ہیں‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۲۴۶ء۲۴۷)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’عرش الٰہی ایک وراء الورٰی مخلوق ہے۔ عرش مقام تنزیہیہ ہے۔ (یعنی ہر ایک سے پاک چیز ہے) اور اسی لئے خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ (الحدید: 5) (کہ تم جہاں بھی جاؤ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے) اور (پھر فرماتا ہے) مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَلٰـثَۃٍ اِلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ (المجادلہ: 8) (کوئی تین آدمی علیحدہ مشورہ کرنے والے نہیں ہوتے جبکہ ان میں وہ چوتھا ہوتا ہے۔ )اور (پھر) فرماتا ہے کہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق: 17) (اور ہم اس سے یعنی انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ ) (ملفوظات جلد پنجم صفحہ491 )
پس یہ ہے ہمارا خدا جو رفیع الدرجات ہے۔ عرش کا مالک ہے وہ فرماتا ہے لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُوَھُوَیُدْرِکُ الْاَبْصَارُ(انعام: 104) یعنی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتیں اور وہ انسان کی نظر تک پہنچتا ہے۔ انسان نہ ہی اپنے علم کے زور سے اور نہ ہی اپنے رتبے اور مقام کی وجہ سے اس کو دیکھ سکتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ خود اپنا اظہار فرماتا ہے۔ پس خدا وہ ہے جو پردہ غیب میں ہے اور کبھی بھی کسی رنگ میں بھی اس کے مادی وجود کا تصور قائم نہیں ہو سکتا۔ جبکہ عیسائیوں نے اپنے غلط عقیدے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو خداتعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی تھے خدائی کا مقام دے دیا۔ خداتعالیٰ کا مقام تو بہت بلند اور ہر عیب سے پاک ہے۔ اس کو کسی کی حاجت نہیں جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ اور ان کی والدہ کھاناکھایا کرتے تھے۔ جہاں اس بات سے ان دونوں کے فوت ہونے کا پتہ چلتا ہے، وفات کا پتہ چلتا ہے وہاں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس کو کھانے کی حاجت ہو، اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے وہ خدا کس طرح ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی حاجات کس طرح پوری کر سکتا ہے اور اس طرح بے شمار باتیں ہیں اور دلیلیں ہیں جو ان کو ایک انسان ثابت کرتی ہیں۔
Mirza lanti
مرزا قادیانی ابو الکذبین کے بقول۔
احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں آئیگا اور مجدد ہوگا سو یہ نشان بھی اب پورا ہوگیا۔
مربی صاحب صرف ایک حدیث بتا دیں جس میں یہ بات درج ہو کہ مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا اور مجدد بھی ہوگا؟ ؟؟
باقی سب احادیث بتانے کی ضرورت نہیں ہے صرف ایک ہی بتا دیں۔
@@MI-pm8ej قرآن کریم‘ احادیث نبویہ اور بزرگان امت کے رؤیا و کشوف و بیانات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمتِ محمدیہ میں جس مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی فرمائی تھی اسے تیرھویں صدی ہجری کے آخر پر چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں ظاہر ہونا تھا۔ یہ وقت ۱۸۵۰ء کے زمانے سے شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق جو اس نے گذشتہ انبیاء سے انکی امتوں کی اس زمانہ میں اصلاح کے لیے ایک مصلح کے معبوث فرمانے کے لیے کیا تھا وہ اپنے فضل اور رحم سے پورا فرمایا اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود ومہدی معہود بنا کر معبوث فرمایا الحمدللہ- قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ زمانہ مہدی و مسیح کے بارہ میں فرماتا ہے یُدَ بِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ اَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّوْنَ (السجدہ: ۶) یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین کی طرف اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا پھر وہ اس کی طرف ایسے وقت میں جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو چڑھنا شروع کرے گا'' ۔ آنحضرت ﷺ نے اسلام کی پہلی تین صدیوں کو خیرالقرون (یعنی بہترین صدیاں) قرار دیا ہے اور وہ ہزار سال جس میں دین کا آسمان کی طرف چڑھنا مقدر تھا وہ یقیناًان تین صدیوں کے بعد شروع ہونا تھا۔ ان تین صدیوں اور ہزار سال کے بعد از سرِ نو دین کا قیام مقدر تھا
قرآن شریف میں سورہ نور کی آیت استخلاف نمبر۵۶ میں اُمتِ محمدیہ سے وعدہ کیا گیا کہ ان میں اللہ تعالیٰ اسی طرح خلیفے بنائے گا جس طرح اس سے پہلے خلیفے بنائے جو دین کی مضبوطی کا باعث ہونگے۔ اس وعدہ کے مطابق لازم تھاکہ جس طرح موسوی سلسلہ میں تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح آیا تھا۔ اسی طرح محمدی سلسلہ میں بھی تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح اور مہدی ظاہر ہو۔
احادیث نبویؐ میں زمانہ مسیح و مہدی کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا اَلْاٰیَاتُ بَعْدَ الْمِاَئتَیْن (ابن ماجہ کتاب الفتن باب الایات) نشانات دو سوسال بعد رونما ہونگے۔اس حدیث کی تشریح میں برصغیر کے نامور محدث حضرت مُلاَّ امام علی القاری لکھتے ہیں۔''وَیَحْتَمِلُ اَنْ یّکُوْنَ اللَّامُ فِی الْمِائَتَیْنِ لِلْعَھْدِاَیْ بَعْدَ الِمائَتَیْنِ بَعْدَ الأَلْفِ وَھُوَ وَقْتُ ظُھُوْرِ الْمَھْدِی‘‘۔ (مرقاۃ المصابیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد۱۰ صفحہ۸۲ ا ۱ز علی بن سلطان القاری مکتبہ امدادیہ ملتان) یعنی یہ ممکن ہے کہ الْمِائَتَیْنِ میں لام عہد کا ہو اور مراد یہ ہے کہ ہزار سال بعد دو سو سال یعنی ۱۲۰۰ سال بعد یہ نشانات ظاہر ہونگے اور وہی (یعنی تیرھویں صدی) زمانہ امام مہدی کے ظہور کا ہے۔
اسی طرح ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےاس بارہ میں فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الُامَّةِ عَلَی رَاسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھا دِیْنَھَا (ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذکر فی قرن المائۃ) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ اس اُمت کیلئے ہر صدی کے سر پر مجد د مبعوث کرتا رہے گا۔ اس حدیث کی رو سے علماء اُمت یہ یقین رکھتے تھے کہ چودھویں صدی کے مجد د مہدی ہونگے۔ چنانچہ اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب تیرہ صدیوں کے مجد د دین کی فہرست دینے کے بعد لکھتے ہیں۔ ''چودھویں صدی شروع ہونے میں دس سال باقی ہیں اگر اس صدی میں مہدی اور عیسیٰ کا ظہور ہو جائے تو وہی چودھویں صدی کے مجد دو مجتہد ہونگے‘‘۔ (ترجمہ از فارسی حجج الکرامہ صفحہ ۳۹ از نواب صدیق حسن خان مطبع شاہ جہانی بھوپال مطبوعہ ۱۲۹۱ھ) حضرت حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس اموہہ نے ۱۳۰۶ھ میں لکھا:۔''پس ان (امام مہدی) کی تشریف آوری اکیس سال بعد اس ۱۳۰۶ھ سے ہونے والی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب‘‘(کواکب درّیہ از حکیم سید محمد حسن صاحب رئیس امروہہ صفحہ ۱۵۵ مطبع سید المطابع امروہہ) مولانا عبدالغفور مصنف ''النجم الثاقب‘‘ نے۱۳۱۰ھ میں لکھا:۔''البتہ زمانہ بعشت مہدی کا یہی ہے‘‘ (النجم الثاقب حصہ دوم صفحہ ۲۳۳ ابوالحسنات محمد عبدالغفور مطبوعہ پٹنہ) خواجہ حسن نظامی (۱۲۹۶ھ تا ۱۳۷۴ ھ )نے لکھا ''اس میں کوئی شک نہیں کہ جو آثار اور نشانات مقدس کتابوں میں مہدی آخر الزمان کیلئے بیان کئے گئے ہیں وہ آج کل ہم کو روز روشن کی طرح صاف نظر آ رہے ہیں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زمانہ ظہور خیر البشر بعد از رسول حضرت محمد بن عبداللہ مہدی آخر الزمان علیہ الصلوٰۃ والسلام قریب آ گیا۔‘‘ (کتاب الامر۔ امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض صفحہ ۳ از خواجہ حسن نظامی ۱۹۱۲ء) صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳)
انتظار کی ان گھڑیوں میں جب کہ امام مہدی کے ظہور کی تمام نشانیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی جماعت احمدیہ (۱۸۳۵ء تا ۱۹۰۸ء) نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں وہی مسیح و مہدی ہوں جس کے ظہور کی پیشگوئیاں قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں موجودہیں اور بزرگان امت جس کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی سچائی کیلئے وہ عظیم الشان آسمانی نشان چاند سورج گرہن بھی ظاہر فرما دیا جسے آنحضرتﷺ نے سچے مہدی کی نشانی قرار دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا:۔ ''ہمارے مہدی کی سچائی کے دو نشان ہیں کہ جب سے زمین و آسمان پیدا ہوئے وہ کسی کی سچائی کیلئے اس طرح ظاہر نہیں ہوئے۔ رمضان کے مہینے میں چاند کو (اس کی مقر رہ تاریخوں میں سے) پہلی رات اور سورج کو (اس کی مقر رہ تاریخوں میں سے) درمیانی تاریخ میں گرہن لگے گا اور جب سے اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا یہ دو نشان ظاہر نہیں ہوئے۔‘‘ (دارقطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف والکسوف) چنانچہ عین چودھویں صدی کے سر پر چاند گرہن کیلئے مقر رہ تاریخوں (۱۳‘۱۴‘۱۵) میں سے پہلی رات یعنی تیرہ رمضان ۱۳۱۱ھ بمطابق ۲۳ مارچ ۱۸۹۴ء کو اور سورج گرہن کیلئے مقر ر تاریخوں (۲۷‘۲۸‘۲۹) میں سے درمیانی تاریخ یعنی ۲۸ رمضان بمطابق ۶۔اپریل ۱۸۹۴ء کو گرہن لگا۔ اور حضرت مرزا صاحب نے بڑی شان اور تحدی کے ساتھ اپنی سچائی میں اس نشان کو پیش کرتے ہوئے لکھا۔
''ان تیرہ سو برسوں میں بہتیرے لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا مگر کسی کیلئے یہ آسمانی نشان ظاہر نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔ مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کیلئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا۔۔۔میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جب کہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک شخص کی تصدیق کیلئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت ﷺ نے مہدی کے ظہور کیلئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی‘‘(تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳
@@sparklingmoon-1709 مربی صاحب مرزا قادیانی نے کہا تھا کہ کہ احادیث صحیحہ میں آیا اور یہ کہ مجدد بھی ہوگا۔
گولیاں مت دیں برائے مہربانی صرف ایک حدیث بتا دیں جس میں یہ بات درج ہو کہ مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا اور مجدد بھی ہوگا؟
سلام میں ایک غیر احمدی مسلمان ہوں مگر سورة آلعمران آیت 144 جو غزوہ احد کے موقع پر نازل ہوٸ اور پھر وفات رسول پہ ایک طرح سےاس آیت سے صحابہ اکرام اور اہل بیت کا اجماع ہو گیا کہ آپ محمد صلى الله عليه واله وسلم اور تمام سابق انبیا علیہم السلام دو طرح سے اس دنیا سے گزرے ہیں یعنی طبعی موت یا شہادت کی موت۔ اس پہ آپکیا تبصرہ فرماٸیں گے
وفات مسیح کی واضخ دلیل
@@ilmikitabiengineering2893 جی
Jab ap dua karty ho اللهم اغفر لي وارحمني واهدني واجبرني وعافني وارزقني وارفعني tou وارفعني ka kya matlab hai
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۶﴾
Translation: When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ. [3:56]
Proof: The word mutawaffeeka means “I will cause you to die”. Whenever God is the fa’il (subject) and man is the maf’ul (object), it always refers to death. It means that God takes the soul of the man. In this case, it applies to Jesus(as) which in turn means that he has passed away.
Here are two examples of the usage of the word tawaffaa, meaning death:
وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۷﴾
Translation: And if We show thee in thy lifetime the fulfilment of some of the things with which We have threatened them, thou wilt know it; or if We cause thee to die before that, then to Us is their return, and thou wilt see the fulfilment in the next world; and Allah is Witness to all that they do. [10:47]
@@dakhan71 وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ {55}إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ {56}
And they planned, and Allah also planned; and Allah is the Best of planners. When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ.(Chapter 3 verses 55-56)
Allah in these ayahs has made four promises to Isaas.
First Promise:
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ
When Allah said O Jesus I Will Cause thee to die a natural death
The Jews wanted to kill Isaas and tried to even crucify him and take his life away because Deuteronomy 21:22-23 and many other verses of the Bible state that one who dies on the cross is an accursed. Allah replies to the plan of the Jews by saying they will not be able to kill Isaas, Allah will cause him to die(meaning a natural death) not an accursed death on the cross by the hands of anyone. This was the first promise of Allah to Isaas in reply to the plan of the Jews.
Second Promise:
وَرَافِعُكَ إِلَيَّ
And will exalt thee to myself
Meaning Isaas will be exalted in the Presence of Allah and will be raised spiritually and given nearness to Allah (same type of Raf’a Allah rewards the believers with)
Third Promise:
وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا
And will clear thee from the charges of those who disbelieve.
This means that Allah will clear him of the charges which are the false charges from the enemies (I.e, legitimacy of birth, accursed death) and would show to the people that he was indeed a true Prophet of Allah
Fourth Promise:
جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ
And will place those who follow thee above those who disbelieve until the day of resurrection
This basically means that precedence would be given to the followers of Isaas over the disbelievers till the Day of Judgment. (Muslims are of course included in the believers, as we are true followers of Isaas)
The last three promises have already been fulfilled according to the Non Ahmadis but why do they ignore the first Promise which came first in the plan of Allah? Can they really accuse Allah of a failed plan God Forbid? It is sad to say that the first has been forgotten by Allah and he only completed the latter three promises. First comes his natural death and then come the rest of the promises.
Some non Ahmadis have tried to claim tawaffa does not mean death but this is totally unacceptable according to the Qur’an and Ahadith of the Prophet Muhammadsaw. Hadhrat Ibn Abbasra who was one of the greatest companions, has narrated:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ “ اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ
Narrated Ibn Abbasra: The Prophet (ﷺ) embraced me and said, “O Allah! Teach him (the knowledge of) the Book (Qur’an).”(Sahih Bukhari, Volume 9, Book 92, Hadith #375)
This amazing companion, whom the Prophetsaw prayed for, stated:
@@dakhan71 عن ابن عباس قوله : ” إني متوفيك ” يقول : إني مميتك
Hazrat Ibn Abbasra stated that Mutawaffika, means death.
The view of Hadhrat Ibn Abbasra was that Hadhrat Isaas has already died and will not return physically. Since the non Ahmadi Muslims cannot respond to this verse and the above narration, they quote a narration of ad-Durr-ul-Mansur which is falsely attributed to Ibn Abbas. Firstly, they condemn a solid and correct reference supported by the Qur’an which is mentioned in Sahih al Bukhari, the most authentic book after the Qur’an. They want us to accept a weak and unauthentic reference which contradicts the Qur’an, and makes no sense.
The reference which they quote is:
وَأخرج اسحق بن بشر وَابْن عَسَاكِر من طَرِيق جَوْهَر عَن الضَّحَّاك عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله {إِنِّي متوفيك ورافعك} يَعْنِي رافعك ثمَّ متوفيك فِي آخر الزَّمَان
Meaning, Hadhrat Ibn Abbasra “I will cause you to die in the latter days”
Firstly, this reference is without any merit because it is not found in any authentic book. Nor do we find it in Tafseer ibn Jarir at-Tabari which quotes many narrations trying to justify the life of Isaas, nor is it present in Tafsir ibn Kathir. How can this narration be accepted? Why would a Muslim reject the authentic reference of Sahih Bukhari for a fabrication? Furthermore, the belief which is portrayed in this reference makes it seem as if it is the view of the narrator rather than the view of Hadhrat Ibn Abbasra. There are countless of references which are attributed to Ibn Abbas, which have no value at all.
If the word متوفيك means death in the latter days, then it becomes essential that the spiritual rafa has not yet happened because متوفيك comes after رافعك. However, this would be against the Holy Qur’an as it states that the Jews wanted to prove Hadhrat Isaas to be an accursed one, according to the Torah, and did not succeed in killing him on the cross. Rather Allah gave Isaas a spiritual ascension as Allah States in Surah al-Nisa. In the opinion of the non Ahmadis, death before raise as presented in the Qur’an is incorrect and it should be raise before death instead. This thought is completely foolish.
The main reason why this narration must be rejected, even before looking at the authenticity, is because it clearly contradicts the Holy Qur’an and the narrations of more authentic ahadith. Furthermore, the statement of Durr al-Manthur is munqati, meaning unconnected. Ad Dahak had never met Hadhrat Ibn Abbasra according to many scholars. Below is a reference from Mizan al-Itidal by Imam Al-Dhahabi where Yahya Ibn Sa’id Al Qattan said:
“Shu’bah denied at all that al-Dhahak ever met Ibn Abbasra”
Shu’bah asked Mushash: Did al-Dhahak listen to Ibn Abbasra and he replied he never saw him at all
Yahya Ibn Sa’id stated that according to us Ad Dhahak is weak
bn Hajr also said in Tariqb al Tahdheeb that he was saduq but had a lot of irsals, meaning the absence of the link between the successor and the Prophet. It is written:
الضحاك بن مزاحم الهلالي أبو القاسم أو أبو محمد الخراساني صدوق كثير الإرسال من الخامسة مات بعد المائة 4
Some non Ahmadis also accidentally quote Imam Al Razi’s statement. He has said:
والمعنى : أني رافعك إليّ ومطهرك من الذين كفروا ومتوفيك بعد إنزالي إياك في الدنيا ، ومثله من التقديم والتأخير كثير في القرآن
“The meaning is; I will raise you unto me and will purify you from infidels and will cause you to die after I descend you in the world. And examples of advancing and retreating (taqdim and takhir) are numerous in the Qur’an.”(Tafsir Al-Kabir 4/227 under Qur’an 3:55)
The non Ahmadis try to state that according to Imam al-Razi, the rafa was to happen after the tawaffa. This statement in reality, supports the Ahmadi Muslims. Imam Razi has made it clear that mutawaffika means death. Furthermore, Imam Razi in regards to the tafseer of rafa of this ayah, has stated that this is rafa of rank, rather than physically being raised to the heavens. The conclusion of taqdir and takhir of Imam Razi is against his own criteria of this rule. He has stated that this can only apply if another verse of the Qur’an clearly supports the switching of the order. It is just a misunderstanding of the scholar as he knew tawaffa meant death but was unaware of the true meaning of the verse. Furthermore, Allah could have easily mentioned that I will raise you to the heavens and then send you back in this ayah, but nothing of this sort is found anywhere in the Qur’an or authentic ahadith,.
Now the order given by the Qur’an is that death would occur first and after this the raf’a would occur. After this would be the clearing of the charges against him, and lastly the dominance of the followers of Isaas over his opponents. If one was to change the order, where would mutawaffika be put? Would it be put between the exaltation and the clearing of the charges? This is totally baseless as it would mean that unless Isaas dies, the charges against him would not have taken place. If mutawaffika is placed between the clearing of the charges and the natural death of Isaas, it would mean that unless Isaas dies his followers will never become dominant which is also wrong. If we put mutawaffika at the end, the ayah would state that Jesusas would die after the day of resurrection. The truth is clear that mutawaffika was indeed that first promise and it was fulfilled by our Creator.
Hazrat Mirza Ghulam Ahmadas states:
“In this verse, ‘I shall cause thee to die’ precedes ‘I shall exalt thee’, which shows that death occurred before exaltation. A further proof is that Allah the Glorious, has said: After thy death I shall place those who follow thee above those who disbelieve (i.e., the Jews), until the Day of Judgment. All Christians and Muslims agree that this prophecy had been fulfilled before the advent of Islam, inasmuch as God Almighty had subordinated the Jews to Christians and Muslims, and they have continued in that condition of subordination for centuries. The verse cannot be construed to mean that such subordination will take place after Jesus returns from heaven.” (Izala-e-Auham, Ruhani Khazain, Volume 3, Page 330, 332)
Ahmadiyyat Zindabad
Quran ke aik ayat hai kay huzrut Issah say pehlay sub nubi wfat pa chukay hain aour Muhammad (pbuh)say pehlay sub nabi wafat pa chukay hain to issah pehlay tha ya bad main iss iyat ko kahan lay ker jaoo gay bolo kay naoz billah Quran main galut likha hai
1- وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا (سورہ البقرہ آیت 2:234)
اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔
2- وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا (سورہ البقرہ 2:240)
اور تم میں سے جو لوگ وفات دیئے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں
3- رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ( سورہ ال عمران 3:193)
اے ہمارے ربّ! پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کردے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے۔
4 -حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا ( سورہ النساء 4:15)
یہاں تک کہ ان کو موت آجائے یا ان کے لئے اللہ کوئی (اور) رستہ نکال دے
5- اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَفّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ( سورہ ال عمران 4:97)
یقیناً وہ لوگ جن کو فرشتے اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہیں
6- حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا وَ ہُمۡ لَا یُفَرِّطُوۡنَ( سورہ الانعام 6:61)
یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آجائے تو اُسے ہمارے رسول (فرشتے) وفات دے دیتے ہیں اور وہ کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے۔
7- حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوۡنَہُمۡ(سورہ الأعراف 7:37)
یہاں تک کہ جب ہمارے ایلچی اُن کے پاس پہنچیں گے انہیں وفات دیتے ہوئے
8- رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَیۡنَا صَبۡرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ ( سورہ الأعراف 7:126)
اے ہمارے ربّ! ہم پر صبر انڈیل اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔
9- وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ( سورہ الانفال 8:50)
اور اگر تو دیکھ سکے (تو یہ دیکھے گا) کہ جب فرشتے ان لوگوں کو جنہوں نے کفر کیا وفات دیتے ہیں
10- وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ( سورہ یونس 10:46)
اور اگر ہم تجھے اس (اِنذار) میں سے کچھ دکھا دیں جس سے ہم انہیں ڈرایا کرتے تھے یا تجھے وفات دے دیں
11- وَ لٰکِنۡ اَعۡبُدُ اللّٰہَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰٮکُمۡ ( سورہ یونس 10:104)
لیکن میں اُسی اللہ کی عبادت کروں گا جو تمہیں وفات دیتا ہے
12- تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا وَّ اَلۡحِقۡنِیۡ بِالصّٰلِحِیۡنَ (سورہ یوسف 12:101)
مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زُمرہ میں شامل کر۔
اس کے علاوہ سورہ الرعد 13:40 ،سورہ النحل 16:28، سورہ النحل 16:32، سورہ النمل 16:70، سورہ الحج 22:5، سورہ السجدہ 32:11، سورہ الزمر 39:42، سورہ المومن 40:67، سورہ المومن 40:77، سورہ محمد 47:27، سورہ ال عمران 3:55، سورہ المائدۃ 5:117، ان آیا ت میں لفظ "توفی" کا مطلب "وفات یا موت" کے لیے استعمال کیا گیا ہے -
قرآن کی اتنی آیات کے بعد بات سمجھ آ جانی چاہیے لیکن پھر بھی کچھ عربی ڈکشنری سے حوالے دیے جا رہے ہیں
مشہور عربی ڈکشنری "القاموس" میں لکھا ہے الوفاۃالموت و توفاہ اللہ قبض روحہ - "الوفاۃ " کا مطلب ہے موت اور "توفاہ اللہ" کا مطلب ہے اس کو اللہ نے توفی کیا یعنی اس کی روح قبض کر لی-
ایک اور ڈکشنری "تاج العروس "میں لکھا ہے توفاہ اللہ عزوجل: اذا قبض نفسہ - "توفاہ اللہ ازوجل" کا مطلب ہے اس کو اللہ نے توفی کر لیا اس وقت کہتے ہیں جب وہ اس کی جان کو قبض کر لے-
ایک اور ڈکشنری "صراح" میں لکھا ہے توفاہ اللہ ای قبض روحہ- اللہ نے اس کو توفی کیا یعنی اس کی روح قبض کر لی-
عربی لغت کی کتابوں کے ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ توفی کے فعل کا فاعل جب خدا ہو اور فعل انسان پر وارد ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا نے اس کی جان قبض کر لی یا اس کی روح قبض کر لی-
اب ہم اس آیت کی بات کرتے ہیں جو آپ نے "توفی" کے معنی کے ہم پلہ پیش کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دونوں جگہ اس لفظ "توفی" کے ایک ہی معنی ہیں، وہ آیت ہے-
وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی(سورہ النجم 53:37)
اور ابراہیم جس نے عہد کو پورا کیا۔
یہاں یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ نہ تو فاعل یہاں پر اللہ تعالیٰ ہے اور نہ ہی مفعول یہاں پر انسان ہے، بلکہ فاعل انسان ہے یعنی "ابراہیم علیہ السلام" اور مفعول "عہد" ہے تو اس صورت میں "توفی" کے معنی پوراپورا وصول کرنے یا پورا کرنے کے ہیں-
(نتیجہ): جب فاعل اللہ تعالیٰ اور انسان کے مفعول بہ ہونے کی صورت میں لفظ "توفی" کا مطلب ہمیشہ قبض روح یا موت دینا ہے-
قادیانی اپنی قوت فضول ضائع کر رہے ہیں اللّٰہ ھدایت دے آمین ثم آمین
ما كان مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا} [الأحزاب:40]
،
نہی ہیں محمد بن عبد اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم والد ابو آپ میں کسی رجل بالغ مرد کے مگر ہیں خَاتَمَ النَّبِيِّينَ اور اللہ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے[الأحزاب:40]،
خَاتَمَ النَّبِيِّينَ نبیوں میں آخری جیسے کے خط کے آخیر میں مہر لگائ جاتی ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن مثلي ومثل الأنبياء قبلي كمثل رجل بنى بيتا فأحسنه وأجمله إلا موضع لبنة من زاوية فجعل الناس يطوفون به ويتعجبون ويقولون: هلا وضعت اللبنة، قال: فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين» (رواه البخاري ومسلم).
حضرت ابوھریرہ ؓ سے روایت ہے کے محمد بن عبد الله آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا بےشک میری مثال اور مجھ سے پہلے والے انبیاء کی ایک ایسے شخص کی طرح جس نے ایک گھر بنایا سو احسن اچھے طرقے سے اسکو بنایا اور اسکو خوبصورت بنایا مگر اس نے چھوڑ دیا ایک اینٹ کی جگہ کسی طرف سے تو لوگ اس گھر کے اردگرد پھرنے لگے اور اسکی تعریفیں کئے آرہے تھے مگر وہ کہتے کیوں وہ آخری اینٹ نہی رکھی گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ آخری اینٹ میں ہوں اسی طرح میں خاتم النبیین ہوں
(روایت کی گئی ہے صحيح البخاري اور صحيح المسلم کی کتابوں میں).
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون قريبا من ثلاثين كلهم يزعم أنه رسول الله» (رواه البخاري ومسلم). وفي زيادة صحيحة: «وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي» (سنن الترمذي).
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کے محمد بن عبدالله آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہی آئیگی اس وقت تک کئی دجال اور کذاب نہ آجائیں جن کی تعداد نمبر تیس٣٠ کے قریب ہے ان میں ہر ایک اپنے کو رسول اللہ سمجھے گا
(روایت کی گئی ہے صحيح البخاري اور صحيح المسلم کی کتابوں میں).
محمد بن عبدالله آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت نہی آئیگی اس وقت تک کئی دجال اور کذاب نہ آجائیں جن کی تعداد نمبر تیس٣٠ کے قریب ان میں ہر ایک اپنے کو رسول اللہ سمجھے گا میں خاتم النبيين ہوں کوئ بھی نبی میرے بعد نہی ہے
(یہ حدیث سنن الترمذي کی کتاب میں ہے).
Saying of Mirza Ghulam Ahmed Qadyani
.میں جناب خاتم الانبیاء ﷺ کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو دین اور دائر اسلام سے خارج سمجھتاہوں (تبلیغ رسالت، ج۔۲، ص۔۴۴)
.مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کرتا ہے ، سو اس تہمت پر کیا کہوں بجز اس کے کہ لعنت اللہ علی الکاذبین،
.جب مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائیگا (براہین احمدیہ، ص ۔۴۹۹)
قرآن کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آناجائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہے یا پرانا، کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل بہ پیراوی رسالت مسدود ہے ( روحانی خزائن ، جلد ۳)
.میں نے نہ نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ اپنے آپ کو نبی کہا ، یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکے اسلام سے خارج ہوجاؤں اور کافر بن جاؤں (روحانی خزائن جلد 9 )
."اے لوگو مسلمانوں کی ذریت کہلانے والودشمن قرآن نہ بنواور خاتم البنیین کے بعد وحی کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو اور اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کئے جاؤگے" (روحانی خزائن، آسمانی فیصلہ)
." ہم بھی مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں، کیا ایسا بدبخت مفتری مسلمان ہوسکتا ہے جو محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے (روحانی خزائین، ایک غلطی کا ازالہ ص۔۳)
.جب مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائیگا (براہین احمدیہ، ص ۔۴۹۹)
مرزا غلام احمد کی گستاخیوں کے چند جھلکیاں؛
۱۔ خدا سوتا بھی ہے ، کھاتا بھی ہے ، اور پیتا بھی ہے (البشرا، جأ۲، ص۔97) 2 ۔ خدا عرش پر مرزا کی حمد کرتا ہے (کتاب انجام آتھم، ص۔ (55 3 ۔ خدا نے مجھے کہا کہ تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ ( کتاب رو حانی خزائین چشمہ معرفت) 4. مرزا تیرا نام کامل ہوگا، میر ا نام ناتمام رہہگا، 5. ۔ تیرا نام میرا اسم اعظم ہے۔ (کتاب ، حقیقت الوحی اور مجوعہ الہامات و مکاشفات) 6. ۔ تو میں بمنزلہ فرزند ہے۔ 7۔ میرا لوٹا ہوا مال تجھے ملیگا۔ 8 ۔ قضا و قدر کے فیصلے میں نے لکھے، خدا نے دستخط کئے۔ (نعوذ بااللہ) ( بحوالہ کتب روحانی خزائن ، اربعین، حقیقت الوحی، انجام آتھم، البشرا، البریہ اور تریاق القلوب)
براے مہربانی وہ حدیث پیش کریں جس میں آسمان کا لفظ موجود ہو
براے مہربانی مرزا قادیانی کو سور سے کتا ثابت کریں چیلنج ہنے
pehle ye saabit kro k mirza bathroom me nhi mara tha?
مرزا قادیانی نے تحریر کیا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا اور مجدد ہوگا۔
برائے مہربانی وہ احادیث کہاں ہیں رہنمائی فرمادیں کیونکہ ہم تو ڈھونڈ ڈھونڈ تک گئے لیکن ایک بھی نہیں ملی۔
To phir kb jala rahey hein kitabein ? Eendhan hm khtme nubuvvat k parvaney faraham karein gey . In shaaaaa Allah
تو پھر جلا دی ہیں یا آپ ابھی تک انتظار میں ہیں؟
Sahi farmaya Allah ne zinda apni taraf uthaya hai
E ondha log hai,zinda asman quran main kaha likha hai bhai ???????
اور وہ جو ہے” کُل نفس ذائقہ لموت” اُس کا کیا بنے گا ؟
@@sksarwaruddin9084 brother don’t waist you time nobody has answer of your question. When they can’t answer question they become personal just as qufaar did to all messengers
@@umarfraz4547 just read miraza 's book jis me us ne khud ko khuda, khuda ka beta, nabi s.a.w kaha ha(naauzubillah) Wo apni kitabon se jhoota sabit hota ha. Jab tak ap khud nhi prhe ge or hidayat nhi chahe ge tab tak ye hi hota rhe ga. shukrya
@@sksarwaruddin9084 مرزا قادیانی نے تحریر کیا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا برائے مہربانی وہ احادیث کہاں ہیں رہنمائی فرمادیں۔
ختم نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم زندہ باد ❤❤❤
ختم نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم زندہ باد ❤❤❤
ختم نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم زندہ باد ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
بھائی صاحب آپ یہ بتائیں کہ اللّہ تعالیٰ کی پاک ھستی کہاں پر موجود ہے
Mohtrma Behna ye to apko b pta H k ALLAH kaha H but puch k Kia sabit krna chahti hen
ہے کوئی حلالی مرزائی جس کی ماں نے اس کو حلال حمل سے جنم دیا ہو جو میرے سوالوں کا جواب دے ورنہ مرزے قادیاں والے کی قبر اور مرزے مسرور کے منہ پر ٹٹی مل کر مسلمان ہو جائے.
1 جماعت مرزائیہ یورپ میں عیسائیوں کو یہ کیوں نہیں بتاتی کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وہ انتظار کر رہے ہیں مرزے قادیانی کذاب نے اس کو نہ صرف مار دیا ہے بلکہ خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور ٹٹی میں مر بھی گیا ہے؟
2 اگر مرزا قادیانی کذاب اللہ کا برگزیدہ اور فرستادہ بندہ تھا تو ٹٹی میں کیوں مرا ؟
3 کیا اللہ کے برگزیدہ بندے مرزے قادیانی کذاب کی طرح ٹٹیوں میں مرتے ہیں اور کیا ان کے جنازے پر مرزے قادیانی کذاب کے جنازے کی طرح ٹٹیاں پھینکی جاتی ہیں؟مرتے وقت مرزے قادیانی کذاب کے پچھواڑے اور منہ سے ٹٹی نکل رہی تھی.
4 اگر مرزا قادیانی کذاب کے بقول حکومت برطانیہ اور عیسائی ہی دجال تھے تو مرزے کذاب نے ان کا خاتمہ کیوں نہ کیا اور مرزا مسرور کذاب اس دجال کی گود میں کیوں بیٹھا ہے؟
5 اگر دجال اسی طرح دنیا میں موجود ہے تو مرزا قادیاں والا کذاب نے اپنی زندگی میں کیا پہاڑ توڑا؟
6 مرزا قادیاں والا کذاب کو ہونے والا یہ الہام کہ سارا ہندوستان عنقریب مرزائی ہو جائے گا.120 سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں پورا نہیں ہوا؟کیا اس سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟
7 مرزا کذاب کو اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے یہ الہام کیا کہ قادیان بہت بڑا شہر بن جائے گا اور اس کو وہ عروج حاصل ہو گا جو آج تک کسی بھی شہر کو حاصل نہیں ہوا اور اس کی حدود لاہور تک پھیل جائیں گی. آج قادیان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں مرزائی کذاب اقلیت میں ہیں سارا ہندوستان مرزائی کرنا تو دور کی بات قادیان جو مرزائیوں کا روحانی مرکز ہے اس کی ساری آبادی ابتک مرزائی نہیں ہے کیوں؟ کیا اس بات سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟
8 مرزا قادیاں والا کذاب کے بقول اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے اس پر وحی نازل کی کہ میں تیرا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دوں گا لیکن مرزائیوں کے مرکز قادیان اور ربوہ جن ملکوں میں ہیں وہاں اور خصوصاً پاکستان میں ان کو جوتیاں کیوں پڑ رہی ہیں؟
9 جماعت مرزائیہ اگر واقعی خدائی جماعت ہے تو خدا نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہیں کی جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا رہا تھا.؟
10 اگر جماعت مرزائیہ کذاب ہی مسلمانوں کا تہترواں فرقہ ہیں تو جماعت مرزائیہ کے فرقے محمودی، لاہوری، جنبہ ،ناصر سلطانی ،زاہد خان کا فرقہ یہ سب اپنے آپ کو اصل اور باحق اور دوسروں کو جہنمی، خنزیر اور جھوٹی جماعت کہتے ہیں. یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ جماعت مرزائیہ کذاب کا کون سا فرقہ اصل میں تہترواں ہے؟
11 مرزائی کذاب انہی عیسائی اور یہودی حکومتوں کے پاس مدد کے لیے کیوں بھاگتے ہیں جن کو مرزا قادیاں والا خود دجال قرار دے چکا ہے؟
12 مرزا قادیاں والا کذاب کی اولاد دین کی ترویج وترقی کے نام پر لیے گئے چندے کو اپنی ذات اور عیاشیوں پر کیوں صرف کرتی ہے؟
13 اگر مرزائیت خدا کی اتنی ہی سچی جماعت ہے تو اب تک سارا یورپ اور ہندوستان جہاں ان کو تبلیغ کی ہر قسم کی آزادی ہے کیوں مرزائی نہیں ہوا؟
14 مرزا قادیاں والا کذاب اور مرزا بشیر الدین محمود کذاب کے بقول نبوت کا سلسلہ جاری ہے تو پھر دوسرے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، عبدالغفار جنبے اور طاہر نسیم،ناصر سلطانی ،زاہد خان وغیرہ کو امت مرزائیہ نبی کیوں نہیں مانتی؟
15 بقول امت مرزائیہ 1974 میں مسلمانوں کے 72 فرقوں نے ان کو علیحدہ کر دیا اور امت مرزائیہ کے خلاف فیصلہ ہو گیا. مرزائی مسلمانوں کے ان 72 فرقوں کے نام بتا دیں.
16.اگر مرزا قادیاں والا کذاب اپنے دعویٰ جات میں اتنا ہی سچا تھا تو جماعت مرزائیہ لوگوں کو تبلیغ کے وقت اس کے نبوت کے دعوے کو کیوں چھپاتی ہے؟
17. حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں یا نہیں وہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے یا نہیں یہ اللہ اور اس کے سچے اور آخری نبی کا معاملہ ہے اس سارے معاملے سے مرزا قادیانی کذاب ابن چراغ بی بی ولد غلام مرتضیٰ کا کیا تعلق ہے؟
18. محمدی بیگم کی بیش گوئی کے جھوٹے ہونے کے بعد مرزا قادیانی کذاب کے سچا ہونے کا کیا جواز ہے؟
19. کیا مرزائی مرزے قادیانی کذاب کے مرد سے عورت اور پھر یلاش سے رجولیت کروا کر گابھن ہونے اور خود سے خود کو پیدا کرنے کے دعویٰ کے کو سچ مانتے ہیں؟
20.. مرزائی نیک اعمال کی بجائے چندے کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں؟
بھائی بہت زبردست سوال کیا آپ نے،آسمان تو اپنے کوئی وجود نہیں رکھتا ہے
To aap ye sabit krein ky esa as ka jism aasman per gya tha
مرزا قادیانی نے یہ جھوٹ کیوں بولا کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا اور مجدد ہوگا۔
کوئی ایک حدیث بتادیں بڑی مہربانی ہوگی۔
0:54 0:55
Can you please share the reference from Quran which verse is saying Hazrat Issa is alive. Being murdered or being hanging, are these the only ways to die. How can you say that rafaa means lifting but lifting him alive?
👍🏻حیات عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی دلیل✍️
❤️’’قَالَ اللّٰہُ عَزِّوَجَلّ فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِج وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُط مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (نساء:۱۵۵تا۱۵۸)‘‘
’’ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اﷲ کی آیتوں سے، اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق، اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے سو یہ نہیں بلکہ اﷲ نے مہر کر دی ان کے دل پر کفر کے سبب، سو ایمان نہیں لاتے مگر کم، اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند)
◾:اﷲتعالیٰ ان کے قول کی تکذیب فرماتا ہے کہ یہودیوں نے نہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا یہود جو مختلف باتیں اس بارہ میں کہتے ہیں اپنی اپنی اٹکل سے کہتے ہیں۔ اﷲ نے ان کو شبہ میں ڈال دیا۔ خبر کسی کو بھی نہیں۔ واقعی بات یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اﷲتعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا۔ حق تعالیٰ نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کر دی جب باقی لوگ گھر میں گھسے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کر دیا۔ پھر خیال آیا تو کہنے لگے کہ اس کا چہرہ تو مسیح کے چہرہ کے مشابہ ہے اور باقی بدن ہمارے ساتھی کا معلوم ہوتاہے۔ کسی نے کہا کہ یہ مقتول مسیح ہے تو وہ آدمی کہاں گیا اور ہمارا آدمی ہے تو مسیح کہاں ہے۔ اب صرف اٹکل سے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ علم کسی کو بھی نہیں حق یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مقتول نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر اﷲ نے اٹھالیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا۔ (تفسیر عثمانی)
(ربط) حق جل شانہ نے ان آیات شریفہ میں یہود بے بہبود کے ملعون اور مغضوب اور مطرود ومردود ہونے کے کچھ وجوہ واسباب ذکر کئے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ پس ہم نے یہود کو متعدد وجوہ کی بناء پر مورد لعنت وغضب بنایا۔
(۱)نقض عہد کی وجہ سے۔
(۲)اور آیات الٰہی کی تکذیب اور انکار کی وجہ سے۔
(۳)اور خدا کے پیغمبروں کو بے وجہ محض عناد اور دشمنی کی بناء پر قتل کرنے کی وجہ سے۔
(۴)اور اس قسم کے متکبرانہ کلمات کی وجہ سے کہ مثلاً ہمارے قلوب علم اور حکمت کے ظرف ہیں۔ ہمیں تمہاری ہدایت اور ارشاد کی ضرورت نہیں۔ ان کے قلوب علم اور حکمت اور رشد وہدایت سے اس لئے بالکل خالی ہیں کہ اﷲ نے ان کے عناد اور تکبر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ جس کی وجہ سے قلوب میں جہالت اور ضلالت بند ہے۔ اوپر سے مہر لگی ہوئی ہے۔ اندر کا کفر باہر نہیں آسکتا اور باہر سے کوئی رشد اور ہدایت کا اثر اندر نہیں داخل ہوسکتا۔ (پس اس گروہ میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں مگر کوئی شاذ ونادر جیسے عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن سلام اور ان کے رفقاء)
(۵)اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر وعداوت کی وجہ سے۔
(۶)اور حضرت مریم علیہ السلام پر عظیم بہتان لگانے کی وجہ سے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اہانت اور تکذیب کو بھی مستلزم ہے۔ اہانت تو اس لئے کہ کسی کی والدہ کو زانیہ اور بدکار کہنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص ولد الزنا ہے اور العیاذ باﷲ نبی کے حق میں ایسا تصور بھی بدترین کفر ہے اور تکذیب اس طرح لازم آتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے حضرت مریم علیہا السلام کی برأت اور نزاہت ثابت ہوچکی ہے اور تہمت لگانا برأت اور نزاہت کا صاف انکار کرنا ہے۔
(۷)اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ جو بطور تفاخر کہتے تھے کہ ہم نے مسیح بن مریم جو رسول اﷲ ہونے کے مدعی تھے ان کو قتل کر ڈالا۔ نبی کا قتل کرنا بھی کفر ہے بلکہ ارادۂ قتل بھی کفر ہے اور پھر اس قتل پر فخر کرنا یہ اس سے بڑھ کر کفر ہے اور حالانکہ ان کا یہ قول کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کر ڈالا۔ بالکل غلط ہے ان لوگوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا۔ لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ حضرت مسیح کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ سب شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کا کوئی صحیح علم اور صحیح معرفت نہیں۔ سوائے گمان کی پیروی کے کچھ بھی نہیں۔ خوب سمجھ لیں کہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شبیہ اور ہم شکل بنا دیا اور حضرت عیسیٰ سمجھ کر اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا اور اسی وجہ سے یہود کو اشتباہ ہوا اور پھر اس اشتباہ کی وجہ سے اختلاف ہوا اور یہ سب اﷲ کی قدرت اور حکمت سے کوئی بعید نہیں۔ بے شک اﷲتعالیٰ بڑے غالب اور حکمت والے ہیں کہ اپنی قدرت اور حکمت سے نبی کو دشمنوں سے بچا لیا اور زندہ آسمان پر اٹھایا اور ان کی جگہ ایک شخص کو ان کے ہم شکل بناکر قتل کرایا اور تمام قاتلین کو قیامت تک اشتباہ اور اختلاف میں ڈال دیا۔
......✍️ یہ آیات شریفہ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمی میں نص صریح ہیں۔✌🏻✌🏻
☝️…ان آیات میں یہود بے بہبود پر لعنت کے اسباب کو ذکر فرمایا ہے۔ ان میں ایک سبب یہ ہے: ’’وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا‘‘ یعنی حضرت مریم علیہا السلام پر طوفان اور بہتان لگانا۔ اس طوفان اور بہتان عظیم میں مرزاقادیانی کا قدم یہود سے کہیں آگے ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں حضرت مریم علیہا السلام پر جو بہتان کا طوفان برپا کیا ہے یہود کی کتابوں میں اس کا چالیسواں حصہ بھی نہ ملے گا۔
✌️…آیات کا سیاق وسباق بلکہ سارا قرآن روز روشن کی طرح اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ یہود بے بہبود کی ملعونیت اور مغضوبیت کا اصل سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عداوت اور دشمنی ہے۔ مرزاقادیانی اور مرزائی جماعت کی زبان اور قلم سے حضرت مسیح علیہ السلام کے بغض اور عداوت کا جو منظر دنیا نے دیکھا ہے وہ یہود کے وہم وگمان سے بالا اور برتر ہے۔ مرزاقادیانی کے لفظ لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دشمنی ٹپکتی ہے۔ ’’قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ (اٰل عمران:۱۱۸)‘‘ انتہائی بغض اور عداوت خود بخود ان کے منہ سے ظاہر ہورہی ہے اور جو عداوت ان کے سینوں میں مخفی اور پوشیدہ ہے وہ تمہارے خواب وخیال سے بھی کہیں زیادہ ہے۔😑
مرزاقادیانی نے نصاریٰ کے الزام کے بہانہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں اپنے دل کی عداوت دل کھول کر نکالی جس کے تصور سے بھی کلیجہ شق ہوتا ہے۔
👍…پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ‘‘ فرمایا۔ یعنی انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے ملعون اور مغضوب ہوئے اور اس آیت میں: ’’وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ‘‘ فرمایا۔ یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی طرح حضرت مسیح واقع میں مقتول ہوئے تھے تو جس طرح پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں: ’’وقتلہم وصلبہم المسیح عیسٰی ابن مریم رسول اللّٰہ‘‘ فرماتے۔ پہلی آیت میں لعنت کا سبب قتل انبیاء ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں لعنت کا یہ سبب ان کا ایک قول بتلایا۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص یہ کہے کہ مسیح ابن مریم مقتول اور مصلوب ہوئے وہ شخص بلاشبہ ملعون اور مغضوب ہے۔ نیز اس آیت میں حضرت مسیح کے دعویٰ قتل کو بیان کر کے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا اور انبیاء سابقین کے قتل کو بیان کر کے ’’بل رفعہم اللّٰہ‘‘ نہیں فرمایا۔ حالانکہ قتل کے بعد ان کی ارواح طیبہ آسمان پر اٹھائی گئیں۔ ثابت ہوا کہ مسیح کے رفع جسمانی کا بیان ہے نہ کہ رفع روح کا۔
⭐…اس مقام پر حق جل شانہ نے دو لفظ استعمال فرمائے۔ ایک ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ جس میں قتل کی نفی فرمائی۔ دوسرا ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی فرمائی۔ اس لئے کہ اگر فقط ’’وَمَا قَتَلُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں۔ لیکن صلیب پر چڑھائے گئے ہوں اور علیٰ ہذا اگر فقط ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے صلیب تو نہ دئیے گئے ہوں۔ لیکن قتل کر دئیے گئے ہوں۔ علاوہ ازیں بعض مرتبہ یہود ایسا بھی کرتے تھے کہ اوّل قتل کرتے اور پھر صلیب پر چڑھاتے۔ اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ایک حرف نفی پر اکتفاء نہ فرمایا۔ یعنی ’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ‘‘ نہیں فرمایا ہے بلکہ حرف نفی یعنی کلمہ ’’ما‘‘ کو ’’قتلوا ‘‘اور ’’صلبوا‘‘ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ’’ما قتلوہ‘‘ اور پھر ’’ما صلبوہ‘‘ فرمایا تاکہ ہر ایک کی نفی اور ہر ایک کا جداگانہ مستقلاً رد ہو جائے اور خوب واضح ہو جائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے اور نہ قتل کر کے صلیب پر لٹکائے گئے۔ دشمنوں نے ایڑی چوٹی کا سارا زور ختم کر دیا، مگر سب بے کار گیا۔ قادر وتوانا جس کو بچانا چاہے اسے کون ہلاک کر سکتا ہے؟
✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️۔۔
👍🏻👍🏻بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کی تفسیر
جیسا کہ شب معراج میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۴۷۱، باب ذکر ادریس علیہ السلام) میں ہے ’’ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء‘‘
یہ آیت رفع جسمی کے بارے میں نص صریح ہے کہ حق جل شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ اور صحیح اور سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ اب ہم اس کے دلائل اور براہین ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیں۔👍👍👍
😶😶😶…یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ: ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ’’مَاقَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔
۔
😶😶😶😶…دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں اس کی تردید کی گئی لہٰذا ’’بل رفعہ‘‘ سے جسم ہی مراد ہوگا۔
👍👍👍👍بل کی بحث
اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ’’ماقبل‘‘ اور ’’مابعد‘‘ میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ ’’وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء:۲۶)‘‘ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (مؤمنون:۷۰)‘‘ {یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات۔} مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی منجانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہے وہ مرفوعیت الی اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہرہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہو جاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اور درجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’کما قال تعالٰی وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح:۴)‘‘ {اور بلند کیا ہم نے ذکر تیرا۔} اور ’’یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ:۱۱)‘‘ {اﷲ بلند کرے تگا ان کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم ان کے درجے۔}
یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لیا۔
🌹قتل سے قبل رفع جسمانی
🌹اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ’’رفع الی السماء‘‘ باعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ ’’بل جآء ہم بالحق‘‘ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔
۳…جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہو گی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندیٔ رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’کما قال تعالیٰ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ (البقرہ:۶۳)‘‘ {اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو۔} ’’اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا (الرعد:۲)‘‘ {اﷲ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو۔} ’’وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ (البقرہ:۱۲۷)‘‘ {اور یاد کر جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل۔} ’’وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ (یوسف:۱۰۰)‘‘ {اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔} ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام میں مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ ہم نے آپ علیہ السلام کا ذکر بلند کیا اور ’’وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (الزخرف:۳۲)‘‘ {اور بلند کر دئیے درجے بعض کے بعض پر۔} اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید مذکور ہے....
✍️✍️✍️خلاصۂ کلام
یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔
۴…اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا کہ اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہ‘‘ میں ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے حاصل نہ تھا بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور ’’وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالاْٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۵)‘‘ {مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اﷲ کے مقربوں میں۔} کے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا یعنی رفع جسمی اور رفع عزت ومنزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔
۵…یہ کہ رفع کا لفظ قرآن کریم میں صرف دو پیغمبروں کے لئے آیا ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے ادریس علیہ السلام کے لئے۔ ’’کما قال تعالٰی وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم:۵۶،۵۷)‘‘ {اور مذکور تذکرہ کتاب میں ادریس کا وہ تھا سچا نبی اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر۔} ادریس علیہ السلام کا رفع جسمانی کا مفصل تذکرہ تفاسیر میں مذکور ہے۔ (روح المعانی ج۵ ص۱۸۷، خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۶۷،۱۶۸، ج۱ ص۱۷۴، تفسیر کبیر ج۵ ص۵۴۵، ارشاد الساری ج۵ ص۳۷۰، فتح الباری ج۱۳ ص۲۲۵، مرقات ج۵ ص۲۲۴، معالم التنزیل ج۳ ص۷، فی عمدۃ القاری ج۷ ص۳۲۷، القول الصحیح بانہ رفع وہوحی ودرمنثور ج۴ ص۲۴۶، وفی التفسیر ابن جریر ج۱۶ ص۶۳) ان اللّٰہ رفعہ وہو حی الٰی السماء۔ الرابعۃ وفی الفتوحات المکیۃ (ج۳ ص۳۴۱) والیواقیت الجواہر (ج۲ ص۲۴) فاذا انا بادریس بجسمہ فانہ مامات الٰی الآن بل رفعہ اللّٰہ مکانا علیا وفی الفتوحات (ج۲ ص۵) ادریس علیہ السلام بقی حیا بجسدہٖ واسکنہ اللّٰہ الٰی السماء الرابعۃ) لہٰذا تمام انبیاء کرام میں انہیں دو پیغمبروں کو رفع کے ساتھ کیوں خاص کیاگیا؟ رفع درجات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔
۶…’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ اور ’’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا‘‘ اور ’’بَلْ رَّفَعَہُ‘‘ میں تمام ضمائر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں جن کو مسیح اور ابن مریم اور رسول اﷲ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ اور مسیح اور ابن مریم اور رسول یہ جسم معین اور جسد خاص کے نام اور لقب ہیں۔ روح کے اسماء اور القاب نہیں۔ اس لئے کہ جب تک روح کا تعلق کسی بدن اور جسم کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک وہ روح کسی اسم کے ساتھ موسوم اور کسی لقب کے ساتھ ملقب نہیں ہوتی۔ ’’وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَتَہُمْ (الاعراف:۱۷۲)‘‘ {اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو۔} ’’وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم الارواح جنود مجندۃ الحدیث‘‘
(بخاری ج۱ ص۴۶۹، باب الارواح جنود مجندۃ کنزالعمال ج۹ ص۲۳، حدیث:۲۴۷۴۱)
۷…یہ کہ یہود کی ذلت ورسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت ورفعت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
😂😂😂😂😂
Mirza Qadiani was a confused person 😮
tm ne qadianiat se toba na ki tw tmhy bi aag me jalna parega
Meray bahi har admi faut hunay k baad Asmaan par hi jata hai ....jub Allah ne kisi ku apnai pass uthayee janai ku khas Quraan mai kaha nah wu katal huai na saleeb pai charhai gaye that means in quraan Allah pak is baat pai zur daal rahay hain k Hazrat eesa ku apnai pass uthana aam insaanon ki rohoon ku uthanai jeisa nahi bulkay khas tha.......aur wu khas yehi tha k Hazrat Eesa ku bama roh o jism apnai pass utha liya.....werna kya zarurat thi k Hazrat eesa k wakai ku quraan main peesh karna 124000 paighambar ai aur gayee kisi k barai main aisa nahi farmaya Allah ne ....tu Hazrat eesa hi ka kyun khas biyaan hua
Mery bai hr insan maot k bad upr hi jata hai ALLAHA kry ap logun ko hadiat a jai agr na ai asman tu door apko zmeen ny bi qbool ni krna
Ameen
Allah sab ko hidayat de. Ap mirza qadiani ki kitabein parhen jis me us ne khud ko khuda, khuda ka beta or nabi s.a.w kaha ha. Wo apni kitabo se jhota sabit jota ha. Barae meharbani us ki kitabon ko parhe aankhe band kr k yaqeen na kre. Shukrya.
مرزا قادیانی نے کہا احادیث صحیحہ میں لکھا ہے مسیح چوھدویں صدی میں آئیگا برائے مہربانی آپ رہنمائی فرمائیں یہ باتیں کہاں لکھی ہوئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کے روح کو اٹھا لیتا ہے ۔
جسم کو نہیں ،
ہدایت اسے ملتے ہیں جو متقی ہیں
👍🏻حیات عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی دلیل✍️
❤️’’قَالَ اللّٰہُ عَزِّوَجَلّ فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌط بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِج وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُط مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّج وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (نساء:۱۵۵تا۱۵۸)‘‘
’’ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اﷲ کی آیتوں سے، اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق، اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے سو یہ نہیں بلکہ اﷲ نے مہر کر دی ان کے دل پر کفر کے سبب، سو ایمان نہیں لاتے مگر کم، اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲ کا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند)
◾:اﷲتعالیٰ ان کے قول کی تکذیب فرماتا ہے کہ یہودیوں نے نہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا یہود جو مختلف باتیں اس بارہ میں کہتے ہیں اپنی اپنی اٹکل سے کہتے ہیں۔ اﷲ نے ان کو شبہ میں ڈال دیا۔ خبر کسی کو بھی نہیں۔ واقعی بات یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور اﷲتعالیٰ سب چیزوں پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قصہ یہ ہوا کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کا عزم کیا تو پہلے ایک آدمی ان کے گھر میں داخل ہوا۔ حق تعالیٰ نے ان کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور اس شخص کی صورت حضرت مسیح علیہ السلام کی صورت کے مشابہ کر دی جب باقی لوگ گھر میں گھسے تو اس کو مسیح سمجھ کر قتل کر دیا۔ پھر خیال آیا تو کہنے لگے کہ اس کا چہرہ تو مسیح کے چہرہ کے مشابہ ہے اور باقی بدن ہمارے ساتھی کا معلوم ہوتاہے۔ کسی نے کہا کہ یہ مقتول مسیح ہے تو وہ آدمی کہاں گیا اور ہمارا آدمی ہے تو مسیح کہاں ہے۔ اب صرف اٹکل سے کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ کہا۔ علم کسی کو بھی نہیں حق یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مقتول نہیں ہوئے بلکہ آسمان پر اﷲ نے اٹھالیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا۔ (تفسیر عثمانی)
(ربط) حق جل شانہ نے ان آیات شریفہ میں یہود بے بہبود کے ملعون اور مغضوب اور مطرود ومردود ہونے کے کچھ وجوہ واسباب ذکر کئے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ پس ہم نے یہود کو متعدد وجوہ کی بناء پر مورد لعنت وغضب بنایا۔
(۱)نقض عہد کی وجہ سے۔
(۲)اور آیات الٰہی کی تکذیب اور انکار کی وجہ سے۔
(۳)اور خدا کے پیغمبروں کو بے وجہ محض عناد اور دشمنی کی بناء پر قتل کرنے کی وجہ سے۔
(۴)اور اس قسم کے متکبرانہ کلمات کی وجہ سے کہ مثلاً ہمارے قلوب علم اور حکمت کے ظرف ہیں۔ ہمیں تمہاری ہدایت اور ارشاد کی ضرورت نہیں۔ ان کے قلوب علم اور حکمت اور رشد وہدایت سے اس لئے بالکل خالی ہیں کہ اﷲ نے ان کے عناد اور تکبر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ جس کی وجہ سے قلوب میں جہالت اور ضلالت بند ہے۔ اوپر سے مہر لگی ہوئی ہے۔ اندر کا کفر باہر نہیں آسکتا اور باہر سے کوئی رشد اور ہدایت کا اثر اندر نہیں داخل ہوسکتا۔ (پس اس گروہ میں سے کوئی ایمان لانے والا نہیں مگر کوئی شاذ ونادر جیسے عبداﷲ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم بن سلام اور ان کے رفقاء)
(۵)اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر وعداوت کی وجہ سے۔
(۶)اور حضرت مریم علیہ السلام پر عظیم بہتان لگانے کی وجہ سے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اہانت اور تکذیب کو بھی مستلزم ہے۔ اہانت تو اس لئے کہ کسی کی والدہ کو زانیہ اور بدکار کہنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص ولد الزنا ہے اور العیاذ باﷲ نبی کے حق میں ایسا تصور بھی بدترین کفر ہے اور تکذیب اس طرح لازم آتی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزہ سے حضرت مریم علیہا السلام کی برأت اور نزاہت ثابت ہوچکی ہے اور تہمت لگانا برأت اور نزاہت کا صاف انکار کرنا ہے۔
(۷)اور ان کے اس قول کی وجہ سے کہ جو بطور تفاخر کہتے تھے کہ ہم نے مسیح بن مریم جو رسول اﷲ ہونے کے مدعی تھے ان کو قتل کر ڈالا۔ نبی کا قتل کرنا بھی کفر ہے بلکہ ارادۂ قتل بھی کفر ہے اور پھر اس قتل پر فخر کرنا یہ اس سے بڑھ کر کفر ہے اور حالانکہ ان کا یہ قول کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کر ڈالا۔ بالکل غلط ہے ان لوگوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا۔ لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ حضرت مسیح کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ سب شک اور تردد میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کسی قسم کا کوئی صحیح علم اور صحیح معرفت نہیں۔ سوائے گمان کی پیروی کے کچھ بھی نہیں۔ خوب سمجھ لیں کہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ حضرت مسیح کو کسی نے قتل نہیں کیا بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنی طرف یعنی آسمان پر اٹھا لیا اور ایک اور شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا شبیہ اور ہم شکل بنا دیا اور حضرت عیسیٰ سمجھ کر اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا اور اسی وجہ سے یہود کو اشتباہ ہوا اور پھر اس اشتباہ کی وجہ سے اختلاف ہوا اور یہ سب اﷲ کی قدرت اور حکمت سے کوئی بعید نہیں۔ بے شک اﷲتعالیٰ بڑے غالب اور حکمت والے ہیں کہ اپنی قدرت اور حکمت سے نبی کو دشمنوں سے بچا لیا اور زندہ آسمان پر اٹھایا اور ان کی جگہ ایک شخص کو ان کے ہم شکل بناکر قتل کرایا اور تمام قاتلین کو قیامت تک اشتباہ اور اختلاف میں ڈال دیا۔
......✍️ یہ آیات شریفہ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمی میں نص صریح ہیں۔✌🏻✌🏻
☝️…ان آیات میں یہود بے بہبود پر لعنت کے اسباب کو ذکر فرمایا ہے۔ ان میں ایک سبب یہ ہے: ’’وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا‘‘ یعنی حضرت مریم علیہا السلام پر طوفان اور بہتان لگانا۔ اس طوفان اور بہتان عظیم میں مرزاقادیانی کا قدم یہود سے کہیں آگے ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنی کتابوں میں حضرت مریم علیہا السلام پر جو بہتان کا طوفان برپا کیا ہے یہود کی کتابوں میں اس کا چالیسواں حصہ بھی نہ ملے گا۔
✌️…آیات کا سیاق وسباق بلکہ سارا قرآن روز روشن کی طرح اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ یہود بے بہبود کی ملعونیت اور مغضوبیت کا اصل سبب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عداوت اور دشمنی ہے۔ مرزاقادیانی اور مرزائی جماعت کی زبان اور قلم سے حضرت مسیح علیہ السلام کے بغض اور عداوت کا جو منظر دنیا نے دیکھا ہے وہ یہود کے وہم وگمان سے بالا اور برتر ہے۔ مرزاقادیانی کے لفظ لفظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دشمنی ٹپکتی ہے۔ ’’قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ (اٰل عمران:۱۱۸)‘‘ انتہائی بغض اور عداوت خود بخود ان کے منہ سے ظاہر ہورہی ہے اور جو عداوت ان کے سینوں میں مخفی اور پوشیدہ ہے وہ تمہارے خواب وخیال سے بھی کہیں زیادہ ہے۔😑
مرزاقادیانی نے نصاریٰ کے الزام کے بہانہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں اپنے دل کی عداوت دل کھول کر نکالی جس کے تصور سے بھی کلیجہ شق ہوتا ہے۔
👍…پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ‘‘ فرمایا۔ یعنی انبیاء کو قتل کرنے کی وجہ سے ملعون اور مغضوب ہوئے اور اس آیت میں: ’’وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ‘‘ فرمایا۔ یعنی اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ محض قول ہی قول ہے اور قتل کا محض زبانی دعویٰ ہے۔ اگر دیگر انبیاء کی طرح حضرت مسیح واقع میں مقتول ہوئے تھے تو جس طرح پہلی آیت میں ’’وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ فرمایا تھا اسی طرح اس آیت میں: ’’وقتلہم وصلبہم المسیح عیسٰی ابن مریم رسول اللّٰہ‘‘ فرماتے۔ پہلی آیت میں لعنت کا سبب قتل انبیاء ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں لعنت کا یہ سبب ان کا ایک قول بتلایا۔ یعنی ان کا یہ کہنا کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کر ڈالا۔ معلوم ہوا کہ جو شخص یہ کہے کہ مسیح ابن مریم مقتول اور مصلوب ہوئے وہ شخص بلاشبہ ملعون اور مغضوب ہے۔ نیز اس آیت میں حضرت مسیح کے دعویٰ قتل کو بیان کر کے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا اور انبیاء سابقین کے قتل کو بیان کر کے ’’بل رفعہم اللّٰہ‘‘ نہیں فرمایا۔ حالانکہ قتل کے بعد ان کی ارواح طیبہ آسمان پر اٹھائی گئیں۔ ثابت ہوا کہ مسیح کے رفع جسمانی کا بیان ہے نہ کہ رفع روح کا۔
⭐…اس مقام پر حق جل شانہ نے دو لفظ استعمال فرمائے۔ ایک ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ جس میں قتل کی نفی فرمائی۔ دوسرا ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ جس میں صلیب پر چڑھائے جانے کی نفی فرمائی۔ اس لئے کہ اگر فقط ’’وَمَا قَتَلُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے قتل نہ کئے گئے ہوں۔ لیکن صلیب پر چڑھائے گئے ہوں اور علیٰ ہذا اگر فقط ’’وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ فرماتے تو یہ احتمال رہ جاتا کہ ممکن ہے صلیب تو نہ دئیے گئے ہوں۔ لیکن قتل کر دئیے گئے ہوں۔ علاوہ ازیں بعض مرتبہ یہود ایسا بھی کرتے تھے کہ اوّل قتل کرتے اور پھر صلیب پر چڑھاتے۔ اس لئے حق تعالیٰ شانہ نے قتل اور صلیب کو علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ایک حرف نفی پر اکتفاء نہ فرمایا۔ یعنی ’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ‘‘ نہیں فرمایا ہے بلکہ حرف نفی یعنی کلمہ ’’ما‘‘ کو ’’قتلوا ‘‘اور ’’صلبوا‘‘ کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور پھر ’’ما قتلوہ‘‘ اور پھر ’’ما صلبوہ‘‘ فرمایا تاکہ ہر ایک کی نفی اور ہر ایک کا جداگانہ مستقلاً رد ہو جائے اور خوب واضح ہو جائے کہ ہلاکت کی کوئی صورت ہی پیش نہیں آئی نہ مقتول ہوئے اور نہ مصلوب ہوئے اور نہ قتل کر کے صلیب پر لٹکائے گئے۔ دشمنوں نے ایڑی چوٹی کا سارا زور ختم کر دیا، مگر سب بے کار گیا۔ قادر وتوانا جس کو بچانا چاہے اسے کون ہلاک کر سکتا ہے؟
✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️✍️۔۔
👍🏻👍🏻بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ کی تفسیر
جیسا کہ شب معراج میں حضرت جبرائیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر آسمان پر لے گئے۔ (صحیح البخاری ج۱ ص۴۷۱، باب ذکر ادریس علیہ السلام) میں ہے ’’ثم اخذ بیدی فعرج بی الی السماء‘‘
یہ آیت رفع جسمی کے بارے میں نص صریح ہے کہ حق جل شانہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اسی جسد عنصری کے ساتھ زندہ اور صحیح اور سالم آسمان پر اٹھا لیا۔ اب ہم اس کے دلائل اور براہین ہدیۂ ناظرین کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیں۔👍👍👍
😶😶😶…یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ: ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ کی ضمیر اسی طرف راجع ہے کہ جس طرف ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’مَا قَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسم مبارک اور جسد مطہر کی طرف راجع ہیں۔ روح بلا جسم کی طرف راجع نہیں۔ اس لئے کہ قتل کرنا اور صلیب پر چڑھانا جسم ہی کا ممکن ہے۔ روح کا قتل اور صلیب قطعاً ناممکن ہے۔ لہٰذا بل رفعہ کی ضمیر اسی جسم کی طرف راجع ہوگی جس جسم کی طرف ’’مَاقَتَلُوْہُ‘‘ اور ’’مَا صَلَبُوْہُ‘‘ کی ضمیریں راجع ہیں۔
۔
😶😶😶😶…دوم یہ کہ یہود روح کے قتل کے مدعی نہ تھے بلکہ جسم کے قتل کے مدعی تھے اور ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں اس کی تردید کی گئی لہٰذا ’’بل رفعہ‘‘ سے جسم ہی مراد ہوگا۔
👍👍👍👍بل کی بحث
اس لئے کہ کلمہ بل کلام عرب میں ما قبل کے ابطال کے لئے آتا ہے۔ لہٰذا بل کے ’’ماقبل‘‘ اور ’’مابعد‘‘ میں منافات اور تضاد کا ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ ’’وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ (الانبیاء:۲۶)‘‘ ولدیت اور عبودیت میں منافات ہے دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ ’’اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِہٖ جِنَّۃٌ بَلْ جَآئَ ہُمْ بِالْحَقِّ (مؤمنون:۷۰)‘‘ {یا کہتے ہیں اس کو سودا ہے کوئی نہیں وہ تو لایا ہے ان کے پاس سچی بات۔} مجنونیت اور اتیان بالحق (یعنی منجانب اﷲ حق کو لے کر آنا) یہ دونوں متضاد اور متنافی ہیں۔ یکجا جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ شریعت حقہ کا لانے والا مجنون ہو۔ اسی طرح اس آیت میں یہ ضروری ہے کہ مقتولیت اور مصلوبیت جو بل کا ماقبل ہے وہ مرفوعیت الی اﷲ کے منافی ہو جو بل کا مابعد ہے اور ان دونوں کا وجود اور تحقق میں جمع ہونا ناممکن ہے اور ظاہرہے کہ مقتولیت اور روحانی رفع بمعنی موت میں کوئی منافات نہیں۔ محض روح کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا قتل جسمانی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ شہداء کا جسم تو قتل ہو جاتا ہے اور روح آسمان پر اٹھالی جاتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں رفع جسمانی مراد ہو کہ جو قتل اور صلب کے منافی ہے۔ اس لئے کہ رفع روحانی اور رفع عزت اور رفعت شان قتل اور صلب کے منافی نہیں۔ بلکہ جس قدر قتل اور صلب ظلماً ہوگا اسی قدر عزت اور رفعت شان میں اضافہ ہوگا اور درجات اور زیادہ بلند ہوں گے۔ رفع درجات کے لئے تو موت اور قتل کچھ بھی شرط نہیں۔ رفع درجات زندہ کو بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ’’کما قال تعالٰی وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (الم نشرح:۴)‘‘ {اور بلند کیا ہم نے ذکر تیرا۔} اور ’’یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ:۱۱)‘‘ {اﷲ بلند کرے تگا ان کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں تم میں سے اور علم ان کے درجے۔}
یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کے قتل اور صلب کے مدعی تھے۔ اﷲتعالیٰ نے اس کے ابطال کے لئے ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ‘‘ فرمایا۔ یعنی تم غلط کہتے ہو کہ تم نے اس کے جسم کو قتل کیا، یا صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے ان کے جسم کو صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لیا۔
🌹قتل سے قبل رفع جسمانی
🌹اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل اور صلب کی نفی سے کیا فائدہ؟ قتل اور صلب سے غرض موت ہی ہوتی ہے اور بل اضرابیہ کے بعد رفعہ کو بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ’’رفع الی السماء‘‘ باعتبار ماقبل کے امر ماضی ہے۔ یعنی تمہارے قتل اور صلب سے پہلے ہی ہم نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ جیسا کہ ’’بل جآء ہم بالحق‘‘ میں صیغہ ماضی اس لئے لایا گیا کہ یہ بتلا دیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق کو لے کر آنا کفار کے مجنون کہنے سے پہلے ہی واقع ہو چکا ہے۔ اسی طرح ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ بصیغہ ماضی لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ رفع الی السماء ان کے مزعوم اور خیالی قتل اور صلب سے پہلے ہی واقع ہوچکا ہے۔
۳…جس جگہ لفظ رفع کا مفعول یا متعلق جسمانی شے ہو گی تو اس جگہ یقینا جسم کا رفع مراد ہوگا اور اگر رفع کا مفعول اور متعلق درجہ یا منزلہ یا مرتبہ یا امر معنوی ہو تو اس وقت رفع مرتبت اور بلندیٔ رتبہ کے معنی مراد ہوں گے۔ ’’کما قال تعالیٰ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ (البقرہ:۶۳)‘‘ {اور بلند کیا تمہارے اوپر کوہ طور کو۔} ’’اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا (الرعد:۲)‘‘ {اﷲ وہ ہے جس نے اونچے بنائے آسمان بغیر ستون دیکھتے ہو۔} ’’وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ (البقرہ:۱۲۷)‘‘ {اور یاد کر جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل۔} ’’وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ (یوسف:۱۰۰)‘‘ {اور اونچا بٹھایا اپنے ماں باپ کو تخت پر۔} ان تمام مواقع میں لفظ رفع اجسام میں مستعمل ہوا ہے اور ہر جگہ رفع جسمانی مراد ہے اور ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ‘‘ ہم نے آپ علیہ السلام کا ذکر بلند کیا اور ’’وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (الزخرف:۳۲)‘‘ {اور بلند کر دئیے درجے بعض کے بعض پر۔} اس قسم کے مواقع میں رفعت شان اور بلندی رتبہ مراد ہے۔ اس لئے کہ رفع کے ساتھ خود ذکر اور درجہ کی قید مذکور ہے....
✍️✍️✍️خلاصۂ کلام
یہ کہ رفع کے معنی اٹھانے اور اوپر لے جانے کے ہیں۔ لیکن وہ رفع کبھی اجسام کا ہوتا ہے اور کبھی معانی اور اعراض کا ہوتا ہے اور کبھی اقوال اور افعال کا اور کبھی مرتبہ اور درجہ کا۔ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع جسمی مراد ہوگا اور جہاں رفع اعمال اور رفع درجات کا ذکر ہوگا وہاں رفع معنوی مراد ہوگا۔ رفع کے معنی تو اٹھانے اور بلند کرنے ہی کے ہیں۔ باقی جیسی شے ہوگی اس کا رفع بھی اس کے مناسب ہوگا۔
۴…اس آیت کا صریح مفہوم اور مدلول یہ ہے کہ جس وقت یہود نے حضرت مسیح کے قتل اور صلب کا ارادہ کیا تو اس وقت قتل اور صلب نہ ہوسکا کہ اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کا اﷲ کی طرف رفع ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رفع جس کا ’’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہ‘‘ میں ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے سے حاصل نہ تھا بلکہ یہ رفع اس وقت ظہور میں آیا کہ جس وقت یہود ان کے قتل کا ارادہ کر رہے تھے اور رفع جو ان کو اس وقت حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ اس وقت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھا لئے گئے۔ رفعت شان اور بلندی مرتبہ تو ان کو پہلے ہی سے حاصل تھا اور ’’وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالاْٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ (آل عمران:۴۵)‘‘ {مرتبہ والا دنیا میں اور آخرت میں اور اﷲ کے مقربوں میں۔} کے لقب سے پہلے ہی سرفراز ہوچکے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں وہی رفع مراد ہوسکتا ہے کہ جو ان کو یہود کے ارادہ قتل کے وقت حاصل ہوا یعنی رفع جسمی اور رفع عزت ومنزلت اس سے پہلے ہی ان کو حاصل تھا اس مقام پر اس کا ذکر بالکل بے محل ہے۔
۵…یہ کہ رفع کا لفظ قرآن کریم میں صرف دو پیغمبروں کے لئے آیا ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے ادریس علیہ السلام کے لئے۔ ’’کما قال تعالٰی وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا وَّرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا (مریم:۵۶،۵۷)‘‘ {اور مذکور تذکرہ کتاب میں ادریس کا وہ تھا سچا نبی اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر۔} ادریس علیہ السلام کا رفع جسمانی کا مفصل تذکرہ تفاسیر میں مذکور ہے۔ (روح المعانی ج۵ ص۱۸۷، خصائص کبریٰ ج۱ ص۱۶۷،۱۶۸، ج۱ ص۱۷۴، تفسیر کبیر ج۵ ص۵۴۵، ارشاد الساری ج۵ ص۳۷۰، فتح الباری ج۱۳ ص۲۲۵، مرقات ج۵ ص۲۲۴، معالم التنزیل ج۳ ص۷، فی عمدۃ القاری ج۷ ص۳۲۷، القول الصحیح بانہ رفع وہوحی ودرمنثور ج۴ ص۲۴۶، وفی التفسیر ابن جریر ج۱۶ ص۶۳) ان اللّٰہ رفعہ وہو حی الٰی السماء۔ الرابعۃ وفی الفتوحات المکیۃ (ج۳ ص۳۴۱) والیواقیت الجواہر (ج۲ ص۲۴) فاذا انا بادریس بجسمہ فانہ مامات الٰی الآن بل رفعہ اللّٰہ مکانا علیا وفی الفتوحات (ج۲ ص۵) ادریس علیہ السلام بقی حیا بجسدہٖ واسکنہ اللّٰہ الٰی السماء الرابعۃ) لہٰذا تمام انبیاء کرام میں انہیں دو پیغمبروں کو رفع کے ساتھ کیوں خاص کیاگیا؟ رفع درجات میں تمام انبیاء شریک ہیں۔
۶…’’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ‘‘ اور ’’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا‘‘ اور ’’بَلْ رَّفَعَہُ‘‘ میں تمام ضمائر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہیں جن کو مسیح اور ابن مریم اور رسول اﷲ کہا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ اور مسیح اور ابن مریم اور رسول یہ جسم معین اور جسد خاص کے نام اور لقب ہیں۔ روح کے اسماء اور القاب نہیں۔ اس لئے کہ جب تک روح کا تعلق کسی بدن اور جسم کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک وہ روح کسی اسم کے ساتھ موسوم اور کسی لقب کے ساتھ ملقب نہیں ہوتی۔ ’’وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَتَہُمْ (الاعراف:۱۷۲)‘‘ {اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو۔} ’’وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم الارواح جنود مجندۃ الحدیث‘‘
(بخاری ج۱ ص۴۶۹، باب الارواح جنود مجندۃ کنزالعمال ج۹ ص۲۳، حدیث:۲۴۷۴۱)
۷…یہ کہ یہود کی ذلت ورسوائی اور حسرت اور ناکامی اور عیسیٰ علیہ السلام کی کمال عزت ورفعت بجسدہ العنصری صحیح وسالم آسمان پر اٹھائے جانے ہی میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
اگر مجھے اللّٰه نے ہمت دی تو میں تیرے مرزے کو قبر سے باہر صرور نکالوں گا خُد تو شہادت پا لوں گا پر اُس کُتے کی حقیقت سے کو بتا جاہوں گا ۔
Ye ajeeb log Hein qadiani apny Matlab ka terjuma or apny metlab ki tafseer khud sakhta dalil .
G G mohtrma koi shak n h is my ye zleel log apny mtlb ka hi trjma krty hen theek frmaya h ap ny
اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۶﴾
Translation: When Allah said, ‘O Jesus, I will cause thee to die a natural death and will exalt thee to Myself, and will clear thee from the charges of those who disbelieve, and will place those who follow thee above those who disbelieve, until the Day of Resurrection; then to Me shall be your return, and I will judge between you concerning that wherein you differ. [3:56]
Proof: The word mutawaffeeka means “I will cause you to die”. Whenever God is the fa’il (subject) and man is the maf’ul (object), it always refers to death. It means that God takes the soul of the man. In this case, it applies to Jesus(as) which in turn means that he has passed away.
Here are two examples of the usage of the word tawaffaa, meaning death:
وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴۷﴾
Translation: And if We show thee in thy lifetime the fulfilment of some of the things with which We have threatened them, thou wilt know it; or if We cause thee to die before that, then to Us is their return, and thou wilt see the fulfilment in the next world; and Allah is Witness to all that they do. [10:47]
bilkul,
ek dusry video may apky comment may kafi behas ho chuki ha meri ek qsdyani sy
میں نے آپ کے اپنے علماء کی ویڈیوز لگا دیں ہیں اُس کا جواب دے دیں تاکہ لوگوں کے علم میں اضافہ ہو جائے!
MIRZA SENIOR GHULAM KADIYANI OR MIRZA JUNIOR PLUMBER JHELMI ( ZURRIYET AL BAGHAAYA )
Mashallah 🌹 👍 bahuth bhadya javab
Aastghferullah
Allah hidayat ata kry
Kitabain to nida ul nasar ne jalwa di hain
Mirza mar gea tati me
قرآن میں دیکھتے ہیں کہ اللہ نے کیا فرمایا ہے اس "رفع" کے لفظ کے ساتھ:
اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ( سورہ فاطر 35:10)
اُسی کی طرف پاک کلمہ بلند ہوتا ہے اور اسے نیک عمل بلندی کی طرف لے جاتا ہے
یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ( سورہ المجادلۃ 58:11)
اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جو تم میں سے ایمان لائے ہیں اور خصوصاً ان کے جن کو علم عطا کیا گیا ہے
وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ ( سورہ الأعراف 7:176)
اور اگر ہم چاہتے تو اُن (آیات) کے ذریعہ ضرور اس کا رفع کرتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا
وَّ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا( سورہ مریم 19:57)
اور ہم نے اس کا ایک بلند مقام کی طرف رفع کیا تھا۔
مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ( سورہ عبس 80:14)
جو بلند و بالا کئے ہوئے، بہت پاک رکھے گئے ہیں۔
ان تمام آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ "رفع" جب اللہ کی طرف سے بولا جائے تو اس کے معنی مقام کا رفع ہے نہ کہ جسم سمیت اٹھانا۔ اور اگر ہم قرآن کی بات چھوڑ کر نعوذ باللہ آپ کی بات مان بھی لیں تو اللہ تو ہر جگہ ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانا کیوں ضروری تھا، یہ بات سمجھ نہیں آتی۔
(نتیجہ): ان تمام آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب عیسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ (اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ) تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو "وفات" دے گا اوراس کا "مقام بلند" کرے گا، کیونکہ ہر نبی اور نیک بندے کو اللہ وفات دے کر اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے -
آخر میں یہ کہوں گا کہ اس آیت کو جب اس آیت سے ملا کر پڑھا جائے، جس میں عیسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا کہ نہ تو ان کو صلیب دیا گیا اور نہ ہی ان کو قتل کیا گیا، تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ اپنی طبعی عمر گزار ے اور ان کی روح قبض کر لی گئی، کیونکہ اگر ان کی روح قبض نہیں کی گئی تو اس کا مطلب ہے وہ زندہ ہیں لیکن ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَ اِذۡ قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰٮۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوۡلٍ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ ؕ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ قَالُوۡا ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ(سورہ الصف 61:6)
اور (یاد کرو) جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! یقیناً میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس کی تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں جو تورات میں سے میرے سامنے ہے اور ایک عظیم رسول کی خوشخبری دیتے ہوئے جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا۔ پس جب وہ کھلے نشانوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہا یہ تو ایک کھلا کھلا جادو ہے۔
اس آیت میں مکمل طور پر واضح بات کی گئی ہے کہ عیسیٰ ابن مریم کے بعد حضرت محمد ﷺ کے آنے کی پیشگوئی کی جا رہی ہے ، اب اگر عیسیٰ علیہ السلام اگر زندہ ہیں تو نعوذ باللہ کتنی بڑی گستاخی ہو گی کہ عیسیٰ علیہ السلام جھوٹے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولا اور عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے کے باوجود قرآن میں جھوٹی آیت ڈال کر حضرت محمد ﷺ کو اس دنیا میں بھیج دیا یا پھر یہ سچ ہے کی عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور اللہ تعالیٰ سچے اور قرآن سچا اور حضرت محمد ﷺ صحیح وقت پر عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آگئے ہیں-
اب اس آیت اور دوسری تمام آیات کو ملا کر پڑھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ طبعی زندگی گزار کر فوت ہو گئے اور مرنے کے بعد ان کی روح کا رفع ہو گیا جیسے تمام انبیاء اور نیک لوگوں کے درجات بلند کرنے کے لیے ہوتا ہے اور اب جو آئے گا وہ ان پرانے عیسٰی علیہ السلام کی خصوصیات کے ساتھ نیا عیسیٰ ابن مریم اسی امت محمدیہ ﷺ میں پیدا ہو گا- اور وہ پیدا ہو گیا ہے اور اس کا نام ہے مرزا غلام احمدعلیہ الصلوۃٰ والسلام-
Eisa e s waslim qaba sa utha gaa
Abi
Esa e s waslim abi niee tashrief laya
MULLAH JI JHOOT MAT BOLO BATAO KON SI AYAT MIRZA SAHIB NE HAYATE MASSIH KE HAQ ME BAYAN KI HAI.
Zindagi mukhtasar hai۔۔۔tauba Karo!!
Islam ki taraf lauto is se pehle k Allah ki taraf lautne ka waqt aa jaaye!!!!
@@zarrarmusab7715
ISLAM TO SIRF WO HI HAI JIS KE SATH QURAN AUR KHUDA KA RASOOL
KHARY HAIN.BAQI ZABAN SE MUSALMAN KEH DENA KIA HAI.
@@imokhan3181
Bilkul Sahi kaha.... Islam to wahi hai.....
Aur jo khuda aur rasul k khilaf khare ho jaye use Qadyaniat kehte hai 👍
@@zarrarmusab7715
AGAR TUM LOGO KA YE DAWA HAI TO PHIR QURAN SE KOI DALIL PESH KARO.
@@zarrarmusab7715
KIO KE TUM NE ABHI ABHI DAWA KIA HAI KE QURAN SHARIF TUM LOGO KE SATH KHARA HAI.
*سوشل میڈیا کے اس دور میں کتابوں کے زریعے بیوقوف بنانا آسان نہیں ھے ھر ھاتھ میں فون ھے جس میں ھر طرح کی معلومات ھیں اچھی بھی بری بھی اب ھم نے اپنے دل سے فتویٰ لیں*
مولوی صاحب
کیا باقی انبیاء کی روحیں کہاں گئیں ہیں؟
مولوی صاحب
جس حدیث کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ یہاں پیش بھی کر دیں مکمل حوالہ کے ساتھ! کبھی نہیں کریں گے کیونکہ کوئی مستند حدیث ہے ہی نہیں!
یقین جانیے عیسائیوں کا خدا مر چکا ھے اور ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں کیونکہ آپ کا دیں قیامت تک زندہ ھے۔
حضرت عیسٰی ع کو پیارے آقا نے تمام فوت شدہ انبیاء کے ساتھ معراج کی رات دیکھا۔
اب ظاہر ھے زندہ انسان فوت شدہ انبیاء میں کیا کر رھا تھا۔
پھر 2000 سال سے واپس بھی نہی آ رھا۔ کچھ عقل سے کام لیں۔ پیارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور عیسائیوں کا خدا فوت ھو چکے ہیں۔
رانا جی جب بھی کوئی بات کرو توحوالہ ساتھ بولا کرو کتاب اور صفا نمبر بھی انٹرنیٹ میں دیکھنے میں آسانی ہوتی ہے اور جو بندہ کم پڑھا لکھا ہے دیکھ سکتا ہے
بلکل غلط بات ھے بلکہ مرزاصاحب کہتے ہیں میں بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح یہ سمجھتا تھا۔مگر جب اللہ تعالی نے مجھے سمجھایا تب مجھ پر یہ سارے راز کھلے اب اگر اللہ تعالی کسی کو کہتا ھے یہ مسئلہ یوں ھے تو پھر کوئی مولوی یہ کہتا پھرے کہ میں یہ سجھتا ھوں تو یہ اسکی بھول اور غلطی ھے۔اگر حدیث سے یہ ثابت ھے کہ عیسی علیہ السلام نازل ھونگے تو جاہلو اللہ تعالی تو سب انبیاء کے لئے نزول کا لفظ استعمال کرتا ھے۔اسکے علاوہ قرآن کریم میں ھے۔ھم نے لوھا نازل کیا۔چوپائے یعنی دودھ دینے والے جانور نازل کئے تو مجھے کوئی ایک گائے بھینس بکری یا لکھے کی راڈ آسمان سےاترتی دکھا دو۔کچھ خدا کا خوف کرو جب مرزاصاحب نے یہ کہہ دیا کہ مجھے یہ سب بعد میں اللہ تعالی نے سمجھایا تو کیا مولوی افضل ہیں یا اللہ تعالی خود۔قرآن کے متعلق بھی لفظ نازل استعمال حوا ھے۔یاد کرو جب نبی پاک کو کفار نے کہا تھا کہ ہمارے سامنے آسمان پر جاو اور کتاب لیکر آو ھم تب مانینگے۔تو نبیوں کے سردار۔ص۔ع۔و۔نے فرمایا تھا کہ میں تو ایک بشر رسول ھوں۔مولویو خدا سے ڈر و نہ لوگوں کو گمراہ کرو۔
Acha tow ALLAH paak joh fermaatay hain k na yahoodiyo nay HAZRAT EESA (A.S) KO QATAL KIYA NA NUKSAAN POHONCHAAYA awr tum kehtay ho k woh naazil nahee hongay tow HAZRAT EESA (A.S) gaaye kahaan phir ?
مرزے غلام شیطان کادیانی مراثی مردود علیہ اسہال کو یلاش نےحصرت عیس علیہ السلام کی چار مختلف قبریں بتائی.
Poori ayet padrho
It is a natural death
مولوی صاحب
کیا باقی انبیاء کی روحیں کہاں گئیں ہیں؟
مولوی صاحب
جس حدیث کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ یہاں پیش بھی کر دیں مکمل حوالہ کے ساتھ! کبھی نہیں کریں گے کیونکہ کوئی مستند حدیث ہے ہی نہیں!
مولوی صاحب اگر ہمت ہے تو کسی قادیانی کو بھی آن لائن لے لیں تاکہ دودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی ہو جائے!
مولوی صاحب
اللہ کی طرف بھی بتا دیں!
اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں ہر طرف ہوں کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں اللہ موجُود نہیں! جہاں عیسی سلام تھے اللہ تو وہاں بھی موجُود تھا!
قُرآن و حدیث میں کہاں لکھا ہے کہ اللہ نے عیسی علیہ کو مادی جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر اُٹھا لیا!
ہمت کریں وہ آیت اور حدیث یہاں لگا دیں!
بھائی جان یہ مرزائی ہیں یہ کوئی مذہب نہیں ہے یہ سب حیلے بہانے ڈھونڈ کر اپنے مذہب کو چلا رہے ہیں اس کی کوئی بھی اصل حقیقت نہیں ہے
When Allah guides nobody can misguide
Write Almighty Allah bro be respectful plz.
Yes! Even you provide them with proof they will not understand. May all the qadianis able to read the mirza's books in which he claimed to be khuda, khuda ka beta. May Allah gives them hidayah. Ameen.
Gumrah logon ka tola hy jhoot bolte hain apni baat se phir. Jate hain
Bhai ap k bary Oulmaa bhi Jamate Ahmadiat vala trjama ha
Ja Oy kuty
@@Vediohub.
tumhary broon ki zubab bhi aiesy hy zuban nasl ka pta deti ha ok hadees sharif main tumhary mullann ko bnndr suvarr kaha ha tera drja kon sa ha
@@bashirahmed-kt6vq مرزا غلام شیطان کادیانی مراثی مردود علیہ اسہال
نے فرمایا میں نے اپنی امت کے بہت سے لوگوں کو بندر اور حنزیر دیکھا
ہے کوئی حلالی مرزائی جس کی ماں نے اس کو حلال حمل سے جنم دیا ہو جو میرے سوالوں کا جواب دے ورنہ مرزے قادیاں والے کی قبر اور مرزے مسرور کے منہ پر ٹٹی مل کر مسلمان ہو جائے.
1 جماعت مرزائیہ یورپ میں عیسائیوں کو یہ کیوں نہیں بتاتی کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وہ انتظار کر رہے ہیں مرزے قادیانی کذاب نے اس کو نہ صرف مار دیا ہے بلکہ خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور ٹٹی میں مر بھی گیا ہے؟
2 اگر مرزا قادیانی کذاب اللہ کا برگزیدہ اور فرستادہ بندہ تھا تو ٹٹی میں کیوں مرا ؟
3 کیا اللہ کے برگزیدہ بندے مرزے قادیانی کذاب کی طرح ٹٹیوں میں مرتے ہیں اور کیا ان کے جنازے پر مرزے قادیانی کذاب کے جنازے کی طرح ٹٹیاں پھینکی جاتی ہیں؟مرتے وقت مرزے قادیانی کذاب کے پچھواڑے اور منہ سے ٹٹی نکل رہی تھی.
4 اگر مرزا قادیانی کذاب کے بقول حکومت برطانیہ اور عیسائی ہی دجال تھے تو مرزے کذاب نے ان کا خاتمہ کیوں نہ کیا اور مرزا مسرور کذاب اس دجال کی گود میں کیوں بیٹھا ہے؟
5 اگر دجال اسی طرح دنیا میں موجود ہے تو مرزا قادیاں والا کذاب نے اپنی زندگی میں کیا پہاڑ توڑا؟
6 مرزا قادیاں والا کذاب کو ہونے والا یہ الہام کہ سارا ہندوستان عنقریب مرزائی ہو جائے گا.120 سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں پورا نہیں ہوا؟کیا اس سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟
7 مرزا کذاب کو اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے یہ الہام کیا کہ قادیان بہت بڑا شہر بن جائے گا اور اس کو وہ عروج حاصل ہو گا جو آج تک کسی بھی شہر کو حاصل نہیں ہوا اور اس کی حدود لاہور تک پھیل جائیں گی. آج قادیان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں مرزائی کذاب اقلیت میں ہیں سارا ہندوستان مرزائی کرنا تو دور کی بات قادیان جو مرزائیوں کا روحانی مرکز ہے اس کی ساری آبادی ابتک مرزائی نہیں ہے کیوں؟ کیا اس بات سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟
8 مرزا قادیاں والا کذاب کے بقول اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے اس پر وحی نازل کی کہ میں تیرا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دوں گا لیکن مرزائیوں کے مرکز قادیان اور ربوہ جن ملکوں میں ہیں وہاں اور خصوصاً پاکستان میں ان کو جوتیاں کیوں پڑ رہی ہیں؟
9 جماعت مرزائیہ اگر واقعی خدائی جماعت ہے تو خدا نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہیں کی جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا رہا تھا.؟
10 اگر جماعت مرزائیہ کذاب ہی مسلمانوں کا تہترواں فرقہ ہیں تو جماعت مرزائیہ کے فرقے محمودی، لاہوری، جنبہ ،ناصر سلطانی ،زاہد خان کا فرقہ یہ سب اپنے آپ کو اصل اور باحق اور دوسروں کو جہنمی، خنزیر اور جھوٹی جماعت کہتے ہیں. یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ جماعت مرزائیہ کذاب کا کون سا فرقہ اصل میں تہترواں ہے؟
11 مرزائی کذاب انہی عیسائی اور یہودی حکومتوں کے پاس مدد کے لیے کیوں بھاگتے ہیں جن کو مرزا قادیاں والا خود دجال قرار دے چکا ہے؟
12 مرزا قادیاں والا کذاب کی اولاد دین کی ترویج وترقی کے نام پر لیے گئے چندے کو اپنی ذات اور عیاشیوں پر کیوں صرف کرتی ہے؟
13 اگر مرزائیت خدا کی اتنی ہی سچی جماعت ہے تو اب تک سارا یورپ اور ہندوستان جہاں ان کو تبلیغ کی ہر قسم کی آزادی ہے کیوں مرزائی نہیں ہوا؟
14 مرزا قادیاں والا کذاب اور مرزا بشیر الدین محمود کذاب کے بقول نبوت کا سلسلہ جاری ہے تو پھر دوسرے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، عبدالغفار جنبے اور طاہر نسیم،ناصر سلطانی ،زاہد خان وغیرہ کو امت مرزائیہ نبی کیوں نہیں مانتی؟
15 بقول امت مرزائیہ 1974 میں مسلمانوں کے 72 فرقوں نے ان کو علیحدہ کر دیا اور امت مرزائیہ کے خلاف فیصلہ ہو گیا. مرزائی مسلمانوں کے ان 72 فرقوں کے نام بتا دیں.
16.اگر مرزا قادیاں والا کذاب اپنے دعویٰ جات میں اتنا ہی سچا تھا تو جماعت مرزائیہ لوگوں کو تبلیغ کے وقت اس کے نبوت کے دعوے کو کیوں چھپاتی ہے؟
17. حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں یا نہیں وہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے یا نہیں یہ اللہ اور اس کے سچے اور آخری نبی کا معاملہ ہے اس سارے معاملے سے مرزا قادیانی کذاب ابن چراغ بی بی ولد غلام مرتضیٰ کا کیا تعلق ہے؟
18. محمدی بیگم کی بیش گوئی کے جھوٹے ہونے کے بعد مرزا قادیانی کذاب کے سچا ہونے کا کیا جواز ہے؟
19. کیا مرزائی مرزے قادیانی کذاب کے مرد سے عورت اور پھر یلاش سے رجولیت کروا کر گابھن ہونے اور خود سے خود کو پیدا کرنے کے دعویٰ کے کو سچ مانتے ہیں؟
20.. مرزائی نیک اعمال کی بجائے چندے کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں؟
3000 eyers se zinda Asman per mujod. Foods insani zindagi ki zaroriyat ka bara bi clayer krna chaye Asman per zindagi kase hai . Ur kisi Star ma han ya janat ma ?
مرزا کے بقول حضرت موسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہے تو وہ وہاں کیا کھاتے ہیں 😂؟؟؟؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام جو کھاتے ہونگے وہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کھاتے ہونگے۔۔۔۔😎
Eyers nahi janaab۔۔۔years😀
اگر مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے تو کب؟اگر دو ہزار سال قبل تو
۱۸۸۴ء میں تو وہ زندہ تھے۔😂 حوالہ یہ ہے۔ مرزاقادیانی نے (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر لکھا ہے کہ: ’’جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ دونوں باتوں میں سے کون سی سچی اور کون سی جھوٹی ہے؟
مرزاقادیانی کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔
قادیانیو! تم کہتے ہو فوت ہوگئے۔ بتاؤ! مرزاقادیانی کی بات سچی ہے یا تمہاری؟ اگر مرزاقادیانی کی بات سچی ہے تو تم جھوٹے؟ اگر تمہاری بات سچی ہے تو مرزاقادیانی جھوٹا؟ تصفیہ مطلوب ہے؟
@@husainabuubaidah522 Allah hadayet rahnumahi kre sabki Ammen
@@husainabuubaidah522hadayet ki rahy ilam se hi Aya zahir hoti han . New ijadat per bi sosch ilam QarAmad Amal hi hota hai .Allah sab per raham kre Ammen
MIRZA SAHIB NE SAF LIKHA HAI KE ME NE WO MUSALMANI KA RASMAN AQIDA BAYAN KIA HAI .
Hazrat Musa as to qadyani aqeede k mutabik zinda hai 😂😂🤣 aisa kyun???
@@husainabuubaidah522
HAMARY NAZDIK TO SAB INBIA ZINDA HAIN LEKEN AISSY NAHI JAISSY TUM HAZRAT ISSA AS KO JISAM KE SATH ZINDA MANTY HO.
@@husainabuubaidah522😂😂😂😂😂😂😂😂
@@imokhan3181
AGR HAZRAT ISA AS KI HAYAT KA QAYIIL HONA SHIRK HAI۔۔۔۔۔
TO HAZRAT MUSA AS KO ASMAN PR ZINDA KA AQIDA KYUN SHIRK NAHI???😀
حضرت عیسیٰ کے حیات فی السما ء کے منکر ہیں اور ادھر مرزا صاحب ایک اور نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حیات فی السماء کے بھی قائل ہیں 😀
👈مرزا لکھتا ہے
"بلکہ حیات کلیم اللہ نص قرآن کریم سے ثابت ہے کیا تو نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شک نہ کریں ان کی ملاقات سے یہ آیت موسیٰ علیہ السلام کی ملاقات کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ آیت صریح ہے موسیٰ علیہ السلام کی حیات پر ۔ اس لیے کہ رسو ل اللہ کی موسیٰ علیہ السلام سے (معراج میں ) ملاقات ہوئی اور مردے زندوں سے نہیں ملا کرتے ۔ ایسی آیات تو عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں نہیں بلکہ مختلف مقامات پر ان کی وفات کا ذکر ہے۔(حمامۃ البشریٰ ص ۵۵، خزائن ص ۲۲۱ ، ۲۲۲،ج ۷)
یعنی حضرت عیسیٰ کو تو تمام نصوص قرآن و حدیث کو ایک طرف رکھ کر زندہ نہیں مانا جارہا ، کیونکہ یہاں اپنا جو مطلب ہے😜 اور یہ ہوائے نفس ہےکہ خود دعوہ مسیحیت کرنا ہے😂 اور حضرت موسیٰ کی حیات فی السماء کے قائل ایک دم سے مرزا ہو گئے؟ چہ خوب۔ اور یہ جو مرزا نے لکھا ہے کہ زندہ مردوں سے ملاقات نہیں کیا کرتے تو جناب اگر ایک زندہ انسان کا وفات یافہ روحوں میں شامل ہونا ثبوت وفات ہے تو پھر مرزا صاحب اپنی زندگی میں ہی مر چکے تھے 😂جو کہتے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👇👇👇👇👇👇
سوال: مسیح کو آپ نے کس طور پر دیکھا ہے آیا جسمانی رنگ میں دیکھا ہے
جواب۔ فرمایا کہ ہاں جسمانی رنگ میں اور عین حالت بیداری میں دیکھا ہے
سوال : ہم نے بھی مسیح کو دیکھا ہے اور دیکھتے ہیں مگر وہ روحانی رنگ میں ہے کیا آپ نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح ہم دیکھتے ہیں ۔
جواب۔۔۔ نہیں ہم نے ان کو جسمانی رنگ میں دیکھا ہے اور بیداری میں دیکھا ہے۔( ملفوضات ج ۱۰ ص ۳۲۴)
👍نیز یہ بھی ملاحظہ کیجئے ۔۔۔
"میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا۔(تذکرہ، طبع دوم ۴۴۱، طبع سوم ۴۲۷ ، طبع چہارم ص ۳۴۹)"😂😂😂😂😂😂😂😅😅😅🤣🤣🤣🤣
@@imokhan3181
…مرزامحمود قادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت مسیح موعود باوجود مسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے۔ حالانکہ آپ کو اﷲتعالیٰ مسیح بنا چکا تھا۔ جیسا کہ براہین احمدیہ کے الہامات سے ثابت ہے۔ لیکن آپ کے اس فعل کو مشرکانہ نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ یہ ایک نبیوں کی سی احتیاط ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۴۲)
نوٹ! قرآن کریم میں ہے کہ: ’’لا ینال عہدے الظٰلمین (بقرہ:۱۲۴)‘‘ یعنی یہ نبوت کا عہد ظالموں کو حاصل نہ ہوگا اور شرک تو سب سے بڑا ظلم ہے۔ ’’ان الشرک لظلم عظیم (لقمان:۱۳)‘‘ جب مرزاقادیانی سن بلوغ سے ۱۸۹۱ء تک ظالم مشرک حیات مسیح کے معتقد تھے تو اﷲتعالیٰ ایسے ظالم مشرک کو عہدہ نبوت کے لئے ہر گز پسند نہیں فرماتا اور پھر ایسے غبی کہ ۱۰سال وحی الٰہی کو جو مسیح موعود بناتی تھی نہ سمجھ سکے۔ بلکہ وحی الٰہی کی مخالفت کرتے رہے اور شرک میں مبتلا رہے۔ کوئی ایسا نبی نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے۔ جو مشرک رہا ہو اور نہ ایسا غبی اور نہ صریح وحی الٰہی کی مخالفت کرنے والا۔ صاحبزادے نے اپنے نبی کی کیا اچھی احتیاط ظاہر فرمائی ہے۔ معاذاﷲ! نبی عقیدہ شرک سے مبرا ہوتے ہیں۔
Please sit in front of Ahmadi and talk to them
Sitting here don’t make any difference
Mirza jhuta ha
Qur'an k ayat se sabit q nhi krte.... Janab aplog sirf zabani bat krte ho ... Mirza sb to wafate Masih pr 30 ayat dete hai .. kamazkam un ayat se zinda sabit kren ... Ahmadiyo ko Qur'an se galat sabit kren or 1 crore rupiye le jayen...
asman k neechay badtreen makhluq qadyani mulla hain
abay chutiye aqal se pedal Mirza Ghulam Qadiyani khinzeer harami k haram ki pedawar ye banda tum jese ghatia or khabees logo ko Quran se hi sabit karaha hai or Hadees bhi paish karaha hai tum log kufar se nikalne ki to karo Mirza Ghulam Qadiyani khinzeer paleet ki difa se hat te hi nahi sabot k ambaar lagay hue tum yaqeen ki himmat to lao q apne apko nuqsaan mai dalte ho. Muhammad Arabi (S.A) k daman chor kat is khinzeer Mirza Ghulam Qadiyani ka daman pakre hue hai jo voh kafir maloon tha harami
Aqal say andhay qadiyani ghor say suno... tum log sirf apni andhi taweelat k peechy chalty ho... aur jahan tak Taweelat ki bat hy to wo koi b kuch b ker k kuch b samjh sakta hy...
Kabhi qadiani ki kitabs parh Lena phr bat krna humse us khabees insan ki bate suno to phr bat krna hmse
مرزا لعنتی اور جہنمی ہے میں دلیل سے ثابت کرتا ہو. نہ کر سکا تو ایک کروڑ انعام.
فرمان المسیح(جو اوپر سے آتا ھے۔وہ سب سے اوپر ھے۔جو زمین سے ھے وہ زمین ھی سے ھے اور زمین ھی کی کہتا ھے۔جو آسمان سے آتا ھے ۔وہ سب سے اوپر ھے۔انجیل یوحنا 31:3 اور 23:8 اس نے ان سے کہا تم نیچے کے ھو ۔میں اوپر کا ھوں۔تم دنیا کے ھو۔ میں دنیا کا نہیں ھوں )
مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے مسیح چودھویں صدی میں آئیگا اور مجدد ہوگا یہ احادیث کہاں ہیں اگر آپکو علم ہے تو رہنمائی فرمائیں۔
Kuraan parh kar jhoot bolne wale momin
ہے کوئی حلالی مرزائی جس کی ماں نے اس کو حلال حمل سے جنم دیا ہو جو میرے سوالوں کا جواب دے ورنہ مرزے قادیاں والے کی قبر اور مرزے مسرور کے منہ پر ٹٹی مل کر مسلمان ہو جائے.
1 جماعت مرزائیہ یورپ میں عیسائیوں کو یہ کیوں نہیں بتاتی کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا وہ انتظار کر رہے ہیں مرزے قادیانی کذاب نے اس کو نہ صرف مار دیا ہے بلکہ خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے اور ٹٹی میں مر بھی گیا ہے؟
2 اگر مرزا قادیانی کذاب اللہ کا برگزیدہ اور فرستادہ بندہ تھا تو ٹٹی میں کیوں مرا ؟
3 کیا اللہ کے برگزیدہ بندے مرزے قادیانی کذاب کی طرح ٹٹیوں میں مرتے ہیں اور کیا ان کے جنازے پر مرزے قادیانی کذاب کے جنازے کی طرح ٹٹیاں پھینکی جاتی ہیں؟مرتے وقت مرزے قادیانی کذاب کے پچھواڑے اور منہ سے ٹٹی نکل رہی تھی.
4 اگر مرزا قادیانی کذاب کے بقول حکومت برطانیہ اور عیسائی ہی دجال تھے تو مرزے کذاب نے ان کا خاتمہ کیوں نہ کیا اور مرزا مسرور کذاب اس دجال کی گود میں کیوں بیٹھا ہے؟
5 اگر دجال اسی طرح دنیا میں موجود ہے تو مرزا قادیاں والا کذاب نے اپنی زندگی میں کیا پہاڑ توڑا؟
6 مرزا قادیاں والا کذاب کو ہونے والا یہ الہام کہ سارا ہندوستان عنقریب مرزائی ہو جائے گا.120 سال گزرنے کے باوجود اب تک کیوں پورا نہیں ہوا؟کیا اس سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟
7 مرزا کذاب کو اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے یہ الہام کیا کہ قادیان بہت بڑا شہر بن جائے گا اور اس کو وہ عروج حاصل ہو گا جو آج تک کسی بھی شہر کو حاصل نہیں ہوا اور اس کی حدود لاہور تک پھیل جائیں گی. آج قادیان کی یہ حالت ہے کہ وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس میں مرزائی کذاب اقلیت میں ہیں سارا ہندوستان مرزائی کرنا تو دور کی بات قادیان جو مرزائیوں کا روحانی مرکز ہے اس کی ساری آبادی ابتک مرزائی نہیں ہے کیوں؟ کیا اس بات سے مرزا کذاب جھوٹا ثابت نہیں ہوتا؟
8 مرزا قادیاں والا کذاب کے بقول اس کے خدا یلاش کالے اور کالو نے اس پر وحی نازل کی کہ میں تیرا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دوں گا لیکن مرزائیوں کے مرکز قادیان اور ربوہ جن ملکوں میں ہیں وہاں اور خصوصاً پاکستان میں ان کو جوتیاں کیوں پڑ رہی ہیں؟
9 جماعت مرزائیہ اگر واقعی خدائی جماعت ہے تو خدا نے اس وقت ان کی مدد کیوں نہیں کی جب انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی جب ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا رہا تھا.؟
10 اگر جماعت مرزائیہ کذاب ہی مسلمانوں کا تہترواں فرقہ ہیں تو جماعت مرزائیہ کے فرقے محمودی، لاہوری، جنبہ ،ناصر سلطانی ،زاہد خان کا فرقہ یہ سب اپنے آپ کو اصل اور باحق اور دوسروں کو جہنمی، خنزیر اور جھوٹی جماعت کہتے ہیں. یہ فیصلہ کیسے ہو گا کہ جماعت مرزائیہ کذاب کا کون سا فرقہ اصل میں تہترواں ہے؟
11 مرزائی کذاب انہی عیسائی اور یہودی حکومتوں کے پاس مدد کے لیے کیوں بھاگتے ہیں جن کو مرزا قادیاں والا خود دجال قرار دے چکا ہے؟
12 مرزا قادیاں والا کذاب کی اولاد دین کی ترویج وترقی کے نام پر لیے گئے چندے کو اپنی ذات اور عیاشیوں پر کیوں صرف کرتی ہے؟
13 اگر مرزائیت خدا کی اتنی ہی سچی جماعت ہے تو اب تک سارا یورپ اور ہندوستان جہاں ان کو تبلیغ کی ہر قسم کی آزادی ہے کیوں مرزائی نہیں ہوا؟
14 مرزا قادیاں والا کذاب اور مرزا بشیر الدین محمود کذاب کے بقول نبوت کا سلسلہ جاری ہے تو پھر دوسرے مدعیان نبوت مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، عبدالغفار جنبے اور طاہر نسیم،ناصر سلطانی ،زاہد خان وغیرہ کو امت مرزائیہ نبی کیوں نہیں مانتی؟
15 بقول امت مرزائیہ 1974 میں مسلمانوں کے 72 فرقوں نے ان کو علیحدہ کر دیا اور امت مرزائیہ کے خلاف فیصلہ ہو گیا. مرزائی مسلمانوں کے ان 72 فرقوں کے نام بتا دیں.
16.اگر مرزا قادیاں والا کذاب اپنے دعویٰ جات میں اتنا ہی سچا تھا تو جماعت مرزائیہ لوگوں کو تبلیغ کے وقت اس کے نبوت کے دعوے کو کیوں چھپاتی ہے؟
17. حضرت عیسٰی ابن مریم علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں یا نہیں وہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے یا نہیں یہ اللہ اور اس کے سچے اور آخری نبی کا معاملہ ہے اس سارے معاملے سے مرزا قادیانی کذاب ابن چراغ بی بی ولد غلام مرتضیٰ کا کیا تعلق ہے؟
18. محمدی بیگم کی بیش گوئی کے جھوٹے ہونے کے بعد مرزا قادیانی کذاب کے سچا ہونے کا کیا جواز ہے؟
19. کیا مرزائی مرزے قادیانی کذاب کے مرد سے عورت اور پھر یلاش سے رجولیت کروا کر گابھن ہونے اور خود سے خود کو پیدا کرنے کے دعویٰ کے کو سچ مانتے ہیں؟
20.. مرزائی نیک اعمال کی بجائے چندے کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں؟
مرزا علیہ اللہ تعالی کے نبی ہیں اور قیامت رہیں گے اور بد بخت اب تیرے بہت سارے مولوی مان گے ہیں عیسی علیہ مر چکے ہیں
READ MIRZA's books and then decide he was asharif adimi???????
He was rascal and wicked guy.
Ye paka khabees tha
App jis haqeeqat main jaty ho wo Bughaz aur keena hota hai.. haqeeqat naheen hoti.. jo ayat ap ny paish ki iss se kaisey sabit hua keh Hz issa Zinada asman per chaley gaye?? hahahhaha.. Allh kia sirf ooper ki hi terf hai?? jo shah-Rag se nazdeek hai wo kaun hai???
1) suna kya fir tumne ?
2) allah har jaga maojod hai lekin koi marta hai to ham kahte hai o allah se mil gaya
kya pahle allah shahrag se zyada nazdeek nhi tha??
Hazrat Musa as mirza k baqol asman pr zinda hai....😂🤣 😝
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ذندہ ماننے والے قرآن کریم کو سمجھے نہیں ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین رحمت اللعالمین ہونے کے باوجود قبر میں دفن ہیں یہ کیسے ذندہ آسمان میں چلے گئے۔
قرآن کریم اللہ کا کتاب ہے' ۔ ہدایت انہیں ملتے ہیں جو متقی ہیں ۔
جو متقی نہیں ہیں وہ خود گمراہ ہیں اور امت مسلمہ کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔
اور امت مسلمہ کو کہتے ہیں اللہ کے رسول قیامت کے دن امت کو بخشایی گے ۔
یہ تو معلوم ہونا چاہئے امت مسلمہ کے جہنمیوں کو قیامت دن بخشش دلوایں گے ۔یانی قیامت ہونے تک جہنم کا مزہ چکھ تے رہو گے ۔
ایک جماعت جنت کے اور۔جماعت احمدیہ ذندہ باد ۔
👍👍👍حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر جانا اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین میں مدفون ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بلندی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے زمین کا انتخاب کرنا پستی کی دلیل نہیں۔ غرض یہ کہ کسی کا اوپر ہونا یا کسی کا نیچے ہونا اس سے عظمت یا تنقیص لازم نہیں آتی۔ کوئی اوپر ہو یا نیچے جس کی جو شان ہے وہ برقرار رہے گی۔ آسمان والوں کی زیادہ شان ہو اور زمین والوں کی کم، مرزائیوں کی یہ بات عقلاً ونقلاً غلط ہے۔
✍️✍️✍️…فرشتے آسمانوں میں رہتے ہیں اور انبیاء علیہم السلام زمین میں مدفون ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ فرشتے انبیاء علیہم السلام سے افضل ہیں۔ فرشتے آسمانوں پر ہیں اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم روضہ طیبہ میں۔ حالانکہ جبرائیل امین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربان تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲتعالیٰ نے زمین پر آباد کر کے عالم ملکوت کے سردار جبرائیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم بنادیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر چڑھا کر پھر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری میں زمین پر بھیج دے تویہ سب اس کے اختیار میں ہے۔
✍️✍️✍️…ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر مدینہ طیبہ کے بازار میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ جس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم نے ارشاد فرمایا کہ حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم تمہیں سواری اچھی ملی ہے۔ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم اگر سواری اچھی ہے تو سوار بھی اچھا ہے۔ تو کیا حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہونا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ اس طرح فتح مکہ کے موقع پر کعبہ شریف سے بتوں کو ہٹانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سوار ہوئے تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے؟
✍️✍️✍️…صحابہ کرامi نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روضہ طیبہ میں دفن کیا۔ اس وقت صحابہ زمین کے اوپر تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ کیا اس سے صحابہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہونا لازم آتا ہے؟
✍️✍️✍️✍️…امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر کھڑے ہوکر سلام عرض کرتے ہیں۔ اس وقت امتی زمین پر ہوتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم زیرزمین۔ تو کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ امتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔ غرض یہ کہ اﷲ رب العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شان بخشی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حال میں برقرار رہے گی۔ چاہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر کوئی سوار ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے کندھے پر سوار ہوں۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی رات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم کے کندھوں پر بیٹھ کرسواری کی۔
👍👍👍👍(بلا تشبیہ) موتی دریا کی تہہ میں ہوتے ہیں اور گھاس پھوس تنکے اور جھاگ سمندر کی سطح پر ہوتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تنکے یا جھاگ موتیوں سے افضل ہوں یا جیسے مرغی زمین پر ہوتی ہے لیکن کوا اور گدھ فضا میں اڑتے ہیں۔ ان کے فضا میں اڑنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوّا اور گدھ مرغی سے افضل ہوں یا جیسے رات کو آدمی سوتا ہے تو رضائی اس کے اوپر ہوتی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ رضائی انسان سے افضل ہو، بادام کا سخت چھلکا اوپر ہوتا ہے اور مغز اندر تو اس سے لازم نہیں آتا کہ مغز سے چھلکا افضل ہو۔
قادیانیوں کی کسی کتاب کا مستند حوالہ نہیں دیا ۔برہین احمدیہ کی تو شاید تین چار جلدیں ھیں۔جلد نمبر اور صفحہ نمبر بتائیں جس میں براہین احمدیہ میں مرزا صاب نے حیات عیسیٰ کی کوئی دلیل دی ھے۔
بڑی مہربانی ھو گی۔
🤐🤐🤐🤐مرزاقادیانی بارہ برس تک کفر میں کیوں؟
🔥🔥🔥…مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے: ’’ان اﷲ لا یترکنی علیٰ خطاء طرفۃ عین ویعصمنی من کل حین ویحفظنی من سبل الشیطان‘‘ بے شک اﷲ مجھے غلطی پر لمحہ بھر بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور مجھے ہر غلط اور جھوٹ سے محفوظ فرمالیتا ہے۔ نیز شیطانی راستوں سے میری حفاظت فرماتا ہے۔‘‘ (نور الحق ص۸۶، خزائن ج۸ ص۲۷۲)
اور پھر دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں: ’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانۂ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کے اس رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گذر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی گئی۔ ورنہ میرے مخالف بتلا دیں کہ باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا۔ بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا اور کیوں براہین احمدیہ میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳،۱۱۴)
اب بتاؤ کہ۔۔۔۔😎
👍…مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ کہ لمحہ بھر خداتعالیٰ مجھے غلطی پر قائم نہیں رکھتا۔
👍…مرزاقادیانی کا یہ اعتراف کہ بارہ برس تک عرصہ دراز رسمی عقیدہ پر جما رہا۔
👍…براہین میں خدا کی وحی کے خلاف لکھ دیا۔
کیا قادیانیوں کے ہاں بارہ برس ایک لمحہ سے کم ہے؟ خدا کی وحی کے خلاف بارہ برس چلنے والا شخص اس قابل ہے کہ اسے مذہبی مقتداء مانا جائے اور پھر مرزاقادیانی تحریر کرتا ہے کہ: ’’مجھے اپنی وحی پر مثل قرآن پختہ یقین ہے۔ اگر اس میں ایک دم (لمحہ) بھی شک کروں تو کافر ہو جاؤں۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۰، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
تو کیا یہ بارہ سال تک کافر بنارہا؟ خدا لمحہ بھر غلطی پر نہیں رہنے دیتا تو پھر بارہ سال کفر کی دلدل میں مرزاقادیانی کیوں پھنسا رہا؟😂😂😂😂😂😂
🤔🤨🧐کیا مرزاقادیانی لعنتی اور بدذات تھا؟🤔🤔🤔🤔
🔥🔥🔥…مرزاقادیانی قسم اٹھا کر دھڑلے سے جھوٹ بولتا ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ: ’’واﷲ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جعلت المسیح بن مریم وانی نازل فی منزلہ ولکنی اخفیت… وتوقفت فی الاظہار الیٰ عشر سنین‘‘ (دیکھئے اس کی کتاب آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱، خزائن ج۵ ص ۵۵۱)
ملاحظہ فرمائیں کہ قسم کھا کر کہہ رہا ہے کہ خدا کی قسم میں جانتا تھا کہ مجھے مسیح ابن مریم بنادیا گیا ہے۔ مگر میں اسے چھپاتا رہا۔
جب اس کے برعکس (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳) میں لکھتا ہے: ’’مجھے بارہ سال تک کوئی پتہ نہ چلا کہ خدا کی وحی مجھے مسیح ابن مریم بنارہی ہے۔‘‘ بتلائیے! مرزاقادیانی کا یہ حلفیہ بیان درست ہے یا بلاحلف۔ ایک میں ہے کہ مجھے پتہ تھا۔ مگر میں نے ظاہر کرنے میں ۱۰سال تاخیر کر دی۔ دوسری جگہ ہے کہ مجھے پتہ ہی نہ تھا۔ اسی طرح بارہ سال گذر گئے۔ فرمائیے کون سی بات درست ہے؟
یہ تو ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی نے قسم اٹھا کر غلط بیانی کی ہے۔ اب خود مرزاقادیانی کے بقول ایسی بات کے متعلق نتیجہ بھی سماعت فرمائیے۔ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ:
۱…’’جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۲۳۷، خزائن ج۱۸ ص۶۱۵، نسیم دعوت ص۸۷، خزائن ج۱۹ ص۴۵۳)
۲…’’خدا کا نام لے کر جھوٹ بولنا سخت بدذاتی ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۴۰، نزول مسیح ص۱۰،۱۱، خزائن ج۱۹ ص۳۸۸،۳۸۹)
اب اس فتویٰ کی روشنی میں جناب قادیانی لعنتی اور بدذات ثابت ہوئے۔ فرمائیے بدذات اور لعنتی فرد کسی بھی اچھے منصب کا مستحق ہوسکتا ہے؟ کیا اسے مہدی یا مجدد، ملہم یا مسیح وغیرہ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
🔥🔥🔥🔥🔥مرزاقادیانی (اعجاز احمدی) میں لکھتا ہے: ’’خدا نے میری نظر کو پھیر دیا۔ میں براہین کی اس وحی کو نہ سمجھ سکا کہ وہ مجھے مسیح موعود بناتی ہے۔ یہ میری سادگی تھی جو میری سچائی پر ایک عظیم الشان دلیل تھی۔ ورنہ میرے مخالف مجھے بتلادیں کہ میں نے باوجودیکہ براہین احمدیہ میں مسیح موعود بنایا گیا تھا۔ بارہ برس تک یہ دعویٰ کیوں نہ کیا؟ اور کیوں براہین میں خدا کی وحی کے مخالف لکھ دیا؟‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۴)
اس عبارت میں مرزاقادیانی اقرار کرتا ہے کہ اس نے خدا کی وحی کو بارہ برس تک نہیں سمجھا اور خدا کی وحی کے خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آنے کا عقیدہ لکھ دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو شخص بارہ برس تک وحی الٰہی کا مطلب نہ سمجھے اور وحی الٰہی کے خلاف بارہ برس تک جھوٹ بکتا رہے۔ کیا وہ مسیح موعود ہوسکتا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی شخص کا وحی الٰہی کے خلاف جھوٹ بکنا اس کے جھوٹا ہونے کی عظیم الشان دلیل ہے، یا مرزاقادیانی کے بقول اس کی سچائی کی؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں دس برس لکھا۔ یہاں بارہ برس کا ذکر ہے تو دس اور بارہ میں سے کون سا عدد صحیح ہے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ جو وحی الٰہی کو نہ سمجھ سکے وہ نبی یا مسیح موعود بننے کے لائق ہے؟
اگر نہیں تو پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرزاقادیانی نبی نہیں۔ مسیح نہیں بلکہ جاہل مرکب تھا؟ اس معمہ کو حل کریں اور اجر عظیم پائیں۔
😐😐😐😐😐
مرزاقادیانی (اعجاز احمدی) میں لکھتا ہے: ’’پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانۂ دراز ہے۔ بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شدومد سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔ تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی (مرزاقادیانی) مسیح موعود ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۷، خزائن ج۱۹ ص۱۱۳)
اس کے برعکس (آئینہ کمالات اسلام) میں لکھتا ہے: ’’وواﷲ قد کنت اعلم من ایام مدیدۃ اننی جعلت المسیح ابن مریم۰ وانی نازل فی منزلہ ولکن اخفیتہ نظراً الی تاویلہ بل مابدلت عقیدتی وکنت علیہا من المستمسکین وتوقفت فی الاظہار عشرسنین‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱، خزائن ج۵ ص۵۵۱)
ترجمہ: ’’اور اﷲ کی قسم! میں ایک مدت سے جانتا تھا کہ مجھے مسیح ابن مریم بنادیا گیا ہے، اور میں اس کی جگہ نازل ہوا ہوں۔ لیکن میں نے اس کو چھپائے رکھا۔ اس کی تاویل پر نظر کرتے ہوئے بلکہ میں نے اپنا عقیدہ بھی نہیں بدلا۔ بلکہ اسی پر قائم رہا اور میں نے دس برس اس کے اظہار میں توقف کیا۔‘‘
ان دونوں بیانوں میں تناقض ہے۔ ’’اعجاز احمدی‘‘ میں کہتا ہے کہ بارہ برس تک مجھے خبر نہیں تھی کہ خدا نے بڑی شدومد سے مجھے مسیح موعود قرار دیا ہے اور ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں کہتا ہے کہ اﷲکی قسم! میں جانتا تھا کہ مجھے مسیح موعود بنادیا گیا ہے۔ لیکن میں نے اس کو دس برس تک چھپائے رکھا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو ماں کی گود میں دودھ پینے کی حالت میں مخالفین کے سامنے اعلان فرمادیا تھا۔ ’’اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا (مریم:۳۰)‘‘ {کہ میں اﷲ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا۔}
بتائیے! مرزاقادیانی کی ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط؟ کون سی سچی ہے اور کون سی جھوٹ؟
🧐🧐
✍️مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ: ’’وفات مسیح کا بھید صرف مجھ پر کھولا گیا ہے۔‘‘
(اتمام الحجۃ ص۳،خزائن ج۸ص۲۷۵)
مرزا قادیانی نے:
🔥۱…اپنی پہلی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ میں قرآن مجید سے استدلال کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے تشریف لائیں گے۔
🔥۲…’’ازالہ اوہام‘‘ میں کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر قرآن کی تیس آیات دلیل ہیں۔ اور یہ کہ وفات مسیح پر اجماع صحابہ ہے۔
🔥۳…اب اس کتاب ’’اتمام الحجتہ‘‘ میں کہا کہ وفات مسیح کا بھید صرف مجھ پر کھولا گیا۔
اس بات پر دو سوال وارد ہوتے ہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام قرآن مجید کی رو سے زندہ تھے تو پھر تیس آیات وفات مسیح پر دلیل کیسے؟ ان دو باتوں میں سے ایک صحیح ایک غلط؟ اگر وفات مسیح پر اجماع تھا تو پھر بھید کیا؟ دونوں باتوں میں سے ایک صحیح ایک غلط۔ اور اگر تینوں اقوال کو سامنے رکھا جائے تو اس کی تثلیث کو کون حل کرے؟
Mery bai hr insan merny k bad asman pr hi jata hai
oye khoti diya buchiya Rafa ka mutlub zinda asman per uthana nahi sujday main kia duaa pertay hain subhan rubi allala wara fani kay mera rafa furma day iss ka mutlub hai kay meray durjat bulund ker day yai nahi kay mujay utha ker asman per lay jaa and if you study the astronomical physics there is no sky(asman) any where but the problem is you can not fix stupids kertay rahoo intaza hazaroon sal tuk tumara issah nahi anay wala asman say
Mullah ko to khinzir or Bandar Kaha Gaya ha hadees me , shuker ha mullah is baat se inkar nahee kerta... By the way khinzir mullah musalmaan hai?????
Hahahaha.. mtlb kuchh bhi 😀
daleel pesh karo na janaaaaaaaaab....
1۔۔
اسے خالی الذہن ہوکر غیر جانب داری کے ساتھ پڑھیں ، آخرت کوسامنے رکھیں ، قیامت کے دن کی رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے فکر مند ہوں اور اس درمندانہ درخواست کو ایک دوست کا تحفۂ محبت سمجھ کر قبول کریں ۔
کسی شخصیت کو پرکھنے کے لئے سب سے اہم چیز اس کی ذاتی زندگی ہوتی ہے ، محمد رسول اللہ اجب نبی بنائے گئے تو آپ نے اپنے آپ کو قوم پر پیش کیا کہ میں نے تمہارے درمیان بچپن اور جوانی گزاری ہے اور عمر کے چالیس سال بِتائے ہیں ، تم نے مجھے سچا پایا یا جھوٹا ؟ اور امانت دار پایا، یا خیانت کرنے والا ؟ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ آپ سراپا صدق و امانت ہیں ،کوئی انگلی نہ تھی جو آپ کے کردار پر اُٹھ سکے اور کوئی زبان نہ تھی جو آپ کی بلند اخلاقی کے خلاف کھل سکے ، مرزا غلام احمدصاحب قادیانی کی دعوت کے سچ اور جھوٹ کو جاننے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ ان کی زبان و بیان ، اخلاق و کردار ، لوگوں کے ساتھ سلوک و رویہ اور صدق و دیانت کا جائزہ لیاجائے ، کہ کیا ان کی زندگی انسانیت کے سب سے مقدس گروہ انبیاء کرام کی زندگی سے میل کھاتی ہے یا اس کے برعکس ہے ؟
۱۔ نبوت کا مقصد اور انبیاء کی تمام کوششوں کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑا جائے ، بندوں کے دل میں اس کے رب کی عظمت و محبت پیدا کی جائے اور انھیں اللہ تعالیٰ کی تحمید و تقدیس کا طریقہ سکھایا جائے ؛ اس لئے ان کی زبان سے کوئی ایسی بات نہیں نکل سکتی جو اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی وہ ہے کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہ شفا عطا فرماتا ہے : ’’ إِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنَ‘‘ ( سورۃ الشعراء : ۸۰) غور کیجئے کہ اس فقرے میں کس قدر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا لحاظ ہے ، ہے تو بیماری اور شفا دونوںاللہ ہی کی طرف سے ؛ لیکن بیماری ایک ناپسندیدہ کیفیت ہے اور صحت و شفا ایک مرغوب اور پسندیدہ بات ہے ؛ اس لئے شفا کی نسبت تو صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہ اللہ ہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے ؛ لیکن بیمار کرنے کی نسبت صراحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں فرمائی اور یوں کہا کہ جب میں بیمار پڑتا ہوں تو اللہ مجھے شفا عطا فرماتے ہیں ۔
رسول اللہ اکے سامنے ایک صاحب نے خطاب کرتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ ا کو شامل کرتے ہوئے کہا : ’’ من عصاھما‘‘ جو ان دونوں کی نافرمانی کرے ، تو حالاںکہ معنوی اعتبار سے یہ فقرہ درست تھا ؛ لیکن چوںکہ بظاہر اس میں اللہ اور رسول کے ایک درجے میں ہونے کا شائبہ پیدا ہوتا ہے ؛اس لئے آپ نے اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کیسا بدترین خطیب ہے جس نے اللہ اور رسول کو برابر کردیا : ’’ بئس ھذا الخطیب ‘‘ ۔ ( مسلم ، عن عدی بن حاتم : ۸۷۰)
رب کے معنی پروردگار کے بھی ہے ،اسی معنی میں یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے مقابلہ میں ’’ عبد ‘‘ ہے ، جس کا معنی بندہ کے ہیں ؛ لیکن عربی زبان میں رب کے معنی مالک اور عبد کے معنی غلام کے بھی ہیں، اس معنی کے اعتبار سے غلام اپنے آقا کو رب اور آقا اپنے غلام کو عبد کہا کرتے تھے ؛ لیکن چوںکہ اس میں خدائی اور بندگی کے معنی کی مشابہت تھی ؛اس لئے آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ غلام اپنے مالک کو رب اور مالک اپنے غلام کو عبد کہہ کر پکارے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہؓ : ۲۵۵۲) - یہ ایک مثال ہے کہ رسول اللہ ا کو اللہ تعالیٰ کی شان اور مقام کا کتنا زیادہ لحاظ تھا ؛اسی لئے قرآن مجید نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے جو اسماء حسنیٰ ہیں، ان ہی سے اللہ کو پکارو ، ( اعراف : ۱۸۰) اور اسماء حسنیٰ سے وہ ذاتی وصفاتی نام مراد ہیں جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں ، علماء نے لکھا ہے کہ ان کے علاوہ کسی اور نام سے اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا جائے ؛ کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ بندہ اپنی دانست میں اچھی صفت اور اچھے نام کا ذکر کرے ؛ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہو اور وہ غیر ارادی طورپر اس کا مرتکب ہوجائے ۔
اب دیکھئے کہ مرزا صاحب اللہ تعالیٰ کی شان میں کیسی شوخیاں کرتے ہیں کہ زبان و قلم پر لانے سے بھی دل لرزتا ہے ؛ لیکن حقیقت حال سے واقفیت کے لئے نقل کیا جاتا ہے :
اللہ کی سب سے بڑی شان یہ ہے کہ اللہ معبود اور انسانی کمزوریوں سے ماوراء ہے ، وہ عبادت کرتے نہیں ہیں ؛ بلکہ عبادت کئے جانے کے لائق ہیں ؛ لیکن مرزا صاحب کے عربی الہامات کا مجموعہ جس کو ان کے مرید منظور الٰہی قادیانی نے ’’ بشریٰ ‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے ، اس میں وہ کہتے ہیں :
قال لی اﷲ إنی أصلی وأصوم وأصحوا و أنام ۔( البشریٰ : ۱۲؍۹۷)
مجھے اللہ نے کہا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزے بھی رکھتا ہوں ، جاگتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں۔
غور کیجئے کہ اس میں ذات باری تعالیٰ کی کس درجے کی اہانت ہے کہ معبود کو عبد بنادیا گیا ،نیندایک انسانی کمزوری ہے،اللہ تعالیٰ کے لئے اس کوثابت کیاگیا، عربی الہامات کے اسی مجموعے میں مرزا صاحب کا ایک الہام اس طرح منقول ہے :
قال اﷲ : إنی مع الرسول أجیب أخطیٔ وأصیب إنی مع الرسول محیط ۔( البشریٰ : ۲؍۷۹)
خدا نے کہا کہ....
جاری ہے۔۔۔۔
2۔۔
میں رسول کی بات قبول کرتا ہوں ، غلط کرتا ہوں اور صواب کو پہنچتا ہوں ، میں رسول کا احاطہ کئے ہوئے ہوں ۔
گویااللہ تعالیٰ بھی- نعوذباللہ- غلطی کرتے ہیں،اس طرح کے اور بھی کئی نمونے مرزا صاحب کی عربی اُردو تحریروں میں موجود ہیں ، یہاں تک کہ ان کا بیان ہے کہ خدا نے ان سے کہا : أنت من ماء نا ،’’تو ہمارے پانی سے ہے ‘‘ ۔ ( انجام آتھم : ۵۵)یعنی مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ نعوذ باللہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں اور اس نازیبا دعوے کے لئے تعبیر بھی کتنی نازیبا استعمال کی ہے کہ گویا جیسے ایک انسان دوسرے انسان کے پانی سے پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح گویا ان کی پیدائش ( ہزار بار نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ سے ہوئی ہے ۔
مرزا صاحب نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا بنانے ہی پر اکتفا نہیں کیا ؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایسی شرمناک بات کہتے ہیں کہ اگر حق و باطل کو واضح کرنا مقصود نہ ہوتا تو کسی مسلمان کے لئے اس کو نقل کرنا سرپر پہاڑ اُٹھانے سے بھی زیادہ گراں خاطر ہے ، مرزا صاحب کے ایک معتقد قاضی یار محمد قادیانی لکھتے ہیں :
حضرت مسیح موعود ( مرزاصاحب ) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح طاری ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ نے رجولیت کی قوت کا اظہار فرمایا ۔ ( اسلامی قربانی : ۳۴)
یہ تو ان کے مرید کا بیان تھا ، خود مرزا صاحب کا بیان ہے :
مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں ، بذریعۂ اس الہام کے مجھے مریم سے عیسیٰ بنادیا گیا ، اس طورسے میں ابن مریم ٹھہرا ۔ ( کشتی نوح : ۲۷)
لیکن مرزا صاحب کو اس پر بھی تشفی نہیں ہوئی اور انھیں اس میں بھی کوئی باک نہیں ہوا کہ اپنے آپ کو خدا قرار دیں ؛ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں :
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خدا ہوں ، میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی ہوں ۔ ( آئینہ کمالات اسلام : ۵۶۴)
قادیانی حضرات ٹھنڈے دل سے سوچیں اور خالی الذہن ہوکر غور کریں کہ نبی تو کیا کوئی ادنیٰ گنہگار شرابی وکبابی مسلمان بھی بحالت حوش و حواس اللہ تعالیٰ کی شان میں ایسی گستاخیاںکرسکتا ہے ،اورجوایساکرے کیاوہ مسلمان بھی باقی رہے گا؟
۲۔ اللہ کے تمام پیغمبر ہمیشہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتے آئے ہیں ، یہودی حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت یوسف علیہم السلام جیسے انبیاء پر بت پرستی وغیرہ کا الزام لگاتے تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نسب پر بھی حملہ کرتے تھے ، ان انبیاء کرام کی حیاتِ طیبہ پر جو غبار ڈال دیا گیا تھا،قرآن مجیداورپیغمبراسلامﷺنے اسے صاف کیا ؛اس لئے قرآن اور پیغمبر اسلامﷺ کی بار بار یہ صفت ذکر کی گئی کہ وہ پچھلے انبیاء اور گذشتہ کتابوں کی تصدیق کرتے تھے : ’’ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ ۔
مرزا صاحب کو سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایسی پرخاش ہے کہ ان کی شان میں نہایت ناشائستہ اور اہانت آمیز جملے لکھتے ہیں ، بہت سی تحریروں میں سے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے :
آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے ، تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں ، جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا ، مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی ، آپ کا کنجر یوں(فاحشہ عورتوں) سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہوکہ جدی مناسبت درمیان میں ہے ، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے اور زنا کاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے ، سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے ؟ ( ضمیمہ انجام آتھم : ۷ ، روحانی خزائن : ۱۱؍۲۹۱ ، حاشیہ )
تمام مسلمانوں کا اس بات پر ایمان ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو کسی مرد نے چھوا تک نہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے باپ کے واسطہ کے بغیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ،جو ایک معجزہ ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کیسے اہانت آمیز انداز پر اس واقعے کا ذکر کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیے :
اور جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزارہا کیڑے مکوڑے خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس پیدائش سے کوئی بزرگی ان کی ثابت نہیں ہوتی ؛ بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قویٰ سے محروم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ ( چشمۂ مسیحی : ۱۸، روحانی خزائن : ۲۰؍۲۵۶)
مرزا صاحب نے حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو افضل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آدم کو تو شیطان نے شکست دے دی (حاشیہ درحاشیہ مسرت خطبہ الہامیہ ملحقہ سیرت الابدال) اور حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ اللہ نے ان(مرزاصاحب) کے لئے اتنے معجزات ظاہر کئے کہ اگر نوح کے زمانے میں دکھائے گئے ہوتے تو ان کی قوم غرق نہ ہوتی ۔ ( تتمہ حقیقۃ الوحی : ۳۷)اسی طرح اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے ، ( براہین احمدیہ : ۵؍۷۶) یعنی حضرت یوسف علیہ السلام سے، مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کے زمانے میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ہوتے تو وہ بھی ان کی اتباع کرتے ۔ ( اخبار الفضل قادیانی : ۳؍۹۸ ، ۱۸ ؍ مارچ ۱۹۱۶ء )
قرآن مجید میں رسول اقدس اکی فضیلت پر جو آیتیں نازل ہوئی ہیں ، مرزا صاحب نے اُن سب کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے ، آخر مرزا صاحب کو اس پر بھی قناعت نہ ہوسکی اور انھوںنے حضور اپر بھی اپنی فضیلت کا دعویٰ کردیا ؛چنانچہ اپنے ایک عربی شعر میں کہتے ہیں کہ محمدﷺ کے لئے توایک گہن ہوا : اور میرے لئے سورج اور چاند دونوں گرہن ہوئے ، ? اعجاز احمدی : ۷۱) اسی لئے قادیانی شعراء اور مصنفین نے کھل کر کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب رسول اللہﷺ سے بھی افضل ہیں ؛ ( نعوذ بااللہ ) چنانچہ ایک قادیانی شاعر اکمل کہتا ہے :
جاری ہے۔۔۔
3۔۔۔
محمد پھر اُتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
یہ اشعار نہ صرف شاعر نے کہے ہیں؛بلکہ بقول شاعر انھوںنے مرزا صاحب کے سامنے ان اشعار کو پڑھا بھی ہے، خود مرزا صاحب نے رسول اللہ اکے دور کے اسلام کو ہلال ( پہلی تاریخ کا چاند ) اور اپنی صدی کو بدر یعنی چودھویں کا چاند قرار دیا ہے ۔ ( خطبۂ الہامیہ : ۱۸۴)
رسول اللہ اکے سامنے کسی نے آپ کو حضرت یونس علیہ السلام سے افضل قرار دیا تو آپ نے فرمایا : ایسا نہ کہو ، ( لاینبغی لعبدأن یقول اناخیرمن یونس بن متیٰ:بخاری،حدیث نمبر:۳۴۱۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آپﷺ کو افضل قرار دیا تو آپ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قیامت کے دن دوبارہ صور پھونکا جائے گا اور لوگ زندہ ہوں گے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کے ستون کو تھامے ہوئے ہوں گے ، نہ معلوم وہ بے ہوش ہی نہیں ہوئے ہوں گے ، یا بے ہوش ہونے کے بعد سب سے پہلے ہوش میں آجائیں گے ، ( بخاری ، عن ابی ہریرہ : ۳۴۰۸) حالاںکہ رسول اللہ ا کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے ؛ لیکن آپ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں بعض دفعہ بے احترامی کی صورت پیدا ہوجاتی ہے ؛ لیکن مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ بے تکلف انبیاء کی توہین کرتے اور اپنے آپ کو تمام انبیاء سے افضل ٹھہراتے ہیں- سوچئے ! کیا یہ کسی پیغمبر کا اخلاق ہوسکتا ہے ؟ اور کیا انبیاء کی شان میں کوئی عام مسلمان بھی ایسی بات کہہ سکتا ہے ؟
(۳) انسان کے اخلاق کا سب سے بڑا مظہر اس کی زبان اور اس کے بول ہوتے ہیں ، رسول اللہ اکے بارے میں صحابہ کہتے ہیں :
ماکان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فاحشاً ولا متفحشا ولا صخابا فی الأسواق ۔ ( ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی خلق النبی ا: ۲۰۱۶)
رسول اللہ ا عادتاً نہ سخت گو تھے ، نہ بہ تکلف سخت گو بنتے تھے ، نہ بازاروں میں خلاف وقار باتیں کرنے والے تھے ۔
اور پیغمبر کی شان تو بہت بالا ہے ، کسی مؤمن کو بھی بدگو اور بد زبان نہیں ہونا چاہئے ؛ چنانچہ آپ انے ارشاد فرمایا :
لیس المؤمن بالطعان ولا باللعان ولا الفاحش ولا البذی ۔ (ترمذی ، ابواب البر والصلۃ ، باب ماجاء فی اللغۃ ، حدیث نمبر : ۱۹۷۷)
مومن نہ طعن و تشنیع کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت بھیجنے والا ، نہ سخت گو ، نہ فحش کلام ۔
خود مرزا صاحب کے قلم سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ نکلوادے : ’’ گالیاں دینا سفلوں اور کمینوں کا کام ہے ‘‘ ۔ (ست بچن : ۲۰)
مرزا صاحب نے بد زبانی کی مذمت کرتے ہوئے اپنی کتاب (در ثمین اُردو : ۱۷) جو اشعار کہے ہیں ، وہ بھی قابل ملاحظہ ہیں :
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بد زبان ہے
جس دل میں یہ نجاست ، بیت الخلاء یہی ہے
گو ہیں بہت درندے انساں کی پوستین میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا یہی ہے !
غور کریں تو مرزا صاحب کے اشعار خود ان کی بد کلامی کی بہترین مثال ہیں اور اہل ذوق کو تو خود ان الفاظ سے بدبو کا احساس ہوتا ہے ، اب خود مرزا صاحب کی خوش کلامی کی چند مثالیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں :
٭ آریوں کا پرمشیر ( پرمیشور یعنی خالق ) ناف سے دس انگلی نیچے ہے ، سمجھنے والے سمجھ لیں ۔ ( چشمہ معرفت : ۱۱۶)
٭ جو شخص ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور وہ حلال زادہ بہنیں ، حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ وہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے ۔ ( انور السلام : ۳۰)
٭ ہر مسلمان مجھے قبول کرتا ہے اور میرے دعوے پر ایمان لاتا ہے ، مگر زنا کار کنجریوں کی اولاد ۔ ( آئینہ کمالات : ۵۴۷)
٭ اے بدذات فرقۂ مولویان ! کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑوگے ۔ ( انجام آتھم حاشیہ : ۲۱)
٭ مولانا سعد اللہ لدھیانوی کا اشعار میں تذکرہ کرتے ہوئے ڈھیر ساری گالیاں دی ہیں یہاں تک کہ ان کو ’’ نطفۃ السفہاء ‘‘ (احمقوں کا نطفہ) اور ’’ ابن بغا ‘‘ ( زانیہ کی اولاد ) تک کہا ہے ۔ ( انجام آتھم : ۲۸۱)
ایک موقع پر اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :
٭ دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہے ۔ ( نجم الہدیٰ : ۱۵)
ایک جگہ مخالفین کے بارے میں کہتے ہیں :
٭ جہاں سے نکلے تھے ، وہیں داخل ہوجاتے ۔ ( حیات احمد :۱؍ ۳ ، ص : ۲۵)
علماء و مشائخ کے بارے میں کہتے ہیں :
٭ سجادہ نشیں اور فقیری اور مولویت کے شتر مرغ یہ سب شیاطین الانس ہیں ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۴ تا ۲۳)
٭ ایک موقع پر علما سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :
اے مردار خور مولویو اور گندی روحو ! تم پر افسوس کہ تم نے میری عداوت کے لئے اسلام کی سچی گواہی کو چھپایا ، اے اندھیرے کے کیڑو ! تم سچائی کی تیز شعاعوں کو کیوںکر چھپا سکتے ہو ۔ ( ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ : ۲۱ )
اپنے زمانے کے اکابر علماء مولانا شاہ نذیر حسین محدث دہلوی ، مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولانا احمد علی محدث سہارنپوری وغیرہ کو بھیڑیا ، کتا ، ملعون ، شیطان ، اندھا شیطان ، شقی وغیرہ کے الفاظ کہے ہیں ، ( دیکھئے : انجام آتھم : ۲۵۱-۲۵۲) مشہور صاحب نسبت بزرگ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے ہجو میں ایک پوری نظم کہی ہے اور ان کو خبیث ، بچھو ، ملعون وغیرہ لکھا ہے ، ( اعجاز احمدی : ۷۵ ) مولانا ثناء اللہ امرتسری کو مخاطب کرکے کہتے ہیں : ’’ اے عورتوں کی عار ثناء اللہ ‘‘ ( اعجاز احمدی : ۹۲)عار سے مراد ہے قابل شرم جگہ۔
٭ آریوں پر رد کرتے ہوئے ایک طویل نظم کہی ہے ، اس کے دو اشعار ملاحظہ کیجئے :
جاری ہے۔۔۔۔
4۔۔۔۔۔۔۔
دس سے کروا چکی زنا لیکن
پاک دامن ابھی بیچاری ہے
لالہ صاحب بھی کیسے احمق ہیں
ان کی لالی نے عقل ماری ہے
٭ مرزا صاحب کثرت سے اپنے مخالفین کو ’’ ذریۃ البغایا‘‘ یعنی ’ زانیہ کی اولاد ‘ سے خطاب کرتے ہیں اور ان کو لعنت کرنے کا بھی بڑا ذوق ہے ، مولانا ثناء اللہ صاحب پر لعنت کرتے ہوئے کہتے ہیں : مولوی صاحب پر لعنت لعنت دس بار لعنت ، ( اعجاز احمدی : ۴۵)اور اپنے رسالہ نور الحق میں صفحہ : ۱۱۸سے۱۲۲ تک عیسائیوں کے لئے مسلسل ایک ہزار بار لعنت لعنت لکھی ہے ۔ ( روحانی خزائن : ۸؍۱۵۸)
قادیانی حضرات خود غور کریں کہ یہ زبان نبی تو کجا کسی مسلمان ؛ بلکہ کسی اچھے انسان کی بھی ہوسکتی ہے ، کیا اس کے بعد بھی مرزا صاحب کے دعویٔ نبوت کے جھوٹے ہونے پر کسی اور دلیل کی ضرورت ہے ؟
نبی کے لئے جو وصف سب سے زیادہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے ، وہ ہے اس کا سچا ہونا ؛ تاکہ اس بات کا یقین ہو کہ واقعی اس پر اللہ کا کلام اُترتا ہے اور وہ اس کو بے کم و کاست اپنی اُمت تک پہنچا دیتا ہے ، عجیب بات ہے کہ مرزا صاحب کے کلام میں بہت سی ایسی خلاف واقعہ باتیں ملتی ہیں ، جن سے سچائی کو شرمسار ہونا پڑتا ہے ، مرزا صاحب نے خود لکھا ہے کہ جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے ، ( حقیقۃ الوحی : ۲۰۶) ایک اور موقع پر کہتے ہیں :
جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا ۔ ( چشمۂ معرفت : ۲۲۲)
مرزا صاحب سے جو جھوٹی باتیں منقول ہیں ، ان میں بعض تو ان کے زمانے سے متعلق تھیں اور اس زمانے میں قادیانی حضرات اس کا کوئی جواب نہیں دے سکے ؛ لیکن بعض غلط بیانیاں وہ ہیں ، جن کو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے ، اس کے چند نمونے درج کئے جاتے ہیں :
٭ مرزا صاحب کہتے ہیں :
دیکھو ، خدا تعالیٰ قرآن مجید میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے ، اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں اور اس کو مہلت نہیں دیتا ۔ (روحانی خزائن : ۱۸؍۴۰۹)
حالاںکہ قرآن مجید میں کہیں یہ بات نہیں آئی کہ میں مفتری کو جلد پکڑلیتا ہوں اور مہلت نہیں دیتا ہوں ؛ بلکہ خود قرآن مجید میں ہے کہ دنیا میں ان کو مہلت دی جاتی ہے :
إن الذین یفترون علی اﷲ الکذب لا یفلحون متاع فی الدنیا ۔ ( سورۂ یونس :۶۸-۶۹)
٭ آنحضرت ا سے پوچھا گیا کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو آپ نے فرمایا کہ آج کی تاریخ سے سو برس تک تمام بنی آدم پر قیامت آجائے گی ۔ ( روحانی خزائن : ۳؍۲۲۷)
مرزا صاحب کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے ، حدیث میں کہیں ایسا کوئی مضمون نہیں آیا ہے ۔
٭ بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس ( مسیح موعود خلیفہ ) کے لئے آواز آئے گی : ’’ ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی‘‘ (روحانی خزائن : ۶؍۷۳۳) حالاںکہ بخاری شریف میں کہیں یہ روایت موجود نہیں ہے ۔
٭ آنحضرت انے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہوتو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں ، ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے لڑائی کرنے والے ٹھہریں گے ۔ ( اشتہار اخبار الحکم : ۲۴ ؍ اگست ۷ء)
حالاںکہ کسی حدیث میں یہ بات نہیں آئی کہ وباء پھوٹنے والے شہر کو نہ چھوڑنے والے اللہ سے لڑائی کرنے والے قرار پائیں گے :
احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا امام ہوگا ۔ ( ضمیمہ نصرۃ الحق : ۱۸۸، طبع اول )
یہ بات بھی بالکل خلاف واقعہ ہے ، احادیث صحیحہ تو کیا کسی ضعیف روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں آیا ہے ۔
یہ تو چند مثالیں ہیں ، جن میں غلط بیانی کو آج بھی پرکھا جاسکتا ہے ، ورنہ مرزا صاحب کی دروغ گوئی کی ایک لمبی فہرست ہے اور لکھنے والوں نے اس پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ، اس سلسلہ میں مولانا نور محمد ٹانڈوی کی کتاب ’’ کذبات مرزا ‘‘ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ، کیا کسی نبی سے اس طرح جھوٹ بولنے کی اُمید کی جاسکتی ہے ، جو شخص اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بول سکتا ہے ، یقینا وہ جھوٹا دعویٰ بھی کرسکتا ہے ۔
(۴) فارسی زبان کا مشہور محاورہ ہے ’’ دروغ گو را حافظہ نہ باشد‘‘ یعنی جھوٹ بولنے والے کو اپنی بات یاد نہیں رہتی ؛ اسی لئے اس کی گفتگو میں تضاد ہوتا ہے ؛ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں تضاد اور ٹکراؤ ہو ، یہ تو ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی مصلحت کے لحاظ سے رفتہ رفتہ احکام دیئے جائیں ، جیسے قرآن مجید میں پہلے کہا گیا کہ شراب کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ کر ہے : ’’ إثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا‘‘ ( البقرۃ : ۲۱۹)پھر دوسرے مرحلے پر یہ بات کہی گئی کہ شراب پی کر نماز نہ پڑھی جائے : ’’ لَا تَقْرَبُوا الصَّلاَۃَ وَأنْتُمْ سُکَاریٰ‘‘ ( النساء : ۴۳)اور تیسرے مرحلے میں شراب مکمل طورپر حرام قرار دے دی گئی ، ( المائدۃ : ۹۰) لیکن اس کا تعلق عملی احکام سے ہے ، واقعات اور خبروں میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ پہلے ایک خبر دی جائے اور پھر اس سے متضاد خبر دی جائے ، اسی طرح عقائد و ایمانیات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ؛ کیوںکہ یہ باتیں بھی غیبی واقعات کی خبر ہی پر مبنی ہوتی ہیں ، اگر ایسی باتوں میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جائے تو یہ اس شخص کے جھوٹے ہونے کی علامت ہوتی ہے ، خود مرزا غلام احمد قادیانی صاحب سے بھی متعدد مواقع پر اس کی صراحت منقول ہے ، جیسے کہتے ہیں : ’’ اور جھوٹے کے کلام میں تناقص ضرور ہوتا ہے ‘‘ ۔ ( ضمیمہ براہین احمدیہ : ۱۱۱)
ایک اور موقع پر کہتے ہیں :
مگر صاف ظاہر ہے کہ سچے اور عقل مند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہر گز تناقض نہیں ہوتا ، ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طورپر ہاں میں ہاں ملادیتا ہو ، اس کا کلام متناقض ہوجاتا ہے ۔ ( ست بچن : ۳۰)
اب اس معیار پر مرزا صاحب کے دعاوی کو پرکھنا چاہئے ۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
Jahil admi rooh Marne. ke baad hi jati hai
If huzart elisa come .than holly prophet saw thatim nabiyin will be finish
عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری بحیثیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی اور خلیفہ کے ہوگی۔ یعنی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نبی بن کر تشریف نہ لائیں گے۔ کیونکہ وہ صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے جس پر قرآن شریف کی آیت: ’’رسولاً الٰی بنی اسرائیل (البقرہ:۴۹)‘‘ دلالت کرتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کافہ وعامہ کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کی یہ ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ اس لئے وہ صرف امتی اور خلیفہ ہوں گے۔ (بخاری شریف ج۱ ص۴۹۰، مسلم شریف ج۱ ص۸۸) پر ہے کہ: ’’ان ینزل فیکم عیسٰی ابن مریم حکمًا مقسطًا‘‘
اور ’’ابن عساکر‘‘ میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعنھم سے ’’الا انہ خلیفتی فی امتی من بعدی (ابن عساکر ج۲۰ ص۱۴۴)‘‘ کہ میری امت میں میرے خلیفہ ہوں گے۔ تشریف آوری کے وقت وہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نبی اور رسول کی حیثیت سے تشریف نہ لائیں گے بلکہ خلیفہ وامام ہوں گے۔ اس لئے ان کی تشریف آوری سے ختم نبوت کی خلاف ورزی لازم نہ آئے گی۔ باقی رہا یہ کہ وہ کیا نبوت سے معزول ہوجائیں گے؟ یہ بھی غلط ہے وہ نبوت سے معزول نہ ہوں گے بلکہ دوبارہ تشریف آوری کے بعد نبی اﷲ ہونے کے باوجود ان کی ڈیوٹی بدل جائے گی۔ جیسے پاکستان کے صدر مملکت، پاکستان کے سربراہ ہیں۔ اگر وہ برطانیہ تشریف لے جائیں تو صدر مملکت پاکستان ہونے کے باوجود برطانیہ تشریف لے جانے پر ان کو برطانیہ کے قانون کی پابندی لازم ہے۔ حالانکہ وہ صدر مملکت ہیں مگر وہاں جاکر ان کی حیثیت صدر مملکت ہونے کے باوجود مہمان کی ہوگی۔ اس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے زمانہ میں جو ان کی نبوت کا پیریڈ تھا اس میں وہ نبی تھے۔ کل جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں تشریف لائیں گے نبی ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ نبوت میں ان کی حیثیت امتی وخلیفہ کی ہوگی۔ اب وہ نہ نبوت سے معزول ہوئے نہ ان کے تشریف لانے سے ختم نبوت پر حرف آیا۔
پتہ نہیں کہ تم کس طرح باتیں کرتے اللہ کی ذات کہتی میں نے اپنی طرف اٹھایا مگر تم کہتے اسمانوں کی طرف
Rafa k mane zinda asman utha liya????e kon sa lugat main hai? Ap zara dekh lay.lafji mane kare tab pata chelega.
Sura zumr ki galat mani krteho.anfusa m sirf jisam Murad nhi blke roh bhi h
Allah n apni trf uthaya .aasman ka zikr kahan p h.
Kya allah sirf aasman p h.
Tawafi ka lafaz huzoor saw k lye bhi aya h .kya huzoor bhi zinda aur aasman p h .nauzubillah
اللہ سورہ حشر میں فرماتے ھیں " و ما اتاکم الرسول فخذوہ۔وما نہاکم عنہ فانتہوا" رسول تمہیں جو کچھ بھی دیں اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جس سے منع کریں اس سے منع ھو جاو۔ لہذا رسول کا ھر قول اللہ کا قول اور ھر حکم اللہ کا حکم ھے۔ اللہ کے رسول نے قرآنی آیات کے جو مطالب بتا دئیے وہ فائنل ھیں ۔مگر مرزا کذاب ان کا انکاری ھے کیونکہ وہ اس کے ذاتی شیطانی مقصد کو پورا نہیں کرتے۔۔ھمارے نبی نے فرمادیا کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ نے جسم سمیت اسمان پر اٹھا لیا لہذا اس کے بعد مرزے کذاب مردود کا حدیث نبوی پر اپنی بات کو فوقیت دینا کفر ھے
Mashallah