Maulana Ali Husain mubarkpuri Ep.70مولانا علی حسین مبارکپوری

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 5 ต.ค. 2024
  • مولانا شیخ علی حسین قیصر مبارک پوری ابن شیخ عبدالمجید بتاریخ8؍مارچ سن 1908 عیسوی میں سرزمین مبارکپور ضلع اعظم گڑھ صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق مبارکپور کے علمی خانوادہ سے تھا۔
    آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اس کے بعد بنارس کا رخ کیا اور مدرسہ جوادیہ میں رہ کر جید اساتذہ سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ فخرالافاضل کی سند حاصل کی ۔ پھر لکھنؤ کا رخ کیا اور سلطان المدارس میں جید اساتذہ کی خدمت میں زانوۓ ادب تہہ کیے جن میں سے:باقرالعلوم سید محمد باقر، آیت اللہ ابوالحسن نقوی، آیت اللہ سیدسبط حسن، مولانا سید محمد رضا فلسفی، مولانا عالم حسین ادیب، مولانا سید محمد ہادی اور حکیم سید مظفر حسین کے نام سر فہرست ہیں ۔
    سلطان المدارس سے صدرالافاضل کی سند اور مدرسۃ الواعظین سے واعظ کی سند دریافت کی آپ نے روایتی کورس اپنی علمی صلاحیت کی بنا پر وقت سے پہلے مکمل کر لیا تھا۔ مولانا علی حسین کو الواعظ مجلہ کا مدیر منتخب کیا گیا جس کو آپ نے اپنی حکمت عیاد سے بام عروج پر پہنچا دیا۔
    تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا علی حسین نے ممبئی کا رخ کیا اوروہاں خدمت خلق میں مصروف ہوگئے ،موصوف رات کی تاریکی میں لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوکر غریب لوگوں کو ضروریات زندگی مہیاکرتے تھے جس کے سبب غریب لوگ آپ کو ناصر کے نام سے یاد کرتے تھے ۔
    مولانا فن مناظرہ میں مہارت رکھتے تھےمبارکپور میں متعدد بار اور لکھنؤ مںل ایا کدگار مناظرہ مں آپ کو فتح نصبل ہوئی اسی وجہ سے آپ کو رئس المناظرین کے لقب سے سرفراز کاا گام۔آپ لوگوں کے محبوب نظر تھے۔ خدمت خلق کے پیش نظر امرتسر کے لوگوں کی دعوت پر امرتسر میں بھی تبلیغ کے فرائض انجام دئے۔
    مولانا علی حسین کو مبارکپور کے مؤمنین نے حوزہ علمیہ باب العلم میں تدریس کی دعوت دی تو آپ نے مؤمنین کی دعوت کو قبول کیا اور باب العلم میں تدریسی فریضہ بہ حسن و خوبی انجام دیا ۔ مولانا کی علمی صلاحیت اور مدرسہ کے تئیں والہانہ محبت کو دیکھتے ہوئے آپ کو پرنسپل کے عہدے سے سرفراز کیا گیا ۔ مولانا نے باب العلم کی ترقی کے لئے انتھک کوششیں کیں اور انتظامی امور، درس وتدریس، ہاسٹل، لائبریری اور دیگر شعبوں میں نمایا ں کام انجام دئے۔
    مولانا علی حسین نے تمام تر مصروفیات کے باوجود قلم ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اپنی آئندہ نسل کے لئے بہت سی کتابیں ورثہ کے طور پر چھوڑیں جن میںسے: مناقب الحسنین، مسیحی مناظرہ، اصول مدرس، مناظرہ حسینیہ، درس مفصل، مخزن علم، فن تدریس، تاریخ مدرسہ باب العلم، حسینی شاعری اور وفات قادیانی وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
    موصوف ایک کامیاب مبلغ بھی تھے لہذا سن 1958عیسوی سے 1990 عیسوی تک افریقہ کے مختلف ممالک مثلاًتنزانیہ، یوگنڈا، مڈاگاسکراور کینیا وغیرہ میں خدمت خلق انجام دیاور ان ممالک کے علاوہ ماریشس میں مسلسل 10 برس مقیم رہکرلوگوں کو زیور اخلاق محمدی سے مزین کیا۔
    آخر کار یہ علم و ادب کا چمکتا آفتاب 6/ نومبر سن 1995 عیسوی پیر کی شب میں سر زمینمبارکپور ضلع آعظم گڑھ پرغروب ہوگیا چاہنے والوں کا مجمع آپ کے دولت کدہ پر امنڈ پڑا اور غسل و کفن کے بعد علماء، دانشوران اور مؤمنین کی موجودگی میں مبارکپورکے ‘‘بنرہی باغ" نامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
    زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے۔
    ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص97، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء
    #ShiaUlma #Biography #Documentary #Islam #noormicrofilm #ShiaHistory #IslamicVideo

ความคิดเห็น •