Mene apni saari umrr mai kisi ustaad se jinse ki mai amne samne baqaida class mai padha hun itna istifaada nhi kiya hai jitna ki apne videos ko dekh kar kiya hai. Ap waqai shair ka mufasal tajzia karte hain aur aise aise zawiyon se ruushinas karate hain jinse shayad khud shayar ya takhleeqkar bhi manoos na ho. Ye tanz karne ki baat nhi hai balki ye apka kamaal hai ,ye apki wusat-e-nazr-o-ilm hai jo gair mamooli hai. Apka bht bht shukriya ap iss amal ko jaari rakhen allah apko jaza-e-khair se nawazega in sha allah 😊
What i learned from this lecture : 1) Every good "Sher" has got two shades of meaning ,the first shade has meaning that is superficial which is meant for men who are in primary schools of Knowledge. The second shade is subtle and it has meanings that are layered one upon the other , this shade is for those who are passionate and are always looking to look beyond things. These men are " Sahib-e-Zoq". 2)The subtlety and the depth in meaning is generated by the mutual relation of words that are used in the "Sher". 3) One must always look for meaning in the "Sher" and not in what the "Shaaer" has intended to mean. Thank you Javed saheb for this very important piece if advice regarding "Sher fahmi".
اکمال ِفن یہی ہے کہ ادراک کے کم از کم وہ در ضرور واں ہوجائیں جو کسی فن کو جاننے کےلیےاس فن کا حق سمجھے جاتے ہوں اور حضرت اس فن میں قدرت کی خصوصی عنایت سے سرفراز ہیں ماشاء اللہ
ماشاءاللہ استادِ محترم کا میٹھا لہجہ اور سخن فہمی پہ یہ مختصر مگر جامع بات نے خیال کے دریچے کھول دٸیے ہیں۔اللّہ آپکی عمر دراز فرماے اور ایسے ہی آپ ہمارے زنگ آلود دماغوں کو روشن کرتے رہیں آمین
اسلام علیکم "شعر میرے ہیں گو خواص پسند پر مجھے گفتگو عوام سے ہے" میر تقی میر نہایت بد ذوقی کی بات حے اگر شعر بھی اخبار کے کسی خبر کی ترح فحم کیا جائے My Urdu is very weak and honestly I have been watching videos of Sheikh for last 2 years with certain intervals due to work and I learned a lot from his teachings especially regarding Urdu Poetry. Jamaliyat and Maana Afreeni and other elements of poetry I came to know through him. Video on Mir Taqi Mir.
اسی میں کچھ راہ سخن نکلتی تھی۔ استاد محترم اللہ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے اور آپ سے ملاقات کا کچھ سبب بنائے۔ آپ نے جو Co authorship کی بات بتائی وہ اس گفتگو کا حاصل ہے۔ اچھا شعر تو ایک آئینہ ہوتا ہے اور اس میں دیکھنے والے کو وہی نظر آتا ہے جو اس آئنے کے مقابل ہوتا ہے
کسی اور کا علم نہیں مگر گزشتہ دنوں میں نے احمد جاوید صاحب کی ایک شرح پر اعتراض کی جسارت کی تھی۔ اس تناظر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم اپنے اختلاف کی اصولی نوعیت کو ذرا کھل کر بیان کر دوں۔ احمد جاوید صاحب کا موقف جو ان کے بیان اور طرزِ عمل سے میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ شعر عقلی کی بجائے سراسر ایک جذباتی تجربہ ہے۔ لہٰذا اس کی تفہیم میں منطق اور لغت سے زیادہ دخل ذوق اور حسیات کو ہے۔ ادبی متون کے معانی متعین نہیں ہوتے بلکہ لامحدود ہوتے ہیں۔ پس وہ تاثر جو ایک ادب پارہ قاری کے دل پر ثبت کرتا ہے شعر فہمی کا اصلِ اصول ہے۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ فنونِ لطیفہ بنیادی طور پر معروض کی بجائے موضوع کی اقلیم سے تعلق رکھتے ہیں اور انھیں منطق پر جانچنا حماقت ہے۔ تاہم جدید ناقدانِ مغرب کے زیرِ اثر احمد جاوید صاحب جس بے مہار داخلیت کی وکالت کرتے ہیں وہ سمجھ میں نہیں آتی۔ شاید رومانویت کا یہی پہلو تھا جس کے سبب گوئٹے نے اس تحریک کو مریضانہ قرار دے دیا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ قاری کے تاثر کو شعر فہمی کی بنیاد قرار دے دیا جائے تو معانی متعین رہ ہی نہیں سکتے۔ آپ داغؔ کے محاسن پر تبصرہ کر رہے ہوں اور پندرہ برس کا کوئی لڑکا "داغ تو اچھے ہوتے ہیں!" کہہ کر آپ کی تائید کرے تو آپ اس کا تاثر تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اور چونکہ اس کا تاثر درست ہے تو لازم آیا کہ اس مبحث میں داغ کے معانی وہ بھی ہو سکتے ہیں جو اس کے ذہن میں ہیں۔ پس چہ باید کرد؟ یہ امر بدیہی ہے کہ ادب میں لفظ کے معانی اس طرح متعین نہیں ہوتے جو فلسفیانہ اور سائنسی اصطلاحات کا معاملہ ہے۔ تاہم وہ اس طرح غیرمتعین بھی نہیں ہوتے کہ کسی بھی شخصی تاثر کو سمو لیں۔ میں میرؔ صاحب کا شعر پڑھوں: میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں تو کیا میرے پنجابی ہونے کی رعایت سے احمد جاوید صاحب مجھے رخصت دیں گے کہ میں اس تشبیہ سے دلالی کی دلالتیں برآمد کروں؟ غالباً نہیں۔ بلکہ میری اصلاح فرمائیں گے۔ اور یہ اصلاح اس حقیقت کی غماز ہو گی کہ معانی مادر پدر آزاد نہیں۔ دلالتوں کی کثرت ادب کا حسن ہے اور اسے سب تسلیم کرتے ہیں۔ مگر اس سے معانی کے لامحدود امکانات کو قیاس کرنا میری ناقص رائے میں درست نہیں۔ دلالت بہرحال ان اصلی اور قطعی معانی سے ایک نازک سا رشتہ ضرور برقرار رکھتی ہے جو لغت میں درج ہوتے ہیں۔ اگر یہ ناتا ٹوٹ جائے تو معانی لامحدود تو ہو جائیں گے اور ہر کس و ناکس کے تاثر کو اعتبار بھی مل جائے گا مگر ابلاغ ناممکن ہو جائے گا۔ میں شریک مصنف (coauthor) کی حیثیت سے نائی کا مطلب دھوبی قرار دے دوں تو ظاہر ہے کہ ابلاغ کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔
احمد جاوید صاحب نے ایک اور لیکچر میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ شعر کے معنی شعری روایت کے اندر ہی رہتے ہیں۔ اس سے باہر نہیں نکلتے۔ اس لیے آپکا یہ اعتراض تو شاید بے جا ہے کہ شعر کو احمد جاوید صاحب مادر پدر آزاد کر دیتے ہیں۔ البتہ یہ اعتراض رہ جاتا ہے کہ شعری روایت کے اندر بھی شعر کے معنی کو کتنی وسعت حاصل ہے۔
@@تحتاللفظ سب سے اہم سوال تو میری دانست میں یہ ہے کہ وہ شعری روایت کیا ہے جس کے "اندر ہی" شعر کے معانی رہتے ہیں. کیونکہ اردو میں اگر روایت کچھ تھی تو جدید شاعری اسی سے بغاوت کا علم لے کر نکلی ہے۔ اور اگر جدید شاعری خود ایک روایت ہے تو میں نہیں سمجھ سکا کہ اس کے خد و خال کیا ہیں۔ مثال سے واضح کرتا ہوں۔ روایتی غزل میں گل محبوب اور بلبل عاشق کا استعارہ ہے۔ شاعر دور کی کوڑی بھی لائے گا تو عام طور پر حسن و عشق ہی کے مطالب کو وسعت بخشے گا۔ لہٰذا طے شدہ معانی کا اس روایت میں محصور ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن جدید شاعری (جس کی تعبیر دراصل میرے اختلاف کا مورد تھی) کے تناظر میں یہ دعویٰ کون کر سکتا ہے؟ نئے لوگ اور بالخصوص مابعد الجدید نظم کے لوگ تو گل سے قبض اور بلبل سے پیچش بھی مراد لے لیں گے۔ انھیں آپ مانع آ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو شاید اس کے یہی معانی ہیں کہ معانی مادر پدر آزاد ہیں۔
شعر کے کثرت معانی پہ بہت فصیح گفتگو کی ہے احمد جاوید صاحب نے۔ میرے خیال میں وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ شعر کی تفہیم میں ایک ہنرمند قاری کو بجائے شاعر کے مفہوم کو کھوجنے کے، شعر کے متن کو اپنی داخلی فہم کے سانچے میں اتارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک اچھا قاری وہی ہوگا جو جس قدر شعر کے متن کو internalize کرے گا ۔
Sir, i want your books. I listened to you and amazed at the way you teach. I want to learn from you the whole poetry tradition. I know basics of urdu and farsi and have philosophical and literary inclination. Plz reply ..
میں احمد جاوید صاحب سے حرف بحرف متفق ہوں کہ شاعر سے اس کے شعر کے معنی نہیں پوچھنے چاہییں ۔ یہ بات مجھ جیسے کم علم نے برسوں پہلے ایک سینئر شاعر احمد نقوی سے عرض کی تھی اور انہوں نے اتفاق کیا تھا۔ یہاں وہی اصول احمد جاوید صاحب کی زبانی سن کر حوصلہ ملا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ شعر کے معنی متعین نہیں ہوتے۔
آپ نے شعر پڑھنے کا گرُ بتا دیا ہے۔عملی طور پر تو آپ اسے پیش کر رہے تھے آج نظری طور پر بھی بات ہوگئی۔میری خواہش ہے کہ شعر پڑھنے کے حوالے سے یا متن کو کیسے پڑھنا چاہیے اس پر آپ مزید بھی کچھ ارشاد فرمائیں تاکہ ہم جیسے طالبِ علم سیکھتے رہیں۔میں بھی جب کبھی اشعار کی تشریح کرتا ہوں تو کچھ دوستوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ آپ نے یہ بات پیٹ سے بنائی ہے اس وقت افسوس اور دکھ ہوتا ہے کہ بعض ایسے حضرات جو خود شاعر ہیں یا شعر فہمی کا اچھا ذوق رکھتے ہیں، وہ بھی یہ بات کہہ دیتے ہیں حیرات اور افسوس کا مقام ہے۔میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ جو متن میں ہوتا ہے ہم وہی کہتے ہیں۔خیر اللہ ہمیں علمِ نافع عطا کرے آمین
بہت خوب
ماشاءاللہ, سر بہت عمدہ اور قابلِ فہم تجزیہ ہے
بہت بہترین سر
رب العزت حیات دراز فرمائے آمین
آمين
Mene apni saari umrr mai kisi ustaad se jinse ki mai amne samne baqaida class mai padha hun itna istifaada nhi kiya hai jitna ki apne videos ko dekh kar kiya hai.
Ap waqai shair ka mufasal tajzia karte hain aur aise aise zawiyon se ruushinas karate hain jinse shayad khud shayar ya takhleeqkar bhi manoos na ho. Ye tanz karne ki baat nhi hai balki ye apka kamaal hai ,ye apki wusat-e-nazr-o-ilm hai jo gair mamooli hai.
Apka bht bht shukriya ap iss amal ko jaari rakhen allah apko jaza-e-khair se nawazega in sha allah 😊
ماشاءاللہ
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دِگر تھا
What i learned from this lecture :
1) Every good "Sher" has got two shades of meaning ,the first shade has meaning that is superficial which is meant for men who are in primary schools of Knowledge. The second shade is subtle and it has meanings that are layered one upon the other , this shade is for those who are passionate and are always looking to look beyond things. These men are " Sahib-e-Zoq".
2)The subtlety and the depth in meaning is generated by the mutual relation of words that are used in the "Sher".
3) One must always look for meaning in the "Sher" and not in what the "Shaaer" has intended to mean.
Thank you Javed saheb for this very important piece if advice regarding "Sher fahmi".
ف
I discover Javaid sb a very ahlee - faham , and legendary personality , we must acknowledge his flowery choice of words 🤲
0:08
اکمال ِفن یہی ہے کہ ادراک کے کم از کم وہ در ضرور واں ہوجائیں جو کسی فن کو جاننے کےلیےاس فن کا حق سمجھے جاتے ہوں اور حضرت اس فن میں قدرت کی خصوصی عنایت سے سرفراز ہیں ماشاء اللہ
اللہ عمر دراز کرے
بہت دعائیں سر آپ سلامت رہیں ❤️
سلامت رہیں استاد محترم۔۔ اس لیکچر سے بہت کچھ سیکھا
ہر شعر ہزاروں افسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے
ماشاءاللہ استادِ محترم کا میٹھا لہجہ اور سخن فہمی پہ یہ مختصر مگر جامع بات نے خیال کے دریچے کھول دٸیے ہیں۔اللّہ آپکی عمر دراز فرماے اور ایسے ہی آپ ہمارے زنگ آلود دماغوں کو روشن کرتے رہیں آمین
سلامت رہیں۔
nice video, awesome talking by Ahmad Javaid (Rukhsar Siddiqui Poetry Lover)
Ahmad jawaid sab bilkol sahi farmaya abne jin logo ne ap ko aye kaha hai wo log tu Hindi gaane ko shayari kehte hai
Ma sha Allah ❤️❤️ beautiful 🥰🥰 informative ❤️❤️
بہت خوب۔
قربان ❤️
کمال است استادِ محترم
اسلام علیکم
"شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے" میر تقی میر
نہایت بد ذوقی کی بات حے اگر شعر بھی اخبار کے کسی خبر کی ترح فحم کیا جائے
My Urdu is very weak and honestly I have been watching videos of Sheikh for last 2 years with certain intervals due to work and I learned a lot from his teachings especially regarding Urdu Poetry. Jamaliyat and Maana Afreeni and other elements of poetry I came to know through him. Video on Mir Taqi Mir.
hamay kuch bewaqoofana sawalat ki waja se sher per guftugo ka idrak hua..jazakallah ustad e mohtaram
Zindabad ♥️
اسی میں کچھ راہ سخن نکلتی تھی۔
استاد محترم
اللہ آپ کو طویل عمر عطا فرمائے اور آپ سے ملاقات کا کچھ سبب بنائے۔
آپ نے جو Co authorship کی بات بتائی وہ اس گفتگو کا حاصل ہے۔
اچھا شعر تو ایک آئینہ ہوتا ہے اور اس میں دیکھنے والے کو وہی نظر آتا ہے جو اس آئنے کے مقابل ہوتا ہے
استاد محترم کی انگلی پکڑ کر ہر بڑے شاعر کے حضور حاضری دینی چاہیئے۔
کسی اور کا علم نہیں مگر گزشتہ دنوں میں نے احمد جاوید صاحب کی ایک شرح پر اعتراض کی جسارت کی تھی۔ اس تناظر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم اپنے اختلاف کی اصولی نوعیت کو ذرا کھل کر بیان کر دوں۔ احمد جاوید صاحب کا موقف جو ان کے بیان اور طرزِ عمل سے میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ شعر عقلی کی بجائے سراسر ایک جذباتی تجربہ ہے۔ لہٰذا اس کی تفہیم میں منطق اور لغت سے زیادہ دخل ذوق اور حسیات کو ہے۔ ادبی متون کے معانی متعین نہیں ہوتے بلکہ لامحدود ہوتے ہیں۔ پس وہ تاثر جو ایک ادب پارہ قاری کے دل پر ثبت کرتا ہے شعر فہمی کا اصلِ اصول ہے۔
مجھے اس سے انکار نہیں کہ فنونِ لطیفہ بنیادی طور پر معروض کی بجائے موضوع کی اقلیم سے تعلق رکھتے ہیں اور انھیں منطق پر جانچنا حماقت ہے۔ تاہم جدید ناقدانِ مغرب کے زیرِ اثر احمد جاوید صاحب جس بے مہار داخلیت کی وکالت کرتے ہیں وہ سمجھ میں نہیں آتی۔ شاید رومانویت کا یہی پہلو تھا جس کے سبب گوئٹے نے اس تحریک کو مریضانہ قرار دے دیا تھا۔
مسئلہ یہ ہے کہ قاری کے تاثر کو شعر فہمی کی بنیاد قرار دے دیا جائے تو معانی متعین رہ ہی نہیں سکتے۔ آپ داغؔ کے محاسن پر تبصرہ کر رہے ہوں اور پندرہ برس کا کوئی لڑکا "داغ تو اچھے ہوتے ہیں!" کہہ کر آپ کی تائید کرے تو آپ اس کا تاثر تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اور چونکہ اس کا تاثر درست ہے تو لازم آیا کہ اس مبحث میں داغ کے معانی وہ بھی ہو سکتے ہیں جو اس کے ذہن میں ہیں۔ پس چہ باید کرد؟
یہ امر بدیہی ہے کہ ادب میں لفظ کے معانی اس طرح متعین نہیں ہوتے جو فلسفیانہ اور سائنسی اصطلاحات کا معاملہ ہے۔ تاہم وہ اس طرح غیرمتعین بھی نہیں ہوتے کہ کسی بھی شخصی تاثر کو سمو لیں۔ میں میرؔ صاحب کا شعر پڑھوں:
میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
تو کیا میرے پنجابی ہونے کی رعایت سے احمد جاوید صاحب مجھے رخصت دیں گے کہ میں اس تشبیہ سے دلالی کی دلالتیں برآمد کروں؟ غالباً نہیں۔ بلکہ میری اصلاح فرمائیں گے۔ اور یہ اصلاح اس حقیقت کی غماز ہو گی کہ معانی مادر پدر آزاد نہیں۔
دلالتوں کی کثرت ادب کا حسن ہے اور اسے سب تسلیم کرتے ہیں۔ مگر اس سے معانی کے لامحدود امکانات کو قیاس کرنا میری ناقص رائے میں درست نہیں۔ دلالت بہرحال ان اصلی اور قطعی معانی سے ایک نازک سا رشتہ ضرور برقرار رکھتی ہے جو لغت میں درج ہوتے ہیں۔ اگر یہ ناتا ٹوٹ جائے تو معانی لامحدود تو ہو جائیں گے اور ہر کس و ناکس کے تاثر کو اعتبار بھی مل جائے گا مگر ابلاغ ناممکن ہو جائے گا۔ میں شریک مصنف (coauthor) کی حیثیت سے نائی کا مطلب دھوبی قرار دے دوں تو ظاہر ہے کہ ابلاغ کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔
احمد جاوید صاحب نے ایک اور لیکچر میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ شعر کے معنی شعری روایت کے اندر ہی رہتے ہیں۔ اس سے باہر نہیں نکلتے۔ اس لیے آپکا یہ اعتراض تو شاید بے جا ہے کہ شعر کو احمد جاوید صاحب مادر پدر آزاد کر دیتے ہیں۔ البتہ یہ اعتراض رہ جاتا ہے کہ شعری روایت کے اندر بھی شعر کے معنی کو کتنی وسعت حاصل ہے۔
اجازت ہو تو آپ کے اس شذرے پر احمد صاحب سے تبصرہ کروانے کی کوشش کی جائے!
لہجہ
@@میثمنقوی
مجھے خوشی ہو گی اور میں شکر گزار ہوں گا۔
@@تحتاللفظ
سب سے اہم سوال تو میری دانست میں یہ ہے کہ وہ شعری روایت کیا ہے جس کے "اندر ہی" شعر کے معانی رہتے ہیں. کیونکہ اردو میں اگر روایت کچھ تھی تو جدید شاعری اسی سے بغاوت کا علم لے کر نکلی ہے۔ اور اگر جدید شاعری خود ایک روایت ہے تو میں نہیں سمجھ سکا کہ اس کے خد و خال کیا ہیں۔
مثال سے واضح کرتا ہوں۔ روایتی غزل میں گل محبوب اور بلبل عاشق کا استعارہ ہے۔ شاعر دور کی کوڑی بھی لائے گا تو عام طور پر حسن و عشق ہی کے مطالب کو وسعت بخشے گا۔ لہٰذا طے شدہ معانی کا اس روایت میں محصور ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن جدید شاعری (جس کی تعبیر دراصل میرے اختلاف کا مورد تھی) کے تناظر میں یہ دعویٰ کون کر سکتا ہے؟ نئے لوگ اور بالخصوص مابعد الجدید نظم کے لوگ تو گل سے قبض اور بلبل سے پیچش بھی مراد لے لیں گے۔ انھیں آپ مانع آ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو شاید اس کے یہی معانی ہیں کہ معانی مادر پدر آزاد ہیں۔
Jacques Derrida and his "differance". But also Roland Barthes and to some extent Foucault, too.
Transcription of lectures of Ahmad Javaid Sb (DB) along with urdu subtitles with them are humbly requested.
شعر کے کثرت معانی پہ بہت فصیح گفتگو کی ہے احمد جاوید صاحب نے۔ میرے خیال میں وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ شعر کی تفہیم میں ایک ہنرمند قاری کو بجائے شاعر کے مفہوم کو کھوجنے کے، شعر کے متن کو اپنی داخلی فہم کے سانچے میں اتارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک اچھا قاری وہی ہوگا جو جس قدر شعر کے متن کو internalize کرے گا ۔
Sir, i want your books. I listened to you and amazed at the way you teach. I want to learn from you the whole poetry tradition. I know basics of urdu and farsi and have philosophical and literary inclination. Plz reply ..
Please contact Omar Abdul Aziz Sahab on +923224721959.
Admin
Thanks for respecting our giant intellectual.stay blessed
How can someone from India contact. Any mail or what's app
Please WhatsApp on the aforementioned number, or email at ahmadjavaidsb@gmail.com
Admin.
میں احمد جاوید صاحب سے حرف بحرف متفق ہوں کہ شاعر سے اس کے شعر کے معنی نہیں پوچھنے چاہییں ۔ یہ بات مجھ جیسے کم علم نے برسوں پہلے ایک سینئر شاعر احمد نقوی سے عرض کی تھی اور انہوں نے اتفاق کیا تھا۔ یہاں وہی اصول احمد جاوید صاحب کی زبانی سن کر حوصلہ ملا۔ اور یہ بھی درست ہے کہ شعر کے معنی متعین نہیں ہوتے۔
حضرت صاحب دیاں گلاں جیویں کھنڈ پتاسے
آپ نے شعر پڑھنے کا گرُ بتا دیا ہے۔عملی طور پر تو آپ اسے پیش کر رہے تھے آج نظری طور پر بھی بات ہوگئی۔میری خواہش ہے کہ شعر پڑھنے کے حوالے سے یا متن کو کیسے پڑھنا چاہیے اس پر آپ مزید بھی کچھ ارشاد فرمائیں تاکہ ہم جیسے طالبِ علم سیکھتے رہیں۔میں بھی جب کبھی اشعار کی تشریح کرتا ہوں تو کچھ دوستوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ آپ نے یہ بات پیٹ سے بنائی ہے اس وقت افسوس اور دکھ ہوتا ہے کہ بعض ایسے حضرات جو خود شاعر ہیں یا شعر فہمی کا اچھا ذوق رکھتے ہیں، وہ بھی یہ بات کہہ دیتے ہیں حیرات اور افسوس کا مقام ہے۔میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ جو متن میں ہوتا ہے ہم وہی کہتے ہیں۔خیر اللہ ہمیں علمِ نافع عطا کرے آمین
لیکن اگر شاعر یا فن کے خالق کی مراد معلوم ہو جائے تو کیا وہ معتبر نہیں ہوگی۔ توضیحات اور معانی و مطالب کی دنیا میں کیا تخلیقار کا موقف راجع نہیں ہوگا؟
حضرت! یہ اتہام بہت سے پردے اٹھنے کا سبب بنا ہے.. شعر دانی کی کنجی بنا ہے
مصرعہ بہت ہے ،لفظ زندگی لیجیے
اور پھر زندگی بھر شرح کیجئے
Is there any book which can teach us what is a good poem with examples.