سانحہ کربلا تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : و إذ قال ربك للملائكة إنى جاعل في الأرض خليفة ... ( البقرة : ٤٠ ) اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ مزید اللہ نے فرمایا ہے : كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعرفة و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ... ( آل عمران : ١١٠ ) تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ( ہدایت ) کے لیے نکالا کیا گیا ۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم انہیں زمین پر اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام امور کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ ( الحج : ٤١ ) ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کس مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے ۔ ان کا مزاج کیا ہوتا ہے ، ان کے اعمال کیسے ہوتے ہیں ۔ قرآن کی یہ آیات واضح الفاظ میں بتا رہی ہیں کہ اہل ایمان کے ہاتھوں قائم ہونے والی ریاست کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار خلفاء ہوئے ۔ انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق اپنے فرائض انجام دیے ۔ خط انحراف : سب سے پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ان تعلیمات سے انحراف کیا : " فكرة الخلافة على النظر و الاختيار ، ثم كان معاوية اول من حول الخلافة ملكا و رغم كل التقلبات ، و رغم طبيعة الحكم الفعلى الذى مارسه هئولاء الحكام ، فإن فكرة الخلافة لم تمت بما تحمله من معنى الشورى ، و من معنى النظر والاختيار " . إن ذلك لأن الملك ليس فى شريعتنا . ( المقرى : سلسلة اعلام العرب - سلسلة اعلام العرب -- ص ٣٦ ) واضع اس پر لکھتے ہیں : إن القلق الذى نشهده في تلك العبارة الساذجة البسيطة التي قالها الفقيه العربي عبد الله المقرى يوجهنا إلى أنه بقصد مباشرة إلى معنى اساسى هو ان الأمة العربية لم يشرع الله الملكية لنظام للحكم ، و ان هذا ضد طبيعتها ، لذلك اختلت أحوال الأمة لأن الأمور سارت ضد طبيعتها " . ( ص : ٣٦ ) فقیہ عبد اللہ المقری کی منقولہ عبارت پر واضع کا یہ تبصرہ قابل غور ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے و أمرهم شورى بينهم ( الشورى : ٣٨ ) و شاورهم في الأمر ( آل عمران : ١٥٩ ) اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے معاملات کو شوری کے ذریعے طئے کرنے کا حکم دیا گیا ہے . اس میں شخصی رائے اور مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ استاذ سید قطب شہید رحمہ لکھتے ہیں : " إن وضع الشورى اعمق في حياة المسلمين من مجرد ان تكون نظاما سياسيا ، فهو طابع اساسى للجماعة كلها ، يقوم عليه امرها كجماعة ثم يتسرب من الجماعة للدولة " . ( فى ظلال القرآن : ج ٧ ط ٦ ص ٢٩٢ ) ان كبار علماء نے قرآن کی ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ لکھا وہ بہت اہم اور حساس تشریح ہے ۔ میں نے یہ تمہیداس لیے قائم کی ہے کہ سانحہ کربلا پر اپنی بحث کو اسی اساسی نکتہ پر آگے بڑھاؤں ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@@gmail.com
Masha Allah Allah t aala hazarat ke dazat ko buland farmai
Masaallah
سانحہ کربلا
تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
و إذ قال ربك للملائكة إنى جاعل في الأرض خليفة ... ( البقرة : ٤٠ )
اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ مزید اللہ نے فرمایا ہے :
كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعرفة و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ...
( آل عمران : ١١٠ )
تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ( ہدایت ) کے لیے نکالا کیا گیا ۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔
یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم انہیں زمین پر اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام امور کا انجام اللہ ہی
کے ہاتھ میں ہے ۔ ( الحج : ٤١ )
ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کس مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے ۔
ان کا مزاج کیا ہوتا ہے ، ان کے اعمال کیسے ہوتے ہیں ۔ قرآن کی یہ آیات واضح الفاظ میں
بتا رہی ہیں کہ اہل ایمان کے ہاتھوں قائم ہونے والی ریاست کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار خلفاء ہوئے ۔ انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق
اپنے فرائض انجام دیے ۔
خط انحراف : سب سے پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ان تعلیمات سے انحراف کیا :
" فكرة الخلافة على النظر و الاختيار ، ثم كان معاوية اول من حول الخلافة ملكا و رغم كل التقلبات ، و رغم طبيعة الحكم الفعلى الذى مارسه هئولاء الحكام ، فإن فكرة الخلافة
لم تمت بما تحمله من معنى الشورى ، و من معنى النظر والاختيار " .
إن ذلك لأن الملك ليس فى شريعتنا .
( المقرى : سلسلة اعلام العرب - سلسلة اعلام العرب -- ص ٣٦ )
واضع اس پر لکھتے ہیں : إن القلق الذى نشهده في تلك العبارة الساذجة البسيطة التي قالها الفقيه العربي عبد الله المقرى يوجهنا إلى أنه بقصد مباشرة إلى معنى اساسى هو ان الأمة العربية لم يشرع الله الملكية لنظام للحكم ،
و ان هذا ضد طبيعتها ، لذلك اختلت أحوال الأمة لأن الأمور سارت ضد طبيعتها " .
( ص : ٣٦ )
فقیہ عبد اللہ المقری کی منقولہ عبارت پر واضع کا یہ تبصرہ قابل غور ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے
و أمرهم شورى بينهم ( الشورى : ٣٨ )
و شاورهم في الأمر ( آل عمران : ١٥٩ )
اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے معاملات کو شوری کے ذریعے طئے کرنے کا حکم دیا گیا ہے . اس میں شخصی رائے اور مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
استاذ سید قطب شہید رحمہ لکھتے ہیں :
" إن وضع الشورى اعمق في حياة المسلمين من مجرد ان تكون نظاما سياسيا ، فهو طابع اساسى للجماعة كلها ، يقوم عليه امرها كجماعة ثم يتسرب من الجماعة للدولة " .
( فى ظلال القرآن : ج ٧ ط ٦ ص ٢٩٢ )
ان كبار علماء نے قرآن کی ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ لکھا وہ بہت اہم اور حساس تشریح ہے ۔
میں نے یہ تمہیداس لیے قائم کی ہے کہ سانحہ کربلا پر اپنی بحث کو اسی اساسی نکتہ پر آگے بڑھاؤں ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@@gmail.com