MOLANA WASI MOHAMMAD FAIZABADI PART. 54

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 13 ต.ค. 2023
  • ضیاءالعلماء مولانا سید وصی محمد فیض آبادی سنہ 1910 ء بمطابق 1328ھ سرزمین فیض آباد پر پیدا ہوۓ، آپ کے والد ماجد مولوی
    سید علی تھے۔مولانا وصی محمد نے ابتدائی تعلیم وثیقہ عربی کالج فیض آباد میں حاصل کی پھر اپنے بڑے بھائی "مولوی
    سید نجم الحسن" کے پاس بدایوں تشریف لے گۓ۔آپ کے بھائی نے آپ کو" سید المدارس امروہہ" میں داخلہ دلا دیا اس وقت وہاں "مولانا سید محمد امروہوی" مدرس اعلیٰ تھے مولانا امروہہ سے واپس آکر دوبارہ" وثیقہ عربی کالج " میں آ گۓوہاں رہ کر الٰہ آباد بورڈ کے امتحانات پاس کرنے کے بعد عازم لکھنؤ ہوۓ اور سلطان المدارس میں داخلہ لے لیا ،
    صدر الافاضل کی سند دریافت کرنے کے بعدعراق تشریف لے گۓ اور وہاں رہ کر آیت اللہ ضیاء الدین عراقی، آیت اللہ
    عبد الحسین رشتی، آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی اور آیت اللہ عبد اللہ شیرازی سے کسب فیض کیا اور اجازات لیکر وطن واپس آگۓ۔
    ایک عرصہ تک بدایوں میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے مقیم رہے ، اسکے بعد غازی پور میں چند سال امام جماعت کے فرائض انجام دۓ ،مولانا ظفر الحسن نے انکو جوادیہ عربی کالج بنارس میں بحیثیت استاد بلا لیا ، اور کچھ ماہ کیلۓ مولانا ظفر الحسن ناصریہ عربی کالج جونپور کے مدیر ہو گۓ ، جب ظفر الملت بنارس واپس آگۓ تو مولانا وصی محمد ناصریہ جونپورکے پرنسپلمقررہو گۓ ، مولانا سعادت حسین خان سالہا سال تک وثیقہ اسکول فیض آباد کے پرنسپل رہے جب وہ فیض آباد سے لکھنؤ منتقل ہو گۓ تو مولانا وصی محمد سنہ 1955ء میں انکی جگہ پر وثیقہ عربی کالج کے پرنسپل مقرر ہوۓ، ضیاء العلماء وطن میں رہ کر درس و تدریس اور مختلف قسم کی دینی خدمات اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں مصروف ہو گۓ ، اپنے قیام کے دوران ایک قدیم اور نہایت ہی مقبول " کمرخ کی درگاہ" از سر نو تعمیر کرائی اور حضرت عباسؑ کا نہایت ہی خوبصورت روضہ بنوایا ، سنہ 1977 ء میں وثیقہ عربی کالج سے ریٹائر ہوۓ تو مولانا ابن حسن نونہروی نے آپ کو مدرسۃ الواعظین لکھنؤ میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے بلوا لیا اور علامہ نونہروی کے انتقال کے بعد سنہ1980 ء میں اس مدرسہ کے پرنسپل مقرر کر دۓ گۓ اور اس عہدے پر تا حیات رہے مولانا نے اپنی پوری عمر مدارس دینیہ کی خدمت میں گذاری اور ہزاروں شاگردوں کی تربیت فرمائی۔
    ان تما م مصروفیات کے با وجود موصوف نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا آپ کے آثار میں سے :
    الرضیع الظّامیاور ضیاء الغدیر قابل ذکر ہیں ان کتابوں کے بارے میں اتنا لکھنا کافی ہوگا کہ علماء ان سے استفادہ کرتے ہیں،آپ کے بے شمار غیر مطبوعہ مسودات بھی ہیں جو طبع نہ ہو سکے، اسکے علاوہ مولاۓ کائنات کا خطبہ غیر منقوطہ کا بے نقطہ ترجمہ کرکے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا، رسالہ الجواد میں علامہ فلکی ، عاصی فیض آبادی ، ضیاء الملت، ضیاء العلماء اور ضیاء حسینی کے ناموں سے آپ کے مقالے چھپتے رہے ہیں، تصنفا و تالف کے علاوہ شعرو شاعری کا اعلیٰ ذوق تھا لیکنیہ ذوق صرف مداحی اہلبیت مںن صرف ہوتا تھا
    علم کے ساتھ حلم ، سخاوت، ایثار ، خطابت میں بے مثل، بیانات بے نہایت علمی و دقیق، سادگی ، تقویٰ ، صلہ رحم ، حکمت ، تدبر، شاعری، حاضر جوابی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ صفات آپ ہی کیلۓ وضع کۓ گۓ ہیں۔
    آخرکار یہ علم وعمل کا آفتاب 14 جون سنہ986 اءبروز شنبہ سرزمین بنارس پر غروب ہو گیا ،میت بنارس سے فیض آباد لائی گئی مولانا شمیم الحسن کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ " مولوی باغ نامی قبرستان میں
    سپرد خاک کر دیا گیا-
    ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقق و تالف : مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص307، دانشنامۂ اسلام، انٹرنشنلز نورمکریوفلم دہلی، 2020ء
    ShiaOlama #Biography #Documentary #Islam #noormicrofilm #ShiaHistory #IslamicVideo

ความคิดเห็น •