پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں | احمد فراز | Shayari | Pesha War Qatilo | Ahmad Faraz

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 17 ธ.ค. 2024
  • Welcome to Hunar Paaray, where I passionately recite Urdu poetry that captures the essence of love, life, and emotions. In this video, I bring to life the words of classic and contemporary Urdu poets through emotional poetry recitations. Each verse is delivered with deep passion and heartfelt expression.
    Whether you're a poetry lover or new to the world of Urdu Shayari, my performances aim to captivate your soul and inspire your heart. Don't forget to subscribe to my channel for more soulful poetry recitations and immerse yourself in the rich tapestry of Urdu literature.
    #ahmadfaraz #ahmadfarazpoetry #ahmadfarazshayari #inqalabivideos #UrduPoetry #PoetryRecitation #UrduShayari #EmotionalPoetry #ClassicUrduPoets #hindipoetry #whatsappstatus #finalcall #pti #imrankhan #dchowk #islamabad
    میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے
    اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
    اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
    اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
    اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں
    جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر
    سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
    جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
    سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
    میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر
    نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا
    آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
    رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
    تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
    ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں
    تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
    ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں
    سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
    جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے
    مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
    یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
    ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
    ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
    اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
    شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے
    کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
    کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
    تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے
    طوق در گردن و پابجولاں گئے
    جیسے برطانوی راج میں گورکھے
    وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے
    جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
    حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے
    تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
    رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے
    پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
    خلقت شہر کی دل دہی کےلیئے
    گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
    پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے
    اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے
    یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
    تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے
    ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
    اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے
    اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
    تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے
    جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
    ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے
    مرگ بنگال کے بعد بولان میں
    شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے
    ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک
    تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
    اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
    کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو
    کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
    کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
    کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
    تم ملامت بنو گے شب تار کی
    کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے
    آج بھی پاسداری ہے دربار کی
    ایک آمر کی دستار کے واسطے
    سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
    تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے
    ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
    پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی
    کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
    کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا
    اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
    آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے
    اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں
    خول اترا تمھاراتو ثابت ہوا
    پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں
    اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
    اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں
    احمد فراز

ความคิดเห็น • 4

  • @bismillahsaltcompany
    @bismillahsaltcompany 12 วันที่ผ่านมา

  • @arhardwer8433
    @arhardwer8433 14 วันที่ผ่านมา

    وطن کی ابرو پہ وہ ابھی بھی جان دے دینگے
    جنہیں کچھ لوگ اپنے دیس میں بدنام کرتے ہیں
    (جمیل اختر شفیق)

  • @ghalibthemagnificent
    @ghalibthemagnificent 2 วันที่ผ่านมา

    بہت خوب