Maulana Sayyid Abul Hasan Ali Nadwi addressing in Lister (England) - Urdu

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 19 ธ.ค. 2024

ความคิดเห็น • 29

  • @Abdullah_2442
    @Abdullah_2442 ปีที่แล้ว

    Allah pak hazrat Maulana abul hasan Ali nadwi RA ki qabar ko noor se bhardijiye

  • @rezwanahmed44
    @rezwanahmed44 4 ปีที่แล้ว +3

    warld ki sbse bra alim aur daye he oh alllh un ku garike rahmar farmawe.।

  • @Abdullah_2442
    @Abdullah_2442 ปีที่แล้ว

    Behtreen bayan ❤❤❤

  • @AsmaKhan-rr1vk
    @AsmaKhan-rr1vk 5 ปีที่แล้ว +2

    Masha Allah... Allah hamari aulaado ko aisa banay....

  • @AftabAhmedLakhani
    @AftabAhmedLakhani 4 ปีที่แล้ว +1

    Alhamdulillah

  • @junedkhanpurebkhtawarmadar6150
    @junedkhanpurebkhtawarmadar6150 5 ปีที่แล้ว +1

    Mashallah

  • @hapanataka1721
    @hapanataka1721 7 ปีที่แล้ว +2

    The sixth Shia Ithnashari Imam, Ja’far as‑Sadiq (‘a) has said:
    "Qur'an is living, its message never died. It turns like the turn of day and night, it is in motion like the sun
    and the moon. It will embrace the last of us, the way it embraced the first of us"

    • @zainiqbal3875
      @zainiqbal3875 6 ปีที่แล้ว

      He was not shia... We was taken by shia...

    • @rkh1596
      @rkh1596 4 ปีที่แล้ว

      Jafar Sadiq(ra) is ours not shiya's

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    بقیہ پہلی قسط
    عالم اسلام کی متفق علیہ شخصیت
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ
    دارالعلوم ندوة العلماء اپنی تحریک کے آغاز ہی سے بلند پایہ اور نامور علماء اور مشاہیر ہند مرکز رہا ہے جن میں مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی ، علامہ شبلی نعمانی اور مولانا عبد الحی حسنی رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں ۔ ١٩٢٩ میں جب علامہ ندوی رحمہ کا باقاعدہ استفادہ اور طالب علمی کا تعلق قائم ہوا ، اس وقت سید سلیمان ندوی رحمہ دارالعلوم کے معتمد تعلیم تھے ۔ ١٩٣٠ میں علامہ تقی الدین ہلالی مراکشی دارالعلوم میں ادب عربی کے ہوکر آئے ۔ ندوة العلماء کے علمی و ادبی ، فکری اور تارہخی و سیاسی ماحول کو سمجھنے کے لیے ' حیات شبلی ' کا مطالعہ ضروری ہے ۔
    علامہ ندوی رحمہ کا پہلا سفر سید سلیمان ندوی رحمہ کے ساتھ ہوا ۔ علامہ ندوی رحمہ اس سفر کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ:
    " یہ سفر کئی حیثیتوں سے یاد گار اور میرے لیے سرمایہ افتخار تھا ، سید صاحب جیسے پایہ کے عالم و محقق ع ادیب کی ہمہ وقت صحبت ، دینی و علمی مرکزوں کا سفر ، تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ کی سیر ، بڑے بڑے اہل علم و فضل سے ملاقات ، علمی و ادبی مجلسیں ، ہر حیثیت سے یہ سفر میرے لیے وسیلہ الظفر بن گیا "۔
    (پرانے چراغ جلد اول ، سید سلیمان ندوی رحمہ ص -- ٢٩)
    سید صاحب رحمہ نے ایک مرتبہ علامہ ندوی رحمہ سے فرمایا کہ :
    " ہر جماعت اور دانشگاہ کے لیے ایک آئیڈیل ہوتا ہے ، وہ اس کے تمام افراد کے دل و دماغ اور تخیل پر چھایا ہوا ہوتا ہے ۔ میرے نزدیک
    میرے نزدیک دارالعلوم کے لیے آئیڈیل چار شخصیتیں ہوسکتی ہیں ، مولانا محمد علی مونگیری ، مولانا شبلی نعمانی ، آپ کے والد ماجد اور نواب سید علی حسن خان کہ یہ سب علم دین کے مختلف شعبوں پر حاوی تھے اور ان سے مل کر ایک جامعیت پیدا ہوتی ہے "۔
    ( ایضا : ص ٤٠ )
    یہ وہ عوامل تھے جو علامہ ندوی رحمہ کی زندگی اور ان کی فکر و نظر کی تشکیل اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے میں معاون اور اثر انداز ہوئے ۔ ان بزرگوں رحمہم اللہ دارالعلوم ندوة االعلماء کو جہاں تک پہنچایا تھا بیسویں صدی کے نصف آخر میں مزید اس کو بام عروج پر لے جانا :
    اور انفاس علی نے دنیا میں روشن ندوہ کا نام کیا
    جاری
    آئندہ قسط دوم إن شاء الله

  • @mohdgufran5237
    @mohdgufran5237 8 ปีที่แล้ว +1

    masha allah

  • @irfanahmad1196
    @irfanahmad1196 6 ปีที่แล้ว +2

    Allah aap ko jannatul firdos me aala makam ata karay ameen...

  • @hambaallah9209
    @hambaallah9209 5 ปีที่แล้ว +2

    Terjemahan Indonesia? .. masyaAllah

  • @Gulshan-e-Huseny
    @Gulshan-e-Huseny 3 ปีที่แล้ว +1

    1983

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    علامہ ندوی رحمہ کے عالم عرب سے تعلقات
    عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ خوش قسمتی سے آپ کو عربی زبان و ادب کی تعلیم کے لیے
    عرب نژاد اساتذہ ملے ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا اور اردو بولنے پر جرمانہ کیا کرتے تھے ۔ ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین میں شمار کیے جاتے تھے ۔ یہ اساتذہ عربی نژاد اور پ ماہر فن تھے ۔
    عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی
    زبان کے مشہور اہل قلم اور نثر نگاروں سے واقف ہوتا ہے ۔
    عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور خصوصیات سے بھی آگاہ تھے ۔
    علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ اس کے مصداق تھے :
    میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا
    وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی .
    إن اصل عرب ماہرین اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے آپ کے اندر عربی زبان و
    ادب کی وجہ سے اصل تربیت آپ کی طبیعت میں کم عمری ہی میں مزاج کا جزء بن گئیں ۔
    عرب ممالک کے سفر سے پہلے ہی عالم عرب سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ وہاں کے علماء و ادباء ، اصحاب قلم اور وہاں کے ارباب فکر و نظر اور ان کے نقطہ نگاہ سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ سولہ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت سید احمد شہید رحمہ کی حیات و دعوت پر ایک مضمون جو رسالہ ' توحید ' امرتسر میں شائع ہوا تھا ، اس کا ترجمہ کیا ۔ انہوں نے اسے شیخ ہلال الدین مراکشی کو دکھایا ، انہوں نے برائے نام تصحیح کی ۔ انہوں نے اس مضمون کو علامہ رشید رضا کو ' المنار'
    میں إشاعت کے لیے بھیج دیا ۔ انہوں نے نہ صرف اسے شائع کیا بلکہ اسے ایک رسالہ کی شکل میں طبع کردیا ۔ علامہ ندوی رحمہ لکھتے ہیں کہ :
    " اس سے بڑھ کر ایک ہندی نو عمر طالب علم کا کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ اس کا رسالہ علامہ رشید رضا مصر سے شائع کریں ۔ یہ رسالہ ' ترجمة الإمام السيد احمد بن عرفان الشهيد ' کے عنوان سے چھپ کر آگیا ، اور میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی ، میری عمر اس وقت ١٦ سال کی رہی ہوگی ، یہ میری پہلی تصنیف ہے جو مصر سے شائع ہوئی " ۔
    ندوة العلماء سے پہلا عربی ماہنامہ ' الضیاء ' نکلا تو آپ اس کے مقالہ نگار تھے اور معاون مدیر بھی مقرر کیے گیے ، جس کی وجہ سے عرب علماء اور ادباء سے خط و کتابت کرتے ،
    ان کے مضامین کے ذریعہ ان کی شخصیات اور فکر افکار و نظریات کو عنفوان شباب ہی سے سمجھنے کا موقع ملا ۔
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار منعقدہ فروری ٢٠٠٠ میں پڑھا گیا مقالہ ۔
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @saadihasan7622
    @saadihasan7622 8 ปีที่แล้ว +5

    maulana abulkalam ideal h aur siysat m bara maqam h agar jinnah pagal unki bat manta to 20lakh se ziyada logon ki jan bach jati aur hindustan m musalman kamzor nahi hote is waqt

    • @My2690
      @My2690 6 ปีที่แล้ว +2

      ye mau abul kalam nahi he

    • @My2690
      @My2690 6 ปีที่แล้ว +3

      ye mau alimiya nadvi sab he

  • @mdumarshamim7030
    @mdumarshamim7030 7 ปีที่แล้ว +1

    m

  • @wasimrahaman2925
    @wasimrahaman2925 6 ปีที่แล้ว +1

    Please mention the ayate which moulana explained..

    • @sumaiyaislam6298
      @sumaiyaislam6298 6 ปีที่แล้ว

      .

    • @abuhuraira6966
      @abuhuraira6966 4 ปีที่แล้ว

      مولانا على ميا ندوة لكنو
      molana ali meya nadwi rahmatullahi india

    • @Islamwisehappy
      @Islamwisehappy 2 ปีที่แล้ว +1

      Surah Ibrahim:24 & 25.
      أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا كَلِمَةًۭ طَيِّبَةًۭ كَشَجَرَةٍۢ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌۭ وَفَرْعُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ ٢٤
      تُؤْتِىٓ أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍۭ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ وَيَضْرِبُ ٱللَّهُ ٱلْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ٢٥

  • @atifhusain8429
    @atifhusain8429 7 ปีที่แล้ว +1

    atif nadvi