" واستوت علی الجودی " قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ " و استوت على الجودى " يعنى كشتى كوه ارارات پہاڑ کے ایک حصہ ' جودی ' پر ٹھہر گئی ۔ جو بات قرین قیاس اور سمجھ میں آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ کشتی میں سوار تھے وہ پہاڑ سے نیچے اترے ہوں گے اور دامن کوہ کے قریب جو جگہ رہائش اور آباد ہونے کے قابل ہوگی وہاں بس گئے ہوں گے ۔ یہ علاقہ شمالی عراق میں شہر موصل سے کچھ فاصلہ پر ہے ۔ اس کے بعد یہ لوگ آہستہ آہستہ موصل کی طرف بڑھے ہوں گے اور یہ شہر آباد ہوا ہوگا ۔ موصل سے جنوب میں 35 کلو میٹر کے فاصلہ پر نمرود کے تاریخی آثار اور کھنڈرات ہیں ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ علاقہ شمالی عراق میں دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے ۔ پھر جب آبادی بڑھنے لگی تو یہ لوگ جنوبی عراق کی طرف بڑھے ۔ بابل جسے Babylon کہا جاتا ہے شہر موصل سے بہت دور ہے ۔ وہاں کے لوگوں نے سائنس اور ٹکنالوجی میں بہت ترقی کی اس لیے تاریخ میں بابلی تہذیب و تمدن کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے ۔ اس ابتدائی علاقہ سے انسانی آبادی مصر کی طرف اور جنوب میں سندھ کی طرف بڑھی اور سندھ اور پھر ہند کی تہذیب ابھر کر سامنے آئی ۔ میں 1983 مین عراق میں ملازمت کے دوران کوہ اراراط کے پہاڑی سلسلہ کے بالکل قریب تک گیا تھا اور شہر موصل اور نمرود کے تاریخی آثار کو بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا میں بابل بھی گیا اور آثار بابل اور Hanging garden بھی دیکھا ۔ قدیم انسانی تاریخ کا یہ باب بہت دلچسپ اور قابل مطالعہ باب ہے ۔ عراق کی سرزمین انبیاء اور اولیاء کی سرزمین ہے ۔ موصل میں یونس علیہ السلام کے قبر پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اسی طرح جنوبی عراق میں ایک جگہ ہے جس کا نام ' الکفل ' ہے ۔ یہاں کفل علیہ السلام کا قبر ہے وہاں جانے اور فاتحہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس طرح شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ کے قبر پر کئی بار حاضر ہونے کا موقع ملا ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
(( وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا )) لمن يرغب في التعرف على العلماء والأدباء الكرد... نتناول في قناتنا حياة عظماء الكرد، وسير حياتهم، ومؤلفاتهم، وبعض أفكارهم.... نسعد بإلقاءكم النظر في ما نقدم... ❤️🌼🌷....
قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز پر پہلی عالمی کانفرنس دوسری قسط جو لوگ قرآن کی سائنسی تفسیر کے قائل نہیں ہین ان کی طرف سے درج ذیل وجوہات بھی پیان کی جاتی ہیں : وہ اسے قرآن کے اصل مقصد سے انحراف سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہین کہ ہم اس طرح اپنی صلاحیت اور کوششوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہیں اس طرح جس چیز کو اولیت حاصل ہونی چاہیے وہ ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے ۔ سائنسی مفروضات اور نظریات جدید معلومات اور تحقیقات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اگر ہم ان کے مطابق قرآنی آیات کے معانی بیان کرنے لگے تو خدا ناخواستہ اللہ جل شانہ کی کتاب کھیل بن کر رہ جائے گی اور ہر کس و ناکس اپنی طبع آزمائی کے لیے اسے تختہ مشق بنالے گا اور اس طرح دشمنان اسلام کو استہزاء کا نیا موقع مل جائے گا ۔ بغیر کسی اصول و ضوابط کے ، قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا خطرے سے خالی نہیں ہے ، کیونکہ مخلتف علوم و فنون کے ماہرین اپنے اپنے نقطہ نظر سے سائنسی معلومات اور نظریات کے مطابق قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر کرنے لگیں گے اور یہ فتنے کا باعث ہوسکتا ہے !! سائنسی معلومات کے مطابق قرانی آیات کی تاویلات اور تفسیر در اصل ہماری نا اہلیت کو ثابت کرتی ہے کہ ہم خود سائنسی تحقیقات نہیں کرسکتے ہیں اور عصر حاضر میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان سے فرار کا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ محض یہ کہنا کہ ان سائنسی اکتشافات اور تحقیقات کو قرآن آج سے چودہ صدیاں پہلے بیان کرچکا ہے ، اپنی عصری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کا انکار نہیں کرتے ہیں لیکن اسے بھی درست نہیں سمجھتے کہ قرآن کو سائنسی نقطہ نظر سے بحث و مباحثہ کا موضوع بنالیا جائے ۔ ہم آج علوم و فنون کے تمام شعبوں میں پسماندہ ہیں اور امہ مسلمہ انتہائی سخت اور نازک صورتحال سے گزر رہی ہے ایسی حالت میں ایسے حساس موضوع پر مستقل بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا صحیح نہیں ہے ۔ ہاں ، اگر کچھ اہل اختصاص اور علم و فکر ان آیات پر غور و فکر کریں جن کی تشریح اور باریکیوں پر سائنسی تحقیقات سے روشنی پڑتی ہے اور اس طرح قرآن کا علمی اعجاز ثابت ہو تو یہ مفید ہے ۔ مثال کے طور پر جدید طبی ، خلائی اور علوم کے دیگر شعبوں میں جو حالیہ تحقیقات ہوئی ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ اپنی تحقیقات اہل مغرب کے متعلقہ شعبوں کو بھیجیں تاکہ انہیں اسلام کے بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے صحیح رائے قائم کرنے کا موقع ملے ۔ اس سے مسلم نوجوانوں میں قرآن و سنت پر سائنسی نقطہ نظر سے اعتماد پیدا ہوگا ، ان کے دینی جذبہ اور تاریخی شعور کو تقویت ملے گی ، ان کے اندر علمی خود اعتمادی ، بلند ہمتی اور علمی ترقی کا جذبہ پیدا ہوگا ۔ اسلام آباد کی کانفرنس منعقدہ 1987 میں ان اندیشوں اور خدشات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ اس کے بجائے ہمیں علوم و فنون کی میدانوں مین ترقی کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور اپنے اندر خود ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہم علمی پسماندگی اور مغرب کی کورانہ تقلید سے آزاد ہوسکیں ۔ صرف قرآن و سنت کے علمی اعجاز کو ثابت کردینا برتری اور تفوق کی بات نہیں ہے بلکہ سائنس کے میدانوں ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ اس بحث کا سب سے اہم پہلو ہے جس کی طرف مسلم حکومتوں اور اہل علم و فکر کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس موضوع پر سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کرنا اور قرآنی آیات کی بے جا تاویلات کرکے جدید سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کی پر تکلف کوششیں کرنا ، اس مقصد کے لیے کمیٹی اور بورڈ کی تشکیل اور بڑی بڑی رقم وقف کرنا ، ایسا طرز عمل ہے جو جادہ اعتدال سے ہٹا ہوا ہے ۔ اس موضوع کے سلسلے میں قیود و ضوابط کی پابندی کے موضوع پر کام کرنے کے لیے ایک کمیٹی ' قرآن کے سائنسی اعجاز کا اثبات اور اس کے اصول و ضوابط ' کے عنوان سے تشکیل دی گئی تھی اس موضوع پر وقیع مقالہ ازہر یونیورسیٹی کے ڈاکٹر سید طویل کا تھا ۔ دوسرا مقالہ ام درمان اسلامی یونیورسٹی کے محمد خیر حب الرسول نے پیش کیا تھا ۔ ان دونوں مقالون میں قرآن کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر آزادانہ بحث و مباحثہ پر اعتراض اور ضروری تحفظات کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔ فقہاء اور دیگر علوم کے ماہرین کے درمیان اس پر خوب گرم بحث ہوئی اور ہر فریق اپنے موقف پر قائم رہا ۔ فقہاء کے موقف کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ کانفرنس میں قرآنی آیات کی سائنسی تاویلات کا دروازہ توقع سے زیادہ کھلا پایا گیا ۔ پانچ سو مقالون میں سے صرف 78 مقالات کا انتخاب اور ان کا خلاصہ پیش کیا گیا ۔ اتنی بڑی تعداد میں مقالات کا رد کردیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آزادانہ تاویلات کا خطرہ خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور یہ بڑے شد ومد اور غلو کے ساتھ پائے گئے ۔ تقریبا گیارہ سائنسی موضوعات پر مقابلے پڑھے گئے ۔ علم افلاک ( خلائی تحقیقات) فضا و ارض ، سمندر حیوانات ، نباتات ، علم الجنین (Embryology) علم تشريح (Anotomy) اور علم طب کے مختلف شعبوں کے علاوہ علم نفسیات اور اقتصادیات پر بھی مقالات پڑھے گئے تھے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
علامہ ندوی رحمہ اور عالم عرب میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ اس کے مصداق تھے ۔ عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا ۔ ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین اور ادباء میں شمار کیے جاتے تھے ۔ عربی نژاد اور ماہر فن تھے ۔ عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی زبان کے مشہور اہل قلم اور نثر نگاروں سے واقف ہوتا ہے ۔ عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور خصوصیات سے بھی آگاہ تھے ۔ مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار میں پڑھا گیا مقالہ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Islamic Institute nadvilaeeque@gmail.com
امہ مسلمہ کی موجودہ نازک صورت حال آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ : " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی طرح ہوگی جو کمزور ہوتی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن ان کے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور موت کا خوف پیدا جائے گا ، مسلممان ڈرپوک اور بزدل ہوجائین گے ۔ یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو نہیں جانتی ہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے : يا رب إن قومى هذا اتخذوا القرآن مهجورا اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔ اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔ در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں پہلووں سے اس پر استوار ہے ؟ اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی اس صورت حال سے امہ کو باہر نکالے اور اس کی دستگیری فرمائے امین ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
دینی مدارس کا نظام تعلیم و تربیت اس کی حفاظت ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے مدارس کا نظام تعلیم و تربیت ایک اہم موضوع ہے ۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لوگ آج بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔ جہاں تک اسلامی جامعات اور بڑے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کا تعلق ہے تو صرف دینی نظام تعلیم و تربیت کے ماہرین ہی کو یہ حق یے کہ اس موضوع پر اظہار خیال کریں ۔ وہ ضرورت سمجھیں گے تو اس میں کچھ حذف و اضافہ کرسکتے ہیں ۔ جن لوگوں کا اس نظام تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ انہیں اس کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اس کے اصل مقصد سے انہیں کوئی دلچسپی اور اتفاق ہے ان کا اس میں دخل اندازی کرنا اور آئے دن مشورے دینا بہت غلط بات ہے ۔ جن لوگوں کا تعلق معاصر نظام تعلیم و تربیت سے ہے وہ وزارت تعلیم کو مشورہ دین کہ وہ نصاب تعلیم میں دینی مضامین کو بھی شامل کریں تاکہ کالج اور یونیورسیٹیوں کے طلباء دین و دنیا دونوں کی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں ۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت میں ثنویت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ یہ انتہائی جامع ، وسیع اور ہمہ جہت تھا ۔ ثنویت اہل یوروپ کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم و تربیت سے اسلامی علوم کو خارج کر کے صرف سائنسی علوم کو پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا جو ان کے یہاں آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا ۔ یہ علوم نہ " مغربی علوم " ہیں اور نہ ہی"جدید علوم "۔ یہ وہ علوم ہیں جنہیں انہوں نے اندلس کے کالجوں اور دارالعلوم (جامعات) میں پڑھ اور سیکھ کر جہالت کی تاریکی سے نکلنا شروع کیا تھا ۔ مسلمانوں میں جب علمی زوال آیا تو وہ ان سائنسی علوم سے دور ہوتے گئے اور ان کے نصاب تعلیم سے سائنسی علوم کم ہوتے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی حس مردہ ہوتی چلی گئی اور وہ علمی زوال کا شکار ہوکر علمی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے ۔ ایسا کیوں ہوا اس کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔ انیسویں صدی میں جب یوروپی ممالک نے عالم اسلام پر یلغار کرکے اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرکے انہیں اپنا محکوم بنالیا تو انہوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو بالکل نظرانداز کرکے اس نظام تعلیم کو نافذ کیا جو مسلمانوں سے ماخوذ تھا اور اب وہ " مغربی نظام تعلیم " اور " جدید علوم " ہوچکے ہیں ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ایک ایسا نظام تعلیم جس میں ثنویت نہ ہو جس طرح مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم تھا اور جس میں دین و دنیا کا جداگانہ تصور نہیں تھا اور جہاں کے مدارس ، کلیات اور جامعات سے اہل یوروپ تعلیم اور حریت فکر ونظر ، حقوق انسانی اور اظہار رائے کے تصورات سے آشنا ہوکر نکلے اور یوروپی ممالک واپس جاکر علمی اور حقوق انسانی کی تحریک چلائی ، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ تاریک یوروپ روشنی کی طرف آنے لگا ۔ پندرھویں صدی عیسوی سے یوروپ میں " نشاہ ثانیہ " کی تحریک شروع ہوئی جس کے پیچھے یہود کا مفسدانہ اور مجرمانہ دماغ کام کر رہا تھا اور یہاں سے " عصر حاضر " شروع ہوا جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ نے کہا ہے : عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش ان کے مقابلہ میں خلافت عثمانیہ مرور زمانہ کے ساتھ کمزور ہونے لگی اور یہود کی مسلسل سازش اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بالآخر 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا ۔ اس کے ختم کرنے سے پہلے ہی جب یوروپی ممالک نے دیکھا کہ خلافت بالکل ناتواں ہوچکی ہے تو انہوں نے اس کے تحت جو مسلم ممالک تھے ان پر حملے شروع کردیے ۔ فرانس نے لیبیا پر 1897 ہی میں حملہ کردیا تھا ۔ اس طرح مختلف یوروپی ممالک نے مسلم ممالک کو تقسیم کرکے اپنے مستعمرات ( Colonies) میں شامل کرلیا ۔ اس طرح امہ مسلمہ پوری دنیا میں مغلوب ، محکوم ہوگئی ۔ انہوں اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے " جدید یوروپی نظام تعلیم و تربیت " کو نافذ کیا یعنی نصاب تعلیم سے دینی مضامین کو حقارت سے نکال دیا اور اسی کے مطابق مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل اسلام سے دور ، بیزار اور لادین ہوگئی ۔ مشہور مسلم مفکر محمد قطب رحمہ نے اپنی تصنیف ' واقعنا المعاصر ' میں اس صورت حال پر تفصیل سے بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے ۔ جب مسلم ممالک ان کی غلامی سے آزاد ہوئے تو انہوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے تربیت کردہ اسلام بیزار نئی نسل کے حوالے کرگئے اس طرح مسلم ممالک اسی منہج پر کام کرتے رہے جو وہ قائم کر گئے تھے ۔ مسلم حکمران خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ان کو کرسی اقتدار پر انہوں نے ہی بٹھایا ہے اس لیے وہ ان کے اشارے اور مرضی کے مطابق ہی کام کرتے رہتے ہین ۔ پورے مسلم ممالک میں اس صورت حال نے اسلام سے دور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کے درمیان جدائی پیدا کردی جس نے ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو بالکل ختم کردیا جو کسی ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔ ایسے انتہائی پریشان کن حالات میں یہی ایک راستہ نظر آیا کہ دینی اور خالص اسلامی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائین جس کی طرف رہنمائی شاہ ولی اللہ رحمہ کرگئے تھے ۔ امام قاسم نانوتوی رحمہ نے اسی سمت میں قدم آگے قدم بڑھایا اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد دینی نظام تعلیم و تربیت کو باقی رکھنا اور اس کی حفاظت تھی ۔ یہ صرف ایک دینی علمی درسگاہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک دینی ، فکری اور اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ اس کے بعد ہند میں دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی ادارے بنیادی طور ہر اسی خاص مقصد کے لیے قائم کیے گئے ۔ جن کا واحد مقصد قرآن و احادیث پر مبنی نظام تعلیم و تربیت قائم رکھنا اور چلانا تھا ۔ ا ن دینی مدارس میں مسلمانوں کے صرف %4 فیصد وہ بچے جاتے ہیں جن میں انگریزی اسکولوں کے مصارف برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔ اب مسلم حکمرانوں کے آقاؤں کو مسلم ممالک کے ان دینی مدارس سے خطرہ نظر آنے لگا ہے اس لیے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ دینی درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر ان پر قید و بند عائد کیے جائیں اور ان کے نصاب تعلیم کو مسخ کردیا جائے ۔ دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی سازش کو میں نے اپنے مضمون " دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی تجویز ، ایک سازش ہے فقط " میں لکھا ہے ۔ ہمارے علماء کرام اور بزرگان دین بڑی قربانیاں دے کر اس نظام تعلیم و تربیت کی حفاظت کی ہے ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس کی حفاظت کرنا اوراس کو قائم رکھنا ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ۔ ہم اسلام دشمن طاقتوں کو ان کی خفیہ سازشوں اور چالوں میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global And Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com ۔
بسم الله الرحمن الرحيم نظرة التجديد فى أدب العقاد رسالة للدكتوراه الدكتور محمد لئيق الندوي إن الحملة الفرنسية كانت نقطة بدء في وصل المصريين بأوروبا ، و فى فتح عيونهم على نمط أوربی في الحیاة . و اتصال المصريين بالحضارة الأوربية قد اعدهم لتقبل الجديد الذى طرأ على حياتهم فيما بعد . سواء أكان من الناحية الاجتماعية أم الثقافية أم الأدبية . ١ وأفاد الدارسون من التيارات الفكرية والأدبية الفرنسية و الإنجليزية بصفة خاصة والتيارات الأدبية بصفة عامة منذ توثقت صلتهم بها فوسع ذلك من آفاقهم و هيأ نفوسهم لإعادة النظر فى حياتهم السابقة و آدابهم القديمة . ٢ و قد شغل النقد الأدبى حيزا واسعا فى دائرة الدراسات الإنسانية . و قد ربط الأستاذ عباس محمود العقاد النقد العربي بالنقد العالمى و نقد الشعر على أسس و مبادئ نظرية ، و وضع له بعض المقومات الحديثة التى تتفق و مقومات الشعر العربي لكئ تفتح له آفاق جديدة بدلا من الجمود على الأدب القديم . و لم يكن تجديده مقصورا على مناهج دراسة الأدب ، بل تجاوزها إلى الحديث عن النظريات و المبادئ النقدية في الآداب الأوربية و محاولة تطبيقها في الشعر العربي حتى يساير العصر و التقدم الحضارى . قام العقاد بالدعوة إلى ضرورة التجديد و الأخذ بثقافة الغرب فى النقد و الشعر بصفة خاصة . و يجدر بنا أن نقف قليلا عن نظرته إلى الحياة و مفهوم الأدب عنده ليتسنى لنا بعد ذلك البحث عن نظرته التجديدية في كتاباته الأدبية . الحياة هى أعم من الكون في نظر العقاد . و كذلك الكون و الفن و مناظر الأرض و السماء كل هذه الأشياء هى إنما هي مظهر التالف و التنازع بين الحرية و الضرورة أو بين الجمال و المنفعة أو بين الروح و المادة ، هذه كلها قوى مطلقة لها قوانين تحكمها . و كلما ائتلفت تلك القوى و القوانين اقتربت من السمة الفنية و النظام الجميل الذى يبين بالمادة و صفاء الروح و يسير بالقيود أغوار الحرية فى هذا الوجود .٣ بهذه النظرة العميقة للحياة نظر إلى الأدب و نبه إلى اجتناب الأخطاء التي شاعت حول مفهومه ، و رأى أن الخطأ الأكبر الذى أضر به إنما هو النظر إلى الأدب كأنه وسيلة للتلهى و التسلية لانه هو أساس الخطأ جميعا في فهم الآداب ، و الفارق الأكبر بين كل تقدير صحيح و تقدير معيب في نقدها و تمحيصها . ٤ هذه الصور الحقيقية للآداب مشروحة على حقيقتها الأبدية . و أخيرا يعقب العقاد على ذلك كله بما يفيد أن ذلك هو مقياس الأدب يوصي به القراء . و على هذا المقياس يعول في تمييزه و تصحيح النظر إليه . ١ - محمد فؤاد شكرى : الحملة الفرنسية على مصر و ظهور محمد على ص : ١٧١ ، القاهرة ٢- جمال الشيال : تاريخ الترجمة و حركة الثقافية في عصر محمد على ص : ٢١٤ ٣- عباس العقاد : مطالعات فى الكتب و الحياة - المقدمة ٤- المرجع السابق : الأدب كما يفهمه الجيل - ص ١ محتويات البحث المقدمة : تعريف بموضوع الرسالة و أهميته و سبب اختياره ص ٤ -- ١٣ نظام الأبواب و الفصول ص ١٤ -- ١٨ الباب الأول : التجديد التجديد في الإسلام و مجالات التجديد ص ١٩ الباب الأول المبحث الأول : معنى التجديد في الإسلام ص ٢٠ -- ٢٣ المبحث الثاني : أول تجديد حقيقى في التاريخ الإنسانى ص ٢٤ -- ٢٧ الفصل الثاني : المبحث الأول : بداية العصر الحديث ص ٢٨ -- ٣٢ محمد على (١٧٦٩ -- ١٨٤٩ ) ص ٣٣ -- ٣٩ المبحث الثاني : التجديد في الأدب قديما و حديثا ص ٤٠ -- ٥٠ المصادر و المراجع ص ٥١ -- ٥٢
امہ مسلمہ کی موجودہ صورت حال آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ : " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ ارشاد فرمایا گیا نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی ہوگی جو اس پر چھایا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔ سیلاب کا زور اسے بہا کر لے جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہارے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور تمہارھ اندر موت کا خوف پیدا جائے گا ۔ یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو نہیں جانتی ہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے : يا رب إن قومى هذا اتخذوا القرآن مهجورا اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔ اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔ در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں پہلووں سے اس پر استوار ہے ؟ اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی اس صورت حال سے امہ کو باہر نکالے اور اس کی دستگیری فرمائے ۔ امین محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
افغانستان میں اسلامی خلافت قائم ہوگئی طالبان نے اکیسویں صدی میں جہاد اسلامی کی یاد تازہ کردی ۔ انہوں نے خلافت اسلامی قائم کردی ۔ اگر پوری دنیا میں کوئی حقیقی اسلامی نظام حکومت قائم ہے تو وہ صرف اور صرف افغانستان کی اسلامی خلافت ہے جو نو میہنے سے افغانستان میں عملا قائم ہے ۔ طالبان ں نے دوحہ قطر میں امریکہ سے صلح کی گفتگو کے وقت پہلی شرط یہ رکھی تھی کہ افغانستان میں مغربی نظام جمہوریت نہیں قائم کی جائے گی بلکہ افغانستان میں اسلامی نظام خلافت قائم کیا جائے گا ۔ طالبان نے سویٹ یونین اور سپر پاور امریکہ کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف طویل جنگیں کیں اور لاکھوں طالبان نے اسلامی خلافت قائم کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جب وہ امریکہ کو اپنی سرزمین سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے اسلامی خلافت قائم کرکے پوری دنیا دکھا دیا ۔ اج پاکستان میں ایسے مسلمان ہیں جو اس اسلامی خلافت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مولانا مودودی رحمہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے میدان سیاست میں اترے لیکن مغربی جہموریت کا راستہ اختیار کیا نتیجہ یہ ہوا کہ ناکام رہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب خلافت قائم کرنے کے لیے جوشیلی تقاریر کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اردن اور شام کے علاقے میں ایک عرب تنظیم ہے جو اسلامی خلافت قآئم کرنے کی آج بھی دفاعی ہے لیکن وہاں کی حکومتوں کا کیا حال ہے پوری دنیا جانتی ہے ۔ ڈائرکٹر یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسم کہاں علامہ اقبال رحمہ کے یہ اشعار طالبان پر پوری طرح صادق آتے ہیں : یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائ کشاد درد دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دل مردہ مؤمن میں پھر زندہ کردے وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں علامہ اقبال رحمہ طالبان علامہ اقبال رحمہ کے ان اشعار کے اکیسویں صدی میں حقیقی مصداق ہیں میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر ڈاکٹر محمد لئیق قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
وجود انسان ارتقائی عمل یا اللہ خالق کائنات کی تخلیق سے پہلے بشر کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی ۔ یہ قرآن کا بیان ہے ۔ وہ زمین پر ارتقا کے ذریعہ وجود میں نہیں آیا ۔ دونوں بیانیہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں ۔ آدم علیہ السلام کا جنت سے زمین پر آنا اور سائنس کا یہ کہنا کہ زندگی زمین کے باہر سے آئی ہے ، ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں اور ان میں تطبیق و توافق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس ویڈیو سے غلط بات ناظرین تک پہنچے گی زندگی کے Building Blocks کا خلا سے زمین پر آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام زمین کے باہر کہیں سے زمین پر آئے ہیں ۔ آدم علیہ السلام مکمل بنے بنائے بشر ہیں جن کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی اور ان سے ان کے زوجہ کو بنایا گیا ۔ قرآن میں آللہ تعالی نے اس حقیقت کو مختلف سورتوں میں بیان کیا ۔ بنیادی اجزاء زندگی جن سے سائنسداں بحث کرتے ہیں ۔ ان سے زمین پر ایک خلیہ Cell قدرتی و طبعی ارتقا سے کسی طرح پیدا ہوگیا ۔ ایک خلیہ والا جان دار اور بتدریج متعدد الخلایا والے جان دار پیدا ہوتے رہے ۔ یہ تمام مراحل بالکل افسانوں ہیں ۔ آج کا انسان جسے سائنسداں Homo Sapience کہتے ہیں تقریبا ڈیڑھ دولاکھ پہلے ظہور میں آیا ۔ قرآن انسان کے طویل ارتقائی عمل سے گزر کر پیدا ہونے کی بات نہیں کرتا بلکہ اللہ قادر مطلق یہ بیان کرتا ہے کہ اس نے ایک بشر آدم کا کالبد خاکی بنایا جسے " فإذا سويته " اور جب میں اسے اچھی طرح بناچکوں ۔ " ونفخت فيه من روحى " اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں اس طرح پہلا بشر پیدا کیا گیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا ایک عورت پیدا کی گئی ۔ قرآن مجید کے اس بیانیہ کی ارتقائی تشریح کیسے کی جاسکتی ہے ۔ نظریہ ارتقا تخلیق آدم و حوا کے بارے میں قرآن کے بیان کو نہیں مانتا ۔ نظریہ ارتقا کسی ما بعد الطبیعاتی تصور کا سرے سے انکار کرتا ہے یعنی اللہ کی ذات کا وجود نہیں ہے ۔ جب اللہ خالق کے وجود کا انکار کردیا تو رسالت اور انبیاء علیہم السلام پر نزول وحی و کتاب خود بخود کالعدم ہوگیا ۔ یہ ہے نظریہ ارتقا کی اصل حقیقت ۔ اس کے باوجود کچھ نام نہاد دانشور اور جدید تعلیم یافتہ لوگ نظریہ ارتقا کو قرآن سے ثابت کرنے کی سعی ناکام کرتے رہتے ہیں ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم کا وجود ہی نہیں ہے ۔ آدم نام کا کوئی فرد بشر ارتقائی تاریخ میں پایا ہی نہیں جاتا ۔ میں نے نظریہ ارتقا کے رد میں اس طرح کے مختلف مضامین اردو اور ا انگریزی میں تحریر کیا ہے ۔ ڈاکٹر Dr Zakir Naik on evolution لکھ کر کلک کریں وہاں مختلف Commen boxes میں ان کو پڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ میرے ما بعد الدکتورہ کا تحقیقی موضوع ہے ۔ یہ میرا مستقل موضوع ہے اور میں اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور جو کچھ ہوسکتا تحریر کرکے یو ٹیوب کے مختلف Comment boxes میں پوسٹ کرتا رہتا ہوں ۔ وما توفیقی الا بالله ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ۔ بعض سائسندانوں نے صاف اعتراف کیا ہے کہ اس نظریہ کو ہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس نہیں ہے ۔ سر آرتھر کیتھ( Keith ) نے 1953 میں کہا تھا : " Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable". (Islamic Thought, Dec.196q) یعنی ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ، اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ، ہم اس پر صرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے ، گویا سائنسداں نظریہ ارتقا کی صداقت پر صرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگر وہ اس کو چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انھیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا ۔ لوگوں کے دل میں خوف چھپا ہوا ہے کہ اللہ کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا ، وہ سائنسداں جو ذہنی اور فکری آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں ، پابندی کا کوئی بھی تصور ان کے لیے وحشتناک ہے "۔ ( The Evidence of God, p.130) غیر محدود آزادی کا تصور عالم انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک اور مہلک ہے ۔ اس تصور آزادی نے مغربی معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ ارتقا کے تصور نے مسلم ممالک اور دنیا کے مسلم معاشرے میں تباہی پیدا کر رہی ہے ۔ میں ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
علامہ ندوی رحمہ کے عالم عرب سے تعلقات عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ خوش قسمتی سے آپ کو عربی زبان و ادب کی تعلیم کے لیے عرب نژاد اساتذہ ملے ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا اور اردو بولنے پر جرمانہ کیا کرتے تھے ۔ ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین میں شمار کیے جاتے تھے ۔ یہ اساتذہ عربی نژاد اور پ ماہر فن تھے ۔ عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی زبان کے مشہور اہل قلم اور نثر نگاروں سے واقف ہوتا ہے ۔ عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور خصوصیات سے بھی آگاہ تھے ۔ علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ اس کے مصداق تھے : میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی . إن اصل عرب ماہرین اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے آپ کے اندر عربی زبان و ادب کی وجہ سے اصل تربیت آپ کی طبیعت میں کم عمری ہی میں مزاج کا جزء بن گئیں ۔ عرب ممالک کے سفر سے پہلے ہی عالم عرب سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ وہاں کے علماء و ادباء ، اصحاب قلم اور وہاں کے ارباب فکر و نظر اور ان کے نقطہ نگاہ سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ سولہ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت سید احمد شہید رحمہ کی حیات و دعوت پر ایک مضمون جو رسالہ ' توحید ' امرتسر میں شائع ہوا تھا ، اس کا ترجمہ کیا ۔ انہوں نے اسے شیخ ہلال الدین مراکشی کو دکھایا ، انہوں نے برائے نام تصحیح کی ۔ انہوں نے اس مضمون کو علامہ رشید رضا کو ' المنار' میں إشاعت کے لیے بھیج دیا ۔ انہوں نے نہ صرف اسے شائع کیا بلکہ اسے ایک رسالہ کی شکل میں طبع کردیا ۔ علامہ ندوی رحمہ لکھتے ہیں کہ : " اس سے بڑھ کر ایک ہندی نو عمر طالب علم کا کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ اس کا رسالہ علامہ رشید رضا مصر سے شائع کریں ۔ یہ رسالہ ' ترجمة الإمام السيد احمد بن عرفان الشهيد ' کے عنوان سے چھپ کر آگیا ، اور میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی ، میری عمر اس وقت ١٦ سال کی رہی ہوگی ، یہ میری پہلی تصنیف ہے جو مصر سے شائع ہوئی " ۔ ندوة العلماء سے پہلا عربی ماہنامہ ' الضیاء ' نکلا تو آپ اس کے مقالہ نگار تھے اور معاون مدیر بھی مقرر کیے گیے ، جس کی وجہ سے عرب علماء اور ادباء سے خط و کتابت کرتے ، ان کے مضامین کے ذریعہ ان کی شخصیات اور فکر افکار و نظریات کو عنفوان شباب ہی سے سمجھنے کا موقع ملا ۔ مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار منعقدہ فروری ٢٠٠٠ میں پڑھا گیا مقالہ ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
May Allah grant hazarth ji highest place in jaantul FIRDOUS Ameen
Molana apni ilmi khidmat Mai aaj b z indda hai
اللہ تعالیٰ حضرت ندوی صاحب علیہ الرحمہ کے قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں بھیجیں اور اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائیں
اللہ تعالی حضرت کے درجات کو بلند فرماٸیں
اللہ تبارک و تعالی مولانا کےدرجات کو بلند کرے
Mashallah ❤❤
اللہ تعالیٰ حضرت رح کی مغفرت فرمائے آمین
Allama Dr Abul Hasan nadvi
Great
Islamic scholar
Speaker
Historian
Educationist
Phylospher
Researcher
Thinker
Writer
Motivational speaker
Allah hazrat ke darajat buland farmaye
Allah pak haztat ua badal ata fatmaye aur hazray ke darjay buland kare
Great speech by Great scholar respected
All over world
" واستوت علی الجودی "
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ " و استوت على الجودى " يعنى كشتى كوه ارارات پہاڑ کے ایک حصہ ' جودی ' پر ٹھہر گئی ۔
جو بات قرین قیاس اور سمجھ میں آنے والی ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ کشتی میں سوار تھے وہ پہاڑ سے نیچے اترے ہوں گے اور دامن کوہ کے قریب جو جگہ رہائش اور آباد ہونے کے قابل ہوگی وہاں بس گئے ہوں گے ۔ یہ علاقہ شمالی عراق میں شہر موصل سے کچھ فاصلہ پر ہے ۔ اس کے بعد یہ لوگ آہستہ آہستہ موصل کی طرف بڑھے ہوں گے اور یہ شہر آباد ہوا ہوگا ۔
موصل سے جنوب میں 35 کلو میٹر کے فاصلہ
پر نمرود کے تاریخی آثار اور کھنڈرات ہیں
ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے ۔
یہ علاقہ شمالی عراق میں دریائے دجلہ کے کنارے واقع ہے ۔ پھر جب آبادی بڑھنے لگی تو یہ لوگ جنوبی عراق کی طرف بڑھے ۔ بابل جسے Babylon کہا جاتا ہے شہر موصل سے بہت دور ہے ۔ وہاں کے لوگوں نے سائنس اور ٹکنالوجی میں بہت ترقی کی اس لیے تاریخ میں بابلی تہذیب و تمدن کا خاص طور پر ذکر ملتا ہے ۔ اس ابتدائی علاقہ سے انسانی آبادی مصر کی طرف اور جنوب میں سندھ کی طرف بڑھی اور سندھ اور پھر ہند کی تہذیب ابھر کر سامنے آئی ۔
میں 1983 مین عراق میں ملازمت کے دوران
کوہ اراراط کے پہاڑی سلسلہ کے بالکل قریب تک گیا تھا اور شہر موصل اور نمرود کے تاریخی آثار کو بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا
میں بابل بھی گیا اور آثار بابل اور Hanging garden بھی دیکھا ۔ قدیم انسانی تاریخ کا یہ باب بہت دلچسپ اور قابل مطالعہ باب ہے ۔
عراق کی سرزمین انبیاء اور اولیاء کی سرزمین ہے ۔ موصل میں یونس علیہ السلام کے قبر پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اسی طرح جنوبی عراق میں ایک جگہ ہے جس کا نام ' الکفل ' ہے ۔ یہاں کفل علیہ السلام کا قبر ہے وہاں جانے اور فاتحہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس طرح شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ کے قبر پر کئی بار حاضر ہونے کا موقع ملا ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
Masha Allah 😥😥😥❤❤❤
Allama Dr Abul Hasan nadvi rh
15:30... The history of the decline and fall of the roman empire by Edward Gibbon.
(( وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ))
لمن يرغب في التعرف على العلماء والأدباء الكرد... نتناول في قناتنا حياة عظماء الكرد، وسير حياتهم، ومؤلفاتهم، وبعض أفكارهم.... نسعد بإلقاءكم النظر في ما نقدم... ❤️🌼🌷....
Read his masterpiece "Islam and the world"
How was it? I have downloaded and will read in shaa Allah
قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز پر پہلی
عالمی کانفرنس
دوسری قسط
جو لوگ قرآن کی سائنسی تفسیر کے قائل نہیں ہین ان کی طرف سے درج ذیل وجوہات بھی پیان کی جاتی ہیں :
وہ اسے قرآن کے اصل مقصد سے انحراف سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہین کہ ہم اس طرح اپنی صلاحیت اور کوششوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے ہیں اس طرح جس چیز کو اولیت حاصل ہونی چاہیے وہ ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے ۔
سائنسی مفروضات اور نظریات جدید معلومات اور تحقیقات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اگر ہم ان کے مطابق قرآنی آیات کے معانی بیان کرنے لگے تو خدا ناخواستہ اللہ جل شانہ کی کتاب کھیل بن کر رہ جائے گی اور ہر کس و ناکس اپنی طبع آزمائی کے لیے اسے تختہ مشق بنالے گا اور اس طرح دشمنان اسلام کو استہزاء کا نیا موقع مل جائے گا ۔
بغیر کسی اصول و ضوابط کے ، قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا خطرے سے خالی نہیں ہے ، کیونکہ مخلتف علوم و فنون کے ماہرین اپنے اپنے نقطہ نظر سے سائنسی معلومات اور نظریات کے مطابق قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر کرنے لگیں گے اور یہ فتنے کا باعث ہوسکتا ہے !!
سائنسی معلومات کے مطابق قرانی آیات کی تاویلات اور تفسیر در اصل ہماری نا اہلیت کو ثابت کرتی ہے کہ ہم خود سائنسی تحقیقات نہیں کرسکتے ہیں اور عصر حاضر میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان سے فرار کا راستہ اختیار کرلیا ہے ۔ محض یہ کہنا کہ ان سائنسی اکتشافات اور تحقیقات کو قرآن آج سے چودہ صدیاں پہلے بیان کرچکا ہے ، اپنی عصری ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کافی نہیں ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے سائنسی اعجاز کا انکار نہیں کرتے ہیں لیکن اسے بھی درست نہیں سمجھتے کہ قرآن کو سائنسی نقطہ نظر سے بحث و مباحثہ کا موضوع بنالیا جائے ۔ ہم آج علوم و فنون کے تمام شعبوں میں پسماندہ ہیں اور امہ مسلمہ انتہائی سخت اور نازک صورتحال سے گزر رہی ہے ایسی حالت میں ایسے حساس موضوع پر مستقل بحث و مباحثہ کا دروازہ کھولنا صحیح نہیں ہے ۔
ہاں ، اگر کچھ اہل اختصاص اور علم و فکر
ان آیات پر غور و فکر کریں جن کی تشریح اور باریکیوں پر سائنسی تحقیقات سے روشنی پڑتی ہے اور اس طرح قرآن کا علمی اعجاز ثابت ہو تو یہ مفید ہے ۔ مثال کے طور پر جدید طبی ، خلائی اور علوم کے دیگر شعبوں میں جو حالیہ تحقیقات ہوئی ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ اپنی تحقیقات اہل مغرب کے متعلقہ شعبوں کو بھیجیں تاکہ انہیں اسلام کے بارے میں سائنسی نقطہ نظر سے صحیح رائے قائم کرنے کا موقع ملے ۔ اس سے مسلم نوجوانوں میں قرآن و سنت پر سائنسی نقطہ نظر سے اعتماد پیدا ہوگا ، ان کے دینی جذبہ اور تاریخی شعور کو تقویت ملے گی ، ان کے اندر علمی خود اعتمادی ، بلند ہمتی اور علمی ترقی کا جذبہ پیدا ہوگا ۔
اسلام آباد کی کانفرنس منعقدہ 1987 میں ان اندیشوں اور خدشات کا اظہار کیا گیا تھا ۔ اس کے بجائے ہمیں علوم و فنون کی میدانوں مین ترقی کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور اپنے اندر خود ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہم علمی پسماندگی اور مغرب کی کورانہ تقلید سے آزاد ہوسکیں ۔ صرف قرآن و سنت کے علمی اعجاز کو ثابت کردینا برتری اور تفوق کی بات نہیں ہے بلکہ سائنس کے میدانوں ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہ اس بحث کا سب سے اہم پہلو ہے جس کی طرف مسلم حکومتوں اور اہل علم و فکر کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
لیکن اس موضوع پر سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کرنا اور قرآنی آیات کی بے جا تاویلات کرکے جدید سائنس سے مطابقت پیدا کرنے کی پر تکلف کوششیں کرنا ، اس مقصد کے لیے کمیٹی اور بورڈ کی تشکیل اور بڑی بڑی رقم وقف کرنا ، ایسا طرز عمل ہے جو جادہ اعتدال سے ہٹا ہوا ہے ۔
اس موضوع کے سلسلے میں قیود و ضوابط کی پابندی کے موضوع پر کام کرنے کے لیے ایک کمیٹی ' قرآن کے سائنسی اعجاز کا اثبات اور اس کے اصول و ضوابط ' کے عنوان سے تشکیل دی گئی تھی اس موضوع پر وقیع مقالہ ازہر یونیورسیٹی کے ڈاکٹر سید طویل کا تھا ۔ دوسرا مقالہ ام درمان اسلامی یونیورسٹی کے محمد خیر حب الرسول نے پیش کیا تھا ۔
ان دونوں مقالون میں قرآن کے سائنسی اعجاز کے موضوع پر آزادانہ بحث و مباحثہ پر اعتراض اور ضروری تحفظات کے مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔ فقہاء اور دیگر علوم کے ماہرین کے درمیان اس پر خوب گرم بحث ہوئی اور ہر فریق اپنے موقف پر قائم رہا ۔
فقہاء کے موقف کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ کانفرنس میں قرآنی آیات کی سائنسی تاویلات کا دروازہ توقع سے زیادہ کھلا پایا گیا ۔ پانچ سو مقالون میں سے صرف 78 مقالات کا انتخاب اور ان کا خلاصہ پیش کیا گیا ۔ اتنی بڑی تعداد میں مقالات کا رد کردیا جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آزادانہ تاویلات کا خطرہ خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور یہ بڑے شد ومد اور غلو کے ساتھ پائے گئے ۔
تقریبا گیارہ سائنسی موضوعات پر مقابلے پڑھے گئے ۔ علم افلاک ( خلائی تحقیقات) فضا و ارض ، سمندر حیوانات ، نباتات ، علم الجنین (Embryology) علم تشريح (Anotomy) اور علم طب کے مختلف شعبوں کے علاوہ علم نفسیات اور اقتصادیات پر بھی مقالات پڑھے گئے تھے ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
علامہ ندوی رحمہ اور عالم عرب
میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا
وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی
علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ اس کے مصداق تھے ۔
عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا ۔
ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین اور ادباء میں شمار کیے جاتے تھے ۔ عربی نژاد اور ماہر فن تھے ۔
عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی
زبان کے مشہور اہل قلم اور نثر نگاروں سے واقف ہوتا ہے ۔
عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور خصوصیات سے بھی آگاہ تھے ۔
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار میں پڑھا گیا مقالہ
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Islamic Institute
nadvilaeeque@gmail.com
امہ مسلمہ کی موجودہ نازک
صورت حال
آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ :
" عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
" نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی طرح ہوگی جو کمزور ہوتی ہے اور اس کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت
تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن ان کے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور موت کا خوف پیدا جائے گا ، مسلممان ڈرپوک اور
بزدل ہوجائین گے ۔
یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔
مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو نہیں جانتی ہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے :
يا رب إن قومى هذا اتخذوا القرآن مهجورا
اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔
اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔
در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں پہلووں سے اس پر استوار ہے ؟
اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی اس صورت حال سے امہ کو باہر نکالے اور اس کی دستگیری فرمائے امین
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
nadvilaeeque@gmail.com
Allah mulana ali miya ko jannatul firdos marhammat farmaye
دینی مدارس کا نظام تعلیم و تربیت
اس کی حفاظت ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے
مدارس کا نظام تعلیم و تربیت ایک اہم موضوع ہے ۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لوگ آج بھی اظہار خیال کرتے رہتے ہیں ۔
جہاں تک اسلامی جامعات اور بڑے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کا تعلق ہے تو صرف دینی نظام تعلیم و تربیت کے ماہرین ہی کو یہ حق یے کہ اس موضوع پر اظہار خیال کریں ۔
وہ ضرورت سمجھیں گے تو اس میں کچھ حذف و اضافہ کرسکتے ہیں ۔
جن لوگوں کا اس نظام تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نہ انہیں اس کا کوئی تجربہ ہے اور نہ اس کے اصل مقصد سے انہیں کوئی دلچسپی اور اتفاق ہے ان کا اس میں دخل اندازی کرنا اور آئے دن مشورے دینا بہت غلط بات ہے ۔
جن لوگوں کا تعلق معاصر نظام تعلیم و تربیت سے ہے وہ وزارت تعلیم کو مشورہ دین کہ وہ نصاب تعلیم میں دینی مضامین کو بھی شامل کریں تاکہ کالج اور یونیورسیٹیوں کے طلباء دین و دنیا دونوں کی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں ۔
مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت میں ثنویت کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ یہ انتہائی جامع ، وسیع اور ہمہ جہت تھا ۔ ثنویت اہل یوروپ کی وجہ سے پیدا ہوئی ۔ انہوں نے اسلامی نظام تعلیم و تربیت سے اسلامی علوم کو خارج کر کے صرف سائنسی علوم کو پڑھنا اور پڑھانا شروع کیا جو ان کے یہاں آہستہ آہستہ ترقی کرتا رہا ۔ یہ علوم نہ " مغربی علوم " ہیں اور نہ ہی"جدید علوم "۔ یہ وہ علوم ہیں جنہیں انہوں نے اندلس کے کالجوں اور دارالعلوم (جامعات) میں پڑھ اور سیکھ کر جہالت کی تاریکی سے نکلنا شروع کیا تھا ۔
مسلمانوں میں جب علمی زوال آیا تو وہ ان سائنسی علوم سے دور ہوتے گئے اور ان کے نصاب تعلیم سے سائنسی علوم کم ہوتے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی حس مردہ ہوتی چلی گئی اور وہ علمی زوال کا شکار ہوکر علمی پسماندگی میں مبتلا ہوگئے ۔ ایسا کیوں ہوا اس کی تحقیق کی ضرورت ہے ۔
انیسویں صدی میں جب یوروپی ممالک نے عالم اسلام پر یلغار کرکے اور ان پر غاصبانہ قبضہ کرکے انہیں اپنا محکوم بنالیا تو انہوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو بالکل نظرانداز کرکے اس نظام تعلیم کو نافذ کیا جو مسلمانوں سے ماخوذ تھا اور اب وہ " مغربی نظام تعلیم " اور " جدید علوم " ہوچکے ہیں ۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ایک ایسا نظام تعلیم جس میں ثنویت نہ ہو جس طرح مسلمانوں کے قدیم نظام تعلیم تھا اور جس میں دین و دنیا کا جداگانہ تصور نہیں تھا اور جہاں کے مدارس ، کلیات اور جامعات سے اہل یوروپ تعلیم اور حریت فکر ونظر ، حقوق انسانی اور اظہار رائے کے تصورات سے آشنا ہوکر نکلے اور یوروپی ممالک واپس جاکر علمی اور حقوق انسانی کی تحریک چلائی ، جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ تاریک یوروپ روشنی کی طرف آنے لگا ۔
پندرھویں صدی عیسوی سے یوروپ میں " نشاہ ثانیہ " کی تحریک شروع ہوئی جس کے پیچھے یہود کا مفسدانہ اور مجرمانہ دماغ کام کر رہا تھا اور یہاں سے " عصر حاضر " شروع ہوا جس کے بارے میں علامہ اقبال رحمہ نے کہا ہے :
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش
ان کے مقابلہ میں خلافت عثمانیہ مرور زمانہ کے ساتھ کمزور ہونے لگی اور یہود کی مسلسل سازش اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بالآخر 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کردیا گیا ۔
اس کے ختم کرنے سے پہلے ہی جب یوروپی ممالک نے دیکھا کہ خلافت بالکل ناتواں ہوچکی ہے تو انہوں نے اس کے تحت جو مسلم ممالک تھے ان پر حملے شروع کردیے ۔ فرانس نے لیبیا پر 1897 ہی میں حملہ کردیا تھا ۔ اس طرح مختلف یوروپی ممالک نے مسلم ممالک کو تقسیم کرکے اپنے مستعمرات ( Colonies)
میں شامل کرلیا ۔ اس طرح امہ مسلمہ پوری دنیا میں مغلوب ، محکوم ہوگئی ۔ انہوں اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے نظام تعلیم و تربیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے " جدید یوروپی نظام تعلیم و تربیت "
کو نافذ کیا یعنی نصاب تعلیم سے دینی مضامین کو حقارت سے نکال دیا اور اسی کے
مطابق مسلمانوں کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نسل اسلام سے دور ، بیزار اور لادین ہوگئی ۔ مشہور مسلم مفکر محمد قطب رحمہ نے اپنی تصنیف
' واقعنا المعاصر ' میں اس صورت حال پر تفصیل سے بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے ۔
جب مسلم ممالک ان کی غلامی سے آزاد ہوئے
تو انہوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے تربیت کردہ اسلام بیزار نئی نسل کے حوالے کرگئے اس طرح
مسلم ممالک اسی منہج پر کام کرتے رہے جو وہ قائم کر گئے تھے ۔
مسلم حکمران خواہ وہ عرب ہوں یا عجم ان کو کرسی اقتدار پر انہوں نے ہی بٹھایا ہے اس لیے وہ ان کے اشارے اور مرضی کے مطابق ہی کام کرتے رہتے ہین ۔
پورے مسلم ممالک میں اس صورت حال نے اسلام سے دور مسلم حکمرانوں اور مسلم عوام کے درمیان جدائی پیدا کردی جس نے ان کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو بالکل ختم کردیا جو کسی ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہوتی ہے ۔
ایسے انتہائی پریشان کن حالات میں یہی ایک راستہ نظر آیا کہ دینی اور خالص اسلامی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائین جس کی طرف رہنمائی شاہ ولی اللہ رحمہ کرگئے تھے ۔ امام قاسم نانوتوی رحمہ نے اسی سمت میں قدم آگے قدم بڑھایا اور دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی جس کا مقصد دینی نظام تعلیم و تربیت کو باقی رکھنا اور اس کی حفاظت تھی ۔ یہ صرف ایک دینی علمی درسگاہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک دینی ، فکری اور اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔
اس کے بعد ہند میں دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی ادارے بنیادی طور ہر اسی خاص مقصد کے لیے قائم کیے گئے ۔ جن کا واحد مقصد قرآن و احادیث پر مبنی نظام تعلیم و تربیت قائم رکھنا اور چلانا تھا ۔ ا ن دینی مدارس میں مسلمانوں کے صرف %4 فیصد وہ بچے جاتے ہیں جن میں انگریزی اسکولوں کے مصارف برداشت کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے ۔
اب مسلم حکمرانوں کے آقاؤں کو مسلم ممالک کے ان دینی مدارس سے خطرہ نظر آنے لگا ہے
اس لیے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ دینی درسگاہوں کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر
ان پر قید و بند عائد کیے جائیں اور ان کے نصاب تعلیم کو مسخ کردیا جائے ۔ دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی سازش کو میں نے اپنے مضمون " دینی مدارس میں سائنسی علوم کو داخل کرنے کی تجویز ،
ایک سازش ہے فقط " میں لکھا ہے ۔ ہمارے علماء کرام اور بزرگان دین بڑی قربانیاں دے کر
اس نظام تعلیم و تربیت کی حفاظت کی ہے ۔
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس کی حفاظت کرنا اوراس کو قائم رکھنا
ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے ۔ ہم اسلام دشمن طاقتوں کو ان کی خفیہ سازشوں اور چالوں میں ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global And Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
۔
بسم الله الرحمن الرحيم
نظرة التجديد فى أدب العقاد
رسالة للدكتوراه
الدكتور محمد لئيق الندوي
إن الحملة الفرنسية كانت نقطة بدء في وصل المصريين بأوروبا ، و فى فتح عيونهم على نمط أوربی في الحیاة . و اتصال المصريين بالحضارة الأوربية قد اعدهم لتقبل الجديد الذى طرأ على حياتهم فيما بعد . سواء أكان من الناحية الاجتماعية أم الثقافية أم الأدبية . ١
وأفاد الدارسون من التيارات الفكرية والأدبية الفرنسية و الإنجليزية بصفة خاصة والتيارات الأدبية بصفة عامة منذ توثقت صلتهم بها فوسع ذلك من آفاقهم و هيأ نفوسهم لإعادة النظر فى حياتهم السابقة و آدابهم القديمة . ٢
و قد شغل النقد الأدبى حيزا واسعا فى دائرة الدراسات الإنسانية . و قد ربط الأستاذ عباس محمود العقاد النقد العربي بالنقد العالمى و نقد الشعر على أسس و مبادئ نظرية ، و وضع له بعض المقومات الحديثة التى تتفق و مقومات الشعر العربي لكئ تفتح له آفاق جديدة بدلا من الجمود على الأدب القديم .
و لم يكن تجديده مقصورا على مناهج دراسة الأدب ، بل تجاوزها إلى الحديث عن النظريات و المبادئ النقدية في الآداب الأوربية و محاولة تطبيقها في الشعر العربي حتى يساير العصر و التقدم الحضارى .
قام العقاد بالدعوة إلى ضرورة التجديد و الأخذ بثقافة الغرب فى النقد و الشعر بصفة خاصة . و يجدر بنا أن نقف قليلا عن نظرته إلى الحياة و مفهوم الأدب عنده ليتسنى لنا بعد ذلك البحث عن نظرته التجديدية في كتاباته الأدبية .
الحياة هى أعم من الكون في نظر العقاد . و كذلك الكون و الفن و مناظر الأرض و السماء كل هذه الأشياء هى إنما هي مظهر التالف و التنازع بين الحرية و الضرورة أو بين الجمال و المنفعة أو بين الروح و المادة ، هذه كلها قوى مطلقة لها قوانين تحكمها . و كلما ائتلفت تلك القوى و القوانين اقتربت من السمة الفنية و النظام الجميل الذى يبين بالمادة و صفاء الروح و يسير بالقيود أغوار الحرية فى هذا الوجود .٣
بهذه النظرة العميقة للحياة نظر إلى الأدب و نبه إلى اجتناب الأخطاء التي شاعت حول مفهومه ، و رأى أن الخطأ الأكبر الذى أضر به إنما هو النظر إلى الأدب كأنه وسيلة للتلهى و التسلية لانه هو أساس الخطأ جميعا في فهم الآداب ، و الفارق الأكبر بين كل تقدير صحيح و تقدير معيب في نقدها و تمحيصها . ٤
هذه الصور الحقيقية للآداب مشروحة على حقيقتها الأبدية . و أخيرا يعقب العقاد على ذلك كله بما يفيد أن ذلك هو مقياس الأدب يوصي به القراء . و على هذا المقياس يعول في تمييزه و تصحيح النظر إليه .
١ - محمد فؤاد شكرى : الحملة الفرنسية على مصر و ظهور محمد على ص : ١٧١ ، القاهرة
٢- جمال الشيال : تاريخ الترجمة و حركة الثقافية في عصر محمد على ص : ٢١٤
٣- عباس العقاد : مطالعات فى الكتب و الحياة - المقدمة
٤- المرجع السابق : الأدب كما يفهمه الجيل - ص ١
محتويات البحث
المقدمة : تعريف بموضوع الرسالة و أهميته
و سبب اختياره ص ٤ -- ١٣
نظام الأبواب و الفصول ص ١٤ -- ١٨
الباب الأول : التجديد التجديد في الإسلام
و مجالات التجديد ص ١٩
الباب الأول
المبحث الأول : معنى التجديد في الإسلام
ص ٢٠ -- ٢٣
المبحث الثاني : أول تجديد حقيقى في التاريخ
الإنسانى ص ٢٤ -- ٢٧
الفصل الثاني :
المبحث الأول : بداية العصر الحديث
ص ٢٨ -- ٣٢
محمد على (١٧٦٩ -- ١٨٤٩ ) ص ٣٣ -- ٣٩
المبحث الثاني : التجديد في الأدب قديما
و حديثا ص ٤٠ -- ٥٠
المصادر و المراجع ص ٥١ -- ٥٢
امہ مسلمہ کی موجودہ صورت حال
آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ :
" عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ ارشاد فرمایا گیا نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی ہوگی جو اس پر چھایا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔ سیلاب کا زور اسے بہا کر لے جاتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہارے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور تمہارھ اندر موت کا خوف پیدا جائے گا ۔
یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔
مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو نہیں جانتی ہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے :
يا رب إن قومى هذا اتخذوا القرآن مهجورا
اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ رکھا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔
اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔
در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں پہلووں سے اس پر استوار ہے ؟
اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی اس صورت حال سے امہ کو باہر نکالے اور اس کی دستگیری فرمائے ۔ امین
محمد لئیق ندوی قاسمی
nadvilaeeque@gmail.com
اہلیت وارث اہلبیت
افغانستان میں اسلامی خلافت قائم ہوگئی
طالبان نے اکیسویں صدی میں جہاد اسلامی کی یاد تازہ کردی ۔ انہوں نے خلافت اسلامی قائم کردی ۔ اگر پوری دنیا میں کوئی حقیقی اسلامی نظام حکومت قائم ہے تو وہ صرف اور صرف افغانستان کی اسلامی خلافت ہے جو
نو میہنے سے افغانستان میں عملا قائم ہے ۔
طالبان ں نے دوحہ قطر میں امریکہ سے صلح کی گفتگو کے وقت پہلی شرط یہ رکھی تھی کہ افغانستان میں مغربی نظام جمہوریت نہیں قائم کی جائے گی بلکہ افغانستان میں اسلامی نظام خلافت قائم کیا جائے گا ۔
طالبان نے سویٹ یونین اور سپر پاور امریکہ
کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف طویل جنگیں کیں اور لاکھوں طالبان نے اسلامی خلافت قائم کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا
اور جب وہ امریکہ کو اپنی سرزمین سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو انہوں نے اسلامی خلافت قائم کرکے پوری دنیا دکھا دیا ۔
اج پاکستان میں ایسے مسلمان ہیں جو اس اسلامی خلافت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مولانا
مودودی رحمہ اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے میدان سیاست میں اترے لیکن مغربی جہموریت کا راستہ اختیار کیا نتیجہ یہ ہوا کہ ناکام رہے ۔ ڈاکٹر اسرار صاحب خلافت قائم کرنے کے لیے جوشیلی تقاریر کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ اردن اور شام کے علاقے میں ایک عرب تنظیم ہے جو اسلامی خلافت قآئم کرنے کی آج بھی دفاعی ہے لیکن وہاں کی حکومتوں کا کیا حال ہے پوری دنیا جانتی ہے ۔
ڈائرکٹر
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسم کہاں
علامہ اقبال رحمہ کے یہ اشعار طالبان پر پوری طرح صادق آتے ہیں :
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائ
کشاد درد دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مردہ مؤمن میں پھر زندہ کردے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ لا تذر میں
علامہ اقبال رحمہ
طالبان علامہ اقبال رحمہ کے ان اشعار کے اکیسویں صدی میں حقیقی مصداق ہیں
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
ڈاکٹر محمد لئیق قاسمی
nadvilaeeque@gmail.com
وجود انسان ارتقائی عمل
یا
اللہ خالق کائنات کی تخلیق سے
پہلے بشر کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی ۔ یہ قرآن کا بیان ہے ۔ وہ زمین پر ارتقا کے ذریعہ وجود میں نہیں آیا ۔ دونوں بیانیہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں ۔
آدم علیہ السلام کا جنت سے زمین پر آنا اور سائنس کا یہ کہنا کہ زندگی زمین کے باہر سے آئی ہے ، ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور متضاد ہیں اور ان میں تطبیق و توافق کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
اس ویڈیو سے غلط بات ناظرین تک پہنچے گی
زندگی کے Building Blocks کا خلا سے زمین پر آنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آدم و حوا علیہما السلام زمین کے باہر کہیں سے زمین پر آئے ہیں ۔
آدم علیہ السلام مکمل بنے بنائے بشر ہیں جن کی تخلیق جنت میں کی گئی تھی اور ان سے ان کے زوجہ کو بنایا گیا ۔ قرآن میں آللہ تعالی نے اس حقیقت کو مختلف سورتوں میں بیان کیا ۔
بنیادی اجزاء زندگی جن سے سائنسداں بحث کرتے ہیں ۔ ان سے زمین پر ایک خلیہ Cell قدرتی و طبعی ارتقا سے کسی طرح پیدا ہوگیا ۔ ایک خلیہ والا جان دار اور بتدریج متعدد الخلایا والے جان دار پیدا ہوتے رہے ۔ یہ تمام مراحل بالکل افسانوں ہیں ۔ آج کا انسان جسے سائنسداں Homo Sapience کہتے ہیں تقریبا ڈیڑھ دولاکھ پہلے ظہور میں آیا ۔
قرآن انسان کے طویل ارتقائی عمل سے گزر کر پیدا ہونے کی بات نہیں کرتا بلکہ اللہ قادر مطلق یہ بیان کرتا ہے کہ اس نے ایک بشر آدم کا کالبد خاکی بنایا
جسے " فإذا سويته " اور جب میں اسے اچھی طرح بناچکوں ۔ " ونفخت فيه من روحى " اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں اس طرح پہلا بشر پیدا کیا گیا اور پھر اس سے اس کا جوڑا ایک عورت پیدا کی گئی ۔ قرآن مجید کے اس بیانیہ کی ارتقائی تشریح کیسے کی جاسکتی ہے ۔
نظریہ ارتقا تخلیق آدم و حوا کے بارے میں قرآن کے بیان کو نہیں مانتا ۔ نظریہ ارتقا کسی ما بعد الطبیعاتی تصور کا سرے سے انکار کرتا ہے یعنی اللہ کی ذات کا وجود نہیں ہے ۔ جب اللہ خالق کے وجود کا انکار کردیا تو رسالت اور انبیاء علیہم السلام پر نزول وحی و کتاب خود بخود کالعدم ہوگیا ۔ یہ ہے نظریہ ارتقا کی اصل حقیقت ۔
اس کے باوجود کچھ نام نہاد دانشور اور جدید تعلیم یافتہ لوگ نظریہ ارتقا کو قرآن سے ثابت کرنے کی سعی ناکام کرتے رہتے ہیں ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم کا وجود ہی نہیں ہے ۔ آدم نام کا کوئی فرد بشر ارتقائی تاریخ میں پایا ہی نہیں جاتا ۔
میں نے نظریہ ارتقا کے رد میں اس طرح کے مختلف مضامین اردو اور ا انگریزی میں تحریر کیا ہے ۔ ڈاکٹر Dr Zakir Naik on evolution لکھ کر کلک کریں وہاں مختلف Commen boxes میں ان کو پڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ میرے ما بعد الدکتورہ کا تحقیقی موضوع ہے ۔ یہ میرا مستقل موضوع ہے اور میں اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور جو کچھ ہوسکتا تحریر کرکے یو ٹیوب کے مختلف Comment boxes میں پوسٹ کرتا رہتا ہوں ۔ وما توفیقی الا بالله
ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ۔ بعض سائسندانوں نے صاف اعتراف کیا ہے کہ اس نظریہ کو ہم صرف اس لیے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس نہیں ہے ۔
سر آرتھر کیتھ( Keith ) نے 1953 میں کہا تھا :
" Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable".
(Islamic Thought, Dec.196q)
یعنی ارتقا ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے ، اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ، ہم اس پر صرف اس لیے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے ، گویا سائنسداں نظریہ ارتقا کی صداقت پر صرف اس لیے متفق ہوگئے ہیں کہ اگر وہ اس کو چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انھیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا ۔
لوگوں کے دل میں خوف چھپا ہوا ہے کہ اللہ کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہوجائے گا ،
وہ سائنسداں جو ذہنی اور فکری آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں ، پابندی کا کوئی بھی تصور ان کے لیے وحشتناک ہے "۔
( The Evidence of God, p.130)
غیر محدود آزادی کا تصور عالم انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک اور مہلک ہے ۔ اس تصور آزادی نے مغربی معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے ۔ ارتقا کے تصور نے مسلم ممالک اور دنیا کے مسلم معاشرے میں تباہی پیدا کر رہی ہے ۔
میں ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
علامہ ندوی رحمہ کے عالم عرب سے تعلقات
عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ خوش قسمتی سے آپ کو عربی زبان و ادب کی تعلیم کے لیے
عرب نژاد اساتذہ ملے ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا اور اردو بولنے پر جرمانہ کیا کرتے تھے ۔ ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین میں شمار کیے جاتے تھے ۔ یہ اساتذہ عربی نژاد اور پ ماہر فن تھے ۔
عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی
زبان کے مشہور اہل قلم اور نثر نگاروں سے واقف ہوتا ہے ۔
عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور خصوصیات سے بھی آگاہ تھے ۔
علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ اس کے مصداق تھے :
میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا
وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی .
إن اصل عرب ماہرین اساتذہ کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے آپ کے اندر عربی زبان و
ادب کی وجہ سے اصل تربیت آپ کی طبیعت میں کم عمری ہی میں مزاج کا جزء بن گئیں ۔
عرب ممالک کے سفر سے پہلے ہی عالم عرب سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ وہاں کے علماء و ادباء ، اصحاب قلم اور وہاں کے ارباب فکر و نظر اور ان کے نقطہ نگاہ سے اچھی طرح واقف ہوچکے تھے ۔ سولہ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت سید احمد شہید رحمہ کی حیات و دعوت پر ایک مضمون جو رسالہ ' توحید ' امرتسر میں شائع ہوا تھا ، اس کا ترجمہ کیا ۔ انہوں نے اسے شیخ ہلال الدین مراکشی کو دکھایا ، انہوں نے برائے نام تصحیح کی ۔ انہوں نے اس مضمون کو علامہ رشید رضا کو ' المنار'
میں إشاعت کے لیے بھیج دیا ۔ انہوں نے نہ صرف اسے شائع کیا بلکہ اسے ایک رسالہ کی شکل میں طبع کردیا ۔ علامہ ندوی رحمہ لکھتے ہیں کہ :
" اس سے بڑھ کر ایک ہندی نو عمر طالب علم کا کیا اعزاز ہوسکتا ہے کہ اس کا رسالہ علامہ رشید رضا مصر سے شائع کریں ۔ یہ رسالہ ' ترجمة الإمام السيد احمد بن عرفان الشهيد ' کے عنوان سے چھپ کر آگیا ، اور میری خوشی کی کوئی حد نہ رہی ، میری عمر اس وقت ١٦ سال کی رہی ہوگی ، یہ میری پہلی تصنیف ہے جو مصر سے شائع ہوئی " ۔
ندوة العلماء سے پہلا عربی ماہنامہ ' الضیاء ' نکلا تو آپ اس کے مقالہ نگار تھے اور معاون مدیر بھی مقرر کیے گیے ، جس کی وجہ سے عرب علماء اور ادباء سے خط و کتابت کرتے ،
ان کے مضامین کے ذریعہ ان کی شخصیات اور فکر افکار و نظریات کو عنفوان شباب ہی سے سمجھنے کا موقع ملا ۔
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار منعقدہ فروری ٢٠٠٠ میں پڑھا گیا مقالہ ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
Assalamualaikum.. Is bayan ke shuru mein job naat padi gayi thi .. Wo kaunsi naat hai .. ? Aur kya uska poori recording mil sakti hai ?