Maulana Abul Hasan Ali Nadwi addressing in Lister - England - (Urdu)

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 11 ก.ย. 2024
  • مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی برطانیہ میں کی گئی ایک تقریر
    Maulana Abul Hasan Ali Nadwi addressing in Lister - England - Urdu

ความคิดเห็น • 77

  • @rizwanonly4you
    @rizwanonly4you 4 ปีที่แล้ว +24

    Arab walon ko qadaniyat se bachane me hazrat ki Mehnat thi.
    Allah pak hazrat k darjat ko buland farmay

  • @onlyme1034
    @onlyme1034 5 ปีที่แล้ว +21

    Islam key anmol heere....
    Masha Allah

  • @mnzr4220
    @mnzr4220 4 ปีที่แล้ว +7

    الله تعالى حضرت کے درجات کو بلند فرمائے, آمین یا رب العالمین

  • @jaleelkhanhoshangabadfozya9618
    @jaleelkhanhoshangabadfozya9618 4 ปีที่แล้ว +13

    اللہ تعالیٰ ہمکو بھی حضرت مولانا جیسا عالم دین بنادے۔آمین ثم آمین

  • @AlBalagh100
    @AlBalagh100 5 ปีที่แล้ว +22

    اللہ تعالی حضرت کے درجات کو بلند فرماٸیں

  • @muftiubaidurrahmannadwi2910
    @muftiubaidurrahmannadwi2910 4 ปีที่แล้ว +4

    اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے آمین

  • @ismailmehar75
    @ismailmehar75 5 ปีที่แล้ว +8

    اللہ تعالیٰ مولانا کو جنّت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین

  • @kamilkhan1792
    @kamilkhan1792 5 ปีที่แล้ว +6

    الله حضرت کے دراجات کو بلند فرماے آمین

  • @salmanchaudhari4222
    @salmanchaudhari4222 6 ปีที่แล้ว +13

    اللہ تعالی آپ کے درجات کو بلند فرماٸیں

  • @drismailnadvi5264
    @drismailnadvi5264 5 ปีที่แล้ว +6

    Masha Allah

  • @mohammadatif9620
    @mohammadatif9620 ปีที่แล้ว +1

    اللہ تعالیٰ حضرت والا کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ،

  • @h.a.7484
    @h.a.7484 3 ปีที่แล้ว +3

    Diamond of India

  • @user-pz8jd1ul7d
    @user-pz8jd1ul7d ปีที่แล้ว

    خیلی خوب

  • @mj7425
    @mj7425 5 ปีที่แล้ว +3

    Islam ke hire moti Zawaharat,
    Ahle huq Zindabad,

  • @MAALAM2.0
    @MAALAM2.0 3 ปีที่แล้ว +4

    Ye dislike wale aaye q thy ??
    Allah Hazrat ki darjaat buland kare ...
    Aameen

  • @mohammedilyas6957
    @mohammedilyas6957 3 ปีที่แล้ว +2

    Great Teachings India great

  • @natureclicks3871
    @natureclicks3871 3 ปีที่แล้ว +1

    Lovely Scholar,
    Great efforts for Ummah

  • @RizwanKhan-yu9qe
    @RizwanKhan-yu9qe 10 ปีที่แล้ว +5

    Great Molna Sab .Mashalla

  • @asadiqbal123
    @asadiqbal123 2 ปีที่แล้ว

    May Allah swt forgive our sins and make us to enter Jannah...where in-shaa-Allah we get a chance to meet such Ulemas.. Ameen

  • @behonest1484
    @behonest1484 8 ปีที่แล้ว +11

    Great respected Molana.

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
    عالم انسانیت کے لیے آخری کتاب ہدایت
    رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
    إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
    ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
    قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
    " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
    دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
    ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
    اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
    قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
    ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
    تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
    اگلی آیہ میں فرمایا :
    والذين كفروا و كذبوا باياتنا أولئك أصحاب النار هم فيها خالدون o
    اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائین گے ، وہ آگ میں رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
    رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
    إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
    ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
    قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
    " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
    دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
    ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
    اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
    قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
    ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
    تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
    آدم علیہ السلام کو کرہ ارض پر بھیجتے وقت جو بات کہی گئی کہ زمین پر تم کو یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا بلکہ تم تک ( سے بنی نوع انسان ) میرا پیغام ہدایت پہنچتا رہے گا
    اور تم کو ان ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرتے رہنا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی زندگی میں خوف و حزن سے محفوظ رہوگے ۔
    اس کے مقابلے میں انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ جل شانہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کردے گا ۔
    وہ لوگ گمراہی کے مختلف راستوں پر چلنے والے ہوں گے ۔ ان کا انجام جہنم کی آگ ہے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔۔
    اللہ جل شانہ کی یہ ہدایت انبیاء علیہم السلام لے آتے رہے ۔ اللہ کی یہ ہدایت انسانی تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے رمضان المبارک میں نزول قرآن پر مکمل کردیا گیا
    اور اب پوری عالم انسانیت کے لیے صرف قرآن ہی آخری کتاب ہدایت ہے ۔ یہ نسل انسانی کے لیے ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو " عہد " تعبیر کیا گیا ہے ۔ انسان کا کام خود اپنے لیے کوئی راستہ اختیار کرنا نہیں ہے ، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی آخری کتاب ہدایت کی مکمل پیروی کرے
    اس کے علاوہ ہر صورت غلط ہی نہیں سراسر بغاوت ہے جس کی سزا دائمی جہنم کے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں ۔
    جاری

  • @shahadathussain2047
    @shahadathussain2047 2 ปีที่แล้ว

    Mashallah

  • @kamilkhan1792
    @kamilkhan1792 5 ปีที่แล้ว +1

    ماشاءاللہ

  • @satyamevjayte754
    @satyamevjayte754 5 ปีที่แล้ว +1

    MashAllah

  • @Abualaala1987
    @Abualaala1987 3 ปีที่แล้ว +1

    سیدی سید ابوالحسن علی میاں ندوی رح عالم بے بدل تھے

  • @gazibabashahbaazjarnail3715
    @gazibabashahbaazjarnail3715 5 ปีที่แล้ว +1

    MASHAALLAH

  • @abuhurairaansari591
    @abuhurairaansari591 5 ปีที่แล้ว +1

    Mashaallah

  • @LEARNARABICWITHNADWI
    @LEARNARABICWITHNADWI 4 ปีที่แล้ว

    نور الله مرقد الشيخ أبي الحسن الندوي

  • @azharkhan-ic3tx
    @azharkhan-ic3tx 4 ปีที่แล้ว

    Allah hazrat ki baar baar maghfirat farmaye

  • @SunnahNetwork1997
    @SunnahNetwork1997 5 หลายเดือนก่อน

    আমার চেতনার প্রাণপুরুষ, রাহিমাহুল্লাহ রাহমাতান ওয়াসিয়াহ।

  • @masaallahajiyaurrahman240
    @masaallahajiyaurrahman240 4 ปีที่แล้ว

    Masha.allha

  • @sheikhhassan43
    @sheikhhassan43 4 ปีที่แล้ว +1

    V v nice

  • @ghsawan
    @ghsawan 5 ปีที่แล้ว

    سبحان الله دو عظيم رهنما ايك ساتھ پروفيسر خورشيد احمد اور مولانا علي ميان

  • @EDUOBVIOUS
    @EDUOBVIOUS 4 ปีที่แล้ว +1

    Good

  • @khwajaasif1146
    @khwajaasif1146 4 ปีที่แล้ว

    Superb

  • @honestking3205
    @honestking3205 3 ปีที่แล้ว

    👍🌸🌹🌹🌷

  • @shaizkhanshaiz7491
    @shaizkhanshaiz7491 5 ปีที่แล้ว

    Love

  • @shadabbhaigymwale9593
    @shadabbhaigymwale9593 4 ปีที่แล้ว

    Besaq subhanallah

  • @roohulameenkhan6338
    @roohulameenkhan6338 4 ปีที่แล้ว

    Allah hazrat k darazat ko baland farmaye....

  • @zohebjatt2396
    @zohebjatt2396 2 ปีที่แล้ว +1

    Shaykh Abu Al Hassan An Nadwis best books I've read:
    Saviours of Islamic spirit
    Guidance from the Holy Qur'an
    To learn Arabic:
    Qasasul Nabiyyin
    Qir'atul Rashida

    • @JoBlogz
      @JoBlogz 2 ปีที่แล้ว

      salam, do you have the english translations for Qir'atul Rashida?

    • @zohebjatt2396
      @zohebjatt2396 2 ปีที่แล้ว

      @@JoBlogz I don't think there is a translation for it however on TH-cam if you speak Urdu some brothers have done an excellent Job by breaking it down for us sentence by sentence with I'raab, Tarkeeb and translation. I will send you the link below.

    • @zohebjatt2396
      @zohebjatt2396 2 ปีที่แล้ว

      @@JoBlogz th-cam.com/video/8bWVZvd-eHw/w-d-xo.html
      This link above is in English

    • @zohebjatt2396
      @zohebjatt2396 2 ปีที่แล้ว

      @@JoBlogz th-cam.com/video/KZMNnVlRTrQ/w-d-xo.html
      This one is in Urdu

    • @JoBlogz
      @JoBlogz 2 ปีที่แล้ว +1

      @@zohebjatt2396 thank you

  • @9406741956
    @9406741956 5 ปีที่แล้ว +1

    Allha kash may un se mil sakta allha app ko jannat firdose may aala mukam ata farmaye ameen

  • @abuzargiri1886
    @abuzargiri1886 5 ปีที่แล้ว

    ۔love u so much

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف :
    ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين
    مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا
    سے ہوا ۔
    علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا
    1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔
    علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت اور ید طولی حاصل تھا ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔
    علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔
    مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی
    ' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔
    سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔
    اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
    اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔
    امہ مسلمہ کا مقصد وجود :
    ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔
    كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر
    ( آل عمران : ١١٠)
    تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔
    امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔
    الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١)
    یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
    اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order )
    پیش کیا گیا ۔
    اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔
    ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے
    تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی
    علامہ اقبال رحمہ
    اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہے ۔
    لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی ، اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔
    علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    علامہ ندوی رحمہ اور عالم عرب
    میرا ساز اگرچہ ستم رسیدہ ہائے عجم رہا
    وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی
    علامہ ندوی رحمہ یہ شعر گنگنایا کرتے تھے اور یقینا وہ اس کے مصداق تھے ۔
    عربی زبان و ادب سے علامہ ندوی رحمہ کا تعلق مادری زبان کی طرح تھا ۔ انہوں نے عربی کی ابتدائی کتابیں اور نظم و نثر کا معتد بہ حصہ شیخ خلیل عرب سے پڑھا ۔ یہ اہل زبان بھی تھے اور صاحب ذوق بھی ، انہوں نے چند ابتدائی کتابیں پڑھانے کے بعد عربی میں گفتگو کا پابند کردیا تھا ۔
    ادبیات کی اعلی تعلیم علامہ تقی الدین ہلالی سے حاصل کی جو عربی زبان و ادب کے صف اول کے ماہرین اور ادباء میں شمار کیے جاتے تھے ۔ عربی نژاد اور ماہر فن تھے ۔
    عالم عرب خصوصا مصر و شام کے ادباء و اہل قلم ، صف اول کے عرب علماء اسلام اور اہل فکر و نظر سے علامہ ندوی رحمہ کی واقفیت اور تعلق ایسا رہا جیسے کوئی اہل زبان اپنی
    زبان کے مشہور اہل قلم اور نثر نگاروں سے واقف ہوتا ہے ۔
    عالم عرب کی علمی تحریکوں ، سیاسی رجحانات اور وہاں کی بڑی بڑی شخصیتوں سے اچھی طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کے امتیازی اوصاف اور خصوصیات سے بھی آگاہ تھے ۔
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ پر علیگڑہ مسلم یونیورسیٹی کے قومی سیمینار میں پڑھا گیا مقالہ
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Islamic Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @techtravels401
    @techtravels401 4 ปีที่แล้ว

    MAULANA ILM KA SAMANDER THEY ALLAH HAMEY MAULANA SEY FEZ ATAA FARMEIN AMEEN

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 3 ปีที่แล้ว +1

    عالم اسلام کی متفق علیہ شخصیت
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ
    علامہ یوسف قرضاوی جو مصری ہیں اور فی الحال قطر کے شہری ہین ، دوحہ مین اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ :
    " اگر عالم اسلام کسی شخصیت پر متفق ہوسکتا ہے تو وہ شیخ ابوالحسن علی ندوی شخصیت ہے "۔ اگر اس قول کی روشنی مین علامہ ندوی رحمہ عالم اسلام کے لیے ایک خاص نعمت اور رحمت تھی ۔ ہندستان میں بھی جب مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوجاتا تو وہی اس کو ختم کرنے کے لیے انہی کی طرف رجوع کیاجاتا تھا ۔ ان کا فیض تھا کہ کسی بحران کے وقت انہی کی ذات کام اتی
    اج ہند کی امہ مسلمہ اپنی تاریخ کے سخت دور سے گزر رہی ہے ۔ ایسی حالت میں ہمین ان کی یاد آتی ہے ۔
    عالم اسلام مین ایک غیر متنازعہ سخصیت قرار دیا جانا بہت بڑی بات ہے ۔ عالم اسلام
    گونا گوں رنگون کا خوبصورت نقشہ ہے ۔ ان رنگون میں عرب و عجم دو اہم رنگ ہین ۔ ان مین ہر ایک کی اپنی خصوصیت اور منفرد شان ہے ۔ عالم عرب مین مصر کو اس کی قدیم تاریخ اور اسلامی علوم و ثقافت میں مرکزی مقام اور منصب قیادت حاصل ہے ۔ عجم کے مختلف رنگون میں ترکی ، ملائشیا اور پاکستان وغیرہ کی اپنی خصوصیت اور انفرادیت ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام کی مختلف قومون کا کسی ایک شخصیت پر متفق ہونا بہت نازک مسئلہ یے ۔
    ان گونا گوں رنگوں کے عالم اسلام میں علامہ یوسف قرضاوی یہ کہنا کہ شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی ذات ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو کہ عالم اسلام کے سیاستداں
    علماء اور مفکرین تمام اختلافات کے باوجود ان کی ذات پر متفق ہوسکتے ہین ۔
    یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
    ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہان
    علامہ یوسف قرضاوی مصری ہیں ، اس پر عالم اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی الازہر ما رنگ بھی چڑھا ہوا ہے ۔ انہوں نے اس سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ہے ۔ وہ عربی زبان و ادب کے ماہر اور شاعر بھی ہین ۔ انہوں نے متعدد موضوعات پر عربی مین کتابین تصنیف کی ہین ۔ ان کی مشہور کتاب ' فقہ الزکوة ' پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا ۔
    اپنی جوشیلی خطابت مین مشہور اور امہ مسلمہ کے لیے درد مند دل رکھتے ہیں ۔ عالمی سطح کے مشہور عالم دین اور مفکر اسلام
    اتنی عظیم شخصیت کا یہ کہنا کہ :
    " شیخ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کی شخصیت ایسی ہے کہ عالم اسلام ان پر متفق ہوسکتا ہے " یہ ایک ایسا مقام و مرتبہ ہے جسے اللہ جل شانہ کا خاص فضل ہی کہا جاسکتا ہے ۔
    عالم اسلام مین غیر متنازعہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ شخص جامع صفات ہو ، وہ مختلف علوم پر حاوی ہو اور اس کے اندر علمی تبحر ہو ، عصر حاضر کے تقاضون سے باخبر اور ، اس کی فکر عالی اور عالمی ہو
    وہ مقناطیسی شخصیت کا حامل ہو ۔
    عالم اسلام مین وہ ہر اعتبار سے معتبر اور مستند ہو ۔
    کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست
    علامہ ندوی رحمہ ہندستان کے معروف و مشہور دینی اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ اس خاندان میں سید احمد شہید رحمہ جیسے ولی اللہ اور مجاہد پیدا ہوئے ۔ ڈاکٹر سید محمود مرحوم کو حضرت سید احمد شہید رحمہ سے بہت محبت و عقیدت
    تھی ۔ وہ ان کو ہندستان کی جدو جہد آزادی
    کا اولین داعی اور قائد سمجھتے تھے ۔ علامہ ندوی رحمہ کی سب سے پہلی اردو تصنیف سیرت سید احمد شہید رحمہ تھی ۔ اس خاندان کے ایک بڑے بزرگ اور ولی اللہ شاہ علم اللہ ہیں ۔ رائے بریلی اس خاندان کا اصل وطن ہے ۔ دائرہ شاہ علم اللہ کے نام سے موسوم ہے ۔ علامہ ندوی رحمہ اپنی بہت سی تصانیف یہیں مکمل کیں ۔
    آپ کے والد حکیم عبد الحی حسنی مرحوم ایک جلیل القدیر عالم دین ، عربی اور اردو زبان و ادب کے ادیب تھے ۔ عربی زبان میں ان کی تالیف ' نزھہ الخواطر ' آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ یہ علماء ہند اور مشاہیر کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں پر مشتمل ہے ۔ یہ ان کا عظیم علمی کارنامہ ہے ۔
    جلیل القدر عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ تحریر کرتے ہیں کہ :
    " نزھہ الخواطر' کی قدر و قیمت مجھے اس کتاب ( مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت) لکھنے کے وقت جتنی ظاہر ہوئی اس سے پہلی نہیں ہوئی تھی ۔ اللہ کے اس مخلص بندے نے کمال کردیاہے ۔ سمندروں کو کھنگال گئے ہیں لیکن پتہ بھی نہ چلنے دیا ۔ خدا کرے ان کی اس محنت سے دنیا کو استفادہ کا موقع مل جائے ۔ایک انقلابی کام کرکے وہ چلے گئے ہیں "۔
    آج ان کی یہ شاہکار تصنیف جو ڈر حقیقت ایک انسائیکلوپیڈیا ہے عالم عرب سے شائع ہوگئی ہے ۔ عرب علماء ، محققین اور مورخین نے اس کتاب دلپذیر کو بہت پسند کیا اور اس کی تحسین کی ۔ آپ دارالعلوم ندوة العلماء کے ناظم تھے ۔ ان کے بعد علامہ ندوی رحمہ کے
    بڑے بھائی ڈاکٹر عبد العلی مرحوم ندوی کے ناظم ہوئے ۔ اس خاندان کی تاریخ سے بر صغیر
    کے اہل علم و فضل اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس لیے علامہ ندوی رحمہ بر صغیر خصوصا ہند بڑی عزت اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ان کی تعمیر شخصیت کا خشت اول ۔
    دارالعلوم کے سب سے نمایاں تعلیم یافتہ اور فاضل بلکہ اس کے لیے سرمایہ افتخار و نازش
    سید سلیمان ندوی رحمہ تھے ۔ سید صاحب کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں اور ممتاز پہلو طبقہ علماء میں ان کی جامعیت اور علوم و مضامین کا تنوع تھا ۔
    علامہ ندوی رحمہ ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ :
    " ان کی ذات اور ان کی علمی زندگی میں قدیم و جدید سے واقفیت ، علمی تبحر اور ادبی ذوق ، نقاد و مورخ کی حقیقت پسندی اور سنجیدگی ، ادباء اور انشاء پروازوں کی شگفتگی اور حلاوت ، فکر و نظر کا لوچ اور مطالعہ کی وسعت اس طرح جمع ہوگئی تھی جو شاذ و نادر جمع ہوتی ہے "۔
    " سید صاحب نے نصف صدی سے زیادہ علماء کی اس قدیم جامعیت کو زندہ و نمایاں رکھا اور دینی و علمی و ادبی حقلوں میں بیک وقت نہ صرف باریاب بلکہ اکثر صدر نشین رہے ۔ ان کی زندگی اور مختلف ذمہ داریاں جو انہوں نے مختلف وقتوں میں سنبھالیں خود ان کی جامعیت کا ثبوت ہیں " ۔
    مجلس خلافت سلطان ابن مسعود کی دعوت پر مؤتمر اسلامی میں شرکت اور مسلمانان ہند کی ترجمانی کے لیے ایک وفد تشکیل کرتی ہے تو اس کی قیادت کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص نظر نہیں آیا جو عالم اسلام کے اس نمائندہ اور منتخب مجمع میں عربی میں اظہار خیال کی قدرت رکھتا ہو اور مسلمانان ہند کی دینی و علمی عظمت کا نقش قائم کرسکے "۔
    جارى
    ڈاکٹرمحمد لئیق ندوی قاسمی

  • @mdamanullahqasmi8141
    @mdamanullahqasmi8141 4 ปีที่แล้ว

    اللہ آپکی مغفرت فرمائے

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    ۔بقیہ :
    علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
    " اس وقت مسلمان اہل قلم کے بحث و فکر کا عام موضوع اور مؤرخین و مصنفین کے غور و فکر اور بحث و تحقیق کا میدان یہ تھا کہ دنیا میں پیش آنے والے واقعات ، عظیم جنگوں ، سلطنتوں کے سقوط ، یوروپ کی نشاة ثانیہ ، صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج سے مسلمانوں پر کیا اثر پڑا اور انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ گویا مسلمان تاریخ کا کوئی "عامل " نہیں بلکہ " معمول " ہے اور اثر انگیز واقعات اور واقعات و انقلاب زمانہ کا تختہ مشق ہیں ۔ اردو محاورہ کے مطابق وہ خربوزہ کی طرح ہیں کہ وہ چھری پر گرے یا چھری اس پر گرے نقصان بہر حال خربوزہ کا ہوگا ۔
    " میرے علم میں ابھی تک کسی نے اس نظریہ کو پلٹ کر اس طرح سے سوچنے اور لکھنے کی منظم علمی اور تاریخی انداز پر کوشش نہیں کی کہ مسلمان تاریخ کا ایک ایکٹر ( Actor) نہیں ، بلکہ ایک طاقتور تاریخی بلکہ تاریخ ساز عامل کی حیثیت رکھتے ہیں . وہ نقال و مقلد نہیں ہیں ۔ اہل مغرب کی سازش اور پروپیگنڈہ
    سے متآثر ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوکر دین کے مسلمات و حقائق کی تاویل کرنے لگے
    جو باتیں یوروپ کے پیمانہ اخلاق کے مطابق
    نظر نہیں آئیں ان کو اسلام کے خلاف اور منافی کہنے لگے ۔
    مغرب نے یہ اپنی مستقل پالیسی بنالی کہ امہ مسلمہ ان کی دشمن ہے ۔ دنیا میں ہزارو لاکھوں مذاہب اور تہذیبیں ان میں سے کسی کے خلاف عناد و دشمنی ہی نہیں بلکہ بحث و تحقیق کا ایک بہت بڑا اور وسیع باب کھول دیا
    اور اس کے ذریعہ اسلام کے خلاف خوب زہر افشانی کی گئی ۔
    ایسی عالمی صورت حال میں علامہ ندوی رحمہ ایک جرات ایمانی کے ساتھ عالم عرب کے سامنے اپنی یہ کتاب ' ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ' پیش کیا ۔
    علامہ ندوی رحمہ کے نزدیک عصر حاضر کی جاہلیت کی لائی ہوئی مشکلات اور مسائل کا حل صرف یہی ہے کہ عالم انسانیت کی قیادت ایک بار پھر اسلام کے ہاتھوں میں آجائے ، اس لیے وہ اپنی اس کتاب میں مسلمانوں اور مسلم ملکوں کو نصیحت کی کہ وہ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوکر ایک بار پھر عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لیں ۔ صحیح منزل کی طرف واپسی ، امید اور نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہ یہی ہے کہ مسلمان پھر منصب قیادت پر فائز ہوں اور دنیا کی رہنمائی إسلام کے حصہ میں آئے ۔
    علامہ ندوی رحمہ اس کتاب میں مسلمانوں کے زوال کی المناک داستان بیان کی ہے ، اس کے تدریجی ارتقا اور حقیقی اسباب پر روشنی ڈالی ہے ، پھر ترکوں کے میدان قیادت میں آنے اور عالم اسلام کے سنبھلنے کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد خود ترکوں میں انحطاط و تنزل شروع ہونے ، اس کے اسباب اور آخر میں اس کے نقطہ عروج میں پہنچ جانے ، اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
    اس کے بعد کتاب کا وہ اہم باب شروع ہوتا ہے ، جس میں یوروپ کے منصب قیادت پر آنے اور دنیا کی زمام کار ہاتھ میں لینے کی تاریخ اور اس کے طبعی اور مادری اسباب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا ہے کہ اس نے کیوں اور کس طرح عیسائیت سے انحراف کیا اور خالص مادیت کے راستہ پر چل پڑا ، اس کے تاریخی اسباب و محرکات کا ذکر کیا ہے ۔
    یوروپ میں کلیسا اور سائنس کی آویزش ، دین و دنیا کی علیحدگی ، دونوں کے درمیان رقابت اور یوروپ کے اخلاقی زوال اور نئے مادی تصورات و اقدار جو خالص مادی نظریہ ارتقا پر مبنی تھے جس نے پورے انسانی علوم و فنون کو زہر آلود اور اخلاق و روحانیت سے بالکل عاری کردیا ہے ۔ یہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تاریخ کا بڑا المناک اور سیاہ باب ہے ۔
    اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اس کتاب کو لکھے ہوئے 71 سال گزر چکے ہیں ۔ ہمارے سامنے عالم اسلام ، عالم عرب اور مغرب کے احوال بالکل واضح ہیں کہ عالم انسانیت اس وقت کہاں پہنچ چکی ہے اور امت مسلمہ کی حالت کتنی ناگفتہ بہ ہے ۔ عالم عرب جو علامہ ندوی رحمہ کی دعوت کی جولانگاہ اور ان کی ارزوؤں اور تمناؤں کا مرکز تھا ، آج کس حد تک اسلام سے منحرف ہوچکا ہے اور اس کی قدر و قیمت کا منیر ہوکر مغرب کی جدید جاہلیت کے آغوش میں جا چکا ہے ۔
    جارى
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قآسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @madhanbhat9705
    @madhanbhat9705 3 ปีที่แล้ว

    Who is on the right side of Maulana Sahab RA. Is he Professor Khurshid.

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
    ہندؤوں کی مقدس کتابوں میں
    " وشنو ياس " عبدالله ، " سومتى " آمنه "
    محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کا نام عبد اللہ اور ان کی ماں کا نام سومتی ( آمنہ ) تھا ۔
    اسی طرح بہت سی باتوں کا ذکر ہندؤوں کی مذہبی کتابوں میں آیا ہے ۔ یہ باتیں پیش گوئیاں ہیں کہ ایک آخری نبی اور رسول ساری ا نسانیت کی رہنمائی اور راہ ہدایت کے لیے آئے گا اور سارے انسانوں کے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہوگا ۔
    ہندؤوں کی کتاب میں لکھا ہے کہ : " ان پر پہلی وحی ایک غار میں نازل ہوگی "
    محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی ایک غار میں نازل ہوئی تھی ۔
    ۔
    " کلکی اوتار " در حقیقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہین ۔ اس مین کوئی شک و شبہ نہین ہے ۔
    " کلکی اوتار گھوڑے پر سوار ہوکر تیر اور تلوار سے اپنے دشمنوں سے جنگ کرے گا " ۔
    یہ بات بھی پوری طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے ۔ ہندو کلکی اوتار کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کیا اج اگر کلکی اوتار آتے ہین تو وہ اپنے دشمنوں سے تیر اور تلوار سے جنگ کرین گے؟!
    آج گھوڑے پر سوار ہوکر تیر اور تلوار سے جنگ کا زمانہ نہین ہے ۔ یہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے ۔ آج تو جدید ترین لڑاکو طیارے ، بندوقوں اور ٹینکوں کا زمانہ ہے ۔ آج دنیا میں جنگیں ہورہی ہیں اور دنیا اچھی طرح جا تی ہے کہ آج کے دور میں جنگیں کس طرح لڑی جاتی ہیں ۔
    در حقیقت کلکی اوتار ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ساتویں صدی میں آکر اور اپنے دشمنوں سے گھوڑے پر سوار ہوکر تیر و تلوار سے جنگ کرکے اس دنیا سے جا چکے ہین ۔
    انہوں نے اللہ کے دین کو جزیرہ العرب کے بت پرستوں تک پہنچایا اور اس مقصد کے لیے بڑی تکلیفیں اٹھائیں ، یہاں تک کہ پورے جزیرہ العرب کے لوگ اسلام لے آئے ۔ کلکی اوتار اور نراشنس جن کا ذکر ہندؤوں کی مقدس کتابوں میں آیا ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہین ۔
    یہ باتیں ویدہ میں بیان کی گئی ہیں ۔ کھنڈتری ، بھوش پرانا اور دوسرے ابواب میں ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں تفصیل ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لکچرس ( Lectures ) میں حوالوں کے ساتھ مل جائیں گی ۔۔ ہمارے ہندو بھائی اور بہنیں ان کے لکچرس سن چکے ہیں اور ان سے واقف ہیں ۔
    بنارس ہندو یونیورسیٹی کے ایک سنسکرت کے پروفیسر نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھ چکے ہین ۔ انہوں نے بہت تفصیل سے حوالوں کے ساتھ لکھا ہے کہ ہماری مذہبی کتابوں میں
    جن باتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری اترتی ہیں ۔
    کلکی اوتار اور نراشنس در حقیقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کوئی اور نہیں ۔
    ہندؤوں کو چاہیے کہ نراشنس اور کلکی اوتار پر ایمان لائیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزاریں ۔ یہی بات اس سنسکرت کے پروفیسر نے ہندؤوں کو کہا ہے ۔
    اب ہندوون کی نجات اسی مین ہے کہ اپنی قدیم کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو مانیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں ۔ اسی مین ان کی فلاح اور کامیابی ہے ۔ اس دنیاوی زندگی میں بھی اور موت کے بعد آخرت کی دائمی اور ابدی زندگی مین بھی ۔
    ہندؤوں کے علماء ( پنڈتوں ) نے انہیں ویدھ اور ان باتوں کو کبھی نہیں بتایا اور نا آج بتاتے ہیں ۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو انکار اور طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں ۔
    ایک ہندو نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نایک کے لکچرس سے ہمیں اپنے مذہب کی وہ باتیں معلوم ہوئیں جو نہیں جانتے تھے ۔
    ہندؤوں کی مذہبی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ اور ٹحقیق بھی ضروری ہے ۔ یہ کام پنڈت بشیر الدین شاہجہانپوری ، ابو محمد رام نگری کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کیا اور ہندستان کے عوام تک پہنچایا ۔
    یہ ایک مختصر تحریر ہے جن میں صرف چند باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔
    اللہ جل شانہ ہنندؤوں کو توفیق عطا فرمائے
    کہ وہ اللہ اور اس کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم( جن کا وہ انتظار کر رہے ہیں ) ایمان لائیں اور جنت میں جانے کے لیے عمل کریں ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @mubashirgulmubashirgul6564
    @mubashirgulmubashirgul6564 6 ปีที่แล้ว

    Khurd nay kah bi diya laillaha too Kay hasil
    Dil Wa nigah muslman nahi too kuch bi nahi(allama Iqbal)

  • @qasimshah4036
    @qasimshah4036 6 ปีที่แล้ว

    R

  • @kamilahmedshaikh7505
    @kamilahmedshaikh7505 5 ปีที่แล้ว +1

    Is it hazrat molana shafi usmani sahab? In black dress....sencond from left.

  • @mohdburhan6600
    @mohdburhan6600 5 ปีที่แล้ว +3

    Masha Allah

  • @honestking3205
    @honestking3205 3 ปีที่แล้ว

    👍🌸🌹🌹🌷

  • @9406741956
    @9406741956 5 ปีที่แล้ว

    Allha kash may un se mil sakta allha app ko jannat firdose may aala mukam ata farmaye ameen

  • @AbdulAhad-qg6qy
    @AbdulAhad-qg6qy 4 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah

  • @abuzargiri1886
    @abuzargiri1886 5 ปีที่แล้ว +1

    Mash Allah

  • @ahmedmuqtar6793
    @ahmedmuqtar6793 6 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah

  • @MuftiArifQasmiGdg84
    @MuftiArifQasmiGdg84 5 ปีที่แล้ว

    Masha allah