After listening the splendid lecture I reach to a conclusion that our sunni belief is really true thank you Faruq Rizwi Sahab God bless you and have a fine physique always
سوال: ہمارے یہاں بعض مساجد میں نماز کی جماعت کا وقت ہو جانے پر لوگ (مُقتدی) گھڑی دیکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور صف بندی کر لیتے ہیں، حالانکہ پچھلی صفوں میں امام مسجد پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے، اُس کے بیٹھے ہوئے بھی لوگ اسی طرح کرتے ہیں اور کبھی کبھار امام مسجد ابھی مسجد کے مین ہال میں داخل نہیں ہوتا کہ لوگ صفیں بنا کر پیچھے مُڑ مُڑ کر اُس کا یعنی امام کا انتظار کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات مزید انتظار کئے بغیر کوئی بھی شخص تکبیر (اقامت) کہہ دیتا ہے اور مقتدیوں میں سے کسی کو امام بنا یا جاتا ہے اور نماز شروع کر دی جاتی ہے، پھر تھوڑی دیر بعد امام مقتدی کی حیثیت میں شامل ہوتا ہے۔ کیا اس طرح کے معاملات صحیح ہیں کہ مقتدی جب چاہے امامت کے لیے کھڑا ہو جائے یا پھر شرعی حدود و قیود ہیں؟ الجواب: اس سلسلے میں راجح یہی ہے کہ مقتدی صفوں میں بیٹھ کر امام کا انتظار کریں اور اضطراب و بے چینی کا مظاہرہ نہ کریں۔ امام مسجد میں موجود ہو یا باہر سے تشریف لائے جب تک وہ اپنی جائے امامت کی طرف چل نہ دے مقتدیوں کو صف میں بیٹھے رہنا چاہیے۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’کَانَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ ﷺ یُؤَذِّنُ، ثُمَّ یُمْھِلُ فَإِذَا رَأَی النَّبِيَّ ﷺ قَدْ أَقْبَلَ أَخَذَ فِی الْإِقَامَۃِ‘‘ نبی ﷺ کا مؤذن اذان کہتا، پھر انتظار کرتا۔ جب وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتا کہ آپ تشریف لے آئے ہیں تو اقامت کہنا شروع کر دیتا۔ (صحیح ابن خزیمۃ: 1525، وسندہ حسن، نیز دیکھئے صحیح مسلم: 606) سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ وَ عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ)) ’’جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم مجھے دیکھے بغیر کھڑے نہ ہونا اور سکینت کو لازم کر لو۔‘‘ (صحیح بخاري: 638) امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد فرمایا: ’’وَقَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِّنْ أَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَ غَیْرِھِمْ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘ نبی کریم ﷺ کے صحابہ و دیگر اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ مکروہ جانا کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔ (سنن الترمذي: 592) امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں: ’’بَابُ النَّھْيِ عَنْ قِیَامِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ قَبْلَ رُؤْیَتِھِمْ إِمَامَھُمْ‘‘ ترجمہ: لوگوں کا اپنے امام کو دیکھنے سے پہلے نماز کے لیے کھڑا ہونا ممنوع ہے۔ (صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1526) امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: ’’وَ قَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَھْلِ الْعِلْمِ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الْإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘ اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ ناپسند کیا ہے کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔ (شرح السنۃ 2/ 89) امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اگر امام مسجد میں موجود ہے، پھر جب وہ (جائے نماز کی طرف) کھڑا ہو تو لوگ بھی (صفیں بنانے کیلئے) کھڑے ہو جائیں۔ لیکن اگر (صورتِ حال یہ ہے کہ) وہ اس کے باہر سے آنے کے منتظر ہیں تو جب تک امام کو (جائے نماز کی طرف آتے ہوئے) دیکھ نہ لیں، کھڑے نہ ہوں۔‘‘ (الاوسط 4/ 188) ابو خالد الوالبی کا بیان ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف آئے اور اقامت کہہ دی گئی (جبکہ) ہم ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مَالِی أَرَاکُمْ سَامِدِیْنَ؟‘‘ کیا بات ہے کہ میں تمھیں لہو و لعب میں دیکھ رہا ہوں؟ (شرح مشکل الآثار 10/ 395 واللفظ لہ، الصلاۃ لأبي نعیم: 292 وسندہ حسن) مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام کے انتظار میں کھڑے رہنا درست نہیں اور نیکی کے امور میں اضطراب و بے چینی کسی مسلمان کو لائق نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں بیٹھ کر انتظار کیا کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءِ الآخِرَۃَ حَتَّی تَخْفِقَ رُءُ وْسُھُمْ‘‘ اصحاب رسول ﷺ نماز عشاء کا انتظار کرتے رہتے حتیٰ کہ ان کے سر (اونگنے کی وجہ سے) جھک جاتے تھے۔ (صحیح، سنن أبي داؤد: 200) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لاَ یُرَدُّ الدُّعَاءُ بَیْنَ الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَۃِ)) ’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا رَد نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح، سنن أبي داؤد: 521) جب مقتدی حضرات اذان اور اقامت کا درمیانی وقت ذکر و اذکار اور دعا کرنے میں گزاریں گے تو انھیں احساس ہی نہیں ہو گا کہ کب امام آیا اور اقامت کہہ دی گئی! اس پر عمل پیرا ہونے سے ہر قسم کی بے چینی اور اضطراب ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ مسئلے کا دوسرا پہلو: بعض احادیث میں امام دیکھنے سے پہلے صفیں بنانے کا ذکر بھی ہے۔ مثلاً سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَقُمْنَا فَعَدَّلْنَا الصُّفُوْفَ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ‘‘ اقامت کہی گئی تو ہم نے کھڑے ہو کر صفوں کو برابر کیا، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائیں۔ (صحیح مسلم: 605، صحیح بخاري: 275، سنن أبي داؤد: 235) اس حدیث کی توضیح و توجیہ میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں: 1- امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ھَذَا مَحْمُوْلٌ عَلٰی أَنَّہُ کَانَ فِيْ بَعْضِ الأَوْقَاتِ وَ کَانَ الْغَالِبُ مَا جَاءَ فِيْ حَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ‘‘ یعنی یہ عمل بعض اوقات پر محمول ہے ورنہ اکثر عمل حدیث جابر ہی پرہے۔ (کتاب الأحکام الکبیر 265/2) 2- بعض علماء کے نزدیک یہ عمل حدیث: ((فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ)) سے پہلے کا ہے۔ 3- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’فِيْ حَدِیْثِ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ کَانَ سَبَبُ النَّھْيِ عَنْ ذَلِکَ‘‘ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کھڑے ہو جاتے تھے تو یہی امر اس سے ممانعت کا باعث ہوا۔ (فتح الباري 2/ 463) ان تصریحات سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ اب حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بجائے حدیث ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پر عمل کیا جائے گا۔ اگر کسی بشری تقاضے کی وجہ سے امام کے آنے میں کچھ تاخیر ہو تو فوراً کسی دوسرے کو امامت کے لیے کھڑا کرنا جائز نہیں بلکہ اس کا انتظار کرنا چاہیے، جیسا کہ گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام، نبی کریم ﷺ کا انتظار کرتے تھے۔ اگر زیادہ دیر ہو جائے یا کنفرم ہو جائے کہ امام صاحب نہیں پہنچ سکتے تو نائب وغیرہ نماز پڑھا سکتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جب امام (زیادہ) تاخیر کر دے تو اس کا انتظار نہ کرنے کی اجازت اور مقتدیوں کا کسی ایک مقتدی کو امامت کے لیے حکم دینا (جائز ہے)‘‘ (صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1514)
Khan SAHAB hadees mai kuch bhi add nahi karen ‘ don’t give wrong information’ I have already checked hadees number 1266 sahi Muslim and sahi bokhari 611 ‘ please scare with Allah ‘
Ma Shaa Allah Asalamuleyekum Rahmtullah he wa Barkatahu Hazrat jee Aap deene Islam ke liye bhut hi acche Andaz main Kam kar rahe hai Alhamdulillah JajakAllaho khair Hazrat
Sahi kaha jo sunni karenge ye nahin karenge jase TAZIYA DARI our QABRON PAR TAZEEMI SAJDA our CHADAR CHRANA our TEEJE ME AMEERON KO KHILANA (jo khud na jayaz our bidat likhte hain)wagaira wagaira
سوال: ہمارے یہاں بعض مساجد میں نماز کی جماعت کا وقت ہو جانے پر لوگ (مُقتدی) گھڑی دیکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور صف بندی کر لیتے ہیں، حالانکہ پچھلی صفوں میں امام مسجد پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے، اُس کے بیٹھے ہوئے بھی لوگ اسی طرح کرتے ہیں اور کبھی کبھار امام مسجد ابھی مسجد کے مین ہال میں داخل نہیں ہوتا کہ لوگ صفیں بنا کر پیچھے مُڑ مُڑ کر اُس کا یعنی امام کا انتظار کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات مزید انتظار کئے بغیر کوئی بھی شخص تکبیر (اقامت) کہہ دیتا ہے اور مقتدیوں میں سے کسی کو امام بنا یا جاتا ہے اور نماز شروع کر دی جاتی ہے، پھر تھوڑی دیر بعد امام مقتدی کی حیثیت میں شامل ہوتا ہے۔ کیا اس طرح کے معاملات صحیح ہیں کہ مقتدی جب چاہے امامت کے لیے کھڑا ہو جائے یا پھر شرعی حدود و قیود ہیں؟ الجواب: اس سلسلے میں راجح یہی ہے کہ مقتدی صفوں میں بیٹھ کر امام کا انتظار کریں اور اضطراب و بے چینی کا مظاہرہ نہ کریں۔ امام مسجد میں موجود ہو یا باہر سے تشریف لائے جب تک وہ اپنی جائے امامت کی طرف چل نہ دے مقتدیوں کو صف میں بیٹھے رہنا چاہیے۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ’’کَانَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ ﷺ یُؤَذِّنُ، ثُمَّ یُمْھِلُ فَإِذَا رَأَی النَّبِيَّ ﷺ قَدْ أَقْبَلَ أَخَذَ فِی الْإِقَامَۃِ‘‘ نبی ﷺ کا مؤذن اذان کہتا، پھر انتظار کرتا۔ جب وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتا کہ آپ تشریف لے آئے ہیں تو اقامت کہنا شروع کر دیتا۔ (صحیح ابن خزیمۃ: 1525، وسندہ حسن، نیز دیکھئے صحیح مسلم: 606) سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ وَ عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ)) ’’جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم مجھے دیکھے بغیر کھڑے نہ ہونا اور سکینت کو لازم کر لو۔‘‘ (صحیح بخاري: 638) امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد فرمایا: ’’وَقَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِّنْ أَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَ غَیْرِھِمْ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘ نبی کریم ﷺ کے صحابہ و دیگر اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ مکروہ جانا کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔ (سنن الترمذي: 592) امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں: ’’بَابُ النَّھْيِ عَنْ قِیَامِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ قَبْلَ رُؤْیَتِھِمْ إِمَامَھُمْ‘‘ ترجمہ: لوگوں کا اپنے امام کو دیکھنے سے پہلے نماز کے لیے کھڑا ہونا ممنوع ہے۔ (صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1526) امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: ’’وَ قَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَھْلِ الْعِلْمِ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الْإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘ اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ ناپسند کیا ہے کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔ (شرح السنۃ 2/ 89) امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اگر امام مسجد میں موجود ہے، پھر جب وہ (جائے نماز کی طرف) کھڑا ہو تو لوگ بھی (صفیں بنانے کیلئے) کھڑے ہو جائیں۔ لیکن اگر (صورتِ حال یہ ہے کہ) وہ اس کے باہر سے آنے کے منتظر ہیں تو جب تک امام کو (جائے نماز کی طرف آتے ہوئے) دیکھ نہ لیں، کھڑے نہ ہوں۔‘‘ (الاوسط 4/ 188) ابو خالد الوالبی کا بیان ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف آئے اور اقامت کہہ دی گئی (جبکہ) ہم ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’مَالِی أَرَاکُمْ سَامِدِیْنَ؟‘‘ کیا بات ہے کہ میں تمھیں لہو و لعب میں دیکھ رہا ہوں؟ (شرح مشکل الآثار 10/ 395 واللفظ لہ، الصلاۃ لأبي نعیم: 292 وسندہ حسن) مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام کے انتظار میں کھڑے رہنا درست نہیں اور نیکی کے امور میں اضطراب و بے چینی کسی مسلمان کو لائق نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں بیٹھ کر انتظار کیا کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءِ الآخِرَۃَ حَتَّی تَخْفِقَ رُءُ وْسُھُمْ‘‘ اصحاب رسول ﷺ نماز عشاء کا انتظار کرتے رہتے حتیٰ کہ ان کے سر (اونگنے کی وجہ سے) جھک جاتے تھے۔ (صحیح، سنن أبي داؤد: 200) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لاَ یُرَدُّ الدُّعَاءُ بَیْنَ الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَۃِ)) ’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا رَد نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح، سنن أبي داؤد: 521) جب مقتدی حضرات اذان اور اقامت کا درمیانی وقت ذکر و اذکار اور دعا کرنے میں گزاریں گے تو انھیں احساس ہی نہیں ہو گا کہ کب امام آیا اور اقامت کہہ دی گئی! اس پر عمل پیرا ہونے سے ہر قسم کی بے چینی اور اضطراب ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ مسئلے کا دوسرا پہلو: بعض احادیث میں امام دیکھنے سے پہلے صفیں بنانے کا ذکر بھی ہے۔ مثلاً سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَقُمْنَا فَعَدَّلْنَا الصُّفُوْفَ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ‘‘ اقامت کہی گئی تو ہم نے کھڑے ہو کر صفوں کو برابر کیا، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائیں۔ (صحیح مسلم: 605، صحیح بخاري: 275، سنن أبي داؤد: 235) اس حدیث کی توضیح و توجیہ میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں: 1- امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ھَذَا مَحْمُوْلٌ عَلٰی أَنَّہُ کَانَ فِيْ بَعْضِ الأَوْقَاتِ وَ کَانَ الْغَالِبُ مَا جَاءَ فِيْ حَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ‘‘ یعنی یہ عمل بعض اوقات پر محمول ہے ورنہ اکثر عمل حدیث جابر ہی پرہے۔ (کتاب الأحکام الکبیر 265/2) 2- بعض علماء کے نزدیک یہ عمل حدیث: ((فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ)) سے پہلے کا ہے۔ 3- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’فِيْ حَدِیْثِ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ کَانَ سَبَبُ النَّھْيِ عَنْ ذَلِکَ‘‘ یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کھڑے ہو جاتے تھے تو یہی امر اس سے ممانعت کا باعث ہوا۔ (فتح الباري 2/ 463) ان تصریحات سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ اب حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بجائے حدیث ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پر عمل کیا جائے گا۔ اگر کسی بشری تقاضے کی وجہ سے امام کے آنے میں کچھ تاخیر ہو تو فوراً کسی دوسرے کو امامت کے لیے کھڑا کرنا جائز نہیں بلکہ اس کا انتظار کرنا چاہیے، جیسا کہ گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام، نبی کریم ﷺ کا انتظار کرتے تھے۔ اگر زیادہ دیر ہو جائے یا کنفرم ہو جائے کہ امام صاحب نہیں پہنچ سکتے تو نائب وغیرہ نماز پڑھا سکتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جب امام (زیادہ) تاخیر کر دے تو اس کا انتظار نہ کرنے کی اجازت اور مقتدیوں کا کسی ایک مقتدی کو امامت کے لیے حکم دینا (جائز ہے)‘‘ (صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1514)
Bhai hadis se toh sabit nh ho rha hai q ki Allah k Nabi Sallallahu Alaihi wasallam jb aate tb akamat kehte Bilal Radiallahu Ta'ala anhu mgr ye kaha hadis me kaha gaya ki haiyya a lalfala me khada Hona ya hona chahiye, aapne hadis sunai kuch aur, aur baki manzar aapne apne mann se keh diya ki jb nabi aate toh ye ye hota, toh aapne jo kaha wo aisa lgta h jaise aapne dekha ho ki kaise kya hota, mgr jo hadis aapne sunaya usme kahi zikr nh aata haiyya a lalfala ka, aur aapne jo iman Mohammad ka baat bataya wo koi hadis ki dalil nh hui, toh pls koi mazbut hadis sunaye jisse amal kiya jaye
Jab Nabi ke time par eka mat hoti tab Nabi ko dekha hazrat bilal iqmat saru kare tab nabi chal kar aate imamat kar ne to tab Nabi ke time par kya hota tha log Nabi jiss Sab se nika te u na ke piche piche khade hote ke haya Alash sala par khade hote ke
Bahut khub pheka maulana aapne pehle kaha ki jab tak hamare nabiko aata na dekhlo tab tak koi khada na ho aur aare dekhlo to sab khade ho jao phir kehte ho ki jab tak hamare nabi musslle pr aate tab hayya alassalah pr pahuchte to wo sunnat ban gaya kya maulana do side bat krte ho
Is hadees pe kabhi bhi nahi likha sahaba baithe rahte na hi ye likha hai ki hayya alal salah pe khade hote jhoot se kaam na lo mere samne hi bukhari trimizi muslim bahki sab rakhi hai kahi pe bhi ye alfaz nahi hai makkari na karo hazrat awam ko jahil bana skte ho hamko nahi
Ye sab ghuma fira k bate na karo seedhe batao sahih Bukhari aur sahih Muslim me Kaha Likha hai k Nabi saw ne "Haiya alas-salah" pe khade hone ko Kaha logo se? Kisi imaam ki raye Hadees Nahi Hoti. Aur agar itni samjh ni hai mullo me to thoda Hadees Ka mutalla Karen aur jhoot failane se toba Karen.
Sunnioun ka sheer farooq khan razvi 🦁🗡🗡🗡🦁🗡🦁🗡🦁🗡🔥🔥🔥🔥🔥
Masha Allah
Marhaba Marhaba Marhaba Subahanollah 🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰
جزاک الله خیرا مفتی صاحب
After listening the splendid lecture I reach to a conclusion that our sunni belief is really true thank you Faruq Rizwi Sahab God bless you and have a fine physique always
Rizwi ni razwi h
sunni hi haq pe hai
سوال: ہمارے یہاں بعض مساجد میں نماز کی جماعت کا وقت ہو جانے پر لوگ (مُقتدی) گھڑی دیکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور صف بندی کر لیتے ہیں، حالانکہ پچھلی صفوں میں امام مسجد پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے، اُس کے بیٹھے ہوئے بھی لوگ اسی طرح کرتے ہیں اور کبھی کبھار امام مسجد ابھی مسجد کے مین ہال میں داخل نہیں ہوتا کہ لوگ صفیں بنا کر پیچھے مُڑ مُڑ کر اُس کا یعنی امام کا انتظار کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات مزید انتظار کئے بغیر کوئی بھی شخص تکبیر (اقامت) کہہ دیتا ہے اور مقتدیوں میں سے کسی کو امام بنا یا جاتا ہے اور نماز شروع کر دی جاتی ہے، پھر تھوڑی دیر بعد امام مقتدی کی حیثیت میں شامل ہوتا ہے۔ کیا اس طرح کے معاملات صحیح ہیں کہ مقتدی جب چاہے امامت کے لیے کھڑا ہو جائے یا پھر شرعی حدود و قیود ہیں؟
الجواب:
اس سلسلے میں راجح یہی ہے کہ مقتدی صفوں میں بیٹھ کر امام کا انتظار کریں اور اضطراب و بے چینی کا مظاہرہ نہ کریں۔
امام مسجد میں موجود ہو یا باہر سے تشریف لائے جب تک وہ اپنی جائے امامت کی طرف چل نہ دے مقتدیوں کو صف میں بیٹھے رہنا چاہیے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’کَانَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ ﷺ یُؤَذِّنُ، ثُمَّ یُمْھِلُ فَإِذَا رَأَی النَّبِيَّ ﷺ قَدْ أَقْبَلَ أَخَذَ فِی الْإِقَامَۃِ‘‘
نبی ﷺ کا مؤذن اذان کہتا، پھر انتظار کرتا۔
جب وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتا کہ آپ تشریف لے آئے ہیں تو اقامت کہنا شروع کر دیتا۔
(صحیح ابن خزیمۃ: 1525، وسندہ حسن، نیز دیکھئے صحیح مسلم: 606)
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ وَ عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ))
’’جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم مجھے دیکھے بغیر کھڑے نہ ہونا اور سکینت کو لازم کر لو۔‘‘
(صحیح بخاري: 638)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد فرمایا:
’’وَقَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِّنْ أَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَ غَیْرِھِمْ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘
نبی کریم ﷺ کے صحابہ و دیگر اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ مکروہ جانا کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔
(سنن الترمذي: 592)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
’’بَابُ النَّھْيِ عَنْ قِیَامِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ قَبْلَ رُؤْیَتِھِمْ إِمَامَھُمْ‘‘
ترجمہ: لوگوں کا اپنے امام کو دیکھنے سے پہلے نماز کے لیے کھڑا ہونا ممنوع ہے۔
(صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1526)
امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
’’وَ قَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَھْلِ الْعِلْمِ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الْإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘
اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ ناپسند کیا ہے کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔
(شرح السنۃ 2/ 89)
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’اگر امام مسجد میں موجود ہے، پھر جب وہ (جائے نماز کی طرف) کھڑا ہو تو لوگ بھی (صفیں بنانے کیلئے) کھڑے ہو جائیں۔ لیکن اگر (صورتِ حال یہ ہے کہ) وہ اس کے باہر سے آنے کے منتظر ہیں تو جب تک امام کو (جائے نماز کی طرف آتے ہوئے) دیکھ نہ لیں، کھڑے نہ ہوں۔‘‘
(الاوسط 4/ 188)
ابو خالد الوالبی کا بیان ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف آئے اور اقامت کہہ دی گئی (جبکہ) ہم ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَالِی أَرَاکُمْ سَامِدِیْنَ؟‘‘
کیا بات ہے کہ میں تمھیں لہو و لعب میں دیکھ رہا ہوں؟
(شرح مشکل الآثار 10/ 395 واللفظ لہ، الصلاۃ لأبي نعیم: 292 وسندہ حسن)
مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام کے انتظار میں کھڑے رہنا درست نہیں اور نیکی کے امور میں اضطراب و بے چینی کسی مسلمان کو لائق نہیں ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں بیٹھ کر انتظار کیا کرتے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءِ الآخِرَۃَ حَتَّی تَخْفِقَ رُءُ وْسُھُمْ‘‘
اصحاب رسول ﷺ نماز عشاء کا انتظار کرتے رہتے حتیٰ کہ ان کے سر (اونگنے کی وجہ سے) جھک جاتے تھے۔
(صحیح، سنن أبي داؤد: 200)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لاَ یُرَدُّ الدُّعَاءُ بَیْنَ الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَۃِ))
’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا رَد نہیں ہوتی۔‘‘
(صحیح، سنن أبي داؤد: 521)
جب مقتدی حضرات اذان اور اقامت کا درمیانی وقت ذکر و اذکار اور دعا کرنے میں گزاریں گے تو انھیں احساس ہی نہیں ہو گا کہ کب امام آیا اور اقامت کہہ دی گئی! اس پر عمل پیرا ہونے سے ہر قسم کی بے چینی اور اضطراب ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ
مسئلے کا دوسرا پہلو:
بعض احادیث میں امام دیکھنے سے پہلے صفیں بنانے کا ذکر بھی ہے۔
مثلاً سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَقُمْنَا فَعَدَّلْنَا الصُّفُوْفَ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ‘‘
اقامت کہی گئی تو ہم نے کھڑے ہو کر صفوں کو برابر کیا، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائیں۔
(صحیح مسلم: 605، صحیح بخاري: 275، سنن أبي داؤد: 235)
اس حدیث کی توضیح و توجیہ میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں:
1- امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ھَذَا مَحْمُوْلٌ عَلٰی أَنَّہُ کَانَ فِيْ بَعْضِ الأَوْقَاتِ وَ کَانَ الْغَالِبُ مَا جَاءَ فِيْ حَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ‘‘
یعنی یہ عمل بعض اوقات پر محمول ہے ورنہ اکثر عمل حدیث جابر ہی پرہے۔
(کتاب الأحکام الکبیر 265/2)
2- بعض علماء کے نزدیک یہ عمل حدیث: ((فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ)) سے پہلے کا ہے۔
3- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’فِيْ حَدِیْثِ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ کَانَ سَبَبُ النَّھْيِ عَنْ ذَلِکَ‘‘
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کھڑے ہو جاتے تھے تو یہی امر اس سے ممانعت کا باعث ہوا۔
(فتح الباري 2/ 463)
ان تصریحات سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ اب حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بجائے حدیث ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پر عمل کیا جائے گا۔
اگر کسی بشری تقاضے کی وجہ سے امام کے آنے میں کچھ تاخیر ہو تو فوراً کسی دوسرے کو امامت کے لیے کھڑا کرنا جائز نہیں بلکہ اس کا انتظار کرنا چاہیے، جیسا کہ گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام، نبی کریم ﷺ کا انتظار کرتے تھے۔
اگر زیادہ دیر ہو جائے یا کنفرم ہو جائے کہ امام صاحب نہیں پہنچ سکتے تو نائب وغیرہ نماز پڑھا سکتے ہیں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’جب امام (زیادہ) تاخیر کر دے تو اس کا انتظار نہ کرنے کی اجازت اور مقتدیوں کا کسی ایک مقتدی کو امامت کے لیے حکم دینا (جائز ہے)‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1514)
Khan SAHAB hadees mai kuch bhi add nahi karen ‘ don’t give wrong information’ I have already checked hadees number 1266 sahi Muslim and sahi bokhari 611 ‘ please scare with Allah ‘
@@irfanquarshi164Arabi talafuzz me ridhwi hai urdu me razvi hai
❤bilkul Sahi kaha aapne ❤ hazrat ❤
Masha Allah bahut umda bayan
mashaallah
MashaAllah
Subhan allah
Aap sahi farmaye
Allah aapko lambi Umar
Mashallah subhanallah ❤️
Subhanallah subhanallah.
Ma Shaa Allah
Asalamuleyekum Rahmtullah he wa Barkatahu Hazrat jee
Aap deene Islam ke liye bhut hi acche Andaz main Kam kar rahe hai
Alhamdulillah
JajakAllaho khair Hazrat
Bahut khoob bayan hai
786 like m
Sahi kaha jo sunni karenge ye nahin karenge jase TAZIYA DARI our QABRON PAR TAZEEMI SAJDA our CHADAR CHRANA our TEEJE ME AMEERON KO KHILANA (jo khud na jayaz our bidat likhte hain)wagaira wagaira
Ekdam sahi jawab
Marshall ah
Masha allah
Subhanallah
سوال: ہمارے یہاں بعض مساجد میں نماز کی جماعت کا وقت ہو جانے پر لوگ (مُقتدی) گھڑی دیکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور صف بندی کر لیتے ہیں، حالانکہ پچھلی صفوں میں امام مسجد پہلے ہی سے موجود ہوتا ہے، اُس کے بیٹھے ہوئے بھی لوگ اسی طرح کرتے ہیں اور کبھی کبھار امام مسجد ابھی مسجد کے مین ہال میں داخل نہیں ہوتا کہ لوگ صفیں بنا کر پیچھے مُڑ مُڑ کر اُس کا یعنی امام کا انتظار کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات مزید انتظار کئے بغیر کوئی بھی شخص تکبیر (اقامت) کہہ دیتا ہے اور مقتدیوں میں سے کسی کو امام بنا یا جاتا ہے اور نماز شروع کر دی جاتی ہے، پھر تھوڑی دیر بعد امام مقتدی کی حیثیت میں شامل ہوتا ہے۔ کیا اس طرح کے معاملات صحیح ہیں کہ مقتدی جب چاہے امامت کے لیے کھڑا ہو جائے یا پھر شرعی حدود و قیود ہیں؟
الجواب:
اس سلسلے میں راجح یہی ہے کہ مقتدی صفوں میں بیٹھ کر امام کا انتظار کریں اور اضطراب و بے چینی کا مظاہرہ نہ کریں۔
امام مسجد میں موجود ہو یا باہر سے تشریف لائے جب تک وہ اپنی جائے امامت کی طرف چل نہ دے مقتدیوں کو صف میں بیٹھے رہنا چاہیے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’کَانَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ ﷺ یُؤَذِّنُ، ثُمَّ یُمْھِلُ فَإِذَا رَأَی النَّبِيَّ ﷺ قَدْ أَقْبَلَ أَخَذَ فِی الْإِقَامَۃِ‘‘
نبی ﷺ کا مؤذن اذان کہتا، پھر انتظار کرتا۔
جب وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتا کہ آپ تشریف لے آئے ہیں تو اقامت کہنا شروع کر دیتا۔
(صحیح ابن خزیمۃ: 1525، وسندہ حسن، نیز دیکھئے صحیح مسلم: 606)
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ وَ عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ))
’’جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم مجھے دیکھے بغیر کھڑے نہ ہونا اور سکینت کو لازم کر لو۔‘‘
(صحیح بخاري: 638)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد فرمایا:
’’وَقَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِّنْ أَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَ غَیْرِھِمْ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘
نبی کریم ﷺ کے صحابہ و دیگر اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ مکروہ جانا کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔
(سنن الترمذي: 592)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
’’بَابُ النَّھْيِ عَنْ قِیَامِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ قَبْلَ رُؤْیَتِھِمْ إِمَامَھُمْ‘‘
ترجمہ: لوگوں کا اپنے امام کو دیکھنے سے پہلے نماز کے لیے کھڑا ہونا ممنوع ہے۔
(صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1526)
امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
’’وَ قَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَھْلِ الْعِلْمِ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الْإِمَامَ وَ ھُمْ قِیَامٌ‘‘
اہل علم میں سے ایک جماعت نے یہ ناپسند کیا ہے کہ لوگ (صفوں میں) کھڑے ہو کر امام کا انتظار کریں۔
(شرح السنۃ 2/ 89)
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’اگر امام مسجد میں موجود ہے، پھر جب وہ (جائے نماز کی طرف) کھڑا ہو تو لوگ بھی (صفیں بنانے کیلئے) کھڑے ہو جائیں۔ لیکن اگر (صورتِ حال یہ ہے کہ) وہ اس کے باہر سے آنے کے منتظر ہیں تو جب تک امام کو (جائے نماز کی طرف آتے ہوئے) دیکھ نہ لیں، کھڑے نہ ہوں۔‘‘
(الاوسط 4/ 188)
ابو خالد الوالبی کا بیان ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہماری طرف آئے اور اقامت کہہ دی گئی (جبکہ) ہم ان کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَالِی أَرَاکُمْ سَامِدِیْنَ؟‘‘
کیا بات ہے کہ میں تمھیں لہو و لعب میں دیکھ رہا ہوں؟
(شرح مشکل الآثار 10/ 395 واللفظ لہ، الصلاۃ لأبي نعیم: 292 وسندہ حسن)
مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو جاتا ہے کہ امام کے انتظار میں کھڑے رہنا درست نہیں اور نیکی کے امور میں اضطراب و بے چینی کسی مسلمان کو لائق نہیں ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صفوں میں بیٹھ کر انتظار کیا کرتے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’کَانَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ یَنْتَظِرُوْنَ الْعِشَاءِ الآخِرَۃَ حَتَّی تَخْفِقَ رُءُ وْسُھُمْ‘‘
اصحاب رسول ﷺ نماز عشاء کا انتظار کرتے رہتے حتیٰ کہ ان کے سر (اونگنے کی وجہ سے) جھک جاتے تھے۔
(صحیح، سنن أبي داؤد: 200)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لاَ یُرَدُّ الدُّعَاءُ بَیْنَ الْأَذَانِ وَ الْإِقَامَۃِ))
’’اذان اور اقامت کے درمیان دعا رَد نہیں ہوتی۔‘‘
(صحیح، سنن أبي داؤد: 521)
جب مقتدی حضرات اذان اور اقامت کا درمیانی وقت ذکر و اذکار اور دعا کرنے میں گزاریں گے تو انھیں احساس ہی نہیں ہو گا کہ کب امام آیا اور اقامت کہہ دی گئی! اس پر عمل پیرا ہونے سے ہر قسم کی بے چینی اور اضطراب ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ
مسئلے کا دوسرا پہلو:
بعض احادیث میں امام دیکھنے سے پہلے صفیں بنانے کا ذکر بھی ہے۔
مثلاً سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَقُمْنَا فَعَدَّلْنَا الصُّفُوْفَ قَبْلَ أَنْ یَخْرُجَ إِلَیْنَا رَسُوْلُ اللہِ ﷺ‘‘
اقامت کہی گئی تو ہم نے کھڑے ہو کر صفوں کو برابر کیا، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائیں۔
(صحیح مسلم: 605، صحیح بخاري: 275، سنن أبي داؤد: 235)
اس حدیث کی توضیح و توجیہ میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں:
1- امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ھَذَا مَحْمُوْلٌ عَلٰی أَنَّہُ کَانَ فِيْ بَعْضِ الأَوْقَاتِ وَ کَانَ الْغَالِبُ مَا جَاءَ فِيْ حَدِیْثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ‘‘
یعنی یہ عمل بعض اوقات پر محمول ہے ورنہ اکثر عمل حدیث جابر ہی پرہے۔
(کتاب الأحکام الکبیر 265/2)
2- بعض علماء کے نزدیک یہ عمل حدیث: ((فَلاَ تَقُوْمُوْا حَتَّی تَرَوْنِيْ)) سے پہلے کا ہے۔
3- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’فِيْ حَدِیْثِ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ کَانَ سَبَبُ النَّھْيِ عَنْ ذَلِکَ‘‘
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے کھڑے ہو جاتے تھے تو یہی امر اس سے ممانعت کا باعث ہوا۔
(فتح الباري 2/ 463)
ان تصریحات سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ اب حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بجائے حدیث ابو قتادہ رضی اللہ عنہ پر عمل کیا جائے گا۔
اگر کسی بشری تقاضے کی وجہ سے امام کے آنے میں کچھ تاخیر ہو تو فوراً کسی دوسرے کو امامت کے لیے کھڑا کرنا جائز نہیں بلکہ اس کا انتظار کرنا چاہیے، جیسا کہ گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام، نبی کریم ﷺ کا انتظار کرتے تھے۔
اگر زیادہ دیر ہو جائے یا کنفرم ہو جائے کہ امام صاحب نہیں پہنچ سکتے تو نائب وغیرہ نماز پڑھا سکتے ہیں۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’جب امام (زیادہ) تاخیر کر دے تو اس کا انتظار نہ کرنے کی اجازت اور مقتدیوں کا کسی ایک مقتدی کو امامت کے لیے حکم دینا (جائز ہے)‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ قبل حدیث: 1514)
Bukhari shareef 637 638 nahi pdhi kya? Padhlijiye please
Ye jo bayan kar rahe h ye hadees nahi h kiya
دوسری حدیث کی صحیح تشریح کرو جناب
Bhai hadis se toh sabit nh ho rha hai q ki Allah k Nabi Sallallahu Alaihi wasallam jb aate tb akamat kehte Bilal Radiallahu Ta'ala anhu mgr ye kaha hadis me kaha gaya ki haiyya a lalfala me khada Hona ya hona chahiye, aapne hadis sunai kuch aur, aur baki manzar aapne apne mann se keh diya ki jb nabi aate toh ye ye hota, toh aapne jo kaha wo aisa lgta h jaise aapne dekha ho ki kaise kya hota, mgr jo hadis aapne sunaya usme kahi zikr nh aata haiyya a lalfala ka, aur aapne jo iman Mohammad ka baat bataya wo koi hadis ki dalil nh hui, toh pls koi mazbut hadis sunaye jisse amal kiya jaye
Aap agar fikha ki kitabo ko mante to aapko ye bat samaj me ayegi
Jab emam namaz parane ke lia khara hota hai to moujan Kya parta hai wah video hai to hame chahia Farooque Saheb
Bas Mujhe ab ye bta dijiye ki jo khade hoker padte taqbeer unke peeche namaz padna kaias h pls bta dijiye bhut preshan hu isse
Jinka akida tik nhi hai unke piche namaz nhi hogi quki namaz to sethan ne bhi bhut padhi thi magar uska Kaya hua
Sab imam baadme nahi aate, kuch imam pahle se hi apni jagah par rahte hai us waqt kya kare ye hadees se batao
Hayya Alassala Hayya alal falah pr hee khade ho
Hadiss no. Match nahi kar Raha hai sir
Jab Nabi ke time par eka mat hoti tab Nabi ko dekha hazrat bilal iqmat saru kare tab nabi chal kar aate imamat kar ne to tab Nabi ke time par kya hota tha log Nabi jiss Sab se nika te u na ke piche piche khade hote ke haya Alash sala par khade hote ke
Bahut khub pheka maulana aapne pehle kaha ki jab tak hamare nabiko aata na dekhlo tab tak koi khada na ho aur aare dekhlo to sab khade ho jao phir kehte ho ki jab tak hamare nabi musslle pr aate tab hayya alassalah pr pahuchte to wo sunnat ban gaya kya maulana do side bat krte ho
Don’t give wrong hadees number’ koe bhi sahi hadees mai nahi likha hai haya alas sala h haya alal wafala par khara hona ‘ logo ko sahi hadees batao’
Is hadees pe kabhi bhi nahi likha sahaba baithe rahte na hi ye likha hai ki hayya alal salah pe khade hote jhoot se kaam na lo mere samne hi bukhari trimizi muslim bahki sab rakhi hai kahi pe bhi ye alfaz nahi hai makkari na karo hazrat awam ko jahil bana skte ho hamko nahi
Hadees se sabit nahi krpai ab fuqaha pe chale gai
Sahi bukhari shareef se q nhi batate ho sawalo k jawab
Sahi Muslim BHI hadees ki kitaab h
🤦
Tum to maulana ho tum apni farji wali hadees padte ho
Hadish mi bethna ka hi khada bi hi
Ala hajrat ne fatawa rejwe MI likha hi khada hona jaruri hi
Ye sab ghuma fira k bate na karo seedhe batao sahih Bukhari aur sahih Muslim me Kaha Likha hai k Nabi saw ne "Haiya alas-salah" pe khade hone ko Kaha logo se? Kisi imaam ki raye Hadees Nahi Hoti. Aur agar itni samjh ni hai mullo me to thoda Hadees Ka mutalla Karen aur jhoot failane se toba Karen.
حدیث صحیح پڑھ بیٹا
تیرا باپ ان کی طرح حدیث پڑھ سکتا ہے🤪🤪🤪🤪
یہ تو بہت اچھا پڑھ رہے ہیں
اور ان کوبیٹا بولتا ہے تو تم اپنے باپ کو کیا بولتا بیٹا یا کچھ اور
बेटा खत्री उस्मान तुम एक दिस पढ़कर सुना दो अगर उनको ही पढ़ना नहीं आता है तो आप बता दो पढ़कर
Be waqoof aadmi
Isko to sahi se ibarat bhi padhne nahi aarhi h 😅🤣🤣🤣
Tu kele kha
Laptop se Dekh Kar padega to Kaha se ayega 😂😂😂😂
Sahi kaha bhai 🤣🤣
mashaallah