Maulana Abul Hasan Ali Miyan Nadvi had spoken in Burma in 1960

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 16 ก.ย. 2024
  • Maulana Abul Hasan Ali Miyan Nadvi had spoken in Burma in 1960

ความคิดเห็น • 20

  • @444mustaqim
    @444mustaqim ปีที่แล้ว +1

    MAY ALLAH BLESS MOLANA ABUL HASAN ALI NADVI🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

  • @ff_adnan_fahad
    @ff_adnan_fahad 5 ปีที่แล้ว +2

    Ya Allah Humsbhi Musalmano Ko Neek Raste Pe Chalne ki Taufeeq Ata Farmay Ameen Summaameen

  • @afaqueahmed9389
    @afaqueahmed9389 5 ปีที่แล้ว +8

    Allah moulana sahab ko jannatul firdosh mi aala mukam ata kare

  • @amjadshaikh1488
    @amjadshaikh1488 2 ปีที่แล้ว +1

    Mashallah Allah hazarat ka badal atta farmayea amin

  • @sabinashaikh4731
    @sabinashaikh4731 5 ปีที่แล้ว +2

    May allah subhana tala have mercy on him grant foriveness to him and enter him into jannah tul firdosh in the company of of the prophets, the trustful, the martyrs, and the upright.

  • @abdussamad7307
    @abdussamad7307 4 ปีที่แล้ว +1

    Amin

  • @shamsealam2347
    @shamsealam2347 3 ปีที่แล้ว +1

    Now 2020,all things are happening
    O Allah

  • @esaruhulamin9290
    @esaruhulamin9290 7 ปีที่แล้ว +4

    Ham sab tawba kare

  • @syzlaposts5516
    @syzlaposts5516 5 ปีที่แล้ว +3

    Now 2019 Hazrat ney sahi kaha Allah apke darajad ko buland Kare

  • @alinaqureshi920
    @alinaqureshi920 7 ปีที่แล้ว +5

    Oho Allah aj ye sub ho rha hai

  • @aleemsalman8952
    @aleemsalman8952 5 ปีที่แล้ว +1

    Fi jannat Annaeem In Sha Allah

  • @mohdnawaz-786
    @mohdnawaz-786 5 ปีที่แล้ว +2

    Hazrat ki jban ki batai shi ho gyi

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    نظریہ ارتقا اللہ تعالی کی ذات کا انکار کرتا ہے
    قرآن مجید کا کائنات اور تخلیق آدم
    کے بارے میں بیانات
    آدم اور حوا علیہما السلام کو اللہ جل شانہ نے
    جنت میں پیدا کیا ۔ اللہ نے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان سے ان کا جوڑا حوا علیہا السلام کو پیدا کیا اور انہیں جنت میں رکھا جیسا کہ قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :
    يا آدم اسكن انت و زوجك الجنة و كلا منها رغدا حيث شئتما و لا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين o ( البقرة : ٣٥)
    اور ہم نے آدم سے کہا کہ " تم اور تمہاری زوجہ دونوں جنت میں رہو اور اس میں سے بفراغت جہاں سے چاہو کھاؤ ، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ ظالموں میں شمار ہوجاؤ گے ۔
    اس کے بعد ارشاد فرمایا :
    فازلهما الشيطان و أخرجهما مما كانا فيه ، و قلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو ، و لكم في الأرض مستقر و متاع إلى حين o
    ( البقرہ : ٣٦)
    پھر لغزش دیدی ان دونوں کو شیطان نے اس ( درخت) کے بارے میں سو نکال دیا ان دونوں کو اس حالت سے جس میں وہ تھے ، اور ہم نے کہا تم ( یہاں سے) اترجاؤ ، تم میں سے بعض بعض کے دشمن رہو گے اور تم ( بنی آدم اور ذریت ابلیس) کے لیے زمین میں ایک مقررہ مدت تک ( for a time ) رہنا ہے اور متاع (زندگی) ہے ۔
    ان دونوں سے زمین پر انسانی اولاد پیدا ہوتی اور بڑھتی اور زمین کے مختلف حصوں میں پھیلتی رہی ۔
    قرآن میں اللہ جل شانہ نے انسان کی پیدائش کے واقعہ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے ۔
    کیا نظریہ ارتقا قران مجید کے ان بیانات کو مانتا ہے ؟ وہ قرآن کے ان بیانات کو نہیں مانتا اور اس خلاف ایک الگ نظریہ پیش کرتا ہے ۔
    اور دھوکہ دیتا ہے کہ یہ ثابت شدہ نظریہ ہے ۔
    انسان زمین میں عمل ارتقا ( Evolution) سے وجود میں نہیں آیا اور نہ ان کے اجداد (ancestors) مختلف قسم کے جانوروں اور چمپانزی ( Chimpanzee) سے ارتقا کرتے ہوئے اور مختلف حیوانی مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ انسانی حالت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔
    قرآن مجید ميں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے کہ " وإذا قال ربک للملئكة إنى خالق بشرا من صلصال من حمأ من مسنون o فإذا سويته و نفخت فيه من روحى فقعوا لہ ساجدين o فسجد الملائكة كلهم اجمعون o إلا ابليس أبى أن يكون مع السجدين o قال يا إبليس ما لك ألا تكون مع السجدين o قال لم أكن لأسجد لبشر خلقته من صلصال من حمأ مسنون o ( الحجر : ٢٨ -- ٣٢ )
    اور جب آپ کے رب نے فرشتون سے کہا کہ میں ایک بشر کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑھے ہوئے گارے سے بنی ہوگی پیدا کرنے والا ہوں ۔ سو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گرجانا ۔ سو سارے فرشتون نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے اس نے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو ۔
    قرآن میں تخلیق آدم کے بارے میں مزید تفصیلات ہیں ۔ جنہیں مختلف سورتوں کی آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔
    نظریہ ارتقا انسان کی پیدائش کے بارے میں قرآن مجید کے بیانات کو نہیں مانتا اور ان کا انکار کرتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق آدم علیہ السلام کا کوئی وجود نہیں ہے ۔
    نظریہ ارتقا اللہ جل شانہ کی ذات کو نہیں مانتا ہے بلکہ ایک موجد کائنات اور خالق انسان
    کا انکار کرتا ہے ۔ اس کا دعوی یہ ہے کہ یہ کائنات اور انسان قدرتی اور طبعی ارتقاء عمل سے وجود میں آئے ہیں اور ان کے وجود میں آنے میں کسی خالق کا ہاتھ نہیں ہے ۔
    ہم کائنات اور انسان کی تخلیق کے بارے میں قرآن کے بیانات کو مانتے ہیں اور یہی اصل سائنس ہے ۔
    اللہ تعالی کا سورہ الملک میں ارشاد ہے :
    الا يعلم من خلق و هو اللطيف الخبير .
    (الملک: 14)
    كیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ، حالاں کہ باریک بیں اور باخبر ہے ۔
    اس آیہ کریمہ میں اللہ نے انسانوں کو بتایا ہے وہ جو کہتا ہے وہ حقیقی علم ( Science ) پر مبنی ہے ۔ اور آج کے سائنسداں جو کچھ کہتے ہیں وہ حقیقی علم پر مبنی نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ مفروضے اور نظریئے ہوتے ہیں جنہیں نئے مخالف معلومات ( data ) کی بنا پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
    مثال کے طور پر پہلے سائنسداں یہ مانتے تھے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی
    اسحق نیوٹن اس نظریہ کو مانتے ہوئے مرا ، لیکن
    ١٩٢٩ میں امریکی سائنسداں ایڈون ہبل نے پھیلتی کائنات( Expanding Universe ) کا نظریہ پیش کیا جس کی رو سے یہ کائنات
    ایٹم سے چھوٹے ایک نقطہ (Singular Point)
    میں سمٹی ہوئی تھی ۔ اس میں ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا اور اس یونیورس کا آغاز ہوا ۔
    اس نظریہ کے سامنے آنے کے بعد کائنات کے بارے میں اس نظریہ کو کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی چھوڑ دیا گیا ۔
    نیچرل سائنس میں کوئی چیز دائمی نہیں ہوتی کیوں کہ یہ انسانی علم ہے جو ناقص معلومات اور کم علمی پر مبنی ہوتی ہے ۔
    سائنسداں کہتے ہیں کہ پھیلتی کائنات کا نظریہ انسانی تاریخ میں بیسویں صدی میں پہلی بار پیش کیا گیا ۔ اس سے پہلے انسان اس سے واقف نہیں تھا ۔ اسٹیفین ہاکنگ کا یہی دعوی ہے ۔
    لیکن قرآن کریم میں اللہ جل شانہ نے ساتویں صدی کے شروع میں انسانوں کو بتادیا تھا کہ
    " ہم نے آسمان کو اپنے زور ( قدرت کاملہ) سے بنایا ہے اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں "۔
    ( الذاريات: ٥١)
    اس مختص بحث سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ اصل سائنس وہ جسے اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے ۔ اس کے مقابلے میں آج کی سائنس مفروضے اور نظریات پر مبنی ہے جو نئے معلومات کے ساتھ بلا تکلف بدل دیا جاتا ہے ۔ سائنس نے یہ بات خود مان رکھی ہے کہ Completenss is the hallmark of Pseudo science
    یعنی کاملیت غیر حقیقی سائنس کی علامت ہے ۔
    اسی طرح انسان کی تخلیق کے بارے میں نظریہ ارتقا کا حال ہے ۔ یہ نظریہ ثابت شدہ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ بالکل ثابت ہوگیا
    جو ایک غلط دعوی اور کھلا دھوکہ ہے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @syedsiraj7255
    @syedsiraj7255 7 ปีที่แล้ว +5

    Allah hum sab ko is jamath ka kaam karne ki hidayaat aata farmayaa Aameen

  • @Indianotgotfreedom
    @Indianotgotfreedom 4 ปีที่แล้ว +2

    Ab yeh India me hone wala hai.

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    بہت مفید ویڈیو ہے ۔ ایسے بے ننگ اور قرآن و احادیث کی تعلیمات کے خلاف رقص و گانوں میں زندگی گزارنے والے بے حیا و بےشرم فلمی ایکٹرس اور ایکٹریس رمضان کے مبارک مہینے
    کے موقع پر مسلمانوں کے لیے پروگرامس پیش کرتے ہیں ، اس سے بڑی مسلمانوں کی بدقسمتی کیا ہوگی !!
    مجھے تو واقعی بڑی غیرت آرہی ہے ۔مسلمانوں کو ایسے پروگرامس کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔ عصر حاضر کی یہ بہت بڑی سازش ہے مستند علماء کرام کو حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کو آگے بڑھادیا گیا جنہوں نے قرآن و احادیث کا مستند علم حاصل نہیں کیا ہے ۔
    ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
    اب آبروئے شیوہ ا ہل نظر گئی
    حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے لیے بڑے افسوس اور شرمندگی کا مقام ہے ۔
    کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    بہت مفید ویڈیو ہے ۔ ایسے بے ننگ اور قرآن و احادیث کی تعلیمات کے خلاف رقص و گانوں میں زندگی گزارنے والے بے حیا و بےشرم فلمی ایکٹرس اور ایکٹریس رمضان کے مبارک مہینے
    کے موقع پر مسلمانوں کے لیے پروگرامس پیش کرتے ہیں ، اس سے بڑی مسلمانوں کی بدقسمتی کیا ہوگی !
    مجھے تو واقعی بڑی غیرت آرہی ہے ۔مسلمانوں کو ایسے پروگرامس کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔ عصر حاضر کی یہ بہت بڑی سازش ہے مستند علماء کرام کو حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کو آگے بڑھادیا گیا جنہوں نے قرآن و احادیث کا مستند علم حاصل نہیں کیا ہے ۔
    ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
    اب آبروئے شیوہ ا ہل نظر گئی
    حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارے لیے بڑے افسوس اور شرمندگی کا مقام ہے ۔
    کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی