معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم عصری طبیعات(Modern physics) کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر اور اللہ کی نشانیوں اور تجلیات ربانی کا مشاہدہ کرنے کے بعد بیت المقدس تشریف لائے پھر براق پر سوار ہوکر مسجد حرام واپس پہنچے ۔ نماز فجر کے بعد جب آپ نے رات کے واقعہ کا تذکرہ کیا تو مشرکین مکہ کو اس پر سخت تعجب ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسی بے عقلی کی باتیں کر رہے ہیں ! بعض بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہا ۔ رؤساء قریش نے بارہا بیت المقدس کا سفر کیا تھا ۔ انہوں نے امتحان کے لیے بیت المقدس کی ہیئت کے بارے میں پوچھا اور مختلف سوالات کرنے لگے ۔ جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت پریشان ہوئے ۔ اس وقت اللہ قادر مطلق نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے کردیا ۔ اس طرح آپ (ص) نے ان کے تمام سوالات کیے صحیح صحیح جوابات دیدیے ۔ ( بخاری کتاب الصلوة ، كتاب الأنبیاء ، کتاب التوحید اور باب المعراج وغیرہ) ۔ مسلم باب المعراج ، تفسیر روح المعانی جلد ١٥ ص ٤-- ١٠ ) یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے خود اپنی قدرت اور قابلیت سے یہ سفر کیا تھا بلکہ اللہ جل شانہ جو قادر مطلق ہے فرما رہے ہیں کہ انہوں نے یہ سفر معراج کرایا ، وہ ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے ۔ اللہ جل شانہ کو اس بات کا علم تھا کہ تھا کہ لوگ اپنی جہالت اور کم فہمی کی وجہ سے اس کا انکار اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات کریں گے ۔ اس لیے یہ بلیغ تعبیر اختیار کیا کہ سبحان الذی اسری بعبدہ کہ تمہارے انکار ، کم علمی ، کم فہمی اور بے جا اعتراضات سے پاک و مبرا ہے وہ ذات با برکات اور پیشگی دفاع فرمادیا ۔ جن کا ایمان اللہ قادر مطلق کی ذات پر پختہ اور غیر متزلزل ہے ، ان کے لیے واقعہ معراج کو ماننے مین کوئی اشکال اور پس و پیش نہیں ہوگا ۔ مشکل ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی ناقص عقل اور کم علمی سے سمجھنے کی کوکرتے ہیں ۔ واقعہ معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم عصری فزکس کی روشنی میں Time is relative not absolute. . البرٹ آئنسٹائن کے نظریہ اضافت مخصوصہ(Special theory of Relativity ) کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے یعنی Frame of reference کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور دوسرا سیارہ مریخ (خلا) میں ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا ۔ وقت کے تعلق سے آئنسٹائن کا یہ نظریہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص ایک خلائی جہاز ( Spaceship) میں سوار ہو کر خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ، اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو ، صفر وقت میں ہوگا ۔ سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور ملائکہ مکرمین کی جلو میں ہوا تھا ۔ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جمع ہے برق (بجلی) کی ۔ براق در حقیقت نور سے عبارت ہے ۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجا ہوا ' براق' نور کی سواری تھی جس کی رفتار multiple speed of light تھی ۔ یہ نور اپنی کیفیت میں اس روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ معراج کے تمام حالات و کیفیات انسانی عقل و فہم سے بالاتر ہیں Atomic Particle کی رفتار روشنی کی رفتار تیز ہے اب سائنسداں یہ کہتے ہیں کہ نیوٹرینوس ( Sub -Atomic particle) روشنی سے زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں ۔ ایک خصوصی اختیار کردہ " سیرا " شعاع کے ذریعہ اس نتیجہ کی توثیق ہوئی ہے ۔ نیوٹرینوس کی ایک شعاع ذیلی جوہری ذرات جو عام مادے کے ساتھ ربط نہیں رکھتے سیرن تجربہ گاہ سے جو جنیوا میں قائم ہے ، INFN تجربہ گاہ گریناسوروم روانہ کیے گئے ، وہ 60 نانو سیکنڈ میں اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ ان کی یہ رفتار روشنی کی شعاع کی رفتار سے تیز تھی ۔ اس سائنسی تحقیق کے نتائج بہت صدمہ انگیز ہیں کیونکہ جدید طبیعات زیادہ تر آئنسٹائن کے نظریہ پر انحصار کرتی ہے کہ روشنی کی رفتار کائنات کی رفتار کی آخری حد ہے اور اس رفتار سے سفر کرنا ممکن نہیں ہے ۔ بہر حال یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ ہوسکتا ہے اس کی توثیق ہوجائے ۔ روشنی سے تیز رفتار جس کو آج سائنس تسلیم کر رہی ہے ، 621 کے سفر معراج میں ایک واقعہ بن کر پیش آچکا ہے ۔ براق کی رفتار روشنی کی شعاع کی رفتار سے بہت تیز تھی ۔ جو لوگ وقت کے تعلق سے عصری طبیعات کے نظریات اور تحقیقات سے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ سائنسی طور پر یہ عین ممکن ہے ۔ ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات کے مختلف میدانوں میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں تو ہماری عقل و فہم اور ادراک کی نارسائی بالکل عیاں ہے ۔ وقت کیا ہے؟ وقت کے بارے میں سائسندانوں میں بحث جاری ہے کہ وقت کی حقیقت کیا یے ؟ کیا یہ وہ اس یونیورس کا بنیادی حصہ ہے یا اس کا وجود ہی نہیں ہے اور کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ، اور نہ وہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے ۔ ہم اس کو اپنے دماغ میں بنا تے ہیں ۔ نیورو لوجسٹس اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔ وقت کائنات میں آنے والے بدلاو کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی relative شئ ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے Time is an illusion وہ کہتے ہیں کہ فزکس کے قوانین بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ اب ہمیں تمام equations پر از سر نو نظر ڈالنی ہوگی ۔ Thunder time theory کے مطابق وقت کا کوئی وجود نہیں ہے ختم شد
Ya Allah ghulam Bashir naqsbandi ko salamat rakh . Amen. Summa amen
Ameen
Ameen suma Ameen
mashallah bohat,khubsoorat bayan ha
ما شاء اللہ بہت ہی خوب
اللہ کریم سلامت رکھے حضور کو
ma sha allah qari sb
Masha Allah
Wah kia Baat ha
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے آمین
Subhan Allah 😍😍🙏😍
Subhaan allah
Ismaeel
Sound problem
مولانا کا نمبر ہو تو دیجئیے
03157726415
معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم عصری طبیعات(Modern physics) کی روشنی میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم ملکوت کی اچھی طرح سیر اور اللہ کی نشانیوں اور تجلیات ربانی کا مشاہدہ کرنے کے بعد بیت المقدس تشریف لائے پھر براق پر سوار ہوکر مسجد حرام واپس پہنچے ۔
نماز فجر کے بعد جب آپ نے رات کے واقعہ کا تذکرہ کیا تو مشرکین مکہ کو اس پر سخت تعجب ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیسی بے عقلی کی باتیں کر رہے ہیں ! بعض بدبختوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا کہا ۔ رؤساء قریش نے بارہا بیت المقدس کا سفر کیا تھا ۔ انہوں نے امتحان کے لیے بیت المقدس کی ہیئت کے بارے میں پوچھا اور مختلف سوالات کرنے لگے ۔ جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت پریشان ہوئے ۔ اس وقت اللہ قادر مطلق نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے کردیا ۔ اس طرح آپ (ص) نے ان کے تمام سوالات کیے صحیح صحیح جوابات دیدیے ۔
( بخاری کتاب الصلوة ، كتاب الأنبیاء ، کتاب التوحید اور باب المعراج وغیرہ) ۔ مسلم باب المعراج ، تفسیر روح المعانی جلد ١٥ ص ٤-- ١٠ )
یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے خود اپنی قدرت اور قابلیت سے یہ سفر کیا تھا بلکہ اللہ جل شانہ جو قادر مطلق ہے فرما رہے ہیں کہ انہوں نے یہ سفر معراج کرایا ، وہ ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے ۔ اللہ جل شانہ کو اس بات کا علم تھا کہ تھا کہ لوگ اپنی جہالت اور کم فہمی کی وجہ سے اس کا انکار اور اس پر طرح طرح کے اعتراضات کریں گے ۔ اس لیے یہ بلیغ تعبیر اختیار کیا کہ
سبحان الذی اسری بعبدہ
کہ تمہارے انکار ، کم علمی ، کم فہمی اور بے جا اعتراضات سے پاک و مبرا ہے وہ ذات با برکات اور پیشگی دفاع فرمادیا ۔
جن کا ایمان اللہ قادر مطلق کی ذات پر پختہ اور غیر متزلزل ہے ، ان کے لیے واقعہ معراج کو ماننے مین کوئی اشکال اور پس و پیش نہیں ہوگا ۔ مشکل ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی ناقص عقل اور کم علمی سے سمجھنے کی کوکرتے ہیں ۔
واقعہ معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
عصری فزکس کی روشنی میں
Time is relative not absolute. .
البرٹ آئنسٹائن کے نظریہ اضافت مخصوصہ(Special theory of Relativity ) کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے یعنی Frame of reference کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور دوسرا سیارہ مریخ (خلا) میں ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا ۔ وقت کے تعلق سے آئنسٹائن کا یہ نظریہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص ایک خلائی جہاز ( Spaceship) میں سوار ہو کر خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ، اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو ، صفر وقت میں ہوگا ۔
سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور ملائکہ مکرمین کی جلو میں ہوا تھا ۔ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جمع ہے برق (بجلی) کی ۔ براق در حقیقت نور سے عبارت ہے ۔ اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجا ہوا ' براق' نور کی سواری تھی جس کی رفتار multiple speed of light تھی ۔ یہ نور اپنی کیفیت میں اس روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ معراج کے تمام حالات و کیفیات انسانی عقل و فہم سے بالاتر ہیں
Atomic Particle
کی رفتار روشنی کی رفتار تیز ہے
اب سائنسداں یہ کہتے ہیں کہ نیوٹرینوس
( Sub -Atomic particle) روشنی سے زیادہ تیز رفتار ہوتے ہیں ۔ ایک خصوصی اختیار کردہ " سیرا " شعاع کے ذریعہ اس نتیجہ کی توثیق ہوئی ہے ۔ نیوٹرینوس کی ایک شعاع ذیلی جوہری ذرات جو عام مادے کے ساتھ ربط نہیں رکھتے سیرن تجربہ گاہ سے جو جنیوا میں قائم ہے ، INFN تجربہ گاہ گریناسوروم روانہ کیے گئے ، وہ 60 نانو سیکنڈ میں اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔ ان کی یہ رفتار روشنی کی
شعاع کی رفتار سے تیز تھی ۔
اس سائنسی تحقیق کے نتائج بہت صدمہ انگیز ہیں کیونکہ جدید طبیعات زیادہ تر آئنسٹائن کے نظریہ پر انحصار کرتی ہے کہ روشنی کی رفتار کائنات کی رفتار کی آخری حد ہے اور اس رفتار سے سفر کرنا ممکن نہیں ہے ۔ بہر حال یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ ہوسکتا ہے اس کی توثیق ہوجائے ۔
روشنی سے تیز رفتار جس کو آج سائنس تسلیم کر رہی ہے ، 621 کے سفر معراج میں ایک واقعہ بن کر پیش آچکا ہے ۔ براق کی رفتار روشنی کی شعاع کی رفتار سے بہت تیز تھی ۔
جو لوگ وقت کے تعلق سے عصری طبیعات کے نظریات اور تحقیقات سے واقف ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ سائنسی طور پر یہ عین ممکن ہے ۔
ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات کے مختلف میدانوں میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں تو ہماری عقل و فہم اور ادراک کی نارسائی بالکل عیاں ہے ۔
وقت کیا ہے؟ وقت کے بارے میں سائسندانوں میں بحث جاری ہے کہ وقت کی حقیقت کیا یے ؟
کیا یہ وہ اس یونیورس کا بنیادی حصہ ہے یا اس کا وجود ہی نہیں ہے اور کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ، اور نہ وہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے ۔ ہم اس کو اپنے دماغ میں بنا تے ہیں ۔ نیورو لوجسٹس اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔
وقت کائنات میں آنے والے بدلاو کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی relative شئ ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے Time is an illusion
وہ کہتے ہیں کہ فزکس کے قوانین بھی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ اب ہمیں تمام equations پر از سر نو نظر ڈالنی ہوگی ۔
Thunder time theory
کے مطابق وقت کا کوئی وجود نہیں ہے
ختم شد