په محرم الحرام کې نکاح کول او صداقت ورکول سنګه دي|

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 21 ก.ย. 2024
  • ماہ محرم الحرام اور یوم عاشوراء
    یوم عاشوراء زمانہٴ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے، قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں(بخاری۱/۴۸۱) بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے؛ چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراء سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں، اور جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں ؛ بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰) لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، جیساکہ حدیث آگے آرہی ہے (معارف الحدیث۴/۱۶۸)
    یومِ عاشورہ کی تاریخی اہمیت
    یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:
    (۱) یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
    (۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔
    (۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔
    (۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔
    (۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
    (۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ھذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وھذا الشھرَ یعنی شھرَ رَمَضَان (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱)
    میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
    مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
    روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔
    ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔
    ماہِ محرم کی فضیلت اوراس کی وجوہات
    یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے.
    اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا․ (الترغیب والترہیب ۲/۱۱۴) یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔
    بعض رسمیں اور بدعات
    (۱) ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت
    عشرہٴ محرم میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلسوں میں، اسی طرح دسویں تاریخ کو تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے؛ حالانکہ اس کے اندر کئی گناہ ہیں:
    (۱) ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہ کی رونق بڑھتی ہے؛ جبکہ دشمنوں کی رونق بڑھانا حرام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ“ (کنزالعمال ۹/۳۶) یعنی جس نے کسی قوم کی رونق بڑھائی وہ انھیں میں سے ہے۔
    (۲) پانی یا شربت کی سبیل لگانا
    بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو پانی کی یا شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں وچوراہوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں تو اگرچہ پانی بلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے؛ لیکن یہ عمل بھی مندرجہ بالا پابندیوں کی وجہ سے بدعت اور قابلِ ترک ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ رشیدیہ ۱۳۹، خیرالفتاویٰ ۱/۵۶۹، بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲/۵۸۸)
    (۳) محرم میں نکاح کرنا
    اس سلسلے میں اصل گفتگو یہ ہے کہ یہ مہینہ معظم ومحترم ہے یا منحوس ہے؟ شیعہ حضرات اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے نزدیک شہادت بہت بری اور منحوس چیز ہے اور چونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس میں ہوئی ہے اس لیے وہ لوگ اس میں کوئی تقریب اور خوشی کا کام شادی ونکاح وغیرہ,
    مفتی عادل باز حقانی صاحب

ความคิดเห็น • 1

  • @FarmanKhan-q2y
    @FarmanKhan-q2y 2 หลายเดือนก่อน +1

    ماشاءالله مفتي صاحب ډير ښکلي