پہلے کبھی کسی شاعر پر اِس طرح کی تعارفی گفتگو نہیں سنی۔ افتخار عارف پر احمد جاوید صاحب کا یہ تبصرہ نہایت دلفریب، دلکش اور منفرد ھے۔ ایک ایک جملہ سمندر کی طرح گہرا اور آسمان کی طرح بلند ھے۔ حیرت انگیز۔
Ifrekhar Arif perhaps the last episode of Urdu literature poetry and polity! However I wish to stand wrong! Because if Urdu is a river it will further nourish and raise people like him and Ahmad jawaid!
استاد محترم کا کہا سر آنکھوں پر لیکن چار برس قبل اسلام آباد میں استاد محترم کا سرسید پر لیکچر سننے کی غرض سے فیصل مسجد کے آڈوٹوریم جانا ہوا تو اس تقریب میں جناب افتخار عارف بھی تھے۔ وقت رخصت میں نے سعادت کی غرض سے افتخار عارف صاحب سے مصافحہ کیا۔ اور اس مصافحے کے لئے باقاعدہ دروازے پر انتظار کیا کہ یہ سب سے فارغ ہو کر نکلیں گے تو ہاتھ ملانے کی سعادت پالوں گا۔ وہ مصافحہ انہوں نے جس حقارت سے فرمایا اس کا کرب آج بھی اپنے دل میں پاتا ہوں۔ بڑے آدمی ہیں، اللہ انہیں لمبی حیات دے۔ مگر مجھے آئندہ ان سے مصافحے کے غلطی سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین
احمد جاوید صاحب نے جو اوصاف عارف بیان کیے ہیں عارف ایسے ہی وصف کے حامل ھوتے ہیں انسانی نفس میں اسی گنجائش کم ہی ہوتی ہے کہ اپنے اوپر کی گئی تنقید کو absorb کر لے
Pray don't upload this discourse in a fast mode. It takes the presence away from his talk. and in Javed Sahib's discourses, his presence and form of the discourse outweighs the benefit that might accrue from the actual content.
افتخار عارف کو ابتدا ہی میں انتہائی جینوئن کہ کر جو جھوٹ اس کی شخصیت اور شاعری بارے آپ نے سنانا شروع کیے تو آگے سننے کو جی نہیں چاہا۔ صرف ابتدائی خوشامدی دروغ گوئی میں سے ایک: بھارت میں ترقی جب کہ 1965 میں روزگار کی تلاش میں کراچی آنے والے نے وہاں کیا ترقی کی ہو گی۔ لکھنؤ کے ایک فرقہ وارانہ مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئے بغیر نکل کر اس نے کیا تیر وہاں مارے ہوں گے۔شوکت صدیقی وفات پا گئے ورنہ ان سے آپ کو پوچھنا چاہیے تھا اور نصیر ترابی کے میٹرو اور جی ٹی وی پر عرض ہنر اور چائے خانہ پروگرامز میں انٹرویوز ہی دیکھ لیتے۔ آج آپ کے بارے میں جو رائے فاصلے سے میں نے قائم کر رکھی تھی وہ بری طرح مجروح ہوئی۔ دیانت سے تجزیہ کرنا، بے تعصبی سے رائے دینا آپ کے بس کی بات ہی نہیں لگ رہی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو راہِ راست پر لائے۔
بڑی علمی گفتگو کی ہے ،احمد جاوید صاحب ـ اللہ حضرت کی عمر میں ،علم میں برکت عطا فرمائے ـ
پہلے کبھی کسی شاعر پر اِس طرح کی تعارفی گفتگو نہیں سنی۔ افتخار عارف پر احمد جاوید صاحب کا یہ تبصرہ نہایت دلفریب، دلکش اور منفرد ھے۔ ایک ایک جملہ سمندر کی طرح گہرا اور آسمان کی طرح بلند ھے۔ حیرت انگیز۔
Waaah.
Ifrekhar Arif perhaps the last episode of Urdu literature poetry and polity! However I wish to stand wrong! Because if Urdu is a river it will further nourish and raise people like him and Ahmad jawaid!
واہ بہت شاندار گفتگو
استاد محترم کا کہا سر آنکھوں پر لیکن چار برس قبل اسلام آباد میں استاد محترم کا سرسید پر لیکچر سننے کی غرض سے فیصل مسجد کے آڈوٹوریم جانا ہوا تو اس تقریب میں جناب افتخار عارف بھی تھے۔ وقت رخصت میں نے سعادت کی غرض سے افتخار عارف صاحب سے مصافحہ کیا۔ اور اس مصافحے کے لئے باقاعدہ دروازے پر انتظار کیا کہ یہ سب سے فارغ ہو کر نکلیں گے تو ہاتھ ملانے کی سعادت پالوں گا۔ وہ مصافحہ انہوں نے جس حقارت سے فرمایا اس کا کرب آج بھی اپنے دل میں پاتا ہوں۔ بڑے آدمی ہیں، اللہ انہیں لمبی حیات دے۔ مگر مجھے آئندہ ان سے مصافحے کے غلطی سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین
افتخار صاحب تو سرتاپا تواضع ہیں
Part 1: th-cam.com/video/S6mUBn_ZkU4/w-d-xo.html
Part 2: th-cam.com/video/RQkZlPuPeIY/w-d-xo.html
Part 3: th-cam.com/video/tnTsgksVh8I/w-d-xo.html
احمد جاوید صاحب نے جو اوصاف عارف بیان کیے ہیں عارف ایسے ہی وصف کے حامل ھوتے ہیں انسانی نفس میں اسی گنجائش کم ہی ہوتی ہے کہ اپنے اوپر کی گئی تنقید کو absorb کر لے
Pray don't upload this discourse in a fast mode. It takes the presence away from his talk. and in Javed Sahib's discourses, his presence and form of the discourse outweighs the benefit that might accrue from the actual content.
افتخار عارف کو ابتدا ہی میں انتہائی جینوئن کہ کر جو جھوٹ اس کی شخصیت اور شاعری بارے آپ نے سنانا شروع کیے تو آگے سننے کو جی نہیں چاہا۔ صرف ابتدائی خوشامدی دروغ گوئی میں سے ایک: بھارت میں ترقی جب کہ 1965 میں روزگار کی تلاش میں کراچی آنے والے نے وہاں کیا ترقی کی ہو گی۔ لکھنؤ کے ایک فرقہ وارانہ مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئے بغیر نکل کر اس نے کیا تیر وہاں مارے ہوں گے۔شوکت صدیقی وفات پا گئے ورنہ ان سے آپ کو پوچھنا چاہیے تھا اور نصیر ترابی کے میٹرو اور جی ٹی وی پر عرض ہنر اور چائے خانہ پروگرامز میں انٹرویوز ہی دیکھ لیتے۔ آج آپ کے بارے میں جو رائے فاصلے سے میں نے قائم کر رکھی تھی وہ بری طرح مجروح ہوئی۔ دیانت سے تجزیہ کرنا، بے تعصبی سے رائے دینا آپ کے بس کی بات ہی نہیں لگ رہی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو راہِ راست پر لائے۔