I think Khalid Jawed is the most important writer of our times. His stories and novels are paintings which have a vast canvas of life, it's pains, sorrows and unacceptable reality. His work is an eye opener to the society and for all generations.
کس قدر عمدہ اور کارآمد گفتگو ۔ مگر خوشی کی بات ہے ہم وہ خوش نصیب روح ہیں کہ اس اعلیٰ مصنف کے ساتھ برسوں صبحیں اور شامیں گزار چکے ہیں اور بہت سی کہانیاں بزبان ِ مصنف سننے کا شرف حاصل رہا ہے ۔ بہت خوب ۔ مرحبا خالد صاحب ( سہیل آزاد )
Dr Javed stands as a literary luminary whose impact resonates far beyond the pages of his books, leaving an indelible mark on the hearts and minds of readers worldwide.
Rekhta ke tamaam rubaru episodes ko dekh kar ye shadeed ehsaas hota hai k kaash moid rahseedi sahab ne Shamsur Rahman Faruqui sahab ka interview liya hota moid sahab ke sawaalat kaafi dilchasp hote hain
خالد جاوید عہد حاضر کا بڑا ناول نگار ہے۔ خالد نے صدیوں کی نافذ کردہ لایعنی روایتوں کو توڑا ہے۔ موت کی موت زندگی کے اصل مفہوم کو پیش کرتی ہے۔ نعمت خانہ انسان کے باطن میں موجود حیوان کی توضیح کرتا ہے۔ ایک خنجر پانی میں اور ارسلان اور ہبزاد کی اہمیت ہعد حاضر کی سماجی معنویت میں بالکل عیا ں ہے۔ معید رشیدی کا لب ولہجہ اور الفاظ کا دروبست اتنا متاثر کُن تھا کہ دہلی و لکھنو کی جملہ تہذیب کا رچاو اور رس میں مدغم ہو کر مشتکل محسوس ہوا۔ ریختہ فاؤڈنیشن کا شکر گزرا ہوں ۔سرحد پار ہم محرومِ آگہان کو خالد جاوید کو سننے کا موقع فراہم کیا۔سلامت رہیں۔
جہاں میں یوں الگ راہوں پر چل کے دیکھتے ہیں۔ دل ملانے کا خیال بدل کے دیکھتے ہیں۔ وہ راستے جن سے یادیں ہیں وابستہ اپنی ۔ ان سے بھی الگ جہاں پے جَل کے دیکھتے ہیں۔ یہ ربط عجب تھا وہ کے کبھی درمیاں اپنے بھی۔ یوں چمنِ دل سے دور نکل کے دیکھتے ہیں۔ راحت تھی جو کبھی تم سے دل کو اب کہ مگر۔ نیاں اک یہ ستم ترے شہر میں کھا کے دیکھتے ہیں۔ گلہ ہی نہیں میرا دیوار سے اب رہا ہے۔ اے صنم مرے درمل اب اوجل کے دیکھتے ہیں۔ یوں شہر ترا، ترے جسم کی طرح ہی خوشبو کا ہے۔ جدا ہوکر حسن سے ، غم یہ بھی کھا کے دیکھتے ہیں۔ گلہ بھی واجب تو ہے، اب تری آرزو کا۔ بے پروہ آگ میں اب کہ مچل کے دیکھتے ہیں۔ شاعر۔عبدالصبور سومرو۔ بحر۔زمزمہ/متدارک مسدس مضاعف۔۔
خالد جاوید ہمارے عہد کے بڑے ناول نگار ہیں اور میرے خیال میں ان معدودے چند ناول نگاروں میں سے ایک جو ناول کے عصری تقاضوں بالخصوص ہیت اور تکینک سے واقفیت رکھتے ہیں۔فلسفیانہ منہج ان کے ناولوں کو اساس فراہم کرتا ہے۔مابعد جدید ناول کی فہم ان سے بڑھ کر شاید ہی کسی دوسرے اردو ناول نگار کو ہوگی۔مجھے انہیں سننا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
I think Khalid Jawed is the most important writer of our times. His stories and novels are paintings which have a vast canvas of life, it's pains, sorrows and unacceptable reality. His work is an eye opener to the society and for all generations.
شکریہ ہے کہ ہم عہد ِ "خالدی" میں جی رہے ہیں
استاد محترم کا بیانیہ بے حد دلچسپ ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ خالد جاوید سر ہمارے استاد ہیں ۔
Kuch aisa lga.. jaise bahot kuch adhura reh gya..
wah.. bahot hi khoobsoorat guftagu..
کس قدر عمدہ اور کارآمد گفتگو ۔ مگر خوشی کی بات ہے ہم وہ خوش نصیب روح ہیں کہ اس اعلیٰ مصنف کے ساتھ برسوں صبحیں اور شامیں گزار چکے ہیں اور بہت سی کہانیاں بزبان ِ مصنف سننے کا شرف حاصل رہا ہے ۔
بہت خوب ۔ مرحبا خالد صاحب
( سہیل آزاد )
Dr Javed stands as a literary luminary whose impact resonates far beyond the pages of his books, leaving an indelible mark on the hearts and minds of readers worldwide.
Rekhta ke tamaam rubaru episodes ko dekh kar ye shadeed ehsaas hota hai k kaash moid rahseedi sahab ne Shamsur Rahman Faruqui sahab ka interview liya hota moid sahab ke sawaalat kaafi dilchasp hote hain
Khalid sahab's writing is magical
بہت ہی فکر انگیز اور دلچسپ گفتگو مگر تشنہ
Khalid Javed sir k saath ek episode aur kijiye .. bohat meharbani hogi.....
Love u Rekhta❤
Jazaak Allah kullo Khair
شکریہ سر❤
MashAllah
بڑی کارآمد گفتگو ❤️
کمال۔۔۔❤️
ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں
اختر شاهجها نپوری ❤
बेहतरीन
Bahut shandaar 💐
خالد جاوید عہد حاضر کا بڑا ناول نگار ہے۔ خالد نے صدیوں کی نافذ کردہ لایعنی روایتوں کو توڑا ہے۔ موت کی موت زندگی کے اصل مفہوم کو پیش کرتی ہے۔ نعمت خانہ انسان کے باطن میں موجود حیوان کی توضیح کرتا ہے۔ ایک خنجر پانی میں اور ارسلان اور ہبزاد کی اہمیت ہعد حاضر کی سماجی معنویت میں بالکل عیا ں ہے۔ معید رشیدی کا لب ولہجہ اور الفاظ کا دروبست اتنا متاثر کُن تھا کہ دہلی و لکھنو کی جملہ تہذیب کا رچاو اور رس میں مدغم ہو کر مشتکل محسوس ہوا۔ ریختہ فاؤڈنیشن کا شکر گزرا ہوں ۔سرحد پار ہم محرومِ آگہان کو خالد جاوید کو سننے کا موقع فراہم کیا۔سلامت رہیں۔
This one should also have been in two parts parts like Qasmi sb's.
جہاں میں یوں الگ راہوں پر چل کے دیکھتے ہیں۔
دل ملانے کا خیال بدل کے دیکھتے ہیں۔
وہ راستے جن سے یادیں ہیں وابستہ اپنی ۔
ان سے بھی الگ جہاں پے جَل کے دیکھتے ہیں۔
یہ ربط عجب تھا وہ کے کبھی درمیاں اپنے بھی۔
یوں چمنِ دل سے دور نکل کے دیکھتے ہیں۔
راحت تھی جو کبھی تم سے دل کو اب کہ مگر۔
نیاں اک یہ ستم ترے شہر میں کھا کے دیکھتے ہیں۔
گلہ ہی نہیں میرا دیوار سے اب رہا ہے۔
اے صنم مرے درمل اب اوجل کے دیکھتے ہیں۔
یوں شہر ترا، ترے جسم کی طرح ہی خوشبو کا ہے۔
جدا ہوکر حسن سے ، غم یہ بھی کھا کے دیکھتے ہیں۔
گلہ بھی واجب تو ہے، اب تری آرزو کا۔
بے پروہ آگ میں اب کہ مچل کے دیکھتے ہیں۔
شاعر۔عبدالصبور سومرو۔
بحر۔زمزمہ/متدارک مسدس
مضاعف۔۔
خالد جاوید ہمارے عہد کے بڑے ناول نگار ہیں اور میرے خیال میں ان معدودے چند ناول نگاروں میں سے ایک جو ناول کے عصری تقاضوں بالخصوص ہیت اور تکینک سے واقفیت رکھتے ہیں۔فلسفیانہ منہج ان کے ناولوں کو اساس فراہم کرتا ہے۔مابعد جدید ناول کی فہم ان سے بڑھ کر شاید ہی کسی دوسرے اردو ناول نگار کو ہوگی۔مجھے انہیں سننا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
17:30
Zindabad bhai Zindabad ❤
Lagend ♥️♥️
💫💫👍✨✨55:00…
❤❤❤
❤
Sir ❤
French Kafka
काफ़्काइ फ़लसफ़ा/Litrature से प्रेरित दिखते है लेकिन प्रोफेसर जावेद के साथ वो सफरिंग नज़र नहीं आती ।
Chashme baddoor
बड़ी आला गुफ़्तगू है।
ख़ालिद जावेद को सुनना किसी तजरबे से कम नहीं।
Sir ❤❤