Allama Iqbal & M Abul Hassan Nadvi | By Maulana Yousaf khan | علامہ اقبال اور مولانا ابوالحسن ندوی

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 11 ก.ย. 2024
  • International Conference on Allama Muhammad Iqbal (Poet of Islam)
    Complete : • International Conferen...
    MessageTV Official Social Media Accounts
    Facebook: / messagetv
    Twitter: / messagetvdottv
    Telegram: telegram.me/me...
    Email: info@messagetv.tv
    Web site: www.messagetv.tv
    Satellite Channel: MessageTv Satellite frequency AsiaSat-3S, 105.5°E
    Downlink Freq: 3752MHz, V-Pol ,Symbol Rate:2331MS/s

ความคิดเห็น • 55

  • @salmasiddique6350
    @salmasiddique6350 6 ปีที่แล้ว +13

    بیشک الله تعالى ہمارے علماء کرام کو قبول فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے آمین اور جو باحیات ہیں ان کی حفاظت فرمائے آمین

  • @LEARNARABICWITHNADWI
    @LEARNARABICWITHNADWI 4 ปีที่แล้ว +10

    كان الشيخ أبو الحسن على الحسني الندوي عارفا بالعلامة الشاعر إقبال كثيرا وعرَّفه في البلاد العربية بكتابه روائع اقبال

  • @allindiaindia8962
    @allindiaindia8962 6 ปีที่แล้ว +15

    اللہ تعالٰی مولانا صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین یارب العالمین

  • @sifatullahmdsifatullah6156
    @sifatullahmdsifatullah6156 6 ปีที่แล้ว +21

    مولانا کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے آمین

  • @mohammadsharif4398
    @mohammadsharif4398 4 ปีที่แล้ว +1

    اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے آمین یاربّ العالمین

  • @ibrahimjagrala7971
    @ibrahimjagrala7971 3 ปีที่แล้ว +1

    انا اشکرک بصمیم القلب یا سماحہ الشیخ ، رئیس العالم ، استاذ الاساتذہ مولانا ابا الحسن علی الندوی حافظ محمد جاوید کھریاسنی

  • @imtiyazbinabdullah2317
    @imtiyazbinabdullah2317 4 ปีที่แล้ว +2

    Allah u akbar...
    Very Good .......

  • @kamilkhan1792
    @kamilkhan1792 5 ปีที่แล้ว +3

    ماشاءاللہ

  • @haniyanandoliya9259
    @haniyanandoliya9259 4 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah

  • @meerakbar1172
    @meerakbar1172 4 ปีที่แล้ว +1

    Masaallah masaallah masaallah masaallah masaallah masaallah masaallah sobhanallah LAILAHA illlah Islam Zindabad India Zindabad Jazakallah masaallah good Spech

  • @mohammediftekhar1061
    @mohammediftekhar1061 4 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah bhot khubsurat

  • @iqbalansari9487
    @iqbalansari9487 3 ปีที่แล้ว

    اللہ حضرت شیخ ابوالحسن علی میاں صاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے آ پ رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کو منور فرمائے جنت فردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین یا رب العالمین 🌹🌴🤲🌹

  • @WaseemKhan-jm3ud
    @WaseemKhan-jm3ud 3 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah ❤❤❤😥😥😥

  • @arifkhannadwi4683
    @arifkhannadwi4683 6 ปีที่แล้ว +5

    الله تعالٰی جزائے خیر عطا فرمائے

  • @tayyabqasmigangohi9096
    @tayyabqasmigangohi9096 6 ปีที่แล้ว +4

    مبروک

  • @mdatharkhankhan9686
    @mdatharkhankhan9686 5 ปีที่แล้ว +1

    Mashallah subhanallah alhamdulillah allahhuakbar

  • @AamirKhan-of1ce
    @AamirKhan-of1ce 4 ปีที่แล้ว +1

    Masaallah

  • @irfanahmad1196
    @irfanahmad1196 5 ปีที่แล้ว +2

    Masa Allah

  • @canadianbihari3820
    @canadianbihari3820 2 ปีที่แล้ว

    Hindustani musalman k liye nadwi sahebh fakr ki baat hai🇮🇳

  • @pecificbms
    @pecificbms 6 ปีที่แล้ว +1

    Very nice information

  • @mohammediftekhar1061
    @mohammediftekhar1061 3 ปีที่แล้ว

    Bhot khubsurat

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    رمضان کا عظیم الشان مہینہ امہ مسلمہ
    پر سایہ فگن
    عالم اسلام رمضان المبارک کی آمد سے سرشار
    اور استقبال کے لیے چشم براہ
    اس کرہ ارض پر جہاں جہاں مسلمان موجود ہیں خواہ وہ کسی بھی ملک اور نسل و رنگ سے تعلق رکھتے ہوں ، اس خیر و برکت سے معمور مہینہ کے استقبال کے لیے دیدہ و دل
    فرش راہ کیے ہوئے ہیں ۔
    حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
    شعبان کے آخری دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :
    " اے لوگو! ایک بہت ہی مبارک مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے "۔
    اللہ اللہ یہ ہلال رمضان ہے ! ہمارا اور اس کا رب اللہ ہے ۔ اے اللہ اس ہم پر برکت اور ایمان و سلامتی کے ساتھ طلوع فرما اور ہر اس کام کی توفیق عطا فرما جس کو تو پسند کرتا اور جس سے تو راضی ہوتا ہے ۔ خیر و رشد ، راستی و راست روی کا ہلال ! تمام حمد و ستائش اس ذات بابرکات کے لیے ہے جو رؤیہ ہلال اور اس خیر و برکات سے معمور مہینہ کو ایک بار پھر ہمارے لیے لے آیا ۔
    اس ماہ مبارک کی فضیلت بیان کرتے ہوئے اللہ جل شانہ فرماتے ہیں :
    " ماہ رمضان وہ ہے جس میں جس میں قرآن نازل کیا گیا ، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے تو تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے تو اس پر فرض ہے کہ اس کے روزے رکھے ۔۔۔۔ اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی بیان کرو ، شاید تم شکر گزار بنو ۔
    گزرے ہوئے سال ہم نے بیٹے ہوئے رمضان کا استقبال کیا تھا ۔ اب وہی بابرکت رمضان اس سال ایک بار پھر آگیا ہے ، اپنے فضائل اور گونا گوں برکتوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے تاکہ ہم ایک بار پھر اس کا خیر مقدم کریں
    ماہ فرمانبردای ، ماہ اطاعت گزاری اہلا و سہلا
    مرحبا بک ، ماہ تزکیہ روح و بدن ، ماہ تزکیہ نفس و روح ، ماہ اطاعات گزاری اور ماہ طہارت و پاکیزگی ۔
    آخری

  • @mohammediftekhar1061
    @mohammediftekhar1061 3 ปีที่แล้ว

    ما شاءالله تباك الله

  • @abdulquddoosnadwi3389
    @abdulquddoosnadwi3389 4 ปีที่แล้ว +1

    اللّٰہ حضرت کی قبر کو نور سے منور کردے

  • @syedahmed6644
    @syedahmed6644 4 ปีที่แล้ว +2

    Allama iqbal sufi khaeyalaat sae mutasir thaen

  • @tasneemahmed9558
    @tasneemahmed9558 5 ปีที่แล้ว +4

    For your kindly information in Bhopal My Grandfather Iqbal Hussain khan. Was only his Student. My Grandfather was also ADC of His Excellency king of Bhopal late Hamid Ullah khan. For some time. And retired from Deputy from Land record.

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
    عالم انسانیت کے لیے آخری کتاب ہدایت
    رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
    إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
    ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
    قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
    " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
    دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
    ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
    اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
    قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
    ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
    تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
    اگلی آیہ میں فرمایا :
    والذين كفروا و كذبوا باياتنا أولئك أصحاب النار هم فيها خالدون o
    اور جو لوگ اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائین گے ، وہ آگ میں رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ
    رمضان المبارک کو قرآن مجید سے ایک خاص نسبت ہے ۔ قرآن کریم کی اس ماہ مبارک سے نسبت کا ذکر خود قرآن میں اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے :
    إنا انزلناه في ليلة القدر o ليلة القدر خير من ألف شهر o
    ہم نے اس کو (قرآن ) نازل کیا شب قدر میں جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے "۔
    قرآن پاک کی اس ماہ مبارک سے نسبت خود قرآن میں آیا ہے ۔ اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت کا ذکر ہے اور اس میں شب قدر کی غیر معمولی اہمیت اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے قرآن کی عظمت کی طرف اشارے کیے گئے ہیں :
    " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں "
    دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی آیات میں ہدایت کی واضح نشانیاں اور دلائل ہیں ۔ یہ ڈر حقیقت ایک کتاب ہدایت ہے
    ابتداء آفرینش سے اللہ جل شانہ کے پیش نظر نوع انسانی کی ہدایت رہی ہے ۔
    اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
    قلنا اهبطوا منها جميعا ، فإما يأتيكم منى هدى فمن تبع هداى فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون o
    ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اترجاؤ ، پھر میری طرف سے جو ہدایت تمہارے پہنچے
    تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے تو ان کو کوئی خوف اور حزن نہ ہوگا ۔
    آدم علیہ السلام کو کرہ ارض پر بھیجتے وقت جو بات کہی گئی کہ زمین پر تم کو یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا بلکہ تم تک ( سے بنی نوع انسان ) میرا پیغام ہدایت پہنچتا رہے گا
    اور تم کو ان ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرتے رہنا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی زندگی میں خوف و حزن سے محفوظ رہوگے ۔
    اس کے مقابلے میں انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ جل شانہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے سے انکار کردے گا ۔
    وہ لوگ گمراہی کے مختلف راستوں پر چلنے والے ہوں گے ۔ ان کا انجام جہنم کی آگ ہے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔۔
    اللہ جل شانہ کی یہ ہدایت انبیاء علیہم السلام لے آتے رہے ۔ اللہ کی یہ ہدایت انسانی تاریخ کے مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے رمضان المبارک میں نزول قرآن پر مکمل کردیا گیا
    اور اب پوری عالم انسانیت کے لیے صرف قرآن ہی آخری کتاب ہدایت ہے ۔ یہ نسل انسانی کے لیے ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو " عہد " تعبیر کیا گیا ہے ۔ انسان کا کام خود اپنے لیے کوئی راستہ اختیار کرنا نہیں ہے ، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گونہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامور ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی آخری کتاب ہدایت کی مکمل پیروی کرے
    اس کے علاوہ ہر صورت غلط ہی نہیں سراسر بغاوت ہے جس کی سزا دائمی جہنم کے عذاب کے سوا اور کچھ نہیں ۔
    جاری

  • @shifanahitalmani9748
    @shifanahitalmani9748 5 ปีที่แล้ว +1

    aslamualaikum both ACH hai aa video kisna banvaya hai

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    دوسری قسط :
    علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :
    " اس وقت مسلمان اہل قلم کے بحث و فکر کا عام موضوع اور مؤرخین و مصنفین کے غور و فکر اور بحث و تحقیق کا میدان یہ تھا کہ دنیا میں پیش آنے والے واقعات ، عظیم جنگوں ، سلطنتوں کے سقوط ، یوروپ کی نشاة ثانیہ ، صنعتی انقلاب اور مغربی سامراج سے مسلمانوں پر کیا اثر پڑا اور انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ گویا مسلمان تاریخ کا کوئی "عامل " نہیں بلکہ " معمول " ہے اور اثر انگیز واقعات اور واقعات و انقلاب زمانہ کا تختہ مشق ہیں ۔ اردو محاورہ کے مطابق وہ خربوزہ کی طرح ہیں کہ وہ چھری پر گرے یا چھری اس پر گرے نقصان بہر حال خربوزہ کا ہوگا ۔
    " میرے علم میں ابھی تک کسی نے اس نظریہ کو پلٹ کر اس طرح سے سوچنے اور لکھنے کی منظم علمی اور تاریخی انداز پر کوشش نہیں کی کہ مسلمان تاریخ کا ایک ایکٹر ( Actor) نہیں ، بلکہ ایک طاقتور تاریخی بلکہ تاریخ ساز عامل کی حیثیت رکھتے ہیں . وہ نقال و مقلد نہیں ہیں ۔ اہل مغرب کی سازش اور پروپیگنڈہ سے متآثر ہوکر احساس کمتری کا شکار ہوکر دین کے مسلمات و حقائق کی تاویل کرنے لگے
    جو باتیں یوروپ کے پیمانہ اخلاق کے مطابق
    نظر نہیں آئیں ان کو اسلام کے خلاف اور منافی کہنے لگے ۔
    مغرب نے یہ اپنی مستقل پالیسی بنالی کہ امہ مسلمہ ان کی دشمن ہے ۔ دنیا میں ہزارو لاکھوں مذاہب اور تہذیبیں ان میں سے کسی کے خلاف عناد و دشمنی ہی نہیں بلکہ بحث و تحقیق کا ایک بہت بڑا اور وسیع باب کھول دیا
    اور اس کے ذریعہ اسلام کے خلاف خوب زہر افشانی کی گئی ۔
    ایسی عالمی صورت حال میں علامہ ندوی رحمہ ایک جرات ایمانی کے ساتھ عالم عرب کے سامنے اپنی یہ کتاب ' ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ' پیش کیا ۔
    علامہ ندوی رحمہ کے نزدیک عصر حاضر کی جاہلیت کی لائی ہوئی مشکلات اور مسائل کا حل صرف یہی ہے کہ عالم انسانیت کی قیادت ایک بار پھر اسلام کے ہاتھوں میں آجائے ، اس لیے وہ اپنی اس کتاب میں مسلمانوں اور مسلم ملکوں کو نصیحت کی کہ وہ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوکر ایک بار پھر عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لیں ۔ صحیح منزل کی طرف واپسی ، امید اور نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہ یہی ہے کہ مسلمان پھر منصب قیادت پر فائز ہوں اور دنیا کی رہنمائی إسلام کے حصہ میں آئے ۔
    علامہ ندوی رحمہ اس کتاب میں مسلمانوں کے زوال کی المناک داستان بیان کی ہے ، اس کے تدریجی ارتقا اور حقیقی اسباب پر روشنی ڈالی ہے ، پھر ترکوں کے میدان قیادت میں آنے اور عالم اسلام کے سنبھلنے کا ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد خود ترکوں میں انحطاط و تنزل شروع ہونے ، اس کے اسباب اور آخر میں اس کے نقطہ عروج میں پہنچ جانے ، اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔
    اس کے بعد کتاب کا وہ اہم باب شروع ہوتا ہے ، جس میں یوروپ کے منصب قیادت پر آنے اور دنیا کی زمام کار ہاتھ میں لینے کی تاریخ اور اس کے طبعی اور مادری اسباب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا ہے کہ اس نے کیوں اور کس طرح عیسائیت سے انحراف کیا اور خالص مادیت کے راستہ پر چل پڑا ، اس کے تاریخی اسباب و محرکات کا ذکر کیا ہے ۔
    یوروپ میں کلیسا اور سائنس کی آویزش ، دین و دنیا کی علیحدگی ، دونوں کے درمیان رقابت اور یوروپ کے اخلاقی زوال اور نئے مادی تصورات و اقدار جو خالص مادی نظریہ ارتقا پر مبنی تھے جس نے پورے انسانی علوم و فنون کو زہر آلود اور اخلاق و روحانیت سے بالکل عاری کردیا ہے ۔ یہ انسان کی اخلاقی اور روحانی تاریخ کا بڑا المناک اور سیاہ باب ہے ۔
    اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں اس کتاب کو لکھے ہوئے 71 سال گزر چکے ہیں ۔ ہمارے سامنے عالم اسلام ، عالم عرب اور مغرب کے احوال بالکل واضح ہیں کہ عالم انسانیت اس وقت کہاں پہنچ چکی ہے اور امت مسلمہ کی حالت کتنی ناگفتہ بہ ہے ۔ عالم عرب جو علامہ ندوی رحمہ کی دعوت کی جولانگاہ اور ان کی ارزوؤں اور تمناؤں کا مرکز تھا ، آج کس حد تک اسلام سے منحرف ہوچکا ہے اور اس کی قدر و قیمت کا معتقد ہوکر مغرب کی جدید جاہلیت کے آغوش میں جا چکا ہے ۔
    مسلم ملکوں کی اکثریت شکست خوردہ ، فریب خوردہ اور مایوس ہوکر بزدل اور خود غرض ہوچکی ہے ۔ ان کی اکثریت اسلامی فکر کے اعتبار سے معطل اور سیکولرزائڈ ہوچکی ہے ۔ استعماری طاقتوں کے مسلم ملکوں سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی فکری استعماریت نہ صرف علی حالہ برقرار رہی بلکہ اب خود نام نہاد مسلم قیادت کے ہاتھوں زیادہ ظلم و جبر کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔
    ان حالات کا سب سے زیادہ فائدہ یہودیت کو ہوا ۔ وہ اکیسویں صدی کی دو دہائیوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ و مامون اور معتبر ہوگئی ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان امہ مسلمہ کو ہوا ہے جس کی قوت ملت کی سطح پر بٹ کر اس کے خلاف ہی استعمال ہونے لگی ۔ مسلم ملکوں کی قیادت نے اپنے عوام کو ظلم و بربریت کے ساتھ کچلنا شروع کردیا اور اپنی قیادت سے نفرت کرنے اور انہیں بیخ و بن سے اکھاڑنے پھینکنے کی جد و جہد کرنے لگی ۔
    یہودیت کی جارحانہ پیشقدمی جاری رہی ، اس لیے کی ان کی بالواسطہ( Proxy war) مسلم ملکوں کی قیادتیں لڑ رہی ہیں ۔ ماضی قریب کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلم ملکوں میں یہودی اپنی لڑائی اس طرح نہ لڑپاتے جیسی ان کے لیے مسلم قیادت نے لڑی !
    امہ مسلمہ نے اس صدی میں تقریبا چھ کروڑ فرزندان کو خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر دم توڑتے ہوئے دیکھا ہے لیکن جو چیز اسے سچن سے زیادہ مضطرب کیے ہوئے ہے وہ یہ منظر ہے جو وہ آج دیکھ رہی ہے ۔ پورے عالم اسلام خود فروش اور صیہونی مغربی طاقتوں کے آلہ کار اور گماشتے حکمران کے ہاتھوں اسے دیکھنا پڑ رہا ہے ۔
    مسلم ممالک کی قیادت کی یہ روش امہ مسلمہ کی قابلیت اور توانائیون کی بربادی اور ان کے خلاف رد عمل کی طرف لے جارہی ہے ۔ یہ امہ مسلمہ کے قابل اور کار آمد انسانی سرمایہ کو ختم کرنا امہ مخالف کارروائی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ایسی مجرمانہ حرکتوں
    کا ارتکاب کرنے والے امہ کے خیرخواہ اور قائدین ہرگز نہیں ہوسکتے!
    لیکن ان تمام دل شکن اور اسلامی جذبات کو مجروح کرنے والی خون چکاں حالات کے بعد
    ہم سرزمین افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کا قیام اور اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ حقیقت یہ کہ علامہ ندوی رحمہ نے اپنی اس شہرہ آفاق تصنیف میں مسلم ملکوں کے حکمرانوں سے یہ کہا تھا کہ وہ قرانی اور اسلامی زندگی اختیار کریں اور اسلامی نظام کو اپنے ملکوں میں نافذ کریں جو محرومی نصیب سے اب تک نہیں ہوسکا تھا لیکن طالبان کی اسلامی فوج نے وہ کام کر دکھایا ۔
    علامہ اقبال رحمہ نے عربوں کو مخاطب کرکے کہا تھا :
    خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
    قبا چاہیے اس کو خون عرب سے
    عرب تو صیہونی مغربی طاقتوں کے غلام اور آلہ کار بن گئے ۔ وہ تیل سے ہونے والی آمدنی سے عیش کوشی کر رہے ہیں :

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
    جو شئی کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
    مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
    یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
    جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
    اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
    شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
    جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
    بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
    جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
    علامہ اقبال رحمہ

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    سقوط خلافت کے بعد امہ مسلمہ
    کی حالت زار
    آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی کہ " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پڑتے ہیں "۔
    اس پیش گوئی کا آغاز صلیبی جنگوں( ١٠٩٥-- ١٢٩١) سے ہوا ۔ یہ عالم عیسائیت کا امت مسلمہ پر پہلا اور زبردست حملہ تھا ۔ اس کے پیچھے یہودی سازش کام کر رہی تھی ۔ یہ پہلی صلیبی جنگ تھی جس میں جس عیسائی بیت المقدس قابض ہوگئے ۔
    ١٤٩٣ میں جنوبی اسپین میں اموی حکومت کو ختم کردیا گیا ۔ اس کے بعد یوروپ میں عثمانی سلطنت کے خلاف صلیبی جنگ کی آواز بلند ہونے لگی ۔ ان کے خلاف در پردہ گہری ، طویل المدت اور منصوبہ بند سازش کے تحت عمل ہوتا رہا ۔
    ١٦٨٣ میں ویانا میں قرہ مصطفی پاشا کو یوروپی ممالک کے مقابلہ میں ایک بڑی شکست ہوئی ۔ سلطنت عثمانیہ کی اس شکست پر پورے یوروپ میں بہت خوشی منائی گئی ۔
    آسٹریا ، بولونیا ، وینس ، سلطنت روس ، رہبان مالٹا اور پاپائے روم نے مل کر " مقدس عہد" کیا کہ یوروپ سے عثمانیوں کو نکال کر دم لیں گے تاکہ اسلام یوروپ میں عیسائیت کا حریف نہ بن سکے اور اس کے اثرات بالکل ختم ہوجائیں ۔
    ١٦٩٩ میں معاہدہ کرلووٹز( Treaty of Korlowitz) ہوا ۔ اس کے تحت بہت سے یوروپی مفتوحہ علاقوں کو اسے چھوڑ نا پڑا اس کے بعد عثمانی سلطنت کمزور ہوتی چلی گئی ۔ عثمانی فوج کا یوروپی ممالک اور ان کے افواج پر جو رعب و دبدبہ تھا وہ بھی کمزور ہوگیا ۔
    حقیقی خلافت تو ٦٦١ ھ ہی میں ختم کردی گئی تھی ۔ اس کی وجہ صرف داخلی نہیں بلکہ خارجی بھی تھی لیکن روئے ارض پر اس کی اعتباری حیثیت باقی رہی ۔ مرور زمانہ کے ساتھ وہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی اور اس کا جاہ و جلال اور تب و تاب بھی ختم ہوگیا ۔ سلطنت عثمانیہ کے آخری زمانہ میں صیہونی صلیبی منصوبہ بند سازشوں نے زور پکڑا ۔ خلافت اور اسلامی تعلیمات کو بیکار اور فرسودہ قرار دے کر یوروپ کے جمہوری نظام اور ملحدانہ نظریات کے لیے راہ ہموار کی جانے لگی ۔ مصطفی کمال اتاترک ایک مسلم نما یہودی فوجی کمانڈر کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا اور اسی کے ہاتھوں خلافت کی قبا چاک کردی گئی ۔
    چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا میں
    سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
    سلطنت عثمانیہ ہی عالم اسلام اور امہ مسلمہ کی مرکزی طاقت اور جائے پناہ تھی جس نے سارے عالم اسلام كو متحد کر رکھا تھا ۔
    عثمانیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی وہ خدمات کیں جن سے عباسی خلافت اپنی شکستہ حالت اور ناتوانی کی وجہ سے بالکل قاصر ہوچکی تھی ۔ چھ سو سال تک وہی صلیبی حملوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے سینہ سپر اور شمشیر بکف رہے ۔ جسد اسلامی کو انہوں نے ہی صیہونی اور صلیبی حملوں سے بچاکر رکھا تھا ۔ اس لیے اعداء اسلام کی غاضبانہ نظر انہیں پر مرکوز رہی کہ اگر عثمانی سلطنت کو ختم کردیا جائے تو سارا عالم اسلام ان کے قبضہ میں آجائے گا اور
    دنیا کی حکمرانی اور قیادت ان کے ہاتھوں میں آجائے گی ۔
    بالآخر صدیوں کی مسلسل سازشوں اور منصوبہ بند عمل اور کوششوں سے وہ اپنے ناپاک اور شیطانی منصوبہ میں کامیاب ہوگئے ۔
    سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد امہ مسلمہ بے یار و مددگار ہوگئی اور اس کا کوئی پرسان حال نہ رہا ! وہ اعداء اسلام کے نرغے میں آگئی
    انہوں نے جسد اسلامی کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے
    عالم اسلام کا شیرازہ بکھیر کر ان پر غاصبانہ قبضے کرلیا ۔
    اس کے بعد جدید ابلیسی عالمی نظام کے تحت ان کو طرح طرح کے شکنجوں میں اس طرح جکڑ دیا کہ وہ لاچار ، بے بس اور بالکل مجبور گئی ۔ 1948 میں فلسطین میں اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کردی گئی ۔
    ایک عالمی منصوبہ بند سازش کے تحت
    نامہ مسلمہ کو دین اسلام سے متنفر اور دور کیا جانے لگا ۔ مسلم ملکوں کی طاقت کو توڑ کر خود اس کے خلاف استعمال کیا جانے لگا ۔
    ان وجوہات سے امہ مسلمہ مخلتف قسم کی ذہنی اور نفسیاتی اضطراب میں مبتلا ہوگئی ۔ اس صورت حال نے امہ مسلمہ پر بہت خراب منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور وہ ذہنی جمود اور تعطل کا شکار ہوگئی ۔
    خلافت کے خاتمہ کے بعد مسلسل اس کی حمیت ، دہنی غیرت اور اسلامی تشخص پر ہونے والے حملوں سے اس کی ملی آرزوؤں اور امنگوں کا خون ہوتا رہا ۔ ان تمام تکلیف دہ حالات کا سبب سقوط خلافت کے بعد مسلم ممالک میں بٹھائی ہوئی نام نہاد مسلم قیادت ہے ۔ وہ فریب خوردہ ، شکست خوردہ ، بے نشاط اور بزدل ہوکر منافق ہوگئی ہے ۔ وہ اسلامی فکر و نظر سے محروم اور لادین ہوچکی ۔ آج امہ مسلمہ کو یہی شکایت ہے اور وہ اسی زبون حال قیادت کی منافقت اور بزدلی کا شکار ہے ۔ انہیں اگر فکر ہے تو صرف اس کی کہ ان کے سرپرست اور مغربی آقا کہیں ناراض نہ ہوجائیں اور ان کی نظر عنایت سے محروم نہ ہوجائیں ۔ سید قطب شہید رحمہ کے برادر خورد محمد قطب رحمہ نے 1990 میں ایک کتاب ' واقعنا المعاصر ' لکھی تھی ۔ اس انہوں نے امہ مسلمہ کی اب تک کی سرگزشت اور عناصر تاریخ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ یہ کتاب سعودی عرب سے شائع ہوئی تھی ۔
    یہ ایک مختصر تحریر ہے جسے مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    بسم الله الرحمن الرحيم
    نظرة التجديد فى أدب العقاد
    رسالة للدكتوراه
    الدكتور محمد لئيق الندوي
    إن الحملة الفرنسية كانت نقطة بدء في وصل المصريين بأوروبا ، و فى فتح عيونهم على نمط أوربی في الحیاة . و اتصال المصريين بالحضارة الأوربية قد اعدهم لتقبل الجديد الذى طرأ على حياتهم فيما بعد . سواء أكان من الناحية الاجتماعية أم الثقافية أم الأدبية . ١
    وأفاد الدارسون من التيارات الفكرية والأدبية الفرنسية و الإنجليزية بصفة خاصة والتيارات الأدبية بصفة عامة منذ توثقت صلتهم بها فوسع ذلك من آفاقهم و هيأ نفوسهم لإعادة النظر فى حياتهم السابقة و آدابهم القديمة . ٢
    و قد شغل النقد الأدبى حيزا واسعا فى دائرة الدراسات الإنسانية . و قد ربط الأستاذ عباس محمود العقاد النقد العربي بالنقد العالمى و نقد الشعر على أسس و مبادئ نظرية ، و وضع له بعض المقومات الحديثة التى تتفق و مقومات الشعر العربي لكئ تفتح له آفاق جديدة بدلا من الجمود على الأدب القديم .
    و لم يكن تجديده مقصورا على مناهج دراسة الأدب ، بل تجاوزها إلى الحديث عن النظريات و المبادئ النقدية في الآداب الأوربية و محاولة تطبيقها في الشعر العربي حتى يساير العصر و التقدم الحضارى .
    قام العقاد بالدعوة إلى ضرورة التجديد و الأخذ بثقافة الغرب فى النقد و الشعر بصفة خاصة . و يجدر بنا أن نقف قليلا عن نظرته إلى الحياة و مفهوم الأدب عنده ليتسنى لنا بعد ذلك البحث عن نظرته التجديدية في كتاباته الأدبية .
    الحياة هى أعم من الكون في نظر العقاد . و كذلك الكون و الفن و مناظر الأرض و السماء كل هذه الأشياء هى إنما هي مظهر التالف و التنازع بين الحرية و الضرورة أو بين الجمال و المنفعة أو بين الروح و المادة ، هذه كلها قوى مطلقة لها قوانين تحكمها . و كلما ائتلفت تلك القوى و القوانين اقتربت من السمة الفنية و النظام الجميل الذى يبين بالمادة و صفاء الروح و يسير بالقيود أغوار الحرية فى هذا الوجود .٣
    بهذه النظرة العميقة للحياة نظر إلى الأدب و نبه إلى اجتناب الأخطاء التي شاعت حول مفهومه ، و رأى أن الخطأ الأكبر الذى أضر به إنما هو النظر إلى الأدب كأنه وسيلة للتلهى و التسلية لانه هو أساس الخطأ جميعا في فهم الآداب ، و الفارق الأكبر بين كل تقدير صحيح و تقدير معيب في نقدها و تمحيصها . ٤
    هذه الصور الحقيقية للآداب مشروحة على حقيقتها الأبدية . و أخيرا يعقب العقاد على ذلك كله بما يفيد أن ذلك هو مقياس الأدب يوصي به القراء . و على هذا المقياس يعول في تمييزه و تصحيح النظر إليه .
    ١ - محمد فؤاد شكرى : الحملة الفرنسية على مصر و ظهور محمد على ص : ١٧١ ، القاهرة
    ٢- جمال الشيال : تاريخ الترجمة و حركة الثقافية في عصر محمد على ص : ٢١٤
    ٣- عباس العقاد : مطالعات فى الكتب و الحياة - المقدمة
    ٤- المرجع السابق : الأدب كما يفهمه الجيل - ص ١
    محتويات البحث
    المقدمة : تعريف بموضوع الرسالة و أهميته
    و سبب اختياره ص ٤ -- ١٣
    نظام الأبواب و الفصول ص ١٤ -- ١٨
    الباب الأول : التجديد التجديد في الإسلام
    و مجالات التجديد ص ١٩
    الباب الأول
    المبحث الأول : معنى التجديد في الإسلام
    ص ٢٠ -- ٢٣
    المبحث الثاني : أول تجديد حقيقى في التاريخ
    الإنسانى ص ٢٤ -- ٢٧
    الفصل الثاني :
    المبحث الأول : بداية العصر الحديث
    ص ٢٨ -- ٣٢
    محمد على (١٧٦٩ -- ١٨٤٩ ) ص ٣٣ -- ٣٩
    المبحث الثاني : التجديد في الأدب قديما
    و حديثا ص ٤٠ -- ٥٠
    المصادر و المراجع ص ٥١ -- ٥٢

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
    جدید سائنس کی روشنی میں
    ( 4 )
    واقعہ معراج اللہ جل شانہ نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :
    بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o ( البقرة : ١١٧ )
    ( وہ اللہ کی ذات ) سب آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ ایک امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ
    " ہوجا " تو وہ ہوجاتی ہے ۔" ۔
    کی غیر محدود قوت اور قدرت کا مظاہرہ تھا ۔ آج کا دور خلائی تحقیقات کا دور ہے ۔ اس لیے ساتویں صدی کے ابتدائی زمانہ کے مقابلہ میں اکیسویں میں اس محیر العقول واقعہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔
    اس سلسلے میں البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ
    Special Theory of Relativitty
    قابل ذکر ہے . ا س کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے جو Frame of reference
    کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا ، اس شخص کے مقابلے میں جو خلا میں سفر کر رہا ہے ۔ اس نے وقت ( زمان ) اور خلا ( مکان ) کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان و مکان ( Space and Time) کو مخلوط شکل میں پیش کیا ہے ۔
    روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ۔ اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو صفر وقت میں ہوگا ۔
    سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں براق پر ہوا تھا ۔
    یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جنت سے لائی ہوئی ایک نوری سواری تھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی ۔
    آئنسٹائن نے جس روشنی کی رفتار کا ذکر کیا ہے وہ ہماری معلوم دنیا کی روشنی ہے ۔ براق کی نوری سواری اپنی کیفیت میں اس کائنات کی روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہین کہ اس نور کی سواری کی سرعت کا تصور آج کی سائنس کرنے سے قاصر ہے !
    جب واقعہ معراج روشنی کی رفتار سے زیادہ
    سرعت سے ہوا تو وقت کی رفتار رک گئی ۔
    اس میں وقت نہیں لگا ۔ یہ سفر Timeless تھا ۔
    اس کائنات میں کئی جگہ پر سائنسداں روشنی کی رفتار سے تیز رفتار کا ذکر کرتے ہین ۔ وہ کہتے ہین کہ ساری کہکشائیں
    روشنی سے زیادہ تیز رفتار سے پھیل رہیں ۔ یہاں آئنسٹائن کی بات غلط ثابت ہورہی ہے کہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی چیز سفر نہین کرسکتی ۔ اس طرح Tachyon particle کے بارے تجربہ کیا جارہا ہے کہ وہ بھی روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرسکتا ہے ۔ یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ جس ذرہ کی کمیت نہ ہو ( Massless) ہو اس کی رفتار روشنی سے تیز ہوتی ہے ۔
    روشنی سے تیز رفتار سفر کرنے کو سائنسداں تسلیم کر چکے ہیں ، سفر معراج روشنی کی رفتار سے زیادہ سرعت سے ہوا تھا ۔ اس لیے اس میں کوئی وقت نہیں لگا ۔
    اس سلسلے میں دوسری بحث وقت کی ہے ۔
    وقت کیا ہے ؟ کیا یہ اس یونیورس کا بنیادی حصہ ہے یا اس کا وجود ہی نہیں ہے اور کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ کائنات کے تناظر میں وقت بے معنی ہے ۔
    نیورو لوجسٹس( Neurologists ) اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت ایک دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔ وقت کائنات میں آنے والی تبدیلی کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی (relative ) چیز ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔
    ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں ہماری عقل و فہم اور ادراک کی نارسائی کا کیا حال ہوگا ؟ اگر ہم سنجیدگی اور گہرائی سے غورکریں تو یہ بات ہماری سمجھ میں آسکتی ہے کہ سفر معراج میں اللہ رب العالمین نے کائنات کے قوانین کو معطل کردیا تھا ۔
    جدید سائنسی نظریات اور مباحث کی روشنی
    میں سفر معراج کا امکان اور اس کا وقوع قابل فہم ہے ۔ اس کا انکار کرنا غیر سائنسی ہے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.comخ

  • @zenithmanzoor3800
    @zenithmanzoor3800 6 ปีที่แล้ว +4

    آپ کبهئ اقبال اور عطیہ فیضی کے تعلقات پر بات کیوں نہیں کرتے... انسان کو انسان. ہی رہنے دو..

    • @muftisultanakbar6669
      @muftisultanakbar6669 5 ปีที่แล้ว

      zenith manzoor آپ کی بات کوواضح فرمائے

    • @faridahmed6356
      @faridahmed6356 5 ปีที่แล้ว +2

      Tum bewa qoof hu . ar mutala mahdod

    • @indian1556
      @indian1556 4 ปีที่แล้ว

      آپ آفیسر آف ڈسٹ ہو کیا
      خود کیجئے یہ کام

  • @RajuKhan-dc8mp
    @RajuKhan-dc8mp 5 ปีที่แล้ว +2

    Masha Allah

  • @sufiyanahmdsufiyanahmad1650
    @sufiyanahmdsufiyanahmad1650 4 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah

  • @rehanansar6226
    @rehanansar6226 4 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah