Saleem Ahmed Ghazal اُفق پر جا ملیں گے آسماں سے یہ کتنا فاصلہ ہو گا یہاں سے
ฝัง
- เผยแพร่เมื่อ 11 ม.ค. 2025
- کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر
سلیم احمد
اُفق پر جا ملیں گے آسماں سے
یہ کتنا فاصلہ ہو گا یہاں سے
سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے
وہ اُٹھ جاے ہمارے درمیان سے
یقین کی بات میں کچھ بھی نہیں تھا
نےُ پہلو ہوے پیدا گماں سے
خموشی اس گرہ کو کھولتی ہے
جو کھل سکتی نہیں لفط و بیاں سے
افق پر جا ملیں گے آسماں سے
یہ کتنا فاصلہ ہو گا یہاں سے
اندھیرے کے گھنیرے حاشیوں سے
یکایک روشنی آئی کہاں سے
ہوا نے دی درِ ویراں پہ دستک
کئی پرچھائیاں نکلیں مکاں سے
سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے
وہ اٹھ جائے ہمارے درمیاں سے
یقیں کی بات میں کچھ بھی نہیں تھا
نئے پہلو ہوئے پیدا گماں سے
خموشی اس گرہ کو کھولتی ہے
جو کھل سکتی نہیں لفظ و بیاں سے
کبھی اپنی طرف بھی لوٹ آنا
اگر فرصت ملے کارِ جہاں سے
میں موسم کے تقاضے دیکھتا ہوں
سفر کی فال لی ابرِ رواں سے
سلیم احمد
ہر ہر لفظ، ہر ہر شعر بار بار سننے کو جی چاہتا ہے
سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے
وہ اُٹھ جاے ہمارے درمیان سے
یقین کی بات میں کچھ بھ نہیں تھا
نےُ پہلو ہوے پیدا گماں سے
میرا پسندیدہ شعر : سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے
خاموشی اس گرہ کو کھولتی ہے
جو کھل سکتی نہیں لفظ و بیاں سے
نہایت خوبصورت غزل اور سلیم احمد کا لب و لہجہ بھی مُنفرد تھا ۰ واہ
.بہت اعلیٰ
کمال شاعری اور بولتی ہوئی تصویر ۔۔۔۔۔ واھ واھ
خموشی اس گرہ کو کھولتی ہے
جو کھل سکتی نہیں لفط و بیاں سے
वाह
غضب اشعار ہیں
Kya kehny
کمال ہے
واقعی کمال اشعار ہیں۔ راحیلہ
@@muhammadhussainsaeedpoet درست فرماےا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کا پڑھنے کا انداز، ادائیگی بہت خوب ہے۔
@@lafzspeaks
سلیم احمد کی نثر بھی پڑھیے گا، ان کی نثر بھی خاصی متأثر کُن ہے۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
مرحوم سلیم احمدکی منفردشاعری، ان کے نظریاتی اختلافات اورادبی گروہ بندی کےسبب، پس پشت چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پہلے شاعرتھے،پھرکچھ اور
سہیل احمدصدیقی
بجا فرمایا
سلیم احمد مرحوم نے فرمایا
افق پر جاملیں گے اسماں سے
یہ کتنا فاصلہ ہوگا یہاں سے
وہ تو نہیں رہے کہ ان سے اس خوش گمانی کے بارے میں کچھ عرض کرتے۔ حقیقت یوں ہے کہ
یہ افق پہ مل کر بھی کتنے دوررہتے ہیں
ہے زمین بھی تنہا، اور اسماں تنہا