وہ بدقسمت شہزادی جو اپنے ہی والد کی حکومت میں پابند سلاسل رہی | ڈاکومنٹری
ฝัง
- เผยแพร่เมื่อ 4 พ.ย. 2024
- Subscribe to this Channel,
/ @theclimax.official
Follow us on Facebook,
IamNadirKhattak
Like and share.
زیب النساء ہندوستان کے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی سب سے بڑی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ زیب النساء فروری 1638ء ہندوستان کے شہر موجودہ دولت آباد میں پیدا ہوئی۔
شہزادی نے صرف تین برس کی قلیل عمر میں قرآن مجید فرقان حمید کی متعدد آیات یاد کر چکی تھی۔ شہزادی جب چار برس، چار ماہ اور چار دن عمر کی ہوئی تو ان کا رسمِ بسمِ اللّٰہ ادا کیا گیا۔ دربار کی ایک خاتون حافظۂ مریم کو شہزادی کو قرآن مجید حفظ کروانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی، یوں شہزادی نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کیا۔ تین سال کے عرصہ میں یعنی سات سال کی عمر میں شہزادی نے قرآن مجید حفظ کیا۔
شہزادی کے حافظہ قرآن بننے کی خوشی میں اورنگزیب عالمگیر نے ایک وسیع دعوت کا اہتمام کیا اور شہزادی اور اسکی استانی حافظہ مریم کو تیس تیس ہزار سونے کے سکے بطور انعام دیئے۔
شہزادی عالمہ اور فاضلہ خاتون تھی۔ عربی، فارسی اور اردو زبان پر نہایت عبور حاصل تھا۔ فلسفہ اور ادب سے خوب واقف تھی۔ خطاطی میں بھی اچھی شہرت تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے بہت ذیادہ عقل و فہم اور وسیع یاداشت عطا کیا تھا۔ شہزادی نے اس وقت کے علوم محمد سعید مازندرانی سے سیکھے۔ فلسفہ، ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور ادب سیکھتی رہی۔
زیب النساء عام طور پر نیک دل اور پرہیزگار خاتون تھی۔ ضرورت مند لوگوں، بیوہ خواتین اور یتیموں کی بہت مدد کرتی تھی۔ ہر سال حجاج کرام کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھیجتی تھی۔
زیب النساء 1652ء سے 1657ء تک کا بیشتر عرصہ اپنے والد عالمگیر کے ساتھ دکن میں گزارا جہاں اس وقت وہ صوبے دار تھے۔
1658ء میں شہزادی کے دادا شاہجہان کی وفات کے بعد جب شہزادی کا والد اورنگزیب عالمگیر شہنشاہ ہوا، اس وقت شہزادی کی عمر 21 سال تھی۔ اورنگزیب عالمگیر کو اپنی بیٹی کی قابلیت و صلاحیت کا پورا ادراک تھا اس لئے وہ سلطنت کے سیاسی امور پر زیب النساء کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتا، اس کے مشورے سنتا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب بھی زیب النساء شاہی دربار میں حاضر ہوتی تو استقبال کیلئے اورنگزیب عالمگیر تمام شہزادوں کو بھیجتا۔
شہزادی کا علمی ذوق بہت ذیادہ تھا۔ مستند ترین "سیرت النبیﷺ" کے مصنف علامہ شبلی نعمانی رح لکھتے ہے کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء ان کی خدمت میں رہتے تھے۔
شہزادی نے اپنی نگرانی میں اہلِ فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ ان میں انتہائی قابلِ ذکر حضرت امام رازی کی تفسیر "تفسیرِ کبیر" کا ترجمہ ہے۔
شہزادی کی پھوپھیوں جہاں آراء بیگم اور روشن آراء بیگم نے انہیں صوفیاء سے متعارف کرایا۔ یہیں سے ان کے سامنے تصوف کے نئے اسرار آشکار ہوئے۔ french خاتون اینی کری نیکی لکھتی ہے کہ تصوف میں زیب النساء فرید الدین عطار رح اور جلال الدین رومی رح کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی تھی۔ 20 ویں صدی کے شاعر سیماب اکبر آبادی لکھتا ہے کہ شہزادی حضرت میاں میر رح کی مرید بھی ہوگئی تھی۔
انگریز خاتون مؤرخ ہٹن لکھتی ہے کہ زیب النساء نے شادی نہیں کی اور ساری زندگی کنواری رہی۔ شادی نہ ہونے کی وجہ سے شہزادی کے خفیہ محبت کے بارے میں بہت سے جھوٹے قصے مشہور ہوگئے۔
علامہ شبلی نعمانی رح اور دیگر محقِقین کے مطابق زیب النساء کے متعلق متعدد جھوٹے قصے مشہور ہوگئے جن کو یورپین مصنفین نے اور ذیادہ آب و رنگ دے کر پیش کیا۔
شہزادی اپنے بھائیوں سے نہایت محبت رکھتی تھی۔ کتاب "مآثرالامراء" میں لکھا ہے کہ جب شہزادی کے بھائی اعظم شاہ سخت بیمار ہوئے تو شہزادی نے تیمارداری اس محبت سے کی کہ تمام ایامِ مرض تک اس پرہیزی غذاء کے سوا، جو خود شہزادہ کھاتا تھا کوئی اور غذاء نہیں کھائی۔
علامہ شبلی نعمانی رح کے مطابق راجپوتوں نے جب عام بغاوت کی اور عالمگیر نے ان کے دبانے کیلئے شہزادہ اکبر کو فوج دے کر جودھ پور کی طرف روانہ کیا تو راجپوتوں کے بہکانے سے شہزادہ خود باغی ہوگیا۔ شہزادہ محمد اکبر جس زمانے میں اورنگزیب عالمگیر سے باغی ہوکر راجپوتوں سے مل گئے، اس زمانے میں بھی زیب النساء نے اپنے بھائی سے راہ و رسم اور خطوط لکھنا ترک نہ کیا۔
زیب النساء اور شہزادہ محمد اکبر حقیقی بہن بھائی تھے اس لئے دونوں ایک دوسرے کو خطوط لکھتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے خطوط پکڑے گئے اور اورنگزیب عالمگیر نے بطور سزا زیب النساء کی تنخواہ جو اس وقت 4 لاکھ سالانہ تھی، بند کردی۔ تمام مال و متاع بھی ضبط کر لیا اور قلعہ سلیم گڑھ میں رہنے کا حکم دیا۔ اس وقت شہزادی کی عمر 43 برس تھی۔ وہ تمام یتیم خانے اور لنگر خانے جو شہزادی کے خرچ سے چلتے تھے، سب بند ہوگئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ صدمہ ان لوگوں کو ہوا جو ہر سال شہزادی کے خرچ پر حج کرتے۔
علامہ شبلی نعمانی رح لکھتے ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد ان کی بے گناہی ثابت ہوئی اور معافی دے دی گئی کیونکہ جب حمیدہ بانو بیگم (اورنگزیب عالمگیر کے والد شہنشاہ شاہجہان کی دادی اور شہنشاہ اکبر کی ماں) کا انتقال ہوا تو رسمِ تعزیت ادا کرنے کیلئے اورنگزیب عالمگیر نے زیب النساء کو ان کے گھر بھیجا۔ اسی سال جب عالمگیر کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ کام بخش کی شادی ہوئی تو تقریب کی رسمیں زیب النساء ہی کے محل میں ادا ہوئی اور عالمگیر کے حکم سے تمام ارکان دربار زیب النساء کی ڈیوڑھی تک پیدل گئے۔
شہزادی زیب النساء نے اورنگزیب عالمگیر کی حکومت کے 48 ویں سال دِلّی میں وفات پائی۔ عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھے۔ ویسے تو عالمگیر ہر سفر میں زیب النساء کو ساتھ رکھتے۔ کشمیر کے دشوار سفر میں بھی زیب النساء ان کے ساتھ تھی۔ لیکن جب عالمگیر دکن گیا تو عالمگیر کی چھوٹی بیٹی زینت النساء ان کے ساتھ آگئی اور زیب النساء نے دِلّی میں قیام کیا۔
مؤرخین کے مطابق 26 مئی 1702ء کو شہزادی زیب النساء اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں لوٹ گئی۔ عالمگیر اس وقت دکن کی فتوحات میں مصروف تھے۔
شہزادی کی وفات اور مقامِ تدفین کی پوری داستان اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#ZaibUnNisa