Sabse pahle Maa Baap Ka Haq | Maa Baap Ka Haq Aulad Per

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 28 พ.ค. 2024
  • ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ارشاد فر مایا کہ : تمھاری ماں ، میں پھر کہتا ہوں تمھاری ماں ، میں پھر کہتا ہوں تمھاری ماں ، اس کے بعد تمھارے باپ کا حق ہے، اس کے بعد جو تمھارے قریبی رشتہ دار ہوں، پھر جو ان کے بعد قریبی رشتہ
    دار ہوں“۔
    فائدہ:
    (بخاری و مسلم)
    اس دنیا کے معاشرہ کی اصلاح و فلاح دراصل حقوق کی نگہداشت تعلق و قرابت کی پاسداری ، ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور احسان و بھلائی کے برتاؤ پر منحصر ہے، شریعت اسلامی کا تقاضا ہے کہ انسان اس دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ جس تعلق و قرابت کا رشتہ رکھتا ہے اور اس تعلق وقرابت میں جو فرق مراتب ہے ادا ئیگی حقوق اور حسن سلوک کے باہمی معاملات میں اس کا لحاظ ضروری ہے، ظاہر ہے کہ قرابت کے اعتبار سے ماں کا رشتہ سب سے زیادہ گہرا اور اس کا تعلق سب سے زیادہ قریب تر ہوتا ہے ،لہذا کسی شخص کے احسان وحسن سلوک اور خدمت گزاری کی سب سے زیادہ مستحق جو ذات ہوسکتی ہے وہ ماں ہے، ماں کے بعد باپ ہے اور پھر دوسرے قریبی رشتہ دار، لیکن ان قریبی رشتہ داروں میں بھی تعلق و قرابت کے درجات کی رعایت کی جائے گی کہ جو رشتہ دار اپنے رشتہ کے اعتبار سے جتنا نزدیک اور قریب ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ مقدم رکھا جائے گا، اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کے اسی اصول اور ضابطہ کو بیان فرمایا ہے۔
    خدمت اور حسن سلوک میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے ، قرآن مجید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ کئی جگہ اس میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کے ساتھ خاص طور سے ماں کی ان تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ مختلف ادوار میں اٹھاتی ہے، عالموں اور فقہا نے بھی اس حدیث کے الفاظ سے ایک مسئلہ اخذ کیا ہے کہ ماں کا حق باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے کیوں کہ وہ حمل کا بوجھ اٹھاتی ہے، ولادت کی تکلیف و مشقت برداشت کرتی ہے، اور دودھ پلانے اور بچے کو پالنے میں خصوصیت کے ساتھ محنت و مشقت برداشت کرتی ہے ، اس لیے اولاد پر باپ کے مقابلہ میں ماں
    کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی اور اس کی خدمت و دیکھ بھال کرنا زیادہ قرار دیا گیا ہے۔ ماں باپ کے حقوق اتنے زیادہ ہیں اور ان کا درجہ و رتبہ اتنا بلند ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے: دم در تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ، اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے رب ! ان پر ویسا
    ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش میں کی ہے“۔ (بنی اسرائیل ، ۲۴ ۲۳) والدین کے حقوق اتنے زیادہ ہیں کہ اگر اولاد اپنی پوری زندگی بھی ان کے حقوق کی ادائیگی میں صرف کر دے تب بھی ان کے تئیں اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی لہذا ہم سب کو چاہیے کہ ان کی جائز خواہشات کی تکمیل اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری ، ان کی رضا و خوشنودی کو اپنے حق میں ایک بڑی سعادت سمجھیں، ان کے سامنے تواضع و انکساری اختیار کریں، اور ان کے سامنے محبت و نرمی اور خوشامد و عاجزی کا رویہ ا کا رویہ اپنا ئیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے ان کی خدمت کریں، اللہ تعالٰی ہم سب کو
    والدین اور عزیز و اقارب کے حقوق کی صحیح ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !

ความคิดเห็น • 1