25 muharram شہادت امام سجاد علیہ السلام {imam bargah shahzada Ali Akbar}, Abbas Nagar,

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 26 ส.ค. 2023
  • امام زین العابدین علیہ السلام
    علی بن حسین بن علی بن ابی‌ طالب (38-95 ھ) امام سجادؑ اور زین العابدین کے نام سے مشہور، شیعوں کے چوتھے امام اور امام حسینؑ کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لے سکے۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہی آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ و شام لے گئے۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دیئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیتؑ کے مقام و منزلت سے آگاہ ہوئے۔
    علم اور حدیث میں آپ کا رتبہ
    علم اور حدیث کے حوالے سے آپ کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ حتی اہل سنت کی چھ اہم کتب صحاح ستہ "صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی سنن ابن ماجہ نیز مسند ابن حنبل سمیت اہل سنت کی مسانید" میں آپ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں، اور مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری نے اپنی کتاب کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجادؑ سے احادیث نقل کی ہیں۔
    ذہبی رقمطراز ہے: امام سجادؑ نے پیغمبرؐ امام علی بن ابی طالب سے مرسل روایات نقل کی ہیں جب آپ نے (چچا) حسن بن علیؑ (والد) حسین بن علیؑ، عبداللہ بن عباس، صفیہ|صفیّہ، عائشہ اور ابو رافع سے بھی حدیث نقل کی ہے اور دوسری طرف سے امام محمد باقرؑ، زید بن علی، ابو حمزہ ثمالی، یحیی بن سعید، ابن شہاب زہری، زید بن اسلم اور ابو الزناد نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔
    عبادت
    مالک بن انس سے مروی ہے کہ علی بن الحسین دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز بجا لاتے تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے چنانچہ آپ کو زین العابدین کہا جاتا ہے۔
    ابن عبد ربّہ لکھتا ہے: علی بن الحسین جب نماز کے لئے تیاری کرتے تو ایک لرزہ آپ کے وجود پر طاری ہوجاتا تھا۔ آپ سے سبب پوچھا گیا تو فرمایا: "وائے ہو تم پر! کیا تم جانتے ہو کہ میں اب کس ذات کے سامنے جاکر کھڑا ہونے والا ہوں! کس کے ساتھ راز و نیاز کرنے جارہا ہوں!؟"۔
    مالک بن انس سے مروی ہے: علی بن الحسین نے احرام باندھا اور لبیّكَ اللهمّ لبَيكَ پڑھ لیا تو آپ پر غشی طاری ہوئی اور گھوڑے کی زین سے فرش زمین پر آ گرے۔
    اسیری کے ایام
    عاشورا 61ھ کے بعد، جب لشکر یزید نے اہل بیت کو اسیر کرکے کوفہ منتقل کیا، تو ان میں سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے علاوہ امام سجادؑ نے بھی اپنے خطبوں کے ذریعے حقائق واضح کئے اور حالات کی تشریح کی اور اپنا تعارف کراتے ہوئے یزید کے کارندوں کے جرائم کو آشکار کردیا اور اہل کوفہ پر ملامت کی۔
    امام سجادؑ نے کوفیوں سے خطاب کرنے کے بعد ابن زیاد کی مجلس میں بھی موقع پا کر چند مختصر جملوں کے ذریعے اس مجلس کے حاضرین کو متاثر کیا۔ اس مجلس میں ابن زیاد نے امام سجادؑ کے قتل کا حکم جاری کیا لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے درمیان میں آ کر ابن زياد کے خواب سچا نہيں ہونے دیا۔
    اس کے بعد جب یزیدی لشکر اہل بیتؑ کو "خارجی اسیروں" کے عنوان سے شام لے گیا تو بھی امام سجاد علیہ السلام نے اپنے خطبوں کے ذریعے امویوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
    جب اسیران آل رسولؐ کو پہلی بار مجلس یزید میں لے جایا گیا تو امام سجادؑ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ امامؑ نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: تجھے خدا کی قسم دلاتا ہوں، تو کیا سمجھتا ہے اگر رسول اللہؐ ہمیں اس حال میں دیکھیں! یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کے ہاتھ پاؤں سے رسیاں کھول دی جائیں۔
    امام سجادؑ کی شہادت
    ولید بن عبد الملک کے حکم پر مسموم کرنے کے ذریعے واقع ہوئی۔ آپ کو قبرستان بقیع میں امام حسن مجتبیؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ساتھ سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔

ความคิดเห็น •