*انعامی مقابلۂ بیت بازی*,دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ۔(MUQABLA-E-BAIT BAZI)

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 2 พ.ย. 2024

ความคิดเห็น • 49

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 ปีที่แล้ว +1

    تقوی
    الله جل شأنہ کا وجود ثابت ہے
    اللہ تعالی نے اپنے وجود کے ثبوت کے لیے اپنی کتاب میں کچھ نشانیاں دکھانے کی بات کی ہے ۔ ان نشانیوں میں سے ایک نشانی " سقف محفوظ " ایک حفاظت کرنے والی چھت ۔
    اس چھت کی صحیح تفسیر نہیں کی جاسکی ۔ جدید فلکیات کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ " حفاظتی چھت "
    Magnetic Field
    ہے جو زمین پر انسان کی سورج سے نکلے ہوئے
    Atomic charged solar flares
    یا شمشی طوفان سے حفاظت کرتا ہے ۔ اگر یہ حفاظتی چھت نہ ہو تو انسان زمین پر زندہ نہین رہ سکتا ۔ اس کا وجود اس شمسی طوفان کے حملوں سے ختم ہوجائے گا ۔
    جدید فزکس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ " سقف محفوظ " پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے ۔ اس میں زمین کی میگنیٹک فیلڈ بھی ہے ۔ ان فیلڈز کو بغیر آج کے ترقی یافتہ ٹیلسکوپ کے نہیں دیکھا جا سکتا ۔
    ساتویں صدی کے آغاز میں ٹیلسکوپ ایجاد نہیں ہوا تھا اور اس وقت سائنس و ٹکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو بغیر ٹیلسکوپ کے میگنیٹک فیلڈز کا مشاہدہ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟
    اس سماوی حقیقت کو اس وقت آخر کون بیان کرسکتا ہے ؟ ظاہر کہ اس خفیہ حقیقت کو وہی بیان کرسکتا ہے جس نے اسے بنایا ہے ۔
    ہم اللہ جل شانہ کی ذات کو دیکھ نہیں سکتے ہیں لیکن اس کی بیان کردہ نشانیوں سے سمجھ سکتے ہیں اس کی ذات حق ہے اور اس کا انکار کرنا غلط ہے ۔
    ان نشانیوں سے اعراض کرنا صحیح نہیں ہے
    قرآن کہتا ہے کہ وہ
    " اس کی نشانیوں اعراض کرتے ہیں " ۔
    یہ اعراض غلط اور مستوجب سزا ہے ۔
    nadvilaeeque@gmail
    ہم انسانوں کو ان نشانیوں سے اعراض نہیں کرنا چاہیے ۔
    کائنات کی ہر چیز کائنات میں اللہ کے ودیعت کردہ قوانین کی پابند ہے ۔ انسان بھی کائنات کے قوانین کا پابند ہے ۔ اس کو اس کائناتی حقیقت کو اچھی طرح سمجھنا اور ادراک کرنا چاہیے ۔
    بعض سائنسداں اللہ کی ذات کا انکار کرتے ہیں
    جیسے اسٹیفین ہاکنگ Stephen Hawking
    اس کا کوئی سائنسی جواز نہیں ہے ۔ اسی طرح نظریہ ارتقا Theory of Evolution
    سائنسی طور پر ثابت نہیں ہے ۔ اس کی بنیاد پر کہنا کہ انسان کا وجود بغیر کسی خالق کے ارتقائی طور پر ہوا ہے ، بالکل غلط ہے ۔ اس لیے میری سمجھ میں یہ حقیقت بالکل واضح ہوگئی ہے کہ ایک خالق -- اللہ جل شانہ -- کے انکار کا کوئی جواز نہین ہے ۔ انسان کو اللہ رب العزت پر ایمان لانا چاہیے اور صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے ۔
    آج کے دور میں الحاد کو پھیلایا جارہا ہے جس کی وجہ سے اذہان الحاد اور انکار خدا کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔ ہمیں اللہ کی ذات پر ایمان لانے کی دعوت سائنس کی روشنی میں دینا چاپیے اور اپنے اندر اس کی قابلیت پیدا کرنی چاہیے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @afzalhusain4028
    @afzalhusain4028 2 ปีที่แล้ว +1

    Masha Allah

  • @fatimabutool1
    @fatimabutool1 ปีที่แล้ว +2

    بہت خوب بہت عمدہ۔۔۔ ماشاءاللّٰه‎ ماشاءاللّٰه‎

  • @ziyaofislam7590
    @ziyaofislam7590 2 ปีที่แล้ว +8

    جزاك الله خيرا

  • @Danishletslearn
    @Danishletslearn ปีที่แล้ว +1

    Zabardast.
    Hum log bhi khoob hissa letey they. Kalim Aajiz best thhey us waqt

  • @ShakirHusain-ri6xu
    @ShakirHusain-ri6xu 4 หลายเดือนก่อน

    Hamid's rabbinic Good Nepali damari

  • @GameX_Live178
    @GameX_Live178 2 ปีที่แล้ว +4

    Champion MAHAD 💪💪💪

  • @FarukKhan-lm2wb
    @FarukKhan-lm2wb ปีที่แล้ว

    Mashallah

  • @educationalvideos6146
    @educationalvideos6146 ปีที่แล้ว +1

    Fuzail baig good brother

    • @educationalvideos6146
      @educationalvideos6146 ปีที่แล้ว +1

      یہ بتائیے فائنل کس کی ٹیم جیتی ۔
      میری طرف سے فضیل بیگ کی ٹیم
      Am I right

  • @maryamsiddiqui8817
    @maryamsiddiqui8817 2 ปีที่แล้ว +3

    MashaAllah subhanallah AllahTaala tmam talibe ilm ko kaamyabi kaamrani atafarmaye

    • @laeequenadvi4746
      @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

      Stephen Hawking could not understand a creator by his study of cosmos through his life. The law physics are not evolved accidentally
      but it is made by Almighty Allah.It is mentioned in many verses of the Holy Qur'an. But the scientists do not know. Almighty Allah mentioned
      many scientific facts in Qur'an in early of seventh century. The scientists knew it in 19th and 20th century only.
      For example expanding universe,
      Adwin Hubble told us that the universe is expanding in 1929.
      Stephen Hawking claimed that expanding universe is first discovered in 20th century only.
      It was not known by mankind throughout the history. Hawking is wrong because the expanding universe is mentioned in Qur'an in early of seventh century very clearly.
      و السماء بنينها بأيد و إنا لموسعون o
      ( الذاريات : ٤٧ )
      We have built the heaven with might,and We it is who make the vast extent (thereof)
      Almighty Allah knows everything exists in the universe becauase He is the creator of everything.
      Almighty Allah says :
      الا يعلم من خلق و هو اللطيف الخبير .
      ( الملك : ١٤ )
      Should He not know what He created? And He is the Subtile,
      the Aware. ( Qur'an , 67:14)
      Stephen Hawking is totally wrong with his claim that Almighty Allah -- the originator and the creator does not exist.
      Stephen Hawking did not know that Almighty Allah knows each and every particles that exist in the universe.
      I have great sympathy for Stephen Hawking. I sent an e-mail condolence to his family when he left us for abode heaven.
      May Almighty Allah forgive him.
      Dr Mohammad Laeeque Nadvi
      nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +4

    قرآن کا بیان ابداع و تخلیق کائنات
    و انسان
    اور جدید نظریہ ارتقا
    کا تقابلی مطالعہ و تحقیق میرے ڈاکٹریٹ
    کے بعد کا موضوع ہے ۔
    25،26 مئی 1913 میں امریکہ/ کینٹوکی میں عالمی اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن (IRFI) کی طرف سے ایک عالمی کانفرنس منعقد کی گئی تھی ۔ اس میں شرکت کے لیے کانفرنس نے مختلف موضوعات پر مقالات طلب کیا تھا جن کی تفصیل ' Islamic Voice ' سپتمبر 2011 میں شائع کی گئی تھی ۔ ان میں دوسرا اہم موضوع Islamic Theory of Evolution تھا ۔ اس عالمی سیمینار میں شرکت کے خواہشمند کو تین سو الفاظ پر مشتمل مقالہ کا خلاصہ 30 جون 2012 اور مقالہ 15 دسمبر 2012 تک پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا ۔
    میں نے وقت مقررہ کے اندر خلاصہ (Abstract) اور مکمل مقالہ بذریعہ ای میل وقت مقررہ کے اندر بھیج دیا ۔ میرے مقالہ کا عنوان تھا :
    The Holy Qur'an refutes the Theory of Evolution
    چونکہ یہ کانفرنسں کے منتظمین کے مقصد کے خلاف تھا ۔ نظریہ ارتقا معتقدین اس کی مخالفت برداشت نہیں کرپاتے ہیں اس لیے
    ۔میرا مقالہ شریک سیمینار نہیں کیا گی ۔ شاید انہوں نے اسے اپنے ویب سائیٹ میں ڈال دیا ۔
    اس موضوع کی تحقیق کی جانب یہ میرا پہلا بڑا قدم تھا ۔ انگریزی میں تیار کردہ یہ مقالہ میں نے یو ٹیوب کے مختلف عالمی چینلز میں ڈال دیا ۔ اس پر موافقت میں کم اور مخالفت
    میں زیادہ کمنٹس آئے ۔ مسلمانوں میں جدید تعلیم یافتہ اشخاص بھی اس نظریہ کے موافقت میں لکھتے اور بولتے رہتے ہیں ۔
    مجھے اس موضوع پر جو کچھ لٹریچر انگریزی یا اردو میں ملتا ہے اس کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور انہیں اپنے ریفرنس لائبریری میں بطور ریکارڈ محفوظ کرلیتا ہوں ۔
    چارلس ڈارون کا نظریہ جو بعد -- Neo Darwanism اور New Synthetic theory of Evolutio نام سے پیش کیا گیا دنیا کا سب سے بڑا موضوع ہے ۔ ہند میں اس پر بہت کم توجہ دی گئی ۔ مولانا شہاب الدین ندوی رحمہ نے ' تخلیق آدم اور نظریہ ارتقا ' پر ایک کتاب لکھی تھی جو فرقانیہ اکیڈیمی بنگلور سے شائع کی گئی تھی ۔ یونیورسیٹیوں کے فارغین تو ڈارونزم کی موافقت اور تعریف کرتے نظر آتے ہیں ۔
    یہ اللہ جل شانہ کی مشیت تھی کہ اس نے مجھے اس موضوع کی طرف توجہ کرنے اور اس پر کچھ کام کرنے کی توفیق بخشی ۔
    این سعادت بزور بازو نیست
    تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @muftiansarnadwi6094
    @muftiansarnadwi6094 2 ปีที่แล้ว +8

    بہت خوب، ماشاء اللّٰہ
    اس کو جاری رکھیے نیز ایسے ہی ہر مقابلہ و مسابقتی پروگرام اپلوڈ کرتے رہیے إن شاء اللّٰہ

    • @laeequenadvi4746
      @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

      قرآن اور جدید سائنس
      قرآن جدید سائنس سے متصادم نہیں
      قرآن مجید کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ " السموات " اور " ارض " کا مبدع اور موجد اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔
      اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ :
      بديع السموات و الأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o (البقرة: ١١٧)
      الله تمام آسمانوں کا مبدع ہے جب وہ کسی امر ( شئی) کا ارادہ کرتا ہے تو وہ صرف اتنا کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے ( یعنی وجود میں آجاتی ہے) ۔
      قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ رب العزت اس کائنات کو اس میں ودیعت کردہ قوانین کے مطابق چلاتا ہے ۔ قرآنی آیات اس حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہیں ۔ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ فزکس کے قوانین ارتقا کے ذریعہ بن گئے ہیں ۔ یہ بات قرآن کے بیانات کے خلاف ہے ۔
      مغربی سائنسداں اور فلاسفہ کے نزدیک مذہب بائبل اور عیسائیت کا نام ہے ۔ یہ تحریف شدہ کتاب جدید سائنسی نظریات کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہی اور ایک خونی کشمکش کے بعد کلیسا نے جدید سائنس کے مقابلہ شکست کھائی ۔ سائسندانوں کو صرف اسی ایک مذہب سے واسطہ پڑا ہے ۔ اس لیے وہ اسلام کو بھی اسی پر قیاس کرتے ہیں ۔ اگر وہ قرآن کا مطالعہ کرتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ قرآن علم کے خلاف نہیں ہے اور اس کے بیانات سائنس سے متصادم نہیں ہیں ۔
      قرآن مجید میں جو علمی حقائق ڈیڑھ ہزار سال پہلے اللہ کی علیم اور قدیر ذات نے بیان کیا ہے سائنس اسے بیسویں صدی میں سائنس اور جدید ٹکنالوجی کی ترقی کے بعد جان پا رہی ہے ۔ مثال کے طور پر ایڈون ہبل (Adwin
      ( Hubble
      امریکی ( Astronaut ) نے 1929 میں اپنی تحقیق سے دنیا کو آگاہ کیا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ سائنسداں دعوی کرتے ہیں کہ یہ بیسویں صدی کی بہت بڑی نئی سائنسی دریافت ہے ۔ انسان اس سے پہلے اس علمی حقیقت سے واقف نہیں تھا ۔
      پہلی بات ہم یہ کہیں گے قرآن اس کا مخالف نہیں ہے بلکہ اللہ جل شانہ نے اس سائنسی حقیقت کو قرآن میں ساتویں صدی کی ابتدا میں بیان کردیا ہے ۔
      قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے کہ "
      و السماء بنينها بأيد و إنا لموسعون
      ا ( الذاريات : ٤٧ )
      اور ہم نے آسمان کو اپنی طاقت اور قدرت سے بنایا اور ہم پھیلا رہے ہیں ۔
      We have built the heaven with might, and We it is who make the vast extent (thereof).
      دلچسپ بات یہ کہ البرٹ آئنسٹائن 1930 تک یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ جب اسے اس کے بارے میں بتایا گیا تو اسے یقین نہیں آیا لیکن جب ایڈون ہبل نے اسے اس کے شواہد دکھائے تو اسے یقین ہوا اور اس نے کہا کہ :
      constant universe theory was my blunder mistake)
      یہاں یہ بالکل واضح ہے کہ قرآن اس سائنسی دریافت سے ٹکرا نہیں رہا ہے بلکہ اسے اس پر سبقت حاصل ہے ۔
      علامہ ابن جوزی رحمہ( م ٥٩٧ ) اپنی تفسیر میں ابن زید کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اس ( لموسعون ) سے مراد آسمان میں وسعت دینا ہے
      " القول الثانی: لموسعون السماء " قالہ ابن زید
      زاد السیر فی علم التفسیر ، ابن جوزی ٨ / ٤١ ، دمشق ١٩٦٧
      بحوالہ معارف جنوری ٢٠٠١ ، آسمان کیا ہے ؟ علامہ شہاب الدین ندوی رحمہ ص ٦ ، ٧
      اس تحقیق سے ہمیں چھٹی صدی عیسوی کی تفسیر میں کائنات کے پھیلنے کے بارے میں ابن زید کا یہ قول مل گیا ۔ ابن زید سمجھتے تھے کہ یہ کائنات قرآن کے بیان کے مطابق پھیل رہی ہے ۔
      ایڈون ہبل نے اس کے پھیلنے کی تشریح اور تفصیل بیان کیا ہے جو ان کے بنائے ہوئے ٹیلیسکوپ کے ذریعہ ہی ممکن ہوا ۔ یقینا یہ تشریحات قابل قدر ہیں اور یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کائنات کے پھیلنے کے بارے میں یہ تشریحات پہلی بار کی گئی ہیں ۔
      ٹیلیسکوپ بھی ایک عرب مسلم سائنسداں کی ایجاد ہے ۔ جديد فلکیات کی بنیاد بھی عرب مسلمانوں کی فلکیاتی تحقیقات پر ہے ۔ مغرب نے دنیا کو یہ غلط بات بتائی کہ ٹیلسکوپ کا موجد گلیلیو ہے ۔ ابو اسحق ابراہیم ابو جندب ( 767ء) نے ٹیلیسکوپ بنایا تھا ۔ اہل یوروپ کو ٹیلسکوپ عربوں سے ملا تھا ۔ گلیلیو نے اسے مزید ترقی دی ۔ یہ فن مزید ترقی کرتے ہوئے آج کے ترقی یافتہ ٹیلیسکوپ تک پہنچا ۔
      رابرٹ بریفالٹ نے لکھا ہے کہ " جس چیز کو ہم سائنس کہتے ہیں وہ نئے تجرباتی ، مشاہدات اور حسابی طریقوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور یہ چیز یوروپ کو عربوں سے ملی ہے ۔ جدید سائنسی اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی دین ہے " ۔
      عصر حاضر میں مسلم اور عرب حکومتوں نے امہ مسلمہ کو سائنس اور ٹکنالوجی کے تمام میدانوں میں پسماندہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ اپنے مغربی آقاؤں کی غلامی کرتے رہے اور عالم اسلام کے مسلمانوں کو دھوکے پہ دھوکے دیتے رہے ۔ آج اگر امہ مسلمہ سائنس و ٹکنالوجی میں پسماندہ ہے تو اس کا ذمہ دار مغرب اور
      تربیت کردہ اور محکوم و فرمان بردار مسلم حکمراں ہیں ۔
      رولےاب دل کھول کر اے دیدہ خوں نابہ بار
      وہ نظر آتا ہے تہذیب حجازی کا مزار
      علامہ اقبال رحمہ
      ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
      nadvilaeeque@gmail.com

  • @mdjavedansari5749
    @mdjavedansari5749 2 ปีที่แล้ว +2

    ماشاءاللہ

  • @asmakhan4591
    @asmakhan4591 2 ปีที่แล้ว +3

    Nice

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +7

    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف :
    ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين
    مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا
    سے ہوا ۔
    علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا ۔
    1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ ان پر اس قدر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔
    علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت حاصل تھی ۔ اس سے قبل ان ایک مقالہ اولین مجاہد آزادی سید احمد شہید رحمہ پر رشید احمد رضا کے مشہور مجلہ ' المنار ' شائع ہوچکا تھا جسے انہوں نے بہت پسند کیا تھا ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین عربی زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول اور معتبر نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی
    علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ کے معروف و مشہور ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، اس کتاب نے کے اندر جوش اور زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔
    مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی
    ' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔
    سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔
    اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
    اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو شرک اور جہالت کی تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔
    امہ مسلمہ کا مقصد وجود :
    ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی بالکل صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔
    كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ...
    ( آل عمران : ١١٠)
    تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔
    امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔
    الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١)
    یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام امور کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
    اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بمعتد بہ حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order )
    کو متعارف کرایا ۔
    اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔
    ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے
    تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی
    علامہ اقبال رحمہ
    اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہی ۔
    لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے ، جو عالم انسانیت کی قیادت مسلمانوں کی طرح تو کیا کرتے ،
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmailcom

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    قیادت اور حکمرانی اسلامی نقطہ نظر
    ( ٢ )
    عالمی قیادت شدید اخلاقی بحران کا شکار
    پیغمبر آخر الزماں کی زندگی عصر حاضر کے
    حکمرانوں کے لیے مشعل راہ
    رسول اللہ (ص) کو خالق کائنات نے قیامت تک کے لیے عالم انسانیت کے لیے دائمی قائد بنا کر بھیجا تھا ۔ آپ ہمیشہ کے لیے عالم انسانیت کے قائد ، ہادی و مرشد اور زندگی کے تمام شعبوں میں رہنما بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ آپ تا قیامت پوری انسانیت کے قائد و رہنما ہیں ۔ آپ نے عدل و انصاف کی ایسی مثال قائم کی جس کی آج تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔ ہر حال اور ہر میدان میں مطلقا عدل و انصاف قائم کیا
    ایسا عدل و قسط جس نے زمین سے ظلم و زیادتی کو روکا ، اسلام انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن ہے ، آپ نے حق دار کو
    خواہ وہ غیر مسلم اور دشمن ہی کیوں نہ ہو ، اس کا حق دیا ۔ کیوں کہ اس حق میں اللہ کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں ۔ اسلام میں عدل و قسط میں قریب یا دور ، دوست یا دشمن ، مال دار و غریب سب برابر ہیں ۔ قرآن میں اللہ جل شانہ نےاس کی تاکید کرتے ہوئے حکم دیا ہے :
    ولو علی انفسکم او الوالدین و الآقربین ۔۔
    اگرچہ ( عدل و انصاف قائم کرنے ) کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا اعزہ و اقارب اور والدین پڑتی ہو ۔
    یہ انتہائی دشوار اور شاق کام ہے ، زبان سے اسے ادا کرنے اور عقل سے اس کے مفہوم و مدعا کو سمجھ لینے سے کہیں زیادہ دشوار ، عقلی طور پر اسے سمجھ لینا ایک بات ہے اور عمل کی صورت میں اسے اختیار کرنا ، بالکل دوسری باات ہے ۔ اسلام مومن کو اس دشوار و شاق تجربہ سے گزارتا ہے کیوں کہ اس کا وجود میں لایا جانا عدل و انصاف پر قائم مبنی معاشرہ کے لیے نا گزیر ہے ۔ زمین میں یہ قاعدہ موجود ہونا ضروری ہے ۔
    فلا تتبعوا الہوی ان تعدلوا ۔۔۔
    لہذا تم خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ عدل سے باز رہو ،
    شہادت اور فیصلے کے موقع پر خاندان ، قبیلہ ، قوم ، حکومت اور وطن کے لیے تعصب اور ہوائے نفس ایسی غالب منفی انسانی عادات ہیں اور اس کے علاوہ نفسانی خواہشات ہیں جو دنیا میں عدل و انصاف اور امن و امان قائم کرنے سے مانع ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالی نے ان تمام خواہشات سے متاثر ہونے اور ان سے متاثر ہوکر عدل سے روگردانی کرنے سے اہل ایمان کو روکا ہے ۔ اس عدل و انصاف پر آسمان و زمین کا نظام قائم ہے ۔ اگر بے لاگ عدلقائم نہیں کیا جائے گا تو زمین و آسمان میں بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا ۔
    پوری دنیا میں قائم عدل و انصاف کے ادارے
    اور عدل و انصاف کے نئے احکام و قوانین اور عدل و انصاف کی ان تنظیموں اور طریقوں سے جو عصر حاضر میں رائج ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے گئے ہیں ، آج نافع اور سود مند نہیں ہیں ، لوگ سمجھتے ہیں کہ آج
    کے نظام حیات اور عالمی قوانین ان سادہ احکام و قوانین سے جو گزشتہ ادوار میں تھے
    اسلام کے سادہ اور پرانی عدالتی صورتوں اور شکلوں سے زیاد منضبط اور زیادہ محکم ، زیادہ بہتر ، عوام کے زیادہ ترجمان ہیں ، اور عدل و انصاف کے زیادہ ضامن ہیں تو اب تک کے نتائج اور عالم انسانیت کی حالیہ زبوں تر صورت حال کو دیکھتے ہوئے اسے درست نہیں سمجھا جاسکتا ہے !!
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    Expanding Universe
    A bjg sign of Almighty Allah mentioned in Qur'an
    پھیلتی کائنات
    اللہ تعالی کی ایک عظیم نشانی
    قرآن میں اللہ جل شانہ نے ساتویں صدی
    کے آغاز میں ہمیں بتایا دیا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے :
    " ہم نے آسمان کو اپنے زور ( قدرت) سے بنایا اور ہم پھیلا رہے ہیں "
    (الذاریات : 47)
    ایڈون ہبل امریکی سائنسداں نے 1929 میں دنیا کو آہنی تحقیق سے آگاہ کیا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ ہبل نے اپنے بنائے ہوئے ٹیلسکوپ سے اس کا مشاہدہ کیا تھا ۔
    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے ساتویں صدی میں جبکہ ٹیلسکوپ ایجاد نہیں ہوا تھا ، کون آ انسانوں کو آگاہ کرسکتا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے؟ اس زمانہ میں سائنس اور ٹکنالوجی آج کے مقابلے میں نا کے برابر تھی ۔ ٹیلسکوپ کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
    ایڈون ہبل نے ٹیلسکوپ کے ذریعہ مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں دور جارہی ہیں اور اس کا رنگ سرخ ہوتا ( Red shift ) جارہا ہے ۔
    سائنسدانوں کا یہ کہنا جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ نے دعوی کیا ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی بار یہ دریافت کیا گیا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس سے پہلے انسان اس سائنسی حقیقت سے واقف نہیں تھا ۔ آئنسٹائن کو بھی 1930 تک یہ نہیں معلوم تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ جب اسے یہ بتایا گیا تو اس نے انکار کیا لیکن جب ایڈون ہبل ( Edwin Hubble) نے اسے اس کے شواہد دکھائے تب اس نے مانا اور کہا کہ :
    "Cosmological Constant theory was my blunder mistake".
    مذکورہ بالا قرآن کی آیہ میں اللہ جل شانہ نے اس بات کو اپنی ذات کی نشانی کے طور پر بیان کیا ہے ۔ اس مادی دنیا میں ان مادی آنکھوں سے انسان اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ اس لیے اس نے قرآن میں اپنی نشانیاں بیان کی ہیں ۔
    ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور ان کے انفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ واضح ہوجائے گا کہ وہ ( اللہ )
    حق ہے ۔ ( حم سچدہ : ٥٣ )
    اس آیہ میں اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں فلکیات اور علم طب کے میدانوں میں حیرت انگیز ترقیاں ہوں گی اور ایسی نشانیاں سامنے آتی رہیں گی
    جن سے اللہ کے وجود ثابت ہوگا ۔
    پھیلتی کائنات قرآن کے بیان کے مطابق ایک حقیقت ہے کیوں کہ اللہ نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ یہ صرف سائنسی نظریہ نہیں ہے ۔
    اللہ خالق کائنات ہے اس لیے وہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے ۔
    سائنسدانوں کی معلومات کائنات کے بارے میں بہت محدود اور ناقص ہیں اس محدود معلومات کی بنا پر اللہ جو آسمانوں اور زمین کا مبدع ہے ، کا انکار کہاں تک صحیح ہے ؟! میرے نزدیک اس کا کوئی سائنسی جواز نہیں ہے ۔
    علامہ اقبال رحمہ نے اپنی نظم ' لینن خدا کے حضور میں ' عالم خیال میں لینن کی زبانی کہتے ہیں :
    اے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات
    حق یہ کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات
    میں کیسے سمجھتا تو ہے یا کہ نہیں ہے
    ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
    سائنسی نظریات اور مفروضے بدلتے رہتے ہیں جبکہ قرآن کے بیانات اٹل اور مستقل ہیں ۔ اب اگر یہ کھلی نشانیاں سامنے آجانے کے باوجود عالم انسانیت کی اکثریت اللہ کا انکار کرتی رہی تو یہ اس کے وسیع تر مفاد میں نہیں ہے !
    اور اپنے برے انجام کا وہ خود ذمہ دار ہوگا ۔
    اللہ کی پیدا کی ہوئی کائنات میں زندگی گزارنے ، اس کی دی ہوئ رزق کھانے اور نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے باوجود اس کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد
    اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ
    عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں
    کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔
    ( 4 )
    وقت حاضر کے مغربی حکمراں عقیدہ و تہذیب ، تصور حیات و کائنات اور فکر و نظر کے لحاظ سے خالص اس مادی نقطہ نظر کے حامل ہیں جس نے عصر حاضر کے نظریہ ارتقا کے بطن سے جنم لیا ہے ۔ اس تصور حیات میں انسان اصل حیوانی کی ایک فرع کے سوا کچھ نہیں ۔ اس کی زندگی کے تمام اصول و قوانین حیوانی زندگی کے تابع اور اسی کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ مغربی حکمرانوں کے اخلاق خالص ارتقائی تہذیب کے ترجمان ہیں اور انہوں نے اسی کے مطابق طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ۔ یہ ان کے نزدیک بالکل ایک فطری طرز عمل ہے اور عالم انسانیت کے تعلق سے انہوں نے یہی حیوانی طرز عمل اختیار کر رکھا ہے ۔
    عصر حاضر میں اس تہزیب کے پروردہ حکمرانوں کی عالمی قیادت اور لیڈرشپ نے عالم انسانیت کے اخلاق کو جس طرح تباہ و برباد کیا ہے وہ بہت تکلیف دہ ، سوہان روح اور
    ماتم کی جا ہے ۔
    اس انکار خدا پر مبنی ارتقائی مغربی تہذیب کو اہل مغرب نے قصدا دین اسلام اور اسلامی تہذیب کے متوازی اور مقابلے میں برپا کرکے اسے ختم کردینا چاہتے ہیں ۔ یہ دین اسلام اور امہ مسلمہ کے خلاف ہے ۔
    ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
    خود اللہ رب الوقت نے ارشاد فرمایا ہے :
    اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر کفر کی طرف پلٹا کر لے جائیں ۔ اگر چہ حق ان پر ظاہر ہوچکا ہے ، اپنے نفس کے حسد کی بنا پر وہ تمہارے لیے ایسا چاہتے ہیں "
    ( البقرہ : ١٠٩ )
    یہ تحریک اپنی اصل کے اعتبار سے وحی الہی اور ہدایت ربانی کے خلاف ہے جس کا مقصد امہ مسلمہ میں اللہ جل شانہ کی ذات پر ایمان
    رسالت پر ایمان اور عقیدہ آخرت کو ختم کردینا ہے ۔ یہ نظریہ ہر اس ہدایت کے انکار کی طرف لے جاتا ہے جو ربانی ہو ، ہدایت ربانی پر مبنی نظام حیات سے انحراف اور بغاوت پر آمادہ کرتا ہے اور اللہ جل شانہ کی دی ہوئی ہدایات کو رد کرکے انسانی عقل و فہم کو اس کا بدل قرار دیتا ہے ۔
    اس تہذیب میں جدید سائنس سے مراد تھی ایک ایسے علم ( سائنس) کہ بنیاد ڈالنا یا انسانی اذہان کو اس سمت لے جانا جو ہر قسم کے ماوراء الطبیعاتی تصورات سے آزاد ہو ۔ نظریہ ارتقا کے ذریعہ اسی لادینی سائنس کی طرف لے جایا گیا جس کا آج نقطہ کمال ہے اور جس کی مخالفت جہالت ہے ۔
    ریشنلزم یا تعقلیت :
    یہ وہ فلسفیانہ نقطہ نظر یا تحریک ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا کی حقیقی صداقتوں کو گرفت میں لینے کے لیے ایک استخراجی عقل کی قوت کافی ہے ۔ اس کے عین مطابق وہ آج کی نیچرل سائنس کو اس کا اصل میدان کار سمجھتا ہے ۔ اب نیچر کو سمجھنا اور اس کی تحقیقات اصل دین ہے ۔
    یہ در اصل ایک نقطہء نظر ہے جو عقل کو آخری اتھارٹی مانتا ہے اور ان تمام عقائد و ایمانیات کو رد کردیتا ہے جو عقل کے مطابق نہ ہوں ۔ یہ سر تا سر دین کو ڈھانے اور منہدم کرنے والا نقطہ نظر ہے ۔ یہ فکر یوروپ میں برگ و بار لانے لگی ۔ اس نے زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ۔ یہ در حقیقت یوروپ میں یہود کی کاشت تھی جس نے یوروپ میں ایک ایسی فوج پیدا کردی جو اپنے مذہب کا انکار کرکے لادین ہوگئی ۔ آج ہم پوری دنیا اور خاص کر مسلمانوں میں دین سے انحراف اور بغاوت دیکھ رہے ہیں یہ اسی نظریہ اور تحریک کی دین ہے ۔
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    كل نفس ذائقة الموت
    ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے
    علامہ یوسف القرضاوی اصلا مصری تھے لیکن الإخوان المسلمون پر مصر کے ظالم و جابر اور امریکہ کے آلہ کار زر پرست حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے قطر میں پناہ گزیں ہوگئے تھے ۔
    جامع ازہر سے ڈاکٹریٹ کی سند یافتہ تھے
    قطر میں میری ملازمت کے دوران وہ قطر یونیورسٹی میں شعبہ اسلامی اسٹڈیز کے صدر تھے ۔ حکومت قطر نے ان کو قطری شہریت دیدی تھی ۔
    قطر کی شاندار اور مشہور مسجد عمر بن الخطاب میں جمعہ کا خطبہ دیتے اور نماز پڑھاتے تھے ۔ ان کا خطبہ بہت علمی اور مواد سے بھرا ہوتا تھا ۔ نماز کے بعد مصافحہ اور سلام کرنے کا موقع مل جاتا تھا ۔ ایک بار مسجد امیری میں ان کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھنے کا بھی موقع ملا تھا ۔
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ
    قطر کی وزارہ اوقاف کی دعوت پر قطر تشریف لائے تھے تو علامہ القرضاوی ان سے ملنے ہوٹل میں تشریف لائے تھے ۔ اس طرح بارہا ان سے بڑے قریب سے ملنے کے مواقع ملے ۔
    ان کی تصنیف فقہ الزکاہ پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ۔ ان کی ایک مشہور تصنیف ' الحلال والحرام ' علماء عرب میں بہت تنقید کا نشانہ بنی تھی ۔ علامہ القرضاوی عربی زبان و ادب کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ
    قادر الکلام شاعر بھی تھے ۔ وہ دوحہ قطر کی
    أمسية شعرية میں شریک ہوکر اپنا کلام سنایا کرتے تھے ۔
    وہ ٩٦ سال کی طویل عمر گزار کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ اللہ ان کی لغزشوں سے درگزر اور ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنہ الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ امین
    آسماں تیری لحد پر شبنم افشاں کرے
    سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    ۔
    قرآن و سنت کا سائنسی اعجاز
    ( 2 )
    ہمیں اللہ جل شانہ کی اس عظیم نعمت اور عطیہ کا احسانمند اور شکر گزار ہونا چاہیے ۔
    لیکن اس کے برخلاف انسان کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں سے منہ پھیر کر اللہ قادر مطلق کی ذات کا انکار کرتا ہے ۔ یہ احسان شناسی اور شکر کے خلاف ہے ۔ جو سائنسداں ایک خالق اور مبدع کائنات کا انکار کرتے ہیں ، ان کے لیے سائنسی بنیاد پر اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
    اس آیہ کا یہ حصہ بھی قرآن کا بہت بڑا اعجاز ہے ۔ اس میں عصر حاضر میں پیدا ہونے والی اس تحریک کی طرف اشارہ ہے جو لادینیت کی داعی اور ایک مبدع کائنات اور موت و حیات
    کا خالق ہے ۔ یہ تحریک یوروپ میں نشاة ثانیہ
    اور اس کے بعد اٹھارہویں صدی میں نظریہ ارتقا پر از سر نو بحث و تحقیق اور چارلس ڈارون کے ارتقا کے میکنزم( Mechinism ) پر مبنی ہے ۔ یہ تحریک قرآن میں بیان کردہ اصول و مبادی کی کلی مخالفت اور عداوت پر مبنی ہے ۔
    عصر حاضر میں جدید ارتقائی نظریہ نے اللہ کے وجود کا انکار کردیا ہے ۔ وہ اس بات کا مدعی ہے کہ یہ کائنات اور موجودہ انسان طبعی ارتقا کے مختلف طویل حیوانی اور نیم انسانی مراحل سے گزرکر وجود میں آیا ہے ۔ اس نظریہ کو علوم و فنون کے تمام شعبوں میں داخل کردیا گیا ہے اور اس کے زہریلے اثرات انسانی فکر و نظر میں سرایت کرچکے ہیں ۔ جدید مغربی خالص مادی تہذیب و تمدن کی اساس اسی ملحدانہ نظریہ ارتقا پر رکھی گئی ہے ۔ سائنس کہتی ہے کہ کائنات کا آغاز بگ بینگ ( Big Bang) سے ہوا ، تاروں کے بننے اور کہکشاؤں( Glaies ) کی تشکیل اور کائنات کے موجودہ اسٹرکچر ہر سماوی اجرام کے بننے کی تشریح نظریہ ارتقا کے مطابق کی جاتی ہے
    نیچرل سائنس کسی ما بعد الطبیعاتی تصور یعنی اللہ کے وجود کو نہیں مانتی ہے ۔
    انفس و آفاق میں اللہ جل شانہ کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں لیکن آج سائنسدانوں اور نظریہ ارتقا کے معتقدین ان نشانیوں سے قصدا
    اعراض کیے ہوئے ہیں ۔ " اور وہ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں " عصر حاضر کی اسی اللہ مخالف عالمی صورت حال کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ اللہ جل شانہ سے
    بغاوت اور سرکشی کی انتہا ہے ۔
    اذهبا إلى فرعون إنه طغى
    تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بیشک وہ سرکش ہوگیا ہے " ۔
    والی صورت حال ہے ۔ جو لوگ اللہ کی ذات کا صریح انکار کرتے ہیں ۔ ان کے لیے اللہ کا رسول اور قرآن کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔
    ہمیں یہ کہنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس ایہ کریمہ کے صحیح معنی اور تفسیر سمجھنے سے قاصر رہے ہیں ۔ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ آج کی جدید ترین خلائی تحقیقات کے بغیر ہمارے لیے اس آیہ کریمہ کا حقیقی معنی و مفہوم سمجھنا ممکن بھی نہیں تھا ۔
    یہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ اپنے جدید خلائی تحقیقات کے لیے ادارے / ایجنسیاں قائم کرتے اور جس طرح اہل مغرب نے اس میدان ترقی کی ہے وہ بھی کرتے لیکن یہ مغربی استعمارکے پروردہ اور تربیت یافتہ حکمراں اپنے مغربی کی غلامی اور فرماں برداری اور ان کو خوش کرنے میں لگے رہے اور تعمیر و ترقیات کے نام پر یہ صرف عمارتیں ہی تعمیر کرواتے اور امہ مسلمہ کو دھوکے دیتے رہے ۔
    جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
    نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہوں
    ( علامہ اقبال رحمہ )
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت
    پوری عالم انسانیت کے لیے
    آج سے 1450 سال پہلے جب پوری دنیا شرک و گمراہی میں مبتلا تھی ، اللہ جل شانہ نے اپنی بے پایاں رحمت سے راہ گم کردہ اور بھٹکے ہوئے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی اور اس کو ہلاکت سے بچانے کے لیے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں مبعوث فرمایا ۔
    ارشاد ربانی ہے : اور ہم ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول بھیجتے رہے ہیں ( اس دعوت کے ساتھ ) کہ تم ( ایک) اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ۔۔۔ " ۔
    ( النحل : ٣٦)
    گزشتہ امتوں میں جو انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے تھے ان کی دعوت ایک خاص قوم اور خطہ کے لیے تھی ، لیکن پیغمبر آخر الزمان کی دعوت پوری عالم انسانیت کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے رحمہ للعالمین بناکر بھیجے گئے ہیں :
    اسلام پوری انسانیت کے لیے اللہ کا نور ہے اور اس کا دروازہ پوری نوع انسانی کے لیے قیامت تک کھلا ہوا ہے ۔
    و ما ارسلناك إلا كافة للناس بشيرا و نذيرا و لكن أكثر الناس لا يعلمون o
    ( سبا : ٢٨ )
    اور ( اے نبی) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
    یعنی وہ اپنی جہالت سے ہماری ذات و صفات ،
    ہماری الوہیت وحدانیت کا انکار کرتے ہیں ۔
    اسی طرح تمہاری رسالت کا بھی انکار کرتے ہیں ۔
    آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے بھی نبی آئے وہ سب صرف اپنی قوموں کے لیے بھیجے گئے تھے ۔ ان کی دعوت ان کی قوموں تک ہی محدود تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کسی خاص ملک ، کسی خاص قوم کے لیے نہیں تھی بلکہ قیامت تک کے لیے اور تمام اقوام عالم کے لیے اور دائمی تھی ۔
    قرآن اللہ جل شانہ کی آخری عالمگیر کتاب ہدایت ہے ۔ اس کا موضوع انسان اور اس کی ہدایت ہے ، وہ اس سے بحث کرتا ہے کہ اس کی فلاح و کامیابی کس چیز میں ہے ۔ یہ ایک عالمگیر دعوت و اصلاح ہے ۔ کسی خاص قوم ، وطن یا نسل کے لوگوں کےلیے نہیں ہے ،اس کا مخاطب پوری نوع انسانی ہے ۔ یہ " هدى للناس " پوری نوع انسانی کے لیے سراسر ہدایت و رحمت ہے ۔
    و ما ارسلناك إلا رحمة للعالمين
    اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر " ۔
    عالمی دعوت :
    اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت تمام جہانوں کے لیے تھی ۔ صرف اس دنیا (World ) کے باسیوں کے لیے نہیں بلکہ دیگر جہانوں کے باسیوں کے لیے بھی تھی ۔
    اگر مریخ میں کبھی کوئی مخلوق آباد تھی تو
    اسلام کی دعوت ان کے لیے بھی تھی ۔ مریخ کی جو تصاویر ہماری نظر سے گزری ہیں ، ان ایک جگہ ایک قلعہ دکھایا گیا ہے اور اس کے قریب ایک مسجد نظر آرہی تھی ۔ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی تھی ۔
    آج تو خلا ( Space ) میں نئے جہانوں کی تلاش بڑی تیزی سے جاری ہے ۔ جیمس ویب ٹیلیسکوپ کے لانچ کیے جانے کے بعد سائنسداں پر امید ہیں کہ اب انہیں ایسی دنیا مل جائے گی ۔
    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    سیرت پر مزید تحریر سپرد قلم کرنے
    کا خیال ہے ۔ إن شاء الله
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    رسول اللہ (ص) عالم انسانیت کے دائمی قائد
    اور حکمرانوں کے لیے مشعل راہ
    عصر حاضر کی تہذیبی حالت اور حکمرانوں
    کے اخلاق پر اس کے تباہ کن اثرات ۔
    ( 3 )
    تہذیبی اخلاق سے مراد وہ اساسات ہیں جن پر کسی تہذیب کی بنا قائم ہوتی ہے ، جن سے کسی تہذیب کے خلیے بنتے ہیں اور یہی عناصر خون کی طرح اس کی فکر و نظر میں متحرک اور کام کرتے رہتے ہیں ۔
    دنیا میں پائے جانے والے ہر نظام کی خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اس تہذیب کی بنیادی فکر پر قائم ہوتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ وہ بنیادی فکر کتنی صحیح یا غلط ہے ۔ اس نظام کی بنیادی فکر اس تہذیب کے اساس پر استوار ہوتی ہے اور اسی سے براہ راست مربوط ، منضبط اور اسی پر منطبق ہوتی ہے ۔
    مغربی اقوام نے جب سے دنیا کا زمام کار سنبھالا ہے انہوں اپنی اصل فطرت اور مادی فکر و نظر کی وجہ سے اپنی عصری تہذیب کی بنیاد مادہ پر رکھی :
    وہ قوم جو فیضان سماوی سے ہو محروم
    حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
    علامہ اقبال رحمہ
    لیکن اٹھارویں صدی کے آغاز سے اس مادی فکر میں ایک بڑی تبدیلی آئی ۔ وہ یہ تھی کہ قدیم نظریہ ارتقا پر از سر نو بحث کا آغاز ہوا اور نئے نئے خیالات اور نظریات سامنے آنے لگے ۔ ان علماء کا یہ خیال تھا کہ تمام جانداروں میں ایک مخصوص تعلق نظر آتا ہے ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب جاندار ایک ہی اصل و نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں سال کے حیوانی ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر کر آج کی انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہوئے ہیں ۔ ان سب کی اصل ایک ہے ۔ ان علماء میں بوفون( 1707 -- 1788) ارازمیک ڈارون اور لامارک ( Lamark ) قابل ذکر ہیں ۔ لامارک کا نظریہ بڑی حد تک ارتقاء حیات کو عام فہم بنانے میں مددگار ثابت ہوا ۔
    چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقا :
    ڈارون 1809 میں پیدا پیدا ہوا تھا اور 1882 میں وفات پائی ۔ ڈارون نے اس نکتہ پر غور کرنا شروع کیا کہ کیا جانداروں میں ارتقائی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں ۔ ڈارون کی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے ارتقا کا ایک خاص میکنزم قدرتی انتخاب ( Natural Selection) پیش کیا ۔ اس سے نظریہ ارتقا کو بڑی تقویت ملی ۔
    بقاء اصلح کی بحث
    ایک خطہ یا جگہ پر موجود حیوانات کے افراد زندگی کی بقا کی جنگ میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے یا اپنے خارجی ماحول سے لڑتے ہوئے زندہ رہنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔ اس بقا کی جنگ میں ہر فرد انفرادی طور پر حصہ لیتا ہے ۔ اس جنگ میں ایک طرف وہ ہوتے ہیں جو " منتخب " ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو " غیر منتخب " ہوتے ہیں اور بقا کی جنگ ہار جاتے ہیں ۔
    اس نظریہ میں ایک بہت اہم مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جانداروں میں وراثتی طور پر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور یہ تبدیلیاں طویل عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے نئی نوع کی شکل میں بدل جاتی ہیں اس طرح الگ الگ انواع پیدا ہوتے رہتے ہین ۔ زمین پر پائے جانے والے سارے انواع ( Species) اسی طرح وجود میں آئے ہیں اور آخر میں چمپانزی موجودہ انسانی شکل و صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ نظریہ ارتقا کے مطابق ہم انسان نسل آدم کی اولاد نہیں بلکہ تاریخ کے طویل ترین عرصہ میں مادہ کے قدرتی تعامل اور ارتقا کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں اور مرکر ختم ہوجائیں گے ۔ آخرت اور جزا و سزا کی باتیں غیر سائنسی اور جہالت ہیں ۔
    اب جبلی مادی نقطہ نظر جس کی طرف انسان فطری طور پر مائل ہوتا ہے ایک مکمل سائنسی نظریہ ارتقا میں تبدیل کردیا گیا اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو اسی نظریہ کے تحت استوار کردیا گیا ۔ اب اس کی ذرا سی مخالفت اس کے ماننے والوں کو گوارا نہیں ۔ اس نظریہ کی روشنی میں اب انسانی زندگی بقاء اصلح کی جنگ میں بدل گئی ۔
    عصر حاضر کی مغربی تہذیب اسی نظریہ ارتقا پر قائم ہے اور یہ تہذیبوں کے تصادم اور حرب و ضرب کا دور ہے ۔
    باطل کے کر و فر کی حفاظت کے واسطے
    یوروپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
    علامہ اقبال رحمہ
    عصر حاضر کی اس جدید نظریاتی جنگ میں
    جسے " تہذیبوں کے تصادم " کا نام دیا گیا ، بقاء اصلح کی اس جنگ میں کہاں کھڑی نظر آرہی ہے؟! یہ ہمارے لیے غور و فکر کا مقام ہے !
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @sadaquatalam5591
    @sadaquatalam5591 ปีที่แล้ว +1

    Awaz nahi hi

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +2

    امہ مسلمہ کی موجودہ نا گفتہ بہ
    صورت حال
    آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ :
    " عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کیا ہماری تعداد اس وقت کم ہوگی ؟ ارشاد فرمایا گیا نہیں تمہاری تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہاری حالت سیلاب مین پانی کی سطح پر بہنے والےجھاگ کی طرح ہوگی جس کی کی کوئی طاقت نہیں ہوتی ۔ سیلاب کا زور اسے بہا کر لے جاتا ہے ۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ بھی بتادی کہ اس وقت تمہارے تعداد زیادہ ہوگی لیکن تمہارے اندر دنیا کی محبت گھر کر جائے گی اور تمہارے اندر موت کا خوف پیدا جائے گا ۔
    یعنی امہ مسلمہ کا زوال اخلاقی ہوگا ۔ مرور زمانہ کے ساتھ امہ مسلمہ کے اخلاق میں غیر معمولی گراوٹ پیدا ہوجائے گی ۔ آج ہم اس کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔
    مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ ان کی اخلاقی حالت اب بھی دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلے میں مجموعی طور پر بہتر ہے ۔ ایسا احساس خلاف حقیقت بھی نہیں ، لیکن اس سے بھی بڑی اور ناقابل انکار حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابلے میں ہمارا اخلاقی زوال زیادہ بڑا اور نہایت افسوسناک ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والے ہیں ۔ ہم جن احکام الہی اور حلال و حرام سے واقف ہیں ، دوسری قومیں ان کو جانتی ہی نہیں ۔ ہمارے پاس زندگی کا مکمل ضابطہ اورنظام حیات ہے لیکن ہم نے قرآنی احکام اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ہمارے اوپر قرآن کا یہ قول صادق آتا ہے :
    يا رب إن قومى اتخذوا ھذا القرآن مهجورا
    اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے ( پس پشت ڈال رکھا ہے) ۔
    اخلاقی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ امہ مسلمہ کی موجودہ دور میں تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی صورت حال ۔ اسلام دین اللہ ہے ۔ اسلامی تہذیب اسی اساس پر قائم یے اور اسلامی ثقافت اسی سرچشمہ سے پھوٹ کر نکلی اور برگ و بار لائی ہے ، مسلمانون کا معاشرتی نطام اسی پر قائم ہونا چاہیے ۔
    در حقیقت امہ مسلمہ کی کامیابی اس دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے لیکن کیا امہ مسلمہ کی زندگی ان تینوں بنیادون پر استوار ہے ؟
    اسلام کا سارا اخلاقی نظام جو اس کے تہذیبی ، ثقافتی اور تمدنی نظام سے عبارت ہے شکست و ریخت سے دوچار ہے ۔ ان کی اخلاقی حالت ہر اعتبار سے سخت زبوں حالی کا شکار ہے ۔
    وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
    اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
    یہ موضوع تفصیل طلب یے اور موجودہ دور میں امہ مسلمہ جس نازک اور کربناک صورت حال سے گزر رہی ہے ، اس کی وجہ سے دل بہت پریشان اور فکر مند ہے ۔ اللہ تعالی امہ مسلمہ کی حالت پر رحم فرمائے اور اس کو اپنی حالت سدھار نے کی توفیق عطا فرمائے
    اور اس کی دستگیری فرمائے ۔ امین
    اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
    امت پہ تری آلے عجب وقت پڑا ہے
    مولانا حالی رحمہ
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว +1

    ہندستانی مسلمانوں کی نسل کشی
    کا منصوبہ
    قتل عام کی تیاری کے خلاف جینوسائڈ واچ
    کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری اسٹیسٹن کا پھر
    انتباہ ۔
    ہندستان میں مسلمانوں پر ایک عرصہ سے زمین تنگ ہوچکی ہے اور حالات لگاتار بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔ مرکزی حکومت کی مبینہ پشت پناہی میں خوف و دہشت میں ملک کے مسلمانوں کو مبتلا کرکے ان کو بے بسی کے احساس میں مبتلا کرنے اور مزاحمت کی کوششوں کو ختم کرنے کی مبینہ کوششوں اور سازشوں کے درمیان ان کی نسل کشی کا پھر انتباہ عالمی سطح پر جاری کیا گیا ہے ۔
    اندرون ملک متعدد بار مسلمانوں کو ٹھکانے لگائے جانے کی اشتعال انگیز بھگوا تقریروں اور چند مقدمات کے بعد مشہور ریسرچر گراسٹیٹس نے پھر وارننگ دی ہے ۔
    اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ( ISNA )
    کے سالانہ کنونشن میں انڈین امیریکن مشن کونسل (IAMC ) کے زیر اہتمام پینل ڈسکشن
    عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کی تنظیم
    Genocide Watch کے ڈائرکٹر گریگوری سٹیسٹن نے یہ سنگین الزام لگایا ہے کہ انڈیا
    دو سو ملیون مسلمانوں کی " نسل کشی کے قتل عام " کی تیاری کررہا ہے ۔ انگریزی کے نیوز پورٹل Mslim Mirror کی رپورٹ کےمطابق ہندستان کے پاس مزید نسل کشی کے قتل عام کے تمام تیاری کے مراحل ہیں " ۔
    ڈاکٹر اسٹیسٹس نے شکاگو میں ISNA کے 59 ویں کنوینشن میں امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ ( CAA ) , نفرت انگریز تقریر کے زریعہ مسلمانون سے غیر انسانی سلوک اور ہندووں کی طرف سے کیے جانے والے لنچنگ اور دیگر جرائم پر مقدمہ نہ چلائے جانے " کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعوی کیا ۔
    ڈاکٹر اسٹیسٹس نے مزید کہا :
    " استثنی کا ایک عجیب ماحول راج کر تا ہے ،
    جس میں اپنے ہی خاندانوں کے اجتماعی قتل کے عینی شاہدین کو دہشت زدہ کرکے گواہی دینے سے انکار کروادیا جاتا ہے ، اور قاتلوں کو بڑی کردیا جاتا ہے ۔ "
    " انہوں نے ہندو بالادستی کے نیم فوجی گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ( RSS ) کے اثر و رسوخ کے بارے میں خبردار کیا ، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی( BJP ) کا اصولی نظریہ ہے ، اور کہا کہ
    آر ایس ایس اب اپنے متشددانہ بالادستی کے نظریے کو اسکولوں میں آگے بڑھا رہا ہے "۔
    آر ایس ایس بھی بجرنگ دل کے کیمپ میں چلاجاتا یے ، جہاں نوجوان ہندو لڑکوں کو ہندتوا کا نظریہ سکھایا جاتا ہے ، اور جہاں مسلمانوں سے نفرت اور خوف کی کھلے عام وکالت کی جاتی ہے " ۔
    ان کیمپوں کو بیرونی ملک ہندستانیوں کی طرف سے خاص طور پر انڈیا ڈویلپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ کے ذریعہ بڑی مالی امداد ملٹی ہے ۔
    ڈاکٹر اسٹیسٹس نے مزید متنبہ کیا کہ بی جے پی ماضی میں تشدد اور نسل کشی کو بھڑکانے میں کردار ادا کرچکی ہے ، خاص طور پر 2002 کے گجرات قتل عام کے دوران ،اور یہ کہ مزید قتل عام کی تیاری شروع جا چکی ہے ۔
    ( اخبار مشرق ، کلکتہ جمعرات ، 8 ستمبر 2022بمطابق 10 صفر المظفر 1444 )

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    علامہ شیخ یوسف القرضاوی
    کا سانحہ ارتحال پر ملال
    قرضاوی دعوت و عزیمت کے پیکر تھے
    علامہ یوسف القرضاوی اصلا مصری تھے لیکن الإخوان المسلمون پر مصر کے ظالم و جابر اور امریکہ کے آلہ کار زر پرست حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے قطر میں پناہ گزیں ہوگئے تھے ۔
    جامع ازہر سے ڈاکٹریٹ کی سند یافتہ تھے
    قطر میں میری ملازمت کے دوران وہ قطر یونیورسٹی میں شعبہ اسلامی اسٹڈیز کے صدر تھے ۔ حکومت قطر نے ان کو قطری شہریت دیدی تھی ۔
    قطر کی شاندار اور مشہور مسجد عمر بن الخطاب میں جمعہ کا خطبہ دیتے اور نماز پڑھاتے تھے ۔ ان کا خطبہ بہت علمی اور مواد سے بھرا ہوتا تھا ۔ اس میں زیادہ تر مصری تعلیم یافتہ شریک ہوتے تھے ۔ میں مسجد کے قریب رہتا تھا اس وجہ سے جمعہ کی نماز اسی مسجد میں پڑھا کرتا تھا ۔ نماز کے بعد ان سے مصافحہ اور سلام کرنے کا موقع مل جاتا تھا ۔ ایک بار مسجد امیری میں ان کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھنے کا بھی موقع ملا تھا ۔
    اتنی بڑی اور عظیم علمی شخصیت کو بہت قریب سے دیکھنے اور سننے کے مواقع ملے ۔
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ
    قطر کی وزارہ اوقاف کی دعوت پر قطر تشریف لائے تھے تو علامہ القرضاوی ان سے ملنے ہوٹل میں تشریف لائے تھے ۔ وہاں بھی بڑے قریب سے ان کا دیدار ہوا تھا ۔
    قرضاوی عالم اسلام کے مشہور و معروف عالم دین ، فقیہ و مجتہد اور اہل قلم ہونے کے ساتھ پرجوش مقرر بھی تھے ۔ ان کو عالم اسلام اور امہ مسلمہ کے علاقائی اور عالمی مسائل سے بڑی دلچسپی تھی اور ان سے متعلق موضوعات پر خوب دل کھول کر اور پر جوش تقریریں کرتے تھے ۔ ان کے اندر دعوت دین کی بڑی تڑپ تھی اور وہ صبر و عزیمت کے پیکر تھے ۔
    ان کی تصنیف فقہ الزکاہ پر انہیں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا ۔ ان کی ایک مشہور تصنیف ' الحلال والحرام ' علماء عرب میں بہت تنقید کا نشانہ بنی تھی ۔ علامہ القرضاوی عربی زبان و ادب کے ماہر ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر بھی تھے ۔ وہ دوحہ قطر کی أمسية شعرية میں شریک ہوکر اپنا کلام سنایا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ قطر کی سماجی زندگی اور پروگراموں میں کثرت سے شریک ہوتے تھے ۔
    علامہ قرضاوی کا دارالعلوم ندوہ العلماء سے قلبی تعلق تھا اور وہ ندوہ کو رجال پیدا کرنے والا علمی ادارہ کہا کرتے تھے ۔ مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کے بڑے قدرداں اور مداح تھے ۔ وہ ندوہ تشریف لائے تھے تو ان کے متعدد پروگرام ہوئے جن میں انہوں نے اساتذہ اور طلباء کو خطاب کیا ۔ بعض پروگرام میں علامہ ندوی رحمہ بنفس نفیس شریک ہوئے تھے ۔
    وہ ٩٦ سال کی طویل عمر گزار کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ اللہ ان کی لغزشوں سے درگزر اور ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنہ الفردوس میں جگہ عطا فرمائے . امین
    ان کی وفات کے موقع پر یہ مختصر تحریر سپرد قلم کرنے کی سعادت و توفیق نصیب ہوئی ۔
    آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
    سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @ubaidullahsiddiqui1345
    @ubaidullahsiddiqui1345 2 ปีที่แล้ว +1

    ھمارے یہاں جےپور میں مساجد کے امام صاحب کی تنخواہیں صرف 7000 روپے ماہانہ ھیں اسکی وجہ سے علماء کرام پریشان ہیں اور مجبوری میں تعویز گنڈے کے ذریعے اھل وعیال کی پرورش کر رہے ہیں جادو کی کاٹ کر کر کے گھر کا خرچ چلاتے ہیں

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 ปีที่แล้ว +1

    الأنفجار الكونى( Big Bang ) لم يحدث اطلاقا
    و الآية إن السموات والأرض كانتا رتقا ففتقناهما ( ٣٠ الأنبياء ) لا علاقة لها بنظرية الأنفجار. . إن بعض العلماء الفلكيون تركوها و اذهبوا إلى نظرية اخرى وهى تعدد الكون ( Multiverse theory ) يعنى ان الكون هذا
    ولد من بطن إحدى الأكوان .
    و جاء فى تقرير علمى نشر فى إحدى الجرائد أن بعض العلماء الفلكيون تركوا و اعتمدوا على نظرية تعدد الأكوان .

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 2 ปีที่แล้ว

    قرآن و سنت کا سائنسی اعجاز
    ( 1)
    اللہ جل شانہ نے قرآن میں فرمایا ہے :
    وجعلنا السماء سقفا محفوظا وهم عن آياتها معرضون o ( الأنبياء : ٣٢)
    اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا مگر یہ ہیں کہ اس کی ( کائنات میں پھیلی ہوئی) نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں ۔
    یہ حفاظتی چھت کیا ہے اور یہ کس کی حفاظت کرتا ہے ؟
    مولانا عبد الماجد دریابادی اور مولانا وحید الدین خان رحمہما اللہ نے اس آیہ کی تفسیر کی ہے یا نہیں ، مجھے معلوم نہین ۔ مولانا مودودی رحمہ نے صرف اس آیہ کا ترجمہ کیا ہے ۔ اس کی کوئی تفسیر نہیں کی ہے ۔ کیا اس آیہ کی تفسیر کی ضرورت نہیں ہے ؟
    یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیہ میں آسمان سے کیا مراد ہے؟ اور اس کو حفاظتی چھت بنانے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ نشانیاں کیا ہیں جن سے اعراض کیا جارہا ہے اور یہ اعراض کرنے والے کون ہیں؟
    یہ ایک سائنسی آیہ ہے اور چونکہ " السماء "
    سے متعلق ہے ، اس لیے اس کی تفسیر علم فلکیات کی روشنی میں کی جانی چاہیے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر جدید فلکیاتی تحقیقات پر نظر نہ ہو تو کوئی اس کی تفسیر ہرگز نہیں کرسکتا ہے ! میں اس بارے جو سمجھ سکا ہوں اس کا خلاصہ جدید خلائی تحقیقات کی روشنی میں درج ذیل ہے :
    یہاں آسمان بہت وسیع معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ اس بارے جدید خلائی تحقیقات کے مطالعہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آسمان سے مراد وہ کائنات ہے جس کا مطالعہ اور تحقیق جدید ماہرین فلکیات کرسکے ہیں جسے وہ ( Observable universe ) کہتے ہیں ۔
    بالخصوص ہمارا نظام شمسی اور ہماری کہکشاں (Milky Way) ۔
    حفاظتی چھت اس میں پائے جانے والے Magnetic fields ہیں جو پورے آسمان
    ( Universe)
    میں ایک جال کی طرح پھیلے ہوئے اور اسے ایک چادر کی طرح ڈھانکے ہوئے ہیں ۔ یہ پوری کہکشان ( Glaxy) کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔ ہماری زمین نظام شمسی کا ایک چھوٹا سیارہ ہے اور پوری کائنات حجم کے اعتبار سے اس کی حالت بڑی قابل رحم ہے !
    کرہ ارض کا بھی ایک مخصوص میگنیٹک فیلڈ
    ہے ۔ آسمان میں میگنیٹک فیلڈز کا پھیلا ہوا وسیع و عریض نظام زمین پر انسانی زندگی کی حفاظت کرتا ہے ۔ اگر میگنیٹک فیلڈز کا یہ حفاظتی نظام نہ ہو تو ہم آسمانی ( خلائی) حملوں سے نیست و نابود ہو جائیں جیساکہ مریخ خلائی حملوں سے اس کا میگنیٹک فیلڈ ختم ہوگیا جس کی وجہ سے وہ بنجر ہوگیا اور وہاں سے ز ندگی بالکل ناپید ہوگئی ۔
    "حفاظتی چھت " میگنیٹک فیلڈز
    ( Magnetic fields )
    ہیں اور آسمان سے مراد یونیورس کا وہ حصہ ہے جس کا مشاہدہ جدید ماہرین فلکیات کرسکے ہیں یعنی " السماء " پورا
    ( Observable universe )
    ہے ۔ یہ اس کائنات کا صرف %5 ہے ۔ یہاں آسمان بہت وسیع معنی میں استعمال کیا گیا ہے ۔ بالخصوص ہماری کہکشاں (Milky Way) اور نظام شمسی ہے ۔ اور حفاظتی چھت اس میں پایا جانے والا Magnetic fields کا حیرت انگیز اور محیر العقول حفاظتی نظام ہے ۔ یہ میگنیٹک فیلڈز پوری کائنات ( Universe) میں ایک جال کی طرح پھیلے ہوئے اور پوری کہکشان ( Glaxy) کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔
    کرہ ارض کا بھی ایک مخصوص میگنیٹک فیلڈ
    ہے جو اس پر انسانی زندگی کی حفاظت کرتا ہے ۔ اگر میگنیٹک فیلڈز کا یہ قدرتی حفاظتی نظام نہ ہو تو انسان مہلک خلائی حملوں سے نیست و نابود ہوجائے جیسا کہ سیارہ مریخ خلائی حملوں سے بالکل ویران و بنجر ہوگیا اور وہاں سے زندگی بالکل ناپید ہوگئی ۔
    اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ میگنیٹک فیلڈز کس چیز سے زمین پر ہماری حفاظت کرتے ہیں؟ یہ سماوی نظام خلائی حملوں سے ہماری حفاظت کرتا ہے ۔ سورج سے بہت بڑی مقدار میں نیوکلر چارج شدہ ذرات ( CMEs) پر مشتمل شمسی طوفان نکل کر لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھتا ہے لیکن زمین سے ٣٥٠٠٠ ہزار میل کی دوری پر یہ حفاظتی چھت اسے Deflect کردیتی ہے یعنی یہ مہلک طوفان اس سے ٹکراکر زمین کی طرف رخ کرنے کے بجائے دوسری طرف مڑ جاتا ہے ۔ اللہ جل شانہ نے اس آسمان میں ایسے انتظامات کر رکھے ہیں جن سے زمین پر انسان کی زندگی کی حفاظت ہوتی ہے ۔ یہ انتہائی مہلک Atomic Charged Particles اگر براہ راست زمین سے ٹکراجائیں تو زمین سے انسان کا نام و نشان مٹ جائے ۔ یہ سورج کی زہریلی گیسوں ، شعاعوں (Rediations ) اور شمسی طوفان اور دیگر خلائی حملوں سے ہماری حفاظت کرتے ہیں ۔
    یہ وہ سقف محفوظ (حفاظتی چھت) ہے جسے اللہ قادر مطلق نے اپنے بے پایاں رحم و کرم سے ہماری حفاظت کے لیے بنایا ہے ۔ اس حفاظتی نظام کے تحت اوزون پرتیں ( Layers) بھی آتی ہیں ۔ یہ زمین سے تقریبا ١٠ کیلومیٹر كى بلندی سے شروع ہوکر پچاس کلومیٹر کی بلندی تک پھیلی یوئی ہیں جو سورج سے نکلنے والی خطرناک شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے روکتی ہیں ۔ اوزون ایک زہریلی گیس ہے لیکن اوپری فضا میں اس کی موجودگی ماورائے بنفشی خطرناک شعاعوں (Ultra Voilet Radiation) سے ہماری حفاظت کرتی ہے ۔ ان شعاعوں کی زمین تک پہنچنے کی صورت میں مختلف قسم کے خطرناک امراض پیدا ہوسکتے ہیں اور روئے زمین سے زندگی ناپید ہوسکتی ہے ۔
    قرآن کریم میں اللہ قادر مطلق نے اس مکمل حفاظتی نظام کو مندرجہ بالا ایہ کریمہ مین آج سے تقریبا 1500 سال پہلے بیان کیا ہے ۔
    آج سے تقریبا ڈیڑھ ہزار سال پہلے اس مخفی حقیقت کو کون بیان کرسکتا ہے جبکہ اس وقت ٹیلسکوپ ایجاد نہیں ہوا تھا اور بغیر جدید ترقی یافتہ ٹیلیسکوپ کے اس انتہائی باریک اور غیر مرئی حفاظتی نظام کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا ہے ؟! ماہرین فلکیات کو اس کا علم بیسویں صدی کے آخر میں ہوا ۔
    ہمیں اللہ جل شانہ کی اس عظیم نعمت اور عطیہ کا احسانمند اور شکر گزار ہونا چاہیے ۔
    لیکن اس کے برخلاف انسان کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں سے منہ پھیر کر اللہ قادر مطلق کی ذات کا انکار کرتا ہے ۔ یہ احسان شناسی اور شکر کے خلاف ہے ۔ جو سائنسداں ایک خالق اور مبدع کائنات کا انکار کرتے ہیں ، ان کے لیے سائنسی بنیاد پر اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
    جاری
    ڈاکٹرمحمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @fateenashraf3685
    @fateenashraf3685 2 ปีที่แล้ว +2

    بعض کے تلفظ نہایت غلط اور پڑھنے کا انداز غیر معیاری ہونے سے مسلسل ناگواری کا احساس ہوتا رہا ۔۔۔ ٹیم نگراں اور اساتذہ سے گزارش ہے کہ بیت سے قبل انہیں پڑھنے کی مشق کرائی جائے ۔۔ چونکہ یہ طلبائے ندوۃ العلماء ہیں ۔۔
    جملہ ٹیم کو مبارکبادی پیش ہے ۔۔

    • @Shaikh-Abdullah.
      @Shaikh-Abdullah.  2 ปีที่แล้ว +3

      آپ کی نا گواری بجا ہے، اردو ادب اور ندوی ذوق کا یہی تقاضا ہونا چاہیئے، لیکن معذرت کے ساتھ یہ ملحوظ رکھیں کہ " یہ کورونا کی آزمائش سے نکلی ہوئی نسل ہے"۔

    • @HashimNadvivlog23
      @HashimNadvivlog23 ปีที่แล้ว

      Hahaha 😅

  • @arabiclunguage2315
    @arabiclunguage2315 2 ปีที่แล้ว +2

    Masha allah

  • @hamzashamsi8899
    @hamzashamsi8899 2 ปีที่แล้ว +2

    Mashallah

  • @Ibaad87
    @Ibaad87 2 ปีที่แล้ว +6

    Ma sha Allah

  • @abdulhaqfurqani6340
    @abdulhaqfurqani6340 2 ปีที่แล้ว +3

    Masha Allah

  • @Sameernadwi
    @Sameernadwi 2 ปีที่แล้ว +4

    Masha allah

  • @mdjavedansari5749
    @mdjavedansari5749 2 ปีที่แล้ว +2

    Mashallah