اسی طرح مخلوق کے عہد بھی باریکی سے ادا کرو اور اس کی امانتوں کی بھی ایک فکر کے ساتھ ادائیگی کروتب کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لیے آیا ہے، روزے رکھنے کی طرف اس لیے تمھیں توجہ دلائی گئی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جو کوتاہیاں کمیاں ان حقوق کے ادا کرنے میں ہو گئی ہیں اس مہینے میں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دیتے ہوئے، بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے پورا کرو اور جب یہ کرو گے تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ اور یہی رمضان کا اور روزوں کا مقصد ہے اور جب انسان اس نیت اور اس مقصد کے حصول کے لیے روزے رکھے گا اور رمضان میں سے گزرے گا اور نیک نیت ہو کر گزرے گا تو پھر یہ تبدیلی عارضی نہیں ہو گی بلکہ ایک مستقل تبدیلی ہو گی۔ پھر حقوق اللہ کی ادائیگیوں کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ عبادتوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ دنیا کی مصروفیات اور لغویات غلبہ نہیں کریں گی اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی عمومی توجہ رہے گی۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہم لوگوں کے حق مارنے والے نہیں ہوں گے۔ اگر ہم اس نیت سے اور اس ارادے سے روزوں کے مہینے میں داخل نہیں ہو رہے تو ہمارا رمضان میں داخل ہونا بے فائدہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے درمیان ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الصوم فی سبیل اللہ حدیث 2840) یعنی خزاں یا سرما کا موسم ہے تو جو فاصلہ ایک موسم اور اگلے موسم کے درمیان ہے وہ اتنا فاصلہ ہے کہ ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے یعنی ایک خریف اور دوسرے خریف میں ایک سال کا فاصلہ ہے تو اتنا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے جو ستر سالوں کے برابر ہے۔ تو یہ ہیں روزے کی برکات اور یہ ہے وہ تقویٰ جو روزہ پیدا کرتا ہے۔ یعنی روزہ صرف تیس دن کے لیے تقویٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ حقیقی روزہ ستر سال تک اپنا اثر رکھتا ہے اور اس حساب سے اگر ہم دیکھیں تو روزے کی فرضیت ہونے کے بعد ایک انسان پہ، ایک بالغ مسلمان پہ جب روزہ فرض ہوتا ہے اس کے بعد جو روزے سے حقیقی فیض اٹھانے والا ہے اور اس کی روح کو سمجھ کر روزے رکھنے والا ہے وہ تمام عمر کے لیے ہی ان برکات سے فیض پاتا رہے گا جو روزے میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اور تقویٰ کی راہوں کو تلاش کرتا رہے گا جو روزے کا مقصد ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے گا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے والا بنتا چلا جائے گا۔ اگر ہم تصور کریں کہ ایسے روزے دار ہمارے معاشرے میں پیدا ہو جائیں تو وہ کس قدر خوبصورت معاشرہ ہو گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے اور بندوں کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے اور یہی وہ حسین معاشرہ ہے جو ہر مومن قائم کرنے کی خواہش رکھتا ہے بلکہ ہر انسان اس معاشرے کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا جہاں تک اس کے اپنے حقوق کا سوال ہے وہ عموماً اپنے لیے تو یہ پسند کرتا ہے چاہے دوسرے کے لیے اس کو خیال نہ آئے لیکن اسلام کہتا ہے کہ دوسروں کے لیے بھی تم نے یہ معاشرہ قائم کرنا ہے۔ صرف اپنی سہولیات نہیں دیکھنی، اپنے مفادات نہیں دیکھنے، اپنے حقوق نہیں دیکھنے بلکہ دوسروں کے حقوق کی بھی حفاظت کرنی ہے، ان کا بھی خیال کرنا ہے۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤
🥰🕋🥰💚🕋💚🥰🕋🥰
Masha'Allah Subhana'Allah
❤❤❤❤❤❤❤❤
Masya Allah ♥️❤️
Ramazan Mubarak
MashaAllah❤❤❤❤
Masha'Allah ❤❤
MASHALLAH THANK FOR THE VIDEO 🥰
Allah AP ki Ramzan mhhbark karyAamen
Jazakumullah
❤❤❤❤
💛
اسی طرح مخلوق کے عہد بھی باریکی سے ادا کرو اور اس کی امانتوں کی بھی ایک فکر کے ساتھ ادائیگی کروتب کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لیے آیا ہے، روزے رکھنے کی طرف اس لیے تمھیں توجہ دلائی گئی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جو کوتاہیاں کمیاں ان حقوق کے ادا کرنے میں ہو گئی ہیں اس مہینے میں خالصۃً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دیتے ہوئے، بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے پورا کرو اور جب یہ کرو گے تو اس کا نام تقویٰ ہے۔ اور یہی رمضان کا اور روزوں کا مقصد ہے اور جب انسان اس نیت اور اس مقصد کے حصول کے لیے روزے رکھے گا اور رمضان میں سے گزرے گا اور نیک نیت ہو کر گزرے گا تو پھر یہ تبدیلی عارضی نہیں ہو گی بلکہ ایک مستقل تبدیلی ہو گی۔
پھر حقوق اللہ کی ادائیگیوں کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ عبادتوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔ دنیا کی مصروفیات اور لغویات غلبہ نہیں کریں گی اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی عمومی توجہ رہے گی۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہم لوگوں کے حق مارنے والے نہیں ہوں گے۔ اگر ہم اس نیت سے اور اس ارادے سے روزوں کے مہینے میں داخل نہیں ہو رہے تو ہمارا رمضان میں داخل ہونا بے فائدہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے درمیان ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الصوم فی سبیل اللہ حدیث 2840)
یعنی خزاں یا سرما کا موسم ہے تو جو فاصلہ ایک موسم اور اگلے موسم کے درمیان ہے وہ اتنا فاصلہ ہے کہ ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے یعنی ایک خریف اور دوسرے خریف میں ایک سال کا فاصلہ ہے تو اتنا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے جو ستر سالوں کے برابر ہے۔ تو یہ ہیں روزے کی برکات اور یہ ہے وہ تقویٰ جو روزہ پیدا کرتا ہے۔ یعنی روزہ صرف تیس دن کے لیے تقویٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ حقیقی روزہ ستر سال تک اپنا اثر رکھتا ہے اور اس حساب سے اگر ہم دیکھیں تو روزے کی فرضیت ہونے کے بعد ایک انسان پہ، ایک بالغ مسلمان پہ جب روزہ فرض ہوتا ہے اس کے بعد جو روزے سے حقیقی فیض اٹھانے والا ہے اور اس کی روح کو سمجھ کر روزے رکھنے والا ہے وہ تمام عمر کے لیے ہی ان برکات سے فیض پاتا رہے گا جو روزے میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اور تقویٰ کی راہوں کو تلاش کرتا رہے گا جو روزے کا مقصد ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے گا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے والا بنتا چلا جائے گا۔
اگر ہم تصور کریں کہ ایسے روزے دار ہمارے معاشرے میں پیدا ہو جائیں تو وہ کس قدر خوبصورت معاشرہ ہو گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے اور بندوں کے حق بھی ادا کیے جا رہے ہوں گے اور یہی وہ حسین معاشرہ ہے جو ہر مومن قائم کرنے کی خواہش رکھتا ہے بلکہ ہر انسان اس معاشرے کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا جہاں تک اس کے اپنے حقوق کا سوال ہے وہ عموماً اپنے لیے تو یہ پسند کرتا ہے چاہے دوسرے کے لیے اس کو خیال نہ آئے لیکن اسلام کہتا ہے کہ دوسروں کے لیے بھی تم نے یہ معاشرہ قائم کرنا ہے۔ صرف اپنی سہولیات نہیں دیکھنی، اپنے مفادات نہیں دیکھنے، اپنے حقوق نہیں دیکھنے بلکہ دوسروں کے حقوق کی بھی حفاظت کرنی ہے، ان کا بھی خیال کرنا ہے۔
❤