غامدیصاحب اللہ تعالٰی آپ کو دنیا اور آخرت کی خوشیاں عطاء فرمائے 🤲🤲 جس طرح اپ نے دین اور دنیا کا علم ہم تک پہنچائیا ہے... وه اپنی مثال اپ ہے. هم اپ کے شکر گزار ہیں... کہ اپ نے دین کو اور قران و سنت کو اس کی صحیح اور اسان شکل میں هم تک پهنچانے کی کوشش کی... الله پاک اپ کی کوششوں کو قبول فرمائے...اور همیں سیدھے راستے پر چلنے اور رھنے کی توفیق دے. امین
Agar banda na hota, toh mien musalmaan na rehta! Agar yeh banda na hota to meri zahanat mazhab ko qabool na karti! MashAllah, kya zaheen admee hien Ghamidi Sb.
اس میں کوئی شک نہیں کہ غامدی صاحب اس جدید دور کے سب سے بہتر ہیں تاہم ہمیں آندھی کاقلید سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ ذہن کا ایک دروازہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ نئے علوم اس میں داخل ہو سکیں
Hujjat is from root word Hajj. If u put letter tey in front of word Hajj it becomes word Hujjat. Hujjat ul wida means al widae Hujjat. People usually mistake it as Al widae Hajj which is totally wrong meaning. Hajaaj is also from root word Hajj. Hajaaj then converts to ihtijaaj. People dont understand meaning of Arabic words including Ghamdi lol
mei salafi maktbe fikr se taulaq rakhta tha.....6 saal se ghamdi sahab ko sun raha hun ...mere lye eik nai duniya daryaft hoi hai.....muje khuda ki scheme ka ab samaj aai hai.
Kamyabi sirf musalman ban kar rahne hi mein hai۔ aur her maslak aur گروہ se paak۔ sirf musalman۔ aur ek zaroori bat ke quran ko rasool se alag nahi kiya ja sakta
حقائق دین کو اس درجہ میں واضح کرنا یہ اللہ کی توفیق ھی کا حصہ ھے جو استاد محترم کو حاصل ھے ، اللہ انکی کوششوں کو قبول فرماکر امت کی اصلاح کا سامان کرے آمین
exellent discussion. both questions and answers very comprehensive. very thank ful to both. ghamdi sb geo hazaron sal. u r an assett of this ummah. u have crystel cleared our minds.
@@Ishraqiyyun gamidhi saab ne kaha apni gali me nikle sabko zaani kah de adalat pe daal de ki vo faisla kar degi....... Ye sabse beautiful line thi poori discussion me..
Hujjat is from root word Hajj. If u put letter tey in front of word Hajj it becomes word Hujjat. Hujjat ul wida means al widae Hujjat. People usually mistake it as Al widae Hajj which is totally wrong meaning. Hajaaj is also from root word Hajj. Hajaaj then converts to ihtijaaj. People dont understand meaning of Arabic words including Ghamdi lol
”۔ ۔ ۔ ہم نے تمھاری طرف بھیجا ذکر۔ ۔ ۔ اور وہ ہے میرا رسول ۔ ۔ ۔‟ (سورة الطّلاَق آیت-10، 11)- ”ہم نے زبور میں لکھ دیا کہ ذکر (رسول) کے بعد اِس زمین کے وارث میرے صالح بندے ہونگے‟ (سورة الأنبیَاء آیت-105)- اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو (سورة النّحل آیت-43)- ذکر معنی رسول اور اہل معنی: اولاد (سورة هُود آیت-45)، بھائ (سورة طـٰه آیت-29، 30)، سَوَار (سورة الکهف آیت-71) اور مثل (سورة الفَتْح آیت-29)- اولاد کے زُمرے میں حسنین شامل کیونکہ حضور جدّالحسن وحسین ہیں، بھائ کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) شامل کیونکہ رسول نے دو موقوں پر مولا علی کو اپنا بھائ بنایا، سَوَار کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اور حسنین شامل کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام) نے دوشِ رسول پر چڑھ کر کعبہ میں بتوں کو توڑا اورعید کے دن حضور حسنین کے لیے سواری بنے، مثل کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اورآپکی وہ اولاد شامل جس میں اِمامت قایم ہوئ اور اِن ہی صدیق ہستیوں کو بیٹوں اور نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کر گے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61 ”صرف اورصرف تمہارے ولی (حاکم) اللہ، رسول اور وہ مومنین ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورةالمَائدة آیت-55)- حالتِ رکوع میں زکات مولا علی نے دی- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- حج سے واپسی پر جب حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغام ِ وہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوی کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-67) تو حضور نےغدیرِخم میں لاکھوں حاجیوں کے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- حضور کی زات تمام عالمین کے لے رحمت ہے، یعنی تمام عالمین پر مہیت ہے (سورة الأنبیَاء آیت-107)- لہٰزہ مولا علی کی اِمامت بھی تمام عالمین پر مہیت ہے! اعلانِ ولایت پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3)- مولا علی کی ولایت اللہ کی نعمت ہے- اِسی لے فرمایا، ”تم سے ضرور پوچھوں گا نعمتوں کے بارے میں‟ (سورة التّکاثُر آیت-8)- ”۔ ۔ ۔ کسی کو جائز نہیں چاہے مدینے یا باہر کا رہنے والا ہو کہ رسول اور آپکے نفس کی مخالفت کرے‟ (سورة التّوبَة آیت-120)- مولا علی (علیہ سَلام) نفسِ رسول ہیں کیونکہ اِن ہی کو نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کرگۓ- ”کیا تم ابلیس اور اُس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالنکہ میں نے اُن کو نہ تو آسمانوں اور زمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اُن کی پیدایش پر اور اللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو حضور نے جابربن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو 12 اِماموں کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسَىٰ بن جعفر، علی بن موسَىٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد بن حسن اور فرمایا، ”میرا سلام پہنچانا میرے پانچویں خلیفہ مُحَمَّد باقر کو‟ جو انہوں نے پہنچایا- ”اِبلیس نے اپنا وَعدہ سچ کر دکھایا یعنی سب کو بہکایا سواے مومنین کے چھوٹے گروہ کے‟ (سورة سَبَإ آیت-20)- یعنی مومنین کا ایک چھوٹا گروہ معصوم کی منزلت پر ہے- ”۔ ۔ ۔ پھر ہم نے قرُان کے وارث بناے مصطفےٰ (چُننے ہوے) بندے ۔ ۔ ۔‟ (سورة فَاطِر آیت-32)- اللہ مصطفےٰ بندوں پر سَلام بھیجتا ہے (سورة النَّمل آیت-59)- یعنی وارثِ قرُان مرتبِ علیہ سَلام پر ہیں اور صَالحہ ہستیوں پر نماز میں سلام پڑھا جاتا ہے- ”اُس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خَلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اور عیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟- ”اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْر (صاحبانِ اَمر) کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59) - یعنی أُولِي الْأَمْر ہستیوں کی اِطاعت اِسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ اور رسول کی- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جنکو نامزد کیا رسول نے- شیطان نے اللہ کو مان کر اٌس کے خَلِیفہ کا اِنکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گ
اِمامت بہ نفسِ قرُان ”اللہ جسے چاہتا ہے خلق کرتا اور دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اِختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورةالقَصَص آیت-68)- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسَانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلِم اکبر اورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87)، یعنی ہر نبی یا رسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پر اِختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں‟ (سورة سَجدہ آیت-24)- یعنی بے صبرا اورشک کرنے والا اِمام نہ ہو گا- نیز اللہ جھوٹے اِمام کی مدد نہیں کرتا (سورة القَصَص آیت-41)- ”اور ہم نے ارادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو امام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورةالقَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو آنے والے وفت میں زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة َّالصَّافات آیت-107)- کربلا میں آلہِ مُحَمَّد کی قربانی زبحِ عظیم تھی جو کہ دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی خاندانِ رسالت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمامُ اُلناس، ہادیِ کل اور اِمام اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامُ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمامُ اُلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا نبوّت، رسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیۓ گے- ”( مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- اِسی طرح مولا علی کی زات گواہ ہے حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کی نبوّت پر- ارشاد ہوا، ”کیا کوئ اِس (مُحَمَّد) کی مانند ہو سکتا ہے جو اپنے ساتھ دو گواہ لے کر آیا، ایک قرُان اور دوسرا وہ جو اِس کی پیروی کرتا ہے، جس کا ذکر کتابِ موسیٰ تورات میں ہے کہ وہ (مُحَمَّد) اِمام بھی ہوگا اور رحمت بھی؟ ۔ ۔ ۔‟ (سورة ھود آیت-17)- ”جو (مُحَمَّد) صدق لے کرآیا اور جِس نے اُس کی تصدیق کی وہ دونوں متّقی ہیں‟ (سورة زمر آیت-33)- اِس آیت کے زیل میں حضورنے فرمایا،”یہ دوسرا شخص علی ابن ابی طالب ہے‟- اِسی لے مولا علی کو اِمام المتقین بھی کہا جاتا ہے خلافِ عدل ہوگا اگر اِمام اپنے دور کا عالم ترین انسان نہ ہو- ”کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اُن سے کہہ دیں کہ میرے لیے ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے‟ (سورة الرّعد آیت-43) اور حضور نے فرمایا، ”دوسرا شخص زاتِ علی ہے‟- اِس آیت کے زیل میں مولا علی نے فرمایا، ”میری سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ لا شریک نے مجھے نبوّت کی گواہی میں شریک بنایا‟- قرّان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سلام) کا مقام سب سے بلند ہے، کیونکہ حضور نے فرمایا، ”میں عِلم کا شہر ہوں اورعلی اس کا دروازہ‟- ”قرُان کی مَعنویت تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر‟ (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مفام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی، امام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجا ست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزَاب آیت-33)- ”اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمُبین میں رکھا‟ (سورة یٰسین آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمام ِمبُین زاتِ علی ہے‟ یعنی درخشاں اِمام! قرُان پڑھنا اور حفظ کرنا باعثِ ثواب ہے لیکن، ”۔ ۔ ۔ قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں‟ (سورة انکبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة مجادلہ آیت-11)- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیۓ جاتے یا مٌردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- یعنی جس کے سینے میں قرُان ہوگا اُس کی طاقت قرُان کے برابر ہوگی- اللہ کے بناے آئمہ میں اختلاف نہیں ہوتا- راسخ کے لے لازم ہے اُس کی حالت میں تغٌّیر نہ ہو یعنی جیسا بچپن ویسی جوانی اور بڑھاپا- جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) عَلیم ہستی تھے (سورة آلِ عِمرَان آیت-46) اِسی طرح اِمام کی زات میں عِلم ہوتا ہے C0ntonue on next comment
دینِ اسلام بہ نفسِ قرُان دِین کے معنی ہیں آئین اور قانون- اللہ کے نزدیک اگر کوئ دِین ہے تو وہ اسلام ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-19)- اِسلام کے معنی ہیں اللہ کی حَاکمیت کو تسلیم کرنا اور اُس کے بناے آئین اور قوانین پر عمل کرنا- دِینِ اِسلام منجانب اللہ ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-83)- یہ دِینِ حنیف ہے (سورة البينة آیت-5)، یعنی سیدھا دِین- یہ دِینِ قَيِّمُ ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی معیاری دِین- یہ دِینِ وَاصب ہے (سورة النہل آیت-52)، یعنی ہمیشہ رہنے والا- یہ دِینِ حق ہے (سورة التوبة آیت-33)، یعنی سچٌا دِین- یہ دِینِ فطرت ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی اللہ کے بناے سانچے میں ڈھلا ہوا- یہ دِینِ مصطفےٰ ہے (سورة البَقَرَة آیت-132)، یعنی چُنّا ہوا دِین- یہ دِینِ خالص ہے (سورة الزُمر آیت-3)، یعنی کَھرا دِین- یہ مرتَضَىٰ دِین ہے (سورة النور آیت-55)، یعنی افضل ترین چُنّا ہوا- مصطفےٰ، مجتبےٰ اور مرتَضَىٰ اِن تمام الفاظ کا مطلب ہے چُنّا ہوا، لیکن درجہ بندی میں مصطفےٰ سے مجتبےٰ اَفضل اور مجتبےٰ سے مرتَضَىٰ اَفضل- ”اللہ جسے چاہتا ہے دِین کے لے چُنتا ہے (نبی، رَسول یا اِمام)، بَندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- نبّوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیے گۓ- ”اور (مُحَمَّد) اُس وقت کو یاد کرو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آل عِمرَان آیت-81)- ”بے شک ہم نے نوح اور اِبراھیم کو بھیجا اور اُنکی اولاد میں نبّوت اور کتاب کو رکھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة الحدید آیت-26)- حضرت ھود، لُوطً اور اِبراھییم (علیہ سَلام) اولادِ حضرت نوح (علیہ سَلام) میں سے تھے، نیز حضرت إِسْمَاعِيلَ، اسحاق، یعقوب، یوسف، داؤد، سلیمان، ایوب، زَكَرِيَا، يَحْيَىَٰ، إِلْيَاسَ، الْيَسَعَ، يُونُسَ، موسیٰ، ہارون اور عِيسَىٰ (علیہ سَلام) یہ سب اَنبياء اولادِ اِبراھیم میں سے تھے (سورة الأنعام آیت-84 تا 87)- حضرت نوح، اِبراھیم، موسیٰ اور عیسَیٰ (علیہ سَلام) سب دینِ اسلام کے پیروکار تھے (سورة الشورا آیت-13)- ”یہی ورثہ اِبرھیم نے اپنے بیٹوں کو چھوڑا اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ، اللہ نے تمھارے لیے دینِ اسلام کو چُن لیا اور تم مسلمان رہ کر ہی مرنا‟ (سورة البَقرة آیت-132)- پس اللہ نے دین کی تبلیغ کے لے اَنبیاء کو چُنَا اور اُن کی اولاد در اولاد میں اِس سلسلے کو قایم رکھا اُمت در اُمت نہیں! اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبّوت و رِسالت پر فائز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقَرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلمِ اکبر اور ظلمِ اَصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اوراَپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبّب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87، 88)، یعنی ہر نبی یا رَسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”بیشک اللہ نے چُن لیا آدم، نوح، آلِ اِبراھیم اور آلِ عِمرَان کو سب جہان والوں میں سے‟ (سورة آل عِمرَان آیت-33)- بہ نفسِ قران اِسم عِمرَان جس کا ذِکر اِس آیتِ مبارکہ میں آیا اُس کو تین ممکنہ ہستیوں سے منصوب کیا جا سکتا ہے: حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) کے والد، حضرت مَریَم (سلام اللہ علیہا) کے والد اور مولا علی (علیہ سَلام) کے والد حضرت ابو طالب (علیہ سَلام) جن کا نام عِمرَان ہے- حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) سے اولاد نہیں ہوئ اور حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) نے شادی نہیں کی، اِس لے لفظ آل اِن ہستیوں سے منصوب نہیں کیا جاسکتا- لِہٰـزا ہمیشہ رہنے والی اِمامت کا سلسلہ جس کا وعدہ اللہ نے اولادِ اِبراھیم میں رکھنے کا کیا وہ آلِ عِمرَان (آلِ ابو طالب) ہیں- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے مُتّقی ہیں‟ (سورة السجدة آیت-24)- ”اور ہم نے اِرادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو اِمام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورة القَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة الصَّافات آیت-107)- کربلا میں قربانی زبحِ ِعظیم تھی جو کہ روشن دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی اہلِ بیت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کٌل اور اِمام اٌلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامِ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِماُم اٌلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے آپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- حضرت مُحَمَّد (ﷺ) آخری نبی ہیں (سورة الأحزاب آیت-40)- نبّوت اور اِمامت کا سلسلہ {حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اور اِمام مھدی (علیہ سَلام)}، حضرت ابراھیم و إِسْمَاعِيلَ (علیہ سَلام) سے جڑا ہے Continue on next comment
”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (دین) کو بجھا دیں، لیکن میں اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہوں گا اگرچہ کفٌار کتنا نا پسند کریں‟ (سورة التوبة آیت-32)- 10 ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغامِ وہی کو جو آپ کے رَب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا میری رِسالت کا کوی کام نہ کیا اور ﷲ تمھیں انسانوں کے شرسے بچاے گا، بیشک اﷲ کَافروں کو ہدایت نہیں کرتا‟ (سورة المَائدة آیت-67)- لِہٰـزا حضور نے غدیرِ خُم میں ممبر پر مولا علی (علیہ سَلام) کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اِعلانِ ولایتِ علی کے فوراً بعد یہ وہی نازل ہوئ، ”۔ ۔ ۔ اج کے دن اللہ نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین ِاسلام مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-3 دینِ اِسلام کی بنیاد قرُان ہے اور قرُان میراث ہے، نیز اللہ نے اِس کا وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اگر وَارث بیمار ہو جاے تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلُیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5)، وہاں وارثانٍ قرُان أُولِي الْأَمْر ہیں- ”اے اِیمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اٍن 12 آئمہ میں دینٍ اسلام میں اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ اِمامتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اٌن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے اِیمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اِن سے) کہہ دو تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہور ہو گا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اورعیسَیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسَیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ”دین میں جبر نہیں ۔ ۔ ۔‟ (سورة البَقرَة آیت-256)- ”تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-103)- ”جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ بن گئے یقیناً اُن سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، اُن کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی اُن کو بتائے گا کہ اّنہوں نے کیا کچھ کیا ہے‟ (سورة الأنعَام آیت-159)-- ”جِس نے اِسلام کے لے اپنے سینے کو کھُولا وہ اپنے پروردگار کے نور (دین) پر ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الزمرآیت-22)، نیز ”جِس نے بھی اِسلام کے سوا کوئ اور دین چاہا اٌسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا“ (سورة آلِ عِمرَان آیت-85)- جنہوں نے اللہ کی حُجّت کو مان کر اپنی حُجّت بنائ اُن پر اللہ کا غضب اور عذاب 3ہے (سورة الشورہ آیت-16
صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حَاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نذول مولا علی (علیہ سَلام) کے اُنگشتری حالتِ رکوع میں فقیرکو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ اِستعمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور مولا علی (علیہ سَلام) کی زات ہے جہاں سے وَلایت کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اورحضرت مُحَمَّد (ﷺ)- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56 10ِ ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا کہ ”پہنچا دواُس پیغام ِوہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئ کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورةالمَائدة آیت-67)- لِہٰـزا غدیرِ خم میں حضور نے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا کہ ”جِس جِس کا میں مولا (حَاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اعلانِ غدیر پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3 قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور اِس کے وارث أُولِي الْأَمْرِ- ”اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اورأُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خٌلّافہ کے نام بتلاے جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ اُنہوں نے پہنچایا- قرُان میراث ہے اور اللہ نے اٍس کا وارث مصطفٰےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطقےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ ’علیہ سَلامʽ پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آیمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلام اُلله ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ میں دینٍ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)- جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اُس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اورالیاس اورآسمان سے ادریس اورعیسَیٰ آیں گے میرے بارویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پراور عیسَیٰ نماز پڑھیں گے اُن کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ابلیس نے اللہ کو مان کراٌس کے خلیفہ کا انکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گا؟
اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمبین میں رکھا (سورة یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”امام ِمبین زاتِ علی ہے‟ یعنی دَرخشاں اِمام- ”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالت رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نزول مولا علی کے اٌنگشتری حالت رکوع میں فقیر کو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ استمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور زاتٍ علی ہے اور اِن مومنین میں ولایت کا سلسلہ چلا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اور رسول- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو توشامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- ”کیا تم ابلیس اوراٌس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالانکہ میں نے اًن کو نہ توآسمانوں اورزمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اًن کی پیدایش پراوراللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو- قران اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور وارث أُولِي الْأَمْر- ” اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلامِ اللهُ ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ کے درمیان دینِ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ ابراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- اِسی لے اِمام ظلمِ اکبراورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم، کیونکہ شیطان کو معصوم ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں (سورة سجدہ آیت-24)- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدرآیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ آن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اٍس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہورہوگا تو زمین سے خضراور اِلیاس اورآسمان سے اِدریس اورعیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (وارثِ انجیل) نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی (وارثٍ قرُان) کے پیچھے‟ (صحاح ستہ مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطفےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ علیہ سَلام پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آئمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- حضور نے فرمایا، ”میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرُان اور دوسری میری عِطرت (اہلِ بیت) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ قیامت میں حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں، جوشخص اِن دونوں سے تمسّک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہ یقیناً ہلاک ہو جاے گا، جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے‟ (صحاح ستّہ)- ”اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیّت) میں شامل رہو‟ (سورة توبہ آیت-119
اس آیت کے زیل میں حضرت ابو بکر اور عمر(رضی اللہ عنه) کے پوچھنے پر حضور نے فرمایا کہ امام مبین سے مراد زاتِ علی ابن ابو طالب ہے- نیز قران میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورہ فاطرآیت-32)- قران کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ علم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آل ِعِمرَان آیت-7) اور وہ ہی اس کے وارث ہیں- حضور نے جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ حو کہ وارثان قران ہیں اور سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- کیونکہ مصطفےٰ بندوں پر اللہ سلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)، اس لیے وہ مرتبہ علیہ سلام پر فایز ہیں اور مسجدِ نبوی میں ان ہستیوں کے ناموں کے بعد علیہ سلام کندہ ہے- لہٰزہ قران فہمی کے لیے ہمیں ان ہستیوں کے در پر جانا ہوگا- حضور نے فرمایا' " میں تمھارےدرمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قران اور دوسری میری عطرت-اہلِ البیت یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں‘ جوشخص اِن ونوں سے تمسک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہیقیناً غرق اور ہلاک ہو جاے گا" (صحاح ستہ قران اللہ کا کلام ہے لہازہ یہ اللہ کی حکمت اور مرضی ہے کہ مختلف موضوعات کو کس انداز میں ام الکتاب میں جو کہ العلم ہے (تمام علوم کا سرچشمہ) شامل کرے- اللہ اکثر اشاروں میں کلام کرتا ہے اسی لیے قنران کی آیات کو سمھجنے کے لیے ضروری ہے کہ علم میں رٌاسخ ہستیوں سے رجوع کیا جاے - مثل کے طور پر سورہ کوثر میں حضور کو بتایا گیا کہ تمھاری نسل بیٹی (بی بی فاطمہ سلام الہو علیہا) سے قایم رہے گی اور اس امر کو کوثر یعنی خیر کثیر سے منسوب کیا- یاد رہے اس سورہ میں بی بی فاطمہ سلام الہو علیہا کا نام نہیں ۔ ۔
خلَاَفتِ الٰہیہ بہ نفسٍ قرُان خَلِیفہ کے معنی ہیں جانشین یا نمائندا- خَلِیفة اُلله کا مطلب ہے اللہ کا نمائندا جو اِس دنیا میں اللہ کی حَاکمیت کو قائم کرے- جب اللہ نے فرشتوں سے فرمایا، ”میں زمین میں اپنا خَلِیفہ بنانے والا ہوں، تو وہ بولے تو اٍیسے کو خَلِیفہ بناے گا جو اِس میں فطنہ انگیزی اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں‟- جواب میں اللہ نے فرمایا،” میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‟- پھراللہ نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے اور اُنہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، ”مجھے اِن اشیاء کے نام بتاو اگر تم سچّے ہو‟- جب فرشتے اُن اشیاء کے نام نہ بتلا سکے اور حضرت آدم (علیہ سَلام) نے بتلا دیے تو اللہ کے حکم پر تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو سجدہ کیا سواے جن ابلیس کے (سورة البَقرَة آیت- 30تا 34)- لِہٰـزا حضرت آدم (علیہ سَلام) کومنصبٍ خلافت علم کی بنیاد پر ملا- اِسی طرح اًس وقت کے سرداروں کی مُخالفت کے باوجود اللہ نے حضرت طالوت (علیہ سَلام) کو عِلم کی بنیاد پر خَلِیفہ مقرر کیا (سورة البَقرَة آیت-247)- نیز اللہ نے اپنے خُلّافہ داوُد اورسُلیمان (علیہ سَلام) کو عِلم و حِکمت سے نوازا اور لوگوں پر فضیلت بخشی (سورة اَلنمل آیت-15)- مزید برآں حضرت موسٰی (علیہ سَلام) کی دعا کے جواب میں حضرت ہارون (علیہ سَلام) کو اّن کا وزیر مقرر کیا ( سُورة طـٰه آیت-29، 30، 32، 36)- اِسی طرح اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عّہدہِ نبوت و رسالت پرفایز تھے عظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری انسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقرَة آیت-124)- لِہٰـزا اِمام ظلِم اکبر اور ظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خَلِیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کُل اور امامُ اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمام اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمام اُلخلق تھے، اِسی لے آپ کےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- نبوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے علمِ ارواح میں دیے گے- ”اور (مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب تمھیں سب نبیوں پر گواہ بنایا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- خلافتِ اِلٰہیہ میں، ”اللہ جسے چاہتا ہے دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- ”اِن سب رسولوں (کے لئے ﷲ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے‟ (سُورة الْإِسْرَاء آیت-77)- لِہٰـزا خلافتِ الٰہیہ کا سلسلہ تا قیامت اِسی طرح قایم رہے گا اور اِس میں اَوّلین انتحابِ معیارِ فضیلت علم و حکمت ہے نیز خَلِیفہ کا رتبہ ’علیہ سَلامʽ ہوتا ہے قرُان اَلعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)- ” ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے آپ (مُحَمَّد) پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اُس نے آپ کو وہ سب عِلم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-113)- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رَاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلٍ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سَلام) کا مقام حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کے بعد سب سے بلند ہے- اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمامٍ مبین میں رکھا (سوہ یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمامٍ مبین زاتٍ علی ہے یعنی درخشاں اِمام‟- ” کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اٍن سے کہہ دیں کہ میرے لیۓ ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے (سورة الرّعد آیت-43)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”دوسرا گواہ علی ابنٍ ابو طالب ہے‟- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم دیا گیا) کے سینے ہیں (سورة العنكبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة المجادلة آیت-11)- قرُان طاہر ہے اور اِس کی معنویّت کی گہرای تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام)، بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اِس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33 Continue on next comment
وارثانِ قران بہ نفسِ قرُان قرُان میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطرآیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اَگر وارث پرمصیبت آجاۓ تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (یعنی جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَلِعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61) وہاں وارثانٍ قرُان عِلم کا شہر بابُل عِلم اور رَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ہیں- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)- ”۔ ۔ ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو‟ (سورة النّحل آیت-43)- قرُان ذکر ہے (سورة الحِجر آیت-9) اور وارث اہلِ ذکر- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیے جاتے یا مًردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں عِلم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں (سورة انکبوت آیت-49)، یعنی أُوتُوا الْعِلْمَ کی طاقت قرُان کے برابر ہے- ”أُوتُوا الْعِلْمَ کےدرجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے‟ (سورة مُجادلہ آیت-11)- قرُان واضع نور ہدایت ہے (سورة النِّسَاء آیت-174) اور وارث مجسمِ نورِ ہدایت- قرُان مُهَيۡمن (اَمین، غالب، حّاکم، محّافظ،، نگہبان) ہے (سورة المَائدة آیت-48) اور وارث اَمین، کائنات کے حّاکم، محّافظ، نگہبان اور اّلا کُل ِغالب ہیں- قرُان بے عیب ہے یعنی اِس ہیں کوئ کجی نہیں (سورة الزُّمَر آیت-28) اور وارث ہرعیب سے پاک- قرُان معصوم ہے یعنی باطل کا اِس کے پاس گزر نا ممکن ہے (سورة فصِلَت آیت-42) اور وارث بھی معصوم ہستیاں ہیں- بہ کتاب بصیرت، حُجت، عقل اور فکر ہے (سورة الأعرَاف آیت-52) اور وارث صاحبِ بصیرت اور حُجّت اللہ ہیں- قرُان وَاضح بیان اورمُسلمانوں کیلے ہدایت، خوشخبری اور رحمت ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث رحمت العَالمین اور ہادیِ کُل- قرُان حکمت سے سرشار ہے (سورة یٰس آیت-2) اور وارث حِکمت کی معراج- یہ کتاب برحق بے یعنی اِس ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں (سورة فَاطِرآیت-31) اور وارث اہلٍ حق کیونکہ جب نجران کےعیسَایوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کا معاملہ طے نہ ہوسکا تو اللہ کے اِس حکم پر حضور سے مباہلا ہوا، ”۔ ۔ ۔ تم اپنے بیٹوں کو لاو اور ہم اپنے بیٹوں کو لایں، تم اپنی عورتوں کو لاو اور ہم اپنی عورتوں کو لایں، تم اپنے نفسوں کو لاو ہم اپنے نفسوں کو لایں اور پھراللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہو‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)، اور اِس جنگِ صداقت میں حضور نے صرف صدیق ہستیوں کو ساتھ لیا اور مولا علی، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لے کر مباہلے کے لے تشریف لاے جب آپ کے 9 حرم تھے اور بیٹے ابرھیم زندہ تھے- اٍس موقعہ پرعیسَایوں کے بڑے پادری عبدُل مسیح نے مباہلہ کرنے سے انکارکر دیا اور جزیہ دینا قبوُل کیا- اِس واقعہِ مباہلے کو اللہ نے قصہِ حق کہا (سورة آلِ عِمرَان آیت-62)- قرُان عظیم بے یعنی بلند رتبے والا (سورة الحِجرآیت-87) اور وارث نباءعظیم {عظیم خبر: غدیر خم میں اعلانِ ولایت مولا علی (علیہ سَلام)}- قرُان مبین بے یعنی درخشاں اورمبالغےسے پاک کلام (سورة یٰس آیت-69) اور وارث اِمام ِمبین (سورة یٰس آیت-12)- یہ کتاب بے مثل بے یعنی تمام جن واِنس مل کرقرانی سورتوں کی مثل ایک سوره بهی نہیں لا سکتے (سورة یُونس آیت-38) اور وارث بے مثلِ- قرُان مجید ہے یعنی جلیل اُلقدر (سورة ق آیت-1) اور وارث پیکرٍ اقدارٍآعلیٰ- قرُانَ تبیان ہے یعنی اپنی بات منواتا ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث ہر محاز پرغالب رہنے والے- قرُان فرقان بے یعنی حق اور باطل میں فیصلا کرنے والا (سورة الفُرقان آیت-1) اور وارث حق اور باطل کو عیاں کرنے والے- وقعہ کربلا کے بعد سرِ مبارک اِمام حسین (علیہ سَلام) کا نوکٍ نیزہ پر قرُان کی تلاوت کرنا اِس اَمر کی روشن دلیل ہے- قرُان کریم ہے یعنی بڑے رتبے والا (سورة الواقِعَة آیت-77) اور وارث مرتبے کی معراج- قرُانَ اہِلِ اِیمان کے لئے شّفا (پیاس بجهانا یعنی حاجت روا) ہے (سورة فُصِلَت آیت-44) اور وارث مالکِ شّفا- قرُان کا مکمل سمھجنا مشکل ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-7) اور وارث مشکل کشا ہیں- قرُان طاہر ہے نیز اِس کی معنویت کی گہرائ تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة واقعہ آیت-79) اور طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے، کیونکہ مولا علی، اِمام حسن اور حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) حضور کے ساتھ چادر کے اندر موجود تھے جب ارشاد ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33 Continue on next comment
Sura yunas ki Aya 47 ino be pesh ki'''''jb kisi qom ki trf rasool aa jata hy tu uss ka faisla kr diya jata hy''''' Aap k nazdek is ka kia mtlb hy'? If he presented wrong
وارثانِ قران بہ نفسِ قرُان قرُان میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطرآیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اَگر وارث پرمصیبت آجاۓ تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (یعنی جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَلِعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61) وہاں وارثانٍ قرُان عِلم کا شہر بابُل عِلم اور رَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ہیں- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)- ”۔ ۔ ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو‟ (سورة النّحل آیت-43)- قرُان ذکر ہے (سورة الحِجر آیت-9) اور وارث اہلِ ذکر- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیے جاتے یا مًردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں عِلم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں (سورة انکبوت آیت-49)، یعنی أُوتُوا الْعِلْمَ کی طاقت قرُان کے برابر ہے- ”أُوتُوا الْعِلْمَ کےدرجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے‟ (سورة مُجادلہ آیت-11)- قرُان واضع نور ہدایت ہے (سورة النِّسَاء آیت-174) اور وارث مجسمِ نورِ ہدایت- قرُان مُهَيۡمن (اَمین، غالب، حّاکم، محّافظ،، نگہبان) ہے (سورة المَائدة آیت-48) اور وارث اَمین، کائنات کے حّاکم، محّافظ، نگہبان اور اّلا کُل ِغالب ہیں- قرُان بے عیب ہے یعنی اِس ہیں کوئ کجی نہیں (سورة الزُّمَر آیت-28) اور وارث ہرعیب سے پاک- قرُان معصوم ہے یعنی باطل کا اِس کے پاس گزر نا ممکن ہے (سورة فصِلَت آیت-42) اور وارث بھی معصوم ہستیاں ہیں- بہ کتاب بصیرت، حُجت، عقل اور فکر ہے (سورة الأعرَاف آیت-52) اور وارث صاحبِ بصیرت اور حُجّت اللہ ہیں- قرُان وَاضح بیان اورمُسلمانوں کیلے ہدایت، خوشخبری اور رحمت ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث رحمت العَالمین اور ہادیِ کُل- قرُان حکمت سے سرشار ہے (سورة یٰس آیت-2) اور وارث حِکمت کی معراج- یہ کتاب برحق بے یعنی اِس ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں (سورة فَاطِرآیت-31) اور وارث اہلٍ حق کیونکہ جب نجران کےعیسَایوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کا معاملہ طے نہ ہوسکا تو اللہ کے اِس حکم پر حضور سے مباہلا ہوا، ”۔ ۔ ۔ تم اپنے بیٹوں کو لاو اور ہم اپنے بیٹوں کو لایں، تم اپنی عورتوں کو لاو اور ہم اپنی عورتوں کو لایں، تم اپنے نفسوں کو لاو ہم اپنے نفسوں کو لایں اور پھراللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہو‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)، اور اِس جنگِ صداقت میں حضور نے صرف صدیق ہستیوں کو ساتھ لیا اور مولا علی، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لے کر مباہلے کے لے تشریف لاے جب آپ کے 9 حرم تھے اور بیٹے ابرھیم زندہ تھے- اٍس موقعہ پرعیسَایوں کے بڑے پادری عبدُل مسیح نے مباہلہ کرنے سے انکارکر دیا اور جزیہ دینا قبوُل کیا- اِس واقعہِ مباہلے کو اللہ نے قصہِ حق کہا (سورة آلِ عِمرَان آیت-62)- قرُان عظیم بے یعنی بلند رتبے والا (سورة الحِجرآیت-87) اور وارث نباءعظیم {عظیم خبر: غدیر خم میں اعلانِ ولایت مولا علی (علیہ سَلام)}- قرُان مبین بے یعنی درخشاں اورمبالغےسے پاک کلام (سورة یٰس آیت-69) اور وارث اِمام ِمبین (سورة یٰس آیت-12)- یہ کتاب بے مثل بے یعنی تمام جن واِنس مل کرقرانی سورتوں کی مثل ایک سوره بهی نہیں لا سکتے (سورة یُونس آیت-38) اور وارث بے مثلِ- قرُان مجید ہے یعنی جلیل اُلقدر (سورة ق آیت-1) اور وارث پیکرٍ اقدارٍآعلیٰ- قرُانَ تبیان ہے یعنی اپنی بات منواتا ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث ہر محاز پرغالب رہنے والے- قرُان فرقان بے یعنی حق اور باطل میں فیصلا کرنے والا (سورة الفُرقان آیت-1) اور وارث حق اور باطل کو عیاں کرنے والے- وقعہ کربلا کے بعد سرِ مبارک اِمام حسین (علیہ سَلام) کا نوکٍ نیزہ پر قرُان کی تلاوت کرنا اِس اَمر کی روشن دلیل ہے- قرُان کریم ہے یعنی بڑے رتبے والا (سورة الواقِعَة آیت-77) اور وارث مرتبے کی معراج- قرُانَ اہِلِ اِیمان کے لئے شّفا (پیاس بجهانا یعنی حاجت روا) ہے (سورة فُصِلَت آیت-44) اور وارث مالکِ شّفا- قرُان کا مکمل سمھجنا مشکل ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-7) اور وارث مشکل کشا ہیں- قرُان طاہر ہے نیز اِس کی معنویت کی گہرائ تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة واقعہ آیت-79) اور طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے، کیونکہ مولا علی، اِمام حسن اور حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) حضور کے ساتھ چادر کے اندر موجود تھے جب ارشاد ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33 Continue on next comment
اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمبین میں رکھا (سورة یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”امام ِمبین زاتِ علی ہے‟ یعنی دَرخشاں اِمام- ”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالت رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نزول مولا علی کے اٌنگشتری حالت رکوع میں فقیر کو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ استمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور زاتٍ علی ہے اور اِن مومنین میں ولایت کا سلسلہ چلا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اور رسول- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو توشامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- ”کیا تم ابلیس اوراٌس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالانکہ میں نے اًن کو نہ توآسمانوں اورزمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اًن کی پیدایش پراوراللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو- قران اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور وارث أُولِي الْأَمْر- ” اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلامِ اللهُ ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ کے درمیان دینِ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ ابراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- اِسی لے اِمام ظلمِ اکبراورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم، کیونکہ شیطان کو معصوم ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں (سورة سجدہ آیت-24)- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدرآیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ آن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اٍس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہورہوگا تو زمین سے خضراور اِلیاس اورآسمان سے اِدریس اورعیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (وارثِ انجیل) نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی (وارثٍ قرُان) کے پیچھے‟ (صحاح ستہ) مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطفےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ علیہ سَلام پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آئمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- حضور نے فرمایا، ”میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرُان اور دوسری میری عِطرت (اہلِ بیت) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ قیامت میں حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں، جوشخص اِن دونوں سے تمسّک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہ یقیناً ہلاک ہو جاے گا، جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے‟ (صحاح ستّہ)- ”اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیّت) میں شامل رہو‟ (سورة توبہ آیت-119
Dear sir! Your comment made me do some research. All major Shia and Sunni scholars did the translation of “Imam mun Mubeen” as “the clear book/register/written evidence etc”. No one has translated it as a person. Your point of view cannot be established without associating with the Hadith that you have mentioned. Can you please refer us the book where this Hadith has been taken from, I can’t find it. Even in that Hadith, when I read it in full on a website, it says that sahaba asked the prophet: is this book Torah? Is this the Bible. To which the prophet replied pointing to Ali: “Verily this is the Imam in whom Allah has deposited the knowledge of everything.” Now the first part of the Hadith, if it’s correct, clearly indicates that the companions understood the meaning of the word imam as a book for this ayat. However I’m a bit confused about why the word imam was used for book in this ayat and if someone can give me another example from Qur’an or any other Arabic literature where imam has been used for book, please let me know.
The word Kitab-e-Mobeen has been used in Surah Al-Ma'idah Verse-15, Surah Al-An'am Verse-59, Surah Yunus Verse-61, Surah Hud Verse-6, Surah An-Namal Verse-1 &75, Surah Saba' Verse-3 and in subject verses it means the manifesting book. However, in Quran the word Imam has not been used in implied meaning/context/to signify a book. To be a sahabi does not imply that he/she understood the true meaning of Quran because the true interpretation of Quran is known to Allah and those who are firmly grounded in knowledge (Surah aal-e-Imran Verse-7). Moreover, Quran is inheritance and its inheritors are the mustafa (chosen) people (Surah Faatir Verse-32) and they were nominated by the Prophet all from the tribe of Quraish and told their names to Jabir bin Abdullah (RE): Ali s/o Abu Talib, Hassan s/o Ali, Hussain s/o Ali, Ali s/o Hussain, Muhammad s/o Ali, Jaffer s/o Muhammad, Mussa s/o Jaffer, Ali s/o Mussa, Muhammad s/o Ali, Ali s/o Muhammad, Hassan s/o Ali and Muhammad al-Mehdi s/o Hassan and instructed him to covey His Slaam to the 5th Vicegerent Imam Muhammad Baqar (ES) which he conveyed. Allah bestows peace (slaam ) on the chosen (mustafa) people (Surah an-Namal Verse-59) implying those in subject category are honored with the suffix title of Elayh Slaam (peace on him). As such, in Prophet Mosque (Masjid-e-Nabwi) the names of 12 referred Imams are written with the suffix title of سلام علیہ. Moreover, the Prophet said, "I am leaving two weighty things Quran and my itrat (Ahlul Bayt), they will remain enjoined till they meet me at the pool of Kawthar on the Day of Judgment. One who remains associated with them surely will not go astray and one who remains away will perish" (Sihah Sitta).
غامدیصاحب اللہ تعالٰی آپ کو دنیا اور آخرت کی خوشیاں عطاء فرمائے 🤲🤲
جس طرح اپ نے دین اور دنیا کا علم ہم تک پہنچائیا ہے... وه اپنی مثال اپ ہے.
هم اپ کے شکر گزار ہیں... کہ اپ نے دین کو اور قران و سنت کو اس کی صحیح اور اسان شکل میں هم تک پهنچانے کی کوشش کی... الله پاک اپ کی کوششوں کو قبول فرمائے...اور همیں سیدھے راستے پر چلنے اور رھنے کی توفیق دے. امین
Great job sir
Duniya yad rakhegi
Agar banda na hota, toh mien musalmaan na rehta! Agar yeh banda na hota to meri zahanat mazhab ko qabool na karti! MashAllah, kya zaheen admee hien Ghamidi Sb.
اس میں کوئی شک نہیں کہ غامدی صاحب اس جدید دور کے سب سے بہتر ہیں تاہم ہمیں آندھی کاقلید سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ ذہن کا ایک دروازہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ نئے علوم اس میں داخل ہو سکیں
Hujjat is from root word Hajj. If u put letter tey in front of word Hajj it becomes word Hujjat. Hujjat ul wida means al widae Hujjat. People usually mistake it as Al widae Hajj which is totally wrong meaning. Hajaaj is also from root word Hajj. Hajaaj then converts to ihtijaaj. People dont understand meaning of Arabic words including Ghamdi lol
@safee same
MasAllah, leken yeh sab Allah ji ka he kamal hai kay unhoun nay humain ghamidi sb kay zariye hidayat dee
mei salafi maktbe fikr se taulaq rakhta tha.....6 saal se ghamdi sahab ko sun raha hun ...mere lye eik nai duniya daryaft hoi hai.....muje khuda ki scheme ka ab samaj aai hai.
زبردست
Kamyabi sirf musalman ban kar rahne hi mein hai۔ aur her maslak aur گروہ se paak۔ sirf musalman۔ aur ek zaroori bat ke quran ko rasool se alag nahi kiya ja sakta
حقائق دین کو اس درجہ میں واضح کرنا یہ اللہ کی توفیق ھی کا حصہ ھے جو استاد محترم کو حاصل ھے ، اللہ انکی کوششوں کو قبول فرماکر امت کی اصلاح کا سامان کرے آمین
آمین
exellent discussion. both questions and answers very comprehensive. very thank ful to both. ghamdi sb geo hazaron sal. u r an assett of this ummah. u have crystel cleared our minds.
اللہ تعالی آپ کو اپنے حفظ وامان رکھے جزاک اللہ خیر اللھم آمین
Sawal karne wale aur jawab dene wale dono be misl..this is the right path to know any knowledge. May Allah bless you
جزاک اللہ محترم غامدی صاحب
Ma Sha ALLAH great scholar of Islam great man
what a scholar, can any body find a scholar like him, hence so called madarsa mufti 's areagainst him. may Allahswt protect him.
Ghamdi is great person of Islam
Request to Al-Mawrid to add subtitles to these lectures.
My request to Almawrid is to add English subtitles
*Masha Allah... The Intellect Giant*
بہت خوبصورت
Bohaat aalaa
👌👌👌
Zabardast
Gamdi ji is a great Mai 3 sal sun raha kuranko aged shi smjhna to. Es banday. Smjhay
ilmi discussion. no other can talk with logic and intelligence like Ghamidi sb.
Fir ghar se nikle sabko jaani kah de adalat faisla kr degi.😀😀😀...Kya baat hai gamidhi saab🌹🌹🌹
Ya "Fir" kya haa?
@@Ishraqiyyun gamidhi saab ne kaha apni gali me nikle sabko zaani kah de adalat pe daal de ki vo faisla kar degi.......
Ye sabse beautiful line thi poori discussion me..
@@ikrar_393 pahle app yah batayo yah jo aap na word "Fir" or "jaani" likha haa yah kyaa haain takha baat samjh aya.
Hujjat is from root word Hajj. If u put letter tey in front of word Hajj it becomes word Hujjat. Hujjat ul wida means al widae Hujjat. People usually mistake it as Al widae Hajj which is totally wrong meaning. Hajaaj is also from root word Hajj. Hajaaj then converts to ihtijaaj. People dont understand meaning of Arabic words including Ghamdi lol
@@aarifboy as if u are a scholar of arabic...😂😂😂lol....
Great
He has great knowledge
جب قران کے اولین مخاطب عرب ہی ہیں تو یہ کتاب بھی پھر انہیں کے لئے ہونی چاہئے باقی دنیا کیوں پڑھ رہی ہے قرآن
”۔ ۔ ۔ ہم نے تمھاری طرف بھیجا ذکر۔ ۔ ۔ اور وہ ہے میرا رسول ۔ ۔ ۔‟ (سورة الطّلاَق آیت-10، 11)- ”ہم نے زبور میں لکھ دیا کہ ذکر (رسول) کے بعد اِس زمین کے وارث میرے صالح بندے ہونگے‟ (سورة الأنبیَاء آیت-105)- اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو (سورة النّحل آیت-43)- ذکر معنی رسول اور اہل معنی: اولاد (سورة هُود آیت-45)، بھائ (سورة طـٰه آیت-29، 30)، سَوَار (سورة الکهف آیت-71) اور مثل (سورة الفَتْح آیت-29)- اولاد کے زُمرے میں حسنین شامل کیونکہ حضور جدّالحسن وحسین ہیں، بھائ کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) شامل کیونکہ رسول نے دو موقوں پر مولا علی کو اپنا بھائ بنایا، سَوَار کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اور حسنین شامل کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام) نے دوشِ رسول پر چڑھ کر کعبہ میں بتوں کو توڑا اورعید کے دن حضور حسنین کے لیے سواری بنے، مثل کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اورآپکی وہ اولاد شامل جس میں اِمامت قایم ہوئ اور اِن ہی صدیق ہستیوں کو بیٹوں اور نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کر گے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61
”صرف اورصرف تمہارے ولی (حاکم) اللہ، رسول اور وہ مومنین ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورةالمَائدة آیت-55)- حالتِ رکوع میں زکات مولا علی نے دی- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- حج سے واپسی پر جب حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغام ِ وہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوی کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-67) تو حضور نےغدیرِخم میں لاکھوں حاجیوں کے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- حضور کی زات تمام عالمین کے لے رحمت ہے، یعنی تمام عالمین پر مہیت ہے (سورة الأنبیَاء آیت-107)- لہٰزہ مولا علی کی اِمامت بھی تمام عالمین پر مہیت ہے! اعلانِ ولایت پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3)- مولا علی کی ولایت اللہ کی نعمت ہے- اِسی لے فرمایا، ”تم سے ضرور پوچھوں گا نعمتوں کے بارے میں‟ (سورة التّکاثُر آیت-8)- ”۔ ۔ ۔ کسی کو جائز نہیں چاہے مدینے یا باہر کا رہنے والا ہو کہ رسول اور آپکے نفس کی مخالفت کرے‟ (سورة التّوبَة آیت-120)- مولا علی (علیہ سَلام) نفسِ رسول ہیں کیونکہ اِن ہی کو نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کرگۓ- ”کیا تم ابلیس اور اُس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالنکہ میں نے اُن کو نہ تو آسمانوں اور زمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اُن کی پیدایش پر اور اللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو
حضور نے جابربن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو 12 اِماموں کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسَىٰ بن جعفر، علی بن موسَىٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد بن حسن اور فرمایا، ”میرا سلام پہنچانا میرے پانچویں خلیفہ مُحَمَّد باقر کو‟ جو انہوں نے پہنچایا- ”اِبلیس نے اپنا وَعدہ سچ کر دکھایا یعنی سب کو بہکایا سواے مومنین کے چھوٹے گروہ کے‟ (سورة سَبَإ آیت-20)- یعنی مومنین کا ایک چھوٹا گروہ معصوم کی منزلت پر ہے- ”۔ ۔ ۔ پھر ہم نے قرُان کے وارث بناے مصطفےٰ (چُننے ہوے) بندے ۔ ۔ ۔‟ (سورة فَاطِر آیت-32)- اللہ مصطفےٰ بندوں پر سَلام بھیجتا ہے (سورة النَّمل آیت-59)- یعنی وارثِ قرُان مرتبِ علیہ سَلام پر ہیں اور صَالحہ ہستیوں پر نماز میں سلام پڑھا جاتا ہے- ”اُس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خَلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اور عیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟- ”اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْر (صاحبانِ اَمر) کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59) - یعنی أُولِي الْأَمْر ہستیوں کی اِطاعت اِسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ اور رسول کی- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جنکو نامزد کیا رسول نے- شیطان نے اللہ کو مان کر اٌس کے خَلِیفہ کا اِنکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گ
❤❤❤❤❤❤❤
اِمامت بہ نفسِ قرُان
”اللہ جسے چاہتا ہے خلق کرتا اور دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اِختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورةالقَصَص آیت-68)- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسَانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلِم اکبر اورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87)، یعنی ہر نبی یا رسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پر اِختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں‟ (سورة سَجدہ آیت-24)- یعنی بے صبرا اورشک کرنے والا اِمام نہ ہو گا- نیز اللہ جھوٹے اِمام کی مدد نہیں کرتا (سورة القَصَص آیت-41)- ”اور ہم نے ارادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو امام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورةالقَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو آنے والے وفت میں زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة َّالصَّافات آیت-107)- کربلا میں آلہِ مُحَمَّد کی قربانی زبحِ عظیم تھی جو کہ دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی خاندانِ رسالت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمامُ اُلناس، ہادیِ کل اور اِمام اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامُ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمامُ اُلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا
نبوّت، رسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیۓ گے- ”( مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- اِسی طرح مولا علی کی زات گواہ ہے حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کی نبوّت پر- ارشاد ہوا، ”کیا کوئ اِس (مُحَمَّد) کی مانند ہو سکتا ہے جو اپنے ساتھ دو گواہ لے کر آیا، ایک قرُان اور دوسرا وہ جو اِس کی پیروی کرتا ہے، جس کا ذکر کتابِ موسیٰ تورات میں ہے کہ وہ (مُحَمَّد) اِمام بھی ہوگا اور رحمت بھی؟ ۔ ۔ ۔‟ (سورة ھود آیت-17)- ”جو (مُحَمَّد) صدق لے کرآیا اور جِس نے اُس کی تصدیق کی وہ دونوں متّقی ہیں‟ (سورة زمر آیت-33)- اِس آیت کے زیل میں حضورنے فرمایا،”یہ دوسرا شخص علی ابن ابی طالب ہے‟- اِسی لے مولا علی کو اِمام المتقین بھی کہا جاتا ہے
خلافِ عدل ہوگا اگر اِمام اپنے دور کا عالم ترین انسان نہ ہو- ”کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اُن سے کہہ دیں کہ میرے لیے ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے‟ (سورة الرّعد آیت-43) اور حضور نے فرمایا، ”دوسرا شخص زاتِ علی ہے‟- اِس آیت کے زیل میں مولا علی نے فرمایا، ”میری سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ لا شریک نے مجھے نبوّت کی گواہی میں شریک بنایا‟- قرّان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سلام) کا مقام سب سے بلند ہے، کیونکہ حضور نے فرمایا، ”میں عِلم کا شہر ہوں اورعلی اس کا دروازہ‟- ”قرُان کی مَعنویت تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر‟ (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مفام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی، امام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجا ست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزَاب آیت-33)- ”اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمُبین میں رکھا‟ (سورة یٰسین آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمام ِمبُین زاتِ علی ہے‟ یعنی درخشاں اِمام! قرُان پڑھنا اور حفظ کرنا باعثِ ثواب ہے لیکن، ”۔ ۔ ۔ قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں‟ (سورة انکبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة مجادلہ آیت-11)- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیۓ جاتے یا مٌردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- یعنی جس کے سینے میں قرُان ہوگا اُس کی طاقت قرُان کے برابر ہوگی- اللہ کے بناے آئمہ میں اختلاف نہیں ہوتا- راسخ کے لے لازم ہے اُس کی حالت میں تغٌّیر نہ ہو یعنی جیسا بچپن ویسی جوانی اور بڑھاپا- جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) عَلیم ہستی تھے (سورة آلِ عِمرَان آیت-46) اِسی طرح اِمام کی زات میں عِلم ہوتا ہے
C0ntonue on next comment
Just today I realised the other guy is none other than Hassan Ilyas. He really has a long journey.
MashaAllah
جزاک اللہ خیر
دینِ اسلام بہ نفسِ قرُان
دِین کے معنی ہیں آئین اور قانون- اللہ کے نزدیک اگر کوئ دِین ہے تو وہ اسلام ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-19)- اِسلام کے معنی ہیں اللہ کی حَاکمیت کو تسلیم کرنا اور اُس کے بناے آئین اور قوانین پر عمل کرنا- دِینِ اِسلام منجانب اللہ ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-83)- یہ دِینِ حنیف ہے (سورة البينة آیت-5)، یعنی سیدھا دِین- یہ دِینِ قَيِّمُ ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی معیاری دِین- یہ دِینِ وَاصب ہے (سورة النہل آیت-52)، یعنی ہمیشہ رہنے والا- یہ دِینِ حق ہے (سورة التوبة آیت-33)، یعنی سچٌا دِین- یہ دِینِ فطرت ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی اللہ کے بناے سانچے میں ڈھلا ہوا- یہ دِینِ مصطفےٰ ہے (سورة البَقَرَة آیت-132)، یعنی چُنّا ہوا دِین- یہ دِینِ خالص ہے (سورة الزُمر آیت-3)، یعنی کَھرا دِین- یہ مرتَضَىٰ دِین ہے (سورة النور آیت-55)، یعنی افضل ترین چُنّا ہوا- مصطفےٰ، مجتبےٰ اور مرتَضَىٰ اِن تمام الفاظ کا مطلب ہے چُنّا ہوا، لیکن درجہ بندی میں مصطفےٰ سے مجتبےٰ اَفضل اور مجتبےٰ سے مرتَضَىٰ اَفضل-
”اللہ جسے چاہتا ہے دِین کے لے چُنتا ہے (نبی، رَسول یا اِمام)، بَندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- نبّوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیے گۓ- ”اور (مُحَمَّد) اُس وقت کو یاد کرو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آل عِمرَان آیت-81)- ”بے شک ہم نے نوح اور اِبراھیم کو بھیجا اور اُنکی اولاد میں نبّوت اور کتاب کو رکھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة الحدید آیت-26)- حضرت ھود، لُوطً اور اِبراھییم (علیہ سَلام) اولادِ حضرت نوح (علیہ سَلام) میں سے تھے، نیز حضرت إِسْمَاعِيلَ، اسحاق، یعقوب، یوسف، داؤد، سلیمان، ایوب، زَكَرِيَا، يَحْيَىَٰ، إِلْيَاسَ، الْيَسَعَ، يُونُسَ، موسیٰ، ہارون اور عِيسَىٰ (علیہ سَلام) یہ سب اَنبياء اولادِ اِبراھیم میں سے تھے (سورة الأنعام آیت-84 تا 87)- حضرت نوح، اِبراھیم، موسیٰ اور عیسَیٰ (علیہ سَلام) سب دینِ اسلام کے پیروکار تھے (سورة الشورا آیت-13)- ”یہی ورثہ اِبرھیم نے اپنے بیٹوں کو چھوڑا اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ، اللہ نے تمھارے لیے دینِ اسلام کو چُن لیا اور تم مسلمان رہ کر ہی مرنا‟ (سورة البَقرة آیت-132)- پس اللہ نے دین کی تبلیغ کے لے اَنبیاء کو چُنَا اور اُن کی اولاد در اولاد میں اِس سلسلے کو قایم رکھا اُمت در اُمت نہیں!
اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبّوت و رِسالت پر فائز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقَرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلمِ اکبر اور ظلمِ اَصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اوراَپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبّب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87، 88)، یعنی ہر نبی یا رَسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”بیشک اللہ نے چُن لیا آدم، نوح، آلِ اِبراھیم اور آلِ عِمرَان کو سب جہان والوں میں سے‟ (سورة آل عِمرَان آیت-33)- بہ نفسِ قران اِسم عِمرَان جس کا ذِکر اِس آیتِ مبارکہ میں آیا اُس کو تین ممکنہ ہستیوں سے منصوب کیا جا سکتا ہے: حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) کے والد، حضرت مَریَم (سلام اللہ علیہا) کے والد اور مولا علی (علیہ سَلام) کے والد حضرت ابو طالب (علیہ سَلام) جن کا نام عِمرَان ہے- حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) سے اولاد نہیں ہوئ اور حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) نے شادی نہیں کی، اِس لے لفظ آل اِن ہستیوں سے منصوب نہیں کیا جاسکتا- لِہٰـزا ہمیشہ رہنے والی اِمامت کا سلسلہ جس کا وعدہ اللہ نے اولادِ اِبراھیم میں رکھنے کا کیا وہ آلِ عِمرَان (آلِ ابو طالب) ہیں- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے مُتّقی ہیں‟ (سورة السجدة آیت-24)- ”اور ہم نے اِرادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو اِمام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورة القَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة الصَّافات آیت-107)- کربلا میں قربانی زبحِ ِعظیم تھی جو کہ روشن دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی اہلِ بیت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کٌل اور اِمام اٌلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامِ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِماُم اٌلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے آپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- حضرت مُحَمَّد (ﷺ) آخری نبی ہیں (سورة الأحزاب آیت-40)- نبّوت اور اِمامت کا سلسلہ {حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اور اِمام مھدی (علیہ سَلام)}، حضرت ابراھیم و إِسْمَاعِيلَ (علیہ سَلام) سے جڑا ہے
Continue on next comment
”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (دین) کو بجھا دیں، لیکن میں اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہوں گا اگرچہ کفٌار کتنا نا پسند کریں‟ (سورة التوبة آیت-32)- 10 ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغامِ وہی کو جو آپ کے رَب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا میری رِسالت کا کوی کام نہ کیا اور ﷲ تمھیں انسانوں کے شرسے بچاے گا، بیشک اﷲ کَافروں کو ہدایت نہیں کرتا‟ (سورة المَائدة آیت-67)- لِہٰـزا حضور نے غدیرِ خُم میں ممبر پر مولا علی (علیہ سَلام) کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اِعلانِ ولایتِ علی کے فوراً بعد یہ وہی نازل ہوئ، ”۔ ۔ ۔ اج کے دن اللہ نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین ِاسلام مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-3
دینِ اِسلام کی بنیاد قرُان ہے اور قرُان میراث ہے، نیز اللہ نے اِس کا وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اگر وَارث بیمار ہو جاے تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلُیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5)، وہاں وارثانٍ قرُان أُولِي الْأَمْر ہیں- ”اے اِیمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اٍن 12 آئمہ میں دینٍ اسلام میں اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ اِمامتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اٌن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے اِیمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اِن سے) کہہ دو تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہور ہو گا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اورعیسَیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسَیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ”دین میں جبر نہیں ۔ ۔ ۔‟ (سورة البَقرَة آیت-256)- ”تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-103)- ”جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ بن گئے یقیناً اُن سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، اُن کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی اُن کو بتائے گا کہ اّنہوں نے کیا کچھ کیا ہے‟ (سورة الأنعَام آیت-159)-- ”جِس نے اِسلام کے لے اپنے سینے کو کھُولا وہ اپنے پروردگار کے نور (دین) پر ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الزمرآیت-22)، نیز ”جِس نے بھی اِسلام کے سوا کوئ اور دین چاہا اٌسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا“ (سورة آلِ عِمرَان آیت-85)- جنہوں نے اللہ کی حُجّت کو مان کر اپنی حُجّت بنائ اُن پر اللہ کا غضب اور عذاب 3ہے (سورة الشورہ آیت-16
صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حَاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نذول مولا علی (علیہ سَلام) کے اُنگشتری حالتِ رکوع میں فقیرکو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ اِستعمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور مولا علی (علیہ سَلام) کی زات ہے جہاں سے وَلایت کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اورحضرت مُحَمَّد (ﷺ)- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56
10ِ ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا کہ ”پہنچا دواُس پیغام ِوہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئ کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورةالمَائدة آیت-67)- لِہٰـزا غدیرِ خم میں حضور نے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا کہ ”جِس جِس کا میں مولا (حَاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اعلانِ غدیر پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3
قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور اِس کے وارث أُولِي الْأَمْرِ- ”اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اورأُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خٌلّافہ کے نام بتلاے جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ اُنہوں نے پہنچایا- قرُان میراث ہے اور اللہ نے اٍس کا وارث مصطفٰےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطقےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ ’علیہ سَلامʽ پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آیمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلام اُلله ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ میں دینٍ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)- جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اُس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اورالیاس اورآسمان سے ادریس اورعیسَیٰ آیں گے میرے بارویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پراور عیسَیٰ نماز پڑھیں گے اُن کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ابلیس نے اللہ کو مان کراٌس کے خلیفہ کا انکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گا؟
اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمبین میں رکھا (سورة یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”امام ِمبین زاتِ علی ہے‟ یعنی دَرخشاں اِمام- ”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالت رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نزول مولا علی کے اٌنگشتری حالت رکوع میں فقیر کو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ استمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور زاتٍ علی ہے اور اِن مومنین میں ولایت کا سلسلہ چلا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اور رسول- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو توشامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- ”کیا تم ابلیس اوراٌس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالانکہ میں نے اًن کو نہ توآسمانوں اورزمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اًن کی پیدایش پراوراللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو- قران اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور وارث أُولِي الْأَمْر- ” اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلامِ اللهُ ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ کے درمیان دینِ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ ابراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- اِسی لے اِمام ظلمِ اکبراورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم، کیونکہ شیطان کو معصوم ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں (سورة سجدہ آیت-24)- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدرآیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ آن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اٍس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہورہوگا تو زمین سے خضراور اِلیاس اورآسمان سے اِدریس اورعیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (وارثِ انجیل) نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی (وارثٍ قرُان) کے پیچھے‟ (صحاح ستہ
مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطفےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ علیہ سَلام پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آئمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- حضور نے فرمایا، ”میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرُان اور دوسری میری عِطرت (اہلِ بیت) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ قیامت میں حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں، جوشخص اِن دونوں سے تمسّک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہ یقیناً ہلاک ہو جاے گا، جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے‟ (صحاح ستّہ)- ”اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیّت) میں شامل رہو‟ (سورة توبہ آیت-119
سورہ یس کی آیت میں ایسی کوئ بات نہیں لکہی تم شیعہ حضرات قرآن کے غلط ترجمے کرتے ہو۔
اس آیت کے زیل میں حضرت ابو بکر اور عمر(رضی اللہ عنه) کے پوچھنے پر حضور نے فرمایا کہ امام مبین سے مراد زاتِ علی ابن ابو طالب ہے- نیز قران میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورہ فاطرآیت-32)- قران کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ علم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آل ِعِمرَان آیت-7) اور وہ ہی اس کے وارث ہیں- حضور نے جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ حو کہ وارثان قران ہیں اور سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- کیونکہ مصطفےٰ بندوں پر اللہ سلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)، اس لیے وہ مرتبہ علیہ سلام پر فایز ہیں اور مسجدِ نبوی میں ان ہستیوں کے ناموں کے بعد علیہ سلام کندہ ہے- لہٰزہ قران فہمی کے لیے ہمیں ان ہستیوں کے در پر جانا ہوگا- حضور نے فرمایا' " میں تمھارےدرمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قران اور دوسری میری عطرت-اہلِ البیت یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں‘ جوشخص اِن ونوں سے تمسک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہیقیناً غرق اور ہلاک ہو جاے گا" (صحاح ستہ
قران اللہ کا کلام ہے لہازہ یہ اللہ کی حکمت اور مرضی ہے کہ مختلف موضوعات کو کس انداز میں ام الکتاب میں جو کہ العلم ہے (تمام علوم کا سرچشمہ) شامل کرے- اللہ اکثر اشاروں میں کلام کرتا ہے اسی لیے قنران کی آیات کو سمھجنے کے لیے ضروری ہے کہ علم میں رٌاسخ ہستیوں سے رجوع کیا جاے - مثل کے طور پر سورہ کوثر میں حضور کو بتایا گیا کہ تمھاری نسل بیٹی (بی بی فاطمہ سلام الہو علیہا) سے قایم رہے گی اور اس امر کو کوثر یعنی خیر کثیر سے منسوب کیا- یاد رہے اس سورہ میں بی بی فاطمہ سلام الہو علیہا کا نام نہیں ۔ ۔
Aala
خلَاَفتِ الٰہیہ بہ نفسٍ قرُان
خَلِیفہ کے معنی ہیں جانشین یا نمائندا- خَلِیفة اُلله کا مطلب ہے اللہ کا نمائندا جو اِس دنیا میں اللہ کی حَاکمیت کو قائم کرے- جب اللہ نے فرشتوں سے فرمایا، ”میں زمین میں اپنا خَلِیفہ بنانے والا ہوں، تو وہ بولے تو اٍیسے کو خَلِیفہ بناے گا جو اِس میں فطنہ انگیزی اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں‟- جواب میں اللہ نے فرمایا،” میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‟- پھراللہ نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے اور اُنہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، ”مجھے اِن اشیاء کے نام بتاو اگر تم سچّے ہو‟- جب فرشتے اُن اشیاء کے نام نہ بتلا سکے اور حضرت آدم (علیہ سَلام) نے بتلا دیے تو اللہ کے حکم پر تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو سجدہ کیا سواے جن ابلیس کے (سورة البَقرَة آیت- 30تا 34)- لِہٰـزا حضرت آدم (علیہ سَلام) کومنصبٍ خلافت علم کی بنیاد پر ملا- اِسی طرح اًس وقت کے سرداروں کی مُخالفت کے باوجود اللہ نے حضرت طالوت (علیہ سَلام) کو عِلم کی بنیاد پر خَلِیفہ مقرر کیا (سورة البَقرَة آیت-247)- نیز اللہ نے اپنے خُلّافہ داوُد اورسُلیمان (علیہ سَلام) کو عِلم و حِکمت سے نوازا اور لوگوں پر فضیلت بخشی (سورة اَلنمل آیت-15)- مزید برآں حضرت موسٰی (علیہ سَلام) کی دعا کے جواب میں حضرت ہارون (علیہ سَلام) کو اّن کا وزیر مقرر کیا ( سُورة طـٰه آیت-29، 30، 32، 36)- اِسی طرح اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عّہدہِ نبوت و رسالت پرفایز تھے عظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری انسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقرَة آیت-124)- لِہٰـزا اِمام ظلِم اکبر اور ظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خَلِیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کُل اور امامُ اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمام اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمام اُلخلق تھے، اِسی لے آپ کےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- نبوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے علمِ ارواح میں دیے گے- ”اور (مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب تمھیں سب نبیوں پر گواہ بنایا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- خلافتِ اِلٰہیہ میں، ”اللہ جسے چاہتا ہے دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- ”اِن سب رسولوں (کے لئے ﷲ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے‟ (سُورة الْإِسْرَاء آیت-77)- لِہٰـزا خلافتِ الٰہیہ کا سلسلہ تا قیامت اِسی طرح قایم رہے گا اور اِس میں اَوّلین انتحابِ معیارِ فضیلت علم و حکمت ہے نیز خَلِیفہ کا رتبہ ’علیہ سَلامʽ ہوتا ہے
قرُان اَلعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)- ” ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے آپ (مُحَمَّد) پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اُس نے آپ کو وہ سب عِلم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-113)- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رَاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلٍ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سَلام) کا مقام حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کے بعد سب سے بلند ہے- اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمامٍ مبین میں رکھا (سوہ یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمامٍ مبین زاتٍ علی ہے یعنی درخشاں اِمام‟- ” کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اٍن سے کہہ دیں کہ میرے لیۓ ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے (سورة الرّعد آیت-43)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”دوسرا گواہ علی ابنٍ ابو طالب ہے‟- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم دیا گیا) کے سینے ہیں (سورة العنكبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة المجادلة آیت-11)- قرُان طاہر ہے اور اِس کی معنویّت کی گہرای تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام)، بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اِس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33
Continue on next comment
WHO R U? AND WHY ARE YOU POSTING BELOW THE VIDEOS OF GHAMDI SBB???
Iisnten to way of questioning ustaz javid ahmed ghamde
بہت خوب حسن بھائی ، یہ سوالات آتے تھے میرے زہن میں ،
معزرت سے غامدی صاحب آپ درست نہیں ہیں اس معاملے میں ،
وارثانِ قران بہ نفسِ قرُان
قرُان میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطرآیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اَگر وارث پرمصیبت آجاۓ تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (یعنی جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَلِعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61) وہاں وارثانٍ قرُان عِلم کا شہر بابُل عِلم اور رَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ہیں- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)- ”۔ ۔ ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو‟ (سورة النّحل آیت-43)- قرُان ذکر ہے (سورة الحِجر آیت-9) اور وارث اہلِ ذکر- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیے جاتے یا مًردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں عِلم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں (سورة انکبوت آیت-49)، یعنی أُوتُوا الْعِلْمَ کی طاقت قرُان کے برابر ہے- ”أُوتُوا الْعِلْمَ کےدرجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے‟ (سورة مُجادلہ آیت-11)- قرُان واضع نور ہدایت ہے (سورة النِّسَاء آیت-174) اور وارث مجسمِ نورِ ہدایت- قرُان مُهَيۡمن (اَمین، غالب، حّاکم، محّافظ،، نگہبان) ہے (سورة المَائدة آیت-48) اور وارث اَمین، کائنات کے حّاکم، محّافظ، نگہبان اور اّلا کُل ِغالب ہیں- قرُان بے عیب ہے یعنی اِس ہیں کوئ کجی نہیں (سورة الزُّمَر آیت-28) اور وارث ہرعیب سے پاک- قرُان معصوم ہے یعنی باطل کا اِس کے پاس گزر نا ممکن ہے (سورة فصِلَت آیت-42) اور وارث بھی معصوم ہستیاں ہیں- بہ کتاب بصیرت، حُجت، عقل اور فکر ہے (سورة الأعرَاف آیت-52) اور وارث صاحبِ بصیرت اور حُجّت اللہ ہیں- قرُان وَاضح بیان اورمُسلمانوں کیلے ہدایت، خوشخبری اور رحمت ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث رحمت العَالمین اور ہادیِ کُل- قرُان حکمت سے سرشار ہے (سورة یٰس آیت-2) اور وارث حِکمت کی معراج- یہ کتاب برحق بے یعنی اِس ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں (سورة فَاطِرآیت-31) اور وارث اہلٍ حق کیونکہ جب نجران کےعیسَایوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کا معاملہ طے نہ ہوسکا تو اللہ کے اِس حکم پر حضور سے مباہلا ہوا، ”۔ ۔ ۔ تم اپنے بیٹوں کو لاو اور ہم اپنے بیٹوں کو لایں، تم اپنی عورتوں کو لاو اور ہم اپنی عورتوں کو لایں، تم اپنے نفسوں کو لاو ہم اپنے نفسوں کو لایں اور پھراللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہو‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)، اور اِس جنگِ صداقت میں حضور نے صرف صدیق ہستیوں کو ساتھ لیا اور مولا علی، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لے کر مباہلے کے لے تشریف لاے جب آپ کے 9 حرم تھے اور بیٹے ابرھیم زندہ تھے- اٍس موقعہ پرعیسَایوں کے بڑے پادری عبدُل مسیح نے مباہلہ کرنے سے انکارکر دیا اور جزیہ دینا قبوُل کیا- اِس واقعہِ مباہلے کو اللہ نے قصہِ حق کہا (سورة آلِ عِمرَان آیت-62)- قرُان عظیم بے یعنی بلند رتبے والا (سورة الحِجرآیت-87) اور وارث نباءعظیم {عظیم خبر: غدیر خم میں اعلانِ ولایت مولا علی (علیہ سَلام)}- قرُان مبین بے یعنی درخشاں اورمبالغےسے پاک کلام (سورة یٰس آیت-69) اور وارث اِمام ِمبین (سورة یٰس آیت-12)- یہ کتاب بے مثل بے یعنی تمام جن واِنس مل کرقرانی سورتوں کی مثل ایک سوره بهی نہیں لا سکتے (سورة یُونس آیت-38) اور وارث بے مثلِ- قرُان مجید ہے یعنی جلیل اُلقدر (سورة ق آیت-1) اور وارث پیکرٍ اقدارٍآعلیٰ- قرُانَ تبیان ہے یعنی اپنی بات منواتا ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث ہر محاز پرغالب رہنے والے- قرُان فرقان بے یعنی حق اور باطل میں فیصلا کرنے والا (سورة الفُرقان آیت-1) اور وارث حق اور باطل کو عیاں کرنے والے- وقعہ کربلا کے بعد سرِ مبارک اِمام حسین (علیہ سَلام) کا نوکٍ نیزہ پر قرُان کی تلاوت کرنا اِس اَمر کی روشن دلیل ہے- قرُان کریم ہے یعنی بڑے رتبے والا (سورة الواقِعَة آیت-77) اور وارث مرتبے کی معراج- قرُانَ اہِلِ اِیمان کے لئے شّفا (پیاس بجهانا یعنی حاجت روا) ہے (سورة فُصِلَت آیت-44) اور وارث مالکِ شّفا- قرُان کا مکمل سمھجنا مشکل ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-7) اور وارث مشکل کشا ہیں- قرُان طاہر ہے نیز اِس کی معنویت کی گہرائ تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة واقعہ آیت-79) اور طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے، کیونکہ مولا علی، اِمام حسن اور حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) حضور کے ساتھ چادر کے اندر موجود تھے جب ارشاد ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33
Continue on next comment
He is a fitna
What abouts ayats he presented from Quran?
@@ms.k7807 which one bro
He is presenting Quran in a wrong dear
Wrong way
Sura yunas ki Aya 47 ino be pesh ki'''''jb kisi qom ki trf rasool aa jata hy tu uss ka faisla kr diya jata hy'''''
Aap k nazdek is ka kia mtlb hy'? If he presented wrong
Great job sir
Duniya yad rakhegi
❤❤❤❤❤❤
وارثانِ قران بہ نفسِ قرُان
قرُان میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطرآیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اَگر وارث پرمصیبت آجاۓ تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (یعنی جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَلِعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61) وہاں وارثانٍ قرُان عِلم کا شہر بابُل عِلم اور رَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ہیں- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)- ”۔ ۔ ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو‟ (سورة النّحل آیت-43)- قرُان ذکر ہے (سورة الحِجر آیت-9) اور وارث اہلِ ذکر- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیے جاتے یا مًردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں عِلم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں (سورة انکبوت آیت-49)، یعنی أُوتُوا الْعِلْمَ کی طاقت قرُان کے برابر ہے- ”أُوتُوا الْعِلْمَ کےدرجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے‟ (سورة مُجادلہ آیت-11)- قرُان واضع نور ہدایت ہے (سورة النِّسَاء آیت-174) اور وارث مجسمِ نورِ ہدایت- قرُان مُهَيۡمن (اَمین، غالب، حّاکم، محّافظ،، نگہبان) ہے (سورة المَائدة آیت-48) اور وارث اَمین، کائنات کے حّاکم، محّافظ، نگہبان اور اّلا کُل ِغالب ہیں- قرُان بے عیب ہے یعنی اِس ہیں کوئ کجی نہیں (سورة الزُّمَر آیت-28) اور وارث ہرعیب سے پاک- قرُان معصوم ہے یعنی باطل کا اِس کے پاس گزر نا ممکن ہے (سورة فصِلَت آیت-42) اور وارث بھی معصوم ہستیاں ہیں- بہ کتاب بصیرت، حُجت، عقل اور فکر ہے (سورة الأعرَاف آیت-52) اور وارث صاحبِ بصیرت اور حُجّت اللہ ہیں- قرُان وَاضح بیان اورمُسلمانوں کیلے ہدایت، خوشخبری اور رحمت ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث رحمت العَالمین اور ہادیِ کُل- قرُان حکمت سے سرشار ہے (سورة یٰس آیت-2) اور وارث حِکمت کی معراج- یہ کتاب برحق بے یعنی اِس ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں (سورة فَاطِرآیت-31) اور وارث اہلٍ حق کیونکہ جب نجران کےعیسَایوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کا معاملہ طے نہ ہوسکا تو اللہ کے اِس حکم پر حضور سے مباہلا ہوا، ”۔ ۔ ۔ تم اپنے بیٹوں کو لاو اور ہم اپنے بیٹوں کو لایں، تم اپنی عورتوں کو لاو اور ہم اپنی عورتوں کو لایں، تم اپنے نفسوں کو لاو ہم اپنے نفسوں کو لایں اور پھراللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہو‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)، اور اِس جنگِ صداقت میں حضور نے صرف صدیق ہستیوں کو ساتھ لیا اور مولا علی، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لے کر مباہلے کے لے تشریف لاے جب آپ کے 9 حرم تھے اور بیٹے ابرھیم زندہ تھے- اٍس موقعہ پرعیسَایوں کے بڑے پادری عبدُل مسیح نے مباہلہ کرنے سے انکارکر دیا اور جزیہ دینا قبوُل کیا- اِس واقعہِ مباہلے کو اللہ نے قصہِ حق کہا (سورة آلِ عِمرَان آیت-62)- قرُان عظیم بے یعنی بلند رتبے والا (سورة الحِجرآیت-87) اور وارث نباءعظیم {عظیم خبر: غدیر خم میں اعلانِ ولایت مولا علی (علیہ سَلام)}- قرُان مبین بے یعنی درخشاں اورمبالغےسے پاک کلام (سورة یٰس آیت-69) اور وارث اِمام ِمبین (سورة یٰس آیت-12)- یہ کتاب بے مثل بے یعنی تمام جن واِنس مل کرقرانی سورتوں کی مثل ایک سوره بهی نہیں لا سکتے (سورة یُونس آیت-38) اور وارث بے مثلِ- قرُان مجید ہے یعنی جلیل اُلقدر (سورة ق آیت-1) اور وارث پیکرٍ اقدارٍآعلیٰ- قرُانَ تبیان ہے یعنی اپنی بات منواتا ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث ہر محاز پرغالب رہنے والے- قرُان فرقان بے یعنی حق اور باطل میں فیصلا کرنے والا (سورة الفُرقان آیت-1) اور وارث حق اور باطل کو عیاں کرنے والے- وقعہ کربلا کے بعد سرِ مبارک اِمام حسین (علیہ سَلام) کا نوکٍ نیزہ پر قرُان کی تلاوت کرنا اِس اَمر کی روشن دلیل ہے- قرُان کریم ہے یعنی بڑے رتبے والا (سورة الواقِعَة آیت-77) اور وارث مرتبے کی معراج- قرُانَ اہِلِ اِیمان کے لئے شّفا (پیاس بجهانا یعنی حاجت روا) ہے (سورة فُصِلَت آیت-44) اور وارث مالکِ شّفا- قرُان کا مکمل سمھجنا مشکل ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-7) اور وارث مشکل کشا ہیں- قرُان طاہر ہے نیز اِس کی معنویت کی گہرائ تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة واقعہ آیت-79) اور طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے، کیونکہ مولا علی، اِمام حسن اور حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) حضور کے ساتھ چادر کے اندر موجود تھے جب ارشاد ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33
Continue on next comment
اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمبین میں رکھا (سورة یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”امام ِمبین زاتِ علی ہے‟ یعنی دَرخشاں اِمام- ”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالت رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نزول مولا علی کے اٌنگشتری حالت رکوع میں فقیر کو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ استمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور زاتٍ علی ہے اور اِن مومنین میں ولایت کا سلسلہ چلا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اور رسول- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو توشامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- ”کیا تم ابلیس اوراٌس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالانکہ میں نے اًن کو نہ توآسمانوں اورزمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اًن کی پیدایش پراوراللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو- قران اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور وارث أُولِي الْأَمْر- ” اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلامِ اللهُ ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ کے درمیان دینِ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ ابراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- اِسی لے اِمام ظلمِ اکبراورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم، کیونکہ شیطان کو معصوم ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں (سورة سجدہ آیت-24)- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدرآیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ آن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اٍس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہورہوگا تو زمین سے خضراور اِلیاس اورآسمان سے اِدریس اورعیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (وارثِ انجیل) نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی (وارثٍ قرُان) کے پیچھے‟ (صحاح ستہ)
مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطفےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ علیہ سَلام پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آئمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- حضور نے فرمایا، ”میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرُان اور دوسری میری عِطرت (اہلِ بیت) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ قیامت میں حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں، جوشخص اِن دونوں سے تمسّک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہ یقیناً ہلاک ہو جاے گا، جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے‟ (صحاح ستّہ)- ”اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیّت) میں شامل رہو‟ (سورة توبہ آیت-119
Dear sir! Your comment made me do some research. All major Shia and Sunni scholars did the translation of “Imam mun Mubeen” as “the clear book/register/written evidence etc”. No one has translated it as a person. Your point of view cannot be established without associating with the Hadith that you have mentioned. Can you please refer us the book where this Hadith has been taken from, I can’t find it.
Even in that Hadith, when I read it in full on a website, it says that sahaba asked the prophet: is this book Torah? Is this the Bible. To which the prophet replied pointing to Ali: “Verily this is the Imam in whom Allah has deposited the knowledge of everything.”
Now the first part of the Hadith, if it’s correct, clearly indicates that the companions understood the meaning of the word imam as a book for this ayat.
However I’m a bit confused about why the word imam was used for book in this ayat and if someone can give me another example from Qur’an or any other Arabic literature where imam has been used for book, please let me know.
The word Kitab-e-Mobeen has been used in Surah Al-Ma'idah Verse-15, Surah Al-An'am Verse-59, Surah Yunus Verse-61, Surah Hud Verse-6, Surah An-Namal Verse-1 &75, Surah Saba' Verse-3 and in subject verses it means the manifesting book. However, in Quran the word Imam has not been used in implied meaning/context/to signify a book.
To be a sahabi does not imply that he/she understood the true meaning of Quran because the true interpretation of Quran is known to Allah and those who are firmly grounded in knowledge (Surah aal-e-Imran Verse-7). Moreover, Quran is inheritance and its inheritors are the mustafa (chosen) people (Surah Faatir Verse-32) and they were nominated by the Prophet all from the tribe of Quraish and told their names to Jabir bin Abdullah (RE): Ali s/o Abu Talib, Hassan s/o Ali, Hussain s/o Ali, Ali s/o Hussain, Muhammad s/o Ali, Jaffer s/o Muhammad, Mussa s/o Jaffer, Ali s/o Mussa, Muhammad s/o Ali, Ali s/o Muhammad, Hassan s/o Ali and Muhammad al-Mehdi s/o Hassan and instructed him to covey His Slaam to the 5th Vicegerent Imam Muhammad Baqar (ES) which he conveyed. Allah bestows peace (slaam ) on the chosen (mustafa) people (Surah an-Namal Verse-59) implying those in subject category are honored with the suffix title of Elayh Slaam (peace on him). As such, in Prophet Mosque (Masjid-e-Nabwi) the names of 12 referred Imams are written with the suffix title of سلام علیہ. Moreover, the Prophet said, "I am leaving two weighty things Quran and my itrat (Ahlul Bayt), they will remain enjoined till they meet me at the pool of Kawthar on the Day of Judgment. One who remains associated with them surely will not go astray and one who remains away will perish" (Sihah Sitta).