03 Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине {فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ }«Но он (Пророк ﷺ) чувствует нерешительность со стороны вас, люди, а Аллах не колеблется (говоря) правду». Пророк (мир ему и благословение Аллаха) страдал от того, что люди долгое время сидели в своих домах. Но он не велел им идти из-за чести и достоинства. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہر حال ان حجروں کے اندر اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہاں غیر محرم مرد محفل جما کر بیٹھتے ۔ {فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ } ’’مگر وہ (نبی ﷺ) آپ لوگوں سے جھجک محسوس کرتے ہیں‘اوراللہ حق (بیان کرنے) سے نہیں جھجکتا۔‘‘ گھروں کے اندر لوگوں کے تا دیر بیٹھنے سے حضورﷺ کو تکلیف تو ہوتی تھی مگر آپؐ مروّت اور شرافت میں انہیں جانے کا نہیں فرماتے تھے۔ {وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ } ’’اور جب تمہیں نبی (ﷺ) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔‘‘ قرآن حکیم میں اس مقام پر لفظ ’’حجاب‘‘ پہلی بار آیا ہے اور یہ حجاب سے متعلق احکام کے سلسلے کا پہلا حکم ہے‘ جس کا منشا یہ ہے کہ آئندہ حضورﷺ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے جائیں اور اگر کسی غیر محرم مرد کو اُمہات المومنینؓ میں سے کسی سے کوئی کام ہو وہ رُو در رُو نہیں بلکہ پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر بات کرے --- اس آیت کو ’’آیت حجاب‘‘ کہا جاتا ہے --- اس حکم کے بعد ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے‘ اور چونکہ نبی اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی مسلمانوں کے لیے اُسوۂ حسنہ تھی اور آپؐ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا‘ چنانچہ تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر بھی پردے لٹک گئے۔ {ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ } ’’یہ طرزِ عمل زیادہ پاکیزہ ہے تمہارے دلوں کے لیے بھی اور انؓ کے دلوں کے لیے بھی۔‘‘ مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو کشش رکھی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ غیر محرم مرد وں کا غیر محرم عورتوں کے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو۔ {وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ} ’’اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول(ﷺ) کو ایذا پہنچاؤ‘‘ یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ اگرچہ معاشرتی اصلاحات کے بارے میں یہ احکام عمومی نوعیت کے ہیں لیکن ان اصلاحات کا آغاز خصوصی طور پر اللہ کے رسولﷺ کے گھر سے کیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک سبب تو وہی ہے جس کا حوالہ انگریزی ضرب المثل charity begins at home میں دیا گیا ہے کہ اچھے کام کی ابتدا اپنے گھر سے ہونی چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف ان اقدامات کو حضورﷺ کی ذات سے منسوب کر کے منافقین کی شرارتوں کے راستے بند کرنا بھی مقصود تھا جو حضورﷺ کی ذات اور آپؐ کے گھر والوں کے حوالے سے ہر وقت تاک میں رہتے تھے کہ انہیں کوئی بات ہاتھ آئے اور وہ اس کا بتنگڑ بنائیں۔ { وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ؕ}
Allah maulana ki magfarat farmaye
Mashallah
Very well said maulana
Miss you moulana ALLAH mujy jannat main aapka sath de ameen
Creation plan of God har insan ko janna zaruri hai
03
Сура Аль-Ахзаб, Сура № 33, всего аятов 73, Время Откровения, В Медине
{فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ }«Но он (Пророк ﷺ) чувствует нерешительность со стороны вас, люди, а Аллах не колеблется (говоря) правду». Пророк (мир ему и благословение Аллаха) страдал от того, что люди долгое время сидели в своих домах. Но он не велел им идти из-за чести и достоинства.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہر حال ان حجروں کے اندر اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہاں غیر محرم مرد محفل جما کر بیٹھتے ۔
{فَیَسۡتَحۡیٖ مِنۡکُمۡ ۫ وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ }
’’مگر وہ (نبی ﷺ) آپ لوگوں سے جھجک محسوس کرتے ہیں‘اوراللہ حق (بیان کرنے) سے نہیں جھجکتا۔‘‘
گھروں کے اندر لوگوں کے تا دیر بیٹھنے سے حضورﷺ کو تکلیف تو ہوتی تھی مگر آپؐ مروّت اور شرافت میں انہیں جانے کا نہیں فرماتے تھے۔
{وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ }
’’اور جب تمہیں نبی (ﷺ) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔‘‘
قرآن حکیم میں اس مقام پر لفظ ’’حجاب‘‘ پہلی بار آیا ہے اور یہ حجاب سے متعلق احکام کے سلسلے کا پہلا حکم ہے‘ جس کا منشا یہ ہے کہ آئندہ حضورﷺ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے جائیں اور اگر کسی غیر محرم مرد کو اُمہات المومنینؓ میں سے کسی سے کوئی کام ہو وہ رُو در رُو نہیں بلکہ پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر بات کرے ---
اس آیت کو ’’آیت حجاب‘‘ کہا جاتا ہے ---
اس حکم کے بعد ازواجِ مطہراتؓ کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے‘ اور چونکہ نبی اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی مسلمانوں کے لیے اُسوۂ حسنہ تھی اور آپؐ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا‘ چنانچہ تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر بھی پردے لٹک گئے۔
{ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ وَ قُلُوۡبِہِنَّ ؕ }
’’یہ طرزِ عمل زیادہ پاکیزہ ہے تمہارے دلوں کے لیے بھی اور انؓ کے دلوں کے لیے بھی۔‘‘
مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو کشش رکھی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ غیر محرم مرد وں کا غیر محرم عورتوں کے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو۔
{وَ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُؤۡذُوۡا رَسُوۡلَ اللّٰہِ}
’’اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول(ﷺ) کو ایذا پہنچاؤ‘‘
یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ اگرچہ معاشرتی اصلاحات کے بارے میں یہ احکام عمومی نوعیت کے ہیں لیکن ان اصلاحات کا آغاز خصوصی طور پر اللہ کے رسولﷺ کے گھر سے کیا جا رہا ہے۔
اس کا ایک سبب تو وہی ہے جس کا حوالہ انگریزی ضرب المثل charity begins at home میں دیا گیا ہے کہ اچھے کام کی ابتدا اپنے گھر سے ہونی چاہیے۔
جبکہ دوسری طرف ان اقدامات کو حضورﷺ کی ذات سے منسوب کر کے منافقین کی شرارتوں کے راستے بند کرنا بھی مقصود تھا جو حضورﷺ کی ذات اور آپؐ کے گھر والوں کے حوالے سے ہر وقت تاک میں رہتے تھے کہ انہیں کوئی بات ہاتھ آئے اور وہ اس کا بتنگڑ بنائیں۔
{ وَ لَاۤ اَنۡ تَنۡکِحُوۡۤا اَزۡوَاجَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۤ اَبَدًا ؕ}