ডাঃ জাকির নায়েক সাহেব আপনি হলেন দুই দিনের প্রদীপ ।প্রথম দিন হল "দ্বীন " যা হল ইসলামের আলো ।আর দ্বিতীয় দিন হল "দিন" যা সাধারনত চলাফেরার আলো ।আপনার কাছ থেকে দুই দিনের আলো পাওয়া যায় ।আলহামদুলিল্লাহ ।
আল্লাহ অদ্বিতীয়, সর্বশক্তিমান এবং একমাত্র উপাস্য। আমাদের প্রতিপালক আল্লাহ সুবহানাহু ওয়া তায়ালা। আল্লাহ ছাড়া কোনো 'সত্য মাবুদ ' / 'সত্য ইলাহ' নেই। আল্লাহ তায়ালা আসমানে 'আরশের ঊর্ধ্বে সমুন্নত। আল্লাহকে জানুন তাঁর সুন্দরতম নাম ও পরিপূর্ণ গুণাবলী দ্বারা। কোরআন আল্লাহর বাণী এবং মানবজাতির জন্য চূড়ান্ত প্রত্যাদেশ।মুমিনদের উপর কুরআনের অধিকার • বিশ্বাস করার মতো বিশ্বাস করা • যেভাবে পড়ার দাবি কোরআন রাখে, সেভাবে পড়া • যেভাবে বোঝা উচিত, সেভাবে বোঝা • এর উপর আমল করা • অপরকে শেখানো, এর প্রচার ও প্রসার করা এবং মুহাম্মাদ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লামের সুন্নাহ এবং তাঁর অনুসরণ করা।
ویدھ میں رسول اللہ پیغمبر آخر الزمان کے بارے بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ ان پیشنگوئیوں کے بارے میں میری سمجھ میں جو بات آئی ہے وہ یہ ہے : یہ پیشینگوئیاں ایک نبی کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا ہے اور اس نبی کو آللہ جل شانہ نے یہ معلومات وحی کے ذریعہ بتا یا تھا ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آخر کون ایک ایسے نبی کے بارے میں بتا سکتا ہے جو اڑھائی تین ہزار سال بعد آنے والا تھا !! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ نبی کون ہے جس کو اللہ نے وحی کے ذریعہ یہ باتیں بتائی تھی ۔ سناتن دھرم ایک قدیم مذہب ہے ۔ ہندو اسکالرز کہتے ہیں کہ ویدھ چار ہزار سال قدیم کتاب ہے اور یہ آسمانی کتاب ہے ۔ ذہن میں یہ بات آتی کہ سناتن دھرم کے ماننے والوں کی پہلی نسل مسلمان تھی اور ان کا تعلق ان مسلمانوں سے ہو جو نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار تھے ۔ جیساکہ قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے بارے میں صراحت سے بیان کیا ہے : ذرية من حملنا مع نوح ( بنى إسرائيل : ٢ ) بعد میں نبی علیہ السلام کی تعلیمات اور فرمودات کتابی شکل میں جمع کیے گئے ہوں گے اور ان میں انسانی تشریحات اور اور نبی کے فرمودات کے علاوہ بہت ساری انسانی باتوں کی آمیزش کردی گئی ہو ۔ پھر ان میں مزید اضافے ہوتے رہے یہاں تک کہ اس کی تفسیر مختلف کتابیں لکھی گئیں ہوں ۔ و اللہ اعلم بالصواب ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم جدید سائنس کی روشنی میں ( 4 ) واقعہ معراج اللہ جل شانہ جو اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے : بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o ( البقرة : ١١٧ ) ( وہ اللہ کی ذات ) سب آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ ایک امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ۔" ۔ اس آیہ کریمہ کو ہم گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ جل شانہ کا پر عمل timeless ہوتا ہے واقعہ معراج بھی صفر وقت میں پیش آیا یعنی وہ timeless ہے ۔ یہ اللہ جل شانہ کی غیر محدود قوت اور قدرت کاملہ کا مظاہرہ تھا جو کسی بھی حدود و قیود سے ماوراء ہے ۔ آیے ہم اسے جدید سائنس اور جدید فلکیات تحقیقات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ Special Theory of Relativity قابل ذکر ہے ۔ اس کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے جو Frame of reference کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور دوسرا شخص اگر گہرے خلا میں سفر کر رہا ہے تو اس کا وقت زمین س الگ ہوگا ۔ اس نے وقت ( زمان ) اور خلا ( مکان ) کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان و مکان ( Space and Time) کو مخلوط شکل میں پیش کیا ہے روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص ایک خلائی جہاز ( Spaceship) میں سوار ہو کر خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ، اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو صفر وقت ( No Time ) میں ہوگا ۔ اس نظریہ سے صفر وقت ( timeless ) کا نظریہ سامنے آیا ۔ سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں براق پر ہوا تھا ۔ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جنت سے لائی ہوئی ایک نوری سواری تھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی ۔ آئنسٹائن نے جس روشنی کی رفتار کا ذکر کیا ہے وہ ہماری معلوم دنیا کی روشنی ہے ۔ براق کی نوری سواری اپنی کیفیت میں اس روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہین کہ اس نور کی سواری کی سرعت کا تصور آج کی سائنس کرنے سے قاصر ہے ! جہاں وقت کا تصور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔ آئنسٹائن کے نظریہ کے علاوہ سائنسدانوں میں وقت ایک بڑا موضوع بحث بن گیا ۔ اب یہ بحث ہوچکی ہے کہ وقت ایک حقیقت ہے یا ایک بھرم ( Illusion) ہے جس کا حقیقیت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ کیا وقت اس کائنات کا بنیادی حصہ ہے یا وقت کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ نیرو سائنس کے مطابق وقت ہوتا ہی نہیں ہے ۔ ہم اسے اپنے دماغ میں بناتے ہیں ۔ نیورو سائنس کے مطابق یہ ایک دماغی شئ ہے ۔ یہ واقعات کے بدلاؤ کے تناظر میں ہمارے ذہن میں ایک نفسیاتی تصور بے جس کا حقیقیت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ یہ ہمارے دماغ کا کارنامہ ہے ۔ ان کے نزدیک اس کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے ۔ وہ وقت کے دائرے میں بندھے رہنے کو غلط سمجھتے ہیں ۔ یہ ہمارے دماغ میں ایک بایولاجیکل اور سائکلوجیکل اثر کا نتیجہ ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔ خلائی سائنسدانون نے وقت کو کائنات کے فزیکل ڈ سکرپشن ( Discription ) سے نکال دیا ہے ۔ کائنات کو وقت کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کائناتی سچائی کی گہرائی میں وقت کا وجود ہی نہیں ہے ۔ ایک جدید نظریہ کوانٹم تھیوری ہے ۔ آئنسٹائن کے نظریہ اضافت جس کا تعلق Celestial Bodies ہے یعنی بڑے اجرام مساوی سے ہے ۔ اس کے مقابکہ میں کوانٹم دنیا غیر مرئی انتہائی چھوٹے ذرات کی دنیا ۔ یہ دنیا اپنی اعلی سطح پر کوانٹم یونیورس ہے جو آئنسٹائن کے لیے ایک معمہ تھی اور اس نے اس کا انکار کردیا ۔ اس دنیا میں وقت کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ جولین بابر کا نظریہ یہ ہے کہ کائنات اپنی گہرائی میں timeless ہے ۔ سائنسی نظریہ کے مطابق کائنات کو وقت کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ وقت کے physical aspects کا پتہ چل بھی سکے گا یا نہیں ، ہمیں اس کا پتہ نہیں ؟! فلکیاتی سائنسدان ایک سیکنڈ کو کھربوں توڑتے( Friction ) ہیں ۔ وہ اس کو اس سے بھی زیادہ حصوں میں توڑنا چاہتے ہیں لیکن Equation اس کی اجازت نکخن دیتا ۔ جب سائنسدان وقت کو اس انتہائی گہرائی سے دیکھتے ہیں تو اللہ جل شانہ سب آسمانوں اور زمین کے موجد و مبدع ہیں ، ان کے نزدیک وقت کی کیا حقیقت ہوگی ؟! سچائی کی گہرائی میں وقت کا وجود ہی نہیں ہے ۔ Time is an illusion . اب اگر یہ کہا جائے کہ واقعہ معراج صفر وقت میں ہوا ہے تو یہ یہ جدید سائنسی نظریات کے خلاف نہیں ہے ۔ لیکن ہم سائنسی نظریات سے قطع نظر اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ اللہ تعالی " بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o اس لیے اللہ جل شانہ کا ہر عمل timeless ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
BISMILLAHIR RAHMANER RAHIM AllAH d:Zakir naeik er vipud apud musibut theke hifajute rahon are tar Elam bariey din are Ami juto toko Jani AllAH tomi would er konai kanai diner dawat pusai diven Amin amin amin
مادى دنیا اور عقل انسانی سے ماوراء واقعہ معراج ساتون آسمان اور سدرة المنتہی کے احوال ومشاہدات سبحان الذى أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الذى باركنا حوله لنريه من آياتنا إنه هو السميع البصير o پاک ہے ( وہ ذات ) جو ایک رات اپنے بندے مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی ( بہت المقدس) لے گئی ، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اسے اپنی نشانیاں دکھائے ، بیش وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ اس آئی کریمہ میں اللہ جل شانہ نے " أسرى بعبده فرمايا ہے اس لیے یہ واقعہ إسراء كہلاتا ہے ۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے ۔ حدیث میں اس واقعہ کے لیے " عرج بی " آیا ہے یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا اس لیے یہ واقعہ کہلایا ۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔ علامہ زرقاوی نے ٤٥ صحابہ کا نام بنام ذکر کیا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیا ہے ۔ یہ واقعہ تین مراحل پر مشتمل ہے : ١ -- پہلا مرحلہ مسجد حرام سے لے کر مسجد الأقصى تک دوسرا مرحلہ مسجد الاقصی سے لے کر ساتوں آسمان اور سدرة المنتہی تک تیسرا مرحلہ سدرة المنتہی سے آگے تک عالم تجرید ۔ اس سے آگے قاب قوسین او ادناہ تک گوشہ حقیقت وہ عالم جو لامکان ہے ۔ اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ۔ علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ سفر معراج سدرة المنتہی تک وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپس ہوگئے ۔ اس کے برخلاف علماء کی دوسری جماعت آگے کے سفر کی قائل ہے ۔ سدرہ المنتہی میں عالم مکان ختم ہوگیا ۔ وہان آپ (ص) کے لیے سبز رنگ کا نور کا تخت آگیا اس کا نام رفرف تھا ۔ آپ اس پر سوار ہوکر لامکان کی طرف چلے ۔ یہاں کے احوال و کیفیات ہر شئ سے ماوراء ہے ۔ صوفیاء رحمہم اللہ عجب عجب احوال ، مشاہدات اور کیفیات بیان کرتے ہیں جن کا بیان کرنا یہاں ضروری نہیں ۔ اسراء اور معراج کا واقعہ کب پیش آیا : معراج کی تاریخ ، دن اور مہینہ میں بہت اختلافات ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے ایک سال یا ذیڑہ سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیش آیا ۔ ابن قتیبہ دینوری( متوفی ٢٦٧ هج) ابن البر ( متو فی ٤٦٣ هج) اور امام مووی نے تحریر کیا ہے کہ واقعہ معراج رجب المرجب کے مہینہ میں ہوا ۔ محدث عبد الغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں تاریخ بھی تحریر کیا ہے ۔ علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے ۔ ( زرقانی ص ٣٥٨) مختصر حالات معراج : معراج کی رات حضرت جرنیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کے پاس لے گئے ، سینہ مبارک کو چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو نکال کر اسے آب زمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں انڈیل کر چاک کو برابر کردیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرکے بیت المقدس لے گئے ۔ براق انوار کی سواری پرصفر وقت میں محیر العقول سفر اس سواری کی برق رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی ۔ یہ سفر جبرئیل علیہ السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں ہوا ۔بیت المقدس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیپم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ(ص) نے تمام انبیاء اور رسالوں کو جو وہاں حاضر تھے ، دو رکعت نماز پڑھائی ۔ ( تفسیر روح المعانی ج ٥ ص ١١٢) یہ امامت انبیاء کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک آسمان پر جانے سے پہلے پیش آیا ۔ سفر معراج سے واپسی پر جب اصل مقصد پورا ہوگیا تو تمام انبیاء علیپم السلام آپ کو رخصت کرنے کے لیے بیت المقدس تک آئے ۔ اس وقت نماز فجر کا وقت ہوگیا تھا ۔ جبرئیل امین کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ۔ اس سے تمام انبیاء علیپم السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیپم السلام کے امام قرار پائے ۔ سورہ اسراء کی اس پہلی آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے خود معراج مصطفی کا ذکر فرمایا ۔ اس اپنی قدرت اور تنزیہ و تقدیس کو بیان فرمایا ۔ پاک و برتر اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے وہ ذات ۔ واقعہ معراج کا بیان کرنا ہے لیکن ابتدا اپنی تقدیس اور تنزیہ سے فرمایا ۔ اس لیے جو واقعہ اس کے بعد بیا کیا جانے والا ہے وہ بڑی اہمیت کی حامل ، محیر العقول اور عظیم الشان ہوگی اور اس کا انکار علم کی کمی اور کم فہمی پر مبنی ہوگی ۔ اس تمہیں کے بعد جو واقعہ بیان کیا جارہا ہے ، وہ اگرچہ آج کے خلائی مطالعات اور تحقیقات کرنے والے سائنسدانوں کی سمجھ میں نہ آئیں تو یہ آج کی ماڈرن سائنس کا نقص ہے اور وہ اتنی ایڈوانس نہیں ہے ۔ لیکن اللہ جل شانہ جو " بدیع السموات و الارض" ہے اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ اگر اس کے لیے بھی ناممکن ہو تو پھر وہ مبدع کائنات اور ہر چیز کا خالق نہیں رہا ۔ سبحان اللہ عما یصفون ۔ خبردار یہ دعوی مصطفی نے نہیں کیا بلکہ اللہ نے فرمایا کہ یہ دعوی میرا ہے ۔ میرے رسول نے یہ دعوی مہین کیا کہ اس نے خود ییہ سفر کیا ہے بلکہ مین اللہ رب العزت تمہیں باخبر کر رہا ہوں کہ یہ سفر معراج اپنے برگزیدہ بندہ اور رسول کو میں نے کرایا ہے ۔ اے مشرکین مکہ اگر انکار کرنا ہے تو میری بات کا انکار کرو ۔ مجھ سے پوچھو کہ میں معراج کراسکتا ہوں یا نہیں! اس واقعی معراج کا انکار کیے جانے اور زبان اعتراضات کھل نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرمادیا جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
مسلمانوں کا سنہری دور (Golden Age) نزول قرآن سے شروع ہوا ۔ پہلی پانچ آيات کریمہ جو نازل کی گئیں وہ یہ ہیں : عباسی دور حکومت مسلمانوں کی تاریخ کا سنہری دور نہیں ہے ۔ یہ بالکل غلط اور گمراہ کن بات ہے ۔ إقرأ باسم ربك الذى خلق o خلق الإنسان من علق o إقرأ و ربك الأكرم o الذى علم بالقلم o علم الإنسان ما لم يعلم o ( العلق : ١-- ٥) پڑھو ( اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۔ انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ۔ پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا ۔ انسان کو وہ علم دیا جس کو وہ نہ جانتا تھا ۔ پہلی اور دوسری آیات میں کہا گیا ہے کہ " پڑھیے " چوتھی اور پانچویں آیات میں تین بار لفظ " علم " آیا ہے ۔ انگریزی زبان میں علم کا معنی ہے سائنس ( Science) . نزول قرآن مجید سے وہ دور شروع ہوا جو Era of Science کہلاتا ہے ۔ پہلی آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے " خلق " (Creation) پیدا کرنے کا ذکر کیا ہے ۔ اس پہلی آیہ میں اللہ نے ارتقا (Evolution) کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔ اس کا واضح مطلب یہ کہ اللہ جل شانہ نے پیدا کیا ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا ۔ عام لفظ خلق کا استعمال کیا جس کا مطلب ہے : " اس رب کے نام کے ساتھ پڑھو جس نے اس کائنات اور اس کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔ دوسری جگہ اللہ نے إرشاد فرمایا : " اللہ خالق کل شئ " اللہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ " اپنے رب کے نام کے ساتھ پڑھو " اس کا مطلب یہ ہے کہ نظام تعلیم و تربیت لادینی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی ابتدا اللہ کے نام کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی نظام تعلیم و تربیت کی اساس الہی اور قرآنی ہونی چاہیے ۔ یہاں میں نے کئی بنیادی باتوں کی تشریح کردی ہے ۔ نظریہ ارتقا نظام تعلیم و تربیت کو اللہ جل شانہ کی ذات بابرکات سے جدا کرکے قدرتی اور طبعی نظام ارتقا کی طرف کردیتا ہے اور اس مین کہیں بھی اللہ رب العزت کا ذکر نہیں کرتا جو کفر ہے ۔ عباسی دور حکومت میں یونانی فکر و فلسفہ کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا ۔ اس بارے میں ابن خلدون نے لکھا ہے : " اس طرح ملت میں ان علوم اور ان کے علمبرداروں کے ذریعہ بہت سی قابل اعتراض باتیں داخل ہوگئیں اور ان کی طرف مائل ہوکر لوگ خواہشات میں پڑگئے اور ان نظریات کی تقلید کرنے لگے اور اس معاملہ میں گناہ اسی پر ہے جو اس کا مرتکب ہوا " ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ نے اس پر اس طرح گرفت کی ہے : " میں گمان نہیں کرتا کہ اللہ تعالی مامون سے درگزر فرمائے گا اور یہ لازمی ہے کہ وہ ان باتوں پر اللہ کا سامنا کرے جو اس نے امت علوم فلسفہ داخل کرکے اس کے حق میں کانٹے بوئے ہیں اور جواب دہ ہو "۔ امہ مسلمہ کو یونانی فلسفہ اور افکار و نظریات نے بہت نقصان پہنچایا ۔ یہ ڈر حقیقت امہ کے خلاف فکری یلغار تھی جس کے منفی اثرات مسلمانون کے نظام تعلیم و تربیت میں آج تک پائے جاتے ہیں ۔ یہ بہت اہم موضوع ہے جسے علماۓ اسلام ہی گہرائی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اللہ جل شانہ ہم مسلمانوں کو اور ہمارے نظام تعلیم و تربیت کو لادینی نظریہ ارتقا اور اس کے کفر صریح سے بچائے اور ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
حتى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب فى عين حمئة ... ( الكهف : ٨٦) یہاں تک کہ جب غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو آفتاب ان کو ایک سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔ یعنی وہاں ایسا تھا کہ آفتاب ان کو سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتا ہوا دکھائی دیا ۔ قرآن مجید کی اس آئی کریمہ پر یہ جاہلانہ اعتراض عام طور پر مشرق و مغرب اسلام مخالفین کرتے ہیں ۔ یہان قرآن نے یہ نہیں بیان کیا ہے کہ سورج غروب ہورہا ہے ایسا سمجھنا نری جہالت کے سوا کچھ نہیں ! یہاں قرآن کی تعبیر حقیقت نفس الأمری کے طور پر نہیں بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ ایک ادبی طرز تعبیر ہے کوئی حقیقت نہیں ۔ اس کو عربی زبان و ادب کو جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔ امام رازی اور اکثر محققین کے نزدیک "مغرب الشمس" کے یہ معنی نہیں کہ آفتاب غروب ہونے کی زمین پر کوئی جگہ ہے اور وہاں سیاہ دار گدلا پانی ہے ۔ یہ حماقت اور انتہائی جہالت کی بات ہے کیوں کہ ایسی کوئی جگہ ہئ ہی نہیں ۔ مغرب اور مشرق اضافی ٹرم ہیں ۔ آفتاب غروب ہوتا ہی نہیں ہے زمین گول ہے ۔ آفتاب کی حرکت اور زمین کا دور طلوع اور غروب دکھاتا ہے ۔ یہ عرف عام کی تعبیر کے اعتبار سے ہے جیسے کہا جاتا تھا کہ سلطنت برطانیہ اتنی وسیع ہے کہ اس میں آفتاب کا طلوع و غروب ہوتا ہے ۔ ذو القرنین مغرب کی جانب بیت دور تک پہنچا جہاں زمین کی جغرافی حالت ایسی تھی کہ آفتاب اس کو پانی میں ڈوبا ہوا دکھائی دیا جن لوگوں نے جہاز پر سفر کیا ہے اور ان کے غربی جانب سمندر پڑتا ہے وہ ایسے منظر کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ چونکہ واقع میں سورج کسی ایسی جگہ غروب نہیں ہوتا اس لیے " وجدھا " فرمایا گیا یہ ذوالقرنین کے حوالے سے کہا گیا ہے نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے ۔ قرآن مجید خالق کائنات کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور اس کائنات کی حقیقت کو اس سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے ۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے : ألا يعلم من خلق و هو الطيف الخبير ( الملك : ١٤ ) كيا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے اور وہ باریک بین اور بڑا با خبر ہے ۔ جب اللہ کی ذات ہی نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے تو کیا وجہ ہے وہ اس کی حقیقت سے واقف نہ ہو اور مغرب کی سمت جہاں تک ذوالقرنین گئے تھے ہوا زمین کی جغرافی حالت کیا تھی وہ اس سے اچھی طرح باخبر تھے ۔ اس لیے اللہ نے یہ نہیں کہا کہ وہاں سورج غروب ہورہا تھا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ ذو القرنین کو ایسا دکھائی دیا ۔ یہ صاف بتارہا ہے کہ وہاں جغرافی طور پر زمین کی یہ حالت تھی اس لیے اس کی نسبت ان کی طرف کی گئی ۔ آج کی سائنس اتنی ترقی یافتہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے قرآن مجید میں بیان کردہ حقائق کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جائے یا ان کا انکار کردیا جائے ۔ یہ کتاب حقائق( Book of facts) ہے نہ کہ سائنسی نظریات کی جو جدید معلومات ( Fresh or new data ) کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ قرآن مجید کی ایات پر اس قسم کے جاہلانہ اعتراضات اہل مغرب عام طور پر کیا کرتے ہیں ان کا مقصد مسلمانوں کو ایذا پہنچانا اور ان کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے ۔ ایسی جاہلانہ اعتراضات کرنے کے بجائے ان کے لیے بہتر کہ اللہ کی ذات اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوں تاکہ عذاب برزخ اور اس کے بعد آخرت میں اللہ کے عذاب سے محظوظ رہیں ۔ یہ ان کے حق بہتر ہے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس A Global and Universal Research Institute nadvilaeeque@gmail.com
আলহামদুলিল্লাহ অনেক সুন্দর লেকচার
এবং আমি মহান আল্লাহর কাছে দোয়া করি আল্লাহ পাক যেনো তাকে নেক হায়াত দান করেন আমিন ছুম্মা আমিন
Amin
@@ahmedjonayed3243
.
Dr. Zakir, shara bissher muslimder jonno onek boro ekta neamot-Alhumdulillah
ভারতের বুকে ইসলামের সবচেয়ে উজ্জ্বল প্রদীপ তিনি।
আসাধারন লেকচার শুনতে পেলাম।আমীন।
ইসলামের মিশাল হিসাবে এসেছে ডাঃ জাকির নায়েক
নায়েক ভাই আপনি এগিয়ে জান আমরা আছি আপনার সাথে
অসাধারণ তথ্য প্রমাণসহ উপস্থাপন করেছেন 💙
Jjpjjjjijijij
আল্লাহ পাক যেন ডাঃ জাকির নায়েক সাহেবের ইল্ম ও হায়্যত বাড়িয়ে দিন ।ইনসা আল্লাহ ।
Bachchu Sk ameen
আমিন
Amin
Amin
আল্লাহু আকবার, আল্লাহু আকবার প্রতিধ্বনি পৌঁছে যাক আল্লাহপাকের আরশে আজিমে এবং বিজয় শুরু হোক পৃথিবীর শ্রেষ্ঠ ধর্ম ইসলামের Amin
Amin
জাজাকাল্লাহ খইরান
Alhamdulillah excellent lecture jajak allahu khairan my favourite person most favourite
আল্লাহ জাকির নায়েকের নেক হায়াত বাড়িয়ে দিন
মহান বকতা ড:জাকির নায়েক বতর্মানে ইসলামের এক বিরাট স্তাম্ভ আমরা জাকির ভাই কে সালাম জানাই
I love Dr Zakir Naik
Subhanalla, ato sundor kore kono manusi parena lecture dite bortoman bisse
apni egiye jaan .
I love Dr.jakir naik.
Hii
My favourite person...
Most favourite....
ডাঃ জাকির নায়েককে,জাতীয় সংঘের প্রেসিডেন বানানোর দরকার
ডঃজাকির নায়েকের অবর্তমানেও যেন আমরা উনার লক্ষ ও উদদেশ্য সফল করতে পারি।আমিন
আলহামদুলিল্লাহ (সালাম )
alhamdulillah very good condition lecture.
I like the dr:Zakir naik
hi a very good experience men
I well prayer for him
good luck in life
Md Lutfor Rahman Md Lutfor Rahman za zak allah
May Allah bless Dr, Zakir Nayek he is a great person in Muslim World,
I love him very much for Allah Subhanahu Waa taala.
ডাঃ জাকির নায়েক সাহেব আপনি হলেন দুই দিনের প্রদীপ ।প্রথম দিন হল "দ্বীন " যা হল ইসলামের আলো ।আর দ্বিতীয় দিন হল "দিন" যা সাধারনত চলাফেরার আলো ।আপনার কাছ থেকে দুই দিনের আলো পাওয়া যায় ।আলহামদুলিল্লাহ ।
like
like
Bachchu Sk
@@mdsakhawat7079 5t
@@mdsakhawat7079 y3fķ
ইসলামের জন্যতাকে ভালো বাসি সব সময় কুরান ও হাদিস থেকে আলোচনা করে
subhanallah kub sudor
osadharon! amar onek confusion dur hoyasa
I love you Dr Zakir Naik
Thanks
টির মতো ুুুগতকাল গন্ধ
৷ গগল্প
খুবই সুন্দর লেখচার
Allah bless you. Inshallah you can.I like your advice sir. 👌✌
Alhamdulillah
It's a dolil of Islamic truthfulness
Great man
Ma sha allah
Al Hamdulillah ...
Allah enak onek hayat din.
Ashlamoalaikum.
Allah apnake egulo bolar towfik dan kuruk
he is best man
Mashallah I love Zakir sir
Very nice
আলহামদুলিল্লাহ
We love you zakir naik
মাশাআল্লাহ
Amin
আমি পছন্দ করি তাকে।
i love you dr zakir nayek
nice
মাসাললাহ
Best 💝
Zakir naik God bless you. You are a extraordinary person.Very very SPECIAL. You Are a Gift of God.
Amin,
zakir saheb ko mai sunta hu, hindi me boliye.
amin
Very nice Dr. Jakir nayak
ALHAMDULILLAH.Islam is the ultimate truth
Good
mai sab suna,ye koran me bahut knowledge hai.
bhatta mohit thanks for understand
Good men
Ya Allah long live him
Good lecture
Subhanallah Alhamdulillah la ilaha illallah allahu akbar
I love him
Allah huakbar
Amin.
Nic
Allherhatea
আল্লাহ অদ্বিতীয়, সর্বশক্তিমান এবং একমাত্র উপাস্য। আমাদের প্রতিপালক আল্লাহ সুবহানাহু ওয়া তায়ালা। আল্লাহ ছাড়া কোনো 'সত্য মাবুদ ' / 'সত্য ইলাহ' নেই। আল্লাহ তায়ালা আসমানে 'আরশের ঊর্ধ্বে সমুন্নত। আল্লাহকে জানুন তাঁর সুন্দরতম নাম ও পরিপূর্ণ গুণাবলী দ্বারা। কোরআন আল্লাহর বাণী এবং মানবজাতির জন্য চূড়ান্ত প্রত্যাদেশ।মুমিনদের উপর কুরআনের অধিকার • বিশ্বাস করার মতো বিশ্বাস করা • যেভাবে পড়ার দাবি কোরআন রাখে, সেভাবে পড়া • যেভাবে বোঝা উচিত, সেভাবে বোঝা • এর উপর আমল করা • অপরকে শেখানো, এর প্রচার ও প্রসার করা এবং মুহাম্মাদ সাল্লাল্লাহু আলাইহি ওয়াসাল্লামের সুন্নাহ এবং তাঁর অনুসরণ করা।
Good zas
আস্সালামু আলাইকুম
alamdulla
হাজার চালাম জকির ভাই কে
Subhanallah Alhamdulillah Valo lagglo waz
l sow this man
Dr. Zakir naik god
Dr jakir is not god, he is servant of Allah (god).
ویدھ میں رسول اللہ پیغمبر آخر الزمان کے بارے بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔
ان پیشنگوئیوں کے بارے میں میری سمجھ میں جو بات آئی ہے وہ یہ ہے :
یہ پیشینگوئیاں ایک نبی کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا ہے اور اس نبی کو آللہ جل شانہ نے یہ معلومات وحی کے ذریعہ بتا یا تھا ۔
اگر ایسا نہیں ہے تو آخر کون ایک ایسے نبی کے بارے میں بتا سکتا ہے جو اڑھائی تین ہزار سال بعد آنے والا تھا !!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ نبی کون ہے جس کو اللہ نے وحی کے ذریعہ یہ باتیں بتائی
تھی ۔
سناتن دھرم ایک قدیم مذہب ہے ۔ ہندو اسکالرز
کہتے ہیں کہ ویدھ چار ہزار سال قدیم کتاب ہے
اور یہ آسمانی کتاب ہے ۔
ذہن میں یہ بات آتی کہ سناتن دھرم کے ماننے والوں کی پہلی نسل مسلمان تھی اور ان کا تعلق ان مسلمانوں سے ہو جو نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار تھے ۔ جیساکہ قرآن مجید نے بنی اسرائیل کے بارے میں صراحت
سے بیان کیا ہے :
ذرية من حملنا مع نوح
( بنى إسرائيل : ٢ )
بعد میں نبی علیہ السلام کی تعلیمات اور فرمودات کتابی شکل میں جمع کیے گئے ہوں گے اور ان میں انسانی تشریحات اور اور نبی کے فرمودات کے علاوہ بہت ساری انسانی باتوں کی آمیزش کردی گئی ہو ۔ پھر ان میں مزید اضافے ہوتے رہے یہاں تک کہ اس کی تفسیر مختلف کتابیں لکھی گئیں ہوں ۔
و اللہ اعلم بالصواب
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
nadvilaeeque@gmail.com
Amra ketoggo
Ami. Zakir. Naek, prosongsajanai
معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
جدید سائنس کی روشنی میں
( 4 )
واقعہ معراج اللہ جل شانہ جو اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :
بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o ( البقرة : ١١٧ )
( وہ اللہ کی ذات ) سب آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ ایک امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ۔" ۔
اس آیہ کریمہ کو ہم گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ جل شانہ کا پر عمل timeless ہوتا ہے
واقعہ معراج بھی صفر وقت میں پیش آیا یعنی وہ timeless ہے ۔ یہ اللہ جل شانہ کی
غیر محدود قوت اور قدرت کاملہ کا مظاہرہ تھا جو کسی بھی حدود و قیود سے ماوراء ہے ۔
آیے ہم اسے جدید سائنس اور جدید فلکیات تحقیقات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ
Special Theory of Relativity
قابل ذکر ہے ۔ اس کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے جو Frame of reference کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور دوسرا شخص اگر گہرے خلا میں سفر کر رہا ہے تو اس کا وقت زمین س الگ ہوگا ۔ اس نے وقت ( زمان ) اور خلا ( مکان ) کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان و مکان ( Space and Time) کو مخلوط شکل میں پیش کیا ہے
روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر ایک شخص ایک خلائی جہاز ( Spaceship) میں سوار ہو کر خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ، اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو صفر وقت ( No Time ) میں ہوگا ۔
اس نظریہ سے صفر وقت ( timeless ) کا نظریہ سامنے آیا ۔
سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں براق پر ہوا تھا ۔
یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جنت سے لائی ہوئی ایک نوری سواری تھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی ۔
آئنسٹائن نے جس روشنی کی رفتار کا ذکر کیا ہے وہ ہماری معلوم دنیا کی روشنی ہے ۔ براق کی نوری سواری اپنی کیفیت میں اس روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہین کہ اس نور کی سواری کی سرعت کا تصور آج کی سائنس کرنے سے قاصر ہے ! جہاں وقت کا تصور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے ۔
آئنسٹائن کے نظریہ کے علاوہ سائنسدانوں میں وقت ایک بڑا موضوع بحث بن گیا ۔ اب یہ بحث ہوچکی ہے کہ وقت ایک حقیقت ہے یا ایک بھرم ( Illusion) ہے جس کا حقیقیت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔ کیا وقت اس کائنات کا بنیادی حصہ ہے یا وقت کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔ نیرو سائنس کے مطابق وقت ہوتا ہی نہیں ہے ۔ ہم اسے اپنے دماغ میں بناتے ہیں ۔
نیورو سائنس کے مطابق یہ ایک دماغی شئ ہے ۔ یہ واقعات کے بدلاؤ کے تناظر میں ہمارے ذہن میں ایک نفسیاتی تصور بے جس کا حقیقیت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔
یہ ہمارے دماغ کا کارنامہ ہے ۔ ان کے نزدیک اس کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے ۔ وہ وقت کے دائرے میں بندھے رہنے کو غلط سمجھتے ہیں ۔ یہ ہمارے دماغ میں ایک بایولاجیکل اور سائکلوجیکل اثر کا نتیجہ ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ۔
خلائی سائنسدانون نے وقت کو کائنات کے فزیکل ڈ سکرپشن ( Discription ) سے نکال دیا ہے ۔ کائنات کو وقت کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کائناتی سچائی کی گہرائی میں وقت کا وجود ہی نہیں ہے ۔
ایک جدید نظریہ کوانٹم تھیوری ہے ۔ آئنسٹائن کے نظریہ اضافت جس کا تعلق Celestial Bodies ہے یعنی بڑے اجرام مساوی سے ہے ۔ اس کے مقابکہ میں کوانٹم دنیا غیر مرئی انتہائی چھوٹے ذرات کی دنیا ۔ یہ دنیا اپنی اعلی سطح پر کوانٹم یونیورس ہے جو آئنسٹائن کے لیے ایک معمہ تھی اور اس نے اس کا انکار کردیا ۔
اس دنیا میں وقت کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ جولین بابر کا نظریہ یہ ہے کہ کائنات اپنی گہرائی میں timeless ہے ۔
سائنسی نظریہ کے مطابق کائنات کو وقت کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ وقت کے physical aspects کا پتہ چل بھی سکے گا یا نہیں ، ہمیں اس کا پتہ نہیں ؟!
فلکیاتی سائنسدان ایک سیکنڈ کو کھربوں توڑتے( Friction ) ہیں ۔ وہ اس کو اس سے بھی زیادہ حصوں میں توڑنا چاہتے ہیں لیکن
Equation
اس کی اجازت نکخن دیتا ۔ جب سائنسدان وقت کو اس انتہائی گہرائی سے دیکھتے ہیں
تو اللہ جل شانہ سب آسمانوں اور زمین کے موجد و مبدع ہیں ، ان کے نزدیک وقت کی کیا حقیقت ہوگی ؟!
سچائی کی گہرائی میں وقت کا وجود ہی نہیں ہے ۔ Time is an illusion .
اب اگر یہ کہا جائے کہ واقعہ معراج صفر وقت میں ہوا ہے تو یہ یہ جدید سائنسی نظریات کے خلاف نہیں ہے ۔
لیکن ہم سائنسی نظریات سے قطع نظر اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ اللہ تعالی
" بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o
اس لیے اللہ جل شانہ کا ہر عمل timeless ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
Your Quran has nothing to do with Modern Science.
you want formula from quran??😂here was so many examples of modern science...
Butthurt 😂
Jakir naik
md shohidul
BISMILLAHIR RAHMANER RAHIM AllAH d:Zakir naeik er vipud apud musibut theke hifajute rahon are tar Elam bariey din are Ami juto toko Jani AllAH tomi would er konai kanai diner dawat pusai diven Amin amin amin
jahid
MD Shamim
Sundar Dr Zakir Naik
Doctor jaakir Nayak ke India aana ho
Vaier god
مادى دنیا اور عقل انسانی سے ماوراء
واقعہ معراج
ساتون آسمان اور سدرة المنتہی کے
احوال ومشاہدات
سبحان الذى أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الذى باركنا حوله لنريه من آياتنا إنه هو السميع البصير o
پاک ہے ( وہ ذات ) جو ایک رات اپنے بندے مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی ( بہت المقدس) لے گئی ، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اسے اپنی نشانیاں دکھائے ، بیش وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔
اس آئی کریمہ میں اللہ جل شانہ نے " أسرى بعبده فرمايا ہے اس لیے یہ واقعہ إسراء كہلاتا ہے ۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے ۔ حدیث میں اس واقعہ کے لیے " عرج بی " آیا ہے یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا اس لیے یہ واقعہ کہلایا ۔
احادیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔ علامہ زرقاوی نے ٤٥ صحابہ کا نام بنام ذکر کیا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیا ہے ۔
یہ واقعہ تین مراحل پر مشتمل ہے :
١ -- پہلا مرحلہ مسجد حرام سے لے کر مسجد الأقصى تک
دوسرا مرحلہ مسجد الاقصی سے لے کر ساتوں آسمان اور سدرة المنتہی تک
تیسرا مرحلہ سدرة المنتہی سے آگے تک عالم تجرید ۔ اس سے آگے قاب قوسین او ادناہ تک
گوشہ حقیقت وہ عالم جو لامکان ہے ۔ اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ۔ علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ سفر معراج سدرة المنتہی تک وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپس ہوگئے ۔ اس کے برخلاف علماء کی دوسری جماعت آگے کے سفر کی قائل ہے ۔
سدرہ المنتہی میں عالم مکان ختم ہوگیا ۔ وہان آپ (ص) کے لیے سبز رنگ کا نور کا تخت آگیا اس کا نام رفرف تھا ۔ آپ اس پر سوار ہوکر لامکان کی طرف چلے ۔ یہاں کے احوال و کیفیات ہر شئ سے ماوراء ہے ۔ صوفیاء رحمہم اللہ عجب عجب احوال ، مشاہدات اور کیفیات بیان کرتے ہیں جن کا بیان کرنا یہاں ضروری نہیں ۔
اسراء اور معراج کا واقعہ کب پیش آیا :
معراج کی تاریخ ، دن اور مہینہ میں بہت اختلافات ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے ایک سال یا ذیڑہ سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیش آیا ۔
ابن قتیبہ دینوری( متوفی ٢٦٧ هج) ابن البر ( متو فی ٤٦٣ هج) اور امام مووی نے تحریر کیا ہے کہ واقعہ معراج رجب المرجب کے مہینہ میں ہوا ۔ محدث عبد الغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں تاریخ بھی تحریر کیا ہے ۔ علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے ۔
( زرقانی ص ٣٥٨)
مختصر حالات معراج :
معراج کی رات حضرت جرنیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کے پاس لے گئے ، سینہ مبارک کو چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو نکال کر اسے آب زمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں انڈیل کر چاک کو برابر کردیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرکے بیت المقدس لے گئے ۔
براق انوار کی سواری پرصفر وقت میں
محیر العقول سفر
اس سواری کی برق رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی ۔ یہ سفر جبرئیل علیہ السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں ہوا ۔بیت المقدس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیپم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ(ص) نے تمام انبیاء اور رسالوں کو جو وہاں حاضر تھے ، دو رکعت نماز پڑھائی ۔
( تفسیر روح المعانی ج ٥ ص ١١٢)
یہ امامت انبیاء کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک آسمان پر جانے سے پہلے پیش آیا ۔ سفر معراج سے واپسی پر جب اصل مقصد پورا ہوگیا تو تمام انبیاء علیپم السلام آپ کو رخصت کرنے کے لیے بیت المقدس تک آئے ۔ اس وقت نماز فجر کا وقت ہوگیا تھا ۔ جبرئیل امین کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ۔ اس سے تمام انبیاء علیپم السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیپم السلام کے امام قرار پائے ۔
سورہ اسراء کی اس پہلی آیہ کریمہ میں
اللہ جل شانہ نے خود معراج مصطفی کا ذکر فرمایا ۔ اس اپنی قدرت اور تنزیہ و تقدیس کو بیان فرمایا ۔
پاک و برتر اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے وہ ذات ۔ واقعہ معراج کا بیان کرنا ہے لیکن ابتدا اپنی تقدیس اور تنزیہ سے فرمایا ۔ اس لیے جو واقعہ اس کے بعد بیا کیا جانے والا ہے وہ بڑی اہمیت کی حامل ، محیر العقول اور عظیم الشان ہوگی اور اس کا انکار علم کی کمی اور کم فہمی پر مبنی ہوگی ۔ اس تمہیں کے بعد جو واقعہ بیان کیا جارہا ہے ، وہ اگرچہ آج کے خلائی مطالعات اور تحقیقات کرنے والے سائنسدانوں کی سمجھ میں نہ آئیں تو یہ آج کی ماڈرن سائنس کا نقص ہے اور وہ اتنی ایڈوانس نہیں ہے ۔
لیکن اللہ جل شانہ جو " بدیع السموات و الارض" ہے اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے
اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ اگر اس کے لیے بھی ناممکن ہو تو پھر وہ مبدع کائنات اور ہر چیز کا خالق نہیں رہا ۔ سبحان اللہ عما یصفون ۔
خبردار یہ دعوی مصطفی نے نہیں کیا بلکہ اللہ نے فرمایا کہ یہ دعوی میرا ہے ۔ میرے رسول نے یہ دعوی مہین کیا کہ اس نے خود ییہ سفر کیا ہے بلکہ مین اللہ رب العزت تمہیں باخبر کر رہا ہوں کہ یہ سفر معراج اپنے برگزیدہ بندہ اور رسول کو میں نے کرایا ہے ۔
اے مشرکین مکہ اگر انکار کرنا ہے تو میری بات کا انکار کرو ۔ مجھ سے پوچھو کہ میں معراج کراسکتا ہوں یا نہیں! اس واقعی معراج کا انکار کیے جانے اور زبان اعتراضات کھل نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرمادیا
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
Amar pio bokta doctor jakir nayak
Manusher beshi nam karte nai, namkarko Allah, & rosul er
مسلمانوں کا سنہری دور (Golden Age) نزول قرآن سے شروع ہوا ۔ پہلی پانچ آيات کریمہ جو نازل کی گئیں وہ یہ ہیں :
عباسی دور حکومت مسلمانوں کی تاریخ کا سنہری دور نہیں ہے ۔ یہ بالکل غلط اور گمراہ کن بات ہے ۔
إقرأ باسم ربك الذى خلق o خلق الإنسان من علق o إقرأ و ربك الأكرم o الذى علم بالقلم o
علم الإنسان ما لم يعلم o
( العلق : ١-- ٥)
پڑھو ( اے نبی) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۔ انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ۔ پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۔
جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا ۔ انسان کو وہ علم دیا جس کو وہ نہ جانتا تھا ۔
پہلی اور دوسری آیات میں کہا گیا ہے کہ " پڑھیے " چوتھی اور پانچویں آیات میں
تین بار لفظ " علم " آیا ہے ۔
انگریزی زبان میں علم کا معنی ہے سائنس ( Science) . نزول قرآن مجید سے وہ دور
شروع ہوا جو Era of Science کہلاتا ہے ۔
پہلی آیہ کریمہ میں اللہ جل شانہ نے " خلق " (Creation) پیدا کرنے کا ذکر کیا ہے ۔ اس پہلی آیہ میں اللہ نے ارتقا (Evolution) کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔ اس کا واضح مطلب یہ کہ اللہ جل شانہ نے پیدا کیا ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا ۔ عام لفظ خلق کا استعمال کیا جس کا مطلب ہے :
" اس رب کے نام کے ساتھ پڑھو جس نے اس کائنات اور اس کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے ۔
دوسری جگہ اللہ نے إرشاد فرمایا :
" اللہ خالق کل شئ "
اللہ ہر چیز کا خالق ہے ۔
" اپنے رب کے نام کے ساتھ پڑھو " اس کا مطلب یہ ہے کہ نظام تعلیم و تربیت لادینی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی ابتدا اللہ کے نام کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی نظام تعلیم و تربیت کی اساس الہی اور قرآنی ہونی چاہیے ۔
یہاں میں نے کئی بنیادی باتوں کی تشریح کردی ہے ۔ نظریہ ارتقا نظام تعلیم و تربیت کو اللہ جل شانہ کی ذات بابرکات سے جدا کرکے قدرتی اور طبعی نظام ارتقا کی طرف کردیتا ہے اور اس مین کہیں بھی اللہ رب العزت کا ذکر نہیں کرتا جو کفر ہے ۔
عباسی دور حکومت میں یونانی فکر و فلسفہ
کو عربی زبان میں منتقل کیا گیا ۔ اس بارے میں ابن خلدون نے لکھا ہے :
" اس طرح ملت میں ان علوم اور ان کے علمبرداروں کے ذریعہ بہت سی قابل اعتراض باتیں داخل ہوگئیں اور ان کی طرف مائل ہوکر لوگ خواہشات میں پڑگئے اور ان نظریات کی تقلید کرنے لگے اور اس معاملہ میں گناہ اسی پر ہے جو اس کا مرتکب ہوا " ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ نے اس پر اس طرح گرفت کی ہے :
" میں گمان نہیں کرتا کہ اللہ تعالی مامون سے درگزر فرمائے گا اور یہ لازمی ہے کہ وہ ان باتوں پر اللہ کا سامنا کرے جو اس نے امت علوم فلسفہ داخل کرکے اس کے حق میں کانٹے بوئے ہیں اور جواب دہ ہو "۔
امہ مسلمہ کو یونانی فلسفہ اور افکار و نظریات نے بہت نقصان پہنچایا ۔ یہ ڈر حقیقت امہ کے خلاف فکری یلغار تھی جس کے منفی اثرات مسلمانون کے نظام تعلیم و تربیت میں آج تک پائے جاتے ہیں ۔ یہ بہت اہم موضوع ہے
جسے علماۓ اسلام ہی گہرائی سے سمجھ سکتے ہیں ۔
اللہ جل شانہ ہم مسلمانوں کو اور ہمارے نظام تعلیم و تربیت کو لادینی نظریہ ارتقا اور اس کے کفر صریح سے بچائے اور ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
ڈائرکٹر
آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
حتى إذا بلغ مغرب الشمس وجدها تغرب فى عين حمئة ... ( الكهف : ٨٦)
یہاں تک کہ جب غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو آفتاب ان کو ایک سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔
یعنی وہاں ایسا تھا کہ آفتاب ان کو سیاہ رنگ کے پانی میں غروب ہوتا ہوا دکھائی دیا ۔
قرآن مجید کی اس آئی کریمہ پر یہ جاہلانہ اعتراض عام طور پر مشرق و مغرب اسلام مخالفین کرتے ہیں ۔
یہان قرآن نے یہ نہیں بیان کیا ہے کہ سورج غروب ہورہا ہے ایسا سمجھنا نری جہالت کے سوا کچھ نہیں ! یہاں قرآن کی تعبیر حقیقت نفس الأمری کے طور پر نہیں بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ ایک ادبی طرز تعبیر ہے کوئی حقیقت نہیں ۔ اس کو عربی زبان و ادب کو جاننے والے ہی سمجھ سکتے ہیں ۔
امام رازی اور اکثر محققین کے نزدیک "مغرب الشمس" کے یہ معنی نہیں کہ آفتاب غروب ہونے کی زمین پر کوئی جگہ ہے اور وہاں سیاہ دار گدلا پانی ہے ۔ یہ حماقت اور انتہائی جہالت کی بات ہے کیوں کہ ایسی کوئی جگہ ہئ ہی نہیں ۔ مغرب اور مشرق اضافی ٹرم ہیں ۔ آفتاب غروب ہوتا ہی نہیں ہے زمین گول ہے ۔ آفتاب کی حرکت اور زمین کا دور طلوع اور غروب دکھاتا ہے ۔ یہ عرف عام کی تعبیر کے اعتبار سے ہے جیسے کہا جاتا تھا کہ سلطنت برطانیہ اتنی وسیع ہے کہ اس میں آفتاب کا طلوع و غروب ہوتا ہے ۔
ذو القرنین مغرب کی جانب بیت دور تک پہنچا جہاں زمین کی جغرافی حالت ایسی تھی کہ آفتاب اس کو پانی میں ڈوبا ہوا دکھائی دیا
جن لوگوں نے جہاز پر سفر کیا ہے اور ان کے غربی جانب سمندر پڑتا ہے وہ ایسے منظر کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ چونکہ واقع میں سورج کسی ایسی جگہ غروب نہیں ہوتا اس لیے " وجدھا " فرمایا گیا یہ ذوالقرنین کے حوالے سے کہا گیا ہے نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے ۔
قرآن مجید خالق کائنات کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے اور اس کائنات کی حقیقت کو اس سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے ۔
اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے :
ألا يعلم من خلق و هو الطيف الخبير
( الملك : ١٤ )
كيا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے اور وہ باریک بین اور بڑا با خبر ہے ۔
جب اللہ کی ذات ہی نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے تو کیا وجہ ہے وہ اس کی حقیقت سے واقف نہ ہو اور مغرب کی سمت جہاں تک ذوالقرنین گئے تھے ہوا زمین کی جغرافی حالت کیا تھی
وہ اس سے اچھی طرح باخبر تھے ۔ اس لیے اللہ نے یہ نہیں کہا کہ وہاں سورج غروب ہورہا تھا بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ ذو القرنین کو ایسا دکھائی دیا ۔ یہ صاف بتارہا ہے کہ وہاں جغرافی طور پر زمین کی یہ حالت تھی اس لیے اس کی نسبت ان کی طرف کی گئی ۔
آج کی سائنس اتنی ترقی یافتہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے قرآن مجید میں بیان کردہ حقائق کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جائے یا ان کا انکار کردیا جائے ۔ یہ کتاب حقائق( Book of facts) ہے نہ کہ سائنسی نظریات کی جو جدید معلومات ( Fresh or new data ) کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔
قرآن مجید کی ایات پر اس قسم کے جاہلانہ اعتراضات اہل مغرب عام طور پر کیا کرتے ہیں
ان کا مقصد مسلمانوں کو ایذا پہنچانا اور ان کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے ۔ ایسی جاہلانہ اعتراضات کرنے کے بجائے ان کے لیے بہتر کہ اللہ کی ذات اور آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوں تاکہ عذاب برزخ اور اس کے بعد آخرت میں اللہ کے عذاب سے محظوظ رہیں ۔ یہ ان کے حق بہتر ہے ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
ڈائرکٹر آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
A Global and Universal Research Institute
nadvilaeeque@gmail.com
Edr
video is very bat
🤣
I love you Dr Zakir Naik
Alhamdulillah
Masha Allah
Amin
Great man
Very nice
হাজার চালাম জকির ভাই কে
Nice
nice