الله تعالى ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس ميں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان عظيم شخصيت كي طرح همارے ملک میں علماء كرام پیدا فرمائیں امين ثم امين يارب العالمين
اللّٰه ان کے درجات بلند فرمائے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔۔ آمین دنیا کے مسلمانوں میں عظیم ترین حستی اور علم و ایمان کا سچا نور تھے ہم نامی مسلمانوں کے لیے بہت قیمتی سرمایہ تھے 😢
I was a child when I would see him on TV, due to his appearance resembling typical Mullahs in our country, I just didn't listen to him and would change the channel whenever he appeared on it, but I am ashamed now, what a great scholar! I wish I had started listening to him when he was still among us. Allah apko buland tareen darjaat ataa farmaye.
ہم نے بہت ساری ہدایت دی ہیں اور آیت بھی نازل کی ہے یہ علمائے دین اور عالمی دین ہر ہدایت کو ہر دلیل کو جھٹلاتے ہیں اب ہمارے عذاب کا مزہ چکنا ہوگا اسی دنیا میں ڈوبو گے کفن بھی نصیب نہیں ہوگی اللہ تعالی کا پیمبر بد دعا کرتا ہوں
اللہ ان عالموں پر رحم فرمائے۔ اور ان لوگوں کو سچ بولنے کی طوفیق عطا فرمائے۔ اتنے بڑے اور پائے کے عالم ہونے کے باوجود قوم سدر نہ سکی۔ کیونکہ ان طرح کے لوگوں نے اسلام کی تعلیمات کو بدل کر رکھ دیا۔ " بہت سا چھوٹ شامل کر دیا ۔" آج قوم کی حالت کیا ہے۔ دنیا کی تمام برائیاں اس قوم میں ہیں۔ ان لوگوں کی تبلیغ میں کوئی نہ کوئی کمی ہے جو کہ قوم بدل نہ سکی۔
Dunya bhar k tamam musalmanu ko hamarintarafvsay Ramadan kareem bahut bahut mubarak. Allah say dua he k wo is ramadhan ki barkat say ham say raazi ho jay. Duaun main yaaf rakhyay
Jab Esa AS key Zinda Jism key saath Aasman per janey ki koi ayat aur daleel Quraan mei nahi, shahih ahadees mei bhi nahi tou iss batil aqeedey ka parchaar kiyon kiya ja raha hai, aap loug ingeel mantey ho ya Quraan, ingeel bhi woh jisko Esai bhi authentic nahi maan rahey, uss ko bunyaad bana ker Dr. Israr sahib yeh stories bana ker batil aqeedey ki taveel ker rahey hain, Daleel Quraan ki ayaat sey ley ker aao.... ingeel aur unki stories ko Esai Christians key liye chorr do, Quran ki baat karo agar musalman ho.....? Yahudi numaa molvi aur ulmaa ummat e muslimaa mei moujood hain, aur Islam mei apni marzi key aqeedey dakhil kerney mei magan hain, aur saath mei yahudiyoon ki tareekh bhi biyaan kertey hain, magar sabaq hasil ker key sudhrtey nahi, balkeh khud bhi gumrah hain aur awaam ko bhi gumrah kertey hai.
جماعت احمدیہ کا عقیدہ فیضان ختم نبوت اور سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا حیرت انگیز اعتراف حق مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳ء وفات۱۸۸۰ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔ ذیل میں اس مجموعہ تقاریر کے چند اقتباسات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں جن سے جماعت احمدیہ کے نظریہ فیضان ختم نبوت کی تائید ہوتی ہے ۔ امتی نبی اور خاتَم النّبیین کے عکس کامل کے ظہور کی ضرورت اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا آنحضرت ﷺ کے بعد کسی امتی نبی اور آپ کے عکس کامل کی ضرورت ہے یانہیں۔ سواس کا جواب جناب قاری محمد طیب صاحب نے درج ذیل الفاظ میں دیاہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’ اگر خاتَم النّبیّین کے دور ۔۔۔میں ہمہ گیر کمالات کا ظہور ایک امر طبعی تھا تو اسی کے دور ۔۔۔ میں ان کمالات کی اضداد اور ہمہ انواع فسادات کا شیوع بھی ایک امر طبعی تھا اوراس لئے خاتم الدجالین کوبھی جو خاتم فسادات ہے خاتَم النٖبیّین ہی کے دور۔۔۔ میں خروج کرنا چاہئے تھا کہ اس کے عمیق دجل و فساد کا مقابلہ محض نبوت کی طاقت نہ کر سکتی جب تک کہ اس کے ساتھ خاتمیت کی بے پناہ قوت نہ ہو۔ نیز خاتم کمالات کی پوری پوری عظمت و شان اور روحانی قوت بھی اس وقت تک نہ کھل سکتی تھی جب تک کہ اس کے کمالات کی اضداد یعنی سارے ہی شر و فسادات اپنے پورے کروفر کے ساتھ اپنی آخری شخصیت خاتم الدجالین کے ہاتھ پر ظاہر ہو کر بری طرح شکست نہ کھا جائیں۔ ہاں مگر مقابلہ کی اگر یہ صورت ہوتی کہ دجال اعظم کو حضور کے زمانہ خیر میں ظاہر کرکے شکست دلا دی جاتی تو ظاہر ہے کہ فتح وشکست کا یہ مظاہرہ ناقص رہ جاتا کیونکہ نہ فسادات دجال ہی سب کے سب بتدریج نمایاں ہوسکتے او ر نہ کمالات نبوی ہی سب کے سب کھل کر انہیں شکست دے سکتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ خیرکے ہر ہر پہلو کی طاقت اور شر کے ہر ہر پہلو کی کمزوری کھلے بغیر ہی مقابلہ ختم ہو جاتا اور دنیا آخرت کے کنارے جا لگتی۔ حالانکہ خاتمیت سے مقصود تکمیل ہوتی ہے اور اسی لئے خاتم کو سب سے آخر میں لایا جاتاہے مگراس صورت میں کسی پہلو کی بھی تکمیل نہ ہوتی اور خاتموں کا آنا عبث ہو جاتا ۔ اس لئے دجال اعظم کوبھی قیامت تک موقعہ دیاگیا کہ وہ ہر ہر پہلو سے چھپ کر اورکھل کر فساد پھیلائے ۔ بواسطہ اور بلا واسطہ اپنی دجالیت سے دنیا میں تلبیس حق بالباطل کاجال پھیلائے تاکہ ایک دفعہ یہ ساری سے شرور اوراپنی سطحی چمک دمک کے ساتھ ظاہر ہو جائیں اور اپنا فروغ دکھلا کربے وزن قلوب کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔ اور ہر ختم نبوت کی طاقت کو بھی قیامت تک باقی رکھ کر موقعہ دیا گیا کہ وہ اپنی مخفی طاقتوں سے دجالی کرّ وفرّ کے پرخچے اڑاتی رہے۔ اگر یہ دجل و فساد علوم نبوی میں فتنۂ شہوات کھڑا کرے تو صبر و تحمل کے نبوی اخلاق سے اسے پسپا کر دے ۔ اگر تمدنی لائن میں فتنے برپا کرے تو سیاستِ نبوت آڑے آ کر انہیں ختم کردے ۔غرض جس رنگ میں بھی دجل وفساد ظاہر ہو اسی رنگ میں کمالاتِ نبوت اس کو دفع کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ فساد کی استعداد کامل ہو کر گویادجال اعظم کے ظہور کا تقاضا کرنے لگے اور ادھر صلاح و کما ل کی قابلیت بھی اپنادورہ مکمل کر کے اس کی کھلی شکست کی طلبگار ہو جائے تاآنکہ ختم نبوت اس خاتم دجّالین کو شکست دے کر ہمیشہ کے لئے دجل کا خاتمہ کردے۔ پس جبکہ خروج دجال زمانہ نبوی میں مناسب نہ ٹھہرابلکہ خاتمہ دنیا پرمناسب ہواتو پھر اب اس کے مقابلہ کی ایک صورت تویہ تھی کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو خروج دجال کے وقت قبر مبارک سے تکلیف دی جاتی کہ آپ بنفس نفیس اس کے مفاسد کو مٹا ئیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ صورت شان اقدس سے فروتر تھی۔ اورآپ اس سے اعزواکرم تھے کہ آپ پر دوموتیں طاری کی جائیں یاایک دفعہ قبر مبارک سے نکال کر پھر دوبارہ قبر دکھلائی جائے ۔
آنحضرت ؐ کمالات نبوت کے خاتم بھی ہیں اور فاتح بھی جناب قاری صاحب نے تحریر فرمایا: ’’سیرت کے ایک معنی ہیں کہ حضور ؐ کے فضائل، مناقب، بزرگیاں ، کمالات اور خصوصیات بیان کئے جاویں تا کہ ایمانوں میں تازگی پیدا ہو اور امت کو تسلی ہو کہ اللہ نے ہمیں ایسا پیغمبر عطا فرمایا کہ جو دنیا میں بے مثل ہے اور انبیاء میں بھی ان کی نظیر نہیں ۔ وہ افضل الانبیاء ہیں ۔ سیدالمرسلین ہیں۔ اس لئے ختم نبوت کا لفظ کافی ہے ۔ آپ ؐ فقط نبی ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم الانبیاء ہیں ۔ تو خاتم کے لفظ میں سارے فضائل چھپے ہوئے ہیں اس لئے کہ خاتم اس کو کہتے ہیں جو منتہٰی ہو سارے کمالات کا کہ اگلے پچھلے جتنے بھی کمالات ہیں نبوت کے سب ایک ذا ت میں لا کر جمع کر دئے گئے ہیں اور انتہاء ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمالات نبوت علمی ہوں یا عملی اپنے انتہائی عروج کے ساتھ آپ کی ذات مقدس میں جمع کر دئے گئے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر یہی نہیں کہ آپ صرف امت کے نبی ہوں بلکہ آپ نبیوں کے بھی نبی ہیں اسی لئے آپ نے ایک حدیث میں بھی فرمایا اَنَا نَبِیُّ الاَنْبِیَاءِ کہ میں فقط امتوں کا ہی نبی نہیں ہوں بلکہ نبیوں کا بھی نبی ہوں کیونکہ قرآن کریم میں انبیاء سے بھی آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے ۔فرمایا( وَاِذْاَخَذَ اللّٰہ مِیْثَاقَ النبِیّینَ لَما اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ و حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤمِنُنّ بِہ وَلَتَنْصُرُنّہٗ ۔قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اصْرِی قَالُوااَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّاہِدِیْنَ) ۔ تمام انبیاء سے عالم ازل میں حق تعالیٰ نے عہد لیا کہ جب میں رسول آخرالزمان کو دنیا میں بھیجوں اس وقت اگر تم خود موجود ہو تو تم ان پر ایمان لاؤ ورنہ تم اپنی امتوں کو ہدایت کرو کہ وہ ایمان لائیں۔ اور اب ایمان لاؤ تو سارے انبیاء نے ایما ن قبول کیا اور ایمان لانے کا جسے مکلف کیاجائے وہی امتی ہوتاہے تو جب نبیوں پر بھی فرض کیا گیا کہ وہ ایمان لاویں گے تو گویا آپ پرایمان لانا بحیثیت امت کے ہوا، اسی لئے آپ ؐ نے فرمایا اَنَا نَبِیّ الاَنْبِیَائِ میں نبیوں کا بھی نبی ہوں۔یہ خاتم کے معنی ہیں جو خاتم النبیین میں ہے۔ یعنی تمام کمالات نبوت آ پ پر ختم ہیں۔ اور یہ ایک اصول کی بات ہے کہ جو وصف کسی چیز پر ختم ہوتاہے وہیں سے شروع بھی ہوتاہے ۔ اگر وہاں ختم نہ ہو تو شروع بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر یوں سمجھئے کہ جیسے بجلی کے قمقمے پورے شہر میں روشن ہیں یہ سب ختم کہاں ہوتے ہیں؟ پاور ہاؤس پرجا کر ختم ہوتے ہیں، تو پاور ہاؤس کو ہی خاتم البروق کہیں گے کہ ا س پرساری بجلیوں کی انتہاء ہے یعنی وہ بجلیوں کا منتہا ہے ۔مگر وہ مبداء بھی تو ہے وہاں اگر بجلیاں نہ ہوں تو قمقموں میں کہاں سے آئیں گی۔ تو جہاں ختم ہوتی ہے چیز وہیں سے شروع بھی ہوتی ہے ۔ تو پاور ہاؤس پر اگر اختتام ہے بجلیوں کا تووہیں سے افتتاح بھی ہے۔ لاکھوں نل آپ کے گھروں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ا ن میں پانی آ رہاہے ۔ ان سب پانیوں کی انتہاء واٹرورکس پرہوتی ہے، سارے پانی وہیں جاکر ختم ہوجاتے ہیں تو وہ خاتم المیاہ کہلائے گا اور وہی فاتح المیاہ بھی کہلائے گا کیونکہ وہیں سے پانی شروع بھی ہوتاہے۔ اگروہاں پانی نہ ہو تو نلوں میں کہاں سے آئے گا اورکیسے آئے گا جیسے آپ یوں کہیں کہ آدم علیہ السلام سب کے باپ ہیں اور وہ خاتم الآباء ہیں یعنی باپ ہونا ان پر ختم ہے ان سے آگے کوئی باپ ہی نہیں۔ وہی آخری باپ ہیں۔ اسلئے وہ خاتم الآباء ہیں تو فاتح الآباء بھی تو وہی ہیں۔ وہ اگر باپ نہ بنتے تو ہم اور آپ کیسے ہوتے، بجلیاں جہاں ختم ہوئیں وہیں سے شروع بھی ہوئیں ، پانیوں کی انتہاء جہاں سے ہوئی ابتداء بھی وہیں سے ہوئی ۔ آپ یوں کہتے ہیں کہ ہم سب موجود ہیں۔ سب میں وجود ہے اور سب کے وجود کی انتہاء ذات حق پر ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ خاتم الوجود ہیں۔ آگے پھر وجود کاکوئی سلسلہ نہیں ہے تو وہی فاتح الوجود بھی ہیں ۔ وہیں سے وجودکا سلسلہ چلاہے ہم موجود ہیں ۔ وہاں وجود نہ ہو تو ہم اورآپ کیسے موجود ہونگے۔ تو جو وصف جس ذات پر ختم ہوتاہے اسی ذات سے شروع بھی ہوتاہے ۔ تو جب نبوت کے سارے کمالات آپ ؐ پر ختم ہو گئے ہیں اور آپؐ خاتم الکمالات ہیں تو فاتح الکمالات بھی تو آپ ؐہی ہیں۔ وہاں سے کمالات نہ چلتے تو انبیاء کوکیسے ملتے ،اولیاء کو کیسے ملتے تو اسلئے آپ ؐ فاتح بھی ہیں اور خاتَم بھی ہیں اسی لئے ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا ’’اَنَا اَوَّلھُم خَلْقًا وَ آخِرُھُم ‘‘۔(صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۲)
ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔ حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کل مؤمن صدیق و شہید‘‘ (الدر المنثور الجزء ۶ صفحہ ۱۷۶)۔ کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔ پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔ ۹۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آ سکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔ ۱۰۔ ہم کہتے ہیں کہ نئی شریعت کی انتظار عبث ہے کیونکہ شریعت اسلام کامل ہے ۔ اس میں کسی قسم کی کمی اور نقص نہیں ہے ۔ فرمایا : ’’الیوم اکملت لیکم دینکم ‘‘ ( سورہ المائدہ آیت ۴) کہ ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔ اس کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ وہ وعدہ پورا ہو رہا ہے ۔ فرمایا : ’’ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون‘‘ (سور ہ الحجر آیت ۹) کہ ہم اس کے محافظ ہیں۔ لیکن ایسی کامل اور محفوظ شریعت کی موجودگی میں بھی نبی کا وجود انسان کے لئے وقتا فوقتا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قدرت کے نشان دکھائے جن سے دلوں میں نئی زندگی اور تازہ ایمان پیدا ہو۔ تعلیم الٰہی کو وضاحت سے بیان کرے اور ہر موقع پر راہنمائی فرمائے۔ جو اختلاف پیدا ہوں ان کا فیصلہ کرے اور اتحاد و اتفاق کی روح پھونکے۔ پاک اور نیک نمونہ پیش کر کے لوگوں کو بھی پاکباز اور متقی بنائے۔ غفلت اور سستی جو قوم میں پائی جاتی ہو دور کرے۔ چونکہ وہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے وہ اپنی دعاؤں کی برکت سے انہیں روحانی و ظاہری ترقی کے راستہ پر گامزن کرے اور کامیاب بنائے۔ آئیے غور کریں کہ کلیۃً نبوت کا دروازہ کیسے بند ہو سکتا ہے۔
پھر ایک شکل یہ تھی کہ حضور کوخروج دجال تک دنیا ہی میں مقیم رکھا جاتالیکن اس صورت کا شان اقدس کے لئے نازیبا ہوناپہلی صورت سے بھی زیادہ واضح ہے۔ کیونکہ اول تو اس صورت میں حضور ؐکی بعثت کاآخری اور اصلی مقصد محض مدافعت دجال ٹھہرجاتا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔دوسرے دجا ل کی اہمیت اس قدر بڑھ جاتی کہ گویااسی کے خوف کی خاطر حضور کو دنیا میں صدیوں ٹھہرایا جا رہا ہے۔ نیز امت کے کمالات بھی اس صورت میں پردۂ اخفا میں رہ جاتے ۔ کیونکہ آفتاب نبوت کی موجودگی میں کس ستارہ کی مجال تھی کہ اپنا نور نمایاں کر سکے۔ اس طرح تمام طبقات امت کے جو ہر چھپے رہ جاتے۔ اور گویا عُلَمَائُ اُمّتی کاَنْبِیَائِ بَنِی اِسْرَائِیْل کا ظہور ہی نہ ہو سکتا۔ اوراس سب کے علاوہ یہ صورت خود اصل موضوع ہی کے خلاف پڑتی ۔ یعنی دجال کا خروج ہی ناممکن ہو جاتا جس کے لئے مدافعت کی یہ صورتیں درکار تھیں۔ کیونکہ دجا ل اوراس کے مفاسد کا زور پکڑنا تو حضور ہی کے زمانہ سے بعد ہو جانے کے سبب سے ہو سکتا تھا ۔ اورجبکہ آپ خود ہی قیامت تک دنیا میں تشریف رکھتے تواس کے یہ معنی تھے کہ عالم میں کوئی فتنہ ہی نہ پھیلتا کہ قلوب میں شر کی استعداد بڑھے اورخروج دجال کی نوبت آئے۔ پس اس صورت میں خروج دجال ہی ممکن نہیں رہتاچہ جائیکہ اس کی مدافعت کی کوئی صورت فرض کی جائے۔ بہرحال اس صورت میں نہ امت کے کمالات کھلتے نہ ختم نبوت کی بے پناہ طاقت واضح ہوتی جس سے یہ واضح ہو سکتا کہ ذات بابرکات خاتم مطلق کی سب سے اکمل روحانیت اور بے انتہاء مکمل انسانیت جس طرح اگلوں کوفیض روحانیت پہنچارہی تھی اسی طر ح وہ پچھلوں میں تکمیل کمالات کا کام کر رہی ہے اور وہ ان محدود روحانیتوں کی مانند نہیں ہے جو دنیا میں آئیں اور گزر گئیں اورامتوں میں ان کا کوئی نقش قدم باقی نہ رہا۔ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتَم النّبیّین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور ؐ کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب ،نہ صدیوں باقی رکھاجانا شایان شان ، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم کرا دیا جانا مصلحت اور ادھر اس ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت توکیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی۔ عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآ نہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے ۔ بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دجال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتَم النبیّین کی غیرمعمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتَم النبیّین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کامقابلہ بعینہ خاتَم النبیّین کامقابلہ ہو۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو۔ محض مرتبۂ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجہ ٔ نبوت کی بھی برداشت کر سکے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے ۔ نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جوفی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو ۔تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کاعکس اس میں اترسکے۔ اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے ۔ اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حدتک خاتمیت کی شان رکھتاہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایاجائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبۂ تشریع لئے ہوئے نہ ہو۔ بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے‘‘۔(’’تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام‘‘ صفحہ ۲۲۶ تا ۲۲۹۔ ناشر نفیس اکیڈیمی کراچی ۔اشاعت مئی ۱۹۸۶ء) ایک غلطی کی اصلاح ۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے قلم سے بالآخر یہ وضاحت کرنا از بس ضروری ہے کہ جہاں قاری محمد طیب صاحب نیخاتَم النّبیّین کے عکس کامل اور امتی نبی کے ظہور کو بیان کرکے کھلے لفظوں میں احمدی علم کلام پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے وہاں یہ خوفناک غلطی بھی کی ہے کہ وہ امتی نبی سے مراد اسرائیلی مسیح قرار دیتے ہیں حالانکہ انہیں منصب نبوت آنحضرت ﷺ کے ظہور قدسی سے قبل عطا کیا گیا تھا اور امتی نبی کی تعریف یہ ہے کہ وہ ہر فیض نبیٔ متبوع سے حاصل کرتاہے ۔ دوسرے ان کے دادا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’تحذیرالناس‘‘ میں خاتَم النّبیّینکے معنی ہی نبیوں کے باپ کے لئے ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے مبارک الفا ظ کا متن یہ ہے کہ : ’’حاصل مطلب آیہ کریمہ اس صورت میں یہ ہوگاکہ ابوّت معروفہ تو رسو ل اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّۃ معنوی اقسیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اورانبیاء کی نسبت بھی ۔انبیاء کی نسبت تو فقط خاتَم النبیّین شاہد ہے‘‘۔(تحذیر الناس صفحہ ۱۳ ناشر دارالاشاعت کراچی نمبر ۱) اسی عارفانہ تفسیرکے پیش نظر آگے چل کر ڈنکے کی چوٹ آپ نے یہ اعلان بھی کردیاہے کہ: ’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘۔(صفحہ ۳۴) اور اس دعویٰ کی دلیل یہ دی ہے کہ : ’’جونبی آپؐ کے ہم عصر ہوگاوہ متبع شریعت محمدیہ کاہوگا‘‘۔ (صفحہ ۵۱) اللھم صل علی محمد وآل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید
اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔ اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید
اللہ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کر دیں، علم کا دریا جو بہتہ رہا ہے آج بھی لوگ اس دریا سے سیراب ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماہیں
MASHA-ALLAH! WE ALL LOVE U SO SO MUCH. DR ISRAR AHMAD RAHMATULLAH LAI. ALLAH PAAK APKE OR HAMARE WALIDAIN OR USTADON OR SABKE DARJAAT BOHOT BOHOT BULAND FARMAIN. AAMEEN!
Mashallah no words are enough for Dr Israr Ahmed late . I am thankful toAllah Subhan wa Talah to make me Muslim Dr Sahib is always remains a Great guide for me Alhumdulillah and Jazak Allah for all who are sharing his video and audio Islamic lectures for our guidance.
DR.ISRAR SAHIB was very Greatest Scholar 🌹🌹🌹He Taught Us Very great knowledge of ISLAM 🌹🌹🌹May Allah Granted to him keep his Soul very upper portion of JUNNAH🌹🌹🌹
میں نے یوٹیوب پر اپ کا ہی اسلامک چینل دیکھا ہے، جس نے بیک گراؤنڈ میوزک ایڈ نہیں کیا ہوا، ماشاءالله انتہائی خوش آئند عمل ہے ۔۔۔ خدا تعالیٰ آپ کو اجر دے آمین ۔۔۔
شاباش بہت اچھا کام کیا ۔۔کیسے ہوشیاری سے ان کے مذہب کا کچا چھٹا ادھر ادھر سے پتہ کر لیا کہ ان قادیانیوں کو اسلام سے کتنی دشمنی ہے۔۔منہ سے تو کلمہ پڑہتے ہیں ۔ لا الہ الا اللہ محمد آل رسول اللہ ۔۔اور نمازیں اور روزے اور پردہ اور قرآن ۔۔پر ہم کیوں مانیں ؟؟ جب تک ان کے دل چیر کے نہ دیکھ لیں ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ وہ سچ بول رہے ہیں ۔۔منہ سے وہ جو بھی کہیں ہم تو ان لوگوں کی ویڈیوز پر اعتبار کریں گے جو ان کے مخالف ہیں ۔۔کبھی قادیانیوں کی بات پر یقین نہ کرنا۔۔نہ کبھی خود ان کی ویب سائیٹ پہ جا کر ان کی کتابیں دیکھنا ۔۔ایسے ہی کہیں دل پر اثر ہو گیا تو دین وین نہ ہاتھ سے جاتا رہے۔۔ قادیانی مسلمان تھوڑی نا ہیں ۔۔محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے وقت میں ہوتا تھا کہ ہر کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے۔۔اب تو وہ مسلمان ہوتا ہے جو جن کو یہ مولوی مسلمان کہیں یا پھر وہ مسلمان ہے جو قادیانیوں کے نبی کو گالی دے۔ ۔ بے شک وہ کہیں کہ ہم محمد کے دین پر ایمان لاتے ہیں اور درود پڑ ہیں ۔۔ہم مسلمان ان کی زبانیں نہ کاٹ دیں ؟؟؟ ہاں وہ اپنے آپ کو غیر مسلم کہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں پھر ٹھیک ہے ۔۔(یعنی جب تک وہ ہمارے نبی پاک کی تکذیب نہیں کرتے ہم چین سے نہ بیٹھیں گے۔؟؟؟ ) جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو عیسی دو ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا وہ ہی آئے گا امت محمدیہ کا مسیح بن کے تو ان قادیانیوں کی جرات کیسے ہوئی کہ ایک گندمی رنگ کے سیدھے کالے بالوں والے شخص کو مسیح موعود اور امام مہدی مان لیں ؟؟ بے شک بخاری شریف کے باب نزول عیسی مسیح میں لکھا ہے کہ مسیح ناصری کو جب نبی پاک نے معراج کی رات باقی فوت شدہ نبیوں کے ساتھ دوسرے آسمان پر دیکھا تو وہ سرخ رنگ کے اور گھنگریالے بالوں والے تھے اور چند صفحوں بعد مسیح محمدی یا مسیح دجال آپ صلی اللہ وسلم کو دکھایا گیا تو وہ گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والا تھا۔۔۔چھو ڑو چھوڑو ۔۔مت سوچو کہ اس امت محمدیہ کے مسیح کا حلیہ مسیح ناصری سے الگ آپ صلی اللہ وسلم نے کیوں بتایا؟؟ عیسی ہی مسیح ہیں اور دو ہزار سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور آپ نے ہی نازل ہونا ہے ۔۔قادیانیوں کا تو دماغ خراب ہے ۔۔سب مسلمان ان ہی کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔بے شک ان کے آنے کا وقت تیرہویں صدی ہجری تھا ،بے شک وہ صرف سو سوا سو سال لیٹ ہیں ،بے شک مرزا صاحب قادیان کا دعوی عین وقت پر ہوا اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالی نے امام مہدی کی سچائی کی نشانی کے طور پر رمضان میں سورج اور چاند گرہن بھی 1894 میں لگا دیا ، اور اس وقت کوئی اور مدعی بھی مرزا صاحب کے سوا نہیں تھا پر ہم نہیں مانتے ۔۔۔قادیانی مرتد ہیں اور مرتد کی سزا تن سر سے جدا تن سر سے جدا،۔۔۔
@@NTameem Maryam 19:15 وَسَلَٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا So Peace on him the day he was born, the day that he dies, and the day that he will be raised up to life (again)! اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے. The Birth of the Boy and His Characteristics This also implies what is not mentioned, that this promised boy was born and he was Yahya. There is also the implication that Allah taught him the Book, the Tawrah which they used to study among themselves. The Prophets who were sent to the Jews used to rule according to the Tawrah, as did the scholars and rabbis among them. He was still young in age when Allah gave him this knowledge. This is the reason that Allah mentioned it. Because of how Allah favored him and his parents, He says, ﴾ييَحْيَى خُذِ الْكِتَـبَ بِقُوَّةٍ﴿ (O Yahya! Hold fast to the Scripture the Tawrah.) Means, "Learn the Book with strength." In other words, learn it well, with zeal and studious effort. ﴾وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً﴿ (And We gave him wisdom while yet a child.) This means he was given understanding, knowledge, fortitude, diligence and zeal for good and the pursuit of good. He was blessed with these characteristics even though he was young. Allah said, ﴾وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا﴿ (And (made him) Hananan from Us,) 19:13 Ali bin Abi Talhah reported that Ibn `Abbas said, ﴾وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا﴿ (And Hananan from Us, ) "This means mercy from Us." `Ikrimah, Qatadah and Ad-Dahhak all said the same. Ad-Dahhak added, "Mercy that no one would be able to give except Us." Qatadah added, "With it, Allah had mercy upon Zakariyya." Mujahid said, ﴾وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا﴿ (And Hananan from Us,) "This was gentleness from His Lord upon him." The apparent meaning is that Allah's statement Hananan (affection, compassion) is directly related to His statement, ﴾وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً﴿ (and We gave him wisdom while yet a child.) meaning, "We gave him wisdom, compassion and purity." This means that he was a compassionate man, who was righteous. Hanan means the love for affection and tenderness (towards others). Concerning Allah's statement, ﴾وَزَكَوةً﴿ (and Zakatan,) This is related to His statement, ﴾وَحَنَانًا﴿ (And Hananan) The word Zakah means purity from filth, wickedness and sins. Qatadah said, "The word Zakah means the righteous deed." Ad-Dahhak and Ibn Jurayj both said, "The righteous deed is the pure (Zakah) deed." Al-`Awfi reported that Ibn `Abbas said, ﴾وَزَكَوةً﴿ (and Zakatan,) "This means that he was a blessing." ﴾وَكَانَ تَقِيًّا﴿ (and he was pious.)19:13 meaning that he was pure and had no inclination to do sins. Allah said; ﴾وَبَرًّا بِوَلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً ﴿ (And dutiful to his parents, and he was not arrogant or disobedient.) After Allah mentioned Yahya's obedience to his Lord and that Allah created him full of mercy, purity and piety, He attached to it his obedience to his parents and his good treatment of them. Allah mentioned that he refrained from disobeying them in speech, actions, commands and prohibitions. Due to this Allah says, ﴾وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً﴿ (and he was not arrogant or disobedient.) Then, after mentioning these beautiful characteristics, Allah mentions his reward for this, ﴾وَسَلَـمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَياً ﴿ (And Salam (peace) be on him the day he was born, and the day he dies, and the day he will be raised up to life (again)!) This means that he had security and safety in these three circumstances. Sufyan bin `Uyaynah said, "The loneliest that a man will ever feel is in three situations. The first situation is on the day that he is born, when he sees himself coming out of what he was in. The second situation is on the day that he dies, when he sees people that he will not see anymore. The third situation is on the day when he is resurrected, when he sees himself in the great gathering. Allah has exclusively honored Yahya, the son of Zakariyya, by granting him peace in these situations. Allah says, ﴾وَسَلَـمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَياً ﴿ (And Salam (peace) be on him the day he was born, and the day he dies, and the day he will be raised up to life (again)!) This narration was reported by Ibn Jarir, from Ahmad bin Mansur Al-Marwazi, from Sadaqah bin Al-Fadl, from Sufyan bin `Uyaynah
Dr Israr was a real gem but unfortunately govt of Pak restricted such a jem from movement to spread Islamic knowledge and corrupt politicians roam like mad dogs
الْسلام وعليكم ورحمة ألله وبركاته.."بسم الله ما شاء الله لا قوة إلا بالله"...بسم الله الرحمن الرحيم ..لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ....اللَّهُمَّ صَلِّي عَلَى مُحَمَّدٍ كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد...اَسْتَغْفِرُ اللهَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْهِ ... فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ... اللّٰہ سبحان و تعالیٰ ... جناب بانی پاکستان محمد علی جناح اور پروفیسر ڈاکٹراسرار صاحب مرحومکو "جنت الفردوس" میں اعلیٰ مقام جگہ عطا فرمائے .... انکی" قبر" کو "نور" سے بھر دے اور"جنت" کا حسیں باغ بنادے "آمین" ... انکی "لغزش خطاب" کو معاف فرمائے... جب "اطمینان کے" ساتھ آپکا یہ بیان سنتے ہیں تودل کو کتنا"سکون" ملتا ہے ... اللہ تعالی - ہم تمام مسلمانوںکو"سننے" سے زیادہ "عمل" کرنیکی توفیق عطا فرمائے .. آمین .. ثم آمین .. یا رب العالمین ... سبحان اللہ ، "سچ" کہہ گئے "سچے" لوگ ... اورانکی"دینی خدمات"- "درس و تدریس"-"جدوجہد"-"ویڈیوز" اور"فکر"کےذریعے ہماری "اصلاح"اورتمام مسلمانوںکو "فیضیاب" فرمائے...اورتمام"اُمت مسلمہ" کےگناہ معاف فرمائے..اے اللہ پاک... "منافقت" کی ہر"قول وعمل" سے ہماری حفاظت فرما-- اللّٰہ تعالیٰ-- ھم سبکو "سچی توبہ" کی توفیق عطا فرما .. اللہ تعالی- ہمیں "بےحیائی" اور"برے کاموں" سے بچا- آمین.. یا اللہ ہمیں"قرآنکی" سمجھ اور"عمل" کی توفیق عطا فرما... امین یارب العالمین ... "قائد اعظم محمد علی جناح" رح اور"ڈاکٹراسرار"صاحب جیسے"بندہ مومن" اور"عالم اسلامکی" بہت بڑی "نعمت".."ایسے"لوگ "صدیوں" بعد پیدا ہوتے ہیں.. جوہمارے"دلوں" میں ہمیشہ "زندہ" رہیںگے.. ماشااللہ -- جو"خزانہ" وہ "مسلمانوں" کیلئے چھوڑ گئے وہ "رہتی دنیا" تک قائم رہیگا... انشااللہ .. اللہ رب العزت انکے"درجات" بلند فرما - ڈھیروں"رحمتیں"اور بیشمار"برکتیں"نازل فرما- "روح" کو تازگی بخش"--"بخشش"اور" بہترین جزائے خیر" اور"اجرعظیم" سے نواز ۔۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔۔۔ آمین .. آمین یارب العالمین ...
جماعت احمدیہ کا عقیدہ فیضان ختم نبوت اور سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا حیرت انگیز اعتراف حق مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳ء وفات۱۸۸۰ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔ ذیل میں اس مجموعہ تقاریر کے چند اقتباسات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں جن سے جماعت احمدیہ کے نظریہ فیضان ختم نبوت کی تائید ہوتی ہے ۔ امتی نبی اور خاتَم النّبیین کے عکس کامل کے ظہور کی ضرورت اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا آنحضرت ﷺ کے بعد کسی امتی نبی اور آپ کے عکس کامل کی ضرورت ہے یانہیں۔ سواس کا جواب جناب قاری محمد طیب صاحب نے درج ذیل الفاظ میں دیاہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’ اگر خاتَم النّبیّین کے دور ۔۔۔میں ہمہ گیر کمالات کا ظہور ایک امر طبعی تھا تو اسی کے دور ۔۔۔ میں ان کمالات کی اضداد اور ہمہ انواع فسادات کا شیوع بھی ایک امر طبعی تھا اوراس لئے خاتم الدجالین کوبھی جو خاتم فسادات ہے خاتَم النٖبیّین ہی کے دور۔۔۔ میں خروج کرنا چاہئے تھا کہ اس کے عمیق دجل و فساد کا مقابلہ محض نبوت کی طاقت نہ کر سکتی جب تک کہ اس کے ساتھ خاتمیت کی بے پناہ قوت نہ ہو۔ نیز خاتم کمالات کی پوری پوری عظمت و شان اور روحانی قوت بھی اس وقت تک نہ کھل سکتی تھی جب تک کہ اس کے کمالات کی اضداد یعنی سارے ہی شر و فسادات اپنے پورے کروفر کے ساتھ اپنی آخری شخصیت خاتم الدجالین کے ہاتھ پر ظاہر ہو کر بری طرح شکست نہ کھا جائیں۔ ہاں مگر مقابلہ کی اگر یہ صورت ہوتی کہ دجال اعظم کو حضور کے زمانہ خیر میں ظاہر کرکے شکست دلا دی جاتی تو ظاہر ہے کہ فتح وشکست کا یہ مظاہرہ ناقص رہ جاتا کیونکہ نہ فسادات دجال ہی سب کے سب بتدریج نمایاں ہوسکتے او ر نہ کمالات نبوی ہی سب کے سب کھل کر انہیں شکست دے سکتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ خیرکے ہر ہر پہلو کی طاقت اور شر کے ہر ہر پہلو کی کمزوری کھلے بغیر ہی مقابلہ ختم ہو جاتا اور دنیا آخرت کے کنارے جا لگتی۔ حالانکہ خاتمیت سے مقصود تکمیل ہوتی ہے اور اسی لئے خاتم کو سب سے آخر میں لایا جاتاہے مگراس صورت میں کسی پہلو کی بھی تکمیل نہ ہوتی اور خاتموں کا آنا عبث ہو جاتا ۔ اس لئے دجال اعظم کوبھی قیامت تک موقعہ دیاگیا کہ وہ ہر ہر پہلو سے چھپ کر اورکھل کر فساد پھیلائے ۔ بواسطہ اور بلا واسطہ اپنی دجالیت سے دنیا میں تلبیس حق بالباطل کاجال پھیلائے تاکہ ایک دفعہ یہ ساری سے شرور اوراپنی سطحی چمک دمک کے ساتھ ظاہر ہو جائیں اور اپنا فروغ دکھلا کربے وزن قلوب کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔ اور ہر ختم نبوت کی طاقت کو بھی قیامت تک باقی رکھ کر موقعہ دیا گیا کہ وہ اپنی مخفی طاقتوں سے دجالی کرّ وفرّ کے پرخچے اڑاتی رہے۔ اگر یہ دجل و فساد علوم نبوی میں فتنۂ شہوات کھڑا کرے تو صبر و تحمل کے نبوی اخلاق سے اسے پسپا کر دے ۔ اگر تمدنی لائن میں فتنے برپا کرے تو سیاستِ نبوت آڑے آ کر انہیں ختم کردے ۔غرض جس رنگ میں بھی دجل وفساد ظاہر ہو اسی رنگ میں کمالاتِ نبوت اس کو دفع کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ فساد کی استعداد کامل ہو کر گویادجال اعظم کے ظہور کا تقاضا کرنے لگے اور ادھر صلاح و کما ل کی قابلیت بھی اپنادورہ مکمل کر کے اس کی کھلی شکست کی طلبگار ہو جائے تاآنکہ ختم نبوت اس خاتم دجّالین کو شکست دے کر ہمیشہ کے لئے دجل کا خاتمہ کردے۔ پس جبکہ خروج دجال زمانہ نبوی میں مناسب نہ ٹھہرابلکہ خاتمہ دنیا پرمناسب ہواتو پھر اب اس کے مقابلہ کی ایک صورت تویہ تھی کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو خروج دجال کے وقت قبر مبارک سے تکلیف دی جاتی کہ آپ بنفس نفیس اس کے مفاسد کو مٹا ئیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ صورت شان اقدس سے فروتر تھی۔ اورآپ اس سے اعزواکرم تھے کہ آپ پر دوموتیں طاری کی جائیں یاایک دفعہ قبر مبارک سے نکال کر پھر دوبارہ قبر دکھلائی جائے ۔
آنحضرت ؐ کمالات نبوت کے خاتم بھی ہیں اور فاتح بھی جناب قاری صاحب نے تحریر فرمایا: ’’سیرت کے ایک معنی ہیں کہ حضور ؐ کے فضائل، مناقب، بزرگیاں ، کمالات اور خصوصیات بیان کئے جاویں تا کہ ایمانوں میں تازگی پیدا ہو اور امت کو تسلی ہو کہ اللہ نے ہمیں ایسا پیغمبر عطا فرمایا کہ جو دنیا میں بے مثل ہے اور انبیاء میں بھی ان کی نظیر نہیں ۔ وہ افضل الانبیاء ہیں ۔ سیدالمرسلین ہیں۔ اس لئے ختم نبوت کا لفظ کافی ہے ۔ آپ ؐ فقط نبی ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم الانبیاء ہیں ۔ تو خاتم کے لفظ میں سارے فضائل چھپے ہوئے ہیں اس لئے کہ خاتم اس کو کہتے ہیں جو منتہٰی ہو سارے کمالات کا کہ اگلے پچھلے جتنے بھی کمالات ہیں نبوت کے سب ایک ذا ت میں لا کر جمع کر دئے گئے ہیں اور انتہاء ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمالات نبوت علمی ہوں یا عملی اپنے انتہائی عروج کے ساتھ آپ کی ذات مقدس میں جمع کر دئے گئے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر یہی نہیں کہ آپ صرف امت کے نبی ہوں بلکہ آپ نبیوں کے بھی نبی ہیں اسی لئے آپ نے ایک حدیث میں بھی فرمایا اَنَا نَبِیُّ الاَنْبِیَاءِ کہ میں فقط امتوں کا ہی نبی نہیں ہوں بلکہ نبیوں کا بھی نبی ہوں کیونکہ قرآن کریم میں انبیاء سے بھی آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے ۔فرمایا( وَاِذْاَخَذَ اللّٰہ مِیْثَاقَ النبِیّینَ لَما اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ و حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤمِنُنّ بِہ وَلَتَنْصُرُنّہٗ ۔قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اصْرِی قَالُوااَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّاہِدِیْنَ) ۔ تمام انبیاء سے عالم ازل میں حق تعالیٰ نے عہد لیا کہ جب میں رسول آخرالزمان کو دنیا میں بھیجوں اس وقت اگر تم خود موجود ہو تو تم ان پر ایمان لاؤ ورنہ تم اپنی امتوں کو ہدایت کرو کہ وہ ایمان لائیں۔ اور اب ایمان لاؤ تو سارے انبیاء نے ایما ن قبول کیا اور ایمان لانے کا جسے مکلف کیاجائے وہی امتی ہوتاہے تو جب نبیوں پر بھی فرض کیا گیا کہ وہ ایمان لاویں گے تو گویا آپ پرایمان لانا بحیثیت امت کے ہوا، اسی لئے آپ ؐ نے فرمایا اَنَا نَبِیّ الاَنْبِیَائِ میں نبیوں کا بھی نبی ہوں۔یہ خاتم کے معنی ہیں جو خاتم النبیین میں ہے۔ یعنی تمام کمالات نبوت آ پ پر ختم ہیں۔ اور یہ ایک اصول کی بات ہے کہ جو وصف کسی چیز پر ختم ہوتاہے وہیں سے شروع بھی ہوتاہے ۔ اگر وہاں ختم نہ ہو تو شروع بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر یوں سمجھئے کہ جیسے بجلی کے قمقمے پورے شہر میں روشن ہیں یہ سب ختم کہاں ہوتے ہیں؟ پاور ہاؤس پرجا کر ختم ہوتے ہیں، تو پاور ہاؤس کو ہی خاتم البروق کہیں گے کہ ا س پرساری بجلیوں کی انتہاء ہے یعنی وہ بجلیوں کا منتہا ہے ۔مگر وہ مبداء بھی تو ہے وہاں اگر بجلیاں نہ ہوں تو قمقموں میں کہاں سے آئیں گی۔ تو جہاں ختم ہوتی ہے چیز وہیں سے شروع بھی ہوتی ہے ۔ تو پاور ہاؤس پر اگر اختتام ہے بجلیوں کا تووہیں سے افتتاح بھی ہے۔ لاکھوں نل آپ کے گھروں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ا ن میں پانی آ رہاہے ۔ ان سب پانیوں کی انتہاء واٹرورکس پرہوتی ہے، سارے پانی وہیں جاکر ختم ہوجاتے ہیں تو وہ خاتم المیاہ کہلائے گا اور وہی فاتح المیاہ بھی کہلائے گا کیونکہ وہیں سے پانی شروع بھی ہوتاہے۔ اگروہاں پانی نہ ہو تو نلوں میں کہاں سے آئے گا اورکیسے آئے گا جیسے آپ یوں کہیں کہ آدم علیہ السلام سب کے باپ ہیں اور وہ خاتم الآباء ہیں یعنی باپ ہونا ان پر ختم ہے ان سے آگے کوئی باپ ہی نہیں۔ وہی آخری باپ ہیں۔ اسلئے وہ خاتم الآباء ہیں تو فاتح الآباء بھی تو وہی ہیں۔ وہ اگر باپ نہ بنتے تو ہم اور آپ کیسے ہوتے، بجلیاں جہاں ختم ہوئیں وہیں سے شروع بھی ہوئیں ، پانیوں کی انتہاء جہاں سے ہوئی ابتداء بھی وہیں سے ہوئی ۔ آپ یوں کہتے ہیں کہ ہم سب موجود ہیں۔ سب میں وجود ہے اور سب کے وجود کی انتہاء ذات حق پر ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ خاتم الوجود ہیں۔ آگے پھر وجود کاکوئی سلسلہ نہیں ہے تو وہی فاتح الوجود بھی ہیں ۔ وہیں سے وجودکا سلسلہ چلاہے ہم موجود ہیں ۔ وہاں وجود نہ ہو تو ہم اورآپ کیسے موجود ہونگے۔ تو جو وصف جس ذات پر ختم ہوتاہے اسی ذات سے شروع بھی ہوتاہے ۔ تو جب نبوت کے سارے کمالات آپ ؐ پر ختم ہو گئے ہیں اور آپؐ خاتم الکمالات ہیں تو فاتح الکمالات بھی تو آپ ؐہی ہیں۔ وہاں سے کمالات نہ چلتے تو انبیاء کوکیسے ملتے ،اولیاء کو کیسے ملتے تو اسلئے آپ ؐ فاتح بھی ہیں اور خاتَم بھی ہیں اسی لئے ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا ’’اَنَا اَوَّلھُم خَلْقًا وَ آخِرُھُم ‘‘۔(صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۲)
۸۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ ھذہ الاصناف الاربعۃ ھم صفوۃ اللہ من عبادہ و قد کانوا موجودین فی کل امۃ ۔ ومن اطاع اللہ والرسول من ھذہ الامۃ کان منھم و حشر یوم القیامۃ معھم۔ لانہ و قد ختم اللہ النبوۃ والرسالۃ لابد ان یرتقی فی الاتباع الیٰ درجۃ احد الاصناف الثلثۃ: الصدیقین والشھداء والصٰلحین‘‘۔ (تفسیر القرآن الحکیم جزء ۵ صفحہ ۲۴۷) کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔ ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔ تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے: ’’ افتخر اھل الادیان فقالت الیھود کتابنا خیر الکتب و اکرمھا علی اللہ و نبینا اکرم الانبیاء علی اللہ موسیٰ خلابہ و کلمہ نجیا و دیننا خیرالادیان و قالت النصاری عیسیٰ خاتم النبیین اتاہ اللہ التوراۃ والانجیل ولو ادرکہ محمد اتبعہ و دیننا خیرالدین و قالت المجوس و کفار العرب دیننا اقدم الادیان و خیرھا وقال المسلمون محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء و سیدالرسل‘‘۔ (تفسیر الدر المنثور جزء ۲ صفحہ ۲۲۶) ’’ یعنی مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔ دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
Qur'an is Straight Word of Allah....there is No Ambiguity... سَآءَ مَثَلَا ۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں ۔ (سورة الأعراف۔ 177)
او لعنتی مرزائی اگر تو نے اپنے باپ کا دودھ پیا ہے تو میدان میں آجا میں تیرے سور کی شکل والے گانڈو مرزے کو منکر قرآن ثابت کرتا ہوں نہ کر سکا تو مرزے کنجر کو سچا مان لو نگا آجا میدان بغیرت
Allah mere bete ko
Dr jaisa ilm ata kare
Aamin
ALLAH mghfirat farmaye inki... AMEEEEEEEEN YA RAB AL ALAMEEN... anmol hain in k lectures
Great scholar in history❤
سرزمین پاکستان میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جیسے عظیم مفکر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ۔
WAlakAm Asalam Alla Pak AP ko kamyab Kary waslamo.Alakum.
الحمدللہ
@@Taaj556 ameen
Allah Kareem Dr israr sb ki Islamic ar Deen ki fiqr hm sb ko naseeb farmay
جزاک اللّٰہ خیرا کثیرا ۔ اللّٰہ تعالیٰ عظیم اسلامی سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
الله تعالى ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس ميں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان عظيم شخصيت كي طرح همارے ملک میں علماء كرام پیدا فرمائیں امين ثم امين يارب العالمين
ameeeeen
Aameeeen
⁰p
Ameen
L
Dr israr sahab ke jaisa qabil aur zaheen aur Well educated humne apni zindgi me nahi dekha allah aapke darjaat buland farmaye ameen
Aameen summa ameen
Ameen Sum Ameen Beshak Koi Nahi Hai Per Ek aur Tha Agar Eo Siyasat Mein Atta To Aur B Alla Ho Jata Per Allah Jisay Chahe Izat De Jisay Chahe Zilat De
سبحان الله وبحمده
ماشاءاللہ ۔۔۔ اللہ رب العزت ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے ۔۔۔ آمین
Ameen
Ameen
اللّٰه ان کے درجات بلند فرمائے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔۔ آمین
دنیا کے مسلمانوں میں عظیم ترین حستی اور علم و ایمان کا سچا نور تھے ہم نامی مسلمانوں کے لیے بہت قیمتی سرمایہ تھے 😢
اللّٰہ رب العالمین آپ کے درجات مزید بلند فرمائے، اور ہمیں صالحین میں شامل فرمائے۔ امت مسلماں کو سچا عملی و جامیہ مسلمان بنانے۔ آمین ثمہ آمین
I was a child when I would see him on TV, due to his appearance resembling typical Mullahs in our country, I just didn't listen to him and would change the channel whenever he appeared on it, but I am ashamed now, what a great scholar! I wish I had started listening to him when he was still among us. Allah apko buland tareen darjaat ataa farmaye.
اللہ ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند فرمائے آمین
Ameen Suma ameen
ameen
Gerrff
@@hajigulafridi482 ¹
Ameen
A true scholar of Islam. A gem of man and a humble human being. May Allah reward you!🤲🏽🤲🏽
True scholar of hadees
کتنی حیرت کی بات ہے کہ قرآن میں سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ، کسی اور رسول کی وفات کا ذکر نہیں ۔۔ اور جس کا ہے اسی کو ماننا نہیں۔
اللہ پاک ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
ہم نے بہت ساری ہدایت دی ہیں اور آیت بھی نازل کی ہے یہ علمائے دین اور عالمی دین ہر ہدایت کو ہر دلیل کو جھٹلاتے ہیں اب ہمارے عذاب کا مزہ چکنا ہوگا اسی دنیا میں ڈوبو گے کفن بھی نصیب نہیں ہوگی اللہ تعالی کا پیمبر بد دعا کرتا ہوں
آمین
اللہ سبحان تعالی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثمہ آمین یا رب العالمین 🌹
Ameen
Uyy7tyr6 y7yy0uy7t6y77yy577tyyyyyyy7y7yyy0t5tyt5u
Y7yu7t7yyU7yutuy77uy0t6ry76yyyyYyTyyy7
Y7yu7t7yyU7yutuy77uy0t6ry76yyyyYyTyyy7
Y7yu7t7yyU7yutuy77uy0t6ry76yyyyYyTyyy7
اللہ ان عالموں پر رحم فرمائے۔ اور ان لوگوں کو سچ بولنے کی طوفیق عطا فرمائے۔
اتنے بڑے اور پائے کے عالم ہونے کے باوجود قوم سدر نہ سکی۔ کیونکہ ان طرح کے لوگوں نے اسلام کی تعلیمات کو بدل کر رکھ دیا۔ " بہت سا چھوٹ شامل کر دیا ۔"
آج قوم کی حالت کیا ہے۔ دنیا کی تمام برائیاں اس قوم میں ہیں۔ ان لوگوں کی تبلیغ میں کوئی نہ کوئی کمی ہے جو کہ قوم بدل نہ سکی۔
حاجی صاحب آپ کے کپڑے پاک ہیں اتنا ہی کافی ہے
جاہل لوگوں کی طرح بس روتے رہنا
مرزا غلام شیطان کادیانی مراثی مردود علیہ اسہال پر لعنت بےشمار
Sale pehle samjho phir bolo
Subhanallah jizakallah Allah pak aap Dr sahib ko Boland rothba atta jannat main Ameen or hum Sab ko hidayat atta farmaiy Ameen
quran pak,ahadees mubrakha k badh ma inn ki batoon pay eyes close kar k believe karta hoo
اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
Ameen sums ameen
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
اَشْهَدُ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَہٗ لَاشَرِيْكَ لَہٗ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُولُہٗ
Dunya bhar k tamam musalmanu ko hamarintarafvsay Ramadan kareem bahut bahut mubarak. Allah say dua he k wo is ramadhan ki barkat say ham say raazi ho jay. Duaun main yaaf rakhyay
اتنی فصیح اردو بہت دنوں بعد سننے کو ملی۔ آج کل جو اردو بولتے ہیں سب کے سب ہی عجوبہ پیش کرتے ہیں۔ علماء کرام کو ان کی طرح زبان پہ عبور ہونا چاہیے ۔
Jab Esa AS key Zinda Jism key saath Aasman per janey ki koi ayat aur daleel Quraan mei nahi, shahih ahadees mei bhi nahi tou iss batil aqeedey ka parchaar kiyon kiya ja raha hai, aap loug ingeel mantey ho ya Quraan, ingeel bhi woh jisko Esai bhi authentic nahi maan rahey, uss ko bunyaad bana ker Dr. Israr sahib yeh stories bana ker batil aqeedey ki taveel ker rahey hain, Daleel Quraan ki ayaat sey ley ker aao....
ingeel aur unki stories ko Esai Christians key liye chorr do, Quran ki baat karo agar musalman ho.....?
Yahudi numaa molvi aur ulmaa ummat e muslimaa mei moujood hain, aur Islam mei apni marzi key aqeedey dakhil kerney mei magan hain, aur saath mei yahudiyoon ki tareekh bhi biyaan kertey hain, magar sabaq hasil ker key sudhrtey nahi, balkeh khud bhi gumrah hain aur awaam ko bhi gumrah kertey hai.
جماعت احمدیہ کا عقیدہ فیضان ختم نبوت اور سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا حیرت انگیز اعتراف حق
مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳ء وفات۱۸۸۰ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔ ذیل میں اس مجموعہ تقاریر کے چند اقتباسات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں جن سے جماعت احمدیہ کے نظریہ فیضان ختم نبوت کی تائید ہوتی ہے ۔
امتی نبی اور خاتَم النّبیین کے عکس کامل کے ظہور کی ضرورت
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا آنحضرت ﷺ کے بعد کسی امتی نبی اور آپ کے عکس کامل کی ضرورت ہے یانہیں۔ سواس کا جواب جناب قاری محمد طیب صاحب نے درج ذیل الفاظ میں دیاہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’ اگر خاتَم النّبیّین کے دور ۔۔۔میں ہمہ گیر کمالات کا ظہور ایک امر طبعی تھا تو اسی کے دور ۔۔۔ میں ان کمالات کی اضداد اور ہمہ انواع فسادات کا شیوع بھی ایک امر طبعی تھا اوراس لئے خاتم الدجالین کوبھی جو خاتم فسادات ہے خاتَم النٖبیّین ہی کے دور۔۔۔ میں خروج کرنا چاہئے تھا کہ اس کے عمیق دجل و فساد کا مقابلہ محض نبوت کی طاقت نہ کر سکتی جب تک کہ اس کے ساتھ خاتمیت کی بے پناہ قوت نہ ہو۔ نیز خاتم کمالات کی پوری پوری عظمت و شان اور روحانی قوت بھی اس وقت تک نہ کھل سکتی تھی جب تک کہ اس کے کمالات کی اضداد یعنی سارے ہی شر و فسادات اپنے پورے کروفر کے ساتھ اپنی آخری شخصیت خاتم الدجالین کے ہاتھ پر ظاہر ہو کر بری طرح شکست نہ کھا جائیں۔
ہاں مگر مقابلہ کی اگر یہ صورت ہوتی کہ دجال اعظم کو حضور کے زمانہ خیر میں ظاہر کرکے شکست دلا دی جاتی تو ظاہر ہے کہ فتح وشکست کا یہ مظاہرہ ناقص رہ جاتا کیونکہ نہ فسادات دجال ہی سب کے سب بتدریج نمایاں ہوسکتے او ر نہ کمالات نبوی ہی سب کے سب کھل کر انہیں شکست دے سکتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ خیرکے ہر ہر پہلو کی طاقت اور شر کے ہر ہر پہلو کی کمزوری کھلے بغیر ہی مقابلہ ختم ہو جاتا اور دنیا آخرت کے کنارے جا لگتی۔ حالانکہ خاتمیت سے مقصود تکمیل ہوتی ہے اور اسی لئے خاتم کو سب سے آخر میں لایا جاتاہے مگراس صورت میں کسی پہلو کی بھی تکمیل نہ ہوتی اور خاتموں کا آنا عبث ہو جاتا ۔ اس لئے دجال اعظم کوبھی قیامت تک موقعہ دیاگیا کہ وہ ہر ہر پہلو سے چھپ کر اورکھل کر فساد پھیلائے ۔ بواسطہ اور بلا واسطہ اپنی دجالیت سے دنیا میں تلبیس حق بالباطل کاجال پھیلائے تاکہ ایک دفعہ یہ ساری سے شرور اوراپنی سطحی چمک دمک کے ساتھ ظاہر ہو جائیں اور اپنا فروغ دکھلا کربے وزن قلوب کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔ اور ہر ختم نبوت کی طاقت کو بھی قیامت تک باقی رکھ کر موقعہ دیا گیا کہ وہ اپنی مخفی طاقتوں سے دجالی کرّ وفرّ کے پرخچے اڑاتی رہے۔ اگر یہ دجل و فساد علوم نبوی میں فتنۂ شہوات کھڑا کرے تو صبر و تحمل کے نبوی اخلاق سے اسے پسپا کر دے ۔ اگر تمدنی لائن میں فتنے برپا کرے تو سیاستِ نبوت آڑے آ کر انہیں ختم کردے ۔غرض جس رنگ میں بھی دجل وفساد ظاہر ہو اسی رنگ میں کمالاتِ نبوت اس کو دفع کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ فساد کی استعداد کامل ہو کر گویادجال اعظم کے ظہور کا تقاضا کرنے لگے اور ادھر صلاح و کما ل کی قابلیت بھی اپنادورہ مکمل کر کے اس کی کھلی شکست کی طلبگار ہو جائے تاآنکہ ختم نبوت اس خاتم دجّالین کو شکست دے کر ہمیشہ کے لئے دجل کا خاتمہ کردے۔
پس جبکہ خروج دجال زمانہ نبوی میں مناسب نہ ٹھہرابلکہ خاتمہ دنیا پرمناسب ہواتو پھر اب اس کے مقابلہ کی ایک صورت تویہ تھی کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو خروج دجال کے وقت قبر مبارک سے تکلیف دی جاتی کہ آپ بنفس نفیس اس کے مفاسد کو مٹا ئیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ صورت شان اقدس سے فروتر تھی۔ اورآپ اس سے اعزواکرم تھے کہ آپ پر دوموتیں طاری کی جائیں یاایک دفعہ قبر مبارک سے نکال کر پھر دوبارہ قبر دکھلائی جائے ۔
آنحضرت ؐ کمالات نبوت کے خاتم بھی ہیں اور فاتح بھی
جناب قاری صاحب نے تحریر فرمایا:
’’سیرت کے ایک معنی ہیں کہ حضور ؐ کے فضائل، مناقب، بزرگیاں ، کمالات اور خصوصیات بیان کئے جاویں تا کہ ایمانوں میں تازگی پیدا ہو اور امت کو تسلی ہو کہ اللہ نے ہمیں ایسا پیغمبر عطا فرمایا کہ جو دنیا میں بے مثل ہے اور انبیاء میں بھی ان کی نظیر نہیں ۔ وہ افضل الانبیاء ہیں ۔ سیدالمرسلین ہیں۔ اس لئے ختم نبوت کا لفظ کافی ہے ۔ آپ ؐ فقط نبی ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم الانبیاء ہیں ۔ تو خاتم کے لفظ میں سارے فضائل چھپے ہوئے ہیں اس لئے کہ خاتم اس کو کہتے ہیں جو منتہٰی ہو سارے کمالات کا کہ اگلے پچھلے جتنے بھی کمالات ہیں نبوت کے سب ایک ذا ت میں لا کر جمع کر دئے گئے ہیں اور انتہاء ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمالات نبوت علمی ہوں یا عملی اپنے انتہائی عروج کے ساتھ آپ کی ذات مقدس میں جمع کر دئے گئے۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر یہی نہیں کہ آپ صرف امت کے نبی ہوں بلکہ آپ نبیوں کے بھی نبی ہیں اسی لئے آپ نے ایک حدیث میں بھی فرمایا اَنَا نَبِیُّ الاَنْبِیَاءِ کہ میں فقط امتوں کا ہی نبی نہیں ہوں بلکہ نبیوں کا بھی نبی ہوں کیونکہ قرآن کریم میں انبیاء سے بھی آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے ۔فرمایا( وَاِذْاَخَذَ اللّٰہ مِیْثَاقَ النبِیّینَ لَما اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ و حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤمِنُنّ بِہ وَلَتَنْصُرُنّہٗ ۔قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اصْرِی قَالُوااَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّاہِدِیْنَ) ۔ تمام انبیاء سے عالم ازل میں حق تعالیٰ نے عہد لیا کہ جب میں رسول آخرالزمان کو دنیا میں بھیجوں اس وقت اگر تم خود موجود ہو تو تم ان پر ایمان لاؤ ورنہ تم اپنی امتوں کو ہدایت کرو کہ وہ ایمان لائیں۔ اور اب ایمان لاؤ تو سارے انبیاء نے ایما ن قبول کیا اور ایمان لانے کا جسے مکلف کیاجائے وہی امتی ہوتاہے تو جب نبیوں پر بھی فرض کیا گیا کہ وہ ایمان لاویں گے تو گویا آپ پرایمان لانا بحیثیت امت کے ہوا، اسی لئے آپ ؐ نے فرمایا اَنَا نَبِیّ الاَنْبِیَائِ میں نبیوں کا بھی نبی ہوں۔یہ خاتم کے معنی ہیں جو خاتم النبیین میں ہے۔ یعنی تمام کمالات نبوت آ پ پر ختم ہیں۔ اور یہ ایک اصول کی بات ہے کہ جو وصف کسی چیز پر ختم ہوتاہے وہیں سے شروع بھی ہوتاہے ۔ اگر وہاں ختم نہ ہو تو شروع بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر یوں سمجھئے کہ جیسے بجلی کے قمقمے پورے شہر میں روشن ہیں یہ سب ختم کہاں ہوتے ہیں؟ پاور ہاؤس پرجا کر ختم ہوتے ہیں، تو پاور ہاؤس کو ہی خاتم البروق کہیں گے کہ ا س پرساری بجلیوں کی انتہاء ہے یعنی وہ بجلیوں کا منتہا ہے ۔مگر وہ مبداء بھی تو ہے وہاں اگر بجلیاں نہ ہوں تو قمقموں میں کہاں سے آئیں گی۔ تو جہاں ختم ہوتی ہے چیز وہیں سے شروع بھی ہوتی ہے ۔ تو پاور ہاؤس پر اگر اختتام ہے بجلیوں کا تووہیں سے افتتاح بھی ہے۔ لاکھوں نل آپ کے گھروں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ا ن میں پانی آ رہاہے ۔ ان سب پانیوں کی انتہاء واٹرورکس پرہوتی ہے، سارے پانی وہیں جاکر ختم ہوجاتے ہیں تو وہ خاتم المیاہ کہلائے گا اور وہی فاتح المیاہ بھی کہلائے گا کیونکہ وہیں سے پانی شروع بھی ہوتاہے۔ اگروہاں پانی نہ ہو تو نلوں میں کہاں سے آئے گا اورکیسے آئے گا جیسے آپ یوں کہیں کہ آدم علیہ السلام سب کے باپ ہیں اور وہ خاتم الآباء ہیں یعنی باپ ہونا ان پر ختم ہے ان سے آگے کوئی باپ ہی نہیں۔ وہی آخری باپ ہیں۔ اسلئے وہ خاتم الآباء ہیں تو فاتح الآباء بھی تو وہی ہیں۔ وہ اگر باپ نہ بنتے تو ہم اور آپ کیسے ہوتے، بجلیاں جہاں ختم ہوئیں وہیں سے شروع بھی ہوئیں ، پانیوں کی انتہاء جہاں سے ہوئی ابتداء بھی وہیں سے ہوئی ۔ آپ یوں کہتے ہیں کہ ہم سب موجود ہیں۔ سب میں وجود ہے اور سب کے وجود کی انتہاء ذات حق پر ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ خاتم الوجود ہیں۔ آگے پھر وجود کاکوئی سلسلہ نہیں ہے تو وہی فاتح الوجود بھی ہیں ۔ وہیں سے وجودکا سلسلہ چلاہے ہم موجود ہیں ۔ وہاں وجود نہ ہو تو ہم اورآپ کیسے موجود ہونگے۔ تو جو وصف جس ذات پر ختم ہوتاہے اسی ذات سے شروع بھی ہوتاہے ۔ تو جب نبوت کے سارے کمالات آپ ؐ پر ختم ہو گئے ہیں اور آپؐ خاتم الکمالات ہیں تو فاتح الکمالات بھی تو آپ ؐہی ہیں۔ وہاں سے کمالات نہ چلتے تو انبیاء کوکیسے ملتے ،اولیاء کو کیسے ملتے تو اسلئے آپ ؐ فاتح بھی ہیں اور خاتَم بھی ہیں اسی لئے ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا ’’اَنَا اَوَّلھُم خَلْقًا وَ آخِرُھُم ‘‘۔(صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۲)
ایک دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے پاس بیٹھے تھے فرمایا: کلکم صدیق و شہید کہ تم میں سے ہر ایک صدیق اور شہید ہے۔
حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’کل مؤمن صدیق و شہید‘‘ (الدر المنثور الجزء ۶ صفحہ ۱۷۶)۔ کہ ہر مومن صدیق اور شہید ہے۔
پس خدارا غور کیجئے کہ خاتم النبین کے یہ معنے حضور ﷺ کی کس شان کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے انبیاء کی امتوں میں کئی تابع نبی مبعوث ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا کوئی امتی اس درجہ کو حاصل نہ کر سکا۔
۹۔ اگر ’’تمام انبیاء کو ختم کرنے والا ‘‘ کا یہ مطلب لیا جائے کہ نبی کریم ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو شریعت کاملہ عطا فرمائی تھی اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تما م انبیاء سابقین کی شرائع کو منسوخ کر دیا ہے ۔ اب آئندہ ان شرائع پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا صرف شریعت اسلام ہی کی پیروی ضروری ہوگی اور چونکہ یہ شریعت کامل بھی ہے اور اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اس لئے کسی نئی شریعت کے اترنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔تو اس مطلب کی رو سے کوئی ایسا نبی تو نہیں آ سکتا جو نئی شریعت لائے اور نبی کریم ﷺ کا امتی نہ ہو لیکن ایسا نبی جو اسی شریعت سے فیضیاب ہو اور نبی کریم ﷺ کی اتباع کی برکت سے ہی اس کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ہو اسے اسلام اور امت اسلام کے احیاء کے لئے مبعوث کیا گیا ہو آ سکتا ہے اور اس کے آنے میں کوئی شرعی روک نہیں ہے۔
۱۰۔ ہم کہتے ہیں کہ نئی شریعت کی انتظار عبث ہے کیونکہ شریعت اسلام کامل ہے ۔ اس میں کسی قسم کی کمی اور نقص نہیں ہے ۔ فرمایا : ’’الیوم اکملت لیکم دینکم ‘‘ ( سورہ المائدہ آیت ۴) کہ ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے۔
اس کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ وہ وعدہ پورا ہو رہا ہے ۔ فرمایا : ’’ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون‘‘ (سور ہ الحجر آیت ۹) کہ ہم اس کے محافظ ہیں۔ لیکن ایسی کامل اور محفوظ شریعت کی موجودگی میں بھی نبی کا وجود انسان کے لئے وقتا فوقتا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ کی قدرت کے نشان دکھائے جن سے دلوں میں نئی زندگی اور تازہ ایمان پیدا ہو۔ تعلیم الٰہی کو وضاحت سے بیان کرے اور ہر موقع پر راہنمائی فرمائے۔ جو اختلاف پیدا ہوں ان کا فیصلہ کرے اور اتحاد و اتفاق کی روح پھونکے۔ پاک اور نیک نمونہ پیش کر کے لوگوں کو بھی پاکباز اور متقی بنائے۔ غفلت اور سستی جو قوم میں پائی جاتی ہو دور کرے۔ چونکہ وہ مستجاب الدعوات ہوتا ہے وہ اپنی دعاؤں کی برکت سے انہیں روحانی و ظاہری ترقی کے راستہ پر گامزن کرے اور کامیاب بنائے۔
آئیے غور کریں کہ کلیۃً نبوت کا دروازہ کیسے بند ہو سکتا ہے۔
پھر ایک شکل یہ تھی کہ حضور کوخروج دجال تک دنیا ہی میں مقیم رکھا جاتالیکن اس صورت کا شان اقدس کے لئے نازیبا ہوناپہلی صورت سے بھی زیادہ واضح ہے۔ کیونکہ اول تو اس صورت میں حضور ؐکی بعثت کاآخری اور اصلی مقصد محض مدافعت دجال ٹھہرجاتا حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔دوسرے دجا ل کی اہمیت اس قدر بڑھ جاتی کہ گویااسی کے خوف کی خاطر حضور کو دنیا میں صدیوں ٹھہرایا جا رہا ہے۔ نیز امت کے کمالات بھی اس صورت میں پردۂ اخفا میں رہ جاتے ۔ کیونکہ آفتاب نبوت کی موجودگی میں کس ستارہ کی مجال تھی کہ اپنا نور نمایاں کر سکے۔ اس طرح تمام طبقات امت کے جو ہر چھپے رہ جاتے۔ اور گویا عُلَمَائُ اُمّتی کاَنْبِیَائِ بَنِی اِسْرَائِیْل کا ظہور ہی نہ ہو سکتا۔ اوراس سب کے علاوہ یہ صورت خود اصل موضوع ہی کے خلاف پڑتی ۔ یعنی دجال کا خروج ہی ناممکن ہو جاتا جس کے لئے مدافعت کی یہ صورتیں درکار تھیں۔ کیونکہ دجا ل اوراس کے مفاسد کا زور پکڑنا تو حضور ہی کے زمانہ سے بعد ہو جانے کے سبب سے ہو سکتا تھا ۔ اورجبکہ آپ خود ہی قیامت تک دنیا میں تشریف رکھتے تواس کے یہ معنی تھے کہ عالم میں کوئی فتنہ ہی نہ پھیلتا کہ قلوب میں شر کی استعداد بڑھے اورخروج دجال کی نوبت آئے۔ پس اس صورت میں خروج دجال ہی ممکن نہیں رہتاچہ جائیکہ اس کی مدافعت کی کوئی صورت فرض کی جائے۔ بہرحال اس صورت میں نہ امت کے کمالات کھلتے نہ ختم نبوت کی بے پناہ طاقت واضح ہوتی جس سے یہ واضح ہو سکتا کہ ذات بابرکات خاتم مطلق کی سب سے اکمل روحانیت اور بے انتہاء مکمل انسانیت جس طرح اگلوں کوفیض روحانیت پہنچارہی تھی اسی طر ح وہ پچھلوں میں تکمیل کمالات کا کام کر رہی ہے اور وہ ان محدود روحانیتوں کی مانند نہیں ہے جو دنیا میں آئیں اور گزر گئیں اورامتوں میں ان کا کوئی نقش قدم باقی نہ رہا۔
لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جب خاتم الدجالین کا اصلی مقابلہ تو خاتَم النّبیّین سے ہے مگر اس مقابلہ کے لئے نہ حضور ؐ کا دنیا میں دوبارہ تشریف لانا مناسب ،نہ صدیوں باقی رکھاجانا شایان شان ، نہ زمانہ نبوی میں مقابلہ ختم کرا دیا جانا مصلحت اور ادھر اس ختم دجالیت کے استیصال کے لئے چھوٹی موٹی روحانیت توکیا بڑی سے بڑی ولایت بھی کافی نہ تھی۔ عام مجددین اور ارباب ولایت اپنی پوری روحانی طاقتوں سے بھی اس سے عہدہ برآ نہ ہو سکتے تھے جب تک کہ نبوت کی روحانیت مقابل نہ آئے ۔ بلکہ محض نبوت کی قوت بھی اس وقت تک مؤثر نہ تھی جب تک کہ اس کے ساتھ ختم نبوت کا پاور شامل نہ ہو تو پھر شکست دجالیت کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس دجال اعظم کو نیست و نابود کرنے کے لئے امت میں ایک ایسا خاتم المجددین آئے جو خاتَم النبیّین کی غیرمعمولی قوت کو اپنے اندر جذب کئے ہوئے ہو اور ساتھ ہی خاتَم النبیّین سے ایسی مناسبت تامہ رکھتا ہو کہ اس کامقابلہ بعینہ خاتَم النبیّین کامقابلہ ہو۔ مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ ختم نبوت کی روحانیت کا انجذاب اسی مجدد کا قلب کر سکتا تھا جو خود بھی نبوت آشنا ہو۔ محض مرتبۂ ولایت میں یہ تحمل کہاں کہ وہ درجہ ٔ نبوت کی بھی برداشت کر سکے چہ جائیکہ ختم نبوت کا کوئی انعکاس اپنے اندر اتار سکے ۔ نہیں بلکہ اس انعکاس کے لئے ایک ایسے نبوت آشنا قلب کی ضرورت تھی جوفی الجملہ خاتمیت کی شان بھی اپنے اندر رکھتا ہو ۔تاکہ خاتم مطلق کے کمالات کاعکس اس میں اترسکے۔ اور ساتھ ہی اس خاتم مطلق کی ختم نبوت میں فرق بھی نہ آئے ۔ اس کی صورت بجز اس کے اور کیا ہو سکتی تھی کہ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کو جو ایک حدتک خاتمیت کی شان رکھتاہو اس امت میں مجدد کی حیثیت سے لایاجائے جو طاقت تو نبوت کی لئے ہوئے ہو مگر اپنی نبوت کا منصب تبلیغ اور مرتبۂ تشریع لئے ہوئے نہ ہو۔ بلکہ ایک امتی کی حیثیت سے اس امت میں کام کرے اور خاتم النبیین کے کمالات کو اپنے واسطے سے استعمال میں لائے‘‘۔(’’تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام‘‘ صفحہ ۲۲۶ تا ۲۲۹۔ ناشر نفیس اکیڈیمی کراچی ۔اشاعت مئی ۱۹۸۶ء)
ایک غلطی کی اصلاح ۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے قلم سے
بالآخر یہ وضاحت کرنا از بس ضروری ہے کہ جہاں قاری محمد طیب صاحب نیخاتَم النّبیّین کے عکس کامل اور امتی نبی کے ظہور کو بیان کرکے کھلے لفظوں میں احمدی علم کلام پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے وہاں یہ خوفناک غلطی بھی کی ہے کہ وہ امتی نبی سے مراد اسرائیلی مسیح قرار دیتے ہیں حالانکہ انہیں منصب نبوت آنحضرت ﷺ کے ظہور قدسی سے قبل عطا کیا گیا تھا اور امتی نبی کی تعریف یہ ہے کہ وہ ہر فیض نبیٔ متبوع سے حاصل کرتاہے ۔ دوسرے ان کے دادا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’تحذیرالناس‘‘ میں خاتَم النّبیّینکے معنی ہی نبیوں کے باپ کے لئے ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کے مبارک الفا ظ کا متن یہ ہے کہ :
’’حاصل مطلب آیہ کریمہ اس صورت میں یہ ہوگاکہ ابوّت معروفہ تو رسو ل اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوّۃ معنوی اقسیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اورانبیاء کی نسبت بھی ۔انبیاء کی نسبت تو فقط خاتَم النبیّین شاہد ہے‘‘۔(تحذیر الناس صفحہ ۱۳ ناشر دارالاشاعت کراچی نمبر ۱)
اسی عارفانہ تفسیرکے پیش نظر آگے چل کر ڈنکے کی چوٹ آپ نے یہ اعلان بھی کردیاہے کہ:
’’اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘۔(صفحہ ۳۴)
اور اس دعویٰ کی دلیل یہ دی ہے کہ :
’’جونبی آپؐ کے ہم عصر ہوگاوہ متبع شریعت محمدیہ کاہوگا‘‘۔ (صفحہ ۵۱)
اللھم صل علی محمد وآل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید
سبحان اللہ اللہ پاک درجات بلند کرے آمین
Aameen
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ تعالیٰ آپکو لمبی عمر دے دنیا میں اور آخرت میں کامیاب کرے آمین یارب العالمین
Allah o akber. Allah pak hameen dr sb k tarha quran ki samaj atta kare.
Aameen
Ameen
May Allah eternally bless dr.saheb.ameen
Thanks for not adding background music.
Exactly!
L
Nahi bhai background music 🎶 is awesome
Bilkul sahi
10 years phle kese music add krte bro 😂
Real Gem....
Love You sir.....
May Allah bestow You highest place in jannah
Ameen
@@yasminghani2073 !
سبحان الله وبحمده
Ameen
🌹 اللّٰہ❤️ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم 🌹
Allah pak Dr sab ko jana tu firdis Main aala muquam aata farmaye Ameen
اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔
اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید
Allah pak dr israr Sab ki maghfirat kre aur jannat main jaga de ameen
Allah Dr Israr Sahab ko behtreen muqaam atta karey Aameen
AZEEM INSAN
ALLAH TALLAH DR SAAB KE KHIDMAT QABOL FARMAYEN.AMEEN
اللہ پاک ڈاکڑ صاحب کو کروٹ کروٹ جنت دے💖آمین ثم آمین یارب العالمین💖
اللہ تعالیٰ جس پر اپنا فضل کر دیں، علم کا دریا جو بہتہ رہا ہے آج بھی لوگ اس دریا سے سیراب ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماہیں
Ameen
MASHA-ALLAH! WE ALL LOVE U SO SO MUCH. DR ISRAR AHMAD RAHMATULLAH LAI. ALLAH PAAK APKE OR HAMARE WALIDAIN OR USTADON OR SABKE DARJAAT BOHOT BOHOT BULAND FARMAIN. AAMEEN!
Mashallah no words are enough for Dr Israr Ahmed late . I am thankful toAllah Subhan wa Talah to make me Muslim Dr Sahib is always remains a Great guide for me Alhumdulillah and Jazak Allah for all who are sharing his video and audio Islamic lectures for our guidance.
L
سبحان الله وبحمده
❤
Dr sab jesa mufasir Zindagi me nahi dekha MASH ALLAH ❤
Nowhere to be found DR Asrar (ra)❤️❤️
DR.ISRAR SAHIB was very Greatest Scholar 🌹🌹🌹He Taught Us Very great knowledge of ISLAM 🌹🌹🌹May Allah Granted to him keep his Soul very upper portion of JUNNAH🌹🌹🌹
Hii
@@basharathussainkhan6277 hi
Ameen
SubhanAllah very knowledgeable Byan. May Allah Subhanatala give him Janat Firdose. Aameen
Bohot Khub doctor sahab....
Dr. Israr Ahmed Allah Apko Jannatul Firdous Ata Kare.
Allah pak Dr. Sab ko janat my aala moqam atta farmay
Ameen
Aameen
Subhàan allah
جزاك الله
الحمد لله
الله أكبر
Allah aapko jazaae khair de ke aapne Dr Israr sab ke bayaan ko bahut umdah tareeqe se pesh kiya Masha Allah
Dr, saheb ko allah tallaa janatul firdous atta kare.
میں نے یوٹیوب پر اپ کا ہی اسلامک چینل دیکھا ہے، جس نے بیک گراؤنڈ میوزک ایڈ نہیں کیا ہوا، ماشاءالله انتہائی خوش آئند عمل ہے ۔۔۔
خدا تعالیٰ آپ کو اجر دے آمین ۔۔۔
Alhamdulillah
When Allah gives you wisdom and knowledge 📚❤❤❤❤❤
JAZAKLLAH. ALLAH PAK Ap Ko JANNATE FERDOS ME BULAN MAKAM ATA FARMAE.AMEEN
Kamal insan thy Allah inky darjaat buland farm aye Ameen
بے شک بہت ہی عمدہ داعی تھے اللہ کی بہت رحمت رہی ان پر
MA SHA ALLAH kya knowledge hai ALLAH PAAK dr saab ko jannat main aala muqaam ataa farmaye
Allah jaza dae !!! darajaat buland karae ...MashaaAllah andaz biyan mugfarat ka subab ban jayae .Aameen
Aameen
Aameen
الله تعالى آپ پر رحمت فرمائے آمین؛
کتنا دلکش وعظ ہے ماشاء اللہ
May Allah bless him the highest place in Janna, Aameen
beshak
اللّٰہ پاک اسرار صاحب کی مغفرت نصیب فرمائے
Allah pak ap ki maghfirath kere AMEEN
Jinab izat maaf dr israr ahmad (rahimaullah) Allah apko jannat mai alaaa makaam de ameen
Allah Dr Sahab ko jannatul firdos me jaga de aamin
شاباش بہت اچھا کام کیا ۔۔کیسے ہوشیاری سے ان کے مذہب کا کچا چھٹا ادھر ادھر سے پتہ کر لیا کہ ان قادیانیوں کو اسلام سے کتنی دشمنی ہے۔۔منہ سے تو کلمہ پڑہتے ہیں ۔ لا الہ الا اللہ محمد آل رسول اللہ ۔۔اور نمازیں اور روزے اور پردہ اور قرآن ۔۔پر ہم کیوں مانیں ؟؟ جب تک ان کے دل چیر کے نہ دیکھ لیں ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ وہ سچ بول رہے ہیں ۔۔منہ سے وہ جو بھی کہیں ہم تو ان لوگوں کی ویڈیوز پر اعتبار کریں گے جو ان کے مخالف ہیں ۔۔کبھی قادیانیوں کی بات پر یقین نہ کرنا۔۔نہ کبھی خود ان کی ویب سائیٹ پہ جا کر ان کی کتابیں دیکھنا ۔۔ایسے ہی کہیں دل پر اثر ہو گیا تو دین وین نہ ہاتھ سے جاتا رہے۔۔
قادیانی مسلمان تھوڑی نا ہیں ۔۔محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے وقت میں ہوتا تھا کہ ہر کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہے۔۔اب تو وہ مسلمان ہوتا ہے جو جن کو یہ مولوی مسلمان کہیں یا پھر وہ مسلمان ہے جو قادیانیوں کے نبی کو گالی دے۔ ۔
بے شک وہ کہیں کہ ہم محمد کے دین پر ایمان لاتے ہیں اور درود پڑ ہیں ۔۔ہم مسلمان ان کی زبانیں نہ کاٹ دیں ؟؟؟ ہاں وہ اپنے آپ کو غیر مسلم کہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں پھر ٹھیک ہے ۔۔(یعنی جب تک وہ ہمارے نبی پاک کی تکذیب نہیں کرتے ہم چین سے نہ بیٹھیں گے۔؟؟؟ )
جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو عیسی دو ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا وہ ہی آئے گا امت محمدیہ کا مسیح بن کے تو ان قادیانیوں کی جرات کیسے ہوئی کہ ایک گندمی رنگ کے سیدھے کالے بالوں والے شخص کو مسیح موعود اور امام مہدی مان لیں ؟؟ بے شک بخاری شریف کے باب نزول عیسی مسیح میں لکھا ہے کہ مسیح ناصری کو جب نبی پاک نے معراج کی رات باقی فوت شدہ نبیوں کے ساتھ دوسرے آسمان پر دیکھا تو وہ سرخ رنگ کے اور گھنگریالے بالوں والے تھے اور چند صفحوں بعد مسیح محمدی یا مسیح دجال آپ صلی اللہ وسلم کو دکھایا گیا تو وہ گندمی رنگ اور سیدھے بالوں والا تھا۔۔۔چھو ڑو چھوڑو ۔۔مت سوچو کہ اس امت محمدیہ کے مسیح کا حلیہ مسیح ناصری سے الگ آپ صلی اللہ وسلم نے کیوں بتایا؟؟ عیسی ہی مسیح ہیں اور دو ہزار سال سے آسمان پر زندہ بیٹھے ہیں اور آپ نے ہی نازل ہونا ہے ۔۔قادیانیوں کا تو دماغ خراب ہے ۔۔سب مسلمان ان ہی کا انتظار کر رہے ہیں ۔۔بے شک ان کے آنے کا وقت تیرہویں صدی ہجری تھا ،بے شک وہ صرف سو سوا سو سال لیٹ ہیں ،بے شک مرزا صاحب قادیان کا دعوی عین وقت پر ہوا اور اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالی نے امام مہدی کی سچائی کی نشانی کے طور پر رمضان میں سورج اور چاند گرہن بھی 1894 میں لگا دیا ، اور اس وقت کوئی اور مدعی بھی مرزا صاحب کے سوا نہیں تھا پر ہم نہیں مانتے ۔۔۔قادیانی مرتد ہیں اور مرتد کی سزا تن سر سے جدا تن سر سے جدا،۔۔۔
Ma sha Allah great bayaan another
ALLAH pak doc saab ko jannat ul firdos main ala muqam ata farmay amin
Pop
Ameen
Your name 😹
Aameen
یا اللہ رحم فرما اپنے بندوں پر
آمین
Allah app ko zannat allfardoss attafarmae
کتنی حیرت کی بات ہے کہ قرآن میں سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ، کسی اور رسول کی وفات کا ذکر نہیں ۔۔ اور جس کا ہے اسی کو ماننا نہیں۔
@@NTameem Maryam 19:15
وَسَلَٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا
So Peace on him the day he was born, the day that he dies, and the day that he will be raised up to life (again)!
اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کرکے اٹھایا جائے.
The Birth of the Boy and His Characteristics
This also implies what is not mentioned, that this promised boy was born and he was Yahya. There is also the implication that Allah taught him the Book, the Tawrah which they used to study among themselves. The Prophets who were sent to the Jews used to rule according to the Tawrah, as did the scholars and rabbis among them. He was still young in age when Allah gave him this knowledge. This is the reason that Allah mentioned it. Because of how Allah favored him and his parents, He says,
﴾ييَحْيَى خُذِ الْكِتَـبَ بِقُوَّةٍ﴿
(O Yahya! Hold fast to the Scripture the Tawrah.) Means, "Learn the Book with strength." In other words, learn it well, with zeal and studious effort.
﴾وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً﴿
(And We gave him wisdom while yet a child.) This means he was given understanding, knowledge, fortitude, diligence and zeal for good and the pursuit of good. He was blessed with these characteristics even though he was young. Allah said,
﴾وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا﴿
(And (made him) Hananan from Us,) 19:13 Ali bin Abi Talhah reported that Ibn `Abbas said,
﴾وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا﴿
(And Hananan from Us, ) "This means mercy from Us." `Ikrimah, Qatadah and Ad-Dahhak all said the same. Ad-Dahhak added, "Mercy that no one would be able to give except Us." Qatadah added, "With it, Allah had mercy upon Zakariyya." Mujahid said,
﴾وَحَنَانًا مِّن لَّدُنَّا﴿
(And Hananan from Us,) "This was gentleness from His Lord upon him." The apparent meaning is that Allah's statement Hananan (affection, compassion) is directly related to His statement,
﴾وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيّاً﴿
(and We gave him wisdom while yet a child.) meaning, "We gave him wisdom, compassion and purity." This means that he was a compassionate man, who was righteous. Hanan means the love for affection and tenderness (towards others). Concerning Allah's statement,
﴾وَزَكَوةً﴿
(and Zakatan,) This is related to His statement,
﴾وَحَنَانًا﴿
(And Hananan) The word Zakah means purity from filth, wickedness and sins. Qatadah said, "The word Zakah means the righteous deed." Ad-Dahhak and Ibn Jurayj both said, "The righteous deed is the pure (Zakah) deed." Al-`Awfi reported that Ibn `Abbas said,
﴾وَزَكَوةً﴿
(and Zakatan,) "This means that he was a blessing."
﴾وَكَانَ تَقِيًّا﴿
(and he was pious.)19:13 meaning that he was pure and had no inclination to do sins. Allah said;
﴾وَبَرًّا بِوَلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً ﴿
(And dutiful to his parents, and he was not arrogant or disobedient.) After Allah mentioned Yahya's obedience to his Lord and that Allah created him full of mercy, purity and piety, He attached to it his obedience to his parents and his good treatment of them. Allah mentioned that he refrained from disobeying them in speech, actions, commands and prohibitions. Due to this Allah says,
﴾وَلَمْ يَكُن جَبَّاراً عَصِيّاً﴿
(and he was not arrogant or disobedient.) Then, after mentioning these beautiful characteristics, Allah mentions his reward for this,
﴾وَسَلَـمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَياً ﴿
(And Salam (peace) be on him the day he was born, and the day he dies, and the day he will be raised up to life (again)!) This means that he had security and safety in these three circumstances. Sufyan bin `Uyaynah said, "The loneliest that a man will ever feel is in three situations. The first situation is on the day that he is born, when he sees himself coming out of what he was in. The second situation is on the day that he dies, when he sees people that he will not see anymore. The third situation is on the day when he is resurrected, when he sees himself in the great gathering. Allah has exclusively honored Yahya, the son of Zakariyya, by granting him peace in these situations. Allah says,
﴾وَسَلَـمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَياً ﴿
(And Salam (peace) be on him the day he was born, and the day he dies, and the day he will be raised up to life (again)!) This narration was reported by Ibn Jarir, from Ahmad bin Mansur Al-Marwazi, from Sadaqah bin Al-Fadl, from Sufyan bin `Uyaynah
MA SHA ALLAH
Dr Israr Ahmed is Our Islamic hero in 20th century n all after❤
Mashaallah allah doctor sahab ko jannatul firdos m aala maqam ata frmaye
How luckyand blessed are these people, who are listening bayan from great dr israr sahab may allah give him highest place in jannat.
Drs explanation is beyond words... Love u sir
سبحان الله وبحمده
ALLAH pak Dr sab k darjat buland Farmay Ameen❤
اللہ اکبر
السلام علیکم
Beshak
Ma Sha Allah. May Allah grant him highest ranks in jannat ameen.
Ameen
Allah pak darjaaat buland farmaye... r Allah pak inkay ilmm sy hr muslim ko faiziyaab houna naseeb frmaye ameeeeeen❤
Allahu Akbar kabeeeera ☝️
What a beautiful lecture for all of us to understand.
SUBHAN ALLAH BASHAK HAK He SUCH He
Beshak o zannat me hai isa ale salam
Allah Pak hmari or doc. sahb ki Maghfiraat farmaye. Ameen!!!
Ameen
Suma ameen ya rábullallameen
Ameen
May ALLAH ALMIGHTY grant dr. Sb high ranks in jannah
What an influential scholar❣
سبحان الله وبحمده
Dr Israr was a real gem but unfortunately govt of Pak restricted such a jem from movement to spread Islamic knowledge and corrupt politicians roam like mad dogs
True
سبحان الله وبحمده
আল্লাহ আপনাকে জান্নাতুল ফেরদৌস দান করুন, আমিন।
Dr israr ahmed RH he is a one scholar rip heartily we miss a gem 😭😭😭😭😭😭 no words my pain
جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا كَثِيْرًا وَجَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ
Mountain of knowledge.
ALLAH talah hamin hadyat kamla pr istaqamat atta kre or neak amal krne ki tofiq de ameen ya Rab ul alameen
Aameen
الْسلام وعليكم ورحمة ألله وبركاته.."بسم الله ما شاء الله لا قوة إلا بالله"...بسم الله الرحمن الرحيم ..لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ....اللَّهُمَّ صَلِّي عَلَى مُحَمَّدٍ كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد...اَسْتَغْفِرُ اللهَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْهِ ... فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ... اللّٰہ سبحان و تعالیٰ ... جناب بانی پاکستان محمد علی جناح اور پروفیسر ڈاکٹراسرار صاحب مرحومکو "جنت الفردوس" میں اعلیٰ مقام جگہ عطا فرمائے .... انکی" قبر" کو "نور" سے بھر دے اور"جنت" کا حسیں باغ بنادے "آمین" ... انکی "لغزش خطاب" کو معاف فرمائے... جب "اطمینان کے" ساتھ آپکا یہ بیان سنتے ہیں تودل کو کتنا"سکون" ملتا ہے ... اللہ تعالی - ہم تمام مسلمانوںکو"سننے" سے زیادہ "عمل" کرنیکی توفیق عطا فرمائے .. آمین .. ثم آمین .. یا رب العالمین ... سبحان اللہ ، "سچ" کہہ گئے "سچے" لوگ ... اورانکی"دینی خدمات"- "درس و تدریس"-"جدوجہد"-"ویڈیوز" اور"فکر"کےذریعے ہماری "اصلاح"اورتمام مسلمانوںکو "فیضیاب" فرمائے...اورتمام"اُمت مسلمہ" کےگناہ معاف فرمائے..اے اللہ پاک... "منافقت" کی ہر"قول وعمل" سے ہماری حفاظت فرما-- اللّٰہ تعالیٰ-- ھم سبکو "سچی توبہ" کی توفیق عطا فرما .. اللہ تعالی- ہمیں "بےحیائی" اور"برے کاموں" سے بچا- آمین.. یا اللہ ہمیں"قرآنکی" سمجھ اور"عمل" کی توفیق عطا فرما... امین یارب العالمین ... "قائد اعظم محمد علی جناح" رح اور"ڈاکٹراسرار"صاحب جیسے"بندہ مومن" اور"عالم اسلامکی" بہت بڑی "نعمت".."ایسے"لوگ "صدیوں" بعد پیدا ہوتے ہیں.. جوہمارے"دلوں" میں ہمیشہ "زندہ" رہیںگے.. ماشااللہ -- جو"خزانہ" وہ "مسلمانوں" کیلئے چھوڑ گئے وہ "رہتی دنیا" تک قائم رہیگا... انشااللہ .. اللہ رب العزت انکے"درجات" بلند فرما - ڈھیروں"رحمتیں"اور بیشمار"برکتیں"نازل فرما- "روح" کو تازگی بخش"--"بخشش"اور" بہترین جزائے خیر" اور"اجرعظیم" سے نواز ۔۔ سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔۔۔ آمین .. آمین یارب العالمین ...
آمین يارب العالمين
آمین ثمہ آمین یارب العامین
جماعت احمدیہ کا عقیدہ فیضان ختم نبوت اور سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کا حیرت انگیز اعتراف حق
مولانا دوست محمد شاہد، مؤرخ احمدیت
قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (ولادت ۱۸۳۳ء وفات۱۸۸۰ء) کے پوتے تھے۔ دیوبندی حلقوں میں انہیں ’’حکیم الاسلام‘‘ کے خطاب سے یاد کیا جاتاہے۔ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان نے ان کا ایک مجموعہ تقاریر ’’خطبات طیب‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے ۔ کتاب کے دیباچہ میں ان کے کلام کو پانچ مرتبہ ’’الہامات‘‘ سے موسوم کیا گیاہے۔ ذیل میں اس مجموعہ تقاریر کے چند اقتباسات ہدیہ قارئین کئے جاتے ہیں جن سے جماعت احمدیہ کے نظریہ فیضان ختم نبوت کی تائید ہوتی ہے ۔
امتی نبی اور خاتَم النّبیین کے عکس کامل کے ظہور کی ضرورت
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا آنحضرت ﷺ کے بعد کسی امتی نبی اور آپ کے عکس کامل کی ضرورت ہے یانہیں۔ سواس کا جواب جناب قاری محمد طیب صاحب نے درج ذیل الفاظ میں دیاہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’ اگر خاتَم النّبیّین کے دور ۔۔۔میں ہمہ گیر کمالات کا ظہور ایک امر طبعی تھا تو اسی کے دور ۔۔۔ میں ان کمالات کی اضداد اور ہمہ انواع فسادات کا شیوع بھی ایک امر طبعی تھا اوراس لئے خاتم الدجالین کوبھی جو خاتم فسادات ہے خاتَم النٖبیّین ہی کے دور۔۔۔ میں خروج کرنا چاہئے تھا کہ اس کے عمیق دجل و فساد کا مقابلہ محض نبوت کی طاقت نہ کر سکتی جب تک کہ اس کے ساتھ خاتمیت کی بے پناہ قوت نہ ہو۔ نیز خاتم کمالات کی پوری پوری عظمت و شان اور روحانی قوت بھی اس وقت تک نہ کھل سکتی تھی جب تک کہ اس کے کمالات کی اضداد یعنی سارے ہی شر و فسادات اپنے پورے کروفر کے ساتھ اپنی آخری شخصیت خاتم الدجالین کے ہاتھ پر ظاہر ہو کر بری طرح شکست نہ کھا جائیں۔
ہاں مگر مقابلہ کی اگر یہ صورت ہوتی کہ دجال اعظم کو حضور کے زمانہ خیر میں ظاہر کرکے شکست دلا دی جاتی تو ظاہر ہے کہ فتح وشکست کا یہ مظاہرہ ناقص رہ جاتا کیونکہ نہ فسادات دجال ہی سب کے سب بتدریج نمایاں ہوسکتے او ر نہ کمالات نبوی ہی سب کے سب کھل کر انہیں شکست دے سکتے۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ خیرکے ہر ہر پہلو کی طاقت اور شر کے ہر ہر پہلو کی کمزوری کھلے بغیر ہی مقابلہ ختم ہو جاتا اور دنیا آخرت کے کنارے جا لگتی۔ حالانکہ خاتمیت سے مقصود تکمیل ہوتی ہے اور اسی لئے خاتم کو سب سے آخر میں لایا جاتاہے مگراس صورت میں کسی پہلو کی بھی تکمیل نہ ہوتی اور خاتموں کا آنا عبث ہو جاتا ۔ اس لئے دجال اعظم کوبھی قیامت تک موقعہ دیاگیا کہ وہ ہر ہر پہلو سے چھپ کر اورکھل کر فساد پھیلائے ۔ بواسطہ اور بلا واسطہ اپنی دجالیت سے دنیا میں تلبیس حق بالباطل کاجال پھیلائے تاکہ ایک دفعہ یہ ساری سے شرور اوراپنی سطحی چمک دمک کے ساتھ ظاہر ہو جائیں اور اپنا فروغ دکھلا کربے وزن قلوب کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔ اور ہر ختم نبوت کی طاقت کو بھی قیامت تک باقی رکھ کر موقعہ دیا گیا کہ وہ اپنی مخفی طاقتوں سے دجالی کرّ وفرّ کے پرخچے اڑاتی رہے۔ اگر یہ دجل و فساد علوم نبوی میں فتنۂ شہوات کھڑا کرے تو صبر و تحمل کے نبوی اخلاق سے اسے پسپا کر دے ۔ اگر تمدنی لائن میں فتنے برپا کرے تو سیاستِ نبوت آڑے آ کر انہیں ختم کردے ۔غرض جس رنگ میں بھی دجل وفساد ظاہر ہو اسی رنگ میں کمالاتِ نبوت اس کو دفع کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ فساد کی استعداد کامل ہو کر گویادجال اعظم کے ظہور کا تقاضا کرنے لگے اور ادھر صلاح و کما ل کی قابلیت بھی اپنادورہ مکمل کر کے اس کی کھلی شکست کی طلبگار ہو جائے تاآنکہ ختم نبوت اس خاتم دجّالین کو شکست دے کر ہمیشہ کے لئے دجل کا خاتمہ کردے۔
پس جبکہ خروج دجال زمانہ نبوی میں مناسب نہ ٹھہرابلکہ خاتمہ دنیا پرمناسب ہواتو پھر اب اس کے مقابلہ کی ایک صورت تویہ تھی کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کو خروج دجال کے وقت قبر مبارک سے تکلیف دی جاتی کہ آپ بنفس نفیس اس کے مفاسد کو مٹا ئیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ صورت شان اقدس سے فروتر تھی۔ اورآپ اس سے اعزواکرم تھے کہ آپ پر دوموتیں طاری کی جائیں یاایک دفعہ قبر مبارک سے نکال کر پھر دوبارہ قبر دکھلائی جائے ۔
آنحضرت ؐ کمالات نبوت کے خاتم بھی ہیں اور فاتح بھی
جناب قاری صاحب نے تحریر فرمایا:
’’سیرت کے ایک معنی ہیں کہ حضور ؐ کے فضائل، مناقب، بزرگیاں ، کمالات اور خصوصیات بیان کئے جاویں تا کہ ایمانوں میں تازگی پیدا ہو اور امت کو تسلی ہو کہ اللہ نے ہمیں ایسا پیغمبر عطا فرمایا کہ جو دنیا میں بے مثل ہے اور انبیاء میں بھی ان کی نظیر نہیں ۔ وہ افضل الانبیاء ہیں ۔ سیدالمرسلین ہیں۔ اس لئے ختم نبوت کا لفظ کافی ہے ۔ آپ ؐ فقط نبی ہی نہیں ہیں بلکہ خاتم الانبیاء ہیں ۔ تو خاتم کے لفظ میں سارے فضائل چھپے ہوئے ہیں اس لئے کہ خاتم اس کو کہتے ہیں جو منتہٰی ہو سارے کمالات کا کہ اگلے پچھلے جتنے بھی کمالات ہیں نبوت کے سب ایک ذا ت میں لا کر جمع کر دئے گئے ہیں اور انتہاء ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کمالات نبوت علمی ہوں یا عملی اپنے انتہائی عروج کے ساتھ آپ کی ذات مقدس میں جمع کر دئے گئے۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر یہی نہیں کہ آپ صرف امت کے نبی ہوں بلکہ آپ نبیوں کے بھی نبی ہیں اسی لئے آپ نے ایک حدیث میں بھی فرمایا اَنَا نَبِیُّ الاَنْبِیَاءِ کہ میں فقط امتوں کا ہی نبی نہیں ہوں بلکہ نبیوں کا بھی نبی ہوں کیونکہ قرآن کریم میں انبیاء سے بھی آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا ہے ۔فرمایا( وَاِذْاَخَذَ اللّٰہ مِیْثَاقَ النبِیّینَ لَما اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ و حِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤمِنُنّ بِہ وَلَتَنْصُرُنّہٗ ۔قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اصْرِی قَالُوااَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّاہِدِیْنَ) ۔ تمام انبیاء سے عالم ازل میں حق تعالیٰ نے عہد لیا کہ جب میں رسول آخرالزمان کو دنیا میں بھیجوں اس وقت اگر تم خود موجود ہو تو تم ان پر ایمان لاؤ ورنہ تم اپنی امتوں کو ہدایت کرو کہ وہ ایمان لائیں۔ اور اب ایمان لاؤ تو سارے انبیاء نے ایما ن قبول کیا اور ایمان لانے کا جسے مکلف کیاجائے وہی امتی ہوتاہے تو جب نبیوں پر بھی فرض کیا گیا کہ وہ ایمان لاویں گے تو گویا آپ پرایمان لانا بحیثیت امت کے ہوا، اسی لئے آپ ؐ نے فرمایا اَنَا نَبِیّ الاَنْبِیَائِ میں نبیوں کا بھی نبی ہوں۔یہ خاتم کے معنی ہیں جو خاتم النبیین میں ہے۔ یعنی تمام کمالات نبوت آ پ پر ختم ہیں۔ اور یہ ایک اصول کی بات ہے کہ جو وصف کسی چیز پر ختم ہوتاہے وہیں سے شروع بھی ہوتاہے ۔ اگر وہاں ختم نہ ہو تو شروع بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ مثال کے طورپر یوں سمجھئے کہ جیسے بجلی کے قمقمے پورے شہر میں روشن ہیں یہ سب ختم کہاں ہوتے ہیں؟ پاور ہاؤس پرجا کر ختم ہوتے ہیں، تو پاور ہاؤس کو ہی خاتم البروق کہیں گے کہ ا س پرساری بجلیوں کی انتہاء ہے یعنی وہ بجلیوں کا منتہا ہے ۔مگر وہ مبداء بھی تو ہے وہاں اگر بجلیاں نہ ہوں تو قمقموں میں کہاں سے آئیں گی۔ تو جہاں ختم ہوتی ہے چیز وہیں سے شروع بھی ہوتی ہے ۔ تو پاور ہاؤس پر اگر اختتام ہے بجلیوں کا تووہیں سے افتتاح بھی ہے۔ لاکھوں نل آپ کے گھروں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ا ن میں پانی آ رہاہے ۔ ان سب پانیوں کی انتہاء واٹرورکس پرہوتی ہے، سارے پانی وہیں جاکر ختم ہوجاتے ہیں تو وہ خاتم المیاہ کہلائے گا اور وہی فاتح المیاہ بھی کہلائے گا کیونکہ وہیں سے پانی شروع بھی ہوتاہے۔ اگروہاں پانی نہ ہو تو نلوں میں کہاں سے آئے گا اورکیسے آئے گا جیسے آپ یوں کہیں کہ آدم علیہ السلام سب کے باپ ہیں اور وہ خاتم الآباء ہیں یعنی باپ ہونا ان پر ختم ہے ان سے آگے کوئی باپ ہی نہیں۔ وہی آخری باپ ہیں۔ اسلئے وہ خاتم الآباء ہیں تو فاتح الآباء بھی تو وہی ہیں۔ وہ اگر باپ نہ بنتے تو ہم اور آپ کیسے ہوتے، بجلیاں جہاں ختم ہوئیں وہیں سے شروع بھی ہوئیں ، پانیوں کی انتہاء جہاں سے ہوئی ابتداء بھی وہیں سے ہوئی ۔ آپ یوں کہتے ہیں کہ ہم سب موجود ہیں۔ سب میں وجود ہے اور سب کے وجود کی انتہاء ذات حق پر ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ خاتم الوجود ہیں۔ آگے پھر وجود کاکوئی سلسلہ نہیں ہے تو وہی فاتح الوجود بھی ہیں ۔ وہیں سے وجودکا سلسلہ چلاہے ہم موجود ہیں ۔ وہاں وجود نہ ہو تو ہم اورآپ کیسے موجود ہونگے۔ تو جو وصف جس ذات پر ختم ہوتاہے اسی ذات سے شروع بھی ہوتاہے ۔ تو جب نبوت کے سارے کمالات آپ ؐ پر ختم ہو گئے ہیں اور آپؐ خاتم الکمالات ہیں تو فاتح الکمالات بھی تو آپ ؐہی ہیں۔ وہاں سے کمالات نہ چلتے تو انبیاء کوکیسے ملتے ،اولیاء کو کیسے ملتے تو اسلئے آپ ؐ فاتح بھی ہیں اور خاتَم بھی ہیں اسی لئے ایک حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا ’’اَنَا اَوَّلھُم خَلْقًا وَ آخِرُھُم ‘‘۔(صفحہ ۱۱۹ تا ۱۲۲)
۸۔ پھر دوسرے انبیاء تو ہمیشہ خواہش کرتے بلکہ دعا مانگتے رہے کہ خدا تعالیٰ ان کے متبعین کو بڑے روحانی درجات عطا فرمائے اور اپنے قرب سے انہیں نوازتا رہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں ہمارے سامنے ہیں لیکن نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو اعلان ہو گیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ اور بلند مرتبہ نصیب نہ ہوگا کیا یہی فضیلت ہے جو آپ کو عطا کی گئی، کیا یہی اعلیٰ درجہ ہے جو آ پ کی امت کے حصہ میں آیا؟ پہلی امتوں میں شہداء اور صدیقین کے علاوہ خدا تعالیٰ انبیاء بھی مبعوث فرماتا رہا لیکن اس امت میں شہداء اور صدیقین تو ہونگے مگر کسی فرد کو نبوت کے شرف سے نہ نوازا جائے گا۔ شیخ رشید رضا ’’ من یطع اللہ والرسول فاولٰئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’ ھذہ الاصناف الاربعۃ ھم صفوۃ اللہ من عبادہ و قد کانوا موجودین فی کل امۃ ۔ ومن اطاع اللہ والرسول من ھذہ الامۃ کان منھم و حشر یوم القیامۃ معھم۔ لانہ و قد ختم اللہ النبوۃ والرسالۃ لابد ان یرتقی فی الاتباع الیٰ درجۃ احد الاصناف الثلثۃ: الصدیقین والشھداء والصٰلحین‘‘۔ (تفسیر القرآن الحکیم جزء ۵ صفحہ ۲۴۷)
کہ یہ چار قسمیں (نبی ، صدیق ، شہید اور صالح) خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں اور یہ لوگ پہلی تمام امتوں میں موجود تھے اور اس امت میں جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرے گا وہ ان میں سے ہوگا اور قیامت کے دن ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو ختم کر دیا ہے اس لئے آئندہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک قسم تک ہی ترقی ہو سکے گی یعنی صدیق، شہید اور صالح تک۔
ہم پوچھتے ہیں کہ پھر امت اسلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ پھر کس وجہ سے اس امت کو خیر امت کہا جائے؟ جب ختم نبوت کے یہ معنی لئے جائیں کہ اس امت میں کوئی شخص نبی نہیں ہو سکتا آخر اسے کیوں بہترین امت تسلیم کیا جائے ۔ صرف دعویٰ ہی تو کافی نہیں ہو سکتا۔
تفاسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ، عیسائی بلکہ مجوسی اور عرب لوگ ہمیشہ اپنے دین کو زیادہ اعلیٰ قرار دیتے۔ لکھا ہے:
’’ افتخر اھل الادیان فقالت الیھود کتابنا خیر الکتب و اکرمھا علی اللہ و نبینا اکرم الانبیاء علی اللہ موسیٰ خلابہ و کلمہ نجیا و دیننا خیرالادیان و قالت النصاری عیسیٰ خاتم النبیین اتاہ اللہ التوراۃ والانجیل ولو ادرکہ محمد اتبعہ و دیننا خیرالدین و قالت المجوس و کفار العرب دیننا اقدم الادیان و خیرھا وقال المسلمون محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء و سیدالرسل‘‘۔ (تفسیر الدر المنثور جزء ۲ صفحہ ۲۲۶)
’’ یعنی مختلف ادیان کے لوگوں نے فخر کرنا شروع کیا۔ یہود نے کہا کہ ہماری کتاب (تورات) سب سے افضل ہے ۔ اللہ نے اس سے تخلیہ میں سرگوشیاں کیں اور کلام کیا، عیسائیوں نے کہا کہ عیسیٰ خاتم النبیین ہے اللہ نے اسے تورات بھی دی اور انجیل بھی، اگر محمد اس کا زمانہ پاتا تو اس کی پیروی کرتا اور ہمارا دین بہتر ہے اور مسلمانوں نے کہا کہ محمدؐ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور تمام رسولوں کے سردار ہیں‘‘۔
دیکھا، کیسے ہر مذہب کے پیرو اپنے دین کوافضل اور اعلیٰ قرار دیتے ہیں۔ پس خاتم النبین کے معنی ’’ تمام نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کئے جائیں تو خود نبی کریم ﷺ کی ہتک اور امت اسلام کی ایک قسم کی ذلت کاموجب ہیں کیونکہ ان معنوں سے لازم آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے گویا اعلان فرما دیا کہ میری امت میں سے کسی کو نبوت کا اعلیٰ منصب نصیب نہ ہوگا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ صدیق کا درجہ حاصل کر سکیں گے اور یہ کوئی ایسادرجہ نہیں جسے دوسری امتوں کے مقابل فخر کے ساتھ پیش کیا جا سکے، کیونکہ دوسری امتوں میں بھی شہید اور صدیق بکثرت ہوئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
Beshaq.allah.harchiz.par.qadeer.hai
MAA SHA ÄLLAH
Allah Almighty bless the departed soul of Dr israr Ahmed
Great scholar and philosopher of islam ma sha allah
ماشااللہ
Love u ❣️🥰
Allah nabi nek hote wali bhi nek hote hai zo allah ka hojaye sab nek hote
SubhanAllah,very interesting information thank you
Qur'an is Straight Word of Allah....there is No Ambiguity...
سَآءَ مَثَلَا ۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾
بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں ۔
(سورة الأعراف۔ 177)
او لعنتی مرزائی
اگر تو نے اپنے باپ کا دودھ پیا ہے تو میدان میں آجا
میں تیرے سور کی شکل والے گانڈو مرزے کو
منکر قرآن ثابت کرتا ہوں نہ کر سکا تو مرزے کنجر کو سچا مان لو نگا
آجا میدان بغیرت
Ameen ameen
Ilm ka samundar
Masha Allah so nice so proud of DR. Sahib Allah pak place him in jannet ameen ..so respact we love him .from UK. .