Ahmad Salman Poetry | احمد سلمان شاعری

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 11 ม.ค. 2024
  • Ahmad Salman Poetry | احمد سلمان شاعری
    ضرورتوں کے مطابق
    دعا بدلتے رہے!!!
    یہ لوگ خود نہیں بدلے
    خدا بدلتے رہے!!!
    وہ مطمئن تھے مگر
    اپنے گھپ اندھیرے میں!!!
    اور ایک ہم تھے کہ
    دیے پہ دیا بدلتے رہے!!!۔۔۔۔۔⁦✍🏻⁩😒😇
    یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا اور اس پہ چھائوں تلاش کرنا
    کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پہ پھر اپنے پائوں تلاش کرنا
    نکل کے شہروں میں آبھی جانا چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر
    بلندو بالا عمارتوں میں پھر اپنے گائوں تلاش کرنا
    کبھی تو بیئت فروخت کردی کبھی فصیلیں فروخت کردیں
    میرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کردیں
    وہ اپنے سورج تو کیا جلاتے میرے چراغوں کو بیچ ڈالا
    فرات اپنے بچا کے رکھے میری سبیلیں فروخت کردیں
    احمد سلمان❤️
    ملنے کے اور بچھڑنے کے مابین رہ گئے
    دل پر کسی کی یاد کے واوین رہ گئے
    خدا ہیں لوگ گناہ و ثواب دیکھتے ہیں
    سو ہم تو روز ہی روز حساب دیکھتے ہیں
    کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا
    یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں
    احمد سلمان
    جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے
    جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
    یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں
    وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے
    دلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں
    تمہاری باتوں کا ہر توقف جو بولتا ہے وہ شاعری ہے
    تمام دریا جو ایک سمندر میں گر رہے ہیں تو کیا عجب ہے
    وہ ایک دریا جو راستے میں ہی رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
    شاخ امکان پر، کوئی کانٹا اُگا، کوئی غنچہ کھلا، میں نے غزلیں کہیں
    4/1/20190 Comments
    شاخ امکان پر، کوئی کانٹا اُگا، کوئی غنچہ کھلا، میں نے غزلیں کہیں
    ایام ایذا گریزی میں جو بھی ہوا، میں نے ہونے دیا، میں نے غزلیں کہیں
    لوگ چیخا کئے، وہ جو معبود ہے، بس اسی کی ثناء، بس اسی کی ثناء
    میری شہ رگ سے میرے خدا نے کہا، مجھ کو اپنی سنا، میں نے غزلیں کہیں
    حبسِ بیجا میں تھی شہر کی جب ہوا، آپ جیتے رہے، آپ کا حوصلہ
    میں اصولوں وغیرہ کا مارا ہوا، مجھ کو مرنا پڑا، میں نے غزلیں کہیں
    کوئی دُکھ بھی نہ ہو، کوئی سُکھ بھی نہ ہو، اور تم بھی نہ ہو، اور مصرعہ کہیں
    ایسا ممکن نہیں، ایسا ہوتا نہیں، لیکن ایسا ہوا، میں نے غزلیں کہیں
    عشق دوہی ملے، میں نے دونوں کیے، اک حقیقی کیا، اک مجازی کیا
    میں مسلمان بھی، اور سلمان بھی، میں نے کلمہ پڑھا، میں نے غزلیں کہیں
    ​احمد سلمان
    جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
    جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
    وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
    انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
    اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
    جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
    وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
    پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
    وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
    جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
    #ahmadsalman #poetry #urdupoetry

ความคิดเห็น • 8

  • @tashiezaheer
    @tashiezaheer หลายเดือนก่อน +1

    احمد سلمان ایک عمدہ شاعر ہیں

  • @1957raza
    @1957raza วันที่ผ่านมา

    Wonderful poetry ❤❤❤❤❤

  • @jazibjahangir
    @jazibjahangir 26 วันที่ผ่านมา

    Kya lab o lehja h wahh kya shayari h

  • @syedliaquatali6835
    @syedliaquatali6835 18 วันที่ผ่านมา

    Excellent poetry Masha Allah

  • @ashrafhayat3177
    @ashrafhayat3177 หลายเดือนก่อน +2

    I am not sure if the background music adds any value to the listening of Ahmad Salmans poetry. The originality and depth of his thoughts are sufficient attraction. No need to embellish the post. For me, the music is a distraction.

  • @AvnishTheGoat
    @AvnishTheGoat 13 วันที่ผ่านมา

    Background music name