Pentagon Press Secretary U.S. Air Force Maj Gen Ryder Briefs Hurricane Helene Relief Efforts

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 1 ต.ค. 2024
  • Pentagon Press Secretary U.S. Air Force Maj. Gen. Pat Ryder briefs the news media on DoD’s work to support disaster relief efforts in North Carolina.
    ---------------
    Your military is an all-volunteer force that serves to protect our security and way of life, but Service members are more than a fighting force. They are leaders, humanitarians and your fellow Americans. Get to know more about the men and women who serve, who they are, what they do, and why they do it.
    For more on the Department of Defense, visit: www.defense.gov
    ---------------
    Keep up with the Department of Defense on social media!
    Like the DoD on Facebook: / deptofdefense
    Follow the DoD on Twitter: / deptofdefense
    Follow the DoD on Instagram: / deptofdefense
    Follow the DoD on LinkedIn: / deptofdefense

ความคิดเห็น • 9

  • @WhoKnowsWhatTheirDoing
    @WhoKnowsWhatTheirDoing 6 ชั่วโมงที่ผ่านมา

    There will be peace on Earth

  • @Rev17thru22
    @Rev17thru22 14 ชั่วโมงที่ผ่านมา

    Military should oversee the upcoming elections 🇺🇸

  • @fujironakombi-m1l
    @fujironakombi-m1l 2 นาทีที่ผ่านมา

    Why didn't you confront the Rvssian jet in Alaska?
    🇺🇲🐔🇺🇲🐔🇺🇲🐔

  • @jameswhite1319
    @jameswhite1319 15 ชั่วโมงที่ผ่านมา

    Www 3 coming

  • @ShannonNunn-s6f
    @ShannonNunn-s6f 10 ชั่วโมงที่ผ่านมา

    X7.14 flare

  • @fujironakombi-m1l
    @fujironakombi-m1l 2 นาทีที่ผ่านมา

    HOLYWOOD PROPAGANDA

  • @gnabiumrani
    @gnabiumrani 9 ชั่วโมงที่ผ่านมา

    کیا کہوں اب کی کیسی ہے برسات
    جوش باراں سے بہہ گئی ہے بات
    بوند تھمتی نہیں ہے اب کی سال
    چرخ گویا ہے آب در غربال
    وہی یکساں اندھیر برسے ہے
    آسماں چشم وا کو ترسے ہے
    ماہ و خورشید اب نکلتے نہیں
    تارے ڈوبے ہوئے اچھلتے نہیں
    آب بن کوئی بولتا ہی نہیں
    آسماں دیدہ کھولتا ہی نہیں
    چرخ تک ہوگیا ہے پانی جو
    ماہ و ماہی ہیں ایک جا ہر دو
    لے زمیں سے ہے تا فلک غرقاب
    چشمۂ آفتاب ہیں گرداب
    خشک بن اب کی بار سبز ہوئے
    موش دشتی کے خار سبز ہوئے
    ابر کس کس سیاہ مستی سے
    ہوتے جا ہیں بلند پستی سے
    لڑکوں نے کی زمانہ سازی ہے
    خاک بازی اب آب بازی ہے
    ابر کرتا ہے قطرہ افشانی
    پانی پانی رہے ہے بارانی
    تنک آبی سے جان مت اغراق
    ڈوبنے پر ہے کشتی آفاق
    عقل مینہوں نے سب کی کھوئی ہے
    بات باراں نے یاں ڈبوئی ہے
    کیسا طوفان مینھ چھایا ہے
    زخم دل نے بھی آب اٹھایا ہے
    بیٹھے اٹھتے نہیں ہیں بام و در
    یہ خرابی ہے شہر کے اندر
    سقف آماج بوند پیکاں ہے
    مینھ ہے یاکہ تیر باراں ہے
    جیسے دریا ابلتے دیکھے ہیں
    یاں سو پرنالے چلتے دیکھے ہیں
    ابر رحمت ہے یاکہ زحمت ہے
    ایک عالم غریق رحمت ہے
    لے گئے ہیں جہان کو سیلاب
    نقشہ عالم کا نقش تھا برآب
    نہ ہے جلسہ نہ ربط یاراں ہے
    شہر میں ہے تو باد و باراں ہے
    روز و شب یاں ہمیشہ جھمکا ہے
    ان دنوں رنگ برق چمکا ہے
    بڑی بوندوں کی چوٹ سے ڈریے
    سنگ باراں جہاں ہو واں مریے
    پڑھتے ہیں یار درس حیرانی
    آرسی کے بھی گھر میں ہے پانی
    آدمی ہیں سو کب نکلتے ہیں
    مردم آبی پھرتے چلتے ہیں
    کتے ڈوبے گئے کہاں ہیں اب
    سگ آبی ہی ہیں جہاں ہیں اب
    وسعت آب پوچھ مت کچھ یار
    کوچے موجوں کے ہوگئے بازار
    معبد اب سارے گرتے آتے ہیں
    زاہد خشک ڈوبے جاتے ہیں
    تھا ٹھہرنا برابر ان کے شاق
    مسجدوں میں کیا ہے استغراق
    مینھ تو یاں لگے ہی رہتے ہیں
    سارے عالم کے کان بہتے ہیں
    غرق ہے چڑیا اور گلہری ہے
    خشکی کا جانور بھی بہری ہے
    مینھ ازبسکہ بہبہا ہے گا
    اک جہاں کو ڈبو رہا ہے گا
    تر ہیں جو خشک اور تروں میں ہیں
    جانیں اک سوکھتی گھروں میں ہیں
    شعر کی بحر میں بھی ہے پانی
    بہتی پھرتی ہے اب غزل خوانی
    لائی بارندگی کی چالاکی
    آب خشک گہر پہ نمناکی
    ہے زراعت جو پانی نے ماری
    ہوگئی آبخست ترکاری
    آب ہے گا جہاں کے سر تا سر
    خوف سے سوکھتا ہے میوۂ تر
    مست ہو ہوگئے ہیں مست شراب
    غوطے کھاتے پھرے ہیں عالم آب
    مستی ہے اب جو چاہیں سیر آبی
    بط مے تو ہوئی ہے مرغابی
    جتنی قحبائیں خشک تھیں مشہور
    ان کی فرجوں سے سیل ہیں محشور
    بھینگ خشتک انھوں کی تھیلا ہے
    یہ خرابہ برے میں پھیلا ہے
    دست غم اس قدر بہ طغیاں ہے
    کہ ہر اک گوشہ بیچ طوفاں ہے
    سیل دیکھے ہیں کوہساراں کے
    لیے کشتی گدا ہیں باراں کے
    جزر و مد جس کا تا فلک جا ہے
    جو ہے تالاب قہر دریا ہے
    ہر طرف ہیں نظر میں ابر سیاہ
    پانی ہے جس طرف کو کریے نگاہ
    سیل ہا در رکاب دیدۂ ماست
    چشم تا کار می کند دریاست
    پانی عالم کے تا بہ سر ہے گا
    خشک مغزوں کا مغز تر ہے گا
    خضر کیوں کرکے زیست کرتا ہے
    آب حیواں میں پانی مرتا ہے
    لکھے کیا میرؔ مینھ کی طغیانی
    ہوگئی ہے سیاہی بھی پانی