Bilkul bhi aap ki baat se aaj sahmat nhi mere bhai...Bhla dadi jo Allah k fazal se hi bd rhi ho to wo bhla kese gair fitrati ho sakti h...Ha muchhe agar ese bd rahi ho to unka hukm hadees me moujud h....Lekin jis k bare me rasulullah saw ka hukm or unki mohar hadees me moujud ho qaba k rab ki qasam mujhe nhi lgta ki us pr fatwe ki jarurat ho...
( والحديث سكت عنه المنذري: عون المعبود شرح سنن أبي داود: (4 / 136) یعنی ہم(صحابہ) صرف حج یا عمرے کے موقع پر داڑی کٹاتے تھے۔ اس حدیث کی سند پر ابو زبیر کی تدلیس کا اعتراض ہے،لیکن ہم دیگر صحابہ کرام عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،سیدنا ابو ہریرہ وغیرہم کے عمل کو اس حدیث کی سند کے لیے شاہد بنا سکتے ہیں۔مزید اس حدیث کی سند کی صحت کے لیے یہ آثار بھی دلیل ہیں: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح ) تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔ محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں: حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن ) محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں: ''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة:(8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح ) وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔ اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان حضرات نے دیدہ دانستہ حدیث کے خلاف کیا نعوذ باللہ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو ر سول للہ ﷺ کی حدیث نہیں پہنچی تھی۔ (کیونکہ وہ تو خود ہی روایت کرتے ہیں)اس صورت میں سوائے اس کے کہ ان کے فعل او ر روایت میں تطبیق دی جائے،اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ جن احادیث میں داڑیوں کو بڑھانےاور پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان احادیث کے راویوں میں عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن جابر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کے نام قابل ذکر ہیں اور ان تمام صحابہ کرام سے بسند صحیح مشت سے زائد داڑی کٹانا ثابت ہے۔ کیا داڑی کے معاملے میں صحابی کا عمل حجت ہے؟ میرے خیال میں یہی وہ اہم بات ہے جس کو سمجھنا انتہائی اہم ہے،صحیح بات تو یہی ہے کہ شریعت میں کسی صحابی کا کوئی عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی قول شریعت سازی کر سکتا ہے۔لیکن یہاں بات نہیں ہے کہ صحابی کا قول و فعل حجت ہے یا نہیں ہے،بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا فہم اور معنی معتبر ہے،وہ فہم جو چودہویں پندروھویں صدی کا ایک عالم پیش کرکرہا ہے یا وہ فہم جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت ہے؟ ہم تو وہی فہم معتبر سمجھتے ہیں جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت اور قابل اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے،ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی،تابعی یا تبع تابعی سے بسند صحیح نے ایک مٹھی سے زائد داڑی کٹوانے کو حرام یا ناجائز قرار نہیں دیا۔ حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: خلاصہ کلام یہ ہے کہہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ سلف کاخلاف جائز نہیں ہے،کیوں کہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے۔(فتاوی اہل حدیث:111/1 اہم فوائد: راوی کی روایت کو لیا جائے گا اور اس کی رائے کو ترک کردیا جائے گا:''العبرة برواية الراوي لا برأيه'' بعض علماء فقہ کے اس اصول کویک مشت سے زائد ڈاڑھی کے کاٹنے پر لاگو کرتے ہیں،حالاں کہ یہ اصول اس جگہ نافذ نہیں ہوتا کیوں یہاں راوی کی رائے نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام نے شریعت کی مراد کو ہم تک اپنے فہم وعمل کے ذریعے پہچایا ہےاور یہ ایک صحابی کا فہم وعمل نہیں ہے بلکہ ان تمام(چاروں) صحابہ کرام کا فہم وعمل ہے جو ڈاڑھی کی حدیث کے رواۃ ہیں،کیا ان تمام صحابہ نے اس روایت کو بیان کرکے اس کی مخالفت کی ہے،کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام ایک عمل کو رسول اکرم سے بیان کریں کہ یہ مجوس اور مشرکین کا عمل ہے اور پھر خود ہی حج و عمرہ کے مقدس موقع پر مجوس و مشرکین کے اس عمل کو انجام دیں اور مستزاد یہ کہ وہ سنت پر تمام صحابہ سے بڈھ کر عمل کرنے والے ہوں،ان پر کوئی نکیر بھی نہ کرے،جب کہ کبار صحابہ کرام بھی وہاں موجود ہوں،ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی یا تابعی سے اس کام کی نکیر یا حرمت ثابت نہیں ہے۔جب کہ اس برعکس متعدد صحابہ اور تابعین کی رائے موجود ہے۔ فائدہ: اگر کسی صحابی کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنا حرام ہے،بعض علماء کرام نے سیدنا علی کے حوالے سے لکھا ہے ان کی ڈاڑھی بہت لمبی تھی،لیکن ہمارے علم کے مطابق سیدنا علی سے یہ بات صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں کہ ان کی ڈاڑھی بہت لمبی تھی۔ بعض علمائے کرام نے سیدنا عمر بن خطاب کے تین طلاقوں کے نفاذ کے معاملے دلیل بنا کر یہ کہا کہ اگر ہم ڈاڑھی کے مسئلہ میں صحابہ کرام کی رائے کو تسلیم کر رہے ہیں تو ہمیں سیدنا عمر بن خطا ب تین طلاقوں کے نفاذ کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے،ہم یہ کہتے ہیں ڈاڑھی کے کاٹنے کے مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ وہ ایک جز وقتی تعزیری معاملہ تھا،اس تعزیر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس عمل سے باز آجائیں۔تین طلاقوں کو نافذ کرتے وقت خلیفہ راشد اور دیگر اصحاب کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گیااورعملی طور اس کا وقوع رسول اللہ کے دور میں ابن رکانہ کی طلاق کی صورت میں ہوگیا تھا۔ کیا شارحین حدیث میں سے کسی شارح نے اعفاء اللحیہ کو مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ کے مسئلے پر قیاس کیا ہے۔برصغیر کے اہل حدیث علماء داڑھی کاٹنے کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے ایسی چیزوں کو دلیل بناتے ہیں جنھیں اس دور سے پہلے کبھی کسی نے بھی دلیل نہ بنایا ہو۔ اسی طرح عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کا جواز( ان سے اس کی حرمت بھی ثابت ہے) اور سیدنا ابو ہریرہ کا کتے کےچاٹے ہوئے برتن کو تین بار دھونے سے پاک قرار دینا،سیدنا عمر بن خطاب کا حج قران سے منع کرنا(حالاں کہ اس معاملے میں عبد اللہ بن عمر کی نکیر بھی موجود ہے)سیدہ عائشہ کا سفر میں چار رکعتیں پڈھنا( جب کہ سفر میں قصر نہ کرنا بھی جائز ہے) اور ان کا بلوغت کے بعد رضاعت کو ثابت کرنا،یہ تمام مسائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تفردات ہیں،ان تفردات کو ڈاڑھی کے راویوں کے اجتماعی فہم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ فقہی قاعدہ:(part5)
حافظ ابن حجر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے: (فتح الباري شرح صحيح البخاري:657/6 ) علامہ ہیثمی نے بھی اس حدیث کے رواۃ کے بارے لکھا ہے: ''رجاله ثقات'' (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 / 272 : امام زرقانی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: ''إسناد حسن'' ( شرح الزرقاني على الموطأ:(4 / 439) محمد بن صالح العثیمین اس حدیث کی سند کے بارے میں رقم طراز ہیں: وهذا الحديث يختلف حكمه بسبب الاختلاف في يزيد الفارسي ، فذهب علي بن المديني وأحمد بن حنبل إلى أنه هو نفسه يزيد بن هرمز الثقة یزید فارسی کے اختلاف کی وجہ سے اس حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے متعلق اختلاف ہے،لیکن جناب علی بن مدینی اور امام احمد بن حنبل کا ماننا ہےکہ اس راوی سے مراد یزید بن ہرمز ثقہ راوی ہے۔ اسی طرح امام ابو حاتم نے اس راوی کے متعلق لا بأس به کہہ کر اس کی جہالت کو ختم کر دیا ہے: ذهب إليه أبو حاتم في " الجرح والتعديل " (9/293) من قوله فيه : لا بأس به) بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے مندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سے اس حدیث کا معنی درست قرار پاتا ہے۔ محمد بن صالح عثیمین رسول اللہ کی داڑی مبارک کی مقدار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: أن لحيته الشريفة عليه الصلاة والسلام لم تكن طويلة تملأ صدره ، بل تكاد تملأ نحره ، والنحر هو أعلى الصدر ، وهذا يدل على اعتدال طولها وتوسطه (فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی:147167 آپ علیہ السلام کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی جو سینے کو ڈھانپ دیتی ہو بلکہ آپ کی داڑی اتنی کہ جو سینے کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی داڑی معتدل اور متوسط تھی۔ امام طبرانی ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی:224ھ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی بیان کرتے ہیں: أن تكون ''اللحية غير دقيقة ، ولا طويلة ، ولكن فيها كثاثة من غير عِظَمٍ ولا طول ( المعجم الكبير " (22/159) یعنی آپ کی داڑی نہ کم بالوں والی تھی اور نہ لمبی تھی،بلکہ اس میں گھنے بال تھے جو بڑے اور لمبے نہ تھے۔ امام ابو العباس قرطبی آپ کی داڑی مبارک کے متعلق رقم طراز ہیں: ''لا يفهم من هذا - يعني قوله ( كثير شعر اللحية ) - أنه كان طويلها ، فإنَّه قد صحَّ أنه كان كثَّ اللحية ؛ أي : كثير شعرها غير طويلة ". ''المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم " (6/135) آپ کی داڑی کے بال زیادہ تھے اس بات سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کی آپ کی داڑی لمبی تھی، یہ بات تو بکل درست ہے کہ آپ کی داڑی کے بال گھرے تھے،یعنی زیادہ بالوں والی جو لمبی نہ تھی۔ حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں: فِيهَا كَثَافَة واستدارة وَلَيْسَت طَوِيلَة آپ کی داڑی میں گھنے بال اور گولائی تھی اور آپ کی داڑی لمبی نہیں تھی۔ (فتح الباری:178/I علامہ ابن منظور افریقی رسول اللہ کی داڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:أنه كان كث اللحية : أراد كثرة أصولها وشعرها وأنها ليست بدقيقة ولا طويلة ، وفيها كثافة آپ گھنی داڑی والے تھے،اس سے راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ کی داڑی میں بہت زیادہ بال تھے، آپ کی داڑی باریک اور لمبی نہیں تھی،آپ کی داڑی میں کثافت تھی۔ 179/2 امام سیوطی آپ کی داڑی کے متعلق لکھتے ہیں: الكثوثة أن تكون غير دقيقة ولا طويلة ولكن فيها كثافة ) الديباج على مسلم ( 3/160) کثافت کا معنی یہ ہے کہ آپ کی داڑی لمبی اور باریک نہیں تھی۔ بلکہ بالوں سے بھری ہوئی تھی۔ علامہ مناوی فیض القدیر میں رقم طراز ہیں: كثيف اللحية لا دقيقها ولا طويلها ، وفيها كثافة۔( فيض القدير 5/81)(part 3)
جو داڑی مشت سے زائد ہو اسے کاٹ دیا جائے۔ ابو بکر خلال نے لکھا ہے کہ اسحاق بن حنبل کہتے ہیں: سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنِ الرَّجُلِ يَأْخُذُ مِنْ عَارِضَيْهِ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا فَضُلَ عَنِ الْقَبْضَةِ.قُلْتُ: فَحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:((أَحِفُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى)) ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنْ طُولِهَا وَمِنْ تَحْتِ حَلْقِهِ. )الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد بن حنبل ،ابو بکر الخلال:ص:130 میں نے امام احمد سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے آپ کیا خیال ہے جو اپنی داڑی کو کاٹتا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا:جو داڑی قبضے سے زائد ہو وہ اسے کاٹ سکتا ہے،جناب اسحاق نے بیان کیا ہے کہ میں نے کہا کہ حدیث رسول تو یہ ہے کہ مونچھوں کو پست کرو اور داڑیوں کو بڈھاؤ تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑی کو لمبائی اور اپنے حلق کے نیچے سے کاٹا کرتے تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اس بارے میں رقم طراز ہیں: وأما إعفاء اللحية، فإنه يترك، ولو أخذ ما زاد على القبضة لم يكره، نص عليه'' ( شرح العمدة في الفقه :1/236) داڑی کو بڈھانے کا تقاضا یہ ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر ایک مشت سے زائد داڑی کو کاٹ لیا جائے تو یہ جائز ہے،کیوں کہ اس پر نص موجود ہے۔ داڑی اور اہل حدیث علماء اسی طرح موجودہ دور کے اہل حدیث حضرات کے اکابرعلمائے کرام کے فتاویٰ میں بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانے کی صراحت مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو: فتاویٰ نذیریہ میں شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا محمد نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں: ”داڑھی کا دراز کرنا بقدر ایک مشت کے واجب ہے، بدلیل حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے،کما سنتلوا علیکاور داڑھی کا منڈوانا، ایک مشت سے کم رکھنا یا خشخشی بنانا حرام ہے اورموجبِ وعید ہے۔“ (آگے احادیث تحریر ہیں اور آخر میں چار علماء کے دستخط ہیں)۔ (فتاویٰ نذیریہ، کتاب اللباس والزینة:3/359،اہل حدیث اکادمی، لاہور، طبع دوم:1971ء) فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں: سوال: داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟ جواب: حدیث میں آیا ہے کہ ”داڑھی بڑھاوٴ“ جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوا دینا جائز ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کانٹ چھانٹ کر دیتے تھے۔ (فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کس قدر لمبی رکھنی ضروری ہے؟ :2/123،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء) اسی کتاب میں ایک مشت سے زائدڈاڑھی کٹوانے کو واجب لکھا ہے، ملاحظہ ہو: ”حاصل یہ کہ سلف صالحین، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کو بڑھنے دینا، حلق وقصر وغیرہ سے تعرض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباعِ سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوّہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو، سادھو وسکھ وغیرہ، جن کا شعار باوجود افراطِ شعر لحیہ عدمِ اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکوں کی موافقت سے خلافِ سنت، بلکہ بدعت ثابت ہو گی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں“۔ (فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کا رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟ :2/138،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء) صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں ۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔۔ حافظ زبیرعلی زئی داڑھی کے بارے میں اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا اور قینچی نہ لگانا افضل ہے تاہم ایک مشت سے زیادہ کو کاٹنا جائز ہے۔واللہ اعلم۔ (موطاامام مالک،صفحہ 605) شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں: گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔ (اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک ) ’’داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت ﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے۔ ‘‘ حضرۃ العلام مفتی عبید اللہ عفیف خان صاحب سے سوال ہوا کہ داڑھی کی مقدار طول کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ کم از کم ایک مٹھی ڈارھی رکھنا واجب ہے،اس سے کم داڑھی رکھنامونڈوانے کے مترادف ہے۔ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں:داڑھی منڈوانا اور مٹھی سے کم داڑھی کو کتروانا فسق ہے اور داڑھی منڈوانے والا فاسق ہے۔ (فتاوی محمدیہ،ص:758-759)(part9)
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔ محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں: حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن ) محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں: ''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة:(8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح ) وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔ جلیل القدر تابعی جناب امام طاؤوس بھی(مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے قائل تھے۔ (الترجل للخلال:ص:96،سنده صحيح) سيدنا ابو بكر كے پوتےقاسم بن محمد بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور(مشت سے زائد) داڑی کے بال کاٹتے تھے۔ (ابن ابی شیبہ:رقم الحدیث:25476،سندہ صحیح) محمد بن کعب القرظی نامور تابعی اور ثقہ عالم حج میں داڑی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری:109/17،سندہ حسن) ابن جریج بھی اس کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری:110/17،سندہ صحیح) اور موطا امام مالک میں ہے: ائمہ اربعہ اور داڑی: وقد روى ابن القاسم عن مالك: لا بأس أن يؤخذ ما تطاير من اللحية وشذ ، قيل لمالك فإذا طالت جدا قال : أرى أن يؤخذ منها وتقص (المنتقى شرح الموطأ:حديث رقم :1488) جناب ابن قاسم نے امام مالک سے بیان کیا ہے کہ زیادہ بڈھی ہوئی داڑی کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔امام مالک سے سوال ہوا جب داڑی بہت زیادہ بڑی ہو جائے تو ؟انھوں جواب دیا کہ میرے خیال میں اس کو کاٹ دیا جائے۔ جناب قاضی عیاض کا قول ہے: أما الأخذ من طولها و عرضها فحسن (الإكمال في شرح مسلم:1/120) جہاں تک داڑی کے طول و عرض سے کاٹنے کا مسئلہ ہے تو یہ پسندیدہ ہے۔ امام ابو یوسف نے جناب ابراہیم نخعی سے ان کو قول نقل کیا ہے: لا بأس أن يأخذ الرجل من لحيته مالم يتشبه بأهل الشرك۔(كتاب الأثر:ص:235) جتنی مقدار سے اہل شرک سے مشابہت نہ ہو تو اتنی مقدار میں داڑی کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور دیگر احناف کا بھی داڑی کو کاٹنے کے حوالے سے یہی موقف ہے، بلکہ ایک مشت داڑی کاٹنے کو سنت لکھا ہے: ''القص سنة فيها '' (الفتاوى الهندية)(5/358) امام شافعی نے الام میں داڑی کو کاٹنے کے بارے میں لکھا ہے: ''فمن توضأ ثم أخذ من أظفاره ،ورأسه و لحيته، و شاربه، لم يك عليه إعادة وضوء، وهذا زيادة نظافة و طهارة'' (الأم :1/21) جس نے وضو کیا اور پھر اس نے اپنے ناخن،سر، داڑی اور مونچھوں کے بال کاٹے،اس پر دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ تو مزید طہارت و صفائی ہے۔ حافظ ابن حجر نے تو امام شافعی کے بارے یہاں تک لکھا ہے: الشافعي نص على استحبابه الأخذ منها في النسك (فتح الباري)(10/350) امام شافعی نے حج و عمرہ کے موقع پر(یک مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے مستحب ہونے پر نص بیان کی ہے۔ علامہ ذہبی نے ابو ابراہیم مزنی سے بیان کیا ہے: مَا رَأَيْتُ أَحْسَنَ وَجْهاً مِنَ الشَّافِعِيِّ -رَحِمَهُ اللهُ- وَكَانَ رُبَّمَا قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَلاَ يَفْضُلُ عَنْ قَبْضَتِهِ میں نے امام شافعی کے چہرے سے زیادہ خوب صورت چہرہ نہیں دیکھا،وہ بعض اوقات اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے تھے تو وہ ایک مٹھی سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ جناب ابن ہانی نے امام احمد بن حنبل سےلکھا ہے: ''الأخذ بما زاد عن القبضة '' (ابن هاني في مسائله للأمام أحمpart 8)
یعنی آپ کی داڑی گھنی تھی جو باریک اور لمبی نہ تھی،اس میں بال بہت زیادہ تھے۔ یہ دلائل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی مبارک معتدل و متوسط تھی،اس لیے آپ کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔ اور جن روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ڈاڑھی مبارک لمبی تھی وہ ساری ساری کی ضعیف ہیں،اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جناب محمد بن صالح العثیمین رقم طراز ہیں: (وأما وصف لحيته صلى الله عليه وسلم بأنها كانت تملأ صدره الشريف عليه الصلاة والسلام : فهذا لم نقف عليه مسندا مأثورا) اور جہاں تک رسول اکرم کی ڈاڑھی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ اتنی لمبی تھی کہ آپ کے سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی،اس بارے میں ہمیں کوئی مستند چیز نہیں ملی۔ ) فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی: 147167 آثار صحابہ و تابعین: قربانی کرنے کے بعد سر کے بالوں کے ساتھ ساتھ داڑی کے مشت سے زیادہ بالوں کو بھی کاٹا جائے گا،اس کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عباس کی وہ تفسیر ہے جو انھوںولیقضو تفثهم کی تفسیر کرتے ہوئے کی ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں: حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29) قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي. سیدنا عبد اللہ بن عباس سے اللہ تعالی کے اس فرمان {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔ ( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح) عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار) (معانی القرآن للنحاس: 4/400)(سنده صحیح) ثنا هشيم، قال: أخبرنا عبد الملك بن ابی سلیمان، عن عطاء، عن ابن عباس، أنه قال، في قوله: (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) قال: التفث: حلق الرأس، وأخذ من الشاربين، ونتف الإبط، وحلق العانة، وقصّ الأظفار، والأخذ من العارضين، ورمي الجمار، والموقف بعرفة والمزدلفة. تفسیر الطبری:612/18،سنده صحیح) أَبُو بَكْرٍ ابن ابی شیبة قَالَ: نا عبد الله ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «التَّفَثُ الرَّمْيُ، وَالذَّبْحُ، وَالْحَلْقُ، وَالتَّقْصِيرُ، وَالْأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ وَالْأَظْفَارِ وَاللِّحْيَةِ» مصنف ابن ابی شیبة:429/3،15673سنده صحيح،سلسلة الأحاديث الضعيفة،376/5رقم الحديث: 2355، گویا کہ سیدناعبد اللہ بن عباس کے نزدیک قربانی کرنے کے بعد سر منڈوایا جائے گا، یاسر کے کچھ بال کاٹے جائیں گے،اس کے ساتھ ساتھ داڑی کے مشت سے زائد بال،مونچھ کے بال اور زیر ناف بال بھی کاٹے جائیں گے،رمی،جانور ذبح کرنااور ناخن کاٹنا وغیرہ بھی تفث میں شامل ہے۔ یہ عبد اللہ بن عباس سے تفث کی منقول تفسیر ہےاور اس کی سند بھی صحیح ہے،امت مسلمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "ترجمان القرآن" کا لقب دیا ہے، آپ کی فضیلت میں بیان ہوئی صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا: اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما ! صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : ذكر ابن عباس رضى الله عنهما ، حدیث : 3801 کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔ گويا ان كو رسول اكرم ﷺ نے تفسير قرآن كا سرٹيفكيٹ ديا تھا۔ آپ کے شاگردوں نے آپ سے علم تفسیر حاصل کرکے دور دراز علاقوں تک پہنچایا، ہر دور میں آپ کے تفسیری اقوال کی اہمیت مسلم رہی ہے، مشکل آیات کی تفسیر کے لئے آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ سعید بن جبیراور حضرت مجاہد جیسی شخصیات آپ کے شاگرد ہیں۔ یہی ابن عباس ہیں کہ جن کی تفسیر کو حدیث مرفوع کے برابر سمجھا جاتا ہے،جب عورت کے چہرے کی بات ہوتی ہے تو ان کی تفسیر کو سند کے ضعیف ہونے کے باوجود حدیث مرفوع کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح محمد بن کعب اور مفسر شہیر جلیل القدر تابعی جناب مجاہد بن جبر سے بھی اس آیت (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) کی ایسی ہی تفسیر منقول ہے۔( طبری لابن جرير:(17/149) و(17/149)بسند حسن.(part4)
Shaikh ne uski taraf ishara kiya hai lekin yeh bhi kaha ki "Jab hamko rasoolullah ke silsile mein maloom hota hai ki aapne kabhi bhi dadhi nahi kaati to hum aapki Sunnat ko len yahi Afzal hai.
'' كل جزئية من الدليل العام لم يجري عليها عمل السلف فالأخذ بها بدعة'' '' اگر سلف کے دور میں کسی نص کے عموم پر عمل نہ ہوا تو اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے۔'' اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلف صالحین کتاب و سنت کی دلالت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے،چناں چہ سلف کسی نص آنے پر اس کے عموم پر عمل نہ کیا، بلکہ انھوں نے صرف اس نص کے بعض افراد پر عمل کیا ہو تو ایسے میں اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے،اگر اس نص کے عموم پر عمل مشروع ہوتا تو سلف اس پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوتے۔ اس موقع پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ واعفوا اللحى ایک عام نص ہے لیکن سلف صالحین نے اس کے عموم پر عمل نہیں کیا،بلکہ اس کے خاص افراد پر عمل کیا،لہذا اگر اس نص کے عموم پر عمل کیا جائے تو یہ غیر مشروع ہوگا،بلکہ بعض نامور محقق علماء نے تو یک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنے کی حرمت والے قول کو بدعات اضافیہ میں شامل کیا ہے۔یہ ایسی بدعت کا نام ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی طرف منسوب کی جاتی ہے، لیکن شریعت نے اس امر کی جو حد مقرر کی ہوتی ہے، یہ اس سے متجاوز ہو جاتی ہے۔ داڑھی کے بارے میں بعض روایات میں'أَعْفُوا اللِّحٰی' اور 'وَفِّرُوا اللِّحٰی' اور 'أَرْخُوا اللِّحٰی' کے جوا لفاظ آئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امر مطلق ہے؟اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ان احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہے 'لیکن کیامطلق طور پر داڑھی کو چھوڑنا واجب ہے یا کسی حد تک چھوڑنا واجب ہے؟ صحابہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے ایک مشت سے زائداپنی داڑھی کی تراش خراش کی ہے' جس سے ثابت ہوا کہ ان صحابہ کے نزدیک آپ کا داڑھی رکھنے کا حکم تو وجوب کے لیے تھا، لیکن وہ حکم اپنے اطلاق میں واجب نہ تھا۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوا اللِّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ) وَکَانَ ابْنُ عُمَرَا ِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَته فَمَا فَضْلَ أَخَذَه) ''مشرکین کی مخالفت کرو 'داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کم کرو'' ۔اور حضرت عبد اللہ بن عمر جب حج یا عمرہ'کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے تھے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوتے تھے ان کو کاٹ دیتے تھے۔'' اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مطلقاً واجب نہ سمجھتے تھے ۔ ایک مشت سے زائد داڑی کٹانے كی ایک دلیل وہ اثر بھی ہے جس میں تابعین عظام نے داڑی کٹانے کے عمل کو صحابہ کرام اور تابعین کی جانب منسوب کیا ہے،جس کے الفاظ محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )(part7)
Hamare nabi ka hukum hai ki dhadhi bhadao to bhadhao kato mat bus kio ki lambi dhadhi sa chere par noor ata hai dhadhi ka khat mat bnao kio ki khat ban va kar noor nahi ata or insan bakre jesa lagta hai ❤❤🙏🙏
Agar sirf paise ki Lem-den per mila hai to yeh Sood ki shakal ho jaati hai paise per pasia Lekin koi Saman khareedne per aaya hai to jaiz hai Wallahu Alam
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں: (أَوْفُوا أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِيَةً) (فتح الباری:350/10) یعنی داڑی کو اس حد تک چھوڑ دو کہ وہ پوری ہوجائے۔ اور دوسرا لفظ (أرخوا) وارد ہوا ہے جس کے معنی لٹکانا کے ہیں، صاحب تاج العروس رقم طراز ہیں :(وأرخى الستر أسدله) یعنی اس نے پردہ لٹکایا اور تیسرا لفظ (أرجو) ہے جس کا معنی تاخیر ہے،حافظ ابن حجر نے اس كے معنی لمبا کرنے کے کیے ہیں۔ (فتح الباری:350/10) اسی طرح حديث ميں چوتھا لفظ (وفروا) بولا گیا ہے جس کے معنی ہيں : کثرت اور بہتات ہے ،جیسا کہ اس کی وضاحت تمام اہل لغت نے اس طرح کی ہے : قال ابن فارس في مقاييس اللغة: (وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام) (129/6) وفي القاموس المحيط: (وفره توفيراً: كثَّره) (493/1 اسی طرح احادیث میں ''اعفاء'' کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،اس کے معنی بھی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أيكثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد (لسان العرب:75/15) ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں: تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ (فتح الباری:351/10) وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد) شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔ (شرح ابن بطال:146/9) شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً) (فتح الباری:350/10) توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔ شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں: (فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى) (الكاشف عن حقائق السنن2930/9:) ''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا)میں یہ وضاحت موجود ہے۔'' حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے: (وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ) اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔'' مندرجہ بالا دلائل ، ماہر لغت اور شارحین حدیث کے اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اعفاء کا معنی ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ ڈاڑھی کی مقدار کو بڈھانا مراد ہے، اس کے وہی معنی معتبر مانے جائیں گے جن کو صحابہ کرام ،تابعین عظام،محدثین،ائمہ دین اور شارحین حدیث درست قرار دیا ہے۔ کیا صحابہ کرام کو رسول اللہ کے حکم اعفاء کے معنی کو علم نہیں تھا؟یہ ہو ہی نہین سکتا کہ صحابہ کرام کو اس کے معنی معلوم نہ ہوں کیوں کہ وہ ماہر لغت اور فصیح و بلیغ تھے۔ داڑی والی روایات میں صحابہ نے بھی ان الفاظ کےمعنی کثرت اور بہتات ہی کے لیے ہیں رسول اللہﷺ کی ڈاڑھی کی مقدار: اگر كوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہﷺ سے ڈاڑھی کاٹنا ثابت ہی نہیں ہے،اس لیے یہ عمل غیر مشروع ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آئی ہو،ہمارے فہم کے مطابق آپ ﷺ کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ نہیں تھی،لہذا ان کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ،اس کی دلیل عبد اللہ بن عباس کی وہ حدیث ہے جسے امام احمد بن حنبل نے المسند میں بیان کیا ہے: جناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حیات میں مجھے خواب میں حضور نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یاد رہے کہ یزید قرآن کے نسخے لکھا کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سعادت کے حصول کا تذکرہ کیا، انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ میری شباہت اختیار کر سکے اس لئے جسے خواب میں میری زیارت ہو، وہ یقین کر لے کہ اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیا تم نے خواب میں جس ہستی کو دیکھا ہے ان کا حلیہ بیان کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک ہستی کو دیکھا جن کا جسم اور گوشت سفیدی مائل گندمی تھا، خوبصورت مسکراہٹ، سرمگیں آنکھیں اور چہرے کی خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھے، ان کی ڈاڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ کہ پورے گلے کو بھر دیتی، (عوف کہتے ہں کہ مجھے معلوم اور یاد نہیں کہ اس کے ساتھ مزید کیا حلیہ بیان گیا تھا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے بیداری میں ان کی زیارت سے اپنے آپ کو شاد کام کیا ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ان کا حلیہ بیان نہ کر سکتے (کچھ فرق نہ ہوتا) (رواه أحمد في " المسند " (5/389) طبعة مؤسسة الرسالة .) (part2)
This cleric himself did not have a circumcised beard, he told more people to let go of their beards, again there is an example that beards have to be trimmed, people are divided into two, what are these clerics called?
Ikhtilaf to har jagah hota hai Yeh koi nai baat nahi . Sahaba ke darmiyan bhi ikhtelaf hua. Har kyunki har shakhs ki nigah aur Zawiya e nigah mukhtalif hota hai. Sirf Molana ko iska nishana banana kaha ka Insaaf hai Aap ke ghar mein ikhtilaf nahi hai kya? Aapka kisi se ikhtilaf nahi hua kya? Aapke Walid kisi se kabhi ikhtilaf nahi kiye? Aise mein aapko aur aap ke Family ko kya kaha jayega?
According to this Maulvi, the document of Abdullah bin Omar is wrong, isn't it? I thought in I Plus TV they talk with documents, but this cleric speaks outside documents.
Hazrat Abdullah bin Omar ki riwayat ko shaikh ne galat kaha bataya hai janab? Shaikh baar baar zor de kar kaha ki aap Sallallaho Alaihi Wasallam se dadhi kaatne ka koi suboot nahi. Aapne is per zara bhi tawajjoh nahi di. Kyunki yeh aap ke matlab aur maqsad ke khilaf tha. Kya Allah ke Nabi ka Amal muqaddam hai ya Sahabi ki samajh. Jab Rasoolullah ne tamam Umr nahi kaata to aap kyun Zor laga rahe hain. Aap Molana ko bura bhla keh rahe hain woh sirf is liye ki molana ne aapke matlab ke khilaf baat boli hai. Aap ki Zaban se jahalt saaf dikhai de rahi hai ki aap daleel nahi hai.
@@murshedalam7512 Mujhe maloom hai Lekom iska matlab yeh nahi ki Allah ke Nabi ne dadhi kaati ya kaatne ki ijazat di Hazrat Abdullah bin Umar ne jo kiya Woh Hajj ke moqe se Hajj ke alawa kaatna to unse bhi sabit nahi. Kyunki jis hadees mein hajj karne ke baad baal Mundane ya chote karne ka hukm hai Ibne Umar sahabi ne usse Aam samjha tamam balon ke liye isi liye Woh dadhi ke baal bhi kaat liya karte the ... Lekin Ho kya raha hai Ibne Umar ki isi baat ko lekar Pehle log dadhi ko Sunnat kehte hain phir Use Moond dalte hain Ek baal bhi chehre per ugne nahi dete Agar Hazrat Ibne Umar Sahabi ka amal aapke liye Hujjat hao to amal karo Dadhi badhao phir ek musht laat lo Woh bhi Hajj mein. Lekin nahi karenge aisa. Kyunki yeh to dadhi moondne ka ek bahna mila hai aise logon ko.
@@iPlusTVonline tum beemaar hai tumhaara ilaaj karaana abhee jarooree hai kyonki kailaash ka pahala sabak yah hai sudia arab kee taraf dekh lo koee aadamee mera dille mein Aataras nahin kiya aapane kiya sudia arib imaam se bhee tumhaara nolej bahut jyaada hai aur kya chaahie maasha allaah
@@islamisbeautifull608 bhai mere sahaba ka amal kyu dikha rahe ho Mohammad sallallahualaihiwasallam ka amal dikhao nabi saw apni dadhi ek mutthi rakh kar kat lete the ya nahi
@@islamisbeautifull608 upar wala bukhari sharif ka hadees 5893 me Nabi sallallahualaihiwasallam ne farmaya mucho ko kutro aur dadhi ko muaf karo isme ek mutthi ke baad katlene ka zikr kahan hai???
@@farhanaslam351 ji dadhi katarni nhi chahiye iss mamle me Saudi ke bahut mashhur tareen mufti e aazam Sheikh Ibn Baaz ka bhi fatwa h ki dadhi ko chhod dena chahiye usko katna nhi chahiye jese ahnaaf ke yaha mashhur h
Subhan allah bht behtar samjhaye insha'Allah main amal zarur karunga
آمین ثم آمین
یہ آپ کے لیٸے🌹❤
saka veediyo mainne grup mein bhej diya jisake vajah se mere oopar angulee laga raha
diskripshan mein mainne daleel bhee diya
Jazak allah khair
ما شاء الله تبارك الله
Ma sha ALLAH
Alhamdulillah subhanallah Shaikh
Thanks sir ji
Jazakallah khair shaykh
Mashallah
جزاك الله خير
Barakallah
MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH MASALLAH
Jazakallahu Khair Shaikh👍
Jazzakallah khair
سبحان اللہ الحمدللہ
جزاک اللہ خیر و احسن الجزا الشیخ محترم
Jazaakallaahu khayran
Masha Allah
JazakAllah
Masaallah
Bilkul bhi aap ki baat se aaj sahmat nhi mere bhai...Bhla dadi jo Allah k fazal se hi bd rhi ho to wo bhla kese gair fitrati ho sakti h...Ha muchhe agar ese bd rahi ho to unka hukm hadees me moujud h....Lekin jis k bare me rasulullah saw ka hukm or unki mohar hadees me moujud ho qaba k rab ki qasam mujhe nhi lgta ki us pr fatwe ki jarurat ho...
Bhai iplus tv Videocon d2h pe nhi ata kya
Ji haan, Nahi aata
Cable per hai
( والحديث سكت عنه المنذري:
عون المعبود شرح سنن أبي داود: (4 / 136)
یعنی ہم(صحابہ) صرف حج یا عمرے کے موقع پر داڑی کٹاتے تھے۔
اس حدیث کی سند پر ابو زبیر کی تدلیس کا اعتراض ہے،لیکن ہم دیگر صحابہ کرام عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،سیدنا ابو ہریرہ وغیرہم کے عمل کو اس حدیث کی سند کے لیے شاہد بنا سکتے ہیں۔مزید اس حدیث کی سند کی صحت کے لیے یہ آثار بھی دلیل ہیں:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة:(8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان حضرات نے دیدہ دانستہ حدیث کے خلاف کیا نعوذ باللہ اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کو ر سول للہ ﷺ کی حدیث نہیں پہنچی تھی۔ (کیونکہ وہ تو خود ہی روایت کرتے ہیں)اس صورت میں سوائے اس کے کہ ان کے فعل او ر روایت میں تطبیق دی جائے،اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
جن احادیث میں داڑیوں کو بڑھانےاور پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان احادیث کے راویوں میں عبد اللہ بن عمر،عبد اللہ بن عباس،عبد اللہ بن جابر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنھم کے نام قابل ذکر ہیں اور ان تمام صحابہ کرام سے بسند صحیح مشت سے زائد داڑی کٹانا ثابت ہے۔
کیا داڑی کے معاملے میں صحابی کا عمل حجت ہے؟
میرے خیال میں یہی وہ اہم بات ہے جس کو سمجھنا انتہائی اہم ہے،صحیح بات تو یہی ہے کہ شریعت میں کسی صحابی کا کوئی عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی قول شریعت سازی کر سکتا ہے۔لیکن یہاں بات نہیں ہے کہ صحابی کا قول و فعل حجت ہے یا نہیں ہے،بلکہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث کا فہم اور معنی معتبر ہے،وہ فہم جو چودہویں پندروھویں صدی کا ایک عالم پیش کرکرہا ہے یا وہ فہم جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت ہے؟
ہم تو وہی فہم معتبر سمجھتے ہیں جوصحابہ کرام ،تابعین عظام،تبع تابعین اور محدثین سے ثابت اور قابل اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے،ہمارے علم کے مطابق کسی صحابی،تابعی یا تبع تابعی سے بسند صحیح نے ایک مٹھی سے زائد داڑی کٹوانے کو حرام یا ناجائز قرار نہیں دیا۔
حافظ عبد اللہ روپڑی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ سلف کاخلاف جائز نہیں ہے،کیوں کہ وہ لغت اور اصطلاحات سے غافل نہ تھے۔(فتاوی اہل حدیث:111/1
اہم فوائد:
راوی کی روایت کو لیا جائے گا اور اس کی رائے کو ترک کردیا جائے گا:''العبرة برواية الراوي لا برأيه'' بعض علماء فقہ کے اس اصول کویک مشت سے زائد ڈاڑھی کے کاٹنے پر لاگو کرتے ہیں،حالاں کہ یہ اصول اس جگہ نافذ نہیں ہوتا کیوں یہاں راوی کی رائے نہیں ہے بلکہ صحابہ کرام نے شریعت کی مراد کو ہم تک اپنے فہم وعمل کے ذریعے پہچایا ہےاور یہ ایک صحابی کا فہم وعمل نہیں ہے بلکہ ان تمام(چاروں) صحابہ کرام کا فہم وعمل ہے جو ڈاڑھی کی حدیث کے رواۃ ہیں،کیا ان تمام صحابہ نے اس روایت کو بیان کرکے اس کی مخالفت کی ہے،کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام ایک عمل کو رسول اکرم سے بیان کریں کہ یہ مجوس اور مشرکین کا عمل ہے اور پھر خود ہی حج و عمرہ کے مقدس موقع پر مجوس و مشرکین کے اس عمل کو انجام دیں اور مستزاد یہ کہ وہ سنت پر تمام صحابہ سے بڈھ کر عمل کرنے والے ہوں،ان پر کوئی نکیر بھی نہ کرے،جب کہ کبار صحابہ کرام بھی وہاں موجود ہوں،ہمارے علم کے مطابق کسی ایک صحابی یا تابعی سے اس کام کی نکیر یا حرمت ثابت نہیں ہے۔جب کہ اس برعکس متعدد صحابہ اور تابعین کی رائے موجود ہے۔
فائدہ:
اگر کسی صحابی کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنا حرام ہے،بعض علماء کرام نے سیدنا علی کے حوالے سے لکھا ہے ان کی ڈاڑھی بہت لمبی تھی،لیکن ہمارے علم کے مطابق سیدنا علی سے یہ بات صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں کہ ان کی ڈاڑھی بہت لمبی تھی۔
بعض علمائے کرام نے سیدنا عمر بن خطاب کے تین طلاقوں کے نفاذ کے معاملے دلیل بنا کر یہ کہا کہ اگر ہم ڈاڑھی کے مسئلہ میں صحابہ کرام کی رائے کو تسلیم کر رہے ہیں تو ہمیں سیدنا عمر بن خطا ب تین طلاقوں کے نفاذ کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے،ہم یہ کہتے ہیں ڈاڑھی کے کاٹنے کے مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ وہ ایک جز وقتی تعزیری معاملہ تھا،اس تعزیر کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس عمل سے باز آجائیں۔تین طلاقوں کو نافذ کرتے وقت خلیفہ راشد اور دیگر اصحاب کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گیااورعملی طور اس کا وقوع رسول اللہ کے دور میں ابن رکانہ کی طلاق کی صورت میں ہوگیا تھا۔
کیا شارحین حدیث میں سے کسی شارح نے اعفاء اللحیہ کو مسئلے کو تین طلاقوں کے نفاذ کے مسئلے پر قیاس کیا ہے۔برصغیر کے اہل حدیث علماء داڑھی کاٹنے کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے ایسی چیزوں کو دلیل بناتے ہیں جنھیں اس دور سے پہلے کبھی کسی نے بھی دلیل نہ بنایا ہو۔
اسی طرح عبد اللہ بن عمر سے جماع فی الدبر کا جواز( ان سے اس کی حرمت بھی ثابت ہے) اور سیدنا ابو ہریرہ کا کتے کےچاٹے ہوئے برتن کو تین بار دھونے سے پاک قرار دینا،سیدنا عمر بن خطاب کا حج قران سے منع کرنا(حالاں کہ اس معاملے میں عبد اللہ بن عمر کی نکیر بھی موجود ہے)سیدہ عائشہ کا سفر میں چار رکعتیں پڈھنا( جب کہ سفر میں قصر نہ کرنا بھی جائز ہے) اور ان کا بلوغت کے بعد رضاعت کو ثابت کرنا،یہ تمام مسائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تفردات ہیں،ان تفردات کو ڈاڑھی کے راویوں کے اجتماعی فہم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
فقہی قاعدہ:(part5)
حافظ ابن حجر اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے: (فتح الباري شرح صحيح البخاري:657/6 )
علامہ ہیثمی نے بھی اس حدیث کے رواۃ کے بارے لکھا ہے: ''رجاله ثقات''
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (8 / 272 :
امام زرقانی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
''إسناد حسن'' ( شرح الزرقاني على الموطأ:(4 / 439)
محمد بن صالح العثیمین اس حدیث کی سند کے بارے میں رقم طراز ہیں:
وهذا الحديث يختلف حكمه بسبب الاختلاف في يزيد الفارسي ، فذهب علي بن المديني وأحمد بن حنبل إلى أنه هو نفسه يزيد بن هرمز الثقة
یزید فارسی کے اختلاف کی وجہ سے اس حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے متعلق اختلاف ہے،لیکن جناب علی بن مدینی اور امام احمد بن حنبل کا ماننا ہےکہ اس راوی سے مراد یزید بن ہرمز ثقہ راوی ہے۔
اسی طرح امام ابو حاتم نے اس راوی کے متعلق لا بأس به کہہ کر اس کی جہالت کو ختم کر دیا ہے: ذهب إليه أبو حاتم في " الجرح والتعديل " (9/293) من قوله فيه : لا بأس به)
بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے مندرجہ ذیل دلائل کی وجہ سے اس حدیث کا معنی درست قرار پاتا ہے۔
محمد بن صالح عثیمین رسول اللہ کی داڑی مبارک کی مقدار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
أن لحيته الشريفة عليه الصلاة والسلام لم تكن طويلة تملأ صدره ، بل تكاد تملأ نحره ، والنحر هو أعلى الصدر ، وهذا يدل على اعتدال طولها وتوسطه
(فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی:147167
آپ علیہ السلام کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی جو سینے کو ڈھانپ دیتی ہو بلکہ آپ کی داڑی اتنی کہ جو سینے کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی داڑی معتدل اور متوسط تھی۔
امام طبرانی ابو عبید قاسم بن سلام(متوفی:224ھ) سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی بیان کرتے ہیں: أن تكون ''اللحية غير دقيقة ، ولا طويلة ، ولكن فيها كثاثة من غير عِظَمٍ ولا طول ( المعجم الكبير " (22/159)
یعنی آپ کی داڑی نہ کم بالوں والی تھی اور نہ لمبی تھی،بلکہ اس میں گھنے بال تھے جو بڑے اور لمبے نہ تھے۔
امام ابو العباس قرطبی آپ کی داڑی مبارک کے متعلق رقم طراز ہیں:
''لا يفهم من هذا - يعني قوله ( كثير شعر اللحية ) - أنه كان طويلها ، فإنَّه قد صحَّ أنه كان كثَّ اللحية ؛ أي : كثير شعرها غير طويلة ".
''المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم " (6/135)
آپ کی داڑی کے بال زیادہ تھے اس بات سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کی آپ کی داڑی لمبی تھی، یہ بات تو بکل درست ہے کہ آپ کی داڑی کے بال گھرے تھے،یعنی زیادہ بالوں والی جو لمبی نہ تھی۔
حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں: فِيهَا كَثَافَة واستدارة وَلَيْسَت طَوِيلَة
آپ کی داڑی میں گھنے بال اور گولائی تھی اور آپ کی داڑی لمبی نہیں تھی۔ (فتح الباری:178/I
علامہ ابن منظور افریقی رسول اللہ کی داڑی کے بارے میں لکھتے ہیں:أنه كان كث اللحية : أراد كثرة أصولها وشعرها وأنها ليست بدقيقة ولا طويلة ، وفيها كثافة
آپ گھنی داڑی والے تھے،اس سے راوی کی مراد یہ ہے کہ آپ کی داڑی میں بہت زیادہ بال تھے، آپ کی داڑی باریک اور لمبی نہیں تھی،آپ کی داڑی میں کثافت تھی۔
179/2
امام سیوطی آپ کی داڑی کے متعلق لکھتے ہیں: الكثوثة أن تكون غير دقيقة ولا طويلة ولكن فيها كثافة ) الديباج على مسلم ( 3/160)
کثافت کا معنی یہ ہے کہ آپ کی داڑی لمبی اور باریک نہیں تھی۔ بلکہ بالوں سے بھری ہوئی تھی۔
علامہ مناوی فیض القدیر میں رقم طراز ہیں:
كثيف اللحية لا دقيقها ولا طويلها ، وفيها كثافة۔( فيض القدير 5/81)(part 3)
Aur dhadi ko badi rakhne se ap bade aur sache samajh dar lagoge
Jazakallahu khair Shaikh ak Sahab ki dadhi naf tak hai lekin wah katna Nahi chahte to kiya hukm hai
جو داڑی مشت سے زائد ہو اسے کاٹ دیا جائے۔
ابو بکر خلال نے لکھا ہے کہ اسحاق بن حنبل کہتے ہیں:
سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنِ الرَّجُلِ يَأْخُذُ مِنْ عَارِضَيْهِ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا فَضُلَ عَنِ الْقَبْضَةِ.قُلْتُ: فَحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:((أَحِفُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى)) ؟قَالَ: يَأْخُذُ مِنْ طُولِهَا وَمِنْ تَحْتِ حَلْقِهِ.
)الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الإمام أحمد بن حنبل ،ابو بکر الخلال:ص:130
میں نے امام احمد سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے آپ کیا خیال ہے جو اپنی داڑی کو کاٹتا ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا:جو داڑی قبضے سے زائد ہو وہ اسے کاٹ سکتا ہے،جناب اسحاق نے بیان کیا ہے کہ میں نے کہا کہ حدیث رسول تو یہ ہے کہ مونچھوں کو پست کرو اور داڑیوں کو بڈھاؤ تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داڑی کو لمبائی اور اپنے حلق کے نیچے سے کاٹا کرتے تھے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اس بارے میں رقم طراز ہیں:
وأما إعفاء اللحية، فإنه يترك، ولو أخذ ما زاد على القبضة لم يكره، نص عليه'' ( شرح العمدة في الفقه :1/236)
داڑی کو بڈھانے کا تقاضا یہ ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر ایک مشت سے زائد داڑی کو کاٹ لیا جائے تو یہ جائز ہے،کیوں کہ اس پر نص موجود ہے۔
داڑی اور اہل حدیث علماء
اسی طرح موجودہ دور کے اہل حدیث حضرات کے اکابرعلمائے کرام کے فتاویٰ میں بھی ایک مشت کے بعد داڑھی کٹوانے کی صراحت مذکور ہے۔ ملاحظہ ہو:
فتاویٰ نذیریہ میں شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا محمد نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:
”داڑھی کا دراز کرنا بقدر ایک مشت کے واجب ہے، بدلیل حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کے،کما سنتلوا علیکاور داڑھی کا منڈوانا، ایک مشت سے کم رکھنا یا خشخشی بنانا حرام ہے اورموجبِ وعید ہے۔“ (آگے احادیث تحریر ہیں اور آخر میں چار علماء کے دستخط ہیں)۔ (فتاویٰ نذیریہ، کتاب اللباس والزینة:3/359،اہل حدیث اکادمی، لاہور، طبع دوم:1971ء)
فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
سوال: داڑھی مسلمان کو کس قدر لمبی رکھنے کا حکم ہے؟
جواب: حدیث میں آیا ہے کہ ”داڑھی بڑھاوٴ“ جس قدر خود بڑھے، ہاتھ کے ایک قبضے کے برابر رکھ کر زائد کٹوا دینا جائز ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک قدرتی گول تھی، تاہم اطراف وجوانب طول وعرض سے کسی قدر کانٹ چھانٹ کر دیتے تھے۔
(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کس قدر لمبی رکھنی ضروری ہے؟ :2/123،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)
اسی کتاب میں ایک مشت سے زائدڈاڑھی کٹوانے کو واجب لکھا ہے، ملاحظہ ہو:
”حاصل یہ کہ سلف صالحین، جمہور صحابہ وتابعین وائمہ محدثین کے نزدیک ایک مشت تک داڑھی کو بڑھنے دینا، حلق وقصر وغیرہ سے تعرض نہ کرنا واجب ہے کہ اس میں اتباعِ سنت اور مشرکوں کی مخالفت ہے اور ایک مشت سے زائد کی اصلاح جائز ہے اور بافراط شعر لحیہ وتشوّہ وجہ وصورت وتشبہ بہ بعض اقوام مشرکین ہندو، سادھو وسکھ وغیرہ، جن کا شعار باوجود افراطِ شعر لحیہ عدمِ اخذ ہے، قبضہ سے زائد کی اصلاح واجب ہے، ورنہ مشرکوں کی موافقت سے خلافِ سنت، بلکہ بدعت ثابت ہو گی، جس کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں“۔
(فتاویٰ ثنائیہ، باب ہفتم:مسائل متفرقہ، داڑھی کا رکھنا کہاں تک ثابت ہے؟ :2/138،ادارہ ترجمان السنة، لاہور،طبع:1972ء)
صفوۃ التفاسیر کے مصنف اور مسجد حرام کے مدرس شیخ محمد بن علی الصابونی ؒ کا ایک مقالہ سعودی عرب کے مشہور ومعروف اخبار (المدینہ) میں ۲۴ محرم ۱۴۱۵ھ کو شائع ہواتھا جس میں انہوں نے دلائل کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ داڑھی کے بالوں کو بکھرا ہوا نہ چھوڑا جائے بلکہ جو بال ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں ان کو کاٹ کر داڑھی کو سنوارا جائے اور اس کو اس طرح نہ چھوڑا جائے کہ بچے ڈرنے لگیں اور بڑے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگیں۔۔۔۔۔
حافظ زبیرعلی زئی داڑھی کے بارے میں اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دینا اور قینچی نہ لگانا افضل ہے تاہم ایک مشت سے زیادہ کو کاٹنا جائز ہے۔واللہ اعلم۔ (موطاامام مالک،صفحہ 605)
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں:
گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
(اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک )
’’داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت ﷺ کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے۔ ‘‘
حضرۃ العلام مفتی عبید اللہ عفیف خان صاحب سے سوال ہوا کہ داڑھی کی مقدار طول کیا ہے؟
تو انھوں نے جواب دیا کہ کم از کم ایک مٹھی ڈارھی رکھنا واجب ہے،اس سے کم داڑھی رکھنامونڈوانے کے مترادف ہے۔
ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں:داڑھی منڈوانا اور مٹھی سے کم داڑھی کو کتروانا فسق ہے اور داڑھی منڈوانے والا فاسق ہے۔
(فتاوی محمدیہ،ص:758-759)(part9)
تابعی جلیل جناب عطا بن ابی رباح(م 114 ه) بیان کرتے ہیں کہ وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام) صرف حج و عمرے کے موقع پر اپنی مشت سے زائدداڑیاں کاٹنا پسند کیا کرتے تھے۔
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: «كَانُوا يُرَخِّصُونَ فِيمَا زَادَ عَلَى الْقَبْضَةِ مِنَ اللِّحْيَةِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهَا»
(مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25484، سنده حسن )
محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ تابع جلیل جناب ابراہیم بن یزید نخعی(متوفی۹۵ھ) سے بیان کرتے ہیں:
''كانوا يأخذون من جوانبها، وينظفونها. يعني: اللحية'' (مصنف ابن ابي شيبة:(8/564) :الرقم 25490 ، سنده صحيح )
وہ (ہمارے زمانے کے لوگ یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام)داڑی کے اطراف سے(مشت سے زائد) بال لیتے تھے اور اس میں کانٹ چھانٹ کیا کرتے تھے ۔
جلیل القدر تابعی جناب امام طاؤوس بھی(مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے قائل تھے۔
(الترجل للخلال:ص:96،سنده صحيح)
سيدنا ابو بكر كے پوتےقاسم بن محمد بھی جب سر منڈاتے تو اپنی مونچھوں اور(مشت سے زائد) داڑی کے بال کاٹتے تھے۔
(ابن ابی شیبہ:رقم الحدیث:25476،سندہ صحیح)
محمد بن کعب القرظی نامور تابعی اور ثقہ عالم حج میں داڑی سے کچھ کاٹنے کے قائل تھے۔
(تفسیر ابن جریر طبری:109/17،سندہ حسن)
ابن جریج بھی اس کے قائل تھے۔ (تفسیر ابن جریر طبری:110/17،سندہ صحیح)
اور موطا امام مالک میں ہے:
ائمہ اربعہ اور داڑی:
وقد روى ابن القاسم عن مالك: لا بأس أن يؤخذ ما تطاير من اللحية وشذ ، قيل لمالك فإذا طالت جدا قال : أرى أن يؤخذ منها وتقص
(المنتقى شرح الموطأ:حديث رقم :1488)
جناب ابن قاسم نے امام مالک سے بیان کیا ہے کہ زیادہ بڈھی ہوئی داڑی کو کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔امام مالک سے سوال ہوا جب داڑی بہت زیادہ بڑی ہو جائے تو ؟انھوں جواب دیا کہ میرے خیال میں اس کو
کاٹ دیا جائے۔
جناب قاضی عیاض کا قول ہے: أما الأخذ من طولها و عرضها فحسن
(الإكمال في شرح مسلم:1/120)
جہاں تک داڑی کے طول و عرض سے کاٹنے کا مسئلہ ہے تو یہ پسندیدہ ہے۔
امام ابو یوسف نے جناب ابراہیم نخعی سے ان کو قول نقل کیا ہے: لا بأس أن يأخذ الرجل من لحيته مالم يتشبه بأهل الشرك۔(كتاب الأثر:ص:235)
جتنی مقدار سے اہل شرک سے مشابہت نہ ہو تو اتنی مقدار میں داڑی کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور دیگر احناف کا بھی داڑی کو کاٹنے کے حوالے سے یہی موقف ہے، بلکہ ایک مشت داڑی کاٹنے کو سنت لکھا ہے: ''القص سنة فيها '' (الفتاوى الهندية)(5/358)
امام شافعی نے الام میں داڑی کو کاٹنے کے بارے میں لکھا ہے:
''فمن توضأ ثم أخذ من أظفاره ،ورأسه و لحيته، و شاربه، لم يك عليه إعادة وضوء، وهذا زيادة نظافة و طهارة'' (الأم :1/21)
جس نے وضو کیا اور پھر اس نے اپنے ناخن،سر، داڑی اور مونچھوں کے بال کاٹے،اس پر دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہ تو مزید طہارت و صفائی ہے۔
حافظ ابن حجر نے تو امام شافعی کے بارے یہاں تک لکھا ہے: الشافعي نص على استحبابه الأخذ منها في النسك (فتح الباري)(10/350)
امام شافعی نے حج و عمرہ کے موقع پر(یک مشت سے زائد) داڑی کاٹنے کے مستحب ہونے پر نص بیان کی ہے۔
علامہ ذہبی نے ابو ابراہیم مزنی سے بیان کیا ہے: مَا رَأَيْتُ أَحْسَنَ وَجْهاً مِنَ الشَّافِعِيِّ -رَحِمَهُ اللهُ- وَكَانَ رُبَّمَا قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَلاَ يَفْضُلُ عَنْ قَبْضَتِهِ
میں نے امام شافعی کے چہرے سے زیادہ خوب صورت چہرہ نہیں دیکھا،وہ بعض اوقات اپنی داڑی کو مٹھی میں لیتے تھے تو وہ ایک مٹھی سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
جناب ابن ہانی نے امام احمد بن حنبل سےلکھا ہے:
''الأخذ بما زاد عن القبضة '' (ابن هاني في مسائله للأمام أحمpart 8)
یعنی آپ کی داڑی گھنی تھی جو باریک اور لمبی نہ تھی،اس میں بال بہت زیادہ تھے۔
یہ دلائل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑی مبارک معتدل و متوسط تھی،اس لیے آپ کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی۔
اور جن روایات میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ڈاڑھی مبارک لمبی تھی وہ ساری ساری کی ضعیف ہیں،اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جناب محمد بن صالح العثیمین رقم طراز ہیں:
(وأما وصف لحيته صلى الله عليه وسلم بأنها كانت تملأ صدره الشريف عليه الصلاة والسلام : فهذا لم نقف عليه مسندا مأثورا)
اور جہاں تک رسول اکرم کی ڈاڑھی کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ وہ اتنی لمبی تھی کہ آپ کے سینہ مبارک کو بھر دیتی تھی،اس بارے میں ہمیں کوئی مستند چیز نہیں ملی۔
) فتاوی محمد بن صالح عثیمین:رقم الفتوی: 147167
آثار صحابہ و تابعین:
قربانی کرنے کے بعد سر کے بالوں کے ساتھ ساتھ داڑی کے مشت سے زیادہ بالوں کو بھی کاٹا جائے گا،اس کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عباس کی وہ تفسیر ہے جو انھوںولیقضو تفثهم کی تفسیر کرتے ہوئے کی ہے،جس کے الفاظ یہ ہیں:
حدَّثنا مُحَمَّد بن إِسْحَاق السِّنْدي قَالَ: حَدثنَا عَلِي بن خَشْرَم عَن عِيسَى عَن عبد الْملك عَن عَطاءِ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله: {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ} (الْحَج: 29)
قَالَ: التَّفَثُ الحَلْق والتّقصير والأخذُ من اللّحية والشّارب والإبط، والذّبْح وَالرَّمْي.
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے اللہ تعالی کے اس فرمان {ثُمَّ لْيَقْضُواْ تَفَثَهُمْ}کی تفسیر اس طرح منقول ہے:تفث سے مراد حلق،تقصیر اور داڑی،مونچھ اوربغلوں کے بال کاٹنا ، قربانی اور رمی کرنا ہے۔
( تهذيب اللغة لمحمد بن أحمد (المتوفى: 370هـ)190/14 ) (سنده صحیح)
عن ابن عباس أنه قال:(التفث الحلق والتقصير والرمي والذبح والأخذ من الشارب واللحية ونتف الإبط وقص الإظفار)
(معانی القرآن للنحاس: 4/400)(سنده صحیح)
ثنا هشيم، قال: أخبرنا عبد الملك بن ابی سلیمان، عن عطاء، عن ابن عباس، أنه قال، في قوله: (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) قال: التفث: حلق الرأس، وأخذ من الشاربين، ونتف الإبط، وحلق العانة، وقصّ الأظفار، والأخذ من العارضين، ورمي الجمار، والموقف بعرفة والمزدلفة. تفسیر الطبری:612/18،سنده صحیح)
أَبُو بَكْرٍ ابن ابی شیبة قَالَ: نا عبد الله ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «التَّفَثُ الرَّمْيُ، وَالذَّبْحُ، وَالْحَلْقُ، وَالتَّقْصِيرُ، وَالْأَخْذُ مِنَ الشَّارِبِ وَالْأَظْفَارِ وَاللِّحْيَةِ»
مصنف ابن ابی شیبة:429/3،15673سنده صحيح،سلسلة الأحاديث الضعيفة،376/5رقم الحديث: 2355،
گویا کہ سیدناعبد اللہ بن عباس کے نزدیک قربانی کرنے کے بعد سر منڈوایا جائے گا، یاسر کے کچھ بال کاٹے جائیں گے،اس کے ساتھ ساتھ داڑی کے مشت سے زائد بال،مونچھ کے بال اور زیر ناف بال بھی کاٹے جائیں گے،رمی،جانور ذبح کرنااور ناخن کاٹنا وغیرہ بھی تفث میں شامل ہے۔
یہ عبد اللہ بن عباس سے تفث کی منقول تفسیر ہےاور اس کی سند بھی صحیح ہے،امت مسلمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "ترجمان القرآن" کا لقب دیا ہے، آپ کی فضیلت میں بیان ہوئی صحیح بخاری کی ایک حدیث یوں ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا:
اے اللہ ! اسے حکمت کا علم عطا فرما !
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : ذكر ابن عباس رضى الله عنهما ، حدیث : 3801
کئی برحق وجوہات کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو "امام المفسرین" بھی کہا جاتا ہے۔
گويا ان كو رسول اكرم ﷺ نے تفسير قرآن كا سرٹيفكيٹ ديا تھا۔ آپ کے شاگردوں نے آپ سے علم تفسیر حاصل کرکے دور دراز علاقوں تک پہنچایا، ہر دور میں آپ کے تفسیری اقوال کی اہمیت مسلم رہی ہے، مشکل آیات کی تفسیر کے لئے آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ سعید بن جبیراور حضرت مجاہد جیسی شخصیات آپ کے شاگرد ہیں۔
یہی ابن عباس ہیں کہ جن کی تفسیر کو حدیث مرفوع کے برابر سمجھا جاتا ہے،جب عورت کے چہرے کی بات ہوتی ہے تو ان کی تفسیر کو سند کے ضعیف ہونے کے باوجود حدیث مرفوع کا درجہ دیا جاتا ہے۔
اسی طرح محمد بن کعب اور مفسر شہیر جلیل القدر تابعی جناب مجاہد بن جبر سے بھی اس آیت (ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ) کی ایسی ہی تفسیر منقول ہے۔( طبری لابن جرير:(17/149) و(17/149)بسند حسن.(part4)
Darhi kitni lambi rakhna chahye--------Jis mein sare gunnah dhak jaen
Kisi Bhi Islamic Sawal Ke Jawab Ke Liye Aap iPlus TV Application Download Karke Wahan Helpline Section Mein Jaayein
Android: goo.gl/hSuJk6
iOS(iPhone): goo.gl/rWhZeL
Shaikh hazrat abdullah r.a ne haj k moke pe kati thi wo bi mothi se paker k aagee kuch bal sunye abu zaid zameer sab k lecture me.
Shaikh ne uski taraf ishara kiya hai
lekin yeh bhi kaha ki "Jab hamko rasoolullah ke silsile mein maloom hota hai ki aapne kabhi bhi dadhi nahi kaati to hum aapki Sunnat ko len yahi Afzal hai.
saka veediyo mainne grup mein bhej diya jisake vajah se mere oopar angulee laga raha
I gave the document, if you can prove wrong must show?
Shaikh Mohtram ...Aap ke jawab se mutmyen nhi ho pa rha hu.aap Hadees ke khilafh baten kr rhe hai
'' كل جزئية من الدليل العام لم يجري عليها عمل السلف فالأخذ بها بدعة''
'' اگر سلف کے دور میں کسی نص کے عموم پر عمل نہ ہوا تو اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے۔''
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سلف صالحین کتاب و سنت کی دلالت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے،چناں چہ سلف کسی نص آنے پر اس کے عموم پر عمل نہ کیا، بلکہ انھوں نے صرف اس نص کے بعض افراد پر عمل کیا ہو تو ایسے میں اس نص کے عموم پر عمل کرنا مشروع نہیں ہے،اگر اس نص کے عموم پر عمل مشروع ہوتا تو سلف اس پر عمل کرنے میں سب سے آگے ہوتے۔
اس موقع پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ واعفوا اللحى ایک عام نص ہے لیکن سلف صالحین نے اس کے عموم پر عمل نہیں کیا،بلکہ اس کے خاص افراد پر عمل کیا،لہذا اگر اس نص کے عموم پر عمل کیا جائے تو یہ غیر مشروع ہوگا،بلکہ بعض نامور محقق علماء نے تو یک مشت سے زائد ڈاڑھی کاٹنے کی حرمت والے قول کو بدعات اضافیہ میں شامل کیا ہے۔یہ ایسی بدعت کا نام ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی طرف منسوب کی جاتی ہے، لیکن شریعت نے اس امر کی جو حد مقرر کی ہوتی ہے، یہ اس سے متجاوز ہو جاتی ہے۔
داڑھی کے بارے میں بعض روایات میں'أَعْفُوا اللِّحٰی' اور 'وَفِّرُوا اللِّحٰی' اور 'أَرْخُوا اللِّحٰی' کے جوا لفاظ آئے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امر مطلق ہے؟اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ان احادیث میں امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہے 'لیکن کیامطلق طور پر داڑھی کو چھوڑنا واجب ہے یا کسی حد تک چھوڑنا واجب ہے؟ صحابہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے ایک مشت سے زائداپنی داڑھی کی تراش خراش کی ہے' جس سے ثابت ہوا کہ ان صحابہ کے نزدیک آپ کا داڑھی رکھنے کا حکم تو وجوب کے لیے تھا، لیکن وہ حکم اپنے اطلاق میں واجب نہ تھا۔حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ وَفِّرُوا اللِّحٰی وَاحْفُوا الشَّوَارِبَ) وَکَانَ ابْنُ عُمَرَا ِذَا حَجَّ أَوِ اعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَته فَمَا فَضْلَ أَخَذَه)
''مشرکین کی مخالفت کرو 'داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کم کرو'' ۔اور حضرت عبد اللہ بن عمر جب حج یا عمرہ'کرتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی میں لیتے تھے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوتے تھے ان کو کاٹ دیتے تھے۔''
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو مطلقاً واجب نہ سمجھتے تھے ۔
ایک مشت سے زائد داڑی کٹانے كی ایک دلیل وہ اثر بھی ہے جس میں تابعین عظام نے داڑی کٹانے کے عمل کو صحابہ کرام اور تابعین کی جانب منسوب کیا ہے،جس کے الفاظ محدث کبیر امام ابن ابی شیبہ بیان کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ محمد بن جعفر الهذلي ، عَنْ شُعْبَةَ بن الحجاج بن الورد، عَنْ منصور بن المعتمر بن عبد الله بن ربيعة بن حريث بن مالك بن رفاعة بن الحارث بن بهثة بن سليم ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: «كَانُوا يُحِبُّونَ أَنْ يُعْفُوا اللِّحْيَةَ إِلَّا فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ» (مصنف ابن ابي شيبة:الرقم: 25482، سنده صحيح )(part7)
Hamare nabi ka hukum hai ki dhadhi bhadao to bhadhao kato mat bus kio ki lambi dhadhi sa chere par noor ata hai dhadhi ka khat mat bnao kio ki khat ban va kar noor nahi ata or insan bakre jesa lagta hai ❤❤🙏🙏
Phonepe me cashback lena kaisa hai
Agar sirf paise ki Lem-den per mila hai to yeh Sood ki shakal ho jaati hai paise per pasia
Lekin koi Saman khareedne per aaya hai to jaiz hai
Wallahu Alam
Bina topi ke namaz padna kisa hai.?
Kabhi katni nhi chahiye????
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں:
(أَوْفُوا أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِيَةً) (فتح الباری:350/10)
یعنی داڑی کو اس حد تک چھوڑ دو کہ وہ پوری ہوجائے۔
اور دوسرا لفظ (أرخوا) وارد ہوا ہے جس کے معنی لٹکانا کے ہیں، صاحب تاج العروس رقم طراز ہیں :(وأرخى الستر أسدله) یعنی اس نے پردہ لٹکایا
اور تیسرا لفظ (أرجو) ہے جس کا معنی تاخیر ہے،حافظ ابن حجر نے اس كے معنی لمبا کرنے کے کیے ہیں۔ (فتح الباری:350/10)
اسی طرح حديث ميں چوتھا لفظ (وفروا) بولا گیا ہے جس کے معنی ہيں : کثرت اور بہتات ہے ،جیسا کہ اس کی وضاحت تمام اہل لغت نے اس طرح کی ہے :
قال ابن فارس في مقاييس اللغة:
(وفر) كلمةٌ تدلُّ على كثرةٍ وتَمام)
(129/6)
وفي القاموس المحيط: (وفره توفيراً: كثَّره) (493/1
اسی طرح احادیث میں ''اعفاء'' کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے ،اس کے معنی بھی کثرت اور توفیر کے ہیں، جیسا کہ اہل لغت نے اس کی نشان دہی کی ہے :لسان العرب: (عفا القوم كثروا، وفي التنزيل: {حتى عفوا} أيكثروا، وعفا النبت والشعر وغيره يعفو فهو عاف: كثُر وطال، وفي الحديث: أنه - صلى الله عليه وسلم - أمر بإعفاء اللحى، هو أن يوفَّر شعرها ويُكَثَّر، ولا يقص كالشوارب، من عفا الشيء إذا كثر وزاد
(لسان العرب:75/15)
ابن دقیق العید نے اعفاء کے معنی تکثیر لکھے ہیں: تَفْسِيرُ الْإِعْفَاءِ بِالتَّكْثِيرِ
(فتح الباری:351/10)
وقال القرطبي في (المفهم) (1/512) قال أبو عبيد: (يقال عفا الشيء إذا كثر وزاد)
شارح بخاری امام ابن بطال نے بھی اعفاء اللحیۃ کے معنی تکثیر اللحیۃ کیے ہیں۔
(شرح ابن بطال:146/9)
شارح بخاری حافظ ابن حجر توفیر کےمعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَفِّرُوا فَهُوَ بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنَ التَّوْفِيرِ وَهُوَ الْإِبْقَاءُ أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً) (فتح الباری:350/10)
توفیر کا معنی باقی رکھنا ہے،یعنی داڑی کو وافر مقدار میں باقی رکھو۔
شارح مشکوۃشرف الدین طیبی( یک مشت سے زائد داڑی کو کاٹنے کے قائل) نے اعفاء کے معنی یوں بیان کے ہیں:
(فالمراد بالإعفاء التوفير منه ، كما في الرواية الأخرى (وفروا اللحى)
(الكاشف عن حقائق السنن2930/9:)
''یہاں اعفاء کے معنی توفیر یعنی کثرت کے ہیں،جیسا کہ دوسری روایت (وفروااللِحا)میں یہ وضاحت موجود ہے۔''
حافظ ابن حجر نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
(وَذَهَبَ الْأَكْثَرُ إِلَى أَنَّهُ بِمَعْنَى وَفِّرُوا أَوْ كَثِّرُوا وَهُوَ الصَّوَابُ)
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ یہاں اعفاء کے معنی توفیر یا تکثیر کے ہیں اور یہی بات درست ہے۔''
مندرجہ بالا دلائل ، ماہر لغت اور شارحین حدیث کے اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اعفاء کا معنی ڈاڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا نہیں ہے، بلکہ ڈاڑھی کی مقدار کو بڈھانا مراد ہے، اس کے وہی معنی معتبر مانے جائیں گے جن کو صحابہ کرام ،تابعین عظام،محدثین،ائمہ دین اور شارحین حدیث درست قرار دیا ہے۔ کیا صحابہ کرام کو رسول اللہ کے حکم اعفاء کے معنی کو علم نہیں تھا؟یہ ہو ہی نہین سکتا کہ صحابہ کرام کو اس کے معنی معلوم نہ ہوں کیوں کہ وہ ماہر لغت اور فصیح و بلیغ تھے۔
داڑی والی روایات میں صحابہ نے بھی ان الفاظ کےمعنی کثرت اور بہتات ہی کے لیے ہیں
رسول اللہﷺ کی ڈاڑھی کی مقدار:
اگر كوئی یہ اعتراض کرے کہ رسول اللہﷺ سے ڈاڑھی کاٹنا ثابت ہی نہیں ہے،اس لیے یہ عمل غیر مشروع ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی داڑی اتنی لمبی نہیں تھی کہ اسے کاٹنے کی ضرورت پیش آئی ہو،ہمارے فہم کے مطابق آپ ﷺ کی ڈاڑھی مشت سے زیادہ نہیں تھی،لہذا ان کو داڑی کٹوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی ،اس کی دلیل عبد اللہ بن عباس کی وہ حدیث ہے جسے امام احمد بن حنبل نے المسند میں بیان کیا ہے:
جناب یزید فارسی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حیات میں مجھے خواب میں حضور نبی مکرم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، یاد رہے کہ یزید قرآن کے نسخے لکھا کرتے تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سعادت کے حصول کا تذکرہ کیا، انہوں نے بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ میری شباہت اختیار کر سکے اس لئے جسے خواب میں میری زیارت ہو، وہ یقین کر لے کہ اس نے مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیا تم نے خواب میں جس ہستی کو دیکھا ہے ان کا حلیہ بیان کر سکتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک ہستی کو دیکھا جن کا جسم اور گوشت سفیدی مائل گندمی تھا، خوبصورت مسکراہٹ، سرمگیں آنکھیں اور چہرے کی خوبصورت گولائی لئے ہوئے تھے، ان کی ڈاڑھی یہاں سے یہاں تک بھری ہوئی تھی اور قریب تھا کہ کہ پورے گلے کو بھر دیتی، (عوف کہتے ہں کہ مجھے معلوم اور یاد نہیں کہ اس کے ساتھ مزید کیا حلیہ بیان گیا تھا) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر تم نے بیداری میں ان کی زیارت سے اپنے آپ کو شاد کام کیا ہوتا تو شاید اس سے زیادہ ان کا حلیہ بیان نہ کر سکتے (کچھ فرق نہ ہوتا)
(رواه أحمد في " المسند " (5/389) طبعة مؤسسة الرسالة .) (part2)
Bashak
This cleric himself did not have a circumcised beard, he told more people to let go of their beards, again there is an example that beards have to be trimmed, people are divided into two, what are these clerics called?
Ikhtilaf to har jagah hota hai
Yeh koi nai baat nahi . Sahaba ke darmiyan bhi ikhtelaf hua.
Har kyunki har shakhs ki nigah aur Zawiya e nigah mukhtalif hota hai.
Sirf Molana ko iska nishana banana kaha ka Insaaf hai
Aap ke ghar mein ikhtilaf nahi hai kya?
Aapka kisi se ikhtilaf nahi hua kya?
Aapke Walid kisi se kabhi ikhtilaf nahi kiye?
Aise mein aapko aur aap ke Family ko kya kaha jayega?
sahee hadees aur redee hai bat kyon unhonne jhooth bola
@@murshedalam7512
Please clear What you want to Say.
There is no shortage of people to broker religion, they are more satanic than satan, who conceal the words of Allah and His Messenger.
@@murshedalam7512
Mera sirf ek Sawal hai Kya Allah ke Nabi ne dadhi kaati. Suboot layen aur Sath meri dadhi le jayen
...
According to this Maulvi, the document of Abdullah bin Omar is wrong, isn't it?
I thought in I Plus TV they talk with documents, but this cleric speaks outside documents.
Hazrat Abdullah bin Omar ki riwayat ko shaikh ne galat kaha bataya hai janab?
Shaikh baar baar zor de kar kaha ki aap Sallallaho Alaihi Wasallam se dadhi kaatne ka koi suboot nahi. Aapne is per zara bhi tawajjoh nahi di. Kyunki yeh aap ke matlab aur maqsad ke khilaf tha. Kya Allah ke Nabi ka Amal muqaddam hai ya Sahabi ki samajh.
Jab Rasoolullah ne tamam Umr nahi kaata to aap kyun Zor laga rahe hain.
Aap Molana ko bura bhla keh rahe hain woh sirf is liye ki molana ne aapke matlab ke khilaf baat boli hai.
Aap ki Zaban se jahalt saaf dikhai de rahi hai ki aap daleel nahi hai.
@@PrincessPriceless mere bhai kya Sahabi ka Amal Daleel nahi hai?
@@arbaazukaiye2560
Khoob hai
Lekin Allah ke Nabi ke amal ke saamne nahi
hajarat abdullaah ibne umar nabee ke alaava kisee ka baat ko pholo karata nahin hai aapako pata hai
@@murshedalam7512
Mujhe maloom hai
Lekom iska matlab yeh nahi ki Allah ke Nabi ne dadhi kaati ya kaatne ki ijazat di
Hazrat Abdullah bin Umar ne jo kiya Woh Hajj ke moqe se Hajj ke alawa kaatna to unse bhi sabit nahi.
Kyunki jis hadees mein hajj karne ke baad baal Mundane ya chote karne ka hukm hai Ibne Umar sahabi ne usse Aam samjha tamam balon ke liye isi liye Woh dadhi ke baal bhi kaat liya karte the
...
Lekin Ho kya raha hai Ibne Umar ki isi baat ko lekar Pehle log dadhi ko Sunnat kehte hain phir Use Moond dalte hain Ek baal bhi chehre per ugne nahi dete
Agar Hazrat Ibne Umar Sahabi ka amal aapke liye Hujjat hao to amal karo
Dadhi badhao phir ek musht laat lo
Woh bhi Hajj mein.
Lekin nahi karenge aisa.
Kyunki yeh to dadhi moondne ka ek bahna mila hai aise logon ko.
AAP Hazrat ne Islam Ko badnam kar diya AAP ki Hadees sahih Dustin ki Hadees zaeef he
Shaikh ne is silsile mein sahi aur Zaeef ki baat nahi ki hai
Amal e Sahaba Aur Amal e rasool ka Taqabul kiya hai
Aur Haq bayan karna zaroori hai
@@iPlusTVonline tum beemaar hai tumhaara ilaaj karaana abhee jarooree hai kyonki kailaash ka pahala sabak yah hai sudia arab kee taraf dekh lo koee aadamee mera dille mein Aataras nahin kiya aapane kiya
sudia arib imaam se bhee tumhaara nolej bahut jyaada hai aur kya chaahie maasha allaah
Galat hai salaf ke khilaf hai ek mutthi dadhi rakhna
بهائ صاحب اعفاءاللحى لام کے کسرہ کے ساتھ
@@islamisbeautifull608 bhai mere sahaba ka amal kyu dikha rahe ho Mohammad sallallahualaihiwasallam ka amal dikhao nabi saw apni dadhi ek mutthi rakh kar kat lete the ya nahi
@@islamisbeautifull608 upar wala bukhari sharif ka hadees 5893 me Nabi sallallahualaihiwasallam ne farmaya mucho ko kutro aur dadhi ko muaf karo isme ek mutthi ke baad katlene ka zikr kahan hai???
@@farhanaslam351 ji dadhi katarni nhi chahiye iss mamle me Saudi ke bahut mashhur tareen mufti e aazam Sheikh Ibn Baaz ka bhi fatwa h ki dadhi ko chhod dena chahiye usko katna nhi chahiye jese ahnaaf ke yaha mashhur h
@@nether0701 Saudi Salafi best Islamic scholor hai kyuki unke paas daleel quran o hadees se hota hai