A tribute to Poet Wali Deccani by Tariq Mahmood║Learn Urdu with Tariq║wali Deccani║wali Dakhani
ฝัง
- เผยแพร่เมื่อ 5 พ.ย. 2024
- Poet: Tariq Mahmood
www.rekhta.org...
• Poetry of Tariq
یہ ولی ہیں۔ اردو غزل کے باوا! اردو میں شاعری کا سلسلہ اگرچہ بہت پہلے امیر خسرو کے عہد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن شعراء میں ہندی، ہندوی یا ریختہ کوجو اردو کے ہی دوسرے نام ہیں، وہ عزت و مرتبہ حاصل نہیں تھا جو فارسی کو حاصل تھا۔ شاعری فارسی میں کی جاتی تھی اور شعراء تفریحاً اردو میں بھی شعر کہہ لیتے تھے۔ یعنی شاعر رہتے تو ہندوستان میں تھے لیکن تقلید ایرانی شاعروں کی کرتے تھے۔ اس صورت حال نے احساس اور اس کے بیان کے بیچ ایک خلاء سا پیدا کر دیا تھا جسے پر کرنے کی ضرورت لازماً محسوس کی جاتی رہی ہو گی۔ ایسے میں 1720ء میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو وہاں کے لوگ ایک حیران کن مسرت سے دوچار ہوئے اور ان کی شاعری خاص و عام میں مقبول ہوئی ان کے دیوان کی نقلیں تیار کی گئیں، ان کی غزلوں کی طرح پر غزلیں کہی گئیں اور ان کے سر پر ریختہ کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا گیا۔ بعد کے نقادوں نے ان کو اردو کا "چاسر" قرار دیا۔ ولی کومیر تقی میر سے پہلے اردو غزل میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو بعد میں اور آج تک میر صاحب کو حاصل ہے۔ ولی نے شعری اظہار کو نہ صرف یہ کہ ایک نئی زبان دی بلکہ اردو زبان کو ایک نیا شعری اظہار بھی دیا جو ہر طرح کے تصنع سے آزاد تھا۔ ولی فارسی شعراء کے برعکس، خیالی نہیں بلکہ جیتے جاگتے حسن کے پرستار تھے، انہوں نے اردو غزل میں اظہار کے نئے سانچے مرتب کئے، زبان کی سطح پر دلچسپ تجربات کئے جو رد و قبول کی منازل سے گزر کر اردو غزل کی زبان کی تعمیر وترقی میں مددگار ثابت ہوئے اور اردو غزل کی ایسی جاندار روایت قائم ہوئی کہ کچھ عرصہ تک ان کے بعد کے شعراء، ریختہ میں فارسی شعری روایت کو معیوب سمجھنے لگے۔ انہیں اردو میں جدید شاعری کی اولین تحریک کا بانی قرار دینا غلط نہ ہو گا۔ یہ ان کی شاعری کا تاریخی پہلو ہے۔
شاعری زبان کے تخلیقی اور فنکارانہ اظہار کا ہی دوسرا نام ہے۔ فارسی رسوم شاعری سے ہٹ کر اک نئی تخلیقی زبان کی طاقتور مثال پیش کرنا، جو نہ صرف قبول کی گئی ہو بلکہ جس کی تقلید بھی کی گئی ہو، ولی کا ایک بڑ ا کارنامہ ہے۔ انہوں نے عام ہندوستانی الفاظ مثلاً سجن، موہن، ادھک(زیادہ) نیہ(محبت)، پرت(پیار)، سُٹ(چھوڑنا، پنجابی)، انجھو(آنسو)، کیتا(کیا،پنجابی)، سکل(تمام، ہندی) کدی(کبھی، ہندی) کو خالص اردو اور فارسی الفاظ کے ساتھ جوڑ کرنئی ترکیبیں مثلاً "برہ کا غنیم"(دشمن فراق) "پرت سے معمور"(معمور عشق)"جیو کا کشور"(کشور حیات) "نور نین" (نور چشم)، "شیریں بچن"(شیریں زبان) اور "یوم نہان"(روز غسل) وغیرہ نئی ترکیبیں اس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیں کہ وہ ایک زبان میں دوسری زبان کا بے جوڑ اور نا گوار پیوند نہیں بلکہ ایک خوبصورت "پیٹرن" اور فنکارانہ کمال کا ایک حسین نمونہ نظر آتی ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ولی نے ایک ہی جھٹکے میں زبان کو الٹ پلٹ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس طرح کوئی حکیم صحت کے لئے نسخہ تجویز کرتے ہوئے اس کی خوراک کی مناسب مقدار بھی طے کرتا ہے اسی طرح ولی نے زبان میں جو تجربات کئے اس میں اعتدال کو بھی ملحوظ رکھا اور نئی شعری زبان کے شانہ بشانہ ایسی زبان میں بھی شعر کہے جو آج کی اردو کی طرح صاف، رواں اور فصیح سمجھی جانے والی زبان میں ہیں۔ مجموعی طور پر فرحت بخش سادہ بیانی ولیؔ کی ایسی خصوصیت ہے جس میں کوئی دوسرا ان کا ثانی نہیں اور جو ان کو اردو کے تمام دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ ولی تشبیہات کے بادشاہ ہیں۔ نئی تشبیہ تلاش کرنا، استعارہ وضع کرنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور بہت کم شعراء نئی تشبیہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں_
Vali Deccani (1667-1707) whose name is variously recorded in histroy as Shamsuddin Mohammad Vali, Shams Valiullah, Valiuddin Vali, and Vali Mohammad Vali, is generally recognised in literary history as Vali Deccani and, at times, Vali Gujarati. Said to have been born in Ahmedabad in Gujarat, or Aurangabad in Maharashtra, he travelled to the far ends of the south and the north, including Delhi. He is claimed till now both by Deccan and Gujarat although he lies buried in the city of Ahmedabad.
Vali lived in a time of political and social turmoil but sought his sustenance from the larger mystic traditions of India. He considered literature as a way of negotiating between the physical and the spiritual. The figure of the lover in his poetry represents both the worlds of the sensual and the non-sensual. Even though well versed in the Persian literary tradition and the Deccani and Hindi phraseology, Vali surprised the literary circle in Delhi with his non-Persianised Urdu divaan and its linguistic freshness, which till then was called rekhta, a language of the lesser literay kind, not quite fit for sober poetic expression. His choice for the plebeian idiom and his effort to blend it with other linguistic and literary traditions of the north and the south altered the stereotypical notions of those who championed the purity of language, as a necessary condition for serious literary expression. A master image-maker and an innovator of refreshing similes and metaphors, Vali has come to be categorised as a canonical figure in Urdu poetry.
#learnurduwithtariq #WaliDeccani #ولی_دکنی #Poetry #poetrylovers #poem #poets #litrature #rekhta #walidakkani