سورۃ الاعراف آیت نمبر: 89 قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ ترجمہ: یقیناً ہم اللہ پرجھوٹ باندھیں گے اگر تمہارے دین میں پھر آئیں بعداس کے کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دی اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اس میں لوٹ آئیں مگر یہ کہ اللہ چاہے جو ہمارا رب ہے۔ ہمارے رب نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ کر رکھا ہے ہم نے اللہ ہی پر بھروسا کیا اے ہمارے رب ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ (٨٩) تفسیر: 1۔ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا....: یہ ایک دوسرے طریقے سے جواب ہے، شعیب علیہ السلام عرب تھے اور عربوں میں شروع ہی سے جھوٹ سے شدید نفرت رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وہ نبی جو تمام دنیا کی طرف اور قیامت تک کے لیے تھا عربوں میں مبعوث کرنا اس لیے طے فرمایا کہ عرب اپنی تمام برائیوں کے باوجود کچھ اوصاف حمیدہ رکھتے تھے، دوسری قومیں ان کی طرح نہیں تھیں، ان میں سے ایک وصف سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت تھی۔ اسی لیے ابوسفیان نے ہرقل کے دربار میں جھوٹ نہیں بولا کہ مکہ میں جا کر کوئی یہ نہ کہے کہ سردار نے جھوٹ بولا۔ اس لیے شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں تمھارے دین سے بچا کر توحید کا اعلان کرنے کی توفیق بخشی تو اب ہم پھر تمھارا دین اختیار کریں تو مطلب یہ ہوا کہ ہم نے جھوٹ باندھا تھا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ پر! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ 2۔ وَ مَا يَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْهَا....: یعنی ہمارے لیے تمھارے دین کو اختیار کرنا ممکن ہی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے، اس لیے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، چنانچہ اب ہم جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ دوبارہ تمھارا دین اختیار نہیں کریں گے، وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کی بنا پر کر رہے ہیں، کیونکہ ارادہ خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت پر موقوف ہے۔ اس استثنا سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ شعیب علیہ السلام کو اپنے خاتمہ بالخیر میں شک تھا، بلکہ انھوں نے یہ بات صرف اپنی عاجزی کے اظہار اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کے لیے کہی ہے اور اس میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھا ہے۔ واحدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ انبیاء علیھم السلام اور امت کے اکابر ہمیشہ ہی برے انجام سے پناہ مانگتے رہے۔ خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا ہے : ﴿ وَ اجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ﴾ [ إبراہیم : ۳۵ ]’’اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر دعا یہ تھی : (( يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِيْنِكَ )) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘ [ ترمذي، الدعوات، باب یا مقلب القلوب....: ۳۵۲۲، عن أم سلمۃرضی اللّٰہ عنھا و صححہ الألبانی ] اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بطور فرض ہو، یعنی تمھارے جبر و اکراہ سے تو ہم کفر اختیار نہیں کر سکتے، ہاں! (بالفرض) اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی یہ ہو تو دوسری بات ہے۔ 3۔ عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا: یعنی ہم ایمان پر استقامت کے لیے اپنی قوت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر بھروسا کرتے ہیں۔ ’’ عَلَى اللّٰهِ ‘‘ کو پہلے لانے سے حصر کا معنی پیدا ہو گیا۔ 4۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا....: ’’فَتَحَ‘‘ کا معنی واضح فیصلہ ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو اپنے ماننے والوں ہی کے حق میں ہو گا، یعنی انکار اور ضد پر اڑے ہوئے ان مشرکین کے مقابلے میں ہماری مدد فرما کر ہمارے حق پر ہونے اور ان کے باطل پر ہونے کو خوب واضح کر دے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1049/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 90 وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ ترجمہ: اور اس کی قوم میں سے وہ سردار جنہوں نے انکار کیا تھا کہنے لگے کہ اگر تم شعیب کے پیچھے چلے تو اس وقت تم یقیناً خسارہ اٹھانے والے ہوگے۔ (٩٠) تفسیر: اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ: یعنی شعیب علیہ السلام کی پیروی کی صورت میں تم یقیناً خسارہ اٹھاؤ گے کہ اپنے آبائی دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے اور جن ناجائز ذرائع سے دولت کما رہے ہو ان کو بھی ترک کرنا پڑے گا۔ یہ بات شعیب علیہ السلام کی قوم کے سرداروں تک محدود نہیں بلکہ ہر زمانے میں دنیا پرستوں نے اخلاق و دیانت کے اصولوں کی پابندی سے یہی خطرہ محسوس کیا ہے اور ان کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ تجارت اور دیگر بنیادی معاملات بددیانتی، دغا بازی اور سود خوری کے بغیر نہیں چل سکتے اور سمجھتے رہے ہیں کہ سچی اور صاف بات کہنے سے کاروبار تباہ ہو جاتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1050/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 90 وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ ترجمہ: اور اس کی قوم کے کافروں نے کہا (اے لوگو) اگر تم شیعب (علیہ السلام) کے تابع ہوگئے ، تو بےشک تم نقصان اٹھاؤ گے ۔ تفسیر: ﴿وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ﴾ ”اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے کہنے لگے“ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی اتباع سے ڈراتے ہوئے کہا :﴿لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ﴾” اگر تم نے شعیب کی پیری کی تو تم نقصان اٹھاؤ گے۔“ ان کے نفس نے ان کے لئے مزین کر دیا تھا کہ رشد و ہدایت کی اتباع سراسر خسارہ اور شقاوت ہے انہیں یہ معلوم نہیں کہ خسارہ تو تمام تر خود گمراہی میں پڑے رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے میں ہے اور جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو اس وقت انہیں یہ حقیقت معلوم ہوئی۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/1050/
سورۃ طہ آیت نمبر: 123 قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ترجمہ: اور فرمایا تم یہاں سے اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو جب میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے۔ جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبخت ہوگا۔“ (١٢٣) تفسیر: 1۔ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ : اس کی تفسیر سورۂ بقرہ کی آیت (۳۶) میں دیکھیے، یعنی توبہ قبول ہونے کے باوجود زمین پر رہنے کا فیصلہ قائم رہا، کیونکہ انھیں پیدا ہی زمین کی خلافت کے لیے کیا گیا تھا۔ 2۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ....: سورۂ بقرہ (۳۸) میں ’’ فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ ‘‘ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پیروی کی اور یہاں ’’اتَّبَعَ‘‘ (افتعال) ہے، اس میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے تکلف اور مبالغہ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پوری طرح پیروی کی تو وہ نہ دنیا میں جنت کے راستے سے بھٹکے گا اور نہ آخرت میں جنت سے محروم رہ کر بدنصیب ہو گا، بلکہ سیدھا چلتا ہوا اپنے گھر جنت میں پہنچ جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: ((ضَمِنَ اللّٰهُ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَلاَّ يَضِلَّ فِی الدُّنْيَا وَلاَ يَشْقٰی فِی الْآخِرَةِ ثُمَّ تَلاَ: ﴿ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَ لَا يَشْقٰى ﴾)) [مصنف ابن أبي شیبۃ :10؍467، ح : ۳۰۵۷۵۔ مستدرک حاکم :2؍381، ح : ۳۴۳۸ و صححہ ووافقہ الذھبی ]’’جو شخص قرآن کی پیروی کرے اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے کہ وہ نہ دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ آخرت میں بد نصیب۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’ تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔‘‘ معلوم ہوا ہدایت وہی ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، اللہ تعالیٰ نے ہدایت خود بھیجنے کا وعدہ کیا اور اسے پورا فرمایا ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی رہنمائی منزل پر نہیں پہنچا سکتی، خواہ کوئی عالم ہو یا درویش، انسان ہو یا جن یا کوئی اور، اللہ کی کتاب کے مطابق زندگی گزارنا دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب زندگی کا ضامن ہے، فرمایا: ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾ [ النحل : ۹۷ ] ’’جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کرتے تھے۔‘‘ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/2489/
سورۃ طہ آیت نمبر: 124 وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ترجمہ: اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا ، اس کی معیشت تنگ ہوگی ، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔ تفسیر: ہاں میرے احکام کو نہ ماننے والے، میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کرنے والے، دوسروں کی راہوں پرچلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے انھیں اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہوگی۔اپنی گمراہیوں کی وجہ سے تنگیوں میں رہیں گے۔ گو بظاہر کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین اور ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے سے ہمیشہ شک و شبے اور تنگی و قلت میں ہی مبتلا رہیں گے، بد نصیب اللہ کی رحمت سے محروم، خیر سے خالی ہوں گے کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں، اُس کے وعدوں پر یقین نہیں ان کا مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں۔ قبر کی زمین بھی ان کے لیے تنگ کر دی جائے گی۔ تنگ و تاریک قبر میں انھیں اس طرح دبوچا جائے گا کہ پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جائیں گی۔ اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-tasheel-ul-bayan/2490/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 161 قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ تفسیر: 1۔ قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ....: پوری سورت میں توحید کو دلائل سے ثابت کرنے اور مشرکین کی تردید کے بعد آخر میں خلاصہ چند حقائق کی صورت میں بیان فرمایا۔ ’’ قِيَمًا ‘‘ یہ ’’قِيَامٌ ‘‘ کے معنی میں مصدر ہے جسے مبالغے کے لیے دین کی صفت قرار دیا ہے، جیسے ’’زَيْدٌ عَدْلٌ ‘‘ ہے، یعنی زید بہت عادل ہے، گویا سراسر عدل ہے، یعنی یہ دین نہایت قائم، مضبوط اور سیدھا ہے۔ 2۔ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ: اس میں مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ کی تردید ہے جو اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ دین ابراہیم پر قائم ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمھارا دعویٰ غلط ہے، تمھاری اور ان کی کیا نسبت! تم مشرک اور ابراہیم علیہ السلام شرک سے بے زار اور ایک اﷲ کی طرف ہو چکنے والے۔ ان کا دین تو سچا، سیدھا اور نہایت مضبوط دین اسلام تھا، جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کے لیے پسند فرمایا اور جس کی ہدایت میرے رب نے مجھے عطا فرمائی۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-ul-quran-al-kareem/955/
سورۃ النسآء آیت نمبر: 66 وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا ترجمہ: اگر ہم ان پر یہ فرض کردیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو (١) تفسیر: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر شاق گزرنے والے احکام فرض کئے ہوتے مثلاً، اپنے آپ کو قتل کرنا اور گھروں سے نکلنا وغیرہ تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرسکتے، پس انہیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے آسان احکام نافذ کئے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے اور ان میں کسی کے لیے مشقت نہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن کو چاہئے کہ اسے جو امور گراں گزرتے ہیں، وہ ان کی ضد کو ملاحظہ کرے تاکہ اس پر عبادات آسان ہوجائیں، تاکہ اپنے رب کے لیے اس کی حمد و ثنا اور شکر میں اضافہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انہوں نے اس چیز پر عمل کیا ہوتا جس کی انہیں نصیحت کی گئی ہے، یعنی تمام اوقات کے مطابق ان کے لیے جو اعمال مقرر کئے گئے ہیں، ان کے لیے اپنی ہمتیں صرف کرتے ان کے انتظام اور ان کی تکمیل کے لیے ان کے نفوس پوری کوشش کرتے اور جو چیز انہیں حاصل نہ ہوسکتی اس کے لیے کوشش نہ کرتے اور اس کے درپے نہ ہوتے اور بندے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے حال پر غور کرے جس کو قائم کرنا لازم ہے اس کی تکمیل میں جدوجہد کرے۔ پھر بتدریج تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا رہے یہاں تک کہ جو دینی اور دنیاوی علم و عمل اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ اس شخص کے برعکس ہے جو اس معاملے پر ہی نظریں جمائے رکھتا ہے جہاں تک وہ نہ پہنچ سکا اور نہ اس کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ تفریق ہمت، سستی اور عدم نشاط کی بنا پر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ پھر ان کو جو نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل کرنے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان کے چار مراتب ہیں۔ اول : بھلائی کا حصول۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ذکر کیا گیا ہے ﴿لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾” البتہ ان کے لیے بہتر ہوتا“ یعنی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا جو ان افعال خیر سے متصف ہیں جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور ان سے شریر لوگوں کی صفات زائل ہوجاتیں کیونکہ کسی چیز کے ثابت ہونے سے اس کی ضد کی نفی لازم آتی ہے۔ ثانی : ثابت قدمی اور اس میں اضافے کا حصول۔ کیونکہ اہل ایمان کے ایمان کو قائم رکھنے کے سبب، جسے قائم رکھنے کی انہیں نصیحت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں، اوامرونواہی میں فتنوں کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے کے وقت انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے، تب انہیں ثبات حاصل ہوتا ہے اوامر پر عمل کرنے اور ان نواہی سے اجتناب کی توفیق عطا ہوتی ہے نفس جن کے فعل کا تقاضا کرتا ہے اور ان مصائب کے نازل ہونے پر ثابت قدمی اور استقامت عطا ہوتی ہے جن کو بندہ ناپسند کرتا ہے۔ بندے کو صبر و رضا اور شکر کی توفیق کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا ہوتی ہے۔ پس بندے پر اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوتی ہے اور اسے نزع کے وقت اور قبر میں ثابت قدمی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اوامر کو قائم رکھنے والا بندہ مومن شرعی احکام کا عادی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان احکام سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان احکام کا مشتاق بن جاتا ہے اور یہ الفت اور اشتیاق نیکیوں پر ثبات کے لیے اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/562/ سورۃ النسآء آیت نمبر: 63 أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا ترجمہ: ایسے لوگوں کے دلوں [٩٥] میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے سو آپ ان سے اعراض کیجئے [٩٦] اور نصیحت کیجئے اور ایسی بات کہئے جو ان کے دلوں میں اتر جائے تفسیر: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کی قطعاً پرواہ نہ کیجئے، البتہ انھیں دل نشین انداز میں نصیحت کرتے رہیے اور انھیں یہ سمجھائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے حکم کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔ اس سے معلوم ہواکہ دشمنوں کی سازش کو عفو و درگزر، واعظ و نصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/559/ سورۃ النسآء آیت نمبر: 62 فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا ترجمہ: پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے جب ان کے اپنے کرتوتوں کی بدولت ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے؟ وہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی اور باہمی [٩٤] موافقت کے سوا کچھ نہ تھا تفسیر: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس منافق کو قتل کردیا تھا۔ اس کے وارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر قصاص کے مقدمہ کی بنیاد یہ بنائی کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد فیصلہ آپ کے فیصلہ کے خلاف لینا ہرگز نہ تھا بلکہ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں فریقوں کے درمیان صلح کروادیں گے اور اپنے اس بیان پر اللہ کی قسمیں بھی کھانے لگے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/558/
سورۃ الاعراف آیت نمبر: 86 وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ترجمہ: اور ہر رستے پر نہ بیٹھو ، کہ لوگوں کو ڈراتے اور مومنوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ، اور اس میں عیب ڈھونڈتے ہو ، اور وہ وقت یاد کرو کہ تم تھوڑے تھے ، پھر خدا نے تمہیں بہت کیا ، تھے پھر خدا نے تمہیں بہت کیا ، اور دیکھو ، کہ مفسدوں کا انجام کیا ہوا ۔ تفسیر: وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ ....: یہ لوگ راستوں پر ناکے لگا کر لوگوں سے زبردستی ٹیکس وصول کرتے، کبھی ڈرا دھمکا کر ان کی بے عزتی کرتے اور ان کا سب کچھ ہی چھین لیتے۔ اگر کوئی شعیب علیہ السلام پر ایمان لانے کی طرف مائل نظر آتا تو اسے ہر طرح سے روکنے کی کوشش کرتے اور اسلام کے احکام میں طرح طرح کی خرابیاں نکال کر اور شبہات پیدا کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ یہ سیدھا نہیں بلکہ غلط راستہ ہے، جیسا کہ آج کل بھی نام کے وہ مسلمان دانش ور، صحافی، پروفیسر اور حکمران جو کفار سے مرعوب ہیں اسلام کے احکام کو وحشیانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ شعیب علیہ السلام نے انھیں ان برائیوں سے روکا اور اﷲ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا کہ اس نے تمھاری تھوڑی سی نسل کو کس قدر بڑھایا اور انھیں مفسدین کے انجامِ بد سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-ul-quran-al-kareem/1046/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 86 وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ترجمہ: اور ہر راستے پر نہ بیٹھو کہ دھمکاتے ہو اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو اس کو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔ اور یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو اس نے تمھیں زیادہ کردیا اور دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟ تفسیر: ﴿وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ﴾ ” اور ہر راستے پر نہ بیٹھا کرو۔“ یعنی لوگوں کے لئے راستوں پر گھات لگا کر نہ بیٹھو جہاں کثرت سے لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور تم ان راستوں سے لوگوں کو ڈراتے ہو۔ ﴿تُوعِدُونَ﴾ ” ڈراتے ہو۔“ اور ان پر چلنے سے ان کو دھمکاتے ہو۔ ﴿وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو۔“ یعنی جو کوئی راہ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہو۔ ﴿وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا﴾” اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔“ یعنی تم اللہ کے راستے میں کجی چاہتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہو۔ تم پر اور دوسرے لوگوں پر واجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے کی تعظیم اور احترام کرو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کردیا ہے تاکہ وہ اس کی رضا کی منزل، اور عزت والے گھر تک پہنچنے کے لئے اس پر گامزن ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اپنے بندوں کو اپنی عظیم رحمت سے نوازے۔ تمہیں تو چاہئے کہ تم اس کی مدد کرو، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو اور اس کا دفاع کرو۔ نہ اس کے برعکس کہ تم اس راستے کے راہزن بن کر اس کو مسدود کر دو اور لوگوں کو اس راستے سے روکو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ عداوت اور سب سے درست اور معتدل راستے کو ٹیڑھا کرنا ہے اور تم ان لوگوں کو برا بھلا کہتے ہو جو اس راستے پر گامزن ہیں۔ ﴿ وَاذْكُرُوا﴾ اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو ﴿إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ﴾ ” جب کہ تم تھوڑے تھے، پس اس نے تم کو زیادہ کردیا“ یعنی تمہیں بیویاں، نسل اور صحت عطا کر کے تمہاری تعداد کو بڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی وبا اور کسی ایسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جو تعداد کو کم کردیتی ہے نہ تم پر کوئی ایسا دشمن مسلط کیا جو تمہیں ہلاک کردیتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں تتر بتر کیا بلکہ یہ اللہ کا تم پر انعام ہے کہ اس نے تمہیں مجتمع رکھا، تمہیں بے حساب رزق اور کثرت نسل سے نوازا۔﴿وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ﴾” اور دیکھو کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا“ کیونکہ تم ان کی جمعیت میں تشتت اور افتراق اور ان کے گھروں میں وحشت اور ہلاکت کے مناظر کے سوا کچھ نہیں پاؤ گے۔ انہوں نے اپنے بارے میں اپنے پیچھے کوئی اچھے تذکرے نہیں چھوڑے، بلکہ اس کے برعکس اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کر رہی ہے اور قیامت کے روز بھی ان کو رسوائی اور نصیحت کا سامنا کرنا ہوگا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-saadi/1046/
سورۃ الاعراف آیت نمبر: 93 فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ ترجمہ: اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے اور میں نے تو تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں (١)۔ تفسیر: عذاب آچکنے کے بعد جب حضرت شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے تو انھوں نے وفور جذبا ت میں یہ باتیں کہیں کہ میں اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکا، اللہ کا پیغام سنا چکا میں نے تم لوگوں کو بہت سمجھایا، بجھایا ۔غم خواری، خیر خواہی کی، لیکن تم کافر کے کافرہی رہے، تو اب میں ایسے لوگوں پر افسوس کروں تو کیوں کروں۔ آیت59سے93تک پانچ مشہور انبیاء کی دعوت اور منکرین کی مخالفت، ان کے سوال و جواب اور بالآخر نا فرمانوں کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے، سورۂ اعراف مکہ میں اسوقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے اصحاب اسی قسم کے یاان سے ملتے جلتے حالات سے دو چار تھے، یہاں انبیاء کے حالات بیان کرنے کا مقصد ایک تو یہ تھا کہ ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مخالفین کی سرگرمیوں پر صبر و ضبط سے کام لیں اور دوسرا یہ سمجھانا مقصودتھا ظالموں کو بالآخر اپنے برے انجام سے دوچار ہو نا ہی پڑتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان ظالم لوگوں سے نجات دیکر کا میا بی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-tasheel-ul-bayan/1053/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 87 وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ترجمہ: اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اور کچھ لوگ ایمان نہیں لائے تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ تفسیر: ﴿وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا﴾ ” اور اگر تم میں سے ایک فرقہ ایمان لایا اس پر جو میرے ہاتھ بھیجا گیا اور ایک فرقہ ایمان نہیں لایا“ اور ایمان نہ لانے والا گروہ ان میں سے اکثریت کا گروہ ہے﴿فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کرے ہمارے درمیان اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ پس وہ حق کو ماننے والے کی مدد کرے گا اور حق کا ابطال کرنے والے پر عذاب واقع کرے گا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-saadi/1047/
سورۃ النسآء آیت نمبر: 105 إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا ترجمہ: یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ جو سیدھا راستہ اللہ نے تم کو دکھایا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں کی حمایت کرنے والا نہ ہوجانا تفسیر: 110۔ آیت 105 سے لے کر 109 تک کا تعلق ایک خاص واقعہ سے ہے، مجاہد، عکرمہ، قتادہ اور سدی وغیرہم نے ذکر کیا کہ یہ آیتیں بنی ابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، جس کا نام طعمہ بن ابیرق تھا، اس نے ایک آدمی کا (زرہ) چوری کرلیا۔ اور جب اس کا نام لیا جانے لگا، تورات کو چپکے سے اسے ایک یہودی کے گھر میں ڈال آیا۔ اور وہ اور اس کے بھائی کہنے لگے کہ فلاں یہودی نے زرہ چوری کیا ہے۔ اور تمام بھائی مل کر قسم کھا گئے کہ طعمہ نے چوری نہیں کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان کو سچ سمجھا، اور یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا، تو یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور طعمہ کا جھوٹ کھل کر سامنے آیا، چنانچہ اس نے اپنے ارتداد کا اعلان کردیا اور مکہ کی طرف بھاگ گیا، جہاں اس کے سر پر چوری کرتے ہوئے ایک دیوار گر گئی اور کفر کی حالت میں مرگیا، ، یعنی اللہ نے جس کا علم آپ کو بذریعہ وحی دیا ہے۔ ، میں دلیل ہے کہ جب تک کسی کے سچا اور حق پر ہونے کا یقین نہ ہوجائے اس کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ اس میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایک قسم کا عتاب بھی ہے کہ آپ کو خیانت کرنے والوں کی طرف سے دفاع نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لیے اللہ نے آپ سے فرمایا کہ اللہ سے مغفرت طلب کیجئے کہ آپ نے بے گناہ یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا تھا۔ آیت میں ان لوگوں کے خلاف سخت دھمکی ہے جو بغیر تحقیق کیے دوسروں کا ساتھ دیتے رہتے ہیں۔۔ میں خوان مبالغہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ طعمہ بہت بڑا خائن اور بہت بڑا گناہ گار ہے۔ چنانچہ حالات نے اس کی تصدیق کردی کہ وہ مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا، اور کفر پر اس کی موت ہوگئی۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-tayseer-ur-rehman/601/ سورۃ النسآء آیت نمبر: 106 وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے تفسیر: وَ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَ: یعنی جو حمایت آپ نے کی اس کی مغفرت طلب کریں۔ ایک معنی مفسرین نے یہ بھی کیا ہے کہ ان گناہ گاروں کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات قاضی ایک فریق کی چرب زبانی کی وجہ سے اس کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خبر دار! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہوں، ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل و حجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہوشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، حالانکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آگ کا ٹکڑا ہے، اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔‘‘ [ بخاری، المظالم، باب إثم من خاصم....: ۲۴۵۸ ] shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/602/
سورۃ النسآء آیت نمبر: 106 وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ترجمہ: اور اللہ سے مغفرت طلب کیجئے، بے شک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے تفسیر: ﴿وَّاسْتَغْفِرِ اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔“ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾” بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-saadi/602/ سورۃ النسآء آیت نمبر: 106 وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ترجمہ: اور اللہ سے مغفرت مانگو (کہ قضا کا معاملہ نہایت نازک ہے) بلاشبہ اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے تفسیر: ﴿وَّاسْتَغْفِرِ اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔“ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾” بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/602/
سورۃ الاعراف آیت نمبر: 86 وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ترجمہ: اور ہر راستے پر نہ بیٹھو کہ دھمکاتے ہو اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو اس کو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔ اور یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو اس نے تمھیں زیادہ کردیا اور دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟ تفسیر: 1- اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا جس کے نمونے آج کل کے متجددین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں بھی نظر آتے ہیں ۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. علاوہ ازیں راستے میں بیٹھنے کے اور بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں ۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لئے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ یا حضرت شعیب (عليہ السلام) کی طرف جانے والے راستوں میں بیٹھنا تاکہ ان کے پاس جانے والوں کو روکیں اور ان سے انہیں بدظن کریں، جیسے قریش مکہ کرتے تھے یا دین کے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا ۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کرلیں ۔ یا بعض کے نزدیک محصول اور چنگی وصول کرنے کے لئے ان کا راستوں پر بیٹھنا ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ یہ سب ہی کچھ کرتے ہوں ( فتح القدیر ) ۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-makkah/1046/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 87 وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ترجمہ: اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اور کچھ لوگ ایمان نہیں لائے تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ تفسیر: 1- کفر پر صبر کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کے لئے تہدید اور سخت وعید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اہل حق کا اہل باطل پر فتح و غلبہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿فَتَرَبَّصُوٓاْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ﴾ [التوبة:52]. shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-makkah/1047/
Mashallah❤❤❤❤❤❤❤❤
Mashallah
SUBHANALLAH
Aamieen ❤❤❤
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 89
قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ
ترجمہ:
یقیناً ہم اللہ پرجھوٹ باندھیں گے اگر تمہارے دین میں پھر آئیں بعداس کے کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دی اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اس میں لوٹ آئیں مگر یہ کہ اللہ چاہے جو ہمارا رب ہے۔ ہمارے رب نے ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ کر رکھا ہے ہم نے اللہ ہی پر بھروسا کیا اے ہمارے رب ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ (٨٩)
تفسیر:
1۔ قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا....: یہ ایک دوسرے طریقے سے جواب ہے، شعیب علیہ السلام عرب تھے اور عربوں میں شروع ہی سے جھوٹ سے شدید نفرت رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وہ نبی جو تمام دنیا کی طرف اور قیامت تک کے لیے تھا عربوں میں مبعوث کرنا اس لیے طے فرمایا کہ عرب اپنی تمام برائیوں کے باوجود کچھ اوصاف حمیدہ رکھتے تھے، دوسری قومیں ان کی طرح نہیں تھیں، ان میں سے ایک وصف سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت تھی۔ اسی لیے ابوسفیان نے ہرقل کے دربار میں جھوٹ نہیں بولا کہ مکہ میں جا کر کوئی یہ نہ کہے کہ سردار نے جھوٹ بولا۔ اس لیے شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں تمھارے دین سے بچا کر توحید کا اعلان کرنے کی توفیق بخشی تو اب ہم پھر تمھارا دین اختیار کریں تو مطلب یہ ہوا کہ ہم نے جھوٹ باندھا تھا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ پر! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
2۔ وَ مَا يَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِيْهَا....: یعنی ہمارے لیے تمھارے دین کو اختیار کرنا ممکن ہی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے، اس لیے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، چنانچہ اب ہم جو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ دوبارہ تمھارا دین اختیار نہیں کریں گے، وہ بھی اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کی بنا پر کر رہے ہیں، کیونکہ ارادہ خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اس کا پورا ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت پر موقوف ہے۔ اس استثنا سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ شعیب علیہ السلام کو اپنے خاتمہ بالخیر میں شک تھا، بلکہ انھوں نے یہ بات صرف اپنی عاجزی کے اظہار اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کے لیے کہی ہے اور اس میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھا ہے۔ واحدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ انبیاء علیھم السلام اور امت کے اکابر ہمیشہ ہی برے انجام سے پناہ مانگتے رہے۔ خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا ہے : ﴿ وَ اجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ﴾ [ إبراہیم : ۳۵ ]’’اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر دعا یہ تھی : (( يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِيْنِكَ )) ’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔‘‘ [ ترمذي، الدعوات، باب یا مقلب القلوب....: ۳۵۲۲، عن أم سلمۃرضی اللّٰہ عنھا و صححہ الألبانی ] اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بطور فرض ہو، یعنی تمھارے جبر و اکراہ سے تو ہم کفر اختیار نہیں کر سکتے، ہاں! (بالفرض) اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی یہ ہو تو دوسری بات ہے۔
3۔ عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا: یعنی ہم ایمان پر استقامت کے لیے اپنی قوت پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر بھروسا کرتے ہیں۔ ’’ عَلَى اللّٰهِ ‘‘ کو پہلے لانے سے حصر کا معنی پیدا ہو گیا۔
4۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا....: ’’فَتَحَ‘‘ کا معنی واضح فیصلہ ہے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تو اپنے ماننے والوں ہی کے حق میں ہو گا، یعنی انکار اور ضد پر اڑے ہوئے ان مشرکین کے مقابلے میں ہماری مدد فرما کر ہمارے حق پر ہونے اور ان کے باطل پر ہونے کو خوب واضح کر دے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1049/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 90
وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ
ترجمہ:
اور اس کی قوم میں سے وہ سردار جنہوں نے انکار کیا تھا کہنے لگے کہ اگر تم شعیب کے پیچھے چلے تو اس وقت تم یقیناً خسارہ اٹھانے والے ہوگے۔ (٩٠)
تفسیر:
اِنَّكُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ: یعنی شعیب علیہ السلام کی پیروی کی صورت میں تم یقیناً خسارہ اٹھاؤ گے کہ اپنے آبائی دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے اور جن ناجائز ذرائع سے دولت کما رہے ہو ان کو بھی ترک کرنا پڑے گا۔ یہ بات شعیب علیہ السلام کی قوم کے سرداروں تک محدود نہیں بلکہ ہر زمانے میں دنیا پرستوں نے اخلاق و دیانت کے اصولوں کی پابندی سے یہی خطرہ محسوس کیا ہے اور ان کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ تجارت اور دیگر بنیادی معاملات بددیانتی، دغا بازی اور سود خوری کے بغیر نہیں چل سکتے اور سمجھتے رہے ہیں کہ سچی اور صاف بات کہنے سے کاروبار تباہ ہو جاتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1050/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 90
وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ
ترجمہ:
اور اس کی قوم کے کافروں نے کہا (اے لوگو) اگر تم شیعب (علیہ السلام) کے تابع ہوگئے ، تو بےشک تم نقصان اٹھاؤ گے ۔
تفسیر:
﴿وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ﴾ ”اور ان کی قوم میں سے سردار لوگ جو کافر تھے کہنے لگے“ یعنی ان کی قوم کے سرداروں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی اتباع سے ڈراتے ہوئے کہا :﴿لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ﴾” اگر تم نے شعیب کی پیری کی تو تم نقصان اٹھاؤ گے۔“ ان کے نفس نے ان کے لئے مزین کر دیا تھا کہ رشد و ہدایت کی اتباع سراسر خسارہ اور شقاوت ہے انہیں یہ معلوم نہیں کہ خسارہ تو تمام تر خود گمراہی میں پڑے رہنے اور دوسروں کو گمراہ کرنے میں ہے اور جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو اس وقت انہیں یہ حقیقت معلوم ہوئی۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/1050/
Mashallah ❤️❤️❤️
سورۃ طہ
آیت نمبر: 123
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
ترجمہ:
اور فرمایا تم یہاں سے اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو جب میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے۔ جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبخت ہوگا۔“ (١٢٣)
تفسیر:
1۔ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ : اس کی تفسیر سورۂ بقرہ کی آیت (۳۶) میں دیکھیے، یعنی توبہ قبول ہونے کے باوجود زمین پر رہنے کا فیصلہ قائم رہا، کیونکہ انھیں پیدا ہی زمین کی خلافت کے لیے کیا گیا تھا۔
2۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ....: سورۂ بقرہ (۳۸) میں ’’ فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ ‘‘ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پیروی کی اور یہاں ’’اتَّبَعَ‘‘ (افتعال) ہے، اس میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے تکلف اور مبالغہ ہے، یعنی جس نے میری ہدایت کی پوری طرح پیروی کی تو وہ نہ دنیا میں جنت کے راستے سے بھٹکے گا اور نہ آخرت میں جنت سے محروم رہ کر بدنصیب ہو گا، بلکہ سیدھا چلتا ہوا اپنے گھر جنت میں پہنچ جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا: ((ضَمِنَ اللّٰهُ لِمَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ أَلاَّ يَضِلَّ فِی الدُّنْيَا وَلاَ يَشْقٰی فِی الْآخِرَةِ ثُمَّ تَلاَ: ﴿ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَ لَا يَشْقٰى ﴾)) [مصنف ابن أبي شیبۃ :10؍467، ح : ۳۰۵۷۵۔ مستدرک حاکم :2؍381، ح : ۳۴۳۸ و صححہ ووافقہ الذھبی ]’’جو شخص قرآن کی پیروی کرے اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہے کہ وہ نہ دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ آخرت میں بد نصیب۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’ تو جو میری ہدایت کے پیچھے چلا تو وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔‘‘ معلوم ہوا ہدایت وہی ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، اللہ تعالیٰ نے ہدایت خود بھیجنے کا وعدہ کیا اور اسے پورا فرمایا ہے۔ اللہ کے سوا کسی کی رہنمائی منزل پر نہیں پہنچا سکتی، خواہ کوئی عالم ہو یا درویش، انسان ہو یا جن یا کوئی اور، اللہ کی کتاب کے مطابق زندگی گزارنا دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب زندگی کا ضامن ہے، فرمایا: ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾ [ النحل : ۹۷ ] ’’جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقیناً ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقیناً ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلے میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کرتے تھے۔‘‘
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/2489/
سورۃ طہ
آیت نمبر: 124
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ
ترجمہ:
اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا ، اس کی معیشت تنگ ہوگی ، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے ۔
تفسیر:
ہاں میرے احکام کو نہ ماننے والے، میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہ کرنے والے، دوسروں کی راہوں پرچلنے والے دنیا میں بھی تنگ رہیں گے انھیں اطمینان اور کشادہ دلی میسر نہ ہوگی۔اپنی گمراہیوں کی وجہ سے تنگیوں میں رہیں گے۔ گو بظاہر کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، رہنے سہنے کی فراخی ہو لیکن دل میں یقین اور ہدایت نہ ہونے کی وجہ سے سے ہمیشہ شک و شبے اور تنگی و قلت میں ہی مبتلا رہیں گے، بد نصیب اللہ کی رحمت سے محروم، خیر سے خالی ہوں گے کیونکہ اللہ پر ایمان نہیں، اُس کے وعدوں پر یقین نہیں ان کا مرنے کے بعد کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں۔ قبر کی زمین بھی ان کے لیے تنگ کر دی جائے گی۔ تنگ و تاریک قبر میں انھیں اس طرح دبوچا جائے گا کہ پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جائیں گی۔ اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اُٹھائیں گے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-tasheel-ul-bayan/2490/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 161
قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ:
آپ کہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتایا ہے کہ وہ دین مستحکم ہے جو طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) کا جو اللہ کی طرف یکسو تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔
تفسیر:
1۔ قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ....: پوری سورت میں توحید کو دلائل سے ثابت کرنے اور مشرکین کی تردید کے بعد آخر میں خلاصہ چند حقائق کی صورت میں بیان فرمایا۔ ’’ قِيَمًا ‘‘ یہ ’’قِيَامٌ ‘‘ کے معنی میں مصدر ہے جسے مبالغے کے لیے دین کی صفت قرار دیا ہے، جیسے ’’زَيْدٌ عَدْلٌ ‘‘ ہے، یعنی زید بہت عادل ہے، گویا سراسر عدل ہے، یعنی یہ دین نہایت قائم، مضبوط اور سیدھا ہے۔
2۔ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ: اس میں مشرکین مکہ اور یہود و نصاریٰ کی تردید ہے جو اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ دین ابراہیم پر قائم ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمھارا دعویٰ غلط ہے، تمھاری اور ان کی کیا نسبت! تم مشرک اور ابراہیم علیہ السلام شرک سے بے زار اور ایک اﷲ کی طرف ہو چکنے والے۔ ان کا دین تو سچا، سیدھا اور نہایت مضبوط دین اسلام تھا، جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں کے لیے پسند فرمایا اور جس کی ہدایت میرے رب نے مجھے عطا فرمائی۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-ul-quran-al-kareem/955/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 66
وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
ترجمہ:
اگر ہم ان پر یہ فرض کردیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو (١)
تفسیر:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر شاق گزرنے والے احکام فرض کئے ہوتے مثلاً، اپنے آپ کو قتل کرنا اور گھروں سے نکلنا وغیرہ تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرسکتے، پس انہیں اپنے رب کی حمد و ثنا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے آسان احکام نافذ کئے ہیں جن پر عمل کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے اور ان میں کسی کے لیے مشقت نہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن کو چاہئے کہ اسے جو امور گراں گزرتے ہیں، وہ ان کی ضد کو ملاحظہ کرے تاکہ اس پر عبادات آسان ہوجائیں، تاکہ اپنے رب کے لیے اس کی حمد و ثنا اور شکر میں اضافہ ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر انہوں نے اس چیز پر عمل کیا ہوتا جس کی انہیں نصیحت کی گئی ہے، یعنی تمام اوقات کے مطابق ان کے لیے جو اعمال مقرر کئے گئے ہیں، ان کے لیے اپنی ہمتیں صرف کرتے ان کے انتظام اور ان کی تکمیل کے لیے ان کے نفوس پوری کوشش کرتے اور جو چیز انہیں حاصل نہ ہوسکتی اس کے لیے کوشش نہ کرتے اور اس کے درپے نہ ہوتے اور بندے کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے حال پر غور کرے جس کو قائم کرنا لازم ہے اس کی تکمیل میں جدوجہد کرے۔ پھر بتدریج تھوڑا تھوڑا آگے بڑھتا رہے یہاں تک کہ جو دینی اور دنیاوی علم و عمل اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ اس شخص کے برعکس ہے جو اس معاملے پر ہی نظریں جمائے رکھتا ہے جہاں تک وہ نہ پہنچ سکا اور نہ اس کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ تفریق ہمت، سستی اور عدم نشاط کی بنا پر اس منزل تک نہیں پہنچ سکا۔
پھر ان کو جو نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل کرنے سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان کے چار مراتب ہیں۔
اول : بھلائی کا حصول۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ذکر کیا گیا ہے ﴿لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ﴾” البتہ ان کے لیے بہتر ہوتا“ یعنی ان کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا جو ان افعال خیر سے متصف ہیں جن کا ان کو حکم دیا گیا تھا اور ان سے شریر لوگوں کی صفات زائل ہوجاتیں کیونکہ کسی چیز کے ثابت ہونے سے اس کی ضد کی نفی لازم آتی ہے۔
ثانی : ثابت قدمی اور اس میں اضافے کا حصول۔ کیونکہ اہل ایمان کے ایمان کو قائم رکھنے کے سبب، جسے قائم رکھنے کی انہیں نصیحت کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ دنیا کی زندگی میں، اوامرونواہی میں فتنوں کے وارد ہونے اور مصائب کے نازل ہونے کے وقت انہیں ثابت قدمی عطا کرتا ہے، تب انہیں ثبات حاصل ہوتا ہے اوامر پر عمل کرنے اور ان نواہی سے اجتناب کی توفیق عطا ہوتی ہے نفس جن کے فعل کا تقاضا کرتا ہے اور ان مصائب کے نازل ہونے پر ثابت قدمی اور استقامت عطا ہوتی ہے جن کو بندہ ناپسند کرتا ہے۔ بندے کو صبر و رضا اور شکر کی توفیق کے ذریعے سے ثابت قدمی عطا ہوتی ہے۔ پس بندے پر اس کی ثابت قدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد نازل ہوتی ہے اور اسے نزع کے وقت اور قبر میں ثابت قدمی سے نواز دیا جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اوامر کو قائم رکھنے والا بندہ مومن شرعی احکام کا عادی بن جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان احکام سے مانوس ہوجاتا ہے اور ان احکام کا مشتاق بن جاتا ہے اور یہ الفت اور اشتیاق نیکیوں پر ثبات کے لیے اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/562/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 63
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا
ترجمہ:
ایسے لوگوں کے دلوں [٩٥] میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے سو آپ ان سے اعراض کیجئے [٩٦] اور نصیحت کیجئے اور ایسی بات کہئے جو ان کے دلوں میں اتر جائے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کی قطعاً پرواہ نہ کیجئے، البتہ انھیں دل نشین انداز میں نصیحت کرتے رہیے اور انھیں یہ سمجھائیے کہ اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اس کے حکم کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔ اس سے معلوم ہواکہ دشمنوں کی سازش کو عفو و درگزر، واعظ و نصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/559/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 62
فَكَيْفَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءُوكَ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا إِحْسَانًا وَتَوْفِيقًا
ترجمہ:
پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوتا ہے جب ان کے اپنے کرتوتوں کی بدولت ان پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے؟ وہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی اور باہمی [٩٤] موافقت کے سوا کچھ نہ تھا
تفسیر:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جس منافق کو قتل کردیا تھا۔ اس کے وارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر قصاص کے مقدمہ کی بنیاد یہ بنائی کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد فیصلہ آپ کے فیصلہ کے خلاف لینا ہرگز نہ تھا بلکہ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں فریقوں کے درمیان صلح کروادیں گے اور اپنے اس بیان پر اللہ کی قسمیں بھی کھانے لگے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/558/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 86
وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
ترجمہ:
اور ہر رستے پر نہ بیٹھو ، کہ لوگوں کو ڈراتے اور مومنوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ، اور اس میں عیب ڈھونڈتے ہو ، اور وہ وقت یاد کرو کہ تم تھوڑے تھے ، پھر خدا نے تمہیں بہت کیا ، تھے پھر خدا نے تمہیں بہت کیا ، اور دیکھو ، کہ مفسدوں کا انجام کیا ہوا ۔
تفسیر:
وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ ....: یہ لوگ راستوں پر ناکے لگا کر لوگوں سے زبردستی ٹیکس وصول کرتے، کبھی ڈرا دھمکا کر ان کی بے عزتی کرتے اور ان کا سب کچھ ہی چھین لیتے۔ اگر کوئی شعیب علیہ السلام پر ایمان لانے کی طرف مائل نظر آتا تو اسے ہر طرح سے روکنے کی کوشش کرتے اور اسلام کے احکام میں طرح طرح کی خرابیاں نکال کر اور شبہات پیدا کرکے ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ یہ سیدھا نہیں بلکہ غلط راستہ ہے، جیسا کہ آج کل بھی نام کے وہ مسلمان دانش ور، صحافی، پروفیسر اور حکمران جو کفار سے مرعوب ہیں اسلام کے احکام کو وحشیانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ شعیب علیہ السلام نے انھیں ان برائیوں سے روکا اور اﷲ تعالیٰ کا احسان یاد دلایا کہ اس نے تمھاری تھوڑی سی نسل کو کس قدر بڑھایا اور انھیں مفسدین کے انجامِ بد سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-ul-quran-al-kareem/1046/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 86
وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
ترجمہ:
اور ہر راستے پر نہ بیٹھو کہ دھمکاتے ہو اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو اس کو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔ اور یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو اس نے تمھیں زیادہ کردیا اور دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
تفسیر:
﴿وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ﴾ ” اور ہر راستے پر نہ بیٹھا کرو۔“ یعنی لوگوں کے لئے راستوں پر گھات لگا کر نہ بیٹھو جہاں کثرت سے لوگوں کا گزر ہوتا ہے اور تم ان راستوں سے لوگوں کو ڈراتے ہو۔ ﴿تُوعِدُونَ﴾ ” ڈراتے ہو۔“ اور ان پر چلنے سے ان کو دھمکاتے ہو۔ ﴿وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ﴾ ” اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو۔“ یعنی جو کوئی راہ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکتے ہو۔ ﴿وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا﴾” اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔“ یعنی تم اللہ کے راستے میں کجی چاہتے ہو اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے ہو۔
تم پر اور دوسرے لوگوں پر واجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے کی تعظیم اور احترام کرو جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کردیا ہے تاکہ وہ اس کی رضا کی منزل، اور عزت والے گھر تک پہنچنے کے لئے اس پر گامزن ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اپنے بندوں کو اپنی عظیم رحمت سے نوازے۔ تمہیں تو چاہئے کہ تم اس کی مدد کرو، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو اور اس کا دفاع کرو۔ نہ اس کے برعکس کہ تم اس راستے کے راہزن بن کر اس کو مسدود کر دو اور لوگوں کو اس راستے سے روکو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی، اللہ تعالیٰ کے ساتھ عداوت اور سب سے درست اور معتدل راستے کو ٹیڑھا کرنا ہے اور تم ان لوگوں کو برا بھلا کہتے ہو جو اس راستے پر گامزن ہیں۔ ﴿ وَاذْكُرُوا﴾ اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو ﴿إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ﴾ ” جب کہ تم تھوڑے تھے، پس اس نے تم کو زیادہ کردیا“ یعنی تمہیں بیویاں، نسل اور صحت عطا کر کے تمہاری تعداد کو بڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی وبا اور کسی ایسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جو تعداد کو کم کردیتی ہے نہ تم پر کوئی ایسا دشمن مسلط کیا جو تمہیں ہلاک کردیتا اور نہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمین میں تتر بتر کیا بلکہ یہ اللہ کا تم پر انعام ہے کہ اس نے تمہیں مجتمع رکھا، تمہیں بے حساب رزق اور کثرت نسل سے نوازا۔﴿وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ﴾” اور دیکھو کیا ہوا انجام فساد کرنے والوں کا“ کیونکہ تم ان کی جمعیت میں تشتت اور افتراق اور ان کے گھروں میں وحشت اور ہلاکت کے مناظر کے سوا کچھ نہیں پاؤ گے۔ انہوں نے اپنے بارے میں اپنے پیچھے کوئی اچھے تذکرے نہیں چھوڑے، بلکہ اس کے برعکس اس دنیا میں بھی لعنت ان کا پیچھا کر رہی ہے اور قیامت کے روز بھی ان کو رسوائی اور نصیحت کا سامنا کرنا ہوگا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-saadi/1046/
Assslamualaikum urdu translation kis sahab ne kiya hai
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 93
فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ
ترجمہ:
اس وقت شعیب (علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے گئے اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے احکام پہنچا دئیے تھے اور میں نے تو تمہاری خیر خواہی کی۔ پھر میں ان کافر لوگوں پر کیوں رنج کروں (١)۔
تفسیر:
عذاب آچکنے کے بعد جب حضرت شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے تو انھوں نے وفور جذبا ت میں یہ باتیں کہیں کہ میں اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکا، اللہ کا پیغام سنا چکا میں نے تم لوگوں کو بہت سمجھایا، بجھایا ۔غم خواری، خیر خواہی کی، لیکن تم کافر کے کافرہی رہے، تو اب میں ایسے لوگوں پر افسوس کروں تو کیوں کروں۔
آیت59سے93تک پانچ مشہور انبیاء کی دعوت اور منکرین کی مخالفت، ان کے سوال و جواب اور بالآخر نا فرمانوں کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے، سورۂ اعراف مکہ میں اسوقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے اصحاب اسی قسم کے یاان سے ملتے جلتے حالات سے دو چار تھے، یہاں انبیاء کے حالات بیان کرنے کا مقصد ایک تو یہ تھا کہ ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مخالفین کی سرگرمیوں پر صبر و ضبط سے کام لیں اور دوسرا یہ سمجھانا مقصودتھا ظالموں کو بالآخر اپنے برے انجام سے دوچار ہو نا ہی پڑتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان ظالم لوگوں سے نجات دیکر کا میا بی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-tasheel-ul-bayan/1053/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 87
وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
ترجمہ:
اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اور کچھ لوگ ایمان نہیں لائے تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔
تفسیر:
﴿وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا﴾ ” اور اگر تم میں سے ایک فرقہ ایمان لایا اس پر جو میرے ہاتھ بھیجا گیا اور ایک فرقہ ایمان نہیں لایا“ اور ایمان نہ لانے والا گروہ ان میں سے اکثریت کا گروہ ہے﴿فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ﴾ ” تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کرے ہمارے درمیان اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ پس وہ حق کو ماننے والے کی مدد کرے گا اور حق کا ابطال کرنے والے پر عذاب واقع کرے گا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-saadi/1047/
Hi
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 105
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
ترجمہ:
یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ جو سیدھا راستہ اللہ نے تم کو دکھایا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرو اور خیانت کرنے والوں کی حمایت کرنے والا نہ ہوجانا
تفسیر:
110۔ آیت 105 سے لے کر 109 تک کا تعلق ایک خاص واقعہ سے ہے، مجاہد، عکرمہ، قتادہ اور سدی وغیرہم نے ذکر کیا کہ یہ آیتیں بنی ابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، جس کا نام طعمہ بن ابیرق تھا، اس نے ایک آدمی کا (زرہ) چوری کرلیا۔ اور جب اس کا نام لیا جانے لگا، تورات کو چپکے سے اسے ایک یہودی کے گھر میں ڈال آیا۔ اور وہ اور اس کے بھائی کہنے لگے کہ فلاں یہودی نے زرہ چوری کیا ہے۔ اور تمام بھائی مل کر قسم کھا گئے کہ طعمہ نے چوری نہیں کی ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان کو سچ سمجھا، اور یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا، تو یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور طعمہ کا جھوٹ کھل کر سامنے آیا، چنانچہ اس نے اپنے ارتداد کا اعلان کردیا اور مکہ کی طرف بھاگ گیا، جہاں اس کے سر پر چوری کرتے ہوئے ایک دیوار گر گئی اور کفر کی حالت میں مرگیا، ، یعنی اللہ نے جس کا علم آپ کو بذریعہ وحی دیا ہے۔
، میں دلیل ہے کہ جب تک کسی کے سچا اور حق پر ہونے کا یقین نہ ہوجائے اس کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ اس میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایک قسم کا عتاب بھی ہے کہ آپ کو خیانت کرنے والوں کی طرف سے دفاع نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لیے اللہ نے آپ سے فرمایا کہ اللہ سے مغفرت طلب کیجئے کہ آپ نے بے گناہ یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا تھا۔ آیت میں ان لوگوں کے خلاف سخت دھمکی ہے جو بغیر تحقیق کیے دوسروں کا ساتھ دیتے رہتے ہیں۔۔ میں خوان مبالغہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ طعمہ بہت بڑا خائن اور بہت بڑا گناہ گار ہے۔ چنانچہ حالات نے اس کی تصدیق کردی کہ وہ مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا، اور کفر پر اس کی موت ہوگئی۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-tayseer-ur-rehman/601/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 106
وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
ترجمہ:
اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے
تفسیر:
وَ اسْتَغْفِرِ اللّٰهَ: یعنی جو حمایت آپ نے کی اس کی مغفرت طلب کریں۔ ایک معنی مفسرین نے یہ بھی کیا ہے کہ ان گناہ گاروں کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات قاضی ایک فریق کی چرب زبانی کی وجہ سے اس کے حق میں فیصلہ دے دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خبر دار! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہوں، ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل و حجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہوشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، حالانکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آگ کا ٹکڑا ہے، اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔‘‘ [ بخاری، المظالم، باب إثم من خاصم....: ۲۴۵۸ ]
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/602/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 106
وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
ترجمہ:
اور اللہ سے مغفرت طلب کیجئے، بے شک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے
تفسیر:
﴿وَّاسْتَغْفِرِ اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔“ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾” بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-saadi/602/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 106
وَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
ترجمہ:
اور اللہ سے مغفرت مانگو (کہ قضا کا معاملہ نہایت نازک ہے) بلاشبہ اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے
تفسیر:
﴿وَّاسْتَغْفِرِ اللَّـهَ﴾ ” اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔“ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾” بے شک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے“ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/602/
Subhan allaha
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 86
وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
ترجمہ:
اور ہر راستے پر نہ بیٹھو کہ دھمکاتے ہو اور اللہ کے راستے سے روکتے ہو اس کو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہو۔ اور یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو اس نے تمھیں زیادہ کردیا اور دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
تفسیر:
1- اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا جس کے نمونے آج کل کے متجددین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں بھی نظر آتے ہیں ۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. علاوہ ازیں راستے میں بیٹھنے کے اور بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں ۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لئے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ یا حضرت شعیب (عليہ السلام) کی طرف جانے والے راستوں میں بیٹھنا تاکہ ان کے پاس جانے والوں کو روکیں اور ان سے انہیں بدظن کریں، جیسے قریش مکہ کرتے تھے یا دین کے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا ۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کرلیں ۔ یا بعض کے نزدیک محصول اور چنگی وصول کرنے کے لئے ان کا راستوں پر بیٹھنا ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ یہ سب ہی کچھ کرتے ہوں ( فتح القدیر ) ۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-makkah/1046/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 87
وَإِن كَانَ طَائِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُوا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا فَاصْبِرُوا حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
ترجمہ:
اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اور کچھ لوگ ایمان نہیں لائے تو صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔
تفسیر:
1- کفر پر صبر کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کے لئے تہدید اور سخت وعید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اہل حق کا اہل باطل پر فتح و غلبہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿فَتَرَبَّصُوٓاْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ﴾ [التوبة:52].
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-makkah/1047/