سورۃ التوبہ آیت نمبر: 3 وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ترجمہ: اور حج اکبر کے دن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے ، اور اس کا رسول بھی ، پھر اگر تم توبہ کرو ، تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے ، اور جو نہ مانو ، تو جانو کہ خدا کو تم تھکا نہ سکو گے ، اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا ۔ تفسیر: یہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو فتح مند اور اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور ان کے مشرک دشمنوں سے علیحدہ ہوجائے گا، جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ اور اللہ تعالیٰ کے محترم گھر سے نکال کر حجاز کے اس خطۂ ارضی سے جلاوطن کیا جس پر ان کا تسلط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو فتح و نصرت سے نوازا حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔ مشرکین مغلوب ہوئے اور ان علاقوں کا اقتدار اور غلبہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ حج اکبر کے دن جو کہ قربانی اور جزیرۃ العرب کے مسلمانوں اور کفار کے اکٹھے ہونے کا دن ہے۔۔۔۔ اعلان کر دے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے برئ الذمہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اب ان کے لئے کوئی عہد اور میثاق نہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی ملیں گے ان کو قتل کیا جائے گا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں اور یہ سن ۹ ہجری تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا اور قربانی کے روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برأت کا اعلان کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توبہ کی ترغیب دی اور ان کو شرک پر جمے رہنے سے ڈرایا۔ ﴿فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ﴾ ” پس اگر تم توبہ کرلو، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر نہ مانو، تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز نہ تھکا سکو گے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے بھاگ نہیں سکتے، بلکہ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو اور وہ اس بات پر قادر رہے کہ تم پر اپنے مومن بندوں کو مسلط کر دے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔“ جو دنیا میں قتل، اسیری اور جلاوطنی کی صورت میں انہیں دیا جائے گا اور آخرت میں جہنم کی آگ کا، جو بہت برا ٹھکانا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/1245/ سورۃ التوبہ آیت نمبر: 3 وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ترجمہ: ” اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کی طرف صاف اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی۔ پس اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر منہ موڑو تو جان لو کہ یقیناً تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں اور جنہوں نے کفر کیا انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیجئے۔“ (٣) تفسیر: حج اکبر کے دن اعلان: یہ اعلان حج اکبر یعنی عید قربان کو کیا گیا۔ جو حج کے تمام دنوں میں بڑا افضل و اہم دن ہے۔ کہ اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بریٔ الذمہ، بیزار اور الگ ہیں اگر اب بھی تم بُرائی، شرک اور گمراہی چھوڑ دو۔ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، توبہ کرلو۔ نیک بن جاؤ اسلام قبول کرلو، شرک اور کفر چھوڑ دو اگر تم نے نہ مانا اور اپنی ضلالت پر قائم رہے تو نہ تم اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو اور نہ آئندہ عاجز کر سکتے ہو، وہ تم پر قادر ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/1245/
سورۃ النسآء آیت نمبر: 77 أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا ترجمہ: کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے ڈرنے لگے، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ تفسیر: 1۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ:یعنی جب تک مسلمان مکہ میں تھے اور کافر انھیں ایذا دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم فرمایا، اب جو ( مدینہ منورہ میں) لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی، لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) متعدد روایات میں ہے کہ مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (مال خرچ کرنے) کا جو تمھیں حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو، تاکہ تمہاری تربیت ہو جائے، مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکچانے لگے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر، قرطبی) 2۔ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِيْبٍ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کا ترجمہ یہ ہے : ’’کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر‘‘ جواب آگے ہے۔ بعض نے ترجمہ کیا ہے : ’’قتال کی فرضیت کا یہ حکم نازل کرنے میں تو نے ہمیں کچھ مہلت کیوں نہ دی؟‘‘ 3۔ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ: لڑائی سے ہچکچانے والے کمزور ایمان والوں اور منافقین کا حوصلہ دو باتوں سے بلند فرمایا ہے، پہلی تو یہ کہ دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کر کے جہاد کی ترغیب دی ہے، دنیا جتنی بھی ہو فانی ہے اور فانی جتنی بھی ہو قلیل (بہت تھوڑی) ہے۔ فانی اور باقی کا مقابلہ ہی کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس طرح کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈبو کر نکالے اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے، ایسی ہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے۔ ‘‘ [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیا: ۲۸۵۸، عن المستورد الفھری رضی اللہ عنہ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی سی ہے جو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے۔‘‘ [ترمذی، الزھد، باب حدیث ’’ما الدنیا الإکراکب استظل‘‘ : ۲۳۷۷، عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ] shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-ul-quran-al-kareem/573/
سورۃ المآئدہ آیت نمبر: 48 وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ترجمہ: ” اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور اس پر محافظ ہے، پس ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں اس میں آزماتا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کالوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔“ (٤٨) تفسیر: ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ﴾ ” اور اتاری ہم نے آپ کی طرف کتاب“ یعنی قرآن عظیم جو سب سے افضل اور جلیل ترین کتاب ہے ﴿بِالْحَقِّ﴾ ” حق کے ساتھ“ یعنی ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یہ کتاب اپنی اخبار اور اوامرونواہی میں حق پر مشتمل ہے ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ ﴾ ” اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے“ کیونکہ یہ کتب سابقہ کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، ان کی موافقت کرتی ہے، اس کی خبریں ان کی خبروں کے مطابق اور اس کے بڑے بڑے قوانین ان کے بڑے بڑے قوانین کے مطابق ہیں۔ ان کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں خبر دی ہے۔ پس اس کا وجود ان کتب سابقہ کی خبر کا مصداق ہے ﴿وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ﴾” اور ان کے مضامین پر نگہبان ہے“ یعنی یہ کتاب ان امور پر مشتمل ہے جن امور پر سابقہ کتب مشتمل تھیں، نیز مطالب الٰہیہ اور اخلاق نفسیہ میں بعض اضافے ہیں۔ یہ کتاب ہر اس حق بات کی پیروی کرتی ہے جو ان کتابوں میں آچکی ہے اور اس کی پیروی کا حکم اور اس کی ترغیب دیتی ہے اور حق تک پہنچانے کے بہت سے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں حکمت، دانائی اور احکام ہیں، جس پر کتب سابقہ کو پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا جس کی صداقت کی یہ گواہی دے وہ مقبول ہے جس کو یہ رد کر دے وہ مردد ہے، کیونکہ وہ تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکی ہے۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہوتی تو یہ اس کی مخالفت نہ کرتی۔﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾” پس ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حکم شرعی نازل فرمایا ہے اس کے مطابق فصلہ کیجیے﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ﴾” اور آپ کے پاس جو حق آیا، اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ یعنی ان کی حق کے خلاف خواہشات فاسدہ کی اتباع کو اس حق کا بدل نہ بنائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آچکا ہے، ورنہ آپ اعلیٰ کے بدلے ادنی ٰ کو لیں گے۔ ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ﴾ ” تم میں سے ہر ایک کو دیا ہم نے“ یعنی اے قومو !﴿شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ ” ایک دستور اور راہ“ یعنی تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک راستہ اور طریقہ مقرر کردیا ہے۔ یہ شریعتیں جو امتوں کے اختلاف کے ساتھ بدل جاتی رہی ہیں، زمان و مکان اور احوال کے تغیر و تبدل کے مطابق ان شرائع میں تغیر و تبدل واقع ہوتا رہا ہے اور ہر شریعت اپنے نفاذ کے وقت عدل کی طرف راجع رہی ہے۔ مگر بڑے بڑے اصول جو ہر زماں و مکاں میں مصلحت اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں کبھی نہیں بدلتے، وہ تمام شرائع میں مشروع ہوتے ہیں۔ ﴿وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا“ یعنی ایک شریعت کی پیروی میں ایک امت بنا دیتا کسی متقدم اور متاخرامت میں کوئی اختلاف نہ ہوتا ﴿وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ﴾ ” لیکن وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے اپنے دیئے ہوئے حکموں میں“ پس وہ تمہیں آزمائے اور دیکھے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہر قوم کو آزماتا ہے اور ہر قوم کو اس کے احوال اور شان کے لائق عطا کرتا ہے، تاکہ قوموں کے درمیان مقابلہ رہے۔ پس ہر قوم دوسری قوم سے آگے بڑھنے کی خواہشمند ہوتی ہے اس لئے فرمایا : ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ ” نیک کاموں میں جلدی کرو۔“ یعنی نیکیوں کے حصول کے لئے جلدی سے آگے بڑھو اور ان کی تکمیل کرو، کیونکہ وہ نیکیاں جو فرائض و مستحبات، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کا فاعل اور ان دو امور کو مدنظر کھے بغیر کسی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (١) جب نیکی کرنے کا وقت آجائے اور اس کا سبب ظاہر ہوجائے تو فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے جلدی سے اس کی طرف بڑھنا۔ (٢) اور حکم کے مطابق اسے کامل طور پر ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کی جائے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بندے کو صرف نماز وغیرہ اور دیگر امور واجبہ کی ادائیگی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ مقدور بھر مستحبات پر بھی عمل کرے، تاکہ واجبات کی تکمیل ہو اور ان کے ذریعے سے سبقت حاصل ہو۔ ﴿إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا﴾” تم سب کا لوٹنا اللہ کی کی طرف ہے“ تمام امم سابقہ ولاحقہ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾ ’’پس وہ تمہیں ان امور کی بابت خبر دے گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے تھے“ یعنی جن شرائع اور اعمال کے بارے میں تمہارے درمیان اختلاف تھا۔ چنانچہ وہ اہل حق اور نیک عمل کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور اہل باطل اور بدکاروں کو سزا دے گا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/721/
I am missing my father, everyday he used to listen to Quran on PTV, it was an indication that day has started. May Allah grant him higher ranks in jannah, Ameen. I wish I could go back to that time,😢❤❤❤❤
سورۃ النسآء آیت نمبر: 76 الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی راہ میں لڑتے ہیں (١) پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو یقین مانو کہ شیطانی حیلہ ( بالکل بودا اور) سخت کمزور ہے۔ (٢) تفسیر: 1- مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔ 2- مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فراوانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ چیلے نہیں ٹھہر سکتے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/572/ سورۃ النسآء آیت نمبر: 76 الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ترجمہ: ایمان والے اللہ کی راہ میں جہاد (83) کرتے ہیں، اور اہل کفر شیطان کی راہ میں قتال کرتے ہیں، تو تم لوگ شیطان کے حمایتیوں سے قتال کرو، بے شک شیطان کی چال بڑی کمزور ہوتی ہے تفسیر: ف 5 جہاد کی فرضیت اور ترغیب کے بعد اس آیت میں بتایا کہ جہاد کی ظاہر صورت کا عتبار نہیں ہے بلکہ جہاد اپنے مقصد کے اعتبار سے جہاد ہے۔ مومن ہمیشہ اعلا کلمتہ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے اور کافر کسی طاغوتی طاقت کو بچانے یا مضبوط کرنے کے لیے لڑتے ہیں لہذاتم ان سے خوب لڑو شیطان خواہ اپنے دوستوں کے کتنے ہی مکر وفریب سمجھا دے مگر تمہارے خلاف و کامیابی نہیں ہو سکتی (رازی) shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-ashraf-ul-hawashi/572/
ہیںسورۃ یونس آیت نمبر: 7 إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ ترجمہ: ” بے شک جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر خوش ہوئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔“ (٧) ” تفسیر: ﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا﴾ ” جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ہیں جو سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہے، بلکہ وہ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں۔“ یعنی وہ آخرت کی بجائے دنیا پر راضی ہو گے۔ ﴿ وَاطْمَأَنُّوا بِهَا﴾ ” اور اسی پر مطمئن ہوگئے“ یعنی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ دنیا کے حصول کے لئے کوشاں رہے اس کی لذات و شہوات پر ٹوٹ پڑے۔ دنیا انہیں جس طریقے سے بھی حاصل ہوئی، انہوں نے اسے حاصل کرلیا۔ دنیا کی چمک انہیں جہاں کہیں بھی دکھائی دی یہ اس کی طرف لپکے۔ انہوں نے اپنے ارادوں اور نیتوں کو دنیا ہی میں مصروف رکھا، ان کے افکار و اعمال دنیا ہی کے محور پر گھومتی رہے۔ گویا کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور گویا کہ دنیا ایک گزر گاہ نہیں جہاں سے مسافر ز ادراہ اکٹھا کر کے ہمیشہ رہنے والی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اولین و آخرین اس منزل کی نعمتوں اور لذتوں کی طرف کوچ کرتے ہیں اور لپکنے والے انہی کی طرف لپکتے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ﴾ ” اور وہ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔“ پس یہ آیات قرآنی اور آیات نفس و آفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دلیل سے رو گردانی درحقیقت مدلول مقصود سے روگردانی اور غفلت کومستلزم ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1379/
سورۃ النسآء آیت نمبر: 74 فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ترجمہ: پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں (١) انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پالے یا غالب آ جائے، یقیناً ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت کرتے ہیں۔ تفسیر: 1- شَرَى يَشْرِي کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے ”فَلْيُقَاتِلْ“ کا فاعل الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ بنے گا لیکن اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الَّذِينَ مفعول بنے گا اور فَلْيُقَاتِلْ کا فاعل الْمُؤْمِنُ النَّافِرُ (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کو تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کر دیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہوں گے۔ (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے ) shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/570/ سورۃ النسآء آیت نمبر: 77 أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا (١) کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا ؟ (٢) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا۔ تفسیر: 1- مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو ودرگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز زکواۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خواہش کے مطابق ہے۔ آیت قران میں تحریف آیت کا پہلا حصہ جس میں ”كَفِّ أَيْدِي“ (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کی حالت میں ہاتھوں کو روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط اور واہیات استدلال ہے۔ اس کے لئے ان صاحب نے آیت کے الفاظ میں بھی تحریف کی اور معنی میں بھی۔ یعنی لفظی اور معنوی دونوں قسم کے تحریف سے کام لیا ہے۔ 2- اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے موخر کیوں نہ کر دیا یعنی ”أَجَلٍ قَرِيبٍ“ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے۔ (تفسير ابن كثير) shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/573/
I used to listening to this beautiful recitation when I was at first class..now I'm a bachelor student and whenever I listen to this it brings me back to old memories ànd remind me All the scenarios Of my childhood.
سورۃ الانعام آیت نمبر: 19 قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ترجمہ: تو کہہ گواہی کس چیز کی بڑی ہے ؟ تو کہہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور یہ قرآن میری طرف اتار ہے ، (ف ٢) ۔ تاکہ میں اس سے تم کو (اے اہل مکہ) اور جس کو یہ پہنچے اس کو ڈراؤں کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں ؟ تو کہہ میں گواہی نہ دوں گا ، تو کہہ وہی ایک معبود ہے ، اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔ تفسیر: ﴿قُلْ﴾” کہہ دیجیے !“ چونکہ ہم نے ان کے سامنے ہدایت کو بیان کردیا اور سیدھی راہوں کو واضح کردیا ہے اس لئے ان سے کہہ دیجیے ﴿أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً﴾ ” سب سے بڑھ کر کس کی شہادت ہے۔“ یعنی اس اصول عظیم کے بارے میں کس کی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿قُلِ اللَّـهُ﴾کہہ دیجیے اللہ تعالیٰ کی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ﴾ ” وہ گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان“ پس اس سے بڑا کوئی شاہد نہیں، وہ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے میری گواہی دیتا ہے، میں جو کچھ کہتا ہوں، اللہ تعالیٰ اس کو متحقق کردیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴾(الحاقة:69؍44۔46)” اگر یہ ہمارے بارے میں کوئی جھوٹ گھڑتا تو ہم اس کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ “ پس اللہ تبارک و تعالیٰ قادر اور حکمت والا ہے۔ اس کی حکمت اور قدرت کے لائق نہیں کہ ایسے جھوٹے شخص کو برقرار رکھے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ اللہ کا رسول نہ ہوا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان لوگوں کو دعوت دینے پر مامور کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہ دیا ہو اور یہ کہ جو اس کی مخالفت کریں گے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ان کا خون، ان کا مال اور ان کی عورتیں مباح کردی ہیں۔ اس فریب کاری کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے اس کی تصدیق کرے، وہ جو کچھ کرے معجزات باہرہ اور آیات ظاہرہ کے ذریعے سے اس کی تائید کرے اور اسے فتح و نصرت سے نوازے جو اس کی مخالفت کرے اور اس سے عداوت رکھے، اسے اپنی نصرت سے محروم کر دے۔ پس اس گواہی سے بڑی کون سی گواہی ہے؟ ﴿وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ﴾ ” اور اتارا گیا میری طرف قرآن، تاکہ ڈراؤں میں تم کو اس کے ساتھ اور جس کو یہ پہنچے“ یعنی تمہارے فائدے اور تمہارے مصالح کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن میری طرف وحی کیا ہے، تاکہ میں تمہیں درد ناک عذاب سے ڈراؤں۔ (اِنْذَار) یہ ہے کہ جس چیز سے ڈرانا مقصود ہو، اسے بیان کیا جائے۔ جیسے ترغیب و ترہیب، اعمال اور اقوال ظاہرہ و باطنہ، جو کوئی ان کو قائم کرتا ہے وہ گویا انداز کو قبول کرتا ہے۔ پس اے مخاطبین ! یہ قرآن تمہیں اور ان تمام لوگوں کو جن کے پاس، قیامت تک یہ پہنچے گا، برے انجام سے ڈراتا ہے۔ کیونکہ قرآن میں ان تمام مطالب الٰہیہ کا بیان موجود ہے جن کا انسان محتاج ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی گواہی کا ذکر فرمایا جو سب سے بڑی گواہی ہے، تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی خبر کی مخالفت کرنے والوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں سے کہہ دیجیے !﴿أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ﴾” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دیجیے ! میں تو گواہی نہیں دیتا“ یعنی اگر وہ گواہی دیں تو ان کے ساتھ گواہی مت دیجیے۔ پس اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے لاشریک ہونے پر ایک طرف اللہ کی گواہی ہے جو سب سے زیادہ سچا اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے اور اسی طرح مخلوق میں سے پاکیزہ ترین ہستی (آخری رسول) کی گواہی ہے جس کی تائید میں قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں اور دوسری طرف مشرکین کی شہادت ہے جن کی عقل اور دین خلط ملط ہوگئے ہیں جن کی آراء اور اخلاق خرابی کا شکار ہوگئے ہیں اور جنہوں نے عقل مندوں کو اپنے آپ پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان دونوں شہادتوں کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ بلکہ ان مشرکین کی گواہی تو خود ان کی اپنی فطرت کے خلاف ہے اور ان کے اقوال اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں خداؤں کے اثبات کے بارے میں متناقض ہیں۔ بایں ہمہ جس چیز کی وہ مخالفت کرتے ہیں اس کے خلاف دلائل تو کجا ادنیٰ ساشبہ بھی وارد نہیں ہوسکتا۔ اگر تو سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو اپنے لئے ان دونوں میں سے کوئی سی گواہی چن لے۔ ہم تو اپنے لئے وہی چیز اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اختیار کی ہے اور اس کی پیروی کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :﴿قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ” کہہ دیجیے کہ صرف وہی ایک معبود ہے۔“ یعنی وہ اکیلا معبود ہے اور اس کے سوا کوئی عبودیت اور الوہیت کا مستحق نہیں، جیسے وہ تخلیق و تدبیر میں منفرد ہے ﴿ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ﴾” اور میں بیزار ہوں تمہارے شرک سے“ یعنی تم جن بتوں اور دیگر خداؤں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو اور وہ تمام چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا جاتا ہے میں ان سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ یہ ہے توحید کی حقیقت، یعنی اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے اس کی نفی۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/813/
سورۃ النسآء آیت نمبر: 78 أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا ترجمہ: تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ تفسیر: 1۔ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ: ”بُرُوْجٍ“ یہ’’بُرْجٌ‘‘ کی جمع ہے، مضبوط عمارت، قلعہ۔ ”مُشَيَّدَةٍ“ جو ’’اَلشِّيْدُ ‘‘ یعنی چونے سے بنے ہوئے ہوں۔ یہ جہاد کے لیے حوصلہ بڑھانے والی دوسری بات ہے کہ جب موت سے تمھیں کسی حال میں چھٹکارا نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو۔ اس مطلب کی آیات قرآن کریم میں بہت ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ ﴾ [ الأحزاب : ۱۶ ] ’’کہہ دے تمھیں بھاگنا ہرگز نفع نہ دے گا اگر تم مرنے یا قتل ہونے سے بھاگو گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ﴾ [الجمعۃ : ۸ ] ’’کہہ دے بلاشبہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو سو یقینا وہ تم سے ملنے والی ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ ﴾ [آل عمران : ۱۸۵ ] ’’ہر جان موت کو چکنے والی ہے۔‘‘ 2۔ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ: اوپر منافقین کی دو مذموم خصلتیں بتائیں، ایک جہاد سے جی چرانا دوسری موت سے ڈرنا، اب یہاں ان کی ایک اور مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی دونوں سے بری ہے، یعنی نحوست کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا۔ یہاں ”حَسَنَةٌ“ (بھلائی) سے مراد فتح، نصرت، غلبہ اور خوش حالی وغیرہ ہے اور ’’ سَيِّئَةٌ ‘‘ سے مراد لڑائی میں نقصان، مصیبت، قتل اور ہزیمت وغیرہ ہے۔ 3۔ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ: یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی اور بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم سے ہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے، بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط اور پہلے کافروں کا طریقہ ہے، جیسا کہ قوم ثمود کا کہنا :﴿ قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ ﴾ [ النمل : ۴۷ ]’’انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بد شگونی پکڑی ہے۔‘‘ اور سورۂ یٰس میں ہے : ﴿ اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ﴾ [ یٰسٓ : ۱۸ ] ’’بے شک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے۔‘‘ اور فرعون کی قوم کے بارے میں ہے : ﴿ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ ﴾ [ الأعراف : ۱۳۱ ] ’’اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ منافقوں کا ذکر ہے کہ اگر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی توکہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہوئی، یعنی اتفاقاً بن گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑ گئی تو الزام رکھتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر پر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب اللہ کی طرف سے ہے، یعنی پیغمبر کی تدبیر اللہ کا الہام ہے، غلط نہیں اور اگر بگڑی تو اس کو بگڑا نہ بوجھو، یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرما دیا۔‘‘ (موضح) 4۔ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ:یعنی تعجب ہے کہ کسی غور و فکر کے بغیر سمجھ میں آنے والی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ (رازی) shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-ul-quran-al-kareem/574/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 54 وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ترجمہ: یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے (١) تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے (٢) کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے (٣) تفسیر: جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مطیع مومن بندوں کو دور کرنے سے روک دیا تو ان کفار کے مقابلے میں انہیں اکرام، تعظیم، عزت اور احترام سے پیش آنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ﴾ ”جب آپ کے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو انہیں السلام علیکم کہیں۔“ یعنی جب اہل ایمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان کو سلام کہیں، ان کو خوش آمدید کہیں۔ سلام و تحیات سے ان کا استقبال کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جود و احسان کی بشارت دیں جو ان کے عزائم اور ارادوں میں نشاط پیدا کرے اور انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ہر راستہ اور ہر سبب اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔ ان کو گناہوں پر قائم رہنے سے ڈرائیں اور انہیں گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیں تاکہ وہ اپنے رب کی مغفرت اور اس کے جود و کرم کو پا سکیں۔ ﴿كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ ﴾ ” لکھ لیا ہے تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو جو کوئی کرے تم میں سے برائی، ناواقفیت سے، پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیک ہوجائے“ یعنی (قبولیت توبہ کے لئے) گناہوں کو ترک کرنا، ان کا قلع قمع کرنا، ان پر نادم ہونا اور اعمال کی اصلاح کرنا ضروری ہے، نیز ان امور کی ادائیگی جن کو اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے اور جو ظاہری اور باطنی اعمال فاسد ہوچکے ہیں۔ ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ جب یہ تمام امور موجود ہوں ﴿فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” تو بات یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو جن امور کا حکم دیا ہے اس کی بجا آوری کے مطاق ان پر اپنی مغفرت اور رحمت کا فیضان کرتا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/848/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 56 قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۚ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ترجمہ: تو کہہ اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ‘ مجھے ان کا بوجنا منع ہوا ہے ، تو کہہ میں تمہاری مرضی پر نہیں چلتا ، اگر چلوں تو میں بہک چکا اور ہدایت یافتوں میں نہ رہا (ف ٢) ۔ تفسیر: اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿قُلْ﴾ان مشرکین سے کہہ دیجیے جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو بھی پکارتے ہیں ﴿إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ﴾ ” جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔“ یعنی مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اللہ کی بجائے اللہ کے بناوٹی ہمسروں اور بتوں کی عبادت کروں جو کسی نفع ونقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں۔ یہ سب باطل ہے۔ اس میں تمہارے لئے کوئی دلیل ہے نہ اس کے باطل ہونے میں کوئی شبہ ہے۔ سوائے خواہشات نفس کی پیروی کے جو سب سے بڑی گمراہی ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا ﴾” کہہ دیجیے میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کرتا، بیشک تب میں بہک جاؤں گا“ یعنی اگر میں تمہاری خواہشات کی پیروی کروں تو گمراہ ہوجاؤں گا ﴿ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾” اور کسی پہلو سے بھی راہ راست پر نہیں رہوں گا“ رہی و وہ توحید اور اخلاص عمل جن پر میں عمل پیرا ہوں تو یہی حق ہے جس کی تائید واضح براہین اور قطعی دلائل کرتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/850/ کردیا
سورۃ النسآء آیت نمبر: 172 لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا ترجمہ: مسیح (علیہ السلام) خدا کا بندہ ہونے سے ہرگز انکار نہیں کریگا اور نہ مقرب فرشتے ہی ‘ اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا تو خدا ان سب کو اپنی طرف (ف ١) اکٹھا جمع کرے گا ۔ تفسیر: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں نصاریٰ کے غلوکاذ کر فرمایا اور بیان فرمایا کہ جناب عیسیٰ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، تو اب یہاں یہ بھی واضح کردیا کہ حضرت عیسیٰ اپنے رب کی عبادت میں عار نہیں سمجھتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روگردانی نہیں کرتے تھے۔ ﴿وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ﴾” اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے“ اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس چیز سے پاک رکھا ہے کہ وہ اس کی عبادت کو عار سمجھیں اور تکبر و استکبار سے پاک ہونا تو بدرجہ اولیٰ ان کی صفت ہے۔ کسی چیز کی نفی سے اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے۔۔۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے تو اپنے رب کی عبادت میں رغبت رکھتے ہیں، اس کی عبادت کو پسند کرتے ہیں اور اپنے اپنے حسب احوال اس کی عبادت میں سعی کرتے ہیں۔ ان کی یہ عبادت ان کے لئے بہت بڑے شرف اور فوز عظیم کی موجب ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں اپنے آپ کو بندے سمجھنے میں عار محسوس نہیں کی بلکہ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا محتاج سمجھتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور کو اس مرتبے سے بڑھانا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے، ان کے لئے کوئی کمال ہے بلکہ یہ تو عین نقص اور مذمت و عذاب کا محل و مقام ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا﴾ ” اور جو شخص اللہ کا بندہ ہنے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کو عار سمجھنے والوں، متکبروں اور اپنے مومن بندوں، سب کو عنقریب جمع کرے گا اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اپنی جزا سے نوازے گا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/668/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 153 وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ترجمہ: اور (کہا ہے) کہ یہ میری سیدھی راہ ہے ، سو اس پرچلو ، اور کئی راہیں نہ چلو ، کہ وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے الگ کر دینگی یہ ہیں ، جو اس نے تمہیں حکم دیئے ، شاید تم ڈرو (ف ١) ۔ تفسیر: 1۔ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا ....: یعنی اﷲ تعالیٰ کی راہ ایک ہی ہے اور وہی سیدھی اور جنت تک پہنچانے والی ہے، مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اردگرد بہت سی راہیں بنا ڈالی ہیں۔ عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک لکیر کھینچی، اور فرمایا : ’’یہ اﷲ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے۔‘‘ پھر اس کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا : ’’یہ الگ الگ راستے ہیں، ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان بیٹھا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ [ أحمد:1؍465، ح : ۴۴۳۶۔ مستدرک حاکم :2؍318، ح : ۳۲۴۱ ] تمام دینوں میں سے صراط مستقیم صرف اسلام ہے، باقی سب باطل ہیں، اس آیت میں جس طرح تمام باطل دینوں سے منع فرمایا گیا ہے اسی طرح اسلام میں بھی فرقے بنانے سے روک دیا گیا ہے۔ اسلام میں سیدھی راہ صرف کتاب و سنت کی راہ ہے، جس پر وہ پہلے تین زمانے گزرے ہیں جنھیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر الناس قرار دیا ہے۔ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۳۶۵۱ ] اس کے سوا سب راستے ممنوع ٹھہرے، خواہ وہ مذاہب اربعہ کی تقلید ہو یا اہل بدعت کے بنائے ہوئے اور طریقے ہوں، کیونکہ یہ شروع ہی بعد میں ہوئے ہیں۔ پرانی اور نئی ہر قسم کی بدعات گمراہ کن ہیں، خود ائمۂ دین اور سارے مجتہدینِ سلف و خلف نے یہی وصیت کی ہے کہ کوئی ان کی تقلید نہ کرے، بلکہ سب کے سب کتاب و سنت کی اتباع کریں، یہی صراط مستقیم ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔ 2۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تم اﷲ کی نافرمانی، اس کے عذاب اور جہنم سے بچ جاؤ، کیونکہ مختلف راستوں سے بچ کر اس کے سیدھے راستے پر چلنے کے سوا بچنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے تقویٰ کی راہ یہی ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-ul-quran-al-kareem/947/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 153 وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ترجمہ: اور (کہا ہے) کہ یہ میری سیدھی راہ ہے ، سو اس پرچلو ، اور کئی راہیں نہ چلو ، کہ وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے الگ کر دینگی یہ ہیں ، جو اس نے تمہیں حکم دیئے ، شاید تم ڈرو (ف ١) ۔ تفسیر: جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑے بڑے احکام اور اہم شرائع کو واضح کردیا، تو اب ان کی طرف اور ان سے زیادہ عمومیت کی حامل بات کی طرف اشارہ فرمایا : ﴿وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا﴾ ” اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے۔“ یعنی یہ اور اس قسم کے دیگر احکام، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے، اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے جو معتدل، آسان اور نہایت مختصر ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کی منزل تک پہنچاتا ہے ﴿فَاتَّبِعُوهُ﴾” پس اس کی پیروی کرو“ تاکہ تم فوز و فلاح، تمناؤں اور فرحتوں کو حاصل کرسکو۔﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ ﴾ ” اور راستوں پر نہ چلنا۔“ یعنی ان راستوں پر نہ چلو جو اللہ تعالیٰ کے راستے کی مخالفت کرتے ہیں ﴿فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ﴾ ” پس وہ تمہیں اس (اللہ) کے راستے سے جدا کردیں گے۔“ یعنی یہ راستے تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے اور تمہیں دائیں بائیں دوسرے راستوں پر ڈال دیں گے اور جب تم صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے تو تمہارے سامنے صرف وہ راستے رہ جائیں گے جو جہنم تک پہنچانے والے ہیں۔ ﴿ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾” یہ حکم کردیا ہے تم کو تاکہ تم متقی بن جاؤ“ کیونکہ جب تم علم و عمل کے اعتبار سے ان احکام کی تعمیل کرو گے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کے متقی اور فلاح یاب بندے بن جاؤ گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراط مستقیم کو واحد ذکر کر کے اپنی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ صرف یہی ایک راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس راستے پر گامزن لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/947/
سورۃ المآئدہ آیت نمبر: 49 وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ ترجمہ: اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے (٤١) اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ (٤٢) اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں۔ تفسیر: ﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾ ” اور ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے اتارا“ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ آیت کریمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ ” ان کے درمیان فصلہ کریں یا اس سے روگردانی کریں“ کو منسوخ کرتی ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اس مذکورہ آیت کو منسوخ نہیں کرتی، پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حق کی خاطر فیصلہ کروانے کا قصد نہیں رکھتے تھے اور یہ (دوسری) آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان فیصلہ کریں، تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت، یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہی وہ انصاف ہے جس کے بارے میں گزشتہ صفحات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ﴾” اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ “ یہ آیت کریمہ عدل کی توضیح و تبیین پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ کہ عدل کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے احکام ہیں جو انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اصولوں پر مشتمل ہیں اور جو کچھ ان احکام کے خلاف ہے، وہ سراسر ظلم و جور ہے۔﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ﴾” اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ شدت تحذیر کی خاطر اللہ تعالیٰ نے بتکرار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکا ہے۔ نیز وہ آیت حکم اور فتویٰ کے مقام پر ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور یہ صرف حکم کے مقام پر ہے۔ دونوں آیات کا مفاد یہ ہے کہ ضروری ہے کہ ان کی خلاف حق خواہشات کی پیروی نہ کی جائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّٰهُ إِلَيْكَ﴾” اور بچتے رہیں ان سے، اس بات سے کہ وہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے آپ کی طرف اتارا“ یعنی ان کی فریب کاریوں سے بچیے نیز ان سے بچیے کہ وہ آپ کو فتنے میں ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ایسی چیز سے نہ روک دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے۔ پس ان کی خواہشات کی پیروی، حق واجب کو ترک کرنے کا باعث بنتی ہے جبکہ اتباع حق فرض ہے۔ ﴿فَإِن تَوَلَّوْا﴾ ” پس اگر وہ نہ مانیں“ یعنی اگر وہ آپ کی اتباع اور حق کی پیروی سے روگردانی کریں ﴿ فَاعْلَمْ﴾ ” تو جان لیجیے“ کہ یہ روگردانی ان کے لئے سزا ہے ﴿أَنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ﴾” اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو ان کے گناہوں کے سبب کوئی سزا پہنچائے“ کیونکہ گناہوں کے لئے دنیا و آخرت میں سزائیں مقرر ہیں اور سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو آزمائش میں مبتلا کر دے اور اتباع رسول کے ترک کو اس کے لئے مزین کر دے اور اس کا باعث اس کا فسق ہوتا ہے ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ﴾ ”اور اکثر لوگ نافرمان ہیں“ یعنی ان کی فطرت اور طبیعت میں فسق، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے خروج ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/722/
سورۃ التوبہ آیت نمبر: 3 وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن (١) صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے۔ تفسیر: 1- صحیحین (بخاری و مسلم) اور دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (10 ذوالحجہ) کا دن ہے۔ (ترمذي نمبر: 957، بخاري نمبر: 4655، مسلم نمبر:982)، اسی دن منیٰ میں اعلان براءت سنایا گیا۔ 10 ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے، وہ حج اکبر ہے، یہ بے اصل بات ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1245/ سورۃ التوبہ آیت نمبر: 4 إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ترجمہ: بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو (١) اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ تفسیر: 1- یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لئے مسلمانوں کے لئے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1246/ سورۃ التوبہ آیت نمبر: 3 وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن (١) صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے۔ تفسیر: یہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو فتح مند اور اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور ان کے مشرک دشمنوں سے علیحدہ ہوجائے گا، جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ اور اللہ تعالیٰ کے محترم گھر سے نکال کر حجاز کے اس خطۂ ارضی سے جلاوطن کیا جس پر ان کا تسلط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو فتح و نصرت سے نوازا حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔ مشرکین مغلوب ہوئے اور ان علاقوں کا اقتدار اور غلبہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ حج اکبر کے دن جو کہ قربانی اور جزیرۃ العرب کے مسلمانوں اور کفار کے اکٹھے ہونے کا دن ہے۔۔۔۔ اعلان کر دے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے برئ الذمہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اب ان کے لئے کوئی عہد اور میثاق نہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی ملیں گے ان کو قتل کیا جائے گا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں اور یہ سن ۹ ہجری تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا اور قربانی کے روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برأت کا اعلان کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توبہ کی ترغیب دی اور ان کو شرک پر جمے رہنے سے ڈرایا۔ ﴿فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ﴾ ” پس اگر تم توبہ کرلو، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر نہ مانو، تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز نہ تھکا سکو گے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے بھاگ نہیں سکتے، بلکہ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو اور وہ اس بات پر قادر رہے کہ تم پر اپنے مومن بندوں کو مسلط کر دے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔“ جو دنیا میں قتل، اسیری اور جلاوطنی کی صورت میں انہیں دیا جائے گا اور آخرت میں جہنم کی آگ کا، جو بہت برا ٹھکانا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1245/
سورۃ یونس آیت نمبر: 12 وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ترجمہ: ” اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر بیٹھا یا کھڑا ہوا ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو اس طرح چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کسی تکلیف کے وقت، جو اسے پہنچی ہو، پکارا ہی نہیں۔ اسی طرح حد سے بڑھ جانے والوں کے لیے عمل مزین کردیے گئے جو وہ کیا کرتے تھے۔“ (١٢) تفسیر: اس میں انسان کی فطرت کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ جب اسے کسی مرض یا مصیبت کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو خوب دعائیں کرتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، اپنی دعاؤں میں گڑگڑاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے۔ ﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ﴾ ” پس جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ (یوں) چلا جاتا ہے گویا کہ اس نے ہمیں کسی تکلیف کے پہنچنے پر پکارا ہی نہیں“ یعنی اپنے رب سے رو گردانی کرتے ہوئے غفلت میں مستغرق رہتا ہے گویا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہیں آئی، جسے اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہے کہ انسان اپنی غرض پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی یہ غرض پوری کر دے تو پھر وہ اپنے رب کے حقوق کی طرف نہ دیکھے، گویا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کوئی حق ہی نہیں۔ یہ شیطان کا آراستہ کرنا ہے۔ شیطان ان تمام چیزوں کو مزین کرتا ہے جو انسانی عقل و فطرت کے مطابق انتہائی بری اور قبیح ہیں۔ ﴿كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ﴾ ” اسی طرح خوش نمابنا دیے گئے ہیں بے باک لوگوں کے لئے“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں ﴿مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” جو عمل وہ کرتے تھے۔ “ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1384/ سورۃ الاعراف آیت نمبر: 179 وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ترجمہ: ” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“ (١٧٩) تفسیر: اللہ تبارک و تعالیٰ راہ راست سے بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں اور شیطان لعین کے پیروکاروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَقَدْ ذَرَأْنَا﴾ ” اور ہم نے پیدا کیا۔“ یعنی ہم نے پیدا کیا اور پھیلایا﴿لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ﴾ ” جہنم کے لئے بہت سے جن اور آدمی“ پس چوپائے بھی ان سے بہتر حالت میں ہیں ﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴾ ” ان کے دل ہیں، جن سے وہ سمجھتے نہیں“ یعنی علم اور سمجھ ان تک راہ نہیں پاتے، سوائے ان کے خلاف قیام حجت کے ﴿وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ﴾” ان کی آنکھیں ہیں، جن سے وہ دیکھتے نہیں“ یعنی وہ ان آنکھوں سے اس طرح نہیں دیکھتے کہ دیکھنا ان کے لئے فائدہ مند ہو بلکہ انہوں نے اپنی بینائی کی منفعت اور فائدے کو کھو دیا۔﴿ وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا﴾ ” ان کے کان ہیں، جن سے وہ سنتے نہیں“ وہ ان کانوں سے اس طرح نہیں سنتے کہ ان کے دلوں تک معانی و مفاہیم پہنچ جائیں۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ ” یہ“ یعنی وہ لوگ جو ان اوصاف قبیحہ کے حامل ہیں ﴿كَالْأَنْعَامِ﴾ ” چوپاؤں کی مانند ہیں“ جو عقل سے محروم ہیں۔ انہوں نے فانی چیزوں کو ان چیزوں پر ترجیح دی جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں پس ان سے عقل کی خاصیت سلب کرلی گئی ﴿بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ﴾ ” بلکہ وہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔“ یعنی وہ چوپاؤں سے بھی زیادہ گمراہ اور بے سمجھ ہیں کیونکہ بہائم سے تو وہ کام لئے جاتے ہیں جن کاموں کے لئے ان کو تخلیق کیا گیا ہے، ان کے ذہن ہیں جن کے ذریعے سے وہ مضرت و منفعت کا ادراک کرتے ہیں۔ بنا بریں چوپاؤں کا حال ان کے حال سے اچھا ہے۔﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾ ” وہی لوگ ہیں غافل‘‘ جو سب سے زیادہ نفع مند چیز سے غافل ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کی اطاعت اور اس کے ذکر سے غافل ہیں حالانکہ ان کو دل، کان اور آنکھیں عطا کی گئیں، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں ان سے مدد لیں، لیکن انہوں نے اس مقصد کے برعکس امور کے لئے ان کو استعمال کیا۔ پس یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو ان لوگوں میں شمار کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ میں جھونکنے کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ اہل جہنم کے اعمال سر انجام دے رہے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1139/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 51 وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ترجمہ: اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں (١)۔ تفسیر: یہ قرآن تمام مخلوق کے لئے انذار ہے مگر اس سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ﴿الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ﴾ ” جو اس حقیقت کا خوف رکھتے ہیں کہ انہیں ان کے رب کے پاس اکٹھے کئے جانا ہے۔“ پس انہیں پورا پورا یقین ہے کہ وہ اس گھر سے منتقل ہو کر آخرت کے ہمیشہ رہنے والے گھر میں داخل ہوں گے۔ وہ اپنے ساتھ وہی کچھ رکھتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتے ہیں جو انہیں نقصان دیتا ہے۔ ﴿ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ﴾ ” نہیں ہوگا ان کے لئے اس کے بغیر“ یعنی اللہ کے بغیر ﴿وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ﴾ ” کوئی دوست اور نہ سفارشی“ یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں ہوگی جو ان کے معاملے کی سرپرستی کرسکے جس سے ان کا مطلوب حاصل ہوجائے اور ان سے تکلیف دور ہوجائے، نہ ان کا کوئی سفارشی ہوگا، کیونکہ تمام مخلوق کے پاس کوئی اختیار نہیں ﴿لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ ” تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔“ شاید وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقویٰ اختیار کریں۔ کیونکہ انذار، تقویٰ کا موجب اور اس کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/845/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 52 وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ ترجمہ: اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ تفسیر: ﴿وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ﴾” اور مت دور کیجیے ان لوگوں کو جوصبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، چاہتے ہیں اسی کا چہرہ“ یعنی دوسروں کی مجالست کی امید میں اہل اخلاص اور اہل عبادت کو اپنی مجلس سے دور نہ کیجیے جو ہمیشہ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں، ذکر اور نماز کے ذریعے سے اس کی عبادت کرتے ہیں، صبح و شام اس سے سوال کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے۔ اس مقصد جلیل کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں۔ بنا بریں یہ لوگ اس چیز کے مستحق نہیں کہ انہیں اپنے سے دور کیا جائے یا ان سے روگردانی کی جائے بلکہ یہ لوگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موالات، محبت اور قربت کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ یہ مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں اگرچہ یہ فقیر اور نادار ہیں اور یہی درحقیقت اللہ کے ہاں باعزت لوگ ہیں اگرچہ یہ لوگوں کے نزدیک گھٹیا اور کم مرتبہ ہیں۔ ﴿ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ﴾ ” نہیں ہے آپ پر ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ“ یعنی ہر شخص کے ذمہ اس کا اپنا حساب ہے، اس کا نیک عمل اس کے لئے ہے اور برے عمل کی شامت بھی اسی پر ہے﴿فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾” پس اگر ان کو دور کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پوری طرح پیروی کی، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقرائے مومنین کی مجلس میں بیٹھتے تو دلجمعی سے ان کے ساتھ بیٹھتے، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، ان کے ساتھ حسن خلق اور نرمی کا معاملہ کرتے اور انہیں اپنے قریب کرتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں زیادہ تر یہی لوگ ہوتے تھے۔ ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ قریش میں سے یا اعراب میں سے چند اجڈ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تم پر ایمان لائیں اور تمہاری پیروی کریں تو فلاں فلاں شخص جو کہ فقرائے صحابہ میں سے تھے، اپنے پاس سے اٹھا دو، کیونکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہمیں ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھیں۔ ان معترضین کے اسلام لانے اور ان کے اتباع کرنے کی خواہش کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بھی یہ خیال آیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات کے ذریعے سے آپ کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/846/
سورۃ آل عمران آیت نمبر: 80 وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ترجمہ: اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنانے کا حکم دے کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کا حکم دے گا۔ (١) تفسیر: 1- یعنی نبیوں اور فرشتوں (یا کسی اور کو) رب والی صفات کا حامل باور کرانا یہ کفر ہے۔ تمہارے مسلمان ہو جانے کے بعد ایک نبی یہ کام بھلا کس طرح کر سکتا ہے؟ کیونکہ نبی کا کام تو ایمان کی دعوت دینا ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا نام ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی شان نزول میں یہ بات بیان کی ہے کہ بعض مسلمانوں نے نبی (ﷺ) سے اس بات کی اجازت مانگی کہ وہ آپ کو سجدہ کریں۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) اوربعض نے اس کی شان نزول میں یہ کہا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے جمع ہو کر نبی (ﷺ) سے کہا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت وپرستش کریں جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ اللہ کی پناہ، اس بات سے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں، اللہ نے مجھے نہ اس لئے بھیجا ہے نہ اس کا حکم ہی دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ سیرۃ ابن ہشام) shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/375/ سورۃ آل عمران آیت نمبر: 80 وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ترجمہ: اور نہ وہ تمہیں یہ حکم دے سکتا ہے کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا قرار دے دو۔ جب تم مسلمان ہوچکے تو کیا اس کے بعد وہ تمہیں کفر اختیار کرنے کا حکم دے گا؟ تفسیر: ﴿وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًاۗ ﴾’’اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لینے کا حکم دے“ یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ یعنی وہ تمہیں نہ اپنی ذات کی عبادت کا حکم دے گا نہ کسی بھی دوسری مخلوق کی عبادت کا حکم دے گا خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا کوئی اور ﴿ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴾” کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد پھر کفر کا حکم دے گا؟“ یہ نہیں ہوسکتا۔ جس کو نبوت کا شرف حاصل ہو، اس سے کسی ایسی بات کا تصور بھی محال ہے۔ جو شخص کسی نبی کی طرف اس قسم کی کوئی بات منسوب کرتا ہے۔ وہ بہت بڑے گناہ کا بلکہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/375/ سورۃ آل عمران آیت نمبر: 77 إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ترجمہ: (اس کے برخلاف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک۔ تفسیر: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾” بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں“۔ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی یا بندوں کی حق تلفی کرکے اس کے عوض دنیا کی کوئی چیزلیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ناجائز طور پر لے لیتا ہے وہ بھی اس آیت میں شامل ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“ یعنی وہاں انہیں کوئی بھلائی اور خیر حاصل نہیں ہوگی۔ ﴿ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ﴾” اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا‘،یعنی قیامت کے دن ان سے ناراض ہوگا اس لئے ان سے کلام نہیں کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے خواہش نفس کو رب کی رضا سے مقدم سمجھا ہے۔﴿ وَلَا يُزَكِّيهِمْ﴾” اور نہ انہیں پاک کرے گا“ اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا، ان کے عیب زائل نہیں کرے گا۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے“ جس سے دلوں کو بھی تکلیف ہوگی اور بدنوں کو بھی۔ وہ ہے ناراضی کا عذاب، دیدار الٰہی سے محرومی کا عذاب، اور جہنم کا عذاب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/372/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 32 وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ترجمہ: اور دنیوی زندگی تو ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں (٨) اور یقن جانو کہ جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے آخرت والا گھر کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تو کیا اتنی سی بات تمہاری عقل میں نہیں آتی؟ تفسیر: دنیا کھیل تماشا کس لحاظ سے ہے: اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں سرے سے کوئی سنجیدگی ہے ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کے مقابلہ میں ایسے ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل، تفریح میں دل بہلا کر پھر اپنے اصل کام کی طرف توجہ متوجہ ہوجائے۔ دنیا میں بسنے والوں کی اکثریت اس کی رنگینیوں میں ہی کھوجاتی ہے۔ آخرت کا گھر بہتر ہے: جو اس زندگی کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں، آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ہر عمل کرتے ہوئے رب کو اپنے آگے محسوس کریں، انھیں کے لیے آخرت کی زندگی ہے بے خوف ہونے کی قیمت آگ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (المومنون: ۱) کامیابی پالی ایمان لانے والوں نے، جو پاکیزگی کا کام کرتے ہیں، وہ جو زیادتی نہیں کرتے، امانتوں کی پاسداری کرتے ہیں یہی لوگ فردوس کو ورثہ میں پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، باحیا ہوں گے، نماز کی پابندی کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا تم کچھ بھی نہیں سوچتے یعنی اگر آج نیکی کے لیے کوشش نہیں کی تو کل انجام کیسے اچھا ہوگا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/826/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 57 قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ ترجمہ: فرمادیں بے شک میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اسے جھٹلادیا ہے میرے پاس وہ چیز نہیں ہے جسے تم جلد مانگ رہے ہو فیصلہ اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں وہ حق بیان کرتا ہے اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ (٥٧) تفسیر: 1۔ قُلْ اِنِّيْ عَلٰى بَيِّنَةٍ....: کہہ دیجیے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے واضح دلیل، یعنی وحی الٰہی موجود ہے، جس کا اصل الاصول توحید ہے، اسے تم نے جھٹلایا۔ اب جس عذاب کے جلدی لانے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں۔ عذاب لانے یا نہ لانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ 2۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ: معلوم ہوا کہ انبیاء کو معجزات پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، یہ اختیار صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/851/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 57 قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ ترجمہ: تو کہہ مجھے میرے رب سے شہادت پہنچی اور تم نے اس کو جھٹلایا ہے ، میرے پاس وہ چیز نہیں جس کے مانگنے میں تم جلدی کرتے ہو ، اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ، وہ حق ظاہر کرتا ہے اور وہ ہی اچھا فیصلہ کرنے والا ہے (ف ٣) ۔ تفسیر: ﴿عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” میں تو اپنے رب کی دلیل روشن پر ہوں۔“ آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اس قرآن کی صحت اور اس کے ماسوا کے بطلان کا واضح یقین رکھتا ہوں۔ یہ رسول کی طرف سے قطعی شہادت ہے جو ہر قسم کے تردد سے پاک ہے۔ رسول علی الاطلاق سب سے عادل گواہ ہوتا ہے۔ اہل ایمان نے رسول کی گواہی کی تصدیق کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جس ایمان سے نوازا ہے اس ایمان کے مطابق ان کے ہاں اس شہادت کی صحت اور صداقت متحقق ہے۔ ﴿وَ﴾ مگر اے مشرکو !﴿كَذَّبْتُم بِهِ﴾” تم نے اس کی تکذیب کی“ اور یہ تمہاری طرف سے اس سلوک کا مستحق نہ تھا، تصدیق کے سوا کوئی اور سلوک اس کے شایان شان نہ تھا۔ جب تم تکذیب پر مصر ہو تو جان رکھو کہ لا محالہ عذاب تم پر واقع ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ عذاب مقرر ہے وہ جب چاہے گا اور جیسے چاہے گا تم پر نازل کرے گا۔ اگر تم جلدی مچاتے ہو تو معاملہ میرے اختیار میں نہیں ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ﴾ ” حکم صرف اللہ کا ہے“ جس طرح اس نے اوامرونواہی میں اپنا حکم شرعی نافذ کیا ہے اسیطرح وہ حکم جزائی نافذ کرے گا اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ثواب و عقاب دے گا۔ پس اس کے فیصلے پر اعتراض درخورا عتنا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے راہ حق کو واضح کردیا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حق بیان کر کے ان کا عذر ختم کردیا اور یوں ان کی حجت منقطع ہوگئی، تاکہ وہ ہلاک ہو تو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہوا او جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ ﴾ ”وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ وہ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، وہ ان کے درمیان ایسافیصلہ کرتا ہے جس پر اس کی تعریف کی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہتا جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے اور وہ حق کو واضح اور متعین کردیتا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/851/
سورۃ آل عمران آیت نمبر: 76 بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ترجمہ: بھلا پکڑ کیوں نہیں ہوگی؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو اپنے عہد کو پورا کرے گا اور گناہ سے بچے گا تو اللہ ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔ تفسیر: ﴿بَلَىٰ﴾ یعنی حقیقت وہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں جاہلوں کے حق کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہیں اس جرم کا سخت گناہ ہوگا۔ ﴿ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ ﴾’’جو شخص اپنا قرار پورا کرے۔ اور پرہیز گاری کرے“۔ اس عہد و قرار میں وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے اور رب کے درمیان ہے۔ اس میں اللہ کے وہ تمام حق شامل ہیں جو اس نے بندے پر واجب کئے ہیں اور وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے کا دوسرے بندوں سے ہوتا ہے۔ اس مقام پر عہدو پیمان سے مراد ان گناہوں سے بچنا ہے جو حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے بھی جو حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ جو شخص ان سب گناہوں سے بچتا ہے وہ متقی ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے خواہ وہ (اُمِّیِین) (عرب ان پڑھ لوگوں) میں سے ہو یا دوسروں میں سے ہو اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہمیں جاہلوں کے حق کا کوئی گناہ نہیں، اس نے اللہ کا وعدہ پورا نہیں کیا اور اللہ سے نہیں ڈرا۔ لہٰذا اسے اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ اللہ اس سے بغض رکھتا ہے۔ اگر ان پڑھ ایفائے عہد، تقویٰ اور مالی خیانت سے پرہیز سے متصف ہوں گے تو وہی اللہ کے پیارے ہوں گے، وہی متقی کہلائیں گے جن کے لئے جنت تیار کی گئی ہے۔ وہ اللہ کی مخلوق میں افضل مقام پر فائز ہوں گے لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں کی حق تلفی کرنے سے گناہ نہیں ہوتا وہ اللہ کے اس قول میں داخل ہوتے ہیں : shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/371/ سورۃ آل عمران آیت نمبر: 77 إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ترجمہ: (اس کے برخلاف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک۔ تفسیر: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾” بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں“۔ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی یا بندوں کی حق تلفی کرکے اس کے عوض دنیا کی کوئی چیزلیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ناجائز طور پر لے لیتا ہے وہ بھی اس آیت میں شامل ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“ یعنی وہاں انہیں کوئی بھلائی اور خیر حاصل نہیں ہوگی۔ ﴿ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ﴾” اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا‘،یعنی قیامت کے دن ان سے ناراض ہوگا اس لئے ان سے کلام نہیں کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے خواہش نفس کو رب کی رضا سے مقدم سمجھا ہے۔﴿ وَلَا يُزَكِّيهِمْ﴾” اور نہ انہیں پاک کرے گا“ اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا، ان کے عیب زائل نہیں کرے گا۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے“ جس سے دلوں کو بھی تکلیف ہوگی اور بدنوں کو بھی۔ وہ ہے ناراضی کا عذاب، دیدار الٰہی سے محرومی کا عذاب، اور جہنم کا عذاب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/372/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 14 قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: کہہ دو کہ : کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رکھوالا بناؤں؟ (اس اللہ کو چھوڑ کر) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جو سب کو کھلاتا ہے، کسی سے کھاتا نہیں؟ کہہ دو کہ : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ فرمانبرداری میں سب لوگوں سے پہل کرنے والا میں بنوں۔ اور تم مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔ تفسیر: 1۔ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا: ’’ولی‘‘ کا معنی دوست بھی آتا ہے، مالک و مدد گار اور معبود و کارساز بھی، یہاں اس کا معنی مالک و مدد گار اور معبود و کارساز ہے، یعنی وہ زمان و مکاں کا خالق ہی نہیں بلکہ اسے باقی رکھنے والا اور چلانے والا بھی وہی ہے، اسے کسی سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں، باقی سب اسی کا دیا ہوا کھانے والے اور ہر لحاظ سے اس کے محتاج ہیں۔ اس ایک جملے سے مشرکین نے اللہ کے سوا جتنے معبود بنا رکھے تھے ان سب کی نفی ہو جاتی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ ذاریات (۵۶ تا ۵۸)۔ 2۔ قُلْ اِنِّيْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ....: کیونکہ میں اس کا رسول ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ تمام بندوں سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک کے احکام کو مانے اور ﴿وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شرک میں مبتلا ہوتا ہے تو ہوتا پھرے، آپ کا یہ کام نہیں کہ اس کا خیال بھی اپنے ذہن میں لائیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/808/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 15 قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ترجمہ: کہہ دو کہ : اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف ہے۔ تفسیر: قُلْ اِنِّيْۤ اَخَافُ ....: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کروا کر دوسرے سب لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اگر بفرض محال ہمارے معصوم اور سب سے زیادہ نیک بندے سے بھی نافرمانی کا ارتکاب ہو جائے تو وہ بھی ہمارے عذاب سے نہیں بچ سکتا، پھر دوسروں کے لیے کیسے ممکن ہے کہ انبیاء کو جھٹلانے جیسے جرائم کرنے کے باوجود ہمارے عذاب سے بے فکر ہو کر بیٹھ رہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۸۱ تا ۸۸ اور سورۂ زمر (۶۴، ۶۵)۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/809/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 16 مَّن يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ ترجمہ: اس دن جس کسی سے وہ عذاب ہٹایا گیا ، اسی پر رحم ہوا ، اور یہ صریح کامیابی ہے ۔ تفسیر: اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا ہولناک ہوگا اور جس شخص کو اس دن عذاب سے بچا لیا جائے گا تو یہ اللہ کی رحمت سے ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ﴾ (آل عمران: ۱۸۵) جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اس لیے کہ کامیابی خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے اور جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-tasheel-ul-bayan/810/
سورۃ التوبہ آیت نمبر: 124 وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ترجمہ: اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا (١) سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں (٢)۔ تفسیر: 1- اس سورت میں منافقین کے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے، یہ آیات اس کا بقیہ اور تتمہ ہیں۔ اس میں بتلایا جا رہا ہے جب ان کی غیر موجودگی میں کوئی سورت یا اس کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے اور ان کے علم میں بات آتی تو وہ استہزاء اور مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ اس سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے؟۔ 2- اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو بھی سورت اترتی ہے اس سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ایمان کے اضافے پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ آیت بھی اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جس طرح کہ محدثین کا مسلک ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1366/ سورۃ التوبہ آیت نمبر: 24 قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (١)۔ تفسیر: 1- اس آیت میں بھی اس مضمون کو بڑے مؤکد انداز میں بیان کیا گیا ہے ”عشیرۃ“ اسم جمع ہے، وہ قریب ترین رشتہ دار جن کے ساتھ آدمی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے، یعنی کنبہ قبیلہ، ”اقتراف“ کسب (کمائی) کے معنی کے لئے آتا ہے، ”تجارت“ سودے کی خرید و فروخت کو کہتے ہیں جس کا مقصد نفع کا حصول ہو، ”کساد“ مندے کو کہتے ہیں یعنی سامان فروخت موجود ہو لیکن خریدار نہ ہو یا اس چیز کا وقت گز رچکا ہو، جس کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت نہ رہے۔ دونوں صورتیں مندے کی ہیں۔ ”مساکن“ سے مراد وہ گھر ہیں جنہیں انسان موسم کے شدائد و حوادث سے بچنے آبرومندانہ طریقے سے رہنے سہنے اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لئے تعمیر کرتا ہے، یہ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت بھی ناگزیر اور قلوب انسانی میں ان سب کی محبت بھی طبعی ہے (جو مذموم نہیں) لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور رسول کی محبت سے زیادہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں مانع ہو جائے، تو یہ بات اللہ کو سخت ناپسندیدہ اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے اور یہ وہ فسق (نافرمانی) ہے جس سے انسان اللہ کی ہدایت سے محروم ہو سکتا ہے۔ جس طرح کہ آخری الفاظ تہدید سے واضح ہے۔ احادیث میں نبی (ﷺ) نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے مثلا ایک موقع پر حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے کہا: ”یا رسول اللہ! مجھے آپ، اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”جب تک میں اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک وہ مومن نہیں“، حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے کہا ”پس واللہ! اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”اے عمر! اب تم مومن ہو“۔ (صحيح بخاری- كتاب الأيمان والنذر - باب كيف كان يمين النبي (ﷺ)) ایک دوسری روایت میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جاؤں“۔ (صحيح بخاری - كتاب الإيمان باب حب الرسول (ﷺ) من الإيمان- ومسلم كتاب الإيمان، باب باب بيان خصال من اتصف بهن وجد حلاوة الإيمان) ایک اور حدیث میں جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ”جب تم بَيْعُ عِينَةٍ (کسی کو مدت معینہ کے لییے چیز ادھاردے کر پھر اس سے کم قیمت پر خرید لینا) اختیار کر لو گے اور گایوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی وقانع ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالٰی تم پر ایسی ذلت مسلط فرمادے گا جس سے تمام وقت تک نہ نکل سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہیں لوٹو گے“۔ ( أبو داود، كتاب البيوع، باب النهي عن العينة - مسند أحمد جلد 2، ص42) shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1266/
سورۃ التوبہ آیت نمبر: 2 فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ ترجمہ: کہ چار مہینے تک ملک میں چلو پھر (کوئی روک ٹوک نہیں، اس کے بعد جنگ کی حالت قائم ہوجائے گی) اور یاد رکھو تم کبھی اللہ کو عاجز نہ کرسکو گے اور اللہ منکروں کو (پیروان حق کے ہاتھو) زلیل کرنے والا ہے۔ تفسیر: 1۔ فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ: یہ اللہ تعالیٰ کا مزید کرم تھا کہ مشرکین کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ماہ کی مہلت دی گئی، جس کی ابتدا ۱۰ ذوالحجہ یوم النحرسے ہوئی، کیونکہ اس دن یہ اعلان کیا گیا اور ۱۰ ربیع الثانی کو یہ مدت ختم ہو گئی۔ اس مہلت کا مقصد یہ تھا کہ وہ اتنی مدت میں اپنے بارے میں خوب سوچ سمجھ لیں، پھر یا تو مسلمان ہو جائیں یا سر زمین عرب سے باہر کسی ملک میں اپنا ٹھکانا بنا لیں۔ اگر وہ اس کے بعد بھی باقی رہیں تو انھیں پکڑ کر، گھیر کر، گھات لگا کر جیسے بھی ممکن ہو قتل کر دیا جائے۔ یہ چار ماہ کی مدت ان لوگوں کے لیے تھی جن سے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم باقی تھی، یا معاہدہ تو زیادہ مدت کا تھا مگر انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی، یا مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ تھا، البتہ وہ قبائل جن سے کسی خاص مدت تک معاہدہ تھا اور انھوں نے معاہدے کی کسی قسم کی مخالفت بھی نہ کی تھی ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم دیا گیا، فرمایا : ﴿فَاَتِمُّوْا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ﴾ [ التوبۃ : ۴ ] ’’تو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرو۔‘‘ 2۔ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ....: مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہلت مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اس میں کئی حکمتیں ہیں، ورنہ تم لوگ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں، اگر تم کفر پر قائم رہے تو خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔ دیکھیے سورۂ انفال کی آیت (۵۹) کے حواشی۔ غرض صرف بیت اللہ ہی نہیں پورے جزیرۂ عرب کو مشرکین کے نجس وجود سے پاک کر دیا گیا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1244/ سورۃ التوبہ آیت نمبر: 1 بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: (مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔ تفسیر: یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورۂ توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال ( سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَهُوَ حَبْرٌ (( ’’جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔‘‘ [ أحمد :6؍82، ح : ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا] اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ’’توبہ‘‘ اور دوسرا ’’براء ۃ‘‘ ہے۔ ’’ توبہ‘‘ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ’’ براء ۃ ‘‘ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ’’سورۃ الفاضحہ‘‘ یعنی ( منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھوائی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں لکھی۔ بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ....: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : ﴿لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً﴾ [ التوبۃ : ۱۰ ] ’’یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔‘‘اور فرمایا : ﴿اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۳ ] ’’کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ۹ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بے حیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1243/
سورۃ التوبہ آیت نمبر: 1 بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ترجمہ: (مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔ تفسیر: یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورۂ توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال ( سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَهُوَ حَبْرٌ (( ’’جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔‘‘ [ أحمد :6؍82، ح : ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا] اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ’’توبہ‘‘ اور دوسرا ’’براء ۃ‘‘ ہے۔ ’’ توبہ‘‘ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ’’ براء ۃ ‘‘ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ’’سورۃ الفاضحہ‘‘ یعنی ( منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھوائی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں لکھی۔ بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ....: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : ﴿لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً﴾ [ التوبۃ : ۱۰ ] ’’یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔‘‘اور فرمایا : ﴿اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۳ ] ’’کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ۹ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بے حیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1243/ سورۃ التوبہ آیت نمبر: 11 فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ترجمہ: بہرحال اگر یہ باز آئیں نماز قائم کریں زکوۃ ادا کریں تو (پھر ان کے خلاف تمہارا ہاتھ نہیں اٹھنا چاہیئے) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں تم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں۔ تفسیر: 1۔ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ....: یعنی ایمانی اخوت، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حجرات (۱۰) میں کیا ہے : ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ﴾ ’’مومن تو سب بھائی ہی ہیں‘‘ وہ ان تین چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ان تین چیزوں سے انھیں اسلامی معاشرے میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ جو فرمایا بھائی ہیں حکم شرع میں، اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائن سے معلوم ہو کہ ظاہر میں مسلمان ہے اور دل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم ظاہری میں مسلمان گنیں، مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں۔‘‘ (موضح) یہ بات پہلے بھی گزری ہے یہاں مزید تاکید ہو گئی کہ نماز اور زکوٰۃ کا محض اقرار ہی اخوت دینی کے لیے کافی نہیں بلکہ عملاً ان کی ادائیگی امت مسلمہ میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے اور مسلمان حاکم پر لازم ہے کہ ان کی عدم ادائیگی پر باز پرس کرے اور سزا دے اور اگر وہ ان کی ادائیگی سے انکار یا ان کا مذاق اڑائیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح انھیں مرتد قرار دے کر ان سے جنگ کی جائے۔ 2۔ وَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ: جاننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اس کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی آیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1253/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 153 وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ترجمہ: اور بے شک یہی میری سیدھی (153) راہ ہے، پس تم لوگ اسی کی پیروی کرو اور دوسرے طریقوں پر نہ چلو جو تمہیں اس کی (سیدھی) راہ سے الگ کردیں، اللہ نے تمہیں ان باتوں کا حکم دیا ہے، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو تفسیر: 1- هَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت۔ اور یہی اسلام کے اصول ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے۔ اس لئے جو بھی مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔ 2- صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یا رسول اللہ (ﷺ) کی راہ ایک ہی ہے۔ ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اسی ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں۔ یہی ملت مسلمہ کی وحدت واجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ حالانکہ اسے تاکید کی گئی ہے کہ ”دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ﴾ (الشورى) ”دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو“ گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (ﷺ) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے“۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا ”یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے“۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔ (مسنداحمد، جلد 1، ص 465،435۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے دیکھئے مسند احمد بہ تعلیق احمد شاکر نمبر 4142) بلکہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ دو دو خط داہنے اور بائیں کھینچے۔ یعنی کل چار خطوط کھینچے اور انہیں شیطان کا راستہ بتلایا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-makkah/947/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 154 ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ ترجمہ: پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ نیک لوگوں پر اللہ کی نعمت پوری ہو، اور ہر چیز کی تفصیل بیان کردی جائے، اور وہ (لوگوں کے لیے) رہنمائی اور رحمت کا سبب بنے، تاکہ وہ (آخرت میں) اپنے پروردگار سے جا ملنے پر ایمان لے آئیں۔ تفسیر: ﴿ ثُمَّ ﴾ ” پھر“ اس مقام پر ( ثُمَّ ) سے مراد ترتیب زمانی نہیں ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ اس زمانے سے بہت متقدم ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلاوت فرمائی تھی۔ یہاں دراصل ترتیب اخباری مراد ہے۔ ﴿آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾ ” موسیٰ کو کتاب عنایت کی“ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ کو کتاب عطا کی۔ اس سے مراد تو رات ہے ﴿تَمَامًا﴾اپنی نعمت اور احسان کو پورا اور مکمل کرنے کے لئے ﴿عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ﴾ ” ان پر جو نیکو کار ہیں۔“ یعنی جناب موسیٰ کی امت میں سے ان لوگوں پر اپنی نعمت کو پورا کرنے کے لئے جنہوں نے نیک کام کئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیکو کاروں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ من جملہ ان کامل نعمتوں کے ان پر تورات کا نازل کرنا ہے پس ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت مکمل ہوگئی اور ان پر ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ٹھہرا۔ ﴿وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کی تفصیل کے لئے“ یعنی ہر اس چیز کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ جس کے وہ محتاج ہیں، اس کا تعلق حلال و حرام سے ہو، اوامرونواہی سے ہو یا عقائد وغیرہ سے۔ ﴿وَهُدًى ﴾ ” اور ہدایت“ یعنی وہ بھلائی کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہے اور اصول و فروع میں ان کو برائی کی پہچان کرواتی ہے ﴿وَرَحْمَةً﴾ ” اور رحمت“ یعنی اس رحمت کے ذریعے سے انہیں سعادت اور خیر کثیر سے نوازا جاتا ہے ﴿لَّعَلَّهُم﴾” تاکہ وہ لوگ“ یعنی ہمارے ان پر کتاب اور واضح دلائل نازل کرنے کے سبب سے ﴿ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں“ کیونکہ یہ کتاب قیامت اور جزائے اعمال کے قطعی دلائل اور ایسے امور پر مشتمل ہے جو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر ایمان اور اس کے لئے تیار کے موجب ہیں۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/948/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 154 ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ ترجمہ: پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور رحمت ہو (١) تاکہ وہ لوگ اپنے رب کو ملنے پر یقین لائیں۔ تفسیر: 1- قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا گیا ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت ورحمت کا باعث تھی۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/948/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 155 وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ترجمہ: اور یہ قرآن ایک مبارک کتاب (155) ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، پس تم لوگ اسی کی پیروی کرو، اور تقوی کی راہ اختیار کرو، تاکہ تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو تفسیر: قرآن تورات زیادہ بابرکت کیسے ہے: قرآن کے تورات سے زیادہ بابرکت ہونے کے کئی پہلو ہیں۔ (۱) کوئی کتاب ایسی محفوظ نہیں جیسے قرآن کریم محفوظ ہے۔ (۲) ہزاروں برس کے باوجود کوئی کمی یا تبدیلی نہیں آئی۔ (۳) انسانی راہنمائی کا مکمل پروگرام ہے۔ (۴) ہر دور کے ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے ہے۔ (۵)تورات مخصوص قوم اور زمانے یعنی بنی اسرائیل کے لیے تھی جب کہ قرآن اقوام عالم اور قیامت تک کے لیے ہے۔ (۶) تورات صرف قومی مسائل کا حل پیش کرنیوالی ہے اور قرآن کریم پوری انسانیت کے مسائل کا جواب دیتا ہے۔ (۷) قرآن میں تمام آسمانی کتب و صحائف اور مضامین کو سمو دیا گیا ہے۔ (۸) یہ واحد کتاب ہے جو لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ (۹) اس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔ (۱۰) غار ِ حرا سے دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پہنچے ہیں کیونکہ یہ برکت والی کتاب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ﴾ (یونس: ۵۷۔ ۵۸) ’’اے لوگو ! تمہارے رب کی طرف سے ہدایت آگئی ہے شفاء ہے جو دلوں میں ہے۔ رحمت ہے ایمان والوں کے لیے معجزہ ہے۔ بے لوث عطا اللہ کی طرف سے، پھر اس کے فضل کی وجہ سے چاہے کہ وہ سب خوشیاں منائیں وہ ان ساری چیزوں سے بہتر ہے جو انھوں نے جمع کیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند اور بہت سوں کو ذلیل کردیتا ہے۔ (مسلم: ۸۱۷) اس کی پیروی کرو سے مراد: ڈر جاؤ اللہ سے تاکہ تم پر رحم کیا جائے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ غفور الرحیم ہے وہ جان لیں کہ اللہ مجرموں کو معاف نہیں کرے گا جنھوں نے کتاب کو سیکھا ہی نہیں وہ اس کی پیروی کیسے کریں گے وہ دنیا میں بھی اندھا ہے اور قیامت کے دن بھی اندھا کرکے اٹھایا جائے گا۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-tasheel-ul-bayan/949/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 155 وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ترجمہ: اور (اسی طرح) یہ برکت والی کتاب ہے جو ہم نے نازل کی ہے۔ لہذا اس کی پیروی کرو، اور تقوی اختیار کرو، تاکہ تم پر رحمت ہو تفسیر: ﴿ وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ ﴾” کتاب ہم نے اتاری ہے برکت والی۔“ یعنی اس کتاب کے اندر خیر کثیر اور بے انتہا علم ہے جس سے تمام علوم مدد لیتے ہیں اور اس سے برکات حاصل کی جاتی ہیں۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف اس کتاب عظیم نے دعوت اور ترغیب نہ دی ہو اور اس بھلائی کی حکمتیں اور مصلحتیں بیان نہ کی ہوں جو اس پر آمادہ کرتی ہیں اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے اس کتاب نے روکا اور ڈرایا نہ ہو اور ان اسباب اور عواقب کا ذکر نہ کیا ہو جو اس برائی کے ارتکاب سے باز رکھتے ہوں۔ ﴿ فَاتَّبِعُوهُ ﴾ ” پس اس کی پیروی کرو“ یعنی اس کے امرونہی میں اس کی اتباع کرو اور اس پر اپنے اصول و فروع بنیاد رکھو ﴿وَاتَّقُوا ﴾ ” اور ڈرو“ یعنی کسی بھی امر میں اللہ کی مخالت کرنے سے ڈرو ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ” تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو شاید تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سب سے بڑا سبب علم و عمل کے اعتبار سے اس کتاب کی پیروی ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/949/
سورۃ الانعام آیت نمبر: 55 وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ ترجمہ: اور ہم اسی طرح نشانیاں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں (تاکہ سیدھا راستہ بھی واضح ہوجائے) اور تاکہ مجرموں کا راستہ بھی کھل کر سامنے آجائے تفسیر: 1۔ وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ ....: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ باتیں اس لیے کھول کر بیان کی ہیں تاکہ حق ظاہر ہو جائے اور اس پر عمل کیا جا سکے اور مجرموں کا راستہ خوب واضح ہو جائے، تاکہ اس سے بچا جا سکے۔ (جلالین) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں انھیں مخالفین ( مجرمین) کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے، تاکہ ان کی تردید کر سکیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہی خوبی تھی کہ ایک طرف تو وہ اسلام کو خوب سمجھتے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے رسم و رواج اور قوانین سے پوری واقفیت رکھتے تھے، کیونکہ وہ جاہلیت سے گزر کر آئے تھے۔ یہ مضمون حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الفوائد میں خوب بیان ہوا ہے۔ 2۔ وَ لِتَسْتَبِيْنَ : ’’بَانَ يَبِيْنُ ‘‘ کا معنی ہے الگ ہونا، واضح ہونا، تو باب استفعال میں حروف کی کثرت کی وجہ سے ’’ اور تاکہ خوب واضح ہو جائے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/849/ سورۃ الانعام آیت نمبر: 56 قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۚ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ترجمہ: (اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : تم اللہ کے سوا جن (جھوٹے خداؤں) کو پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کہو کہ : میں تمہاری خواہشات کے پیچھے نہیں چل سکتا۔ اگر میں ایسا کروں تو گمراہ ہوں گا، اور میرا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوگا۔ تفسیر: 1۔ قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ....: اوپر کی آیت میں تو یہ بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، تاکہ حق واضح ہو اور مجرموں کا راستہ ظاہر ہو جائے، اب اس آیت میں مجرموں کے راستے پر چلنے سے منع فرمایا، جس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ مجرموں کا راستہ کیا ہے، جس پر چلنے سے تمھیں منع کیا گیا ہے؟ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمھاری خواہشوں کے پیچھے نہیں چلوں گا، اگر میں ایسا کروں تو میں گمراہوں میں شامل ہو جاؤں گا اور میں ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہوں گا۔ اللہ کی ہدایت کے مخالف قول کو کتنا ہی حکیمانہ اور دانشمندانہ سمجھا جائے وہ محض خواہش پر مبنی ہے اور سراسر ضلالت و گمراہی ہے۔ کیونکہ کسی کے پاس حکم کا اختیار سمجھنا اس کی عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ 2۔ قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ : یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اللہ کے سوا ان تمام چیزوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم پکارتے ہو۔ shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/850/
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 3
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ:
اور حج اکبر کے دن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے ، اور اس کا رسول بھی ، پھر اگر تم توبہ کرو ، تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے ، اور جو نہ مانو ، تو جانو کہ خدا کو تم تھکا نہ سکو گے ، اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا ۔
تفسیر:
یہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو فتح مند اور اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور ان کے مشرک دشمنوں سے علیحدہ ہوجائے گا، جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ اور اللہ تعالیٰ کے محترم گھر سے نکال کر حجاز کے اس خطۂ ارضی سے جلاوطن کیا جس پر ان کا تسلط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو فتح و نصرت سے نوازا حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔ مشرکین مغلوب ہوئے اور ان علاقوں کا اقتدار اور غلبہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ حج اکبر کے دن جو کہ قربانی اور جزیرۃ العرب کے مسلمانوں اور کفار کے اکٹھے ہونے کا دن ہے۔۔۔۔ اعلان کر دے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے برئ الذمہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اب ان کے لئے کوئی عہد اور میثاق نہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی ملیں گے ان کو قتل کیا جائے گا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں اور یہ سن ۹ ہجری تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا اور قربانی کے روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برأت کا اعلان کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توبہ کی ترغیب دی اور ان کو شرک پر جمے رہنے سے ڈرایا۔ ﴿فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ﴾ ” پس اگر تم توبہ کرلو، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر نہ مانو، تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز نہ تھکا سکو گے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے بھاگ نہیں سکتے، بلکہ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو اور وہ اس بات پر قادر رہے کہ تم پر اپنے مومن بندوں کو مسلط کر دے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔“ جو دنیا میں قتل، اسیری اور جلاوطنی کی صورت میں انہیں دیا جائے گا اور آخرت میں جہنم کی آگ کا، جو بہت برا ٹھکانا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/1245/
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 3
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ:
” اور اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کی طرف صاف اعلان ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی۔ پس اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر منہ موڑو تو جان لو کہ یقیناً تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں اور جنہوں نے کفر کیا انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیجئے۔“ (٣)
تفسیر:
حج اکبر کے دن اعلان:
یہ اعلان حج اکبر یعنی عید قربان کو کیا گیا۔ جو حج کے تمام دنوں میں بڑا افضل و اہم دن ہے۔ کہ اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بریٔ الذمہ، بیزار اور الگ ہیں اگر اب بھی تم بُرائی، شرک اور گمراہی چھوڑ دو۔ تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، توبہ کرلو۔ نیک بن جاؤ اسلام قبول کرلو، شرک اور کفر چھوڑ دو اگر تم نے نہ مانا اور اپنی ضلالت پر قائم رہے تو نہ تم اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو اور نہ آئندہ عاجز کر سکتے ہو، وہ تم پر قادر ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/1245/
My childhood and my mom morning routine she used to read from 6-7 am then my school bus time. Ahhh nostalgia 😢
Same here miss my Mom and that time 😢
This took me back to my school days when my mom used to listen this everyday 6 am in morning .. 😢 almost 20 .. 25 years back 😢😢😢
That's why I listen to it, for the sake of good old times, to enter into a peaceful state with those memories of the innocent past. 🥺
😊😊
😊😊
Same
Same 😢😢
Old days 😢 when used to listen on television... early morning while ready for school
Ye awaz muje bohat pasnd h mere bachpan se sunti ari hu
Most Favorited Voice hai ye MA SHA ALLAH boht achi voice hai
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 77
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
ترجمہ:
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے ڈرنے لگے، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
تفسیر:
1۔ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ قِيْلَ لَهُمْ:یعنی جب تک مسلمان مکہ میں تھے اور کافر انھیں ایذا دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے انھیں لڑنے سے روکے رکھا اور صبر کا حکم فرمایا، اب جو ( مدینہ منورہ میں) لڑائی کا حکم آیا ہے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری مراد ملی، لیکن کچے مسلمان کنارہ کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے برابر آدمیوں سے خطرہ کرتے ہیں۔ (موضح) متعدد روایات میں ہے کہ مسلمانوں نے مکی زندگی میں کئی دفعہ چاہا کہ ظالموں سے دو بدو نمٹیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو حکم ہوتا کہ ابھی نماز اور زکوٰۃ (مال خرچ کرنے) کا جو تمھیں حکم ہوا ہے اس کی خوب عادت ڈالو، تاکہ تمہاری تربیت ہو جائے، مدینہ منورہ میں بھی ہجرت کے ابتدائی برسوں میں مسلمانوں کی خواہش یہی تھی، لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لڑائی کی اجازت آگئی تو اب بعض خام قسم کے مسلمان اس سے ہچکچانے لگے، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر، قرطبی)
2۔ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِيْبٍ: شاہ عبد القادر رحمہ اللہ کا ترجمہ یہ ہے : ’’کیوں نہ جینے دیا ہم کو تھوڑی سی عمر‘‘ جواب آگے ہے۔ بعض نے ترجمہ کیا ہے : ’’قتال کی فرضیت کا یہ حکم نازل کرنے میں تو نے ہمیں کچھ مہلت کیوں نہ دی؟‘‘
3۔ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ: لڑائی سے ہچکچانے والے کمزور ایمان والوں اور منافقین کا حوصلہ دو باتوں سے بلند فرمایا ہے، پہلی تو یہ کہ دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کر کے جہاد کی ترغیب دی ہے، دنیا جتنی بھی ہو فانی ہے اور فانی جتنی بھی ہو قلیل (بہت تھوڑی) ہے۔ فانی اور باقی کا مقابلہ ہی کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس طرح کوئی شخص سمندر میں انگلی ڈبو کر نکالے اور اس کی انگلی میں تھوڑی سی نمی رہ جائے، ایسی ہی مثال دنیا اور آخرت کی ہے۔ ‘‘ [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیا: ۲۸۵۸، عن المستورد الفھری رضی اللہ عنہ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری اور دنیا کی مثال ایک مسافر کی سی ہے جو ایک درخت کے سائے میں آرام کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر روانہ ہو جاتا ہے۔‘‘ [ترمذی، الزھد، باب حدیث ’’ما الدنیا الإکراکب استظل‘‘ : ۲۳۷۷، عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ]
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-ul-quran-al-kareem/573/
سبحان اللہ ماشاءاللہ جی ۔۔ کیا ہی بات ہے جزاک اللہ ❤❤❤❤❤❤
😂😮
Subhan Allah dutiful video ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
سورۃ المآئدہ
آیت نمبر: 48
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
ترجمہ:
” اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور اس پر محافظ ہے، پس ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں اس میں آزماتا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کالوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔“ (٤٨)
تفسیر:
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ﴾ ” اور اتاری ہم نے آپ کی طرف کتاب“ یعنی قرآن عظیم جو سب سے افضل اور جلیل ترین کتاب ہے ﴿بِالْحَقِّ﴾ ” حق کے ساتھ“ یعنی ہم نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یہ کتاب اپنی اخبار اور اوامرونواہی میں حق پر مشتمل ہے ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ ﴾ ” اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے“ کیونکہ یہ کتب سابقہ کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، ان کی موافقت کرتی ہے، اس کی خبریں ان کی خبروں کے مطابق اور اس کے بڑے بڑے قوانین ان کے بڑے بڑے قوانین کے مطابق ہیں۔ ان کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں خبر دی ہے۔ پس اس کا وجود ان کتب سابقہ کی خبر کا مصداق ہے ﴿وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ﴾” اور ان کے مضامین پر نگہبان ہے“ یعنی یہ کتاب ان امور پر مشتمل ہے جن امور پر سابقہ کتب مشتمل تھیں، نیز مطالب الٰہیہ اور اخلاق نفسیہ میں بعض اضافے ہیں۔
یہ کتاب ہر اس حق بات کی پیروی کرتی ہے جو ان کتابوں میں آچکی ہے اور اس کی پیروی کا حکم اور اس کی ترغیب دیتی ہے اور حق تک پہنچانے کے بہت سے راستوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں حکمت، دانائی اور احکام ہیں، جس پر کتب سابقہ کو پیش کیا جاتا ہے، لہٰذا جس کی صداقت کی یہ گواہی دے وہ مقبول ہے جس کو یہ رد کر دے وہ مردد ہے، کیونکہ وہ تحریف اور تبدیلی کا شکار ہوچکی ہے۔ ورنہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہوتی تو یہ اس کی مخالفت نہ کرتی۔﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾” پس ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو اللہ نے اتارا“ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حکم شرعی نازل فرمایا ہے اس کے مطابق فصلہ کیجیے﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ﴾” اور آپ کے پاس جو حق آیا، اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ یعنی ان کی حق کے خلاف خواہشات فاسدہ کی اتباع کو اس حق کا بدل نہ بنائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آچکا ہے، ورنہ آپ اعلیٰ کے بدلے ادنی ٰ کو لیں گے۔ ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ﴾ ” تم میں سے ہر ایک کو دیا ہم نے“ یعنی اے قومو !﴿شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ ” ایک دستور اور راہ“ یعنی تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک راستہ اور طریقہ مقرر کردیا ہے۔ یہ شریعتیں جو امتوں کے اختلاف کے ساتھ بدل جاتی رہی ہیں، زمان و مکان اور احوال کے تغیر و تبدل کے مطابق ان شرائع میں تغیر و تبدل واقع ہوتا رہا ہے اور ہر شریعت اپنے نفاذ کے وقت عدل کی طرف راجع رہی ہے۔ مگر بڑے بڑے اصول جو ہر زماں و مکاں میں مصلحت اور حکمت پر مبنی ہوتے ہیں کبھی نہیں بدلتے، وہ تمام شرائع میں مشروع ہوتے ہیں۔
﴿وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا“ یعنی ایک شریعت کی پیروی میں ایک امت بنا دیتا کسی متقدم اور متاخرامت میں کوئی اختلاف نہ ہوتا ﴿وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ﴾ ” لیکن وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے اپنے دیئے ہوئے حکموں میں“ پس وہ تمہیں آزمائے اور دیکھے کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہر قوم کو آزماتا ہے اور ہر قوم کو اس کے احوال اور شان کے لائق عطا کرتا ہے، تاکہ قوموں کے درمیان مقابلہ رہے۔ پس ہر قوم دوسری قوم سے آگے بڑھنے کی خواہشمند ہوتی ہے اس لئے فرمایا : ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ﴾ ” نیک کاموں میں جلدی کرو۔“ یعنی نیکیوں کے حصول کے لئے جلدی سے آگے بڑھو اور ان کی تکمیل کرو، کیونکہ وہ نیکیاں جو فرائض و مستحبات، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کا فاعل اور ان دو امور کو مدنظر کھے بغیر کسی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
(١) جب نیکی کرنے کا وقت آجائے اور اس کا سبب ظاہر ہوجائے تو فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے جلدی سے اس کی طرف بڑھنا۔
(٢) اور حکم کے مطابق اسے کامل طور پر ادا کرنے کی کوشش کرنا۔
اس آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا جاتا ہے کہ نماز کو اول وقت پڑھنے کی کوشش کی جائے، نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بندے کو صرف نماز وغیرہ اور دیگر امور واجبہ کی ادائیگی پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ مقدور بھر مستحبات پر بھی عمل کرے، تاکہ واجبات کی تکمیل ہو اور ان کے ذریعے سے سبقت حاصل ہو۔
﴿إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا﴾” تم سب کا لوٹنا اللہ کی کی طرف ہے“ تمام امم سابقہ ولاحقہ کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ایک ایسے روز اکٹھا کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ﴿فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ﴾ ’’پس وہ تمہیں ان امور کی بابت خبر دے گا جن میں تم آپس میں اختلاف کرتے تھے“ یعنی جن شرائع اور اعمال کے بارے میں تمہارے درمیان اختلاف تھا۔ چنانچہ وہ اہل حق اور نیک عمل کرنے والوں کو ثواب سے نوازے گا اور اہل باطل اور بدکاروں کو سزا دے گا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/721/
ٱللَّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ٱللَّٰهُمَّ بَارِكْ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.....
I am missing my father, everyday he used to listen to Quran on PTV, it was an indication that day has started. May Allah grant him higher ranks in jannah, Ameen.
I wish I could go back to that time,😢❤❤❤❤
Beshak Quran sekhne or sikhane wala hi behter he
🎉❤Mashallah ALLAH shirinam nafasam ❤va Ali va Muhammad va Muhammad va Ali 🎉Madad Rasson insholloh 🎉Tasbih Mushkil Kusho 🎉insholloh omin memuram 🎉
Ky he khoob telavat hai dil ko cheer daty hai
Subhan allah. Masha allah alhamdulillah
Mujy ye awaz hd se zyada psnd h... Bachon se e psnd h.. Kuch alg e taseer h is recitation me
Mashallah Allah hu Akbar
Mashallah Qari saheb ke umar me Barkat De Aameen
Masha Allah ❤️ ❤️ ❤️ ❤️ ❤️
Mashallah bahut achha laga mujhe
Allah ka karam hai quran translation mai sunte hai
Allah Pak humy aj12 Rabi-ul-awal ki rat k sadky maff farma dain ameeeeeen sumameeeeen 🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰🥰
Ameen
Subhan.Aallah.Masha.Aallah.Subhan.Aallah.Masha.Aallah
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 76
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا
ترجمہ:
جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں کی راہ میں لڑتے ہیں (١) پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو یقین مانو کہ شیطانی حیلہ ( بالکل بودا اور) سخت کمزور ہے۔ (٢)
تفسیر:
1- مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔
2- مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فراوانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ چیلے نہیں ٹھہر سکتے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/572/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 76
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا
ترجمہ:
ایمان والے اللہ کی راہ میں جہاد (83) کرتے ہیں، اور اہل کفر شیطان کی راہ میں قتال کرتے ہیں، تو تم لوگ شیطان کے حمایتیوں سے قتال کرو، بے شک شیطان کی چال بڑی کمزور ہوتی ہے
تفسیر:
ف 5 جہاد کی فرضیت اور ترغیب کے بعد اس آیت میں بتایا کہ جہاد کی ظاہر صورت کا عتبار نہیں ہے بلکہ جہاد اپنے مقصد کے اعتبار سے جہاد ہے۔ مومن ہمیشہ اعلا کلمتہ اللہ کے لیے جہاد کرتا ہے اور کافر کسی طاغوتی طاقت کو بچانے یا مضبوط کرنے کے لیے لڑتے ہیں لہذاتم ان سے خوب لڑو شیطان خواہ اپنے دوستوں کے کتنے ہی مکر وفریب سمجھا دے مگر تمہارے خلاف و کامیابی نہیں ہو سکتی (رازی)
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-ashraf-ul-hawashi/572/
ہیںسورۃ یونس
آیت نمبر: 7
إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ
ترجمہ:
” بے شک جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر خوش ہوئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔“ (٧) ”
تفسیر:
﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا﴾ ” جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ہیں جو سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہے، بلکہ وہ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں۔“ یعنی وہ آخرت کی بجائے دنیا پر راضی ہو گے۔ ﴿ وَاطْمَأَنُّوا بِهَا﴾ ” اور اسی پر مطمئن ہوگئے“ یعنی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ دنیا کے حصول کے لئے کوشاں رہے اس کی لذات و شہوات پر ٹوٹ پڑے۔ دنیا انہیں جس طریقے سے بھی حاصل ہوئی، انہوں نے اسے حاصل کرلیا۔ دنیا کی چمک انہیں جہاں کہیں بھی دکھائی دی یہ اس کی طرف لپکے۔ انہوں نے اپنے ارادوں اور نیتوں کو دنیا ہی میں مصروف رکھا، ان کے افکار و اعمال دنیا ہی کے محور پر گھومتی رہے۔ گویا کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور گویا کہ دنیا ایک گزر گاہ نہیں جہاں سے مسافر ز ادراہ اکٹھا کر کے ہمیشہ رہنے والی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اولین و آخرین اس منزل کی نعمتوں اور لذتوں کی طرف کوچ کرتے ہیں اور لپکنے والے انہی کی طرف لپکتے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ﴾ ” اور وہ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔“ پس یہ آیات قرآنی اور آیات نفس و آفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دلیل سے رو گردانی درحقیقت مدلول مقصود سے روگردانی اور غفلت کومستلزم ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1379/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 74
فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
ترجمہ:
پس جو لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ چکے ہیں (١) انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا چاہیے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پالے یا غالب آ جائے، یقیناً ہم اسے بہت بڑا ثواب عنایت کرتے ہیں۔
تفسیر:
1- شَرَى يَشْرِي کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے ”فَلْيُقَاتِلْ“ کا فاعل الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ بنے گا لیکن اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الَّذِينَ مفعول بنے گا اور فَلْيُقَاتِلْ کا فاعل الْمُؤْمِنُ النَّافِرُ (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کو تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کر دیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہوں گے۔ (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے )
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/570/
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 77
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
ترجمہ:
کیا تم نے نہیں دیکھا جنہیں حکم کیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو اور نمازیں پڑھتے رہو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو، پھر جب انہیں جہاد کا حکم دیا گیا تو اسی وقت ان کی ایک جماعت لوگوں سے اس قدر ڈرنے لگی جیسے اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور کہنے لگے اے ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کردیا (١) کیوں ہمیں تھوڑی سی زندگی اور نہ جینے دیا ؟ (٢) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تو آخرت ہی بہتر ہے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا۔
تفسیر:
1- مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے۔ اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو ودرگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز زکواۃ اور دیگر عبادات وتعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط وتعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہو جائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خواہش کے مطابق ہے۔ آیت قران میں تحریف آیت کا پہلا حصہ جس میں ”كَفِّ أَيْدِي“ (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نماز میں رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کی حالت میں ہاتھوں کو روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی غلط اور واہیات استدلال ہے۔ اس کے لئے ان صاحب نے آیت کے الفاظ میں بھی تحریف کی اور معنی میں بھی۔ یعنی لفظی اور معنوی دونوں قسم کے تحریف سے کام لیا ہے۔
2- اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے موخر کیوں نہ کر دیا یعنی ”أَجَلٍ قَرِيبٍ“ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے۔ (تفسير ابن كثير)
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/573/
we used to listen it on radio when we were kids mostly at our nani house
As salaam walekum ramahtulahi vabarkatuhu Masha Allah jajakallha kar ❤❤
MashaaAllah SubhanAllah beutyfull
I used to listening to this beautiful recitation when I was at first class..now I'm a bachelor student and whenever I listen to this it brings me back to old memories ànd remind me All the scenarios Of my childhood.
T
SUBHAN ALLAH MASHA ALLAH
subhanallah Mashallah allahumma salli ala muhammad wa ale muhammad 💚💚💚
ALLAH HU AKBAR
Allah aap ko salamat rakhe aamen
Ameen
Jazak Allah khair
JazakAllah 🥰
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 19
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
ترجمہ:
تو کہہ گواہی کس چیز کی بڑی ہے ؟ تو کہہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور یہ قرآن میری طرف اتار ہے ، (ف ٢) ۔ تاکہ میں اس سے تم کو (اے اہل مکہ) اور جس کو یہ پہنچے اس کو ڈراؤں کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں ؟ تو کہہ میں گواہی نہ دوں گا ، تو کہہ وہی ایک معبود ہے ، اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔
تفسیر:
﴿قُلْ﴾” کہہ دیجیے !“ چونکہ ہم نے ان کے سامنے ہدایت کو بیان کردیا اور سیدھی راہوں کو واضح کردیا ہے اس لئے ان سے کہہ دیجیے ﴿أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً﴾ ” سب سے بڑھ کر کس کی شہادت ہے۔“ یعنی اس اصول عظیم کے بارے میں کس کی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿قُلِ اللَّـهُ﴾کہہ دیجیے اللہ تعالیٰ کی شہادت سب سے بڑی شہادت ہے ﴿ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ﴾ ” وہ گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان“ پس اس سے بڑا کوئی شاہد نہیں، وہ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے میری گواہی دیتا ہے، میں جو کچھ کہتا ہوں، اللہ تعالیٰ اس کو متحقق کردیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴾(الحاقة:69؍44۔46)” اگر یہ ہمارے بارے میں کوئی جھوٹ گھڑتا تو ہم اس کو داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ “
پس اللہ تبارک و تعالیٰ قادر اور حکمت والا ہے۔ اس کی حکمت اور قدرت کے لائق نہیں کہ ایسے جھوٹے شخص کو برقرار رکھے جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ اللہ کا رسول نہ ہوا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان لوگوں کو دعوت دینے پر مامور کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم نہ دیا ہو اور یہ کہ جو اس کی مخالفت کریں گے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ان کا خون، ان کا مال اور ان کی عورتیں مباح کردی ہیں۔ اس فریب کاری کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے اقرار و فعل کے ذریعے سے اس کی تصدیق کرے، وہ جو کچھ کرے معجزات باہرہ اور آیات ظاہرہ کے ذریعے سے اس کی تائید کرے اور اسے فتح و نصرت سے نوازے جو اس کی مخالفت کرے اور اس سے عداوت رکھے، اسے اپنی نصرت سے محروم کر دے۔ پس اس گواہی سے بڑی کون سی گواہی ہے؟
﴿وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ﴾ ” اور اتارا گیا میری طرف قرآن، تاکہ ڈراؤں میں تم کو اس کے ساتھ اور جس کو یہ پہنچے“ یعنی تمہارے فائدے اور تمہارے مصالح کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن میری طرف وحی کیا ہے، تاکہ میں تمہیں درد ناک عذاب سے ڈراؤں۔ (اِنْذَار) یہ ہے کہ جس چیز سے ڈرانا مقصود ہو، اسے بیان کیا جائے۔ جیسے ترغیب و ترہیب، اعمال اور اقوال ظاہرہ و باطنہ، جو کوئی ان کو قائم کرتا ہے وہ گویا انداز کو قبول کرتا ہے۔ پس اے مخاطبین ! یہ قرآن تمہیں اور ان تمام لوگوں کو جن کے پاس، قیامت تک یہ پہنچے گا، برے انجام سے ڈراتا ہے۔ کیونکہ قرآن میں ان تمام مطالب الٰہیہ کا بیان موجود ہے جن کا انسان محتاج ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اپنی گواہی کا ذکر فرمایا جو سب سے بڑی گواہی ہے، تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی خبر کی مخالفت کرنے والوں اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے والوں سے کہہ دیجیے !﴿أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّـهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ﴾” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دیجیے ! میں تو گواہی نہیں دیتا“ یعنی اگر وہ گواہی دیں تو ان کے ساتھ گواہی مت دیجیے۔
پس اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے لاشریک ہونے پر ایک طرف اللہ کی گواہی ہے جو سب سے زیادہ سچا اور تمام جہانوں کا پروردگار ہے اور اسی طرح مخلوق میں سے پاکیزہ ترین ہستی (آخری رسول) کی گواہی ہے جس کی تائید میں قطعی دلائل اور روشن براہین ہیں اور دوسری طرف مشرکین کی شہادت ہے جن کی عقل اور دین خلط ملط ہوگئے ہیں جن کی آراء اور اخلاق خرابی کا شکار ہوگئے ہیں اور جنہوں نے عقل مندوں کو اپنے آپ پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان دونوں شہادتوں کے درمیان موازنہ کیا جائے۔
بلکہ ان مشرکین کی گواہی تو خود ان کی اپنی فطرت کے خلاف ہے اور ان کے اقوال اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں خداؤں کے اثبات کے بارے میں متناقض ہیں۔ بایں ہمہ جس چیز کی وہ مخالفت کرتے ہیں اس کے خلاف دلائل تو کجا ادنیٰ ساشبہ بھی وارد نہیں ہوسکتا۔ اگر تو سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو اپنے لئے ان دونوں میں سے کوئی سی گواہی چن لے۔ ہم تو اپنے لئے وہی چیز اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اختیار کی ہے اور اس کی پیروی کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا :﴿قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ﴾ ” کہہ دیجیے کہ صرف وہی ایک معبود ہے۔“ یعنی وہ اکیلا معبود ہے اور اس کے سوا کوئی عبودیت اور الوہیت کا مستحق نہیں، جیسے وہ تخلیق و تدبیر میں منفرد ہے ﴿ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ﴾” اور میں بیزار ہوں تمہارے شرک سے“ یعنی تم جن بتوں اور دیگر خداؤں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہو اور وہ تمام چیزیں جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا جاتا ہے میں ان سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ یہ ہے توحید کی حقیقت، یعنی اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اثبات اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک سے اس کی نفی۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/813/
ماشاء اللّٰہ
Subhan allah masha allah .
Aamieen ❤❤❤
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 78
أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
ترجمہ:
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔
تفسیر:
1۔ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ: ”بُرُوْجٍ“ یہ’’بُرْجٌ‘‘ کی جمع ہے، مضبوط عمارت، قلعہ۔ ”مُشَيَّدَةٍ“ جو ’’اَلشِّيْدُ ‘‘ یعنی چونے سے بنے ہوئے ہوں۔ یہ جہاد کے لیے حوصلہ بڑھانے والی دوسری بات ہے کہ جب موت سے تمھیں کسی حال میں چھٹکارا نہیں تو پھر اللہ کی راہ میں جہاد سے کیوں ہچکچاتے ہو۔ اس مطلب کی آیات قرآن کریم میں بہت ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ ﴾ [ الأحزاب : ۱۶ ] ’’کہہ دے تمھیں بھاگنا ہرگز نفع نہ دے گا اگر تم مرنے یا قتل ہونے سے بھاگو گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ﴾ [الجمعۃ : ۸ ] ’’کہہ دے بلاشبہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو سو یقینا وہ تم سے ملنے والی ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ ﴾ [آل عمران : ۱۸۵ ] ’’ہر جان موت کو چکنے والی ہے۔‘‘
2۔ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ: اوپر منافقین کی دو مذموم خصلتیں بتائیں، ایک جہاد سے جی چرانا دوسری موت سے ڈرنا، اب یہاں ان کی ایک اور مذموم خصلت کا ذکر فرمایا جو پہلی دونوں سے بری ہے، یعنی نحوست کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا۔ یہاں ”حَسَنَةٌ“ (بھلائی) سے مراد فتح، نصرت، غلبہ اور خوش حالی وغیرہ ہے اور ’’ سَيِّئَةٌ ‘‘ سے مراد لڑائی میں نقصان، مصیبت، قتل اور ہزیمت وغیرہ ہے۔
3۔ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ: یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی اور بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم سے ہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے، بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط اور پہلے کافروں کا طریقہ ہے، جیسا کہ قوم ثمود کا کہنا :﴿ قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ ﴾ [ النمل : ۴۷ ]’’انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بد شگونی پکڑی ہے۔‘‘ اور سورۂ یٰس میں ہے : ﴿ اِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ﴾ [ یٰسٓ : ۱۸ ] ’’بے شک ہم نے تمھیں منحوس پایا ہے۔‘‘ اور فرعون کی قوم کے بارے میں ہے : ﴿ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَّطَّيَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ ﴾ [ الأعراف : ۱۳۱ ] ’’اور اگر انھیں کوئی تکلیف پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں کے ساتھ نحوست پکڑتے۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ منافقوں کا ذکر ہے کہ اگر تدبیر جنگ درست آئی اور فتح اور غنیمت ملی توکہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہوئی، یعنی اتفاقاً بن گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے اور اگر بگڑ گئی تو الزام رکھتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر پر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب اللہ کی طرف سے ہے، یعنی پیغمبر کی تدبیر اللہ کا الہام ہے، غلط نہیں اور اگر بگڑی تو اس کو بگڑا نہ بوجھو، یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرما دیا۔‘‘ (موضح)
4۔ فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ:یعنی تعجب ہے کہ کسی غور و فکر کے بغیر سمجھ میں آنے والی حقیقت بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ (رازی)
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-ul-quran-al-kareem/574/
❤❤❤❤❤Dil ko sukun milegaya❤❤❤
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 54
وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ:
یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو (یوں) کہہ دیجئے کہ تم پر سلامتی ہے (١) تمہارے رب نے مہربانی فرمانا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے (٢) کہ جو شخص تم میں سے برا کام کر بیٹھے جہالت سے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح رکھے تو اللہ (کی یہ شان ہے کہ وہ) بڑی مغفرت کرنے والا ہے (٣)
تفسیر:
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مطیع مومن بندوں کو دور کرنے سے روک دیا تو ان کفار کے مقابلے میں انہیں اکرام، تعظیم، عزت اور احترام سے پیش آنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا : ﴿وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ﴾ ”جب آپ کے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو انہیں السلام علیکم کہیں۔“ یعنی جب اہل ایمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان کو سلام کہیں، ان کو خوش آمدید کہیں۔ سلام و تحیات سے ان کا استقبال کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جود و احسان کی بشارت دیں جو ان کے عزائم اور ارادوں میں نشاط پیدا کرے اور انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ہر راستہ اور ہر سبب اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔ ان کو گناہوں پر قائم رہنے سے ڈرائیں اور انہیں گناہوں سے توبہ کرنے کا حکم دیں تاکہ وہ اپنے رب کی مغفرت اور اس کے جود و کرم کو پا سکیں۔ ﴿كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ ﴾ ” لکھ لیا ہے تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو جو کوئی کرے تم میں سے برائی، ناواقفیت سے، پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور نیک ہوجائے“ یعنی (قبولیت توبہ کے لئے) گناہوں کو ترک کرنا، ان کا قلع قمع کرنا، ان پر نادم ہونا اور اعمال کی اصلاح کرنا ضروری ہے، نیز ان امور کی ادائیگی جن کو اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے اور جو ظاہری اور باطنی اعمال فاسد ہوچکے ہیں۔ ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ جب یہ تمام امور موجود ہوں ﴿فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ﴾ ” تو بات یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو جن امور کا حکم دیا ہے اس کی بجا آوری کے مطاق ان پر اپنی مغفرت اور رحمت کا فیضان کرتا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/848/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 56
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۚ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
ترجمہ:
تو کہہ اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ‘ مجھے ان کا بوجنا منع ہوا ہے ، تو کہہ میں تمہاری مرضی پر نہیں چلتا ، اگر چلوں تو میں بہک چکا اور ہدایت یافتوں میں نہ رہا (ف ٢) ۔
تفسیر:
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : ﴿قُلْ﴾ان مشرکین سے کہہ دیجیے جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو بھی پکارتے ہیں ﴿إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ﴾ ” جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔“ یعنی مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں اللہ کی بجائے اللہ کے بناوٹی ہمسروں اور بتوں کی عبادت کروں جو کسی نفع ونقصان کے مالک ہیں نہ موت و حیات اور دوبارہ اٹھانے کا کوئی اختیار رکھتے ہیں۔ یہ سب باطل ہے۔ اس میں تمہارے لئے کوئی دلیل ہے نہ اس کے باطل ہونے میں کوئی شبہ ہے۔ سوائے خواہشات نفس کی پیروی کے جو سب سے بڑی گمراہی ہے۔
بنابریں فرمایا : ﴿قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا ﴾” کہہ دیجیے میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کرتا، بیشک تب میں بہک جاؤں گا“ یعنی اگر میں تمہاری خواہشات کی پیروی کروں تو گمراہ ہوجاؤں گا ﴿ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ﴾” اور کسی پہلو سے بھی راہ راست پر نہیں رہوں گا“ رہی و وہ توحید اور اخلاص عمل جن پر میں عمل پیرا ہوں تو یہی حق ہے جس کی تائید واضح براہین اور قطعی دلائل کرتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/850/
کردیا
❤❤❤❤❤❤❤❤😢😢😢😢😢😢 mashallah
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 172
لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا
ترجمہ:
مسیح (علیہ السلام) خدا کا بندہ ہونے سے ہرگز انکار نہیں کریگا اور نہ مقرب فرشتے ہی ‘ اور جو کوئی اس کی بندگی سے انکار کرے گا اور تکبر کرے گا تو خدا ان سب کو اپنی طرف (ف ١) اکٹھا جمع کرے گا ۔
تفسیر:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں نصاریٰ کے غلوکاذ کر فرمایا اور بیان فرمایا کہ جناب عیسیٰ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، تو اب یہاں یہ بھی واضح کردیا کہ حضرت عیسیٰ اپنے رب کی عبادت میں عار نہیں سمجھتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روگردانی نہیں کرتے تھے۔ ﴿وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ﴾” اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے“ اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اس چیز سے پاک رکھا ہے کہ وہ اس کی عبادت کو عار سمجھیں اور تکبر و استکبار سے پاک ہونا تو بدرجہ اولیٰ ان کی صفت ہے۔ کسی چیز کی نفی سے اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے۔۔۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے تو اپنے رب کی عبادت میں رغبت رکھتے ہیں، اس کی عبادت کو پسند کرتے ہیں اور اپنے اپنے حسب احوال اس کی عبادت میں سعی کرتے ہیں۔ ان کی یہ عبادت ان کے لئے بہت بڑے شرف اور فوز عظیم کی موجب ہے۔ پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور الوہیت میں اپنے آپ کو بندے سمجھنے میں عار محسوس نہیں کی بلکہ وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا محتاج سمجھتے ہیں۔
یہ نہ سمجھا جائے کہ عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور کو اس مرتبے سے بڑھانا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا ہے، ان کے لئے کوئی کمال ہے بلکہ یہ تو عین نقص اور مذمت و عذاب کا محل و مقام ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا﴾ ” اور جو شخص اللہ کا بندہ ہنے کو موجب عار سمجھے اور سرکشی کرے تو اللہ سب کو اپنے پاس جمع کرلے گا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی عبادت کو عار سمجھنے والوں، متکبروں اور اپنے مومن بندوں، سب کو عنقریب جمع کرے گا اور ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اپنی جزا سے نوازے گا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/668/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 153
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
ترجمہ:
اور (کہا ہے) کہ یہ میری سیدھی راہ ہے ، سو اس پرچلو ، اور کئی راہیں نہ چلو ، کہ وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے الگ کر دینگی یہ ہیں ، جو اس نے تمہیں حکم دیئے ، شاید تم ڈرو (ف ١) ۔
تفسیر:
1۔ وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا ....: یعنی اﷲ تعالیٰ کی راہ ایک ہی ہے اور وہی سیدھی اور جنت تک پہنچانے والی ہے، مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس کے اردگرد بہت سی راہیں بنا ڈالی ہیں۔ عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک لکیر کھینچی، اور فرمایا : ’’یہ اﷲ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے۔‘‘ پھر اس کے دائیں بائیں کئی لکیریں کھینچیں اور فرمایا : ’’یہ الگ الگ راستے ہیں، ان میں سے ہر راہ پر ایک شیطان بیٹھا ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے سیدھی راہ پر ہاتھ رکھا اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ [ أحمد:1؍465، ح : ۴۴۳۶۔ مستدرک حاکم :2؍318، ح : ۳۲۴۱ ]
تمام دینوں میں سے صراط مستقیم صرف اسلام ہے، باقی سب باطل ہیں، اس آیت میں جس طرح تمام باطل دینوں سے منع فرمایا گیا ہے اسی طرح اسلام میں بھی فرقے بنانے سے روک دیا گیا ہے۔ اسلام میں سیدھی راہ صرف کتاب و سنت کی راہ ہے، جس پر وہ پہلے تین زمانے گزرے ہیں جنھیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر الناس قرار دیا ہے۔ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۳۶۵۱ ] اس کے سوا سب راستے ممنوع ٹھہرے، خواہ وہ مذاہب اربعہ کی تقلید ہو یا اہل بدعت کے بنائے ہوئے اور طریقے ہوں، کیونکہ یہ شروع ہی بعد میں ہوئے ہیں۔ پرانی اور نئی ہر قسم کی بدعات گمراہ کن ہیں، خود ائمۂ دین اور سارے مجتہدینِ سلف و خلف نے یہی وصیت کی ہے کہ کوئی ان کی تقلید نہ کرے، بلکہ سب کے سب کتاب و سنت کی اتباع کریں، یہی صراط مستقیم ہے جس کی طرف اﷲ تعالیٰ نے دعوت دی ہے۔
2۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تم اﷲ کی نافرمانی، اس کے عذاب اور جہنم سے بچ جاؤ، کیونکہ مختلف راستوں سے بچ کر اس کے سیدھے راستے پر چلنے کے سوا بچنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے تقویٰ کی راہ یہی ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-ul-quran-al-kareem/947/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 153
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
ترجمہ:
اور (کہا ہے) کہ یہ میری سیدھی راہ ہے ، سو اس پرچلو ، اور کئی راہیں نہ چلو ، کہ وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے الگ کر دینگی یہ ہیں ، جو اس نے تمہیں حکم دیئے ، شاید تم ڈرو (ف ١) ۔
تفسیر:
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑے بڑے احکام اور اہم شرائع کو واضح کردیا، تو اب ان کی طرف اور ان سے زیادہ عمومیت کی حامل بات کی طرف اشارہ فرمایا : ﴿وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا﴾ ” اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے۔“ یعنی یہ اور اس قسم کے دیگر احکام، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنی کتاب میں بیان کردیا ہے، اللہ تعالیٰ کا سیدھا راستہ ہے جو معتدل، آسان اور نہایت مختصر ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کی منزل تک پہنچاتا ہے ﴿فَاتَّبِعُوهُ﴾” پس اس کی پیروی کرو“ تاکہ تم فوز و فلاح، تمناؤں اور فرحتوں کو حاصل کرسکو۔﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ ﴾ ” اور راستوں پر نہ چلنا۔“ یعنی ان راستوں پر نہ چلو جو اللہ تعالیٰ کے راستے کی مخالفت کرتے ہیں ﴿فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ﴾ ” پس وہ تمہیں اس (اللہ) کے راستے سے جدا کردیں گے۔“ یعنی یہ راستے تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے اور تمہیں دائیں بائیں دوسرے راستوں پر ڈال دیں گے اور جب تم صراط مستقیم سے بھٹک جاؤ گے تو تمہارے سامنے صرف وہ راستے رہ جائیں گے جو جہنم تک پہنچانے والے ہیں۔ ﴿ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾” یہ حکم کردیا ہے تم کو تاکہ تم متقی بن جاؤ“ کیونکہ جب تم علم و عمل کے اعتبار سے ان احکام کی تعمیل کرو گے جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے بیان کیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کے متقی اور فلاح یاب بندے بن جاؤ گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراط مستقیم کو واحد ذکر کر کے اپنی طرف مضاف کیا ہے کیونکہ صرف یہی ایک راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس راستے پر گامزن لوگوں کی مدد کرتا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/947/
Really sad after listening to these people remembering their childhood days instead of akhirah.
ماشاء االلہ تعالیٰ۔
Jzak Allah
سورۃ المآئدہ
آیت نمبر: 49
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ
ترجمہ:
اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ تم ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے (٤١) اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہو کہ وہ تمہیں فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اللہ نے تم پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ (٤٢) اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں۔
تفسیر:
﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰهُ﴾ ” اور ان کے درمیان اس کے موافق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے اتارا“ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ آیت کریمہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ ” ان کے درمیان فصلہ کریں یا اس سے روگردانی کریں“ کو منسوخ کرتی ہے۔ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ اس مذکورہ آیت کو منسوخ نہیں کرتی، پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے درمیان فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ حق کی خاطر فیصلہ کروانے کا قصد نہیں رکھتے تھے اور یہ (دوسری) آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان فیصلہ کریں، تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت، یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کریں۔ یہی وہ انصاف ہے جس کے بارے میں گزشتہ صفحات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ﴾” اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ “
یہ آیت کریمہ عدل کی توضیح و تبیین پر دلالت کرتی ہے، نیز یہ کہ عدل کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے احکام ہیں جو انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اصولوں پر مشتمل ہیں اور جو کچھ ان احکام کے خلاف ہے، وہ سراسر ظلم و جور ہے۔﴿وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ﴾” اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں“ شدت تحذیر کی خاطر اللہ تعالیٰ نے بتکرار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکا ہے۔ نیز وہ آیت حکم اور فتویٰ کے مقام پر ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور یہ صرف حکم کے مقام پر ہے۔ دونوں آیات کا مفاد یہ ہے کہ ضروری ہے کہ ان کی خلاف حق خواہشات کی پیروی نہ کی جائے۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاحْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّٰهُ إِلَيْكَ﴾” اور بچتے رہیں ان سے، اس بات سے کہ وہ کہیں آپ کو بہکانہ دیں کسی ایسے حکم سے جو اللہ نے آپ کی طرف اتارا“ یعنی ان کی فریب کاریوں سے بچیے نیز ان سے بچیے کہ وہ آپ کو فتنے میں ڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی ایسی چیز سے نہ روک دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف نازل فرمائی ہے۔ پس ان کی خواہشات کی پیروی، حق واجب کو ترک کرنے کا باعث بنتی ہے جبکہ اتباع حق فرض ہے۔
﴿فَإِن تَوَلَّوْا﴾ ” پس اگر وہ نہ مانیں“ یعنی اگر وہ آپ کی اتباع اور حق کی پیروی سے روگردانی کریں ﴿ فَاعْلَمْ﴾ ” تو جان لیجیے“ کہ یہ روگردانی ان کے لئے سزا ہے ﴿أَنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ أَن يُصِيبَهُم بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ﴾” اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان کو ان کے گناہوں کے سبب کوئی سزا پہنچائے“ کیونکہ گناہوں کے لئے دنیا و آخرت میں سزائیں مقرر ہیں اور سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو آزمائش میں مبتلا کر دے اور اتباع رسول کے ترک کو اس کے لئے مزین کر دے اور اس کا باعث اس کا فسق ہوتا ہے ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ﴾ ”اور اکثر لوگ نافرمان ہیں“ یعنی ان کی فطرت اور طبیعت میں فسق، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے خروج ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/722/
Allah is the most gracious and most mersiful I love Allah he’s the best
Ma shah Allah beautiful resitation. Allah increase ur knowledge.ameen
Jzak ALLAH all
سبحان اللہ
Masha Allah
Subhan Allah 🤲🤲
Allah Akbar
mashallah subhallah ❤️😘❤️😘❤️😘
I miss this time 😭😭😭😭😭😭
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 3
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ:
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن (١) صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے۔
تفسیر:
1- صحیحین (بخاری و مسلم) اور دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر (10 ذوالحجہ) کا دن ہے۔ (ترمذي نمبر: 957، بخاري نمبر: 4655، مسلم نمبر:982)، اسی دن منیٰ میں اعلان براءت سنایا گیا۔ 10 ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے، وہ حج اکبر ہے، یہ بے اصل بات ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1245/
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 4
إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
ترجمہ:
بجز ان مشرکوں کے جن سے تمہارا معاہدہ ہوچکا ہے اور انہوں نے تمہیں ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا اور نہ کسی کی تمہارے خلاف مدد کی ہے تم بھی ان کے معاہدے کی مدت ان کے ساتھ پوری کرو (١) اللہ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔
تفسیر:
1- یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لئے مسلمانوں کے لئے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1246/
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 3
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ:
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن (١) صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی، اگر اب بھی تم توبہ کرلو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے۔
تفسیر:
یہ اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کو فتح مند اور اپنے کلمہ کو بلند کرے گا اور ان کے مشرک دشمنوں سے علیحدہ ہوجائے گا، جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ مکرمہ اور اللہ تعالیٰ کے محترم گھر سے نکال کر حجاز کے اس خطۂ ارضی سے جلاوطن کیا جس پر ان کا تسلط تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو فتح و نصرت سے نوازا حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا۔ مشرکین مغلوب ہوئے اور ان علاقوں کا اقتدار اور غلبہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیا ہے کہ وہ حج اکبر کے دن جو کہ قربانی اور جزیرۃ العرب کے مسلمانوں اور کفار کے اکٹھے ہونے کا دن ہے۔۔۔۔ اعلان کر دے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے برئ الذمہ ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اب ان کے لئے کوئی عہد اور میثاق نہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی ملیں گے ان کو قتل کیا جائے گا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں اور یہ سن ۹ ہجری تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ حج کیا اور قربانی کے روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برأت کا اعلان کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو توبہ کی ترغیب دی اور ان کو شرک پر جمے رہنے سے ڈرایا۔ ﴿فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّـهِ﴾ ” پس اگر تم توبہ کرلو، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر نہ مانو، تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرگز نہ تھکا سکو گے۔‘‘ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے بھاگ نہیں سکتے، بلکہ تم اس کے قبضۂ قدرت میں ہو اور وہ اس بات پر قادر رہے کہ تم پر اپنے مومن بندوں کو مسلط کر دے۔ ﴿وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ ” اور کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو۔“ جو دنیا میں قتل، اسیری اور جلاوطنی کی صورت میں انہیں دیا جائے گا اور آخرت میں جہنم کی آگ کا، جو بہت برا ٹھکانا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/1245/
Allah Hu akbar
Alhamdu lilla
Mashallah beautiful voice
سورۃ یونس
آیت نمبر: 12
وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ:
” اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر بیٹھا یا کھڑا ہوا ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو اس طرح چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کسی تکلیف کے وقت، جو اسے پہنچی ہو، پکارا ہی نہیں۔ اسی طرح حد سے بڑھ جانے والوں کے لیے عمل مزین کردیے گئے جو وہ کیا کرتے تھے۔“ (١٢)
تفسیر:
اس میں انسان کی فطرت کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ جب اسے کسی مرض یا مصیبت کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو خوب دعائیں کرتا ہے اور وہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، اپنی دعاؤں میں گڑگڑاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے۔ ﴿فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ﴾ ” پس جب ہم اس سے اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو وہ (یوں) چلا جاتا ہے گویا کہ اس نے ہمیں کسی تکلیف کے پہنچنے پر پکارا ہی نہیں“ یعنی اپنے رب سے رو گردانی کرتے ہوئے غفلت میں مستغرق رہتا ہے گویا کہ اسے کوئی تکلیف ہی نہیں آئی، جسے اللہ تعالیٰ نے دور کیا ہو۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہے کہ انسان اپنی غرض پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کی یہ غرض پوری کر دے تو پھر وہ اپنے رب کے حقوق کی طرف نہ دیکھے، گویا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کوئی حق ہی نہیں۔ یہ شیطان کا آراستہ کرنا ہے۔ شیطان ان تمام چیزوں کو مزین کرتا ہے جو انسانی عقل و فطرت کے مطابق انتہائی بری اور قبیح ہیں۔ ﴿كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ﴾ ” اسی طرح خوش نمابنا دیے گئے ہیں بے باک لوگوں کے لئے“ یعنی ان لوگوں کے لئے جو حدود سے تجاوز کرتے ہیں ﴿مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ ” جو عمل وہ کرتے تھے۔ “
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1384/
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 179
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
ترجمہ:
” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“ (١٧٩)
تفسیر:
اللہ تبارک و تعالیٰ راہ راست سے بھٹکے ہوئے گمراہ لوگوں اور شیطان لعین کے پیروکاروں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَلَقَدْ ذَرَأْنَا﴾ ” اور ہم نے پیدا کیا۔“ یعنی ہم نے پیدا کیا اور پھیلایا﴿لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ﴾ ” جہنم کے لئے بہت سے جن اور آدمی“ پس چوپائے بھی ان سے بہتر حالت میں ہیں ﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ ﴾ ” ان کے دل ہیں، جن سے وہ سمجھتے نہیں“ یعنی علم اور سمجھ ان تک راہ نہیں پاتے، سوائے ان کے خلاف قیام حجت کے ﴿وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ﴾” ان کی آنکھیں ہیں، جن سے وہ دیکھتے نہیں“ یعنی وہ ان آنکھوں سے اس طرح نہیں دیکھتے کہ دیکھنا ان کے لئے فائدہ مند ہو بلکہ انہوں نے اپنی بینائی کی منفعت اور فائدے کو کھو دیا۔﴿ وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا﴾ ” ان کے کان ہیں، جن سے وہ سنتے نہیں“ وہ ان کانوں سے اس طرح نہیں سنتے کہ ان کے دلوں تک معانی و مفاہیم پہنچ جائیں۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ ” یہ“ یعنی وہ لوگ جو ان اوصاف قبیحہ کے حامل ہیں ﴿كَالْأَنْعَامِ﴾ ” چوپاؤں کی مانند ہیں“ جو عقل سے محروم ہیں۔ انہوں نے فانی چیزوں کو ان چیزوں پر ترجیح دی جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں پس ان سے عقل کی خاصیت سلب کرلی گئی ﴿بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ﴾ ” بلکہ وہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔“ یعنی وہ چوپاؤں سے بھی زیادہ گمراہ اور بے سمجھ ہیں کیونکہ بہائم سے تو وہ کام لئے جاتے ہیں جن کاموں کے لئے ان کو تخلیق کیا گیا ہے، ان کے ذہن ہیں جن کے ذریعے سے وہ مضرت و منفعت کا ادراک کرتے ہیں۔ بنا بریں چوپاؤں کا حال ان کے حال سے اچھا ہے۔﴿ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾ ” وہی لوگ ہیں غافل‘‘ جو سب سے زیادہ نفع مند چیز سے غافل ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اس کی اطاعت اور اس کے ذکر سے غافل ہیں حالانکہ ان کو دل، کان اور آنکھیں عطا کی گئیں، تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں ان سے مدد لیں، لیکن انہوں نے اس مقصد کے برعکس امور کے لئے ان کو استعمال کیا۔ پس یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو ان لوگوں میں شمار کیا جائے جن کو اللہ تعالیٰ نے جہنم کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ میں جھونکنے کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ اہل جہنم کے اعمال سر انجام دے رہے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-saadi/1139/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 51
وَأَنذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
ترجمہ:
اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفاعت کرنے والا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں (١)۔
تفسیر:
یہ قرآن تمام مخلوق کے لئے انذار ہے مگر اس سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ﴿الَّذِينَ يَخَافُونَ أَن يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ﴾ ” جو اس حقیقت کا خوف رکھتے ہیں کہ انہیں ان کے رب کے پاس اکٹھے کئے جانا ہے۔“ پس انہیں پورا پورا یقین ہے کہ وہ اس گھر سے منتقل ہو کر آخرت کے ہمیشہ رہنے والے گھر میں داخل ہوں گے۔ وہ اپنے ساتھ وہی کچھ رکھتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتے ہیں جو انہیں نقصان دیتا ہے۔
﴿ لَيْسَ لَهُم مِّن دُونِهِ﴾ ” نہیں ہوگا ان کے لئے اس کے بغیر“ یعنی اللہ کے بغیر ﴿وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ﴾ ” کوئی دوست اور نہ سفارشی“ یعنی کوئی ایسی ہستی نہیں ہوگی جو ان کے معاملے کی سرپرستی کرسکے جس سے ان کا مطلوب حاصل ہوجائے اور ان سے تکلیف دور ہوجائے، نہ ان کا کوئی سفارشی ہوگا، کیونکہ تمام مخلوق کے پاس کوئی اختیار نہیں ﴿لَّعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ﴾ ” تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔“ شاید وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کے ذریعے سے تقویٰ اختیار کریں۔ کیونکہ انذار، تقویٰ کا موجب اور اس کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/845/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 52
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ
ترجمہ:
اور ان لوگوں کو نہ نکالئے جو صبح شام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اس کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
تفسیر:
﴿وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ﴾” اور مت دور کیجیے ان لوگوں کو جوصبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں، چاہتے ہیں اسی کا چہرہ“ یعنی دوسروں کی مجالست کی امید میں اہل اخلاص اور اہل عبادت کو اپنی مجلس سے دور نہ کیجیے جو ہمیشہ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں، ذکر اور نماز کے ذریعے سے اس کی عبادت کرتے ہیں، صبح و شام اس سے سوال کرتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہے۔ اس مقصد جلیل کے سوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں۔ بنا بریں یہ لوگ اس چیز کے مستحق نہیں کہ انہیں اپنے سے دور کیا جائے یا ان سے روگردانی کی جائے بلکہ یہ لوگ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موالات، محبت اور قربت کے زیادہ مستحق ہیں، کیونکہ یہ مخلوق میں سے چنے ہوئے لوگ ہیں اگرچہ یہ فقیر اور نادار ہیں اور یہی درحقیقت اللہ کے ہاں باعزت لوگ ہیں اگرچہ یہ لوگوں کے نزدیک گھٹیا اور کم مرتبہ ہیں۔
﴿ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ﴾ ” نہیں ہے آپ پر ان کے حساب میں سے کچھ اور نہ آپ کے حساب میں سے ان پر ہے کچھ“ یعنی ہر شخص کے ذمہ اس کا اپنا حساب ہے، اس کا نیک عمل اس کے لئے ہے اور برے عمل کی شامت بھی اسی پر ہے﴿فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ﴾” پس اگر ان کو دور کرو گے تو ظالموں میں سے ہوجاؤ گے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی پوری طرح پیروی کی، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقرائے مومنین کی مجلس میں بیٹھتے تو دلجمعی سے ان کے ساتھ بیٹھتے، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے، ان کے ساتھ حسن خلق اور نرمی کا معاملہ کرتے اور انہیں اپنے قریب کرتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں زیادہ تر یہی لوگ ہوتے تھے۔
ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ قریش میں سے یا اعراب میں سے چند اجڈ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تم پر ایمان لائیں اور تمہاری پیروی کریں تو فلاں فلاں شخص جو کہ فقرائے صحابہ میں سے تھے، اپنے پاس سے اٹھا دو، کیونکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہمیں ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھیں۔ ان معترضین کے اسلام لانے اور ان کے اتباع کرنے کی خواہش کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بھی یہ خیال آیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات کے ذریعے سے آپ کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-saadi/846/
Mashallah🕋😢🙏
JazakAllah Khair
سورۃ آل عمران
آیت نمبر: 80
وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ
ترجمہ:
اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنانے کا حکم دے کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد بھی تمہیں کفر کا حکم دے گا۔ (١)
تفسیر:
1- یعنی نبیوں اور فرشتوں (یا کسی اور کو) رب والی صفات کا حامل باور کرانا یہ کفر ہے۔ تمہارے مسلمان ہو جانے کے بعد ایک نبی یہ کام بھلا کس طرح کر سکتا ہے؟ کیونکہ نبی کا کام تو ایمان کی دعوت دینا ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا نام ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی شان نزول میں یہ بات بیان کی ہے کہ بعض مسلمانوں نے نبی (ﷺ) سے اس بات کی اجازت مانگی کہ وہ آپ کو سجدہ کریں۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) اوربعض نے اس کی شان نزول میں یہ کہا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے جمع ہو کر نبی (ﷺ) سے کہا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی اس طرح عبادت وپرستش کریں جس طرح عیسائی حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا۔ اللہ کی پناہ، اس بات سے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں، اللہ نے مجھے نہ اس لئے بھیجا ہے نہ اس کا حکم ہی دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ سیرۃ ابن ہشام)
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/375/
سورۃ آل عمران
آیت نمبر: 80
وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ
ترجمہ:
اور نہ وہ تمہیں یہ حکم دے سکتا ہے کہ فرشتوں اور پیغمبروں کو خدا قرار دے دو۔ جب تم مسلمان ہوچکے تو کیا اس کے بعد وہ تمہیں کفر اختیار کرنے کا حکم دے گا؟
تفسیر:
﴿وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًاۗ ﴾’’اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہیں فرشتوں اور نبیوں کو رب بنا لینے کا حکم دے“ یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ یعنی وہ تمہیں نہ اپنی ذات کی عبادت کا حکم دے گا نہ کسی بھی دوسری مخلوق کی عبادت کا حکم دے گا خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا کوئی اور ﴿ أَيَأْمُرُكُم بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴾” کیا وہ تمہارے مسلمان ہونے کے بعد پھر کفر کا حکم دے گا؟“ یہ نہیں ہوسکتا۔ جس کو نبوت کا شرف حاصل ہو، اس سے کسی ایسی بات کا تصور بھی محال ہے۔ جو شخص کسی نبی کی طرف اس قسم کی کوئی بات منسوب کرتا ہے۔ وہ بہت بڑے گناہ کا بلکہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/375/
سورۃ آل عمران
آیت نمبر: 77
إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ:
(اس کے برخلاف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک۔
تفسیر:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾” بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں“۔ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی یا بندوں کی حق تلفی کرکے اس کے عوض دنیا کی کوئی چیزلیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ناجائز طور پر لے لیتا ہے وہ بھی اس آیت میں شامل ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“ یعنی وہاں انہیں کوئی بھلائی اور خیر حاصل نہیں ہوگی۔ ﴿ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ﴾” اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا‘،یعنی قیامت کے دن ان سے ناراض ہوگا اس لئے ان سے کلام نہیں کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے خواہش نفس کو رب کی رضا سے مقدم سمجھا ہے۔﴿ وَلَا يُزَكِّيهِمْ﴾” اور نہ انہیں پاک کرے گا“ اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا، ان کے عیب زائل نہیں کرے گا۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے“ جس سے دلوں کو بھی تکلیف ہوگی اور بدنوں کو بھی۔ وہ ہے ناراضی کا عذاب، دیدار الٰہی سے محرومی کا عذاب، اور جہنم کا عذاب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/372/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 32
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
ترجمہ:
اور دنیوی زندگی تو ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں (٨) اور یقن جانو کہ جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں، ان کے لیے آخرت والا گھر کہیں زیادہ بہتر ہے۔ تو کیا اتنی سی بات تمہاری عقل میں نہیں آتی؟
تفسیر:
دنیا کھیل تماشا کس لحاظ سے ہے:
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی زندگی میں سرے سے کوئی سنجیدگی ہے ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی حقیقی اور پائیدار زندگی کے مقابلہ میں ایسے ہے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کھیل، تفریح میں دل بہلا کر پھر اپنے اصل کام کی طرف توجہ متوجہ ہوجائے۔ دنیا میں بسنے والوں کی اکثریت اس کی رنگینیوں میں ہی کھوجاتی ہے۔
آخرت کا گھر بہتر ہے: جو اس زندگی کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں، آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ہر عمل کرتے ہوئے رب کو اپنے آگے محسوس کریں، انھیں کے لیے آخرت کی زندگی ہے بے خوف ہونے کی قیمت آگ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (المومنون: ۱) کامیابی پالی ایمان لانے والوں نے، جو پاکیزگی کا کام کرتے ہیں، وہ جو زیادتی نہیں کرتے، امانتوں کی پاسداری کرتے ہیں یہی لوگ فردوس کو ورثہ میں پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، باحیا ہوں گے، نماز کی پابندی کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کیا تم کچھ بھی نہیں سوچتے یعنی اگر آج نیکی کے لیے کوشش نہیں کی تو کل انجام کیسے اچھا ہوگا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-tasheel-ul-bayan/826/
MashaAllah good voice Subhan Allah beautiful recitation with translation thank you jazak Allah khairan♥♥
AMEEN
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 57
قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ
ترجمہ:
فرمادیں بے شک میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور تم نے اسے جھٹلادیا ہے میرے پاس وہ چیز نہیں ہے جسے تم جلد مانگ رہے ہو فیصلہ اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں وہ حق بیان کرتا ہے اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ (٥٧)
تفسیر:
1۔ قُلْ اِنِّيْ عَلٰى بَيِّنَةٍ....: کہہ دیجیے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے واضح دلیل، یعنی وحی الٰہی موجود ہے، جس کا اصل الاصول توحید ہے، اسے تم نے جھٹلایا۔ اب جس عذاب کے جلدی لانے کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ میرے اختیار میں نہیں۔ عذاب لانے یا نہ لانے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔
2۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ: معلوم ہوا کہ انبیاء کو معجزات پر کوئی اختیار نہیں ہوتا، یہ اختیار صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-fahm-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/851/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 57
قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ
ترجمہ:
تو کہہ مجھے میرے رب سے شہادت پہنچی اور تم نے اس کو جھٹلایا ہے ، میرے پاس وہ چیز نہیں جس کے مانگنے میں تم جلدی کرتے ہو ، اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں ، وہ حق ظاہر کرتا ہے اور وہ ہی اچھا فیصلہ کرنے والا ہے (ف ٣) ۔
تفسیر:
﴿عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” میں تو اپنے رب کی دلیل روشن پر ہوں۔“ آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اس قرآن کی صحت اور اس کے ماسوا کے بطلان کا واضح یقین رکھتا ہوں۔ یہ رسول کی طرف سے قطعی شہادت ہے جو ہر قسم کے تردد سے پاک ہے۔ رسول علی الاطلاق سب سے عادل گواہ ہوتا ہے۔ اہل ایمان نے رسول کی گواہی کی تصدیق کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جس ایمان سے نوازا ہے اس ایمان کے مطابق ان کے ہاں اس شہادت کی صحت اور صداقت متحقق ہے۔
﴿وَ﴾ مگر اے مشرکو !﴿كَذَّبْتُم بِهِ﴾” تم نے اس کی تکذیب کی“ اور یہ تمہاری طرف سے اس سلوک کا مستحق نہ تھا، تصدیق کے سوا کوئی اور سلوک اس کے شایان شان نہ تھا۔ جب تم تکذیب پر مصر ہو تو جان رکھو کہ لا محالہ عذاب تم پر واقع ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ عذاب مقرر ہے وہ جب چاہے گا اور جیسے چاہے گا تم پر نازل کرے گا۔
اگر تم جلدی مچاتے ہو تو معاملہ میرے اختیار میں نہیں ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ﴾ ” حکم صرف اللہ کا ہے“ جس طرح اس نے اوامرونواہی میں اپنا حکم شرعی نافذ کیا ہے اسیطرح وہ حکم جزائی نافذ کرے گا اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ثواب و عقاب دے گا۔ پس اس کے فیصلے پر اعتراض درخورا عتنا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے راہ حق کو واضح کردیا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حق بیان کر کے ان کا عذر ختم کردیا اور یوں ان کی حجت منقطع ہوگئی، تاکہ وہ ہلاک ہو تو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہوا او جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ ﴾ ”وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ وہ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، وہ ان کے درمیان ایسافیصلہ کرتا ہے جس پر اس کی تعریف کی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہتا جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے اور وہ حق کو واضح اور متعین کردیتا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-saadi/851/
سورۃ آل عمران
آیت نمبر: 76
بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
ترجمہ:
بھلا پکڑ کیوں نہیں ہوگی؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو اپنے عہد کو پورا کرے گا اور گناہ سے بچے گا تو اللہ ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔
تفسیر:
﴿بَلَىٰ﴾ یعنی حقیقت وہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں جاہلوں کے حق کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہیں اس جرم کا سخت گناہ ہوگا۔ ﴿ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ ﴾’’جو شخص اپنا قرار پورا کرے۔ اور پرہیز گاری کرے“۔ اس عہد و قرار میں وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے اور رب کے درمیان ہے۔ اس میں اللہ کے وہ تمام حق شامل ہیں جو اس نے بندے پر واجب کئے ہیں اور وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے کا دوسرے بندوں سے ہوتا ہے۔ اس مقام پر عہدو پیمان سے مراد ان گناہوں سے بچنا ہے جو حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے بھی جو حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ جو شخص ان سب گناہوں سے بچتا ہے وہ متقی ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے خواہ وہ (اُمِّیِین) (عرب ان پڑھ لوگوں) میں سے ہو یا دوسروں میں سے ہو اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہمیں جاہلوں کے حق کا کوئی گناہ نہیں، اس نے اللہ کا وعدہ پورا نہیں کیا اور اللہ سے نہیں ڈرا۔ لہٰذا اسے اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ اللہ اس سے بغض رکھتا ہے۔ اگر ان پڑھ ایفائے عہد، تقویٰ اور مالی خیانت سے پرہیز سے متصف ہوں گے تو وہی اللہ کے پیارے ہوں گے، وہی متقی کہلائیں گے جن کے لئے جنت تیار کی گئی ہے۔ وہ اللہ کی مخلوق میں افضل مقام پر فائز ہوں گے لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں کی حق تلفی کرنے سے گناہ نہیں ہوتا وہ اللہ کے اس قول میں داخل ہوتے ہیں :
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/371/
سورۃ آل عمران
آیت نمبر: 77
إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ:
(اس کے برخلاف) جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ اہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک۔
تفسیر:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾” بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں“۔ اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو اللہ کی یا بندوں کی حق تلفی کرکے اس کے عوض دنیا کی کوئی چیزلیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ناجائز طور پر لے لیتا ہے وہ بھی اس آیت میں شامل ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ﴾ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں“ یعنی وہاں انہیں کوئی بھلائی اور خیر حاصل نہیں ہوگی۔ ﴿ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ﴾” اور اللہ ان سے بات نہیں کرے گا‘،یعنی قیامت کے دن ان سے ناراض ہوگا اس لئے ان سے کلام نہیں کرے گا۔ کیونکہ انہوں نے خواہش نفس کو رب کی رضا سے مقدم سمجھا ہے۔﴿ وَلَا يُزَكِّيهِمْ﴾” اور نہ انہیں پاک کرے گا“ اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا، ان کے عیب زائل نہیں کرے گا۔ ﴿ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾” اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے“ جس سے دلوں کو بھی تکلیف ہوگی اور بدنوں کو بھی۔ وہ ہے ناراضی کا عذاب، دیدار الٰہی سے محرومی کا عذاب، اور جہنم کا عذاب۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/372/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 14
قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ:
کہہ دو کہ : کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رکھوالا بناؤں؟ (اس اللہ کو چھوڑ کر) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جو سب کو کھلاتا ہے، کسی سے کھاتا نہیں؟ کہہ دو کہ : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ فرمانبرداری میں سب لوگوں سے پہل کرنے والا میں بنوں۔ اور تم مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔
تفسیر:
1۔ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا: ’’ولی‘‘ کا معنی دوست بھی آتا ہے، مالک و مدد گار اور معبود و کارساز بھی، یہاں اس کا معنی مالک و مدد گار اور معبود و کارساز ہے، یعنی وہ زمان و مکاں کا خالق ہی نہیں بلکہ اسے باقی رکھنے والا اور چلانے والا بھی وہی ہے، اسے کسی سے کچھ لینے کی ضرورت نہیں، باقی سب اسی کا دیا ہوا کھانے والے اور ہر لحاظ سے اس کے محتاج ہیں۔ اس ایک جملے سے مشرکین نے اللہ کے سوا جتنے معبود بنا رکھے تھے ان سب کی نفی ہو جاتی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ ذاریات (۵۶ تا ۵۸)۔
2۔ قُلْ اِنِّيْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ....: کیونکہ میں اس کا رسول ہوں اور رسول کا کام یہ ہے کہ تمام بندوں سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے مالک کے احکام کو مانے اور ﴿وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شرک میں مبتلا ہوتا ہے تو ہوتا پھرے، آپ کا یہ کام نہیں کہ اس کا خیال بھی اپنے ذہن میں لائیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/808/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 15
قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
ترجمہ:
کہہ دو کہ : اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک زبردست دن کے عذاب کا خوف ہے۔
تفسیر:
قُلْ اِنِّيْۤ اَخَافُ ....: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ اعلان کروا کر دوسرے سب لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اگر بفرض محال ہمارے معصوم اور سب سے زیادہ نیک بندے سے بھی نافرمانی کا ارتکاب ہو جائے تو وہ بھی ہمارے عذاب سے نہیں بچ سکتا، پھر دوسروں کے لیے کیسے ممکن ہے کہ انبیاء کو جھٹلانے جیسے جرائم کرنے کے باوجود ہمارے عذاب سے بے فکر ہو کر بیٹھ رہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۸۱ تا ۸۸ اور سورۂ زمر (۶۴، ۶۵)۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/809/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 16
مَّن يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ
ترجمہ:
اس دن جس کسی سے وہ عذاب ہٹایا گیا ، اسی پر رحم ہوا ، اور یہ صریح کامیابی ہے ۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا ہولناک ہوگا اور جس شخص کو اس دن عذاب سے بچا لیا جائے گا تو یہ اللہ کی رحمت سے ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ﴾ (آل عمران: ۱۸۵) جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اس لیے کہ کامیابی خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے اور جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-siraj-ul-bayan/tafseer-tasheel-ul-bayan/810/
MashaAllah heart touching voice❤️.
Pi
mashaallha
Subhan Allah beautiful recitation with translation thank you jazak Allah khairan♥️♥️
😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊
MashaAllah ❤❤❤❤❤❤❤❤
Mashallah
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 124
وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
ترجمہ:
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا (١) سو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں (٢)۔
تفسیر:
1- اس سورت میں منافقین کے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے، یہ آیات اس کا بقیہ اور تتمہ ہیں۔ اس میں بتلایا جا رہا ہے جب ان کی غیر موجودگی میں کوئی سورت یا اس کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے اور ان کے علم میں بات آتی تو وہ استہزاء اور مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ اس سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے؟۔
2- اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو بھی سورت اترتی ہے اس سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ایمان کے اضافے پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ آیت بھی اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جس طرح کہ محدثین کا مسلک ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1366/
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 24
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
ترجمہ:
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (١)۔
تفسیر:
1- اس آیت میں بھی اس مضمون کو بڑے مؤکد انداز میں بیان کیا گیا ہے ”عشیرۃ“ اسم جمع ہے، وہ قریب ترین رشتہ دار جن کے ساتھ آدمی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے، یعنی کنبہ قبیلہ، ”اقتراف“ کسب (کمائی) کے معنی کے لئے آتا ہے، ”تجارت“ سودے کی خرید و فروخت کو کہتے ہیں جس کا مقصد نفع کا حصول ہو، ”کساد“ مندے کو کہتے ہیں یعنی سامان فروخت موجود ہو لیکن خریدار نہ ہو یا اس چیز کا وقت گز رچکا ہو، جس کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت نہ رہے۔ دونوں صورتیں مندے کی ہیں۔ ”مساکن“ سے مراد وہ گھر ہیں جنہیں انسان موسم کے شدائد و حوادث سے بچنے آبرومندانہ طریقے سے رہنے سہنے اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لئے تعمیر کرتا ہے، یہ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت بھی ناگزیر اور قلوب انسانی میں ان سب کی محبت بھی طبعی ہے (جو مذموم نہیں) لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور رسول کی محبت سے زیادہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں مانع ہو جائے، تو یہ بات اللہ کو سخت ناپسندیدہ اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے اور یہ وہ فسق (نافرمانی) ہے جس سے انسان اللہ کی ہدایت سے محروم ہو سکتا ہے۔ جس طرح کہ آخری الفاظ تہدید سے واضح ہے۔ احادیث میں نبی (ﷺ) نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے مثلا ایک موقع پر حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے کہا: ”یا رسول اللہ! مجھے آپ، اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”جب تک میں اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک وہ مومن نہیں“، حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے کہا ”پس واللہ! اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں“۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”اے عمر! اب تم مومن ہو“۔ (صحيح بخاری- كتاب الأيمان والنذر - باب كيف كان يمين النبي (ﷺ)) ایک دوسری روایت میں نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جاؤں“۔ (صحيح بخاری - كتاب الإيمان باب حب الرسول (ﷺ) من الإيمان- ومسلم كتاب الإيمان، باب باب بيان خصال من اتصف بهن وجد حلاوة الإيمان) ایک اور حدیث میں جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ”جب تم بَيْعُ عِينَةٍ (کسی کو مدت معینہ کے لییے چیز ادھاردے کر پھر اس سے کم قیمت پر خرید لینا) اختیار کر لو گے اور گایوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی وقانع ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالٰی تم پر ایسی ذلت مسلط فرمادے گا جس سے تمام وقت تک نہ نکل سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہیں لوٹو گے“۔ ( أبو داود، كتاب البيوع، باب النهي عن العينة - مسند أحمد جلد 2، ص42)
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/1266/
Subhan allah Masha allah
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 2
فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ
ترجمہ:
کہ چار مہینے تک ملک میں چلو پھر (کوئی روک ٹوک نہیں، اس کے بعد جنگ کی حالت قائم ہوجائے گی) اور یاد رکھو تم کبھی اللہ کو عاجز نہ کرسکو گے اور اللہ منکروں کو (پیروان حق کے ہاتھو) زلیل کرنے والا ہے۔
تفسیر:
1۔ فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ: یہ اللہ تعالیٰ کا مزید کرم تھا کہ مشرکین کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ماہ کی مہلت دی گئی، جس کی ابتدا ۱۰ ذوالحجہ یوم النحرسے ہوئی، کیونکہ اس دن یہ اعلان کیا گیا اور ۱۰ ربیع الثانی کو یہ مدت ختم ہو گئی۔ اس مہلت کا مقصد یہ تھا کہ وہ اتنی مدت میں اپنے بارے میں خوب سوچ سمجھ لیں، پھر یا تو مسلمان ہو جائیں یا سر زمین عرب سے باہر کسی ملک میں اپنا ٹھکانا بنا لیں۔ اگر وہ اس کے بعد بھی باقی رہیں تو انھیں پکڑ کر، گھیر کر، گھات لگا کر جیسے بھی ممکن ہو قتل کر دیا جائے۔ یہ چار ماہ کی مدت ان لوگوں کے لیے تھی جن سے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم باقی تھی، یا معاہدہ تو زیادہ مدت کا تھا مگر انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی، یا مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ تھا، البتہ وہ قبائل جن سے کسی خاص مدت تک معاہدہ تھا اور انھوں نے معاہدے کی کسی قسم کی مخالفت بھی نہ کی تھی ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم دیا گیا، فرمایا : ﴿فَاَتِمُّوْا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ ﴾ [ التوبۃ : ۴ ] ’’تو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرو۔‘‘
2۔ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ....: مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہلت مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اس میں کئی حکمتیں ہیں، ورنہ تم لوگ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں، اگر تم کفر پر قائم رہے تو خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔ دیکھیے سورۂ انفال کی آیت (۵۹) کے حواشی۔ غرض صرف بیت اللہ ہی نہیں پورے جزیرۂ عرب کو مشرکین کے نجس وجود سے پاک کر دیا گیا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1244/
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 1
بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ:
(مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔
تفسیر:
یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورۂ توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال ( سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَهُوَ حَبْرٌ (( ’’جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔‘‘ [ أحمد :6؍82، ح : ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا]
اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ’’توبہ‘‘ اور دوسرا ’’براء ۃ‘‘ ہے۔ ’’ توبہ‘‘ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ’’ براء ۃ ‘‘ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ’’سورۃ الفاضحہ‘‘ یعنی ( منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھوائی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں لکھی۔
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ....: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : ﴿لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً﴾ [ التوبۃ : ۱۰ ] ’’یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔‘‘اور فرمایا : ﴿اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۳ ] ’’کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ۹ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بے حیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1243/
ماشاءاللّٰه
Subhan Allah nice voice
SubhanAllah
Mashaallah allahu akber
ماشاءاللّٰ🕋🕋🕋🕋🕋
Mashallah 🕋
Sub han Allah❣️❣️
Very nice 🥺🥺
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 1
بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ:
(مسلمانوں) جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن کا) معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لیے اعلان ہے۔
تفسیر:
یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورۂ توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال ( سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَهُوَ حَبْرٌ (( ’’جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔‘‘ [ أحمد :6؍82، ح : ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا]
اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک ’’توبہ‘‘ اور دوسرا ’’براء ۃ‘‘ ہے۔ ’’ توبہ‘‘ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور ’’ براء ۃ ‘‘ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو ’’سورۃ الفاضحہ‘‘ یعنی ( منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں لکھوائی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں لکھی۔
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ....: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا : ﴿لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً﴾ [ التوبۃ : ۱۰ ] ’’یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔‘‘اور فرمایا : ﴿اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۳ ] ’’کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ۹ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بے حیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1243/
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 11
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
ترجمہ:
بہرحال اگر یہ باز آئیں نماز قائم کریں زکوۃ ادا کریں تو (پھر ان کے خلاف تمہارا ہاتھ نہیں اٹھنا چاہیئے) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں تم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کردیتے ہیں۔
تفسیر:
1۔ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ....: یعنی ایمانی اخوت، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حجرات (۱۰) میں کیا ہے : ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ﴾ ’’مومن تو سب بھائی ہی ہیں‘‘ وہ ان تین چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ان تین چیزوں سے انھیں اسلامی معاشرے میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ جو فرمایا بھائی ہیں حکم شرع میں، اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائن سے معلوم ہو کہ ظاہر میں مسلمان ہے اور دل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم ظاہری میں مسلمان گنیں، مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں۔‘‘ (موضح) یہ بات پہلے بھی گزری ہے یہاں مزید تاکید ہو گئی کہ نماز اور زکوٰۃ کا محض اقرار ہی اخوت دینی کے لیے کافی نہیں بلکہ عملاً ان کی ادائیگی امت مسلمہ میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے اور مسلمان حاکم پر لازم ہے کہ ان کی عدم ادائیگی پر باز پرس کرے اور سزا دے اور اگر وہ ان کی ادائیگی سے انکار یا ان کا مذاق اڑائیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح انھیں مرتد قرار دے کر ان سے جنگ کی جائے۔
2۔ وَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ: جاننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اس کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی آیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/1253/
Childhood memories ❤
Subhan Allaha ❤❤❤❤
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 153
وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
ترجمہ:
اور بے شک یہی میری سیدھی (153) راہ ہے، پس تم لوگ اسی کی پیروی کرو اور دوسرے طریقوں پر نہ چلو جو تمہیں اس کی (سیدھی) راہ سے الگ کردیں، اللہ نے تمہیں ان باتوں کا حکم دیا ہے، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو
تفسیر:
1- هَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت۔ اور یہی اسلام کے اصول ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے۔ اس لئے جو بھی مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہی ہے۔
2- صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یا رسول اللہ (ﷺ) کی راہ ایک ہی ہے۔ ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اسی ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں۔ یہی ملت مسلمہ کی وحدت واجتماع کی بنیاد ہے جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ حالانکہ اسے تاکید کی گئی ہے کہ ”دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی“۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ﴾ (الشورى) ”دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو“ گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (ﷺ) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے“۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں جانب کھینچے اور فرمایا ”یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے“۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔ (مسنداحمد، جلد 1، ص 465،435۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے دیکھئے مسند احمد بہ تعلیق احمد شاکر نمبر 4142) بلکہ ابن ماجہ کی روایت میں صراحت ہے کہ دو دو خط داہنے اور بائیں کھینچے۔ یعنی کل چار خطوط کھینچے اور انہیں شیطان کا راستہ بتلایا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-makkah/947/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 154
ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
ترجمہ:
پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ نیک لوگوں پر اللہ کی نعمت پوری ہو، اور ہر چیز کی تفصیل بیان کردی جائے، اور وہ (لوگوں کے لیے) رہنمائی اور رحمت کا سبب بنے، تاکہ وہ (آخرت میں) اپنے پروردگار سے جا ملنے پر ایمان لے آئیں۔
تفسیر:
﴿ ثُمَّ ﴾ ” پھر“ اس مقام پر ( ثُمَّ ) سے مراد ترتیب زمانی نہیں ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ اس زمانے سے بہت متقدم ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلاوت فرمائی تھی۔ یہاں دراصل ترتیب اخباری مراد ہے۔
﴿آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾ ” موسیٰ کو کتاب عنایت کی“ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ کو کتاب عطا کی۔ اس سے مراد تو رات ہے ﴿تَمَامًا﴾اپنی نعمت اور احسان کو پورا اور مکمل کرنے کے لئے ﴿عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ﴾ ” ان پر جو نیکو کار ہیں۔“ یعنی جناب موسیٰ کی امت میں سے ان لوگوں پر اپنی نعمت کو پورا کرنے کے لئے جنہوں نے نیک کام کئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیکو کاروں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ من جملہ ان کامل نعمتوں کے ان پر تورات کا نازل کرنا ہے پس ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت مکمل ہوگئی اور ان پر ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ٹھہرا۔ ﴿وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کی تفصیل کے لئے“ یعنی ہر اس چیز کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ جس کے وہ محتاج ہیں، اس کا تعلق حلال و حرام سے ہو، اوامرونواہی سے ہو یا عقائد وغیرہ سے۔ ﴿وَهُدًى ﴾ ” اور ہدایت“ یعنی وہ بھلائی کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہے اور اصول و فروع میں ان کو برائی کی پہچان کرواتی ہے ﴿وَرَحْمَةً﴾ ” اور رحمت“ یعنی اس رحمت کے ذریعے سے انہیں سعادت اور خیر کثیر سے نوازا جاتا ہے ﴿لَّعَلَّهُم﴾” تاکہ وہ لوگ“ یعنی ہمارے ان پر کتاب اور واضح دلائل نازل کرنے کے سبب سے ﴿ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں“ کیونکہ یہ کتاب قیامت اور جزائے اعمال کے قطعی دلائل اور ایسے امور پر مشتمل ہے جو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر ایمان اور اس کے لئے تیار کے موجب ہیں۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/948/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 154
ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
ترجمہ:
پھر ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی جس سے اچھی طرح عمل کرنے والوں پر نعمت پوری ہو اور رحمت ہو (١) تاکہ وہ لوگ اپنے رب کو ملنے پر یقین لائیں۔
تفسیر:
1- قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا گیا ہے کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے اس وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت ورحمت کا باعث تھی۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-junagarhi/tafseer-makkah/948/
Allah hu Akbar ♥️ ♥️
Subhan Allaha
Subanallaha
😢😢😢😢 mashallah ❤❤❤
subhanallah
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 155
وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
ترجمہ:
اور یہ قرآن ایک مبارک کتاب (155) ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، پس تم لوگ اسی کی پیروی کرو، اور تقوی کی راہ اختیار کرو، تاکہ تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو
تفسیر:
قرآن تورات زیادہ بابرکت کیسے ہے:
قرآن کے تورات سے زیادہ بابرکت ہونے کے کئی پہلو ہیں۔ (۱) کوئی کتاب ایسی محفوظ نہیں جیسے قرآن کریم محفوظ ہے۔ (۲) ہزاروں برس کے باوجود کوئی کمی یا تبدیلی نہیں آئی۔ (۳) انسانی راہنمائی کا مکمل پروگرام ہے۔ (۴) ہر دور کے ہر طبقہ کے لوگوں کے لیے ہے۔ (۵)تورات مخصوص قوم اور زمانے یعنی بنی اسرائیل کے لیے تھی جب کہ قرآن اقوام عالم اور قیامت تک کے لیے ہے۔ (۶) تورات صرف قومی مسائل کا حل پیش کرنیوالی ہے اور قرآن کریم پوری انسانیت کے مسائل کا جواب دیتا ہے۔ (۷) قرآن میں تمام آسمانی کتب و صحائف اور مضامین کو سمو دیا گیا ہے۔ (۸) یہ واحد کتاب ہے جو لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ (۹) اس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔ (۱۰) غار ِ حرا سے دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پہنچے ہیں کیونکہ یہ برکت والی کتاب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۔ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ﴾ (یونس: ۵۷۔ ۵۸)
’’اے لوگو ! تمہارے رب کی طرف سے ہدایت آگئی ہے شفاء ہے جو دلوں میں ہے۔ رحمت ہے ایمان والوں کے لیے معجزہ ہے۔ بے لوث عطا اللہ کی طرف سے، پھر اس کے فضل کی وجہ سے چاہے کہ وہ سب خوشیاں منائیں وہ ان ساری چیزوں سے بہتر ہے جو انھوں نے جمع کیا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو بلند اور بہت سوں کو ذلیل کردیتا ہے۔ (مسلم: ۸۱۷)
اس کی پیروی کرو سے مراد:
ڈر جاؤ اللہ سے تاکہ تم پر رحم کیا جائے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ غفور الرحیم ہے وہ جان لیں کہ اللہ مجرموں کو معاف نہیں کرے گا جنھوں نے کتاب کو سیکھا ہی نہیں وہ اس کی پیروی کیسے کریں گے وہ دنیا میں بھی اندھا ہے اور قیامت کے دن بھی اندھا کرکے اٹھایا جائے گا۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tayseer-ur-rehman/tafseer-tasheel-ul-bayan/949/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 155
وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
ترجمہ:
اور (اسی طرح) یہ برکت والی کتاب ہے جو ہم نے نازل کی ہے۔ لہذا اس کی پیروی کرو، اور تقوی اختیار کرو، تاکہ تم پر رحمت ہو
تفسیر:
﴿ وَهَـٰذَا﴾ ” اور یہ“ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم ﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ ﴾” کتاب ہم نے اتاری ہے برکت والی۔“ یعنی اس کتاب کے اندر خیر کثیر اور بے انتہا علم ہے جس سے تمام علوم مدد لیتے ہیں اور اس سے برکات حاصل کی جاتی ہیں۔ کوئی ایسی بھلائی نہیں جس کی طرف اس کتاب عظیم نے دعوت اور ترغیب نہ دی ہو اور اس بھلائی کی حکمتیں اور مصلحتیں بیان نہ کی ہوں جو اس پر آمادہ کرتی ہیں اور کوئی ایسی برائی نہیں جس سے اس کتاب نے روکا اور ڈرایا نہ ہو اور ان اسباب اور عواقب کا ذکر نہ کیا ہو جو اس برائی کے ارتکاب سے باز رکھتے ہوں۔ ﴿ فَاتَّبِعُوهُ ﴾ ” پس اس کی پیروی کرو“ یعنی اس کے امرونہی میں اس کی اتباع کرو اور اس پر اپنے اصول و فروع بنیاد رکھو ﴿وَاتَّقُوا ﴾ ” اور ڈرو“ یعنی کسی بھی امر میں اللہ کی مخالت کرنے سے ڈرو ﴿لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ ” تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یعنی اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو شاید تم پر رحم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کا سب سے بڑا سبب علم و عمل کے اعتبار سے اس کتاب کی پیروی ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-saadi/949/
Subhanallah
MashAllah
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 55
وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ
ترجمہ:
اور ہم اسی طرح نشانیاں تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں (تاکہ سیدھا راستہ بھی واضح ہوجائے) اور تاکہ مجرموں کا راستہ بھی کھل کر سامنے آجائے
تفسیر:
1۔ وَ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ ....: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے یہ باتیں اس لیے کھول کر بیان کی ہیں تاکہ حق ظاہر ہو جائے اور اس پر عمل کیا جا سکے اور مجرموں کا راستہ خوب واضح ہو جائے، تاکہ اس سے بچا جا سکے۔ (جلالین) اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں انھیں مخالفین ( مجرمین) کے ہتھکنڈوں سے پوری طرح باخبر ہونا چاہیے، تاکہ ان کی تردید کر سکیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہی خوبی تھی کہ ایک طرف تو وہ اسلام کو خوب سمجھتے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے رسم و رواج اور قوانین سے پوری واقفیت رکھتے تھے، کیونکہ وہ جاہلیت سے گزر کر آئے تھے۔ یہ مضمون حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الفوائد میں خوب بیان ہوا ہے۔
2۔ وَ لِتَسْتَبِيْنَ : ’’بَانَ يَبِيْنُ ‘‘ کا معنی ہے الگ ہونا، واضح ہونا، تو باب استفعال میں حروف کی کثرت کی وجہ سے ’’ اور تاکہ خوب واضح ہو جائے‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/849/
سورۃ الانعام
آیت نمبر: 56
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۚ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
ترجمہ:
(اے پیغمبر ! ان سے) کہو کہ : تم اللہ کے سوا جن (جھوٹے خداؤں) کو پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کہو کہ : میں تمہاری خواہشات کے پیچھے نہیں چل سکتا۔ اگر میں ایسا کروں تو گمراہ ہوں گا، اور میرا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوگا۔
تفسیر:
1۔ قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ....: اوپر کی آیت میں تو یہ بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ آیات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، تاکہ حق واضح ہو اور مجرموں کا راستہ ظاہر ہو جائے، اب اس آیت میں مجرموں کے راستے پر چلنے سے منع فرمایا، جس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ مجرموں کا راستہ کیا ہے، جس پر چلنے سے تمھیں منع کیا گیا ہے؟ آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمھاری خواہشوں کے پیچھے نہیں چلوں گا، اگر میں ایسا کروں تو میں گمراہوں میں شامل ہو جاؤں گا اور میں ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہوں گا۔ اللہ کی ہدایت کے مخالف قول کو کتنا ہی حکیمانہ اور دانشمندانہ سمجھا جائے وہ محض خواہش پر مبنی ہے اور سراسر ضلالت و گمراہی ہے۔ کیونکہ کسی کے پاس حکم کا اختیار سمجھنا اس کی عبادت ہے اور غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، جو سب سے بڑا گناہ ہے۔
2۔ قُلْ اِنِّيْ نُهِيْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ : یعنی آپ ان سے کہہ دیں کہ مجھے اللہ کے سوا ان تمام چیزوں کی عبادت سے منع کیا گیا ہے جنھیں تم پکارتے ہو۔
shamilaurdu.com/quran/tarjumah-tarjuman-ul-quran/tafseer-ul-quran-al-kareem/850/