ماشاءاللہ آپ ادھر بھی آتا تھے ماشاءاللہ ماشاءاللہ اتنا تو ہم کبھی بھی نہیں سچوےتھے آپ ادھر بھی آینگے ماشاءاللہ سبحان اللّٰہ ہمارے ہی علاقہ کا ہے مولانا ساحب
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ مدارس دینیہ دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ آپنے بتایا کہ مدرسے کی بنیاد حضرت شاہ عبدالغنی رح نے رکھی ہے،تو آپ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رح پاکستان کے شہر کراچی پاپوشنگر کے قبرستان میں آرام فرمارہے ہیں۔ آپ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رح کے پیر بھی ہیں۔ آپ پھولپھوری رح اور شیخ العرب والعجم حضرت امام مولانا ظفر احمد عثمانی رح مصنف اعلاءالسنن ایک ہی احاطے میں دفن ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ مدرسہ بیت العلوم میں کامیابی کامرانی نصیب فرماۓ اس مدرسے میں میرے ابا یعنی حافظ اعظم صاحب نے اس مدرسے میں شاید 26 یا 36سال تک اس مدرسے کے استاد رہے اَلْحَمْدُلِلّٰه
ماشااللہ یہ اسلام کے قیلے ہیں ۔۔آپ نے تو میرے خیال سے تواب تک سبھی مدارس اسلامیہ گھما دیئے ہیں اللہ رب العزت انکی حفاظت فرمائے اللہ تعالی آپکو جزائے خیر عطا جزاک اللہ آمین یا رب العزت
Main Mohammed Shahid pada hai aur mashallah bahut khubsurat lagaega manjil aapane dikhaya hai Allah tabarak v tala aap bhi Bharat Sharma aur aapki umra mein
Masha ALLAH Subhan ALLAH, aap Hazraat Azamgarh ke Madrasa me tashreef laye hain, hame bahut Khushi hui, ALLAH TALA aap logo ke is Nek kaam ko Qubool farmaye🤲
ماوراء النہر وسط ایشیا کا مطالعہ ١٩٩١ نئی آزادی نئے چیلنج کیسپین کے ساحل سے چین کی سرحد تک پھیلا ہوا وسط ایشیا کا وسیع و عریض علاقہ ، شمال میں جس کی حدیں روسی سائبیریا کے کے یخ بستہ میدانوں کو چھوتی ہیں اور جنوب میں ، ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں توران یا ما آراء النہر کہلاتا تھا --- ما آراء النہر کا یہ علاقہ دریائے جیحون کے اس پار ہے ۔ وسط ایشیا کی یی سرزمین ، جہاں سے ایک زمانہ میں شاہ ریشم گزرتی تھی ، زبردست فوجی اور اقتصادی اہمیت کا حامل رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہ سر زمین ایک دوسرے سے نبرد آزما سلطنتوں کی آماجگاہ بنی اور اس پر پے در پے طالع آزماؤں اور توسیع پسندوں کے طوفانوں کی یلغار رہی ہے ۔ تیموری خاندان کے درخشاں دور کے بعد اس علاقہ پر توسیع پسندی کا ایک اور سخت یلغار شمال میں روس سے ہوئی اور اس کے نتیجے میں 1873 تک اس وسیع و عریض مسلم علاقہ پر زار روس کا تسلط ہوگیا اور اس مناسبت سے اس کا نام روسی ترکستان پڑ گیا ۔ پھر ستر سال پہلے روس پی کی سمت ایک اور طوفان اٹھا ۔ یہ کمیونسٹ انقلاب کا طوفان تھا ۔ اس نے ان تمام علاقوں کو اپنی گرفت میں لے لیا جہاں جہاں زار روس کا اثر تھا ۔ کمیونسٹ تسلط کے دوران اس پورے علاقہ کا سرے سے نقشہ ہی بدل گیا ۔ کمیونسٹوں نے نہ صرف اس علاقہ پر اپنا نظریاتی نظام ، مرکزی بند منصوبہ بند معیشت اور روسی زبان مسلط کی بلکہ اسے پانچ جمہوریاؤں میں تقسیم کردیا اور آبادی کے تناسب کو درہم برہم کردیا ۔ ١٩٩١ کے آخر میں سویٹ یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان جمہوریاؤں کو آزادی ملی ۔ ہم اس آزادی کے بعد کی پیدا شدہ صورت حال کا مطالعہ کریں گے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadilaeeque@gmail.com
Expanding Universe A sign of Allah پھیلتی کائنات اللہ تعالی کی ایک عظیم نشانی قرآن میں اللہ جل شانہ نے ساتویں صدی کے آغاز میں ہمیں بتایا ہے : " ہم نے آسمان کو اپنے زور ( قدرت) سے بنایا اور ہم پھیلا رہے ہیں " (الذاریات : 47) ایڈون ہبل امریکی سائنسداں نے 1929 میں کہا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ ہبل نے اپنے بنائے ہوئے ٹیلسکوپ سے اس کا مشاہدہ کیا تھا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے ساتویں صدی میں جبکہ ٹیلسکوپ ایجاد نہیں ہوا تھا ، کون کہہ سکتا ہے کائنات پھیل رہی ہے؟ اس زمانہ میں سائنس اور ٹکنالوجی آج کے مقابلے میں نا کے برابر تھی ۔ ٹیلسکوپ کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بغیر ٹیلسکوپ کے اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ؟ ایڈون ہبل نے ٹیلسکوپ کے ذریعہ مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں دور جارہی ہیں اور اس کا رنگ سرخ ہوتا ( Red shift ) جارہا ہے ۔ سائنسدانوں کا یہ کہنا جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ نے دعوی کیا ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی بار یہ دریافت کیا گیا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس سے پہلے انسان اس سائنسی حقیقت سے واقف نہیں تھا ۔ آئنسٹائن کو بھی 1930 تک یہ نہیں معلوم تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ جب اسے یہ بتایا گیا تو اس نے انکار کیا لیکن جب ایڈون ہبل ( Edwin Hubble) نے اسے اس کے شواہد دکھائے تب اس نے مانا اور کہا کہ : "Cosmological Constant theory was my blunder mistake". مذکورہ بالا قرآن کی آیہ میں اللہ جل شانہ نے اس بات کو اپنی ذات کی نشانی کے طور پر بیان کیا ہے ۔ اس مادی دنیا میں ان مادی آنکھوں سے انسان اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ اس لیے اس نے قرآن میں اپنی نشانیاں بیان کی ہیں : برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر ورق دفتریست معرفت کردگار ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق ( Horizons) میں بھی اور ان کے جسم (bodies میں بھی ۔ اس آیہ کریمہ میں بائیولوجى سائنس کی اس ترقی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آج ماڈرن میڈیکل سائنس نے کیا ہے ۔ پھیلتی کائنات قرآن کے بیان کے مطابق ایک حقیقت ہے کیوں کہ اللہ نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ سائنس وہ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے ، نا کہ آج کے سائنسی نظریات اور مفروضے ۔ اللہ خالق کائنات ہے اس لیے وہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے ۔ سائنسدانوں کی معلومات کائنات کے بارے میں محدود اور ناقص ہیں اس محدود معلومات کی بنا پر اللہ جو مبدع ( موجد ) کائنات پے اس کا انکار کرنا کہاں تک جائز ہے ؟! میرے نزدیک اس کا کوئی جواز نہیں ہے : علامہ اقبال رحمہ نے اپنی نظم ' لینن خدا کے حضور میں ' عالم خیال میں لینن کی زبانی کہتے ہیں : اے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات حق یہ کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات میں کیسے سمجھتا تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات سائنسی نظریات اور مفروضے بدلتے رہتے ہیں جبکہ قرآن کے بیانات اٹل اور مستقل ہیں ۔ اب اگر ایک انسان جان بوجھ کر اللہ رب العالمین کی ذات کا انکار کرتا ہے تو نتائج کا وہ خود ذمہ دار ہے ۔ ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
اسلامی سال نو اور اس کی اخلاقی اساس سال نو مبارک ہو اسلام میں سال نو کا آغاز محرم الحرم سے ہوتا ہے ۔ محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے شروع ہوتا ہے ۔ 17 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اس تقویم کا آغاز ہوا جب حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر بنائے گئے ۔ ان کے پاس جو حکومتی فرامین اور ہدایات آتی تھیں ان پر کوئی تاریخ رقم نہیں ہوتی تھی جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا تھا کہ کونسے فرامین پہلے کے اور کونسے بعد کے ہیں ؛ جس کی وجہ سے حکومتی کام کاج میں پریشانی ہوتی تھی ۔ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتماع( Meeting) کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ۔ چنانچہ مشورہ سے یہ طئے پایا کہ اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے کیا جائے ۔ چنانچہ اسلامی سال کا آغاز واقعہ ہجرت سے شروع کردیا گیا اور محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا گیا ۔ یہ فیصلہ بالکل صحیح اور ہجرت کے بعد اسلام کے حق میں جو نتائج برآمد ہوئے ان کو دیکھتے بہت صحیح تھا ۔ ہجرت کے بعد ہی اسلام کو غلبہ و فتح نصیب ہوا ۔ در حقیقت ہجرت فیصلہ خداوندی اور اللہ کے یہاں پہلے سے مقرر تھا ۔ اس لیے واقعہ ہجرت سے اسلامی تقویم کا آغاز بھی فیصلہ خداوندی کے مطابق ہی ٹھہرا ۔ البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا کیوں کہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا اس لیے اس عرب روایت کی رعایت کرتے ہوئے محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا گیا ۔ حالانکہ اس وقت دنیا میں متعدد کیلینڈر رائج تھے جو مختلف علاقوں کی بڑی شخصیات بادشاہوں اور تاریخ کے بڑے واقعات کی طرف منسوب ہیں لیکن ان سے صرف نظر کرکے واقعہ ہجرت کو اختیار کیا گیا ۔ دوسری قومیں اس دن اور تاریخ میں خوشیوں اور رقص و سرود کی محفلیں آراستہ کرکے ناچ گانے اور فخر و مباہات کا اور اپنی شا و شوکت کا ظہار کرتے ہیں ۔ لیکن اسلامی سال نو کے موقع پر مسلمان ایسا کچھ نہیں کرتے بلکہ سال نو کی پہلی تاریخ واقعہ ہجرت کو یاد دلاتا ہے جس کے اندر دین کی حفاظت کے لیے وطن عزیز کو چھوڑ کر ہجرت کرنا ، مصائب و شدائد کو برداشت کرنا ، صبر و استقامت ، ثبات قدمی کے اسباق موجود ہیں ۔ اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت واقعہ ہجرت ہی سے ہونا چاہیے تھا اور بفضل خداوندی ایسا ہی ہوا ۔ میں سال کی آمد کے موقع پر امہ مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
واقعہ کربلا اسباب و عوامل تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ ( 5 ) روئے ارض پر " ملک اللہ " قائم کرنا سب سے بڑا فرض ہے ۔ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی وہاں " حکم اللہ " قائم و نافذ تھا ۔ معاویہ رضی اللہ نے اس کو ختم کردیا اور یہاں سے امہ کا تعطل ، اس کی اسلامی حیویت کا خاتمہ اور زوال شروع ہوگیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ساتھ ہی وہ دروازہ توڑ دیا گیا تھا جو آنے والے حادثات اور واقعات کو روکے ہوئے تھا لیکن ٦٦١ میں خانوادہ نبوت کو اس طرح تہ تیغ کرنے کے بعد یہ اسلام مخالف طاقت پوری قوت دے متحرک ہوگئ اور اسے پوری طرح غلبہ حاصل ہوگیا ۔ جیساکہ عرض کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روئے ارض پر " حکم اللہ " کی اقامت فرمائیں تھی ۔ یہ اقامت ایک کلی اور کائناتی اقامت تھی ۔ یہ حکم اللہ بتمام و کمال وفات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قائم رہا ۔ یہی عہد ر حقیقت ہر اعتبار سے صلاح فی االارض کا کامل عہد ہے ۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کا دور آیا ۔ معاویہ رضی اللہ عین نے کا انحراف کوئی ایسا معمولی انحراف نہ تھا کہ امہ اس کو بالکل نظر انداز کرکے خوشدلی سے اسے قبول کرلیتی بالخصوص یزید کا غیر عادل ہونا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ ملک اللہ پر قبضہ کرلینا تو " منع زکوة " کے مقابلے میں بہت خطرناک واقعہ تھا ۔ اس لیے کہ منع زکوة کی وجہ سے صرف اتنا ہوتا کہ دین کا ایک حصہ اس سے علیحدہ ہوجاتا جبکہ وہ " ملک اللہ " باقی رہتا جس کی اقامت روئے ارض پر مقصد بعثت نبی آخر الزمان تھی ۔ لیکن خود اس ملک اللہ پر ہی قبضہ کرلینا تو پورے مقصد بعثت کا ہی خاتمہ کردینا تھا ۔ " کسی غیر عادل حکمراں اور غیر عادل نظام کے خلاف خروج کو اس وقت تک ناجائز قرار دینا جب تک کہ اس کے خاتمے کا ممکن اور یقینی نہ ہوجائے در اصل اس ظلم کی چکی کو جو اپنے مخالفین کے لیے ایسے غاصب و قابض اور ظالم حکمران کو جو مسلم عوام پر ظلم و جوڑ کو روا رکھے سند جواز عطا کرنا ہے ۔ اس طرح اسلامی حیویت اور مسلم معاشرے کی اس قوت کو توڑنا شروع کردیا گیا جو اصلاح نظام کے لیے ضروری تھی اور رفتہ رفتہ وہ قوت کمزور ہوتے ہوئے بالآخراصلاھ کرنے کی قوت ، عزم اور خواہش عاری ہوگئی ۔ آہستہ آہستہ پوری امہ اپنی مقصد وجود ہی سے نا بلد ہوتی چکی گئی ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@gmail.com
سانحہ کربلا تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : و إذ قال ربك للملائكة إنى جاعل في الأرض خليفة ... ( البقرة : ٤٠ ) اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ مزید اللہ نے فرمایا ہے : كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعرفة و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ... ( آل عمران : ١١٠ ) تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ( ہدایت ) کے لیے نکالا کیا گیا ۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم انہیں زمین پر اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام امور کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ ( الحج : ٤١ ) ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کس مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے ۔ ان کا مزاج کیا ہوتا ہے ، ان کے اعمال کیسے ہوتے ہیں ۔ قرآن کی یہ آیات واضح الفاظ میں بتا رہی ہیں کہ اہل ایمان کے ہاتھوں قائم ہونے والی ریاست کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار خلفاء ہوئے ۔ انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق اپنے فرائض انجام دیے ۔ خط انحراف : سب سے پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ان تعلیمات سے انحراف کیا : " فكرة الخلافة على النظر و الاختيار ، ثم كان معاوية اول من حول الخلافة ملكا و رغم كل التقلبات ، و رغم طبيعة الحكم الفعلى الذى مارسه هئولاء الحكام ، فإن فكرة الخلافة لم تمت بما تحمله من معنى الشورى ، و من معنى النظر والاختيار " . إن ذلك لأن الملك ليس فى شريعتنا . ( المقرى : سلسلة اعلام العرب - سلسلة اعلام العرب -- ص ٣٦ ) واضع اس پر لکھتے ہیں : إن القلق الذى نشهده في تلك العبارة الساذجة البسيطة التي قالها الفقيه العربي عبد الله المقرى يوجهنا إلى أنه بقصد مباشرة إلى معنى اساسى هو ان الأمة العربية لم يشرع الله الملكية لنظام للحكم ، و ان هذا ضد طبيعتها ، لذلك اختلت أحوال الأمة لأن الأمور سارت ضد طبيعتها " . ( ص : ٣٦ ) فقیہ عبد اللہ المقری کی منقولہ عبارت پر واضع کا یہ تبصرہ قابل غور ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے و أمرهم شورى بينهم ( الشورى : ٣٨ ) و شاورهم في الأمر ( آل عمران : ١٥٩ ) اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے معاملات کو شوری کے ذریعے طئے کرنے کا حکم دیا گیا ہے . اس میں شخصی رائے اور مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ استاذ سید قطب شہید رحمہ لکھتے ہیں : " إن وضع الشورى اعمق في حياة المسلمين من مجرد ان تكون نظاما سياسيا ، فهو طابع اساسى للجماعة كلها ، يقوم عليه امرها كجماعة ثم يتسرب من الجماعة للدولة " . ( فى ظلال القرآن : ج ٧ ط ٦ ص ٢٩٢ ) ان كبار علماء نے قرآن کی ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ لکھا وہ بہت اہم اور حساس تشریح ہے ۔ میں نے یہ تمہیداس لیے قائم کی ہے کہ سانحہ کربلا پر اپنی بحث کو اسی اساسی نکتہ پر آگے بڑھاؤں ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@@gmail.com
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف : ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا سے ہوا ۔ علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا 1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔ علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت اور ید طولی حاصل تھا ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔ علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔ مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی ' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔ سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔ امہ مسلمہ کا مقصد وجود : ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔ كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ... ( آل عمران : ١١٠) تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔ امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order ) پیش کیا گیا ۔ اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔ ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی علامہ اقبال رحمہ اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہے ۔ لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی ، اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔ علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں . جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی nadvilaeeque@gmail.com
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ برادرم بیت العلوم پر تو میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں تھا ،میرا فوٹو کیوں اس موقع پر لگارہے ہیں ،یہ دیانت کے خلاف ہے ،دارالمصنفین تک ٹ تو ھیک تھا ،ہر جگہ مناسب نہیں ہے ،مجھے ذاتی تکلیف پہونچی ہے _
ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت نظارہ ہے
ماشاءاللہ دل خوش ہوگیا ہے جناب جزاک اللہ خیر شکریہ جناب محترم جناب محترم
وعلیکم السلام علیکم ورحمت اللہ
اس ادارے کو دیکھنے کا بھی بہت سالوں سے شوق لگا ہوا ہے ہمیں
ماشاءاللہ بہت اچھی کوشش جزاک اللہ
Aur khali saifulla kya hal hai main Mohammed Shahid mewati
ماشاءاللہ آپ ادھر بھی آتا تھے ماشاءاللہ ماشاءاللہ اتنا تو ہم کبھی بھی نہیں سچوےتھے آپ ادھر بھی آینگے ماشاءاللہ سبحان اللّٰہ ہمارے ہی علاقہ کا ہے مولانا ساحب
Masallah ☝️🤲❤️🤝
ماشاءاللہ بہت خوب
جزاکم اللہ مولانا امجد صاحب،💐🥀🌹
ماشا اللہ اللہ پاک سلامت رکھے سب بھائیوں کو اور اللہ ہمارے مدارس کو اپنے حفظ وامان میں رکھے آمین 🇵🇰
آمین
Mashallah
Mashall Mashall
ماشاءاللہ۔
طبیعت خوش ہوگئی۔
جزاک اللہ
Mashallah mashallah bahut achcha madrasa
Mashallah bahot hi khoobsurat hai
Masha Allah Buhat khub
ماشاءاللہ
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ؛ جزاکم اللہ خیرا
ماشاء اللہ ماشاء اللہ ماشاء اللہ ماشاء اللہ ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت ہےاللہ تاقیامت تک سلامت رکھے آمین
Ameen
Mashallah ....................
Nice sharing ................
Lajwab .........................
MashaAllah hamary islaf jinoh ne aisy darsgah qaim kiya our jo is ki hamayt kiye Allah un ko janatul firdous ata karay
ماشااَللّہ
یہ سب ام المدارس دارالعلوم دیوبند کافیض ہے کہ ہندوستان میں چپہ چپہ پر مدارس موجود ہیں
مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی جونپور کا ویڈیو بھی دکھائیں۔۔ جزاکم اللہ خیرا
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ماشاءاللہ
مدارس دینیہ دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔
آپنے بتایا کہ مدرسے کی بنیاد حضرت شاہ عبدالغنی رح نے رکھی ہے،تو آپ
حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رح پاکستان کے شہر کراچی پاپوشنگر کے قبرستان میں آرام فرمارہے ہیں۔
آپ حضرت مفتی رشید احمد لدھیانوی رح کے پیر بھی ہیں۔
آپ پھولپھوری رح اور شیخ العرب والعجم حضرت امام مولانا ظفر احمد عثمانی رح مصنف اعلاءالسنن ایک ہی احاطے میں دفن ہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جزاک اللہ
اَلْحَمْدُلِلّٰه
الحمد اللہ پانچ سال پڑھا ہوں یہاں پر ۔ دورہ حدیث کی درسگاہ ماشاءاللہ اندر سے دیکھنے کے لائق ہے 👍
💚💚
اچھا
❤️❤️
Muslim bhai kya hal hai aapka
Bhai main Mohammed Shahid mewat aapke sath aapka drishti sathi
ماشاءاللہ دیکھ کر طبیعیت خوش ہو گی اللہ مزید ترقی دے
آمین
ماشاءاللہ بہت خوب میرا دوست پڑھتے ہے
Masha Allah
اللہ تعالیٰ مدرسہ بیت العلوم میں کامیابی کامرانی نصیب فرماۓ اس مدرسے میں میرے ابا یعنی حافظ اعظم صاحب نے اس مدرسے میں شاید 26 یا 36سال تک اس مدرسے کے استاد رہے اَلْحَمْدُلِلّٰه
ماشاءاللہ زبردست
Mashaallah good looking
Masha Allah 👍👍👍
ماشاءاللہ
Mashaallah
Masha allah bahut khub moulana
Mashaallah bhut Achcha h
ماشااللہ یہ اسلام کے قیلے ہیں ۔۔آپ نے تو میرے خیال سے تواب تک سبھی مدارس اسلامیہ گھما دیئے ہیں اللہ رب العزت انکی حفاظت فرمائے اللہ تعالی آپکو جزائے خیر عطا جزاک اللہ آمین یا رب العزت
آپ لوگ جامعہ مفتاح العلوم مئو میں تشریف لائیں
Masha allah bhot khoob
آپ نے اس مدرسہ کا کتب خانہ نہیں بتلائے ہیں، آپ اس کے بعد جو بھی مدرسہ میں تشریف لے جائیں کتب خانہ ضرور بتائیں۔
Absolutely right
Masha.allah
SUBHANULLAH AND MASHA ALLAH
Mashallah.bachpan.ki.yadey.khursheed.sb.assalamualaikum.very.nice
Madrasatul islah ka bhi dikhayen
Masha Allah tabarakallah
Masah Allah
Mashallah ❤️
احسنت جدا
माशाअल्लाह माशाअल्लाह
ماشاالله
Main Mohammed Shahid pada hai aur mashallah bahut khubsurat lagaega manjil aapane dikhaya hai Allah tabarak v tala aap bhi Bharat Sharma aur aapki umra mein
❤️❤️❤️ beautiful
Allah Madrason ki hifazat farmaye
Masha ALLAH Subhan ALLAH, aap Hazraat Azamgarh ke Madrasa me tashreef laye hain, hame bahut Khushi hui, ALLAH TALA aap logo ke is Nek kaam ko Qubool farmaye🤲
Asalamalekum, is there contact information for baitul uloom JazakAllah khair
@@mahamohammad9671Walaikum Assalam
@@umarshaikh8778 sir contact info chahiye
ما شاءالله ايدكم الله
زبردست
masha Allah dil khush hu gaya mai is madarsah mai hafiza ka dorah kiya hu 1saal bahut saal hu gaya year yaad bhi nahi hai
Mash allah
Masha allah❤❤❤❤
alhamdulillah main ne bhi is idare me 2013 .2014 me padhai gi hai
لا جواب
ماشاءاللہ اس مدرسہ میں ہمارے پیارے دادا شیخ شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمتہ اللہ علیہ پڑے تھے
ماشاءاللہ
ماوراء النہر
وسط ایشیا کا مطالعہ ١٩٩١
نئی آزادی نئے چیلنج
کیسپین کے ساحل سے چین کی سرحد تک پھیلا ہوا وسط ایشیا کا وسیع و عریض علاقہ
، شمال میں جس کی حدیں روسی سائبیریا کے کے یخ بستہ میدانوں کو چھوتی ہیں اور جنوب میں ، ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں
توران یا ما آراء النہر کہلاتا تھا --- ما آراء النہر کا یہ علاقہ دریائے جیحون کے اس پار ہے ۔
وسط ایشیا کی یی سرزمین ، جہاں سے ایک زمانہ میں شاہ ریشم گزرتی تھی ، زبردست فوجی اور اقتصادی اہمیت کا حامل رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہ سر زمین ایک دوسرے سے نبرد آزما سلطنتوں کی آماجگاہ بنی اور اس پر پے در پے طالع آزماؤں اور توسیع پسندوں کے طوفانوں کی یلغار رہی ہے ۔
تیموری خاندان کے درخشاں دور کے بعد اس علاقہ پر توسیع پسندی کا ایک اور سخت یلغار
شمال میں روس سے ہوئی اور اس کے نتیجے میں 1873 تک اس وسیع و عریض مسلم علاقہ پر زار روس کا تسلط ہوگیا اور اس مناسبت سے اس کا نام روسی ترکستان پڑ گیا ۔
پھر ستر سال پہلے روس پی کی سمت ایک اور طوفان اٹھا ۔ یہ کمیونسٹ انقلاب کا طوفان تھا ۔ اس نے ان تمام علاقوں کو اپنی گرفت میں لے لیا جہاں جہاں زار روس کا اثر تھا ۔
کمیونسٹ تسلط کے دوران اس پورے علاقہ کا سرے سے نقشہ ہی بدل گیا ۔ کمیونسٹوں نے نہ صرف اس علاقہ پر اپنا نظریاتی نظام ، مرکزی بند منصوبہ بند معیشت اور روسی زبان مسلط کی بلکہ اسے پانچ جمہوریاؤں میں تقسیم کردیا اور آبادی کے تناسب کو درہم برہم کردیا ۔
١٩٩١ کے آخر میں سویٹ یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان جمہوریاؤں کو آزادی ملی ۔ ہم اس آزادی کے بعد کی پیدا شدہ صورت حال کا مطالعہ کریں گے ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadilaeeque@gmail.com
Madrasatul Islah Saraimeer Azamgarh top 🔝🎩 no 1 madarsa in the world 🌎🌍
bhai yaha pe Ahmad Ullah sahab ko ap jante ho kya
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کبھی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ بھی تشریف لائیں
Darul uloom Nadwatul ulama | Lucknow | Safar East up | part 8 | #amjadmeel #nadwatululama
th-cam.com/video/nAxpo_vkcK8/w-d-xo.html
Assalamwaliukum bhai aapka sukriya
आप ने मदरसा का डीटेल्स tour dikhay आप का शुक्रिया
یہ مدرسہ میرا مادر علمی ہے
مدرسہ دیکھ کر ملے گا جناب مہتمم مدرسہ دیکھتے تو رشک کرتے
Mast
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
Mubarakpur me ak minar wali jama masjid hai use bhi dikhaiye
Mashallah. Tora sa hindi aur inglish main bhi .........
M Mohammed Shahid olanda
Expanding Universe
A sign of Allah
پھیلتی کائنات
اللہ تعالی کی ایک عظیم نشانی
قرآن میں اللہ جل شانہ نے ساتویں صدی
کے آغاز میں ہمیں بتایا ہے :
" ہم نے آسمان کو اپنے زور ( قدرت) سے بنایا اور ہم پھیلا رہے ہیں "
(الذاریات : 47)
ایڈون ہبل امریکی سائنسداں نے 1929 میں کہا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ ہبل نے اپنے بنائے ہوئے ٹیلسکوپ سے اس کا مشاہدہ کیا تھا ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے ساتویں صدی میں جبکہ ٹیلسکوپ ایجاد نہیں ہوا تھا ، کون کہہ سکتا ہے کائنات پھیل رہی ہے؟ اس زمانہ میں
سائنس اور ٹکنالوجی آج کے مقابلے میں نا کے برابر تھی ۔ ٹیلسکوپ کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو بغیر ٹیلسکوپ کے اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے ؟
ایڈون ہبل نے ٹیلسکوپ کے ذریعہ مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں دور جارہی ہیں اور اس کا رنگ سرخ ہوتا ( Red shift ) جارہا ہے ۔
سائنسدانوں کا یہ کہنا جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ نے دعوی کیا ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی بار یہ دریافت کیا گیا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ اس سے پہلے انسان اس سائنسی حقیقت سے واقف نہیں تھا ۔ آئنسٹائن کو بھی 1930 تک یہ نہیں معلوم تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے ۔ جب اسے یہ بتایا گیا تو اس نے انکار کیا لیکن جب ایڈون ہبل ( Edwin Hubble) نے اسے اس کے شواہد دکھائے تب اس نے مانا اور کہا کہ :
"Cosmological Constant theory was my blunder mistake".
مذکورہ بالا قرآن کی آیہ میں اللہ جل شانہ نے اس بات کو اپنی ذات کی نشانی کے طور پر بیان کیا ہے ۔ اس مادی دنیا میں ان مادی آنکھوں سے انسان اللہ تعالی کو نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ اس لیے اس نے قرآن میں اپنی نشانیاں بیان کی ہیں :
برگ درختان سبز در نظر ہوشیار
ہر ورق دفتریست معرفت کردگار
ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق ( Horizons) میں بھی اور ان کے جسم
(bodies میں بھی ۔ اس آیہ کریمہ میں بائیولوجى سائنس کی اس ترقی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آج ماڈرن میڈیکل سائنس نے کیا ہے ۔
پھیلتی کائنات قرآن کے بیان کے مطابق ایک حقیقت ہے کیوں کہ اللہ نے اس حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ سائنس وہ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے ، نا کہ آج کے سائنسی نظریات اور مفروضے ۔ اللہ خالق کائنات ہے اس لیے وہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے ۔
سائنسدانوں کی معلومات کائنات کے بارے میں محدود اور ناقص ہیں اس محدود معلومات کی بنا پر اللہ جو مبدع ( موجد ) کائنات پے اس کا انکار کرنا کہاں تک جائز ہے ؟! میرے نزدیک اس کا کوئی جواز نہیں ہے :
علامہ اقبال رحمہ نے اپنی نظم ' لینن خدا کے حضور میں ' عالم خیال میں لینن کی زبانی کہتے ہیں :
اے انفس و آفاق میں پیدا تیرے آیات
حق یہ کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
سائنسی نظریات اور مفروضے بدلتے رہتے ہیں جبکہ قرآن کے بیانات اٹل اور مستقل ہیں ۔
اب اگر ایک انسان جان بوجھ کر اللہ رب العالمین کی ذات کا انکار کرتا ہے تو نتائج کا وہ خود ذمہ دار ہے ۔
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
nadvilaeeque@gmail.com
السلام علیکم
اسلامی سال نو اور اس کی اخلاقی اساس
سال نو مبارک ہو
اسلام میں سال نو کا آغاز محرم الحرم سے ہوتا ہے ۔ محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے شروع ہوتا ہے ۔
17 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اس تقویم کا آغاز ہوا جب حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر بنائے گئے ۔ ان کے پاس جو حکومتی فرامین اور ہدایات آتی تھیں ان پر کوئی تاریخ رقم نہیں ہوتی تھی جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہوتا تھا کہ کونسے فرامین پہلے کے اور کونسے بعد کے ہیں ؛ جس کی وجہ سے حکومتی کام کاج میں پریشانی ہوتی تھی ۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتماع( Meeting) کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ۔ چنانچہ مشورہ سے یہ طئے پایا کہ اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے کیا جائے ۔ چنانچہ اسلامی سال کا آغاز واقعہ ہجرت سے شروع کردیا گیا اور محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا گیا ۔
یہ فیصلہ بالکل صحیح اور ہجرت کے بعد اسلام کے حق میں جو نتائج برآمد ہوئے ان کو دیکھتے بہت صحیح تھا ۔ ہجرت کے بعد ہی اسلام کو غلبہ و فتح نصیب ہوا ۔ در حقیقت ہجرت فیصلہ خداوندی اور اللہ کے یہاں پہلے سے مقرر تھا ۔ اس لیے واقعہ ہجرت سے اسلامی تقویم کا آغاز بھی فیصلہ خداوندی کے مطابق ہی ٹھہرا ۔
البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا
کیوں کہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا اس لیے اس عرب روایت کی رعایت کرتے ہوئے محرم الحرام کو پہلا مہینہ قرار دیا گیا ۔
حالانکہ اس وقت دنیا میں متعدد کیلینڈر رائج تھے جو مختلف علاقوں کی بڑی شخصیات بادشاہوں اور تاریخ کے بڑے واقعات کی طرف
منسوب ہیں لیکن ان سے صرف نظر کرکے واقعہ ہجرت کو اختیار کیا گیا ۔
دوسری قومیں اس دن اور تاریخ میں خوشیوں اور رقص و سرود کی محفلیں آراستہ کرکے ناچ گانے اور فخر و مباہات کا اور اپنی شا و شوکت کا ظہار کرتے ہیں ۔
لیکن اسلامی سال نو کے موقع پر مسلمان ایسا کچھ نہیں کرتے بلکہ سال نو کی پہلی تاریخ واقعہ ہجرت کو یاد دلاتا ہے جس کے اندر دین کی حفاظت کے لیے وطن عزیز کو چھوڑ کر ہجرت کرنا ، مصائب و شدائد کو برداشت کرنا ، صبر و استقامت ، ثبات قدمی کے اسباق موجود ہیں ۔ اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت واقعہ ہجرت ہی سے ہونا چاہیے تھا اور بفضل خداوندی ایسا ہی ہوا ۔
میں سال کی آمد کے موقع پر امہ مسلمہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com
Main is madarse ka talibeilm tha ❤️❤️❤️
Assalam alaikum bhai
Kya koi contact number hai meri beti ke liye jo 13 sal ki hai
@@skshah7967 walaikumassalam aap kahan se hai
I'm bhig fan
Jamia Sayyad Ahmad Shahid bhi jaiye vah bhi bahut bada madarsa hai
آپکا مدرسہ کہاں کے درس نظام چلتا ہے ؟؟
السلام علیکم ورحمته الله وبرکاته میں اپنا داخله لینا چاهتاهو ں عربی درجے میں کیا داخله هو جایے گا
Saraimeer me isalah madarsa bhi hai use bhi dikha dijiye ga
Azamgarh me islaah aur falah ka bhi dikhaao
واقعہ کربلا اسباب و عوامل
تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ
( 5 )
روئے ارض پر " ملک اللہ " قائم کرنا سب سے بڑا فرض ہے ۔ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی وہاں " حکم اللہ " قائم و نافذ تھا ۔
معاویہ رضی اللہ نے اس کو ختم کردیا اور یہاں سے امہ کا تعطل ، اس کی اسلامی حیویت کا خاتمہ اور زوال شروع ہوگیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ساتھ ہی وہ دروازہ توڑ دیا گیا تھا
جو آنے والے حادثات اور واقعات کو روکے ہوئے تھا لیکن ٦٦١ میں خانوادہ نبوت کو اس طرح تہ تیغ کرنے کے بعد یہ اسلام مخالف طاقت پوری قوت دے متحرک ہوگئ اور اسے پوری طرح غلبہ حاصل ہوگیا ۔
جیساکہ عرض کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روئے ارض پر " حکم اللہ " کی اقامت فرمائیں تھی ۔ یہ اقامت ایک کلی اور کائناتی اقامت تھی ۔ یہ حکم اللہ بتمام و کمال وفات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قائم رہا ۔ یہی عہد ر حقیقت ہر اعتبار سے صلاح فی االارض کا کامل عہد ہے ۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کا دور آیا ۔
معاویہ رضی اللہ عین نے کا انحراف کوئی ایسا معمولی انحراف نہ تھا کہ امہ اس کو بالکل نظر انداز کرکے خوشدلی سے اسے قبول کرلیتی
بالخصوص یزید کا غیر عادل ہونا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ ملک اللہ پر قبضہ کرلینا تو " منع زکوة " کے مقابلے میں بہت خطرناک واقعہ تھا ۔ اس لیے کہ منع زکوة کی وجہ سے صرف اتنا ہوتا کہ دین کا ایک حصہ اس سے علیحدہ ہوجاتا جبکہ وہ " ملک اللہ " باقی رہتا جس کی اقامت روئے ارض پر مقصد بعثت نبی آخر الزمان تھی ۔ لیکن خود اس ملک اللہ پر ہی قبضہ کرلینا تو پورے مقصد بعثت کا ہی خاتمہ کردینا تھا ۔
" کسی غیر عادل حکمراں اور غیر عادل نظام کے خلاف خروج کو اس وقت تک ناجائز قرار دینا جب تک کہ اس کے خاتمے کا ممکن اور یقینی نہ ہوجائے در اصل اس ظلم کی چکی کو
جو اپنے مخالفین کے لیے ایسے غاصب و قابض اور ظالم حکمران کو جو مسلم عوام پر ظلم و جوڑ کو روا رکھے سند جواز عطا کرنا ہے ۔
اس طرح اسلامی حیویت اور مسلم معاشرے کی اس قوت کو توڑنا شروع کردیا گیا جو اصلاح نظام کے لیے ضروری تھی اور رفتہ رفتہ وہ قوت کمزور ہوتے ہوئے بالآخراصلاھ کرنے کی قوت ، عزم اور خواہش عاری ہوگئی ۔
آہستہ آہستہ پوری امہ اپنی مقصد وجود ہی سے نا بلد ہوتی چکی گئی ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
nadvilaeeque@gmail.com
Mai is mdrasa me padta hun
Masha Allah..
Kabhi hamare yaha Darul Uloom Deoband bhi aye,,,,
سانحہ کربلا
تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
و إذ قال ربك للملائكة إنى جاعل في الأرض خليفة ... ( البقرة : ٤٠ )
اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ مزید اللہ نے فرمایا ہے :
كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعرفة و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ...
( آل عمران : ١١٠ )
تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ( ہدایت ) کے لیے نکالا کیا گیا ۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔
یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم انہیں زمین پر اقتدار عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام امور کا انجام اللہ ہی
کے ہاتھ میں ہے ۔ ( الحج : ٤١ )
ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی ریاست کس مقصد کے لیے وجود میں آتی ہے ۔
ان کا مزاج کیا ہوتا ہے ، ان کے اعمال کیسے ہوتے ہیں ۔ قرآن کی یہ آیات واضح الفاظ میں
بتا رہی ہیں کہ اہل ایمان کے ہاتھوں قائم ہونے والی ریاست کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار خلفاء ہوئے ۔ انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق
اپنے فرائض انجام دیے ۔
خط انحراف : سب سے پہلے معاویہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی ان تعلیمات سے انحراف کیا :
" فكرة الخلافة على النظر و الاختيار ، ثم كان معاوية اول من حول الخلافة ملكا و رغم كل التقلبات ، و رغم طبيعة الحكم الفعلى الذى مارسه هئولاء الحكام ، فإن فكرة الخلافة
لم تمت بما تحمله من معنى الشورى ، و من معنى النظر والاختيار " .
إن ذلك لأن الملك ليس فى شريعتنا .
( المقرى : سلسلة اعلام العرب - سلسلة اعلام العرب -- ص ٣٦ )
واضع اس پر لکھتے ہیں : إن القلق الذى نشهده في تلك العبارة الساذجة البسيطة التي قالها الفقيه العربي عبد الله المقرى يوجهنا إلى أنه بقصد مباشرة إلى معنى اساسى هو ان الأمة العربية لم يشرع الله الملكية لنظام للحكم ،
و ان هذا ضد طبيعتها ، لذلك اختلت أحوال الأمة لأن الأمور سارت ضد طبيعتها " .
( ص : ٣٦ )
فقیہ عبد اللہ المقری کی منقولہ عبارت پر واضع کا یہ تبصرہ قابل غور ہے ۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے
و أمرهم شورى بينهم ( الشورى : ٣٨ )
و شاورهم في الأمر ( آل عمران : ١٥٩ )
اسلامی ریاست میں مسلمانوں کے معاملات کو شوری کے ذریعے طئے کرنے کا حکم دیا گیا ہے . اس میں شخصی رائے اور مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
استاذ سید قطب شہید رحمہ لکھتے ہیں :
" إن وضع الشورى اعمق في حياة المسلمين من مجرد ان تكون نظاما سياسيا ، فهو طابع اساسى للجماعة كلها ، يقوم عليه امرها كجماعة ثم يتسرب من الجماعة للدولة " .
( فى ظلال القرآن : ج ٧ ط ٦ ص ٢٩٢ )
ان كبار علماء نے قرآن کی ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ لکھا وہ بہت اہم اور حساس تشریح ہے ۔
میں نے یہ تمہیداس لیے قائم کی ہے کہ سانحہ کربلا پر اپنی بحث کو اسی اساسی نکتہ پر آگے بڑھاؤں ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@@gmail.com
Mashaallah aap hazrat madhyapardesh ke madaris me bhi tashrif laain
Mufti jameel sb naziri inka bhi madrasa hai newada mubarakpur dekh laen meharbani hogi
Hazrat aaplog madarsa arabia qasimul uloom nariyaon ambedkar nagar bhi tashreef laiye
Please........
اس مدرسہ کے ذمدار کا نمبر کی زرورت ہے
miftahululoom mau and mubark pur madarsa dekhaye
مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف :
ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين
مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا
سے ہوا ۔
علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا
1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔
علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت اور ید طولی حاصل تھا ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔
علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔
مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی
' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔
سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔
اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔
امہ مسلمہ کا مقصد وجود :
ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔
كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ...
( آل عمران : ١١٠)
تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔
امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔
الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order )
پیش کیا گیا ۔
اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔
ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے
تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی
علامہ اقبال رحمہ
اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہے ۔
لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی ، اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔
علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں .
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
nadvilaeeque@gmail.com
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
برادرم بیت العلوم پر تو میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں تھا ،میرا فوٹو کیوں اس موقع پر لگارہے ہیں ،یہ دیانت کے خلاف ہے ،دارالمصنفین تک ٹ تو ھیک تھا ،ہر جگہ مناسب نہیں ہے ،مجھے ذاتی تکلیف پہونچی ہے _
Mai yaha padhna chahta hu
Madrasatul islah video banao Sarai Mir
مشرقی یوپی کی عظیم دینی درسگاہ دارلعلوم الاسلامیہ بستی کابھی دورہ کریں
Kya iss madarse me girls padh sakti hai ?
Hazrat ji aap kaha se ho