uch sharif darbar history | uch sharif bazar 80 year old market | Uch shareef old big city pakistan
ฝัง
- เผยแพร่เมื่อ 11 ก.พ. 2025
- uch sharif darbar history | uch sharif bazar 80 year old market
Uch shareef old big city in pakistan
اُچ شریف۔
جنوبی پنجاب میں پانچ دریاؤں کے سنگم پر واقع ایک شہر ایسا ہے جو کسی زمانے میں ایک بڑی سلطنت کا عظیم الشان دارالحکومت تھا،
کہا جاتا ہے کہ اوچ شہر دریائے ہاکڑا کے کنارے تعمیر اور آباد ہوا۔ اس دریا کی باقیات اب بھی نظر آتی ہیں۔ صحرائے چولستان میں تعمیر شدہ پرانے قلعے اور ان کی یادیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کبھی یہاں دریا بہتا تھا اور خطے میں بہت زرخیزی اور خوش حالی تھی۔
اور جہاں سے پھوٹنے والے علم و عرفان کے سوتوں نے سارے برصغیر کو سیراب کیا، اوچ کے حالیہ نام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب اس علاقے پر راجہ دیو سنگھ کی حکومت تھی تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش نے یہ شہر اس سے حاصل کر لیا اور راجہ دیو سنگھ وہاں سے بھاگ نکلا۔ راجہ دیو سنگھ کی خوبرو لڑکی اوچاں رانی نے اسلام قبول کر لیا تو حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری نے اس علاقے کا نام اس خاتون سے منسوب کرتے ہوئے اوچ رکھ دیا۔
اوچ شریف کو ہمیشہ صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ حضرت صفی الدین گاذرونی، حضرت سید جلال الدین سرخپوش بخاری، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت، حضرت صدر الدین راجن قتال، حضرت فضل الدین لاڈلہ، حضرت جمال الدین خنداں رو، حضرت کبیر الدین حسن دریا، حضرت غوث بندگی اور حضرت بہاء الحلیم جیسی عظیم ہستیاں خطہ پاک اوچ میں ہی آسودۂ خاک ہیں۔
بہاول پور سے جنوب مغرب کی طرف 73 کلومیٹر کے فاصلے پر قائم یہ شہر کسی زمانے میں سات بڑی آبادیوں میں تقسیم تھا۔ 36 میل لمبائی اور 24 میل چوڑائی پر محیط حدود اربعہ کی وسعتوں کے حامل اس شہر کی زوال پذیری کا آغاز اس وقت ہوا جب 400 عیسوی میں وسطی ایشیا سے آنے والی ہن قوم اس پر حملہ آور ہوئی اور اس کو تباہ وبرباد کر ڈالا۔ امتدادِ زمانہ کے بے رحم ہاتھوں یہ شہر کئی بار اجڑا اور کئی بار آباد ہوا۔ اپنی قدامت اور تہذیبی خصوصیات کے سبب اس کے ڈانڈے ہڑپہ اور موہن جو ڈرو سے جا ملتے ہیں۔
صدیوں پرانی تہذیب کے حامل اس شہر نے بہت سے عروج و زوال دیکھے۔ زمانے نے اس کو مختلف ادوار میں مختلف نام دیے۔ کبھی اسے سپیڈا کے نام سے پکارا گیا تو کبھی اسے اساش کہا گیا، کبھی اس کا نام اوسا رہا تو کبھی دیو گڑھ، کبھی یہ سکلاندا کے نام سے مشہور ہوا تو کبھی اسے سکندریہ کہا گیا اور پھر یہ ہود بھی بنا اور چچ بھی۔
ناموں کا طویل سفر طے کرنے کے بعد بالآخر یہ شہر اوچ شریف بن گیا، اوچ کے ساتھ شریف کا لاحقہ اس کے تقدس اور احترام کی وجہ سے لگایا جاتا ہے۔ 550 قبل از مسیح میں آباد ہونے والا اوچ شہر اپنی قدامت، امارت اور روحانیت کے باعث ہمیشہ سے ہی فاتحین اور علم و فضل کی بڑی شخصیات کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اپنی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت کے پیش نظر ہر دور میں علم وادب کے گیانی، سادھو اور بعدازاسلام اولیائے کرام نے اس شہر کا رخ کیا جن کے اب یہاں محض تذکرے اور مقبرے ہی باقی رہ گئے ہیں
برصغیر میں احیائے اسلام سے پہلے سندھ ہندو سلطنت کا حصہ تھا اور اوچ اس کے اہم شہروں میں سے ایک۔ اس عرصے کے دوران علاقے میں بہت سے قلعے اور فصیلیں تعمیر ہوئیں۔ سلطان محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کی آمد سے ہندو سلطنت تباہی سے ہمکنار ہوئی اور پھر اس کے بعد اوچ کو صحیح معنوں میں عروج اور ترقی حاصل ہوئی۔
اوچ موغلہ: ضلع بہاول پور کا الف لیلوی قصبہ
اوچ شریف میں علوم اسلامی کی ابتدا 370 ہجری میں سید صفی الدین گاذرونی کی آمد سے ہوئی۔ وہ پہلے صوفی بزرگ تھے جو برصغیر میں وارد ہوئے اور اوچ میں رہائش اختیار فرما کر محض 17 سال کی عمر میں انہوں نے برصغیر کی پہلی اسلامی یونیورسٹی ’جامعہ فیروزیہ‘ کی بنیاد رکھی، جس نے برصغیر میں اس وقت اسلامی تعلیم کے فروغ و ترویج کا فرض انجام دیا جب ہندوستان کی فضا مسلمانوں کے لیے پوری طرح سازگار بھی نہیں ہوئی تھی۔
سلطان ناصر الدین قباچہ کے عہد (607 ہجری تا 625 ہجری) میں اس جامعہ کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ مشہور ایرانی مورخ،
Please Subscribe Our Channel For More Entertainment And Information
#uchsharif
#uchsharifdarbar