#56 | Ba Naam e Watan (بہ نامِ وطن) | MUSTAFA ZAIDI | Jadeed Nazmain | Shehr-e-Azar | Nazam #1

แชร์
ฝัง
  • เผยแพร่เมื่อ 23 ก.ย. 2024
  • Gunjeena is presenting a beautiful poem of SYED MUSTAFA HUSSAIN ZAIDI was also known as TEGH ALLAHABADI, He was a C.S.P officer in Pakistan, assassinated in mysterious circumstances.
    Nazam #56
    Mustafa #1
    Book #75
    Title: Ba Naam e Watan (بہ نامِ وطن)
    0:00
    کون ہے آج طلبگارِ نیاز و تکریم
    وہی ہر عہد کا جبروت ، وہی کل کے لئیم
    وہی عیار گھرانے ، وہی فرزانہ حکیم
    وہی تم ، لائقِ صد تذکرۂ و صد تقویم
    تم وہی دُشمنِ احیائے صدا ہو کہ نہیں
    پسِ زنداں یہ تمھیں جلوہ نما ہو کہ نہیں
    0:47
    تم نے ہر عہد میں ہر نسل سے غدّاری کی
    تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی
    اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی خودداری کی
    خوف کو رکھ لیا خدمت پہ کمانداری کی
    آج تم مجھ سے مری جنس گراں مانگتے ہو
    حلَفِ ذہن و وفاداریٔ جاں مانگتے ہو
    1:20
    جاؤ یہ چیز کسی مدح سرا سے مانگو
    طائفے والوں سے ڈھولک کی صدا سے مانگو
    اپنے دربانوں سے بدتر فُقرا سے مانگو
    اپنے دربار کے گونگے شعرا سے مانگو
    مجھ سے پوچھوگے تو خنجر سے عدُو بولے گا
    گردنیں کاٹ بھی دوگے تو لہوُ بولے گا
    1:50
    تم نے ہر دور میں دانش پہ کئی وار کیے
    جبر کے منہ میں دہکتے ہوئے الفاظ دیئے
    اپنی آسائشِ یک عمرِ گریزاں کے لیے
    سب کو تاراج کیا تم نے مگر تم نہ جیے
    علم نے خونِ رگِ جان دیا اور نہ مرا
    علم نے زہر کا پیمانہ پیا اور نہ مرا
    2:20
    علم سقراطؔ کی آواز ہے عیسٰے ؔ کا لہو
    علم گہوارہ و سیارہ و انجام و نمو
    علم عباسؔ علمدار کے زخمی بازو
    علم بیٹے کی نئی قبر پہ ماں کے آنسو
    وادیٔ ابر میں قطروں کو ترس جائے گا
    جو اِن اشکوں پہ ہنسے گا وہ جھلس جائے گا
    2:51
    تم ہی بتلاؤ کہ میں کس کا وفادار بنوں
    عصمتِ حرف کا یا دار کا غمخوار بنوں
    مشعلوں کا کہ اندھیروں کا طلبگار بنوں
    کس کے خرمن کے لیے شعلۂ اَسرار بنوں
    کون سے دل سے تمہیں ساعتِ فردا دے دُوں
    قاتلوں کو نفسِ حضرتِ عیسٰے دے دُوں
    3:22
    صبح کاشیؔ کا ترنُّم مری آواز میں ہے
    سندھؔ کی شام کا آہنگ مرے ساز میں ہے
    کوہساروں کی صَلابت مرے ایجاز میں ہے
    بالِ جبریل کی آہٹ مری پرواز میں ہے
    یہ جبیں کون سی چوکھٹ پہ جھکے گی بولو
    کس قفس سے مری پرواز رُکے گی بولو
    3:54
    کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
    کس کے فرمان کی پابند ہے رفتارِ فلک
    کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
    کس کی دیوار سے سِمٹی ہے چنبیلی کی مہک
    دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا رُکتا ہے
    کون سے بند سے سیلابِ وفا رُکتا ہے
    4:25
    بہ وفاداریٔ رہ وار و بہ تکریمِ علَم
    بہ گہر باریٔ الفاظِ صنادیدِ عجم
    بہ صدائے جرسِ قافلۂ اہلِ قلم
    مجھ کو ہر قطرۂ خونِ شہداء تیری قسم
    منزلیں آکے پکاریں گی سفر سے پہلے
    جھک پڑے گا درِ زنداں مرے سر سے پہلے
    4:58
    آج تم رامؔ کے مونس نہ ہنُومانؔ کے دوست
    تم نہ کافر کے ثنا خواں نہ مسلمان کے دوست
    تم نہ اِلحاد کے حامی ہو نہ ایمان کے دوست
    تم نہ اشلوک کے ساتھی ہو نہ قرآن کے دوست
    تم تو سکّوں کی لپکتی ہوئی جھنکاروں میں
    اپنی ماؤں کو اُٹھا لاتے ہو بازاروں میں
    5:28
    ذہن پر خوف کی بنیاد اُٹھانے والو
    ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اُگانے والو
    گیت کے شہر کو بندوق سے ڈھانے والو
    فکر کی راہ میں بارود بچھانے والو
    کب تک اِس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی
    کونپلیں آج نہ پھوٹیں گی تو کل پھوٹیں گی
    6:00
    کس پہ لبیک کہوگے کہ نہ ہوگی باہم
    جوہَری بم کی صدا اور صدائے گوتم
    رِزق برتر ہے کہ یہ شعلہ بداماں ایٹم
    گھر کے چھولے سے اُترتی ہوئی روٹی کی قسم
    زخم اچھا ہے کہ ننھی سی کلی اچھی ہے
    خوف اچھا ہے کہ بچوں کی ہنسی اچھی ہے
    6:32
    ہوگئے راکھ جو کھلیان اُنھیں دیکھا ہے
    ایک اک خوشۂ گندم تمھیں کیا کہتا ہے
    ایک اک گھاس کی پتی کا فسانہ کیا ہے
    آگ اچھی ہے کہ دستورِ نمو اچھا ہے
    محفلوں میں جو یونہی جام لہو کے چھلکے
    تم کو کیا کہ کے پکاریں گے مورّخ کل کے؟
    7:05
    بُوٹ کی نوک سے قبروں کو گرانے والو
    تمغۂ مکْر سے سینوں کو سجانے والو
    کشتیاں دیکھ کے طوفان اُٹھانے والو
    برچھیوں والو ، کماں والو ، نشانے والو
    دل کی درگاہ میں پندار مٹا کر آؤ
    اپنی آواز کی پلکوں کو جھکا کر آؤ
    7:36
    کیا قیامت ہے کہ ذرّوں کی زباں جلتی ہے
    مصر میں جلوۂ یُوسف کی دُکاں جلتی ہے
    عِصمتِ دامنِ مریم کی فغاں جلتی ہے
    بھیم کا گُرز اور اَرجُن کی کماں جلتی ہے
    چوڑیاں روتی ہیں پیاروں کی جدائی کی طرح
    زندگی ننگی ہے بیوہ کی کلائی کی طرح
    8:10
    صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
    پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
    کور دِل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
    آکسیجن کے تلے عمرِ خضر مانگتے ہیں
    اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
    اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں
    8:42
    تو ہی بول اے درِ زنداں ، شبِ غم تو ہی بتا
    کیا یہی ہے مرے بے نام شہیدوں کا پتا
    کیا یہی ہے مرے معیارِ جنوں کا رستا
    دِل دَہلتے ہیں جو گِرتا ہے سڑک پر پتا
    اِک نہ اِک شورشِ زنجیر ہے جھنکار کے ساتھ
    اِک نہ اِک خوف لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
    9:12
    اتنی ویراں تو کبھی صبح بیاباں بھی نہ تھی
    اتنی پرخار کوئی راہِ مغیلاں بھی نہ تھی
    کوئی ساعت کبھی اِس درجہ گریزاں بھی نہ تھی
    اتنی پرہول کوئی شامِ غریباں بھی نہ تھی
    اے وطن کیسے یہ دھبے در و دیوار پہ ہیں
    کس شقی کے یہ طمانچے ترے رُخسار پہ ہیں
    9:42
    اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرا کیوں ہے
    غُرفہ و بامِ شبستاں میں اندھیرا کیوں ہے
    درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
    ایک اِک سانس پہ تنقید کا پہرا کیوں ہے
    کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھالی تجھ سے
    چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے
    10:17
    رودِ راویؔ ترے ممنونِ کرم کیسے ہیں
    صنعتیں کیسی ہیں تہذیب کے خم کیسے ہیں
    اے ہڑپہّؔ ترے مجبور قدم کیسے ہیں
    بول اے ٹیکسلاؔ تیرے صنم کیسے ہیں
    ذہن میں کون سے معیار ہیں برنائی کے
    مانچسٹرؔ کے لبادے ہیں کہ ہرنائیؔ کے
    10:52
    عسکریت ہے بڑی شے کہ محبت کے اُصول
    بولہب کا یہ گھرانہ ہے کہ درگاہِ رسولؐ
    طبل و لشکر مُتبّرک ہیں کہ تطہیرِ بتولؓ
    مسجدیں علم کا گھر ہیں کہ مشن کے اسکول
    آج جو بیتی ہے کیا کل بھی یہی بیتے گی
    بینڈ جیتے گا کہ شاعر کی غزل جیتے گی
    #tegh #TeghAllahabadi

ความคิดเห็น •